Tag: ادیب برسی

  • مسعود اشعر:‌ افسانہ نگار، صحافی اور مترجم

    یہ ستّر کی دہائی تھی جب مسعود اشعر نے اپنی کہانیوں سے ادبی دنیا میں پہچان بنائی۔ انھوں نے اپنے قارئین کے سامنے انسانی رشتوں کی الجھنیں، سماج اور لوگوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کو اپنے کرداروں اور مناظر کے ساتھ مؤثر انداز میں پیش کیا۔

    مسعود اشعر کو افسانہ نگار، مترجم اور صحافی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ 5 جولائی 2021ء کو مسعود اشعر انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا، تب وہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ انھیں رام پور چھوڑنا پڑا۔ وہ ہجرت کر کے پاکستان کے شہر ملتان چلے آئے اور پھر لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔1930ء میں پیدا ہونے والے مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ پاکستان میں انھوں نے علمی صحافت کا آغاز کیا اور تخلیقی کاموں کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لینے لگے۔ لاہور اور ملتان میں انھوں نے روزنامہ احسان، زمین دار، آثار اور امروز میں کام کیا۔ وہ ایک معروف علمی ادارے کے سربراہ بھی رہے۔ کالم نگاری بھی مسعود اشعر کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ جنگ کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ شمیم حنفی نے مسعود اشعر کے بارے میں لکھا ہے، "ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بدمذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش و خروش نہیں۔ مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔ صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔”

    مسعود اشعر نے صحافت کی دنیا میں ہمیشہ حق گوئی اور جرأت سے کام لیا۔ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا زمانہ تھا اور مسعود اشعر امروز ملتان کے ایڈیٹر تھے۔ انہی دنوں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ اس سانحے کی خبر نہ بنائی جائے۔ مسعود اشعر اس کے لیے تیّار نہ ہوئے۔ اخبار میں خبر چھپی تو ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ مسعود اشعر بے روزگار رہے اور جیل کاٹی مگر آزادیٔ صحافت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

    مسعود اشعر کے افسانے ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کی صورت میں شایع ہونے کے بعد جو کتابیں منظرِ عام پر آئیں‌ ان میں متنوع موضوعات پر مسعود اشعر نے اپنے تخلیقی وفور کا اظہار کیا ہے۔ ایک کتاب ’’سارے افسانے‘‘ اور دوسری ’’اپنا گھر‘‘ کے عنوان سے اور چند برس قبل ’’سوال کہانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

  • مرزا قلیچ بیگ: ان کی تصنیف ’’زینت‘‘ کو سندھی زبان کا پہلا ناول کہا جاتا ہے

    مرزا قلیچ بیگ: ان کی تصنیف ’’زینت‘‘ کو سندھی زبان کا پہلا ناول کہا جاتا ہے

    سندھی زبان و ادب کو اپنی تحریروں سے مالا مال کرنے والوں میں ایک نام مرزا قلیچ بیگ کا بھی ہے۔ انھوں نے سندھی میں ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب کے علاوہ متعدد غیر ملکی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم اور مختلف موضوعات پر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ مرزا قلیچ بیگ ڈرامہ نویس کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    1929ء میں‌ مرزا قلیچ بیگ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ صوبۂ سندھ کی اس معروف علمی شخصیت کی 400 سے زائد کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ ان کی اکثر تحریریں ڈرامے سے متعلق اور ڈرامہ پر مشتمل ہیں جب کہ تراجم الگ ہیں۔ شہرۂ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور آٹھ ڈراموں کو سندھی زبان میں ترجمہ کرنے والے قلیچ بیگ نے خود بھی 32 ڈرامے تحریر کیے جن کا پلاٹ اس زمانے کے رومانوی، تاریخی اور سماجی موضوعات پر بُنا گیا۔ کہتے ہیں‌ 1880 میں انھوں نے پہلا ڈرامہ’’ لیلی مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’ موہنی‘‘ تھا جس کا 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) ڈرامائی تشکیل کے ساتھ پیش کیے گئے۔ مرزا قلیج بیگ کا ڈرامے منشی اور کوڑو نوٹ ان کی تخلیق کہلاتے ہیں جو مزاحیہ انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے بتایا جاتا ہے، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نو مسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے اس زمانے میں سندھ لائے گئے تھے۔ یہاں شادی کے بعد ان کے گھر 1853ء میں‌ مرزا قلیچ بیگ پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مرزا قلیچ بیگ نے مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ قلیچ بیگ نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ ان کے بزرگوں کی زبان فارسی اور عربی رہی تھی۔ انھوں نے اپنے روزنامچوں میں اپنے بزرگوں اور اپنی زندگی کے ابتدائی ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔ قلیچ بیگ نے 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم مکمل کرکے وہ سندھ اپنے گھر واپس آگئے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے بالخصوص تراجم پر توجہ دی اور قارئین کو تاریخ، لطیفیات، شاعری، تنقید اور سائنس کے علاوہ کئی موضوعات پر عمدہ کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ’’زینت‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول کو پہلا سندھی ناول کہا جاتا ہے۔

    مرزا قلیچ بیگ ایک بیدار مغز انسان اور باشعور فرد تھے جس نے تعلیم کی اہمیت کے ساتھ ادبی کاموں اور سندھی زبان کی خدمت کو ضروری سمجھا۔ انھوں نے اپنے علمی اور ادبی کاموں‌ کے ساتھ سرکاری نوکری بھی کی اور مختلف عہدوں‌ پر فائز ہوئے۔ 1879 میں مرزا قلیچ بیگ ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر ہیڈ منشی بھرتی ہوگئے تھے۔ 1891 میں ایک اور امتحان پاس کر کے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں انھوں نے سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔

  • مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    ادبی دنیا کے ناقدین کا خیال ہے کہ ماریو پوزو(Mario puzo) کا تذکرہ کیے بغیر گزشتہ دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور شارٹ اسٹوری رائٹر ماریو پوزو کا جرم اور اس تاریک دنیا پر مبنی ایک ناول ‘دی گاڈ فادر’ بہت مقبول ہوا جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ماریو پوزو کے حالاتِ زندگی، ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالیں تو وہ ایک بہترین ناول نگار ہی نہیں مختصر کہانی نویس اور اسکرین رائٹر بھی تھے اور باکمال ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ماریو پوزو کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ان کا تعلق جس کنبے سے تھا، وہ امریکہ میں مقیم تھا۔ یہاں نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو 15 اکتوبر 1920ء میں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معمولی گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور جب دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو انھوں‌ نے امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کر لی لیکن معلوم ہوا کہ ماریو پوزو کی نظر کمزور ہے۔ ان کے لیے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں اسامی نکالی گئی اور وہاں تبادلہ کر دیا گیا۔ ماریو پوزو مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کرچکے تھے۔ یہ سلسلہ دورانِ ملازمت ان کے افسانوں اور کہانیوں‌ کی شکل میں جاری رہا اور رفتہ رفتہ ماریو پوزو قارئین اور ادبی دنیا میں پہچان بنانے لگے۔

    1950ء میں نوجوان ماریو پوزو کا پہلا افسانہ شایع ہوا۔ بعد کے برسوں‌ میں ماریو پوزو نے شارٹ اسٹوریز کے ساتھ ناول نگاری بھی شروع کردی اور پھر وہ جرائم پیشہ گروہوں اور مافیا پر اپنی کہانیوں‌ کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ماریو پوزو نے گیارہ ناول لکھے جن میں سب سے زیادہ مقبول ناول گاڈ فادر ہے۔ اسی ناول نے عالمی ادب میں ماریو پوزو کو شناخت دی۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مبنی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور مضمون نگار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ اس امریکی ادیب کے افسانوں اور ناولوں نے قارئین کو بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر وہ جس طرح مافیا کے دھندوں اور تاریک دنیا کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، ان میں وہ اپنے تخیل اور قوّتِ مشاہدہ سے بڑا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ماریو پوزو کا نام آج بھی عالمی ادب میں ان کے قلم کے اسی وصف کی بدولت زندہ ہے۔

    ناول دی گاڈ فادر پر مبنی فلم کی بات کریں تو اس میں‌ مافیا کے سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) کو مصنّف نے ایک جہاں دیدہ شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ نیویارک شہر کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں مافیا کے مختلف خاندان علاقہ اور غیرقانونی کاروبار کی دنیا میں اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران گاڈ فادر یعنی کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف کا کمال یہ ہے کہ اس نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے کرداروں کی ذہنی کشمکش اور ان کے رویے کو‌ بیان کیا ہے اور یہی تفصیل اس کہانی کو مؤثر اور دل چسپ بناتی ہے۔ ناول کے کردار دنیاوی فہم و فراست اور ذہانت سے مالا مال ہیں لیکن مصنّف کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنے کرداروں کو فلسفہ بگھارے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ مکالمہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ اس ناول پر مبنی فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس میں مارلن برانڈو نے بھی کردار ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے تھے۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک زمانہ میں ماریو پوزو مالی مسائل کا شکار تھے اور مقروض ہوچکے تھے، جب کہ ان کو اپنی تخلیقات کی اشاعت سے مالی نفع نہیں‌ مل رہا تھا۔ تب انھوں‌ نے گاڈ فادر لکھنا شروع کیا اور حیران کن طور پر اس نے ماریو پازو کو شہرت اور مالی آسودگی بھی دی۔ اس ناول کا متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    ناول میں ماریو پوزو کے بیٹے کا ایک مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔ ان کے فرزند نے لکھا کہ والد کے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں 67 ہفتے تک شامل رکھا۔

  • اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا تذکرہ

    اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا تذکرہ

    مجنوں گورکھپوری اردو کے ممتاز نقاد، شاعر، مترجم اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے اپنے دور میں ترقی پسند ادب کو تنقیدی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج مجنوں کی برسی ہے۔

    مجنوں کے تمام ادبی حوالوں اور شناختوں پر ان کی تنقیدی شناخت حاوی رہی۔ انہوں نے بہت تسلسل کے ساتھ اپنے عہد کے ادبی و تنقیدی مسائل پر لکھا اور اپنی فکر و نکتہ رسی کی بدولت اردو ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ یادگار چھوڑا۔ مجنوں‌ گورکھپوری 4 جون 1988ء کو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے تھے۔

    مجنوں کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ ان کے والد محمد فاروق دیوانہ بھی ادیب اور مشہور شاعر تھے۔ مجنوں نے مشرقی یوپی کے ضلع بستی تحصیل خلیل آباد میں واقع پلدہ المعروف ملکی جوت میں 10 مئی 1904 کو آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان اعلٰی تعلیم یافتہ اور زمیں دار تھا۔ والد محمد فاروق دیوانہ نے اپنے بیٹے احمد صدیق کا داخلہ تعلیم کے لیے سینٹ اینڈریوز اسکول میں کرایا۔ 1921ء میں میٹرک کے بعد 1927ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی، اور ایک سال بعد کلکتہ یونیورسٹی سے مجنوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ 1936ء میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ ان کی شادی 14 اکتوبر 1926ء میں ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد مجنوں بھارت میں مقیم رہے، لیکن مئی 1968ء میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر کراچی چلے آئے۔ یہاں انھیں کراچی یونیورسٹی میں بہ حیثیت اعزازی پروفیسر تعینات کر دیا گیا۔

    مجنوں گورکھپوری نے ادب کو زندگی سے ہم آہنگ کرنے‘ زندگی کی عکاسی کرنے اور اسے سماجی شعور و آگہی کا ذریعہ بنانے کے لیے نہایت قابلِ قدر مضامین لکھے۔ ان کی تنقیدی کتاب ’’ادب اور زندگی‘‘ نے بلاشبہ اردو تنقید میں فکر کا ایک نیا در کھولا۔ 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کی اردو ادب میں داغ بیل پڑی تو مجنوں صاحب کا اس میں بھی بڑا حصہ تھا۔ علی سردار جعفری اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحریک کے ابتدائی زمانے میں مجنوں گورکھ پوری نے اپنے تنقیدی مضامین سے تحریک کے اغراض و مقاصد کو پھیلانے میں بڑا کام کیا اور نئے اصولِ تنقید بنانے میں بڑی مدد کی۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اور نقاد بھی زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے۔ اس لیے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے۔‘‘ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ مجنوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

    اردو میں تنقید نگاری کے ساتھ مجنوں‌ گورکھپوری نے انگریزی ادب سے تراجم بھی کیے اور شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔

    ادیب اور نقاد مجنوں گورکھپوری کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا کی بیش تر تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے آج عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنی موت سے قبل اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے اس پر عمل نہیں کیا تھا!

    جرمنی کے اس معروف افسانہ نگار اور کہانی کار کے متعدد ادھورے ناول، افسانوں اور خطوط کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور عین جوانی میں دم توڑنے والے کافکا اور اس کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ جرمنی میں کافکا کی تماثیل آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بیسویں صدی کے اس بہترین افسانہ نگار کی وفات تین جون 1924ء کو ہوئی۔ اس کی عمر 40 سال تھی۔ وہ 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ نہیں‌ چاہتے اور اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے کافکا خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ وہ ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم اور نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوچکا تھا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھنے والے کافکا نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ اس نے زندگی میں ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی تھی، مگر بچ گیا تھا اور بعد میں‌ اس کے دوست نے اسے سنبھالا۔ کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا تھا اور اس دور میں‌ اس مرض کے ہاتھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔

    فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔

    کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب یہ تخلیقات دنیا کے سامنے آئیں تو انھیں بہت سراہا گیا اور کافکا کی تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا سبھی نے اعتراف کیا۔

  • شاہد احمد دہلوی:‌ اردو کا صاحبِ طرز ادیب

    شاہد احمد دہلوی:‌ اردو کا صاحبِ طرز ادیب

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمدد ہلوی نے خاکہ نگاری، تذکرہ نویسی اور تراجم کے ساتھ ادبی صحافت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ ایک جید موسیقار بھی تھے۔ 27 مئی 1967ء کو وفات پانے والے شاہد احمد دہلوی نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں اور دہلی کی با محاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ آج شاہد احمد دہلوی کی برسی ہے۔

    شاہد احمد دہلوی کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس نے اردو ادب کو اپنی نگارشات کی صورت میں مالا مال کیا۔ وہ اردو کے نام وَر ادیب اور مشہور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور معروف ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔ شاہد احمد دہلوی 1906ء میں دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے جس علمی و ادبی ماحول میں‌ ان کی پرورش ہوئی، اس نے شاہد احمد دہلوی کو بھی لکھنے لکھانے پر آمادہ کیا۔ موسیقی سے انھیں عشق تھا اور لکھنا پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ۔

    شاہد احمد دہلوی مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ دہلی کی بامحاورہ زبان پر ان کی جو گرفت تھی وہ انھیں ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ اس اسلوب میں ان کی انفرادیت کی مثال ہیں۔ جہاں تک فن موسیقی کا تعلق ہے تو عوام الناس کی اکثریت ان کی زندگی کے اس گوشے سے روشناس نہیں۔ شاہد احمد دہلوی جہاں اردو کے ایک فقید المثال ادیب تھے، وہاں وہ کلاسیکی موسیقی کے ایک جید عالم اور عامل بھی تھے۔ انہیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان کے پہلے استاد پنڈت لکشمن پرشاد تھے۔ ان کے بعد انہوں نے برصغیر کے عہد ساز اور نابغہ روزگار سارنگی نواز استاد بندو خاں کے برادر نسبتی استاد چاند خاں دہلوی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ 1937ء میں شاہد احمد دہلوی نے ایس۔ احمد کے نام سے کلاسیکی گائیک کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے پروگراموں میں شرکت کرنا شروع کر دیا اور 1947ء تک وہ مسلسل موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتے رہے۔

    شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا اور 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں دوبارہ اسی پرچے کا آغاز کیا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک میں شامل رہے اور خوب کام کیا۔ انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آئے تو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین رقم کیے جن کا مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ 1962ء میں شایع ہوا اور ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئے۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ ان کی دو اہم کتابیں ہیں اور کئی تراجم ان کی زبان دانی اور قابلیت کا نمونہ ہیں۔

    حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز نے ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اصطلاح سے اتفاق نہ کیا، جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح انہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔ مارکیز اپنی تحریروں کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔

    عصرِ حاضر کے سب سے بڑے ناول نگار کا درجہ رکھنے والے مارکیز نوبیل انعام یافتہ ادیب تھے۔ ان کے شہرۂ آفاق ناولوں میں ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ شامل ہے۔ آج مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

    گیبریئل گارشیا مارکیز اپنے عہد میں سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار بھی کہلائے۔ 2014 میں مارکیز 87 برس کی عمر میں‌ آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

    مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

    گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔

    (1967) One Hundred Year of Solitude
    (1975) The Autum of the Patriarch
    (1985) Love in the Time of Cholera
    (2002) Living to Tell the Tale

    1927ء میں مارکیز نے کولمبیا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کیمسٹ تھے اور بیٹے کی پیدائش کے بعد انھوں نے بغرضِ کاروبار اپنا قصبہ چھوڑ دیا اور بڑے شہر میں منتقل ہوگئے۔ وہاں مارکیز کے ریٹائرڈ کرنل دادا، دادی اور آنٹی رہتی تھیں جن کے زیرِ سایہ مارکیز نے تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور ان کے ساتھ مارکیز کو تفریح اور گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، اور ناول نگاری کا آغاز 1961 میں کیا۔ اس وقت وہ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہوچکے تھے۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے مسلسل لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور مارکیز نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔

    عالمی شہرت یافتہ مارکیز ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ وہ اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار میں تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی۔ اس وقت ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

    اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار خاندان اور شہر کے وہ لوگ تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے قریب سے دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا تھا۔

    میکسیکو میں‌ مارکیز کی موت کی اطلاع نے فضا کو سوگوار کردیا تھا۔ لوگ ان کو بہت چاہتے تھے۔ مداحوں کی بڑی تعداد نے مارکیز کا آخری دیدار کیا دنیا بھر سے اہلِ علم شخصیات، قلم کاروں اور مشہور لوگوں نے تعزیتی پیغامات کے ساتھ انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

  • آلیور گولڈ اسمتھ: ایک ایسا ادیب جس نے اپنی نرم دلی اور سخاوت کے ہاتھوں نقصان اٹھایا

    آلیور گولڈ اسمتھ نے بطور ادیب اور شاعر شہرت تو حاصل کی مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کا پیشہ طبّ تھا اور آلیور اپنے مطب کی ناکامی کے بعد سنجیدگی سے ادب کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ اس نے انگریزی ادب میں اپنی چند تصانیف کی بدولت نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ آلیور گولڈ اسمتھ ادیب ہی نہیں‌ شاعر بھی تھا، لیکن اس کی وجہِ شہرت نثر نگاری ہے۔

    آلیور کے اجداد انگریز تھے اور وہ پادریوں کے ایک ایسے خاندان میں‌ پیدا ہوا جو ان دنوں آئرلینڈ میں مقیم تھا۔ 1728 کو آنکھ کھولنے والے آلیور گولڈ اسمتھ کی زندگی کا سفر 1774 میں آج ہی کے دن تمام ہوگیا تھا۔

    آلیور نے ٹرنٹی کالج ڈبلن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایڈنبرا اور لیڈن میں طبّ کی تعلیم مکمل کی۔ سند یافتہ طبیب کی حیثیت سے ابتداً اس نے اپنا مطب شروع کیا، لیکن اس میں‌ خود کو کام یاب نہیں پایا۔ اس کی اپنے پیشے میں‌ وقت کے ساتھ دل چسپی کم ہوتی گئی اور اس کا رجحان ادب میں بڑھتا گیا۔ آلیور نے قلم تھاما تو مختلف رسائل کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے۔ یہ سلسلہ آلیور کے ذوق کی تسکین اور شوق کی تکمیل کے ساتھ اس کی وجہِ شہرت تو بنا۔ مگر اس دور میں‌ کئی دوسرے بڑے ادیبوں کے درمیان آلیور جیسے نوجوان کے لیے خود کو منوانا آسان نہیں تھا۔

    پھر وہ وقت آیا کہ آلیور گولڈ اسمتھ کے قلم کی نوک سے ایک ناول تخلیق ہوا اور اس کی وجہِ شہرت بن گیا۔ یہ ناول The Vicar of Wakefield کے نام سے 1766ء میں‌ سامنے آیا۔ اس سے قبل 1770ء میں اس کی ایک نظم The Deserted Village کے عنوان سے ایک ڈرامے The Good-Natur’d Man کا حصّہ بن کر اس کی پہچان بن چکی تھی۔ ان کام یابیوں نے آلیور گولڈ اسمتھ کو بڑا حوصلہ دیا اور پھر اس کی ایک کتاب Citizens of the World منظرِ‌عام پر آئی جس کے بعد وہ ہر خاص و عام میں ایک ادیب کی حیثیت سے مقبول ہوگیا۔

    گولڈ اسمتھ کو انگریزی ادب میں جو مقام ملا وہ اس کے دو کامیڈی ڈراموں کی بدولت ملا۔ ایک کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں اور دوسرا She stoops to Conquer تھا۔ یہ وہ ڈرامے تھے جن کا بعد میں متعدد غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور یہ ڈرامے اسٹیج بھی کیے گئے۔

    گولڈ اسمتھ کے دور میں انگریزی ادب پر جذباتیت غالب تھی۔ فکشن اور المیہ کو معاصر ادیب اہمیت دیتے تھے مگر آلیور گولڈ اسمتھ نے اپنی تخلیقات میں حقیقت پسندی کو رواج دیا۔

    کہتے ہیں کہ گولڈ اسمتھ نے اپنی تصانیف سے کافی کمایا لیکن مالی طور پر خوش حال نہیں‌ ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ اس کی وہ دریا دلی اور سادگی تھی جس کا دوسرے لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے۔ اس کی طبیعت ایسی تھی کہ کسی کو پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا اور کوئی اپنی مجبوری اور مسئلے کا ذکر کرتا تو وہ اس کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہو جاتا تھا۔ آلیور اپنی اس نرم دلی کے ہاتھوں نقصان میں‌ رہا۔

    آج اگرچہ آلیور گولڈ اسمتھ کا تذکرہ ایک بڑے مصنّف اور ڈرامہ نگار کے طور پر بہت کم ہی ہوتا ہے، لیکن انگریزی ادب کی تاریخ پڑھیں تو اس ادیب اور شاعر کا تذکرہ بھی ملے گا۔ برطانیہ، بالخصوص آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی چند شاہراہیں بھی اس مصنّف سے موسوم ہیں اور کئی مقامات پر آلیور گولڈ اسمتھ کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    گوگول کو روسی ادب میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا، اُسے سمجھنے کے لیے مشہور ناول نگار دوستوفسکی کا یہ جملہ کافی ہے، ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

    اوور کوٹ بلاشبہ سلطنتِ روس کے اس عظیم قلم کار کی شاہ کار کہانی ہے۔ اوور کوٹ کی کہانی ایک سرکاری کلرک کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کہانی ایک غریب آدمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور اس کی تذلیل کی کہانی ہے۔ یہ سماج میں اُن لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتا ہے جو خود کو طبقۂ اعلیٰ اور اشرافیہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ گوگول کا کمال یہ ہے اس نے ایک کلرک کی توہین اور بے عزّتی کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ سماج کے تمام انسانوں کی تذلیل اور بے توقیری ہے۔

    نکولائی گوگول کا آبائی وطن یوکرین تھا جو اُس دور میں روسی سلطنت کا حصّہ تھا۔ سرد جنگ کے بعد یوکرین بھی متحدہ روس سے الگ ہوگیا اور خود مختار ملک بنا۔ بادشاہت کے زمانے میں یہاں 1809ء میں نکولائی واسیلیوچ گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ گوگول کے نام سے معروف ہے۔ اج اس ناول نگار کا آبائی وطن روس کی جانب سے جنگ کے بعد تباہی دیکھ رہا ہے۔ گوگول نے اپنی زندگی ہی میں روسی سلطنت میں ممتاز ادیب اور ناول نگار کے طور پر شہرت سمیٹ لی تھی۔ اس نے سماج میں غلامی کا دور دورہ دیکھا اور سلطنت میں عوام کو مختلف طبقات میں‌ بٹا ہوا پایا تھا۔ زمین دار، اُن کے ساتھ کسان اور محنت کش طبقات اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کی زد پر تھے۔ ظلم کی مختلف شکلیں، جبر اور استحصال عام تھا۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھنا شروع کیا۔

    وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہوا۔ وہ اُس زمانے میں‌ بطور ڈرامہ نویس تھیٹر سے منسلک تھے۔ گوگول کے چند دیگر اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے وابستہ تھے۔ نکولائی گوگول نے انہی سے متاثر ہو کر فن و تخلیق کا سفر شروع کیا تھا۔ اسے اداکاری کا شوق بھی تھا۔ نکولائی گوگول کو حصولِ تعلیم کے زمانے میں ہوسٹل میں رہنا پڑا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرکے سینٹ پیٹرس برگ کا رخ کیا۔ اسے سرکاری نوکری کی خواہش تھی جس کے حصول میں وہ ناکام رہا۔ تب اس نے تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گوگول نے اس مقصد کے لیے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر سے کچھ رقم چرا کر نکل پڑا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ اس عرصہ میں وہ کہانیاں لکھنے لگا تھا اور اب خیال آیا کہ انھیں کتابی شکل میں قارئین تک پہنچائے۔ وہ یہ توقع نہیں‌ رکھتا تھا کہ اُسے اس قدر پسند کیا جائے گا اور اس کتاب کی بدولت وہ ملک گیر شہرت حاصل کر لے گا۔ لیکن قسمت اس پر مہربان تھی۔ اس کی کہانیاں 1831ء اور 1832ء میں‌ قارئین کی بڑی تعداد تک پہنچیں اور لوگوں‌ نے اسے بہت سراہا۔

    گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ کو اپنی جانب متوجہ پایا تو 1835ء میں‌ اس ن ے قزاقوں‌ پر اپنا تاریخی ناول تاراس بلبا بھی شایع کروایا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بعد کے برسوں‌ میں اس ناول کا شمار روسی ادب کے شاہ کار ناولوں‌ میں کیا گیا۔ اگلے سال نکولائی گوگول نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ عوام نے تو اسے بہت پسند کیا لیکن اس ناول پر وہ سلطنت میں‌ زیرِ عتاب آیا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا اور یہ ناول بھی روسی ادب میں ایک شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار اور لائقِ‌ ملامت تصوّر کرنے لگا۔ اس کیفیت میں 1852ء میں‌ گوگول نے اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا تھا اور اسی برس 21 فروری کو چل بسا۔

    آج اٹھارہویں صدی کے اس ادیب کا یومِ وفات ہے جس نے روزمرّہ کی زندگی کو اپنے نقطۂ نگار سے دیکھا اور اپنے انداز سے پیش کیا اس کی کہانیوں میں سماج اور افراد پر گہرا طنز اور ایسا مزاح ملتا ہے جس کا اثر آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کہانیوں میں اثر پذیری کی بڑی وجہ گوگول کی وہ حقیقیت نگاری ہے جسے اس وقت روایات سے انحراف اور سماج سے بغاوت تصوّر کیا گیا۔

  • حکیم احمد شجاع: انشاء پرداز، شاعر اور ادیب

    حکیم احمد شجاع: انشاء پرداز، شاعر اور ادیب

    اردو زبان و ادب کی کئی نابغۂ روزگار شخصیات اور اہلِ قلم کو آج ہم فراموش کرچکے ہیں‌۔ نئی نسل نے ان کے نام، ادب میں ان کے مقام و مرتبے سے واقف نہیں۔ حکیم احمد شجاع بھی ایک انشا پرداز، افسانہ نگار، فلمی مصنّف اور شاعر تھے لیکن ان کا تذکرہ آج بہت کم ہوتا ہے۔ آج حکیم احمد شجاع کی برسی ہے۔

    1969ء میں وفات پانے والے حکیم احمد شجاع نے تقسیمِ ہند سے قبل چند فلموں‌ کے مکالمے تحریر کیے تھے، لیکن پاکستان میں‌ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم شاہدہ تھی جو 1949ء میں‌ ریلیز ہوئی۔ حکیم صاحب نے لاہور میں سنہ 1896ء میں‌ آنکھ کھولی۔ اسی شہر سے میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کی سند لی۔ میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے اور 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہونے کے بعد سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے تھے۔ حکیم احمد شجاع مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ انھوں نے علّامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کی تھیں۔

    1948ء سے 1969ء تک مجلسِ زبان دفتری کے سیکرٹری کے طور پر حکیم احمد شجاع نے خوب کام کیا، لیکن رسالہ "ہزار داستان” اور بچوں کے لیے "نونہال” کا اجرا کر کے بھی انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ خود کو مشغول رکھا۔ حکیم احمد شجاع کی خود نوشت "خوں بہا” کے نام سے شایع ہوئی جب کہ ایک مشہور تصنیف لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ پر "لاہور کا چیلسی” کے نام سے تھی۔

    حکیم احمد شجاع افسانہ اور ناول نگاری میں بھی معروف ہوئے اور ان کا ناول "باپ کا گناہ” بہت مشہور ہوا جسے انھوں نے ڈرامہ کے طرز پر لکھا تھا۔ یہ ناول 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول کی کہانی پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کام یاب فلمیں بنائی گئیں۔

    بطور مصنّف حکیم احمد شجاع کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ کے تمام گیت بھی خود انھوں نے لکھے اور ان کی موسیقی بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں نے ترتیب دی تھی، لیکن اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوسکا۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم احمد شجاع کو بطور فلمی شاعر کام یابی نہیں ملی۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو زبان کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ افسانے اور ناول کےعلاوہ ان کے منفرد طرزِ تحریر اور شان دار اسلوب میں ان کی خود نوشت اور دیگر کتب بھی ان کی یاد دلاتی ہیں۔ حکیم احمد شجاع لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔