Tag: ادیب برسی

  • جان اپڈائیک:‌ متحرک زندگی کا ساتھ دینے والا ناول نگار

    جان اپڈائیک:‌ متحرک زندگی کا ساتھ دینے والا ناول نگار

    امریکہ کے صفِ اوّل کے ناول نگار جان اپڈائیک کو بطور ادیب، شاعر اور ادبی ناقد عالمی سطح پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی زندگی پر بھی ناول لکھا تھا جس کا مسلمان باپ اپنی امریکی شہریت رکھنے والی بیوی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جان اپڈائیک نے نیوجرسی کے پس منظر میں مذہبی انتہا پسندی کو بھی اپنے ایک ناول کا موضوع بنایا تھا۔

    ہم جان اپڈائیک کا تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے یہاں کر رہے ہیں۔ اپڈائیک کے بچپن سے آغاز کرتے ہیں جس کے بارے میں انھوں نے اپنے تحریر کردہ مضامین میں لکھا اور بعض انٹرویوز میں‌ بتایا۔ ان کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ ان کے گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر ایک ٹائپ رائٹر دھرا تھا اور اپڈائیک کے مطابق یہ مشین انھیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ شروع ہی سے قلم اور کورے کاغذ کو پسند کرتے تھے اور ساتھ میں ڈاک کے ان خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے بے چین ہوجاتا تھا، جو ان کے گھر کے پتے پر موصول ہوتے۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں بھی ان کے گھر میں موجود تھیں۔ یہی نہیں‌ بلکہ وہ والدہ کی زبانی اکثر علمی و ادبی موضوع پر گفتگو اور مباحث بھی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اسی ماحول کے زیرِ اثر جان اپڈائیک نے کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بچّوں کا ادب پڑھنے کے قابل ہوگئے تو دل چسپ کہانیاں‌ اور مہم جوئی پر مبنی قصّے ان کے مطالعے میں آئے۔ ان کے تخیل نے اڑان بھری اور الفاظ سے نفسِ مضمون پیدا کرنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کیا۔ اس کے بعد نوعمر اپڈائیک نے ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ والدین نے ان کی تخلیقی کاوشیں دیکھیں تو خوشی کا اظہار کیا اور بیٹے کی حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے باقاعدہ اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور پھر وہ امریکہ اور دنیا میں‌ اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے گئے۔

    جان اپڈائیک اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کا بچپن عام بچّوں سے کچھ مختلف تھا۔ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، لیکن والدین کی بھرپور توجہ اور پیار و محبّت نے ان کو کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک نے بڑے اعتماد سے اپنا قلمی سفر شروع کیا۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں۔

    ’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

    18 مارچ 1932ء کو امریکہ میں آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے اوّلین تخلیقات کے بعد جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔

    عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

    دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انھوں نے اسکیچ اور کارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

    انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

    جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کر چکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ کہا گیا کہ ان کی اس تصنیف کا طرزِ تحریر ایسا تھا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

    جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔

    اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔

    اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    جان اپڈائیک اپنے آخری ناول کی اشاعت کے ایک برس بعد 27 جنوری 2009ء کو انتقال کرگئے۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔

    (اردو ترجمہ: عارف عزیز)

  • منو بھائی: بے مثال کہانیاں اور لازوال کردار تخلیق کرنے والا قلم کار

    منو بھائی: بے مثال کہانیاں اور لازوال کردار تخلیق کرنے والا قلم کار

    ٹیلی ویژن ڈرامہ ’’سونا چاندی‘‘ دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والوں کی ایک نسل ہی نہیں‌ ان کے بعد آنے والے بھی منّو بھائی کے مداح ہوگئے اور آج بھی اس ڈرامے کو ہر طبقہ و عمر کا فرد دیکھنا پسند کرے گا۔ اس ڈرامے کے خالق منّو بھائی بھی اپنے مقبولِ عام کرداروں یعنی سونا اور چاندی کی طرح‌ ہمارے دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔

    معروف ادیب، کالم نگار اور کئی مقبول کھیلوں کے مصنّف منّو بھائی 19 جنوری 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں‌ نے پی ٹی وی کے سنہری دور میں ارد گرد پھیلی ہوئی کہانیوں کو اپنے ڈراموں‌ کا موضوع بنایا اور ان کے کردار بھی گلی محلّے میں چلتے پھرتے لوگ اور ان کے معمولات تھے۔ سونا چاندی بھی ایک سادہ لوح دیہاتی جوڑے کی کہانی ہے جو شہر آ کر مختلف گھروں میں نوکری کرتا ہے اور ان کی توسط سے شہری زندگی اور معاشرے کے بہت سے تضاد اور نشیب و فراز سامنے آتے ہیں۔

    منّو بھائی کو ایک گوہرِ نایاب کہنا چاہیے کہ جن کا قلم بامقصد، تعمیری اور مفید تحریروں کے لیے متحرک رہا۔ انھیں ڈرامہ نگار اور کالم نویس کے طور پر شہرت ملی۔ انھوں نے اپنے کالموں میں سماجی برائیوں اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی اور ساتھ ہی اپنے ڈراموں کے ذریعے ہماری گرفت کرتے ہوئے اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ منّو بھائی نے پنجابی کھیل ’’کی جاناں میں کون‘‘ بھی تحریر کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    منّو بھائی نے صحافت بھی کی اور کافی عرصہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ انھوں‌ نے سلسلہ وار اور طویل دورانیے کے کھیل بھی لکھے۔ ان کا تحریر کردہ سلسلے وار کھیل ’’آشیانہ‘‘ خاندانی اقدار سے جڑے مسائل پر مبنی تھا جب کہ مشہور ڈرامہ ’’دشت‘‘ بلوچستان کی ثقافت اور روایات کی عکاسی تھی۔ منّو بھائی نے مشہور ڈرامہ ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی، جسے دیہاتی زندگی اور کردار نگاری میں شان دار کہانی قرار دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ سیریل سونا چاندی کے علاوہ ان کے طویل دورانیے کے کھیل ’’خوب صورت‘‘ اور ’’گم شدہ‘‘ آج بھی ذہنوں میں‌ محفوظ ہیں۔

    6 فروری 1933ء کو پنجاب کے شہر وزیر آباد میں آنکھ کھولنے والے منّو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ والد عظیم قریشی پاکستان ریلوے میں ملازم تھے جب کہ پنجابی زبان کے مشہور شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی نے 1947ء میں میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج کیمبل پور(اٹک) چلے گئے جہاں اساتذہ کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے انھیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع دیا اور وہ پنجابی زبان میں‌ شاعری کرنے لگے۔ بعدازاں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور رپورٹنگ کے ساتھ کالم نویسی شروع کردی۔ وہ ’’گریبان‘‘ کے نام سے مؤقر اخبارات میں‌ لکھتے رہے۔ وہ اپنی فکاہیہ تحریروں میں معاشرے کی برائیوں اور انفرادی رویّوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر اظہارِ‌ خیال کرتے تھے جنھیں قارئین میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ کالم نویسی کے ساتھ انھوں نے پنجابی میں شاعری بھی جاری رکھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں ’’اجے قیامت نئیں آئی ( پنجابی شاعری کا مجموعہ)، جنگل اداس ہے ( منتخب کالموں کا مجموعہ)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں اور انسانی منظر نامہ (تراجم) شامل ہیں۔

    2007ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

  • انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    جنوبی ایشیا میں شامل ممالک کے مقامی ادیبوں نے انگریزی زبان میں جتنا بھی ادب تخلیق کیا، اسے عالمی ادب کے پس منظر میں انگریزی کا جنوب ایشیائی ادب کہا جاتا ہے، یعنی ایک طرح سے یہ ادب کی ایک شاخ ہے۔ پاکستان میں انگریزی زبان میں ادب تخلیق کرنے والے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی فہرست زیادہ طویل تو نہیں ہے، لیکن جب بھی اس پہلو پر بات کی جاتی ہے تو اس میں سب سے نمایاں اور ابتدائی نام’’بپسی سدھوا‘‘ کا ہے۔ انہوں نے 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں ناول نگاری کی ابتدا کی اور طویل عرصے تک پاکستانی اور عالمی ادبی منظر نامے پر چھائی رہیں۔ نئے آنے والوں نے ان کی تقلید کرتے ہوئے انگریزی فکشن لکھا اور شہرت پائی۔ ان میں محمد حنیف، محسن حامد، کاملہ شمسی اور دیگر انگریزی ناول نگار شامل ہیں۔ اردو زبان میں بھی صرف بپسی سدھوا ہی وہ ادیب ہیں، جنہیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا اور اسے قارئین بہت پسند کیا۔

    ایک خوش گوار دن، خوب صورت یاد

    بپسی سدھوا 2010ء میں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بطور مندوب شریک تھیں۔ اسی فیسٹیول میں راقم نے ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے بارے میں پہلی مرتبہ اردو میں تفصیل سے بات کی تھی۔ کراچی میں‌ بپشی سدھوا سے راقم کی ملاقات ان آخری لمحات میں‌ ہوئی جب وہ ایئرپورٹ روانہ ہونے کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ ناول نگار مختصر مدت کے لیے امریکا سے ادبی میلے میں شرکت کے لیے آئی تھیں اور اس روز صبح اپنے سیشن سے فراغت پانے کے بعد لان میں ایک نشست پر بیٹھ کر اپنی ایئرپورٹ روانگی کے لیے اپنی گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔english writer

    راقم نے ان کے چند ناول پڑھے تھے اور ان کے ناولوں پر بننے والی دونوں انڈین فلمیں بھی دیکھ چکا تھا جن کا تذکرہ آگے آئے گا۔ صبح صبح بپسی سدھوا سے ملاقات کے لیے ادبی میلے پہنچا تاکہ ان سے مکالمہ کر سکوں۔ دیکھا کہ وہ لان میں بیٹھی ہوئی ہیں‌ اور یہ بہترین موقع تھا ان سے گفتگو کرنے کا۔ اپنا تعارف کرواتے ہوئے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے مجھ سے چند سوال کیے اور یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ میں انہیں پڑھ چکا ہوں، گفتگو کی اجازت دے دی لیکن اسے گاڑی آ جانے سے مشروط بھی کردیا۔

    اردو زبان میں ان کا یہ پہلا انٹرویو تھا جو میرے انٹرویوز میں سے ایک یادگار انٹرویو ہے۔ بپسی سدھوا سے یہ مکالمہ میری کتاب "باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے” میں شامل ہے۔ ان انٹرویوز کا جب انگریزی انتخاب ’’دی کنورسیشن ود لیجنڈز‘‘ شائع ہوا تو اس میں بھی بپسی سدھوا کا نہ صرف انٹرویوز شامل تھا بلکہ وہ سرورق پر منتخب شخصیات میں سے بھی ایک تھیں۔

    اس کتاب کی مدیر و مترجم افرح جمال ہیں جو انگریزی کی باکمال صحافی ہیں۔ عالمی ادبیات کے تناظر میں ناول پر اپنی تحقیقی کتاب ’’ناول کا نیا جنم‘‘ میں بھی راقم نے ان کے حوالہ جات شامل کیے ہیں اور کتاب کی پشت پر منتخب ناول نگاروں میں شامل رکھا ہے۔ بعد میں بپسی سدھوا سے فیس بک کے طفیل رابطہ برقرار رہا اور اور ان کی رحلت سے دل اداسی سے بھر گیا ہے۔

    خاندانی پس منظر

    بپسی سدھوا 11 اگست 1938 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں اور 25 دسمبر 2024ء کو 86 سال کی عمر میں امریکا میں انتقال کرگئیں۔ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مقیم تھیں۔ بپسی سدھوا کا تعلق گجراتی پارسی گھرانے سے تھا۔ وہ بعد میں اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئی تھیں اور زندگی کا طویل عرصہ وہیں گزارا۔ بپسی سدھوا نے 1957 کو لاہور کے مشہور کنیئرڈ کالج سے گریجویشن کیا۔ 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ان کی عمر 9 سال تھی۔ ان کی پہلی شادی ناکام رہی، البتہ دوسری شادی کے بعد خوش گوار ازدواجی زندگی کا سفر شروع کیا۔ تین بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریاں‌ نبھاتے ہوئے انہوں نے ناول نگاری کی ابتدا کی۔

    عالمی شہرت اور مقبولیت کے مراحل

    ناول نگار بپسی سدھوا نے انگریزی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی، لیکن عام زندگی میں وہ اپنی مادری زبان گجراتی اور قومی زبان اردو بولنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ 1982ء سے وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکا کے شہر ہیوسٹن میں رہائش پذیر تھیں۔ وہاں لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں اور متعدد امریکی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، جن میں ہیوسٹن یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر شامل ہیں۔ متعدد امریکی جامعات نے ان کے پہلے ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ کو نصاب کا حصّہ بنایا۔ بپسی سدھوا بطور ادیب جامعہ کراچی کے شعبۂ انگریزی کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔

    تخلیقی دنیا اور کہانیوں کے کردار

    ان کی تخلیقی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والی بپسی سدھوا کا پہلا ناول ’’کروایٹرز‘‘ تھا۔ اس کے بعد’’برائڈ‘‘ شائع ہوا۔ پھر ’’آئس کینڈی مین‘‘ چھپا، جس کا مرکزی خیال ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان تھا۔ تقسیم کے دنوں کی جو بھی پرچھائیاں ان کے ذہن کے پردے پر تھیں، بپسی سدھوا نے انہیں رقم کردیا، اور ذاتی تجربات سے اپنے ناول کے کرداروں میں رنگ بھرے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں مصنّف کی سوانح بھی جھلکتی ہے، جس کے ذریعے اس وقت کے لاہور کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس خطے کے رہنے والوں کی ذاتی زندگی پر تقسیم سے کیا اثرات مرتب ہوئے، کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان باریکیوں کو یہ ناول بیان کرتا ہے۔

    اپنے طویل ادبی کیرئیر میں بپسی سدھوا ناول، مختصر کہانیاں، مضامین اور بلاگز لکھتی رہیں۔ لاہور کو یاد کرتے ہوئے بھی انہوں نے کچھ تحریریں لکھیں، جن کا مجموعہ 2006ء میں شائع ہوا۔ 2013 میں ان کی انگریزی کہانیوں کا نیا انتخاب ’’دیئر لینگونج آف لو‘‘ لاہور سے شائع ہوا اور 2012ء میں ان کے مشہور ناول ’’کروایٹرز‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جنگل والا صاحب‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے مترجم محمد عمر میمن ہیں۔ بپسی سدھوا کی کتابیں پاکستان کے علاوہ انڈیا، امریکا، انگلینڈ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔

    تھیٹر اور فلم کی دنیا میں شہرت

    ان کی مختلف کہانیوں کو امریکا اور یورپی ممالک میں تھیٹر پر پیش کیا گیا جب کہ دو ناولوں ’’آئس کینڈی مین‘‘ اور’’واٹر‘‘ پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان کے ناول’’آئس مین کینڈی‘‘ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا جس کا ایک ایڈیشن امریکا اور انڈیا میں ’’کریکنگ انڈیا‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ اسی پر بھارتی نژاد کینیڈین فلم ساز دیپا مہتا نے فلم ’’ارتھ‘‘ بنائی، جب کہ ان کے ناول ’’واٹر‘‘ پر بھی وہ مساوی نام سے فلم بنا چکی ہیں۔ اس ناول اور فلم کی حیثیت اسی طرح متنازع ہے، جیسے اردو میں عصمت چغتائی کی کہانی ’’لحاف‘‘ اور پھر اس کہانی پر بننے والی فلمیں ہیں۔

    بپسی سدھوا کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی گئی، جس کو انہوں نے خود ہی لکھا تھا۔ اس دستاویزی فلم میں انگریزی زبان کی اس ادیب نے اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو بھی کی۔ ہم اسے بپسی سدھوا کی ویڈیو بائیوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ برطانیہ اور پاکستان میں 1988ء میں، جب کہ 1991ء میں امریکا اور 1992ء میں انڈیا میں شائع ہوا۔ اس ناول کا مرکزی خیال ایک کم عمر پارسی بچی ہے، جو اپنا ماضی یاد کر رہی ہے اور وہ دور بھی، جب ہندوستان کا بٹوارا ہو رہا تھا۔ وہ لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھی۔ تاریخ کے اس دوراہے پر، اس کے ہاتھ سے کیا چھوٹا، اس نے کیا کھویا اور پایا….یہ کہانی ان حالات اور رشتوں ناتوں کے پس منظر میں ہے، اور اس پر مصنّف کی اپنی سوانح کی چھاپ بھی موجود ہے۔

    اس ناول پر بنائی گئی فلم’’ارتھ‘‘ میں معروف فن کاروں عامر خان، نندیتا داس اور راہول کھنہ نے اداکاری کی جب کہ شبانہ اعظمی بطور صدا کار اس فلم کا حصّہ ہیں۔ فلم کی موسیقی معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے دی۔ ہندوستان میں تقسیم کے موضوع پر یہ اہم فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، لیکن جس طرح ناول کا تصوراتی دائرہ وسیع ہے، فلم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بپسی سدھوا کی دیگر کتابوں کو بھی بہت شہرت ملی اور ان کے کئی بار نئے ایڈیشنز بھی شائع ہوئے۔ ان میں دی پاکستانی برائڈ، این امریکی بارات وغیرہ شامل ہیں۔

    حرفِ آخر

    بپسی سدھوا کے تخلیقی کام کا اردو میں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوا۔ مترجمین کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستانی فلم سازوں کو بھی چاہیے کہ ان کی کہانیوں پر فلم بنائیں اور اس طرح پاکستان میں انگریزی ادب لکھنے والی پہلی ناول نگار کی پذیرائی کی جاسکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بپسی سدھوا کو تمغائے امتیاز تو دیا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ بپسی سدھوا اپنی ذات میں ایک ادارہ تھیں، جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

  • الیگزینڈر ڈوما: ناقابلِ فراموش واقعات اور پُرتجسس کہانیوں کا خالق

    الیگزینڈر ڈوما: ناقابلِ فراموش واقعات اور پُرتجسس کہانیوں کا خالق

    آپ نے کبھی ادیب کے لیے یہ سنا ہے کہ وہ "کہانیوں کا کارخانہ” ہے۔ یہ الفاظ ایک بہت بڑے فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوما کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ ڈوما نے اپنے قلمی سفر کا آغاز ڈرامے لکھنے سے کیا اور پھر وہ کہانیاں تخلیق کرنے لگا جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا اور اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ اپنی پذیرائی اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے الیگزینڈر ڈوما نے خود کہانیاں لکھنے کے ساتھ چند اہلِ قلم سے بھی معاوضہ طے کرکے کہانیاں لکھوانا شروع کردی تھیں۔ وہ ان پر ایک نظر ڈالتا اور کہانیوں کو اپنا انداز عطا کردیتا۔ اسی لیے اسے کہانیوں کی پیدوار کا کارخانہ کہا گیا۔

    آج فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوما کا یومِ وفات ہے۔ اس مشہور ناول نگار کے بارے میں مسعود برکاتی لکھتے ہیں کہ ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور فرانسیسی ناول لکھنے والے کو نصیب نہیں ہوئی۔ ڈوما نے پانچ سو کے قریب ناول لکھے۔ اس کی کئی کتابیں فرانس سے باہر بھی مشہور ہیں۔ کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے اور آج بھی ان کو پوری دنیا میں دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ڈوما نے تاریخ کو کہانی کے ساتھ ملایا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈوما کی چند کتابیں ”تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہیں۔ ڈوما نے اپنی کہانیوں سے خوب کمایا، مگر جب وہ 1870ء میں مرا تو اس کے پاس کچھ نہ تھا۔

    الیگزینڈر ڈوما کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” بہت مقبول ہوا اور اردو میں اس کے تراجم کو قارئین کی بڑی تعداد نے پڑھا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز ہیں کہ یقین نہیں آتا، لیکن پڑھنے والا ہر وقت آگے کیا ہوا کو جاننے کے شوق میں پڑھتا چلا جاتا ہے۔ الیگزینڈر ڈوما کو فرانس میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ادیب کہا جاتا ہے جس نے بعد میں دنیا بھر میں شہرت پائی۔ وہ 5 دسمبر 1870ء کو چل بسا تھا۔ الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک قصبہ میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لکھنے لکھانے کی طرف مائل ہوا اسے شہرت نصیب ہوئی۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا تجسس بڑھاتے ہیں اور ان کی دل چسپی کہانی کے انجام بڑھتی جاتی ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں‌ تو اس کا باپ وہ پہلا افریقی فرانسیسی جنرل تھا جس نے فرانس کی طرف سے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور فوجی مہمات میں کارنامے سرانجام دیے۔ اس کی ماں افریقی تھی۔ بعد میں فرانس میں سیاسی صورت حال بدلی اور نپولین کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی تو وہاں‌ غلامی کا بھی دوبار رواج پڑا اور تعصب و نسلی منافرت کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ نپولین ذاتی طور پر افریقوں کے سخت خلاف تھا اور چوں کہ ڈوما کا باپ ایک افریقی عورت کے بطن سے پیدا ہوا تھا، اس لیے اسے بھی تعصب کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ مصنّف نے اپنے باپ کی ان تمام تکالیف کو اپنے ناول میں بیان کیا ہے۔ الیگزنڈر ڈیوما نے اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مشکلات پر مضامین بھی لکھے۔ خود الیگزینڈر ڈوما کی زندگی پر مبنی ایک فلم متنازع قرار پائی۔ انیسویں صدی کے اس افریقی فرانسیسی مصنّف کے روپ میں اس فلم میں ایک گورے کو دکھایا گیا جس پر نسل پرستی کی بحث چھڑ گئی۔ یہ 2010ء کی بات ہے اور اس فلم کا نام ” لا ائیٹو ڈیوما” تھا۔ ڈوما کا کردار ایک معروف فرینچ اداکار جراد ڈیپارڈیو کو دیا گیا اور اس کے لیے اداکار کو اپنا جسم کالا کرنا پڑا جس پر کہا گیا کہ فرینچ فلم انڈسٹری نے انیسویں صدی کے ایک عظیم ناول نگار کو دانستہ طور نیچا دکھانے کے لیے ان پر مبنی فلم میں ایک سفید فام کا انتخاب کیا۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کوئی فرینچ اور افریقی مشترکہ کردار کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔

    الیگزینڈر ڈوما فرانس کے مشہور شہر پیرس میں‌ آسودۂ خاک ہے۔ اس ادیب کی کہانیوں پر درجنوں فلمیں‌ بنائی‌ جا چکی ہیں‌۔

  • راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنی ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جنھیں ہم آئینہ خانہ کہیں‌ تو غلط نہیں کہ جس میں انسان کا اصل روپ ظاہر ہوتا ہے۔ فرد اور پیچیدہ رشتوں کے ساتھ وہ شخصیت کو اس خوبی سے پیش کرتے ہیں جسے احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے لایا جاسکتا ہے۔بیدی کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

    بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کیے، جب کہ 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

    افسانہ نگار بیدی عاشق مزاج بھی تھے اور اسی سبب ان کی ازدواجی زندگی بھی متاثر رہی۔ رومانس اور دل لگی نے ان کی گھریلو زندگی میں تلخیوں‌ کا زہر گھول دیا تھا۔ اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ بیدی پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو وہ چل بسے۔

    بیدی کے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جہاں ان کا آبائی گھر تھا۔ والدہ کا نام سیوا دیوی تھا جو برہمن تھیں۔ لیکن بیدی کے والد ہیرا سنگھ سکھ تھے۔ یوں بیدی کو گھر کے اندر ایک مفاہمت کی فضا ملی۔ والد تلاشِ روزگار میں لاہور آ گئے تھے جہاں صدر بازار لاہور کے ڈاک خانے میں ملازمت کرنے لگے۔ بیدی کو لاہور کینٹ کے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا اور چار جماعتیں پاس کرکے وہ خالصہ اسکول میں داخل ہوگئے جہاں سے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ان کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں۔ فالج کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے والد اپنی بیوی کی خدمت میں جتے رہے اور ڈاک خانے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ تب، راجندر سنگھ بیدی نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے والد کی جگہ ڈاک خانے کی ملازمت اختیار کر لی۔ اُس زمانے میں شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی تھیں۔ 1934ء میں راجندر سنگھ کی شادی ستونت کور سے کر دی گئی۔ اُس وقت بیدی کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ڈاک خانے کی ملازمت کے لمبے اوقات تھے۔ پھر بھی کام کے دوران جب کبھی وقت ملتا راجندر سنگھ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کہانیاں لکھتا رہتا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو کے اردو سیکشن سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہاں چلے گئے۔ ریڈیو پر بیدی کے فن کے جوہر خوب کھلے۔ لیکن 1943ء میں ریڈیو چھوڑ کر مہیش واری اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے تاہم ڈیڑھ سال بعد ریڈیو لوٹ گئے۔ اس وقت تک بیدی افسانوں کی دنیا میں معروف ہوچکے تھے۔ لاہور میں بیدی اپنا ادارہ قائم کرکے خوش تھے، اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن لاہور سے جدا ہونا پڑے گا۔ ان کا اشاعتی ادارہ بھی فسادات کی نذر ہو گیا۔ وہ دہلی چلے گئے اور بعد میں جموں ریڈیو میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ 1948ء کی بات ہے۔ راجندر سنگھ بیدی زندگی کے کسی ایک رنگ سے کبھی مطمئن نہ ہوئے۔ ان کا تخلیقی وفور فلم کی دنیا میں لے گیا جہاں کہانیاں، مکالمے اور اسکرین پلے لکھنے کے بعد ہدایت کاری کے کوچے کا رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    بیدی کی ذاتی زندگی میں ایک گہرا خلا تھا۔ فلم کی دنیا میں اداکاراؤں کے ساتھ دوستی اور بیدی کی شراب نوشی ان کی بیوی کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی اور انتقال کر گئی۔ اسی دوران فلم ”آنکھوں دیکھی‘‘ مکمل ہوگئی لیکن جس فلم پر بیدی نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دی تھی، سینما کی زینت نہ بن سکی۔ آخر کار وہ بھی ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

    بیدی کو ان کے فن کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہے۔

  • ممتاز مفتی: اپنے دور کی ایک مشہور شخصیت، ایک مقبول ادیب

    ممتاز مفتی: اپنے دور کی ایک مشہور شخصیت، ایک مقبول ادیب

    ممتاز مفتی کو اردو ادب میں بحیثیت افسانہ نگار، ناول نویس، خاکہ نگار پہچانا گیا جب کہ ان کے تحریر کردہ انشائیے اور سفر نامے ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے موضوعات کی سطح پر نئے امکانات اور اپنے تخیّل کی بلند پروازی سے اصنافِ‌ ادب کو ایک نئی معنویت سے آشنا کیا۔ آج ممتاز مفتی کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب تخلیق کیا اور ان کی تصانیف کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسانی نفسیات کے مطالعے سے ممتاز مفتی کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ ممتاز مفتی نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی اور بے تکلفی سے اجاگر کیا جس کی مثال نثر کے میدان میں بہت کم ملتی ہے۔ ممتاز مفتی ایسے ادیب تھے جس نے سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی اور قومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا اور اسے خوبی سے نبھایا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ممتاز مفتی نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے جو انھیں اردو زبان کے ادیبوں سے جدا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ ان کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔

    ان کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی متعدد اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔’’علی پور کا ایلی‘‘، ’’الکھ نگری‘‘ ان کے وہ ناول تھے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے جب کہ ان کا سفر نامہ ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ بھی قارئین نے بہت پسند کیے۔ شخصی خاکوں اور تذکروں کی بات کی جائے تو ممتاز مفتی کی تصانیف پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ لائقِ‌ مطالعہ ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے جب کہ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں بھی شایع ہوا۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی انتقال کرگئے تھے۔ انھیں اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپرد‌ خاک کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ممتاز مفتی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • ہاجرہ مسرور: جرأت مند اور باکمال ادیب

    ہاجرہ مسرور: جرأت مند اور باکمال ادیب

    اُردو ادب میں ہاجرہ مسرور کا نام ان کی افسانہ نویسی اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی اہلِ قلم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے گھرانے کی فرد تھیں جس میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ ان کی بڑی بہن اردو کی مشہور ادیب خدیجہ مستور تھیں جب کہ بھائی خالد احمد شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔ آج ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔

    ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر ظہور احمد خان برطانوی حکومت میں آرمی ڈاکٹر تھے جو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے۔ اس کے بعد والدہ نے خاندان کو سنبھالا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ یہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ہاجرہ مسرور نے بچپن ہی میں قلم تھام لیا تھا اور ان کے تخلیقی ذہن نے بعد میں‌ کئی خوب صورت کہانیاں اردو ادب کو دیں۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنی ہمشیر کے ساتھ پاکستان آ گئی تھیں اور لاہور میں قیام کیا۔ یہاں ہاجرہ مسرور کی کہانیاں ادبی جرائد میں بڑی باقاعدگی سے چھپتی تھیں۔ ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بنتی چلی گئی۔ ہاجرہ مسرور غیر روایتی افسانے لکھتی تھیں اور تنازعات کا شکار بھی رہیں۔ مشہور ہے کہ ایک زمانے میں ان کے فیض احمد فیض کے ساتھ اختلافات ہو گئے اور اس کے بعد ان کو ادبی حلقوں‌ کی جانب سے نظر انداز کیا گیا۔ ہاجرہ مسرور نے اپنی وفات سے دو دہائی قبل ہی لکھنا ترک کردیا تھا یا ان کی تخلیقات منظرِ عام پر نہیں آسکی تھیں۔ ان کی شادی معروف صحافی احمد علی خان سے ہوئی تھی جن کی وفات کا ہاجرہ مسرور کو شدید صدمہ پہنچا اور وہ سب سے دور ہوگئی تھیں۔

    ہاجرہ مسرور کے گھر میں‌ اخبار اور ادبی جرائد آیا کرتے تھے۔ ان میں ’’ادبی دنیا‘‘، ’’ہمایوں‘‘، ’’ ساقی‘‘،’’ خیام‘‘ اور’’ عالمگیر‘‘ وغیرہ شامل تھے جو ان کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان کرتے اور انھیں لکھنے کی تحریک دیتے تھے۔ جب وہ ممبئی میں تھیں تو ان کے دو افسانوی مجموعے وہاں‌ شائع ہوگئے تھے۔ پاکستان میں ہاجرہ مسرور کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ ہاجرہ مسرور نے سادہ مگر مؤثر نثر تحریر کی۔ ان کے استعارے اور کردار نگاری کے علاوہ ان کا ایک وصف اثر انگیز اندازِ بیاں تھا۔ ان کی اکثر کہانیاں 50 اور 60 کی دہائی میں لکھی گئیں۔

    1962ء میں مجلس ترقی ادب نے ہاجرہ مسرور کو ’’رائٹر آف دی ایئر‘‘ ایوارڈ دیا۔ یہ ایوارڈ انہیں ان کے ایک ایکٹ کے ڈراموں کے مجموعے ’’وہ لوگ‘‘ پر دیا گیا۔ ان کے ڈراموں کے مجموعوں کے دیباچے فیض احمد فیض اور امتیاز علی تاج نے تحریر کیے تھے۔ ہاجرہ مسرور نے 60 کی دہائی میں ایک فلم کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ فلم کے لیے اس واحد اسکرپٹ پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    ہاجرہ مسرور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا اور اپنے اصولوں پر ہمیشہ قائم رہیں۔ انہیں 1995ء میں تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ان کے دیگر افسانوی مجموعوں میں’’چاند کی دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری، چھپے، ہائے اللہ، چرکے، وہ لوگ‘‘ اور ’’طمع‘‘ شامل ہیں۔

    ہاجرہ مسرور 15 ستمبر 2012ء کو 82 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئی تھیں۔

  • ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف روس کا عظیم ڈراما نویس، ناول اور افسانہ نگار تھا جس کی تحریروں سے اپنے وقت کے بڑے بڑے دانش ور اور اہلِ قلم متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ ایسا ادیب تھا جسے اس کی تخلیقات ہی نہیں انسان دوستی اور افکار کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

    ترگنیف کا یہ تذکرہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں، احمد عقیل روبی کے قلم کی نوک سے نکلا ہے۔ وہ ایک باکمال ادیب، شاعر اور بہترین مترجم تھے جن کا غیرملکی ادب کا مطالعہ حیرت انگیز تھا۔ ایوان ترگنیف کی زندگی اور اس کے تخلیقی سفر کے بارے میں احمد عقیل روبی کی یہ تحریر پُرلطف اور دل چسپ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ماں کی ممتا پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بچے کو زندگی دیتی ہے، اسے بولنا، چلنا، زندگی کو ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی ماں بچے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ بچے کو اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتی۔ من مانی پر اتر آتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور آخر کار بچہ بغاوت کر دیتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی ہے۔ ماں غصیلی تھی، چڑ چڑاپن اپنے عروج پر تھا۔ اس پر جب غصے کا بھوت سوار ہوتا تو وہ لارڈ بائرن کے بال نوچتی، اسے بری طرح مارتی، بائرن اس سے ہر پل خائف رہتا تھا۔ جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھی اس سے اکثر پوچھتے تھے:’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن کو اس بات کا بڑا افسوس تھا۔ اسے بچپن میں ماں کا پیار نہ ملا۔ وہ ساری عمر اپنی محبوباؤں میں ماں کا پیار تلاش کرتا رہا۔ فرانسیسی ناول نگار گستاؤ فلابیئر کے ساتھ الٹا حساب ہوا۔ فلابیئر کی ماں نے اسے اتنا پیار دیا، اتنی توجہ دی کہ فلابیئر کی زندگی برباد کر دی اور ساری عمر ماں کی بغل میں سمٹ کر بیٹھا رہا۔ نہ کسی عورت سے شادی کر سکا، نہ کھل کے محبت کر سکا۔ اگر کبھی شادی کے لئے دل نے رضا مندی ظاہر بھی کی تو محبوبہ کو چھوڑ کر ماں کے پاس چلا آیا۔ ماں اس کی کمزوری بن گئی۔ کھانا، پینا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، سب کچھ ماں کے اشارے پر کرتا تھا۔ گاؤں سے کبھی پیرس گیا، اپنی محبوبہ سے ملا۔ ماں یاد آ گئی تو پیرس سے بھاگ کر گاؤں چلا آیا۔ ایک بار اس کی شاعر محبوبہ نے اس سے کہا:’’تمہاری ماں تمہاری ایسے دیکھ بھال کرتی ہے جیسے تم کوئی کنواری لڑکی ہو۔‘‘ یہی حال ترگنیف کا تھا لیکن اس نے اپنی ماں سے کھل کر اختلاف کیا۔

    اس کی ماں بہت بڑی جاگیر کی وارث تھی۔ اس کی جاگیر میں 5000 غلام (Serfs) تھے۔ ان پر وہ دل کھول کر ظلم کرتی تھی۔ ہلکی سی غلطی پر انہیں کوڑوں سے مارتی۔ ترگنیف کو ماں کی اس عادت سے نفرت تھی۔ یہ نفرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔ وہ ماں سے اختلاف کرتا رہا۔ وہ اپنے غلاموں کو انسانی حقوق دینا چاہتا تھا۔ ماں اس پر رضامند نہ تھی۔ وہ اذیت پسند تھی۔ ترگنیف اس کی اس عادت سے بیزار رہتا تھا۔ 1834ء میں ترگنیف کا باپ مر گیا جو روسی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔ ترگنیف کی ماں کے لیے اب کھلا میدان تھا‘ اس نے جی بھر کے غلاموں پر تشدد کیا۔ ترگنیف نے کبھی دبے الفاظ میں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو ماں نے اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ترگنیف کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا‘ وہ خاموشی سے ماں کی بات مانتا رہا مگر ترگنیف نے ماں کے ظالمانہ سلوک کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔

    18ء اکتوبر 1818ء کو (Oral) شہر میں ایک امیر خاندان کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماں Varvara Petr شاعرانہ اور ادبی ذوق رکھنے والی ایک رئیس اور اذیت پسند خاتون تھی۔ترگنیف یورپ اور فرانس کے ادیبوں میں بہت مقبول تھا۔ فلابیئر کے ساتھ اس کے بہت گہرے مراسم تھے۔ ترگنیف اپنا زیادہ وقت فرانس ہی میں گزارتا تھا۔ روس کے ادیب، جن میں ٹالسٹائی بھی شامل تھا، اس کی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ روس کے ادیبوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ ترگنیف کو روس سے کوئی دل چسپی نہیں، وہ ذہنی طور پر ’’یورپ زدہ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ترگنیف کی تحریروں سے واضح ہے کہ اسے روس سے بہت محبت تھی۔ روس کے کسانوں اور دیہات میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار پر اس کا دل لہو روتا۔ روس کے ادیب صرف حسد میں یہ باتیں کرتے تھے کیونکہ یورپ اور دیگر ممالک میں ترگنیف اپنے تمام ہمعصر لکھنے والوں سے زیادہ مقبول تھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ (Fathers and Sons) ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے۔ یہ ناول 1862ء میں چھپا۔ اس ناول کا ہیرو بازووف 1860ء کی نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نوجوان Nihilist تحریک سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب سمیت تمام پرانے عقائد اور اداروں کو رَد کرتی ہے۔ مغربی یورپ میں اسے پہلے روسی ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔

    ترگنیف بحیثیت شاعر تو نا کام رہا لیکن بحیثیت ناول نگار اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اسے ’’ناول نگاروں کا ناول نگار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بازووف ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو مر کر بھی زندہ رہی جس نے اپنے آپ کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا، جس نسل کے خیالات ان کی بزرگ نسل نہ سمجھ سکی۔

    ترگنیف بلاشبہ ایک ایسا ناول نگار تھا جس نے ہمیں بتلایا کہ زندگی کیا ہے۔ انسان کی مختلف پرتیں کیا ہیں۔ وہ کیا ہے جو تاریخ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ بھید کیا ہے جو انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ قاری اگر ترگنیف کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کا ان تمام چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔

    (ادبی اقتباسات)

  • انتون چیخوف: انسانی فطرت کو کہانیوں میں بیان کرنے والا روسی ادیب

    انتون چیخوف: انسانی فطرت کو کہانیوں میں بیان کرنے والا روسی ادیب

    انتون چیخوف کی کہانیاں دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں کئی زبانوں میں اس کے افسانوں کا ترجمہ کیا گیا۔ روس کے ممتاز افسانہ نگار انتون چیخوف نے اپنی کہانیوں میں جس نئے اور نرالے طرز کو متعارف کروایا، وہ دنیا بھر میں اس کی وجہِ شہرت بن گیا۔

    انتون چیخوف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھا جس کی کئی کہانیوں کو شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے اور ناقدین نے چیخوف کی تخلیقی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ اس کے افسانوں کے تراجم دیس دیس میں‌ پڑھے جاتے ہیں۔ 15 جولائی 1904ء کو روس کا یہ عظیم افسانہ نگار چل بسا تھا۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ایسے گھرانے کا فرد تھا جس میں ایک سخت گیر باپ اور ایک بہترین قصّہ گو ماں موجود تھی۔ وہ اپنے سب بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ انتون چیخوف بچپن ہی سے ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا۔ وہ بڑا ہوا تو اسے تھیٹر کا شوق پیدا ہوا۔ اس نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا۔ چیخوف کے قلم سے جو کہانیاں نکلیں وہ قارئین نے بہت پسند کیں اور روس میں اسے شہرت ملنے لگی۔

    مالی مسائل کے باعث اس کے گھرانے نے غربت اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا کیا۔ چیخوف نے بچپن ہی میں کام کرنا شروع کردیا تھا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ وہ پرندے پکڑ کر انھیں‌ بازار میں فروخت کرنے لے جاتا تھا۔ اسی زمانہ میں چیخوف نے اسکیچ بنانا سیکھا اور پھر ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔

    وہ کہانیاں تو بچپن سے سنتا آرہا تھا، لیکن اب اس نے خود بھی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چیخوف کو اس کے مطالعہ کی عادت نے لکھنے کے قابل بنایا۔ تعلیمی اعتبار سے 1879ء میں چیخوف نے میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور فیس دینے کے لیے زیادہ محنت کرنے لگا۔ وہ ہر اس کام کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدن ہوسکتی تھی تاکہ فیس کے ساتھ گھر کے اخراجات بھی پورے کرسکے۔ تعلیم کے ساتھ چیخوف نے تخلیقی کام بھی جاری رکھا اور ایسے اسکیچز بناتا رہا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ اپنی تصاویر میں معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف قارئین کو متوجہ کرتا۔ چیخوف کو ان اسکیچز کی بدولت پہچان ملنے لگی اور وہ وقت آیا جب اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کر دی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے بھی لگا تھا۔ چیخوف نے تھیٹر کے لیے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اس میدان میں‌ بھی کام یابی اس کا مقدر بنی۔ اس کا تحریر کردہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا۔ ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف کی تعلیم مکمل ہوئی اور 1884ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔

    وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کر دیا۔ لیکن بعد کے برسوں میں اس نے علاج معالجہ ترک کر دیا تھا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا تھا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو کتابی شکل میں شایع کروایا تو ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا۔ اسے روس کے مقبول ترین ادیبوں میں شمار کیا گیا۔ انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ اس کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور پھر زندگی کی بازی ہار گیا۔

    روس میں چیخوف کی پذیرائی اور اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کی عکاسی تھا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ محض 44 برس تک زندہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • موپساں: جدید افسانے اور مختصر کہانی کا امام

    موپساں: جدید افسانے اور مختصر کہانی کا امام

    موپساں جدید افسانہ نگاری کا وہ نام ہے جسے مختصر کہانی اور افسانے کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ موپساں کو فطرت نگاری اور سماجی حقیقت پسندی میں کمال حاصل تھا۔ اسی وصف کی بنیاد پر آج بھی دنیائے ادب میں موپساں عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

    مشہور ہے کہ موپساں صاف گو، جرأت مند تو تھا ہی، لیکن ضدی اور انا پرست بھی تھا۔ موپساں زندگی کی فقط 42 بہاریں دیکھ سکا اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر اپنے انجام کو پہنچا۔ موپساں نے انسان کی بے بسی اور بے کسی کی تصویریں اس طرح کھینچی ہیں کہ اس کا قاری ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔

    موپساں کا اندازِ بیان بہت واضح اور غیر مبہم تھا۔ اس کے افسانے ابلاغ کی قوّت سے بھرپور ہیں جن میں‌ اکثر موپساں انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے مشاہدے اور تجربات سے حالات کی ستم ظریفی کو بیان کرتا ہے۔ اس کے اسلوبِ نگارش کی ایک خوبی کلائمکس ہے۔ موپساں کے اکثر افسانوں کا انجام حیران کن ہوتا ہے۔ اس کا پہلا افسانہ بال آف فیٹ (Ball of fat) تھا جسے شاہ کار مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے افسانے بھی بہت پسند کیے گئے۔ موپساں نے جدید افسانوی ادب میں متعدد رجحانات متعارف کرائے اور بعد میں آنے والوں نے اس کی تقلید کی۔ عالمی ادب میں موپساں نے اپنے طرزِ‌ نگارش اور نظریۂ ادب کی وجہ سے منفرد مقام بنایا۔

    وہ 17 سال کا تھا جب اس کی ماں نے اپنے دور کے بلند پایہ ادیب فلابیئر کو کہا کہ وہ اس کے بیٹے کو اپنے ساتھ رکھ لے اور اسے لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ معروف ادبی نقاد احمد عقیل روبی لکھتے ہیں، فلابیئر کی عجیب و غریب عادات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جب بھی کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتا تو ایک کمرہ کرائے پر لے لیتا تھا۔ لوگوں کے سامنے وہ کھانا کھاتے ہوئے گھبراتا تھا۔ کمرے میں جا کر کوٹ اتارتا، جوتے اتار دیتا۔ بنیان قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دیتا۔ پھر شراب پیتا اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتا جب کھا کر مدہوش ہو جاتا اور لڑکھڑانے لگتا تو اس کو سہارا دے کر گھر حفاظت سے لانے کا فریضہ اُس کا ہونہار شاگرد ادا کرتا تھا۔ یہ شاگرد کوئی اور نہ تھا۔ سترہ سالہ موپساں تھا۔ موپساں کی ماں اور اس کے باپ کے مزاج اور عادات میں بڑا فرق تھا۔ موپساں کی ماں ادبی اور شعری ذوق رکھتی تھی، پیرس کے ادیبوں اور شاعروں سے اس کا ملنا جلنا تھا۔ انگریزی کلاسیک ادب سے شد بد رکھتی تھی۔ شیکسپیئر اُس کا پسندیدہ شاعر تھا۔ موپساں کا باپ ایک اسٹاک بروکر تھا۔ دونوں خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مگر موپساں کا باپ سب کچھ رکھتے ہوئے ادبی ذوق اور حسِ لطیف سے دور تھا۔ موپساں کی ماں اس کے باپ کے دو بچّوں کی ماں بنی مگر پھر اس کے ساتھ گزارا مشکل سمجھا۔ وہ ایک آزاد خیال عورت تھی۔ عورت کا خاوند سے طلاق لینا اس زمانے میں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اس نے یہ معاشرتی اور سماجی بدنامی مول لی اور طلاق لے لی۔ اسے ماں نے فلابیئر کی شاگردی میں دے دیا۔

    ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ وہ 1893ء میں چل بسا تھا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔

    نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت کی بدولت تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    موپساں نے شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی اس کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہوگیا۔ اور چھے جولائی 1893ء میں‌ انتقال کرگیا۔ انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں شایع ہوئے۔

    احمد عقیل روبی مزید لکھتے ہیں، موپساں نے بہت مختصر زندگی پائی مگر مختصر کہانی اور افسانے کا امام کہلایا۔ کہتے ہیں یہ سب فلابیئر کی صحبت اور تربیت کا نتیجہ تھا۔ فلابیئر اس کا گرو اور گاڈ فادر تھا۔ لکھنے اور کہانی کہنے کے دنگل میں اس نے موپساں کو عملی اور فکری تربیت دی۔ جملے کی ساخت اور الفاظ کے استعمال کے گر سکھائے، کہانی شروع کرنے اور اسے احسن طریقے سے ختم کرنے کا طریقہ سجھایا اور قدم قدم پر اس کی راہنمائی کی…الفاظ سے تصویر بنانے کا فن، الفاظ کو برمحل استعمال کرنے کا گُر اور سادہ طرزِ تحریر، جملے کا اختصار۔ فلابیئر کی بتائی ہوئی یہ باتیں اس نے پلے باندھ لیں اور پھر اپنی محنت اور لگن سے وہ دنیا کا بڑا افسانہ نویس بن گیا۔ پہلی بار ایک اسکول میں داخل ہوا تو مذہب کے بارے میں اپنے منفی خیالات کی بنا پر اسکول سے نکال دیا گیا۔ دوسرے اسکول میں جا کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔ شاعری میں دل چسپی لی اور ادب کا مطالعہ کیا۔ بی۔ اے کرتے ہی فرانس اور پروشیا کی جنگ چھڑ گئی۔ موپساں نے رضا کارانہ طور پر جنگ میں اپنا نام لکھوا دیا… 1871ء میں جنگ سے فارغ ہو کر پیرس آ گیا اور نیوی کے محکمے میں دس سال کلرکی کرتا رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب فلابیئر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے ادب اور صحافت کے میدان کا کام یاب کھلاڑی بنا دیا۔ 1880ء کی دہائی کا زمانہ موپساں کے تخلیقی عروج کا زمانہ ثابت ہوا۔ اس نے اپنا پہلا ناول Boule de Suif اسی زمانے میں لکھا جسے فلابیئر نے زندہ رہنے والا شاہ کار قرار دیا۔ ’’مادام فی فی ‘‘ اور Mother Savage جیسی کہانیاں لکھیں۔ موپساں نے چھ ناول لکھے۔ اس کی بے شمار کہانیوں کی فہرست دینا ممکن نہیں۔ اس کی 60 سے زیادہ کہانیاں شاہ کار تصور کی جاتی ہیں۔