Tag: ادیب برسی

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جسے کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جسے کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا

    آپ نے کبھی "کہانیوں کا کارخانہ” بھی سنا ہے۔ یہ الفاظ ایک بہت بڑے فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوما کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ ڈوما نے پہلے ڈرامے لکھے، پھر کہانیاں لکھیں۔ کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہونی شروع ہوئیں تو اس نے خود لکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیبوں کو پیسے دے کر بھی لکھوانا شروع کیا۔ اسی لیے اس کو کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا تھا۔

    آج اس فرانسیسی ادیب کا یومِ وفات ہے اور یہ تعارفی سطور اس کے مشہور ناول کے اردو ترجمہ کے پیش لفظ سے لی گئی ہیں جو مسعود برکاتی صاحب نے لکھا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور فرانسیسی ناول لکھنے والے کو نصیب نہیں ہوئی۔ ڈوما نے پانچ سو کے قریب ناول لکھے۔ اس کی کئی کتابیں فرانس سے باہر بھی مشہور ہیں۔ کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے اور آج بھی ان کو پوری دنیا میں دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ڈوما نے تاریخ کو کہانی کے ساتھ ملایا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈوما کی چند کتابیں ”تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہیں۔ ڈوما نے اپنی کہانیوں سے خوب کمایا، مگر جب وہ 1870ء میں مرا تو اس کے پاس کچھ نہ تھا۔

    اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہے۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز ہیں کہ یقین نہیں آتا، لیکن پڑھنے والا ہر وقت آگے کیا ہوا کو جاننے کے شوق میں پڑھتا چلا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ادیب کہا جاتا ہے جسے بعد میں دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔ اس نے 5 دسمبر 1870ء کو وفات پائی۔ الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک قصبہ میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لکھنے لکھانے کا شغف اپنایا اور ایک ڈرامہ نویس کے طور پر سفر شروع کیا۔ بعد کے برسوں میں اس نے جو کہانیاں‌ لکھیں وہ بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا تجسس بڑھاتے ہیں اور ان کی دل چسپی کہانی کے انجام بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی کہانیاں‌ قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات کی وجہ سے اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    الیگزینڈر ڈوما کا باپ پہلا افریقی فرانسیسی جنرل تھا جس نے فرانس کی طرف سے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور فوجی کارنامے سرانجام دیے۔ اس کی ماں افریقی تھی۔ بعد میں فرانس میں سیاسی صورت حال بدلی اور نپولین کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی تو وہاں‌ غلامی کا بھی دوبار رواج پڑا اور تعصب و نسلی منافرت کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ نپولین ذاتی طور پر افریقوں کے سخت خلاف تھا اور چوں کہ ڈوما کا باپ ایک افریقی عورت کے بطن سے پیدا ہوا تھا، اس لیے اسے بھی تعصب کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ مصنّف نے اپنے باپ کی ان تمام تکالیف کو اپنے ناول میں بیان کیا ہے۔ الیگزنڈر ڈیوما نے اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مشکلات پر مضامین بھی لکھے۔ خود الیگزینڈر ڈوما کی زندگی پر مبنی ایک فلم متنازع قرار پائی۔ انیسویں صدی کے اس افریقی فرانسیسی مصنّف کے روپ میں اس فلم میں ایک گورے کو دکھایا گیا جس پر نسل پرستی کی بحث چھڑ گئی۔ یہ 2010ء کی بات ہے اور اس فلم کا نام ” لا ائیٹو ڈیوما” تھا۔ ڈوما کا کردار ایک معروف فرینچ اداکار جراد ڈیپارڈیو کو دیا گیا اور اس کے لیے اداکار کو اپنا جسم کالا کرنا پڑا جس پر کہا گیا کہ فرینچ فلم انڈسٹری نے انیسویں صدی کے ایک عظیم ناول نگار کو دانستہ طور نیچا دکھانے کے لیے ان پر مبنی فلم میں ایک سفید فام کا انتخاب کیا۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کوئی فرینچ اور افریقی مشترکہ کردار کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔

    ڈوما فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر درجنوں فلمیں‌ بنائی‌ جاچکی ہیں‌۔

  • احمد عقیل روبی: شاعر، ادیب اور معلّم

    احمد عقیل روبی: شاعر، ادیب اور معلّم

    احمد عقیل روبی نے اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، سوانح اور تذکرے، شعری مجموعے اور غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دیں وہ درس و تدریس سے بھی وابستہ تھے۔

    آج احمد عقیل روبی کی برسی ہے۔ وہ ادبی نقّاد، ڈرامہ نگار، فلمی کہانی نویس اور شاعر تھے۔ 23 نومبر 2014ء کو احمد عقیل روبی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    ان کا خاندان لدھیانہ کا تھا۔ احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کی۔ بعد ازاں لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے احمد عقیل روبی نے ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    احمد عقیل روبی ایک اچھے شاعر بھی تھے اور فلمی دنیا کے لیے کئی لازوال گیت تحریر کیے جس پر انھیں نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ احمد عقیل روبی نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے نغمات لکھے۔ وہ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ اور فلسفہ و اساطیر پر گہری نظر رکھتے تھے۔ احمد عقیل روبی کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں سے فکر و دانش اور ان کا وسیع مطالعہ جھلکتا ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری کرتے تھے، لیکن جب ان کی ملاقات ممتاز شاعر قتیل شفائی سے ہوئی تو انھیں احساس ہوا کہ یہ شاعری بہت عام اور ان کے ناپختہ خیالات پر مبنی ہے۔ تب احمد عقیل روبی نے اپنا کلام ضایع کر دیا مگر مشقِ سخن جاری رکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ احمد عقیل روبی کہتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ یورپ اور مغربی مصنّفین پر احمد عقیل روبی نے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر مضامین رقم کیے جو احمد عقیل روبی کا یادگار کام ہے۔

    شاعر، ادیب اور نقّاد احمد عقیل روبی کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    جیک لندن نے تکلیف دہ زندگی اور مشکلات کو شکست دے کر ادب اور صحافت کی دنیا میں شہرت پائی تھی۔ اس کا شمار امریکا کے مقبول ناول نگاروں‌ میں ہوتا ہے۔

    ایک وقت تھا جب جیک لندن پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور تھا۔ جب قسمت نے یاوری کی تو وہ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ آٹو گراف لینے کے لیے اس گرد جمع ہوجاتے۔ جیک لندن کے فن و تخلیق کو عالمی ادب میں سراہا گیا۔

    جیک لندن کا تعلق امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے تھا۔ وہ 12 جنوری 1876ء کو پیدا ہوا۔ جیک لندن کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ غربت اور افلاس کا عالم یہ تھا کہ جیک لندن نے نوعمری میں ایسے معمولی کام بھی کیے جنھیں ناگوار اور گھٹیا تصوّر کیا جاتا تھا۔ لیکن جیک لندن لوگوں کی پروا کیسے کرتا؟ اسے ایک وقت کی روٹی چاہیے تھی، سو اس نے ہر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ غربت اور فاقوں سے تنگ آکر جیک لندن نے چوروں اور راتوں رات امیر ہونے کے لیے الٹے سیدھے کام کرنے والوں سے تعلق جوڑ لیا اور ان کے ساتھ وہ کبھی سونے کی تلاش میں نکلا اور کہیں سمندر سے بیش قیمت موتی ڈھونڈنے کے لیے جتن کیے۔

    جیک لندن کی عمر 17 برس تھی جب وہ ایک بحری جہاز پر ملازم ہوگیا اور جاپان کا سفر کیا۔ اُس نے زندگی میں‌ کئی سنسنی خیز اور انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ یہ سب کچھ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر کرتا رہا۔ حال یہ تھا کہ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، جیک لندن کو اس کا ہوش نہ رہتا۔ اس کا اکثر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرتا تھا۔

    وہ ایک ذہین نوجوان تھا جس کا حافظہ قوی تھا۔ جیک لندن نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اُس وقت کام آیا جب اس نے کچھ لکھنے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اس نے وقت گزارنے کے لیے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور یہ ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں اسے خیال آیا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔ جیک لندن نے جب قلم تھاما تو وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ناول نگار اور صحافی کے طور پر شہرت پائے گا۔

    جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی تو جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی۔ 1914ء میں اسے جنگی وقائع نگار کے طور پر منتخب کرلیا گیا اور جیک لندن نے بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔ مگر اس سے قبل وہ ایک کہانی نویس کے طور پر شہرت پاچکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر نہایت مختصر عمر پانے والے جیک لندن نے ایک ولولہ انگیز اور فعال شخص کے طور پر زندگی گزاری۔ مفلسی، مزدوری، سمندر کی دنیا اور اس کے تجربات و مشاہدات نے جیک لندن کو کہانی نویس اور صحافی بنا دیا۔

    امریکہ میں بطور کہانی نویس اس نے 1900ء میں اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تھا۔ اس کی کہانیاں امریکی رسائل میں شایع ہونے لگی تھیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جن کو امریکہ میں قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس ستائش نے جیک لندن کو جم کر لکھنے پر آمادہ کیا۔ شہرت اور مقبولیت کے اس عرصہ میں جیک لندن نے کتّے جیسے وفادار جانور کو اپنی کہانیوں میں‌ پیش کرنا شروع کیا اور واقعات کو اس عمدگی سے بیان کیا کہ لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ مشہور ہے کہ جیک لندن کی بعض کہانیوں کے واقعات سچّے ہیں‌ اور ان کا تعلق مصنّف کی زندگی سے ہے۔ ان میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    امریکہ میں جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھ کر اس زمانے کے مشہور اخبارات اور بڑے جرائد نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ قلم بند کی۔

    جیک لندن نے 1916ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔ اس کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔

  • لائم اوفلاہرٹی: اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار

    لائم اوفلاہرٹی: اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار

    دنیا کی کئی مشہور اور اپنے شعبے میں قابل اور باصلاحیت شخصیات کی طرح لائم اوفلاہرٹی نے بھی بچپن اور نوعمری میں غربت اور معاشی مسائل دیکھے، لیکن ذہانت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت ایک تخلیق کار کے طور پر نام و مقام بنایا۔ لائم اوفلاہرٹی اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار اور ڈرامہ نویس تھا۔

    اوفلاہرٹی کو اپنی مادری زبان اور ثقافت سے بے حد لگاؤ تھا۔ آئرش تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کی ترویج اس کا ایک جنون تھا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی ادب تخلیق کیا اور اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی تخلیقات میں عام لوگوں کے نقطۂ نظر کو پیش کیا اور اس کے افسانے عام آدمی کی زندگی کے تجربات پر مبنی ہوتے تھے۔

    بیسویں صدی کا یہ نام وَر ادیب 28 اگست 1896ء کو آئرلینڈ میں پیدا ہوا اور طویل عمر پائی۔ اس کی زندگی کا سفر 7 ستمبر 1984ء کو تمام ہوا۔ اوفلاہرٹی کا بچپن غربت اور معاشی بدحالی کی وجہ سے کئی محرومیوں کا شکار رہا۔ وہ شروع ہی سے اپنی مادری زبان اور اپنی ثقافت کا دیوانہ تھا۔ اس نے اسکول میں تعلیم کی تکمیل کے بعد اس زمانے کے رواج کے مطابق مذہبی تعلیم بھی حاصل کی۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ مذہبی پیشوا بن کر تبلیغ کا فریضہ انجام دے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 1917ء میں اوفلاہرٹی کو آئرش گارڈز میں بھرتی ہونا پڑا اور دوسرے نوجوانوں کی طرح اسے ایک محاذِ جنگ پر بھیج دیا گیا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کا زمانہ تھا جو لائم اوفلاہرٹی کے لیے خاصا پُرصعوبت اور مشکل ثابت ہوا۔ وہ محاذِ جنگ پر لڑتے ہوئے زخمی ہوگیا اور خاصا عرصہ زیرِ علاج رہا۔ اگرچہ وہ ایک فوجی جوان تھا، لیکن نہ تو وہ سخت دل تھا، نہ ہی لڑاکا۔ اس کے اندر ایک فن کار چھپا تھا۔ وہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا حسّاس طبع نوجوان تھا اور یقیناً‌ جنگ اور خون ریزی اس کے لیے ایک بھیانک خواب تھا۔ وہ مجبوراً آئرش گارڈ کا حصّہ بنا تھا۔ اس جنگ نے اس کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ 1933ء میں اسے دماغی دورہ پڑا جس کا ایک سبب جنگ اور اس میں ہونے والی وہ ہلاکتیں تھیں جو لائم اوفلاہرٹی نے دیکھی تھیں۔ تاہم جنگ کے بعد اس نے اپنا وطن آئرلینڈ چھوڑ دیا اور امریکہ منتقل ہوگیا جہاں کچھ عرصہ ہالی وڈ میں بھی کام کیا۔ امریکہ ہجرت کرنا لائم اوفلاہرٹی کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی لایا تھا۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے وہیں اپنی ادبی زندگی کا صحیح معنوں میں آغاز کیا۔

    1923 میں جب اوفلاہرٹی 27 سال تھا تو اس کی پہلی شارٹ اسٹوری اور ایک ناول شایع ہوچکا تھا۔ بعد میں امریکہ میں رہتے ہوئے اوفلاہرٹی نے انگریزی اور آئرش زبان میں ناول اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے متعدد ناول منظرِ‌عام پر آئے اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ 1950ء میں اوفلاہرٹی کی آخری تخلیق شایع ہوئی تھی۔ لائم اوفلاہرٹی نے شاعری بھی کی۔ اس کے ناولوں میں The Black Soul، The Informer ، The Assassin ، Mr. Gilhooley و دیگر شامل ہیں جن میں سے دی انفارمر سے ماخوذ کہانی کو فلمایا بھی گیا ہے۔ اوفلاہرٹی کے افسانے بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے۔

  • نجیب محفوظ: پہلا عرب نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نجیب محفوظ: پہلا عرب نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نجیب محفوظ عرب دنیا کے پہلے مصنّف تھے جنھیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔

    نجیب محفوظ 17 سال کے تھے جب انھوں نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، لیکن ان کی پہلی تصنیف اُس وقت منظرِ عام پر آئی جب نجیب محفوظ 38 برس کے ہوچکے تھے۔ جب کہ اُن کے ناول کو بھی اشاعت کے 30 سال بعد ادبی انعام سے نوازا گیا تھا۔

    مصر کے اس ادیب کی نوبیل انعام یافتہ تصنیف اُن کے ملک میں متنازع رہی ہے اور اسی بناء پر اُن پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس میں زخمی ہوئے تھے۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ 30 اگست 2006ء میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کا تعلق مصر سے تھا۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ کو 1988ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء میں پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے تیس سے زائد ناول اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ وہ فلم کے لیے اسکرپٹ اور اسٹیج ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ مؤقر روزناموں‌ کے لیے مضامین اور کالم بھی لکھتے رہے۔ نجیب محفوظ کو مصر میں ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے مقبولیت حاصل تھی اور اپنے ناولوں کی وجہ سے انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی۔

    نجیب محفوظ کا بچپن غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے گزرا جب کہ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہونے والے نجیب محفوظ روایت شکن ثابت ہوئے اور اپنے معاشرے کے اُن موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جنھوں نے قدامت پسندوں کی نظر میں‌ نجیب محفوظ کو معاشرے اور مذہب کا باغی ٹھیرایا۔ نجیب محفوظ نے جس عہد میں سانس لی، وہ مصر پر برطانیہ کے قبضے اور انقلابی تحریکوں کا عہد تھا اور اسی کے زیرِ اثر نجیب محفوظ کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

    مصری ادیب نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکے اور لکھنے میں منہمک ہوگئے۔ اپنے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ کا حصّہ بناتے ہوئے انھوں‌ نے کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے جب کہ ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ 80 کی دہائی میں‌ شائع ہوئی۔ یہ ان کی تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مبنی ہے۔ اس کتاب نے مصری قارئین میں ان کی مقبولیت کو بڑھایا جب کہ دنیا بھر میں‌ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی وجہ سے پہچانے گئے۔

  • بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک شاید دنیا کا وہ واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا نام اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے۔ اس کی یہ خواہش پوری ہوئی اور اُسے فرانسیسی ادب کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔

    اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے بالزاک کے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور بالزاک نے ایک حقیقت نگار کے طور پر قلم تھام لیا۔ وہ اُن اہلِ قلم میں سے ایک تھا جنھوں‌ نے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دیا اور اسی وصف کی بناء پر بالزاک کو فرانس میں بہت پسند کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں جب کہ فرانس کے عظیم فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور اس کی بدولت ادب اور فلم کی دنیا میں بالزاک کے پیش رو بھی اس سے بہت متأثر نظر آئے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس اور مضطرب ہوگیا اور اپنے انہی مسائل کے ساتھ وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں قارئین نے بے حد سراہا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کی ایک انفرادیت اس کے لمبے فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک نے 18 اگست 1850ء کو پیرس میں وفات پائی، اسے دنیا سے گزرے ایک صدی اور کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن ایک حقیقت نگار کے طور پر آج بھی اس کا نام زندہ ہے۔

  • ہانز کرسچن اینڈرسن کا تذکرہ جس کے قلم نے ایک حیرت کدہ آباد کیا

    ہانز کرسچن اینڈرسن کا تذکرہ جس کے قلم نے ایک حیرت کدہ آباد کیا

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو یہ دنیا چھوڑے ہوئے ڈیڑھ سو سال بیت چکے ہیں اور یہ مدّت کچھ کم نہیں، لیکن ہانز، اپنے تخیّل سے آباد کردہ جہانِ ادب میں اپنے افسانوی کرداروں کی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ بچّوں ہی نہیں‌ بڑوں‌ کی بھی دل چسپی اور حیرت کا سامان کرتی کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں‌ اُس کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں‌ گی۔

    آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ آج ان پُرلطف اور سبق آموز کہانیوں کے خالق ہانز کرسچن اینڈرسن کا یومِ‌ وفات ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ہانز کو بچّوں کا مقبول ترین ادیب مانا جاتا ہے، جس کی کہانیوں کا دنیا بھر کی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور بچّے ہی نہیں یہ کہانیاں بڑے بھی نہایت دل چسپی اور شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہ قلم کار 4 اگست 1875ء کو وفات پاگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہانز کرسچن اینڈرسن (Hans Christian Andersen) نے بچپن اور نوعمری میں کئی مسائل اور مشکلات دیکھیں، محنت مشقت کی اور پھر بڑا ادیب بنا، ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں ہانز کا ایک مجسمہ بھی نصب ہے جہاں‌ مقامی لوگوں کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے ضرور تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی تخلیق کردہ کہانیوں پر کئی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ہانز کی کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بچّوں‌ کو سچّائی کا درس دیتی ہیں‌ اور ہمّت و حوصلے سے کام لینا سکھاتی ہیں۔

    ہانز کا باپ ایک موچی تھا اور لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتا تھا۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں اچانک والد کا سایہ بھی اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ وہ دس برس کا تھا جب روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ابتدا میں ہانز نے چھوٹی موٹی مزدوری کی، اور ہر قسم کا کام کرتا رہا، پھر ایک اوپیرا میں اسے کام مل گیا، لیکن قسمت نے اس موقع پر بھی مایوسی کے پتّھر اس کے دامن میں بھر دیے۔ کام بن کے نہیں‌ دے رہا تھا۔ وہ کسی طرح‌ دو وقت کی روٹی کے لیے کوئی کام حاصل کر ہی لیتا تھا، مگر اس کے اندر ایک تخلیق کار چھپا ہوا تھا۔ وہ اسے لکھنے پر آمادہ کرتا رہا اور وہ وقت آیا جب ہانز شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ یہاں ہانز کی قسمت اچھی تھی کہ ایک بڑے ادیب سے قریب ہونے کا موقع ملا جس نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے ہانز کو کہا کہ وہ بچّوں کا ادب تخلیق کرے۔ یوں یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس کی شہرت اپنے وطن اور قرب و جوار میں‌ بھی پہنچ گئی۔ ہانز کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں شایع ہوا تھا۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن کا زمانۂ طالبِ علمی اتنا ہی تھا کہ وہ اسکول میں چند جماعتیں پڑھ سکا، لیکن اس عرصہ میں اسے مطالعے کا شوق ہوگیا تھا۔ جب وہ گھر سے کمانے کے لیے نکلنے پر مجبور ہوا تو کوشش کرتا کہ کام کے دوران جب بھی وقت ملے اور کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگ جائے تو بہت توجہ سے پڑھ سکے اور اسے اپنے اندر گویا جذب کرلے۔ اسی ذوق و شوق اور پڑھنے لکھنے کی لگن نے ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بھر میں نام و مرتبہ، عزّت اور بہت پیار بھی دیا۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کے لیے بھی افسانوی ادب تخلیق کیا۔ اس نے پریوں، بھوت پریت کی کہانیوں، انجانی دنیا کے حیرت ناک واقعات کو دل چسپ انداز میں اپنی کہانیوں‌ میں پیش کیا جو بہت مقبول ہوئیں۔

    ہانز کی کہانیاں‌ جادوئی اثر رکھتی ہیں اور اس کی اسی خوبی کے پیشِ نظر دنیا اس کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتابوں کا عالمی دن مناتی ہے۔

  • فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    روس کے افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی فنی کی عظمت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس کی شاہ کار تخلیقات کے تراجم دیس دیس میں‌ پڑھے جاتے ہیں۔ آج چیخوف کا یومِ وفات ہے۔ روس کے اس عظیم قلم کار نے 1904ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    29 جنوری 1860ء میں چیخوف نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں‌‌ اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے پالا پوسا۔ چیخوف کی ماں اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ اسے تھیٹر کا شوق پیدا ہوا۔ انتون چیخوف نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنے تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا، اور اس کے افسانے شاہ کار قرار پائے۔ اپنے وقت کے کئی ادیبوں اور ماہر مترجمین نے چیخوف کی کہانیوں‌ کو اردو زبان میں‌ ڈھالا اور وہ قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    چیخوف ابھی بچپن کی دہلیز پر تھا کہ مالی مسائل نے اس گھرانے کو جکڑ لیا اور اسے غربت اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے لگا جن میں‌ پرندے پکڑ کر انھیں‌ فروخت کرنا بھی شامل تھا۔ اسی زمانہ میں چیخوف نے اسکیچ بنانا سیکھا اور پھر ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔

    وہ کہانیاں تو بچپن سے سنتا آرہا تھا، لیکن اب اس نے خود بھی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چیخوف کا یہ مشکل دور کسی طرح کٹ ہی گیا جس میں وہ ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے خود لکھنے کے قابل ہوچکا تھا، اسے پڑھنے کا شوق تھا اور 1879ء میں چیخوف کو میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا، لیکن اس کے لیے تعلیمی اخراجات پورا کرنا آسان نہ تھا، وہ زیادہ محنت کرنے لگا اور ہر وہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدن ہوسکتی تھی تاکہ گھر کے اخراجات بھی پورے کرسکے۔

    تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چیخوف نے فن و ادب سے متعلق اپنی سرگرمیاں‌ جاری رکھیں اور ایسے اسکیچز بناتا رہا، جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے اور اس معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف قارئین کو متوجہ کرتے۔ چیخوف کو ان اسکیچز کی بدولت پہچان ملنے لگی اور وہ قارئین میں‌ مقبول ہونے لگے جس پر اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کردی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے بھی لگا تھا۔ چیخوف نے تھیٹر کے لیے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اس میدان میں‌ بھی کام یابی اس کا مقدر بنی۔ اس کا تحریر کردہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا جس کے بعد چیخوف نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کر دی۔

    ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف کی تعلیم مکمل ہوئی اور 1884ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔ چیخوف ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کردیا۔ لیکن بعد کے برسوں میں اس نے یہ پیشہ ترک کردیا تھا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ اس نے اپنی جگہ نہ صرف علمی و ادبی حلقوں‌ میں بنا لی تھی بلکہ اس کی بڑی کام یابی عام لوگوں میں اس کی تخلیقات کی پذیرائی تھی۔ سو، چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروا دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ روس کے مقبول ترین ادیبوں میں شمار کیا جانے لگا۔

    چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ اس کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔ انتون چیخوف کی تاریخِ وفات 15 جولائی ہے۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ محض 44 برس تک زندہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن کے آئینے میں

    احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن کے آئینے میں

    احمد ندیم قاسمی کی ادبی شخصیت کے بہت سے رنگ ہیں اور ان کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے بلکہ اس کی کئی جہتیں ہیں۔ ادبی دنیا میں‌ احمد ندیم قاسمی کی توجہ، حوصلہ افزائی اور شفقت کی بدولت کئی نام بطور ادیب، شاعر اور نقّاد آج پہچان رکھتے ہیں اور اکثر نے ادب اور فنونِ لطیفہ میں بڑا مقام و مرتبہ پایا۔ آج احمد ندیم قاسمی کا یومِ وفات ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ایک بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور کالم نویس تھے جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اس زمانے میں‌ انھیں‌ دو مرتبہ گرفتار بھی کیا گیا۔ اُن کا انتقال 10 جولائی 2006ء کو ہوا تھا۔ وہ ان شخصیات میں سے ایک تھے جو اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ادب کی دنیا پر چھائے رہے۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم پانے کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا جو دیہاتی ماحول میں رہے اور اسی نے ان کے اندر فطرت سے لگاؤ اور خوب صورت مناظر میں دل چسپی پیدا کردی تھی جس کی جھلک ہم ان کے افسانوں اور فکشن میں‌ بھی دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے دیہات اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    والد کا انتقال ہوچکا تھا اور اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے سرپرست چچا کے ہاں مقیم تھے، جن کا تبادلہ شیخو پورہ ہوا تو وہ بھی شیخو پورہ چلے گئے اور وہاں ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:

    ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    یہ 1931ء کی بات ہے جب تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے اور ان کو فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا۔ شاعری کے ساتھ اُسی دور میں وہ افسانہ نگاری کی طرف بھی آگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کر کے اس کے مصنّف کی تعریف کی اور پھر منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوگیا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی اور وہ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں شریک ہوتے رہے۔ امریکا، جرمنی اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے والے قاسمی صاحب نے ابتدائی زمانے میں سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوگئے لیکن یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے۔ قاسمی صاحب نے فنون کی بنیاد رکھی اور یہ ادبی رسالہ بھی ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    پاکستان میں فنون جیسے مشہور اور مقبول ادبی جریدے کی ادارت کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کو بہت سراہا اور ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔

    وہ پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق تھے۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تراجم کی طرف بھی توجہ دی۔ ان کی کتابوں کی فہرست طویل ہے جن میں‌ چند نام یہ ہیں:‌ افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا اور تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابوں‌ میں تہذیب و فن، ادب اور تعلیم کے رشتے، علّامہ محمد اقبال اور اسی طرح‌ میرے ہم قدم شخصی خاکے کا مجموعہ تھا جب کہ فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔

    پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر سے ممتاز علمی و ادبی شخصیات نے احمد ندیم قاسی کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی پیغامات میں‌ کہا کہ فنون و ادب کی دنیا میں ان کے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے، وہ کبھی پُر نہیں‌ ہوسکے گا۔ بلاشبہ احمد ندیم قاسمی اپنی شخصیت اور فن کی بدولت اردو زبان و ادب پر اپنا گہرا نقش چھوڑ گئے، جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔

  • ‘ہیومن کامیڈی’ سے شہرت پانے والے بالزاک کا تذکرہ

    ‘ہیومن کامیڈی’ سے شہرت پانے والے بالزاک کا تذکرہ

    بالزاک شاید دنیا کا واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ لکھنا چاہتا تھا اور اپنا نام ان لوگوں میں شامل کروانے کا خواہش مند تھا جنھیں ان کے کام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ بالزاک اس مقصد میں کام یاب رہا۔ اس کا نام فرانسیسی زبان کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شامل ہے۔

    اونورے بالزاک 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ بالزاک نے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازم ہوگیا۔ لیکن اس دوران لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ پبلشنگ اور پرنٹنگ کی طرف بھی گیا، لیکن مالی آسودگی نصیب نہ ہوئی اور پھر ادب تخلیق کرنا ہی اس کا مشغلہ ٹھیرا۔ بالزاک نے متعدد شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، جن میں اس کے ناولوں کی تعداد 97 ہے۔ بوڑھا گوریو اس کا ایک مقبول ناول ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین نے بے حد پسند کیا۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی کو کزن سے محبت ہو جاتی ہے۔ فرانسیسی ناول نگار ہنری ڈی بالزاک کی یہ تخلیق انقلابِ فرانس کے بعد فرانسیسی معاشرے میں‌ جنم لیتے نئے رحجانات کے پس منظر میں ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے اور جزئیات نگاری بھی کمال کی ہے۔

    اونورے بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک واقعہ بھی نہایت دل چسپ ہے اور یہ وہ موقع تھا جب اس گھر میں اس کی بہن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں، بالزاک کے تمام رشتے دار ایک کمرے میں موجود تھے جہاں مصنّف نے اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ انھیں پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ جب وہ خاموش ہوا اور منتظر تھا کہ اب یہ سب اس کی تعریف کریں گے تو بالزاک کو شدید مایوسی ہوئی۔ سب نے کہا "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان مصنّف نے اس بات کو مسئلہ نہیں بنایا۔ وہ مسلسل لکھتا رہا اور ایک دن ایسا آیا جب فرانس میں اس کا چرچا ہوا اور بعد میں‌ دنیا بھر میں بالزاک کو مصنّف اور ناول نگار کے طور پر شہرت ملی۔ بالزاک نوٹ بک اور پنسل ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرانس کی تاریخ کو ناولوں میں بیان کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ جہاں بھی جاتا تھا، بالخصوص وہاں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا تھا اور بعد میں ان پر اپنے کرداروں کے ساتھ کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا اور کسی ناول میں انہی درختوں کے درمیان یا گرد و نواح میں اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقی اور سچّی کہانی معلوم ہوتی۔ بالزاک چاہتا تھا کہ وہ ہر سال دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے لکھے اور اس نے ایسا ہی کیا۔

    بالزاک لمبے فقرے لکھتا ہے اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل ہوتی ہے۔ بالزاک کو اس کے طرزِ تحریر سے زیادہ اس لیے ایک بڑا ادیب کہتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور یہ کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے ایسا کام لوں گا کہ لوگ فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اونورے بالزاک نے اپنی یہ بات پوری کر دکھائی اور فرانسیسی معاشرے میں انسانوں‌ کا گویا پوسٹ مارٹم کردیا۔ اس نے جو کردار تخلیق کیے، آج بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور یہی نہیں‌ بلکہ وہ ایسے کردار تھے جو ہمیں اپنے معاشرے میں بھی ملیں گے۔

    اس کی وجہِ شہرت ہیومن کامیڈین کے عنوان کے تحت اس کی تخلیقات کی اشاعت بنا اور قارئین پر کھلا کہ اونورے بالزاک نے واقعی معاشرے کے ہر شعبے سے کردار، ہر گلی کوچے سے واقعات سمیٹے تھے جن سے سبھی واقف تھے، لیکن بالزاک نے انھیں بہت خوبی سے بیان کیا، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کو بیان کرتے ہیں۔

    بالزاک 18 اگست 1850ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا، لیکن آج بھی اس کا نام فرانس کے مقبول ناول نگاروں‌ میں‌ شامل ہے اور اس کی تخلیقات بڑے ذوق شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔