Tag: ادیب برسی

  • سال بیلو کا تذکرہ جس کی تحریریں یہودی اساطیر میں ڈوبی ہوئی ہیں!

    سال بیلو کا تذکرہ جس کی تحریریں یہودی اساطیر میں ڈوبی ہوئی ہیں!

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار سال بیلو کا قلم سے رشتہ اور تخلیقی سفر تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط رہا۔ وہ 2005ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اس امریکی ناول نگار کو جنگِ عظیم کے بعد کا دانش وَر بھی کہا جاتا ہے جس کی وجہ ان کے مخصوص فکر کے حامل کردار تھے۔ سال بیلو نے کہا تھا ’میں جو دیکھتا ہوں، اس سے تجاوز نہیں کر سکتا، دوسرے لفظوں میں، مَیں اُس تاریخ نویس کی مانند ہوں جو اُس خاص عہد کا پابند ہے جس کے بارے میں وہ لکھ رہا ہے۔‘ لیکن سال بیلو کی تاریخ نویسی ذاتی اور مخصوص نوعیت کی تھی۔ یہ دراصل ان کی یہودی شناخت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل تھے جس کو انھوں‌ نے کرداروں کی صورت میں‌ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    انھیں 1976ء میں‌ نوبیل انعام سے نوازا گیا اور تسلیم کیا گیا کہ ان کی تخلیقات میں تنوع ہے۔ سال بیلو کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کے کردار بڑے جان دار تھے۔ انہی کرداروں کے بَل پر مصنّف نے اپنی کہانیوں کو خوبی سے پھیلایا اور خاص تھیم پر لکھا۔ اس کی مثال ان کے ناول ’آگی مارچ کی مہمات‘ (1953)، ’ہینڈرسن دی رین کنگ‘ ( 1959) اور ’ہرزوگ‘ (1964) ہیں۔ ادب کے ناقدین کردار نگاری ہی کو ان کی تخلیقات کا نمایاں وصف قرار دیتے ہیں۔ اس میں ہرزوگ کو خاص مقام حاصل ہے۔ ہرزوگ دراصل ایک دانش ور کردار ہے جس کے ذریعے بیلو نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس ’ہی مین‘ والے عہد میں ایک دانش ور گویا وہ نامرد ہے جو صرف سوچتا رہتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ بیلو کے بیشتر کردار دانش وروں کے اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ایک خاص قسم کا مزاح بھی ہے۔

    مرزا اے بی بیگ نے سال بیلو کی وفات پر اپنی تحریر میں‌ لکھا تھا کہ ناقدین کی بڑی تعداد بیلو کے ناولوں کو مختلف پیرائے، بیانیہ اور مابعد جدیدیت کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے، لیکن ایڈورڈ سعید اور چومسکی جیسی قد آور شخصیات نے بیلو کے فکشن اور غیر فکشن میں ان کے سیاسی نظریے کو کھول کر رکھ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بیلو مشرق وسطی کے مسئلے پر کسی حد تک صیہونیت کے حامی اور علم بردار ہیں۔
    ایک زمانے تک سال بیلو نے خود کو ’یہودی-امریکی ادیب‘ کے لیبل سے آزاد اور الگ رکھنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم یہ اب ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کے ناولوں میں یہودیت ایک عام بحث کا موضوع ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سال بیلو کی تحریریں یہودی اساطیر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ امریکا میں یہودی شناخت ان کا مسئلہ رہا۔ اسی وابستگی کے پس منظر میں‌ معاشرہ اور انسان ان کی تخلیقات پر حاوی نظر آتا ہے، لیکن جب دنیا بھر کے ادیب اور دانش ور اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے تو سال بیلو اس سے دور رہے۔ اسی طرح وہ اپنے انٹرویوز اور گفتگو میں‌ بھی اس بابت اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے سے گریز کرتے رہے۔

    بیلو نے 1915ء میں مانٹریال کے مشہور علاقے کیوبک میں آنکھ کھولی تھی۔ 1924 میں ان کا خاندان شکاگو منتقل ہو گیا۔ وہ 17 سال کے تھے جب والدہ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ 1933 میں سال بیلو نے شکاگو یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر ایک اور سستی جگہ پر منتقل ہوکر وہاں درس گاہ میں‌ داخل ہوئے۔ انھوں نے وسکونسن یونیورسٹی میں گریجویشن ادھوری چھوڑ دی تھی۔

    اس امریکی ناول نگار کی پہلی تصنیف ’ڈینجلنگ مین‘ ہے جسے انھوں نے 1944 میں شائع کروایا تھا۔ سنہ 2000ء میں‌ سال بیلو کی آخری تصنیف ’ریولسٹائن‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئی تھی۔ بیسویں صدی کے انگریزی کے اس اہم ناول نگار کو ادب کے کئی معتبر ایوارڈز اور انعامات سے نوازا گیا جن میں‌ فکشن کا پلٹزر پرائز بھی شامل ہے جب کہ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کے لیے بھی ان کا نام فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

  • پرچون کی دکان والے اپندر ناتھ اشکؔ کا تذکرہ

    اپندر ناتھ اشکؔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اردو افسانے کا جھنڈا بلند کیے آگے بڑھتے رہے اور ان کے زرخیز ذہن نے خود کو معاشرے کا زبردست نباض ثابت کیا۔ انھوں نے ہندوستانی معاشرے میں خود کو ایک ناصح کے طور پر پیش کیا جس کی کہانیوں پر اخلاقی رنگ غالب رہا۔ افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشک 1996ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اشک نے طویل عرصہ تک اصلاحی کہانیاں‌ لکھیں اور ان کا قلم اپنے وطن کی معاشرت میں‌ خامیوں، اور لوگوں کی کم زوریوں‌ کی نشان دہی کرتا رہا۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست کو بھی دخل رہا، لیکن یہاں بھی ان کا انداز ناصحانہ ہے اور وہ خرابیوں کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں۔

    اپندر ناتھ اشک اردو زبان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس مشہور ہوئے، اور پنجابی زبان میں‌ شاعری بھی کی۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا۔ اشک نے 14 دسمبر 1910ء کو جالندھر میں آنکھ کھولی۔ 1930ء تک لاہور میں رہائش پزیر رہے اور بعد میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز پنجابی شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ ایک بڑا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزارنے والے اپندر ناتھ اشک جب بمبئی میں رہائش پذیر ہوئے تو وہاں انھیں فلم نگری سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ ان کا ریڈیو سے بڑا گہرا تعلق رہا اور وہاں ان کے کئی ریڈیائی ڈرامے اور اسکرپٹ کام یاب ہوئے اور ان کا یہ تجربہ فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کرنے میں‌ معاون رہا۔

    اپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔

    اشک نے 85 سال کی عمر میں الٰہ آباد میں وفات پائی۔

    ان کے بارے میں معروف براڈ کاسٹر، محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ایک مضمون میں لکھا تھا:

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • ‘خدا کی بستی’ کے خالق شوکت صدیقی کا تذکرہ

    ‘خدا کی بستی’ کے خالق شوکت صدیقی کا تذکرہ

    خدا کی بستی شوکت صدیقی کا معرکہ آرا ناول ہے جسے 1960ء میں آدم جی ادبی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ شوکت صدیقی اردو ادب کے ایک مقبول ناول اور افسانہ نگار تھے جن کی آج برسی ہے۔

    شوکت صدیقی فکشن نگاری کے علاوہ صحافی اور کالم نویس کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ 18 دسمبر 2006ء کو کراچی میں وفات پانے والے شوکت صدیقی کے مشہور ناول خدا کی بستی کی ڈرامائی تشکیل پی ٹی وی پر پیش کی گئی تھی اور یہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ وہ ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو شہر کے راستے سنسان ہو جایا کرتے تھے۔ یہ ڈرامہ تین مرتبہ نشرِ مکرر کے طور پر پیش کیا گیا اور 42 زبانوں میں ان کے ناول کا ترجمہ ہوا۔

    شوکت صدیقی 20 مارچ 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ شوکت صدیقی کا ایک اور مشہور ناول جانگلوس ہے اور اسے بھی پاکستان ٹیلی وژن پر ڈرامائی تشکیل کے بعد نشر کیا گیا۔ لیکن اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اس زمانے میں بعض پالیسیاں رکاوٹ بن گئیں اور اس ڈرامے کی تمام اقساط نشریات کا حصّہ نہیں بن سکیں۔ اس ناول کا موضوع بھی مظلوم طبقات کی بے بسی ہے جس میں‌ وڈیرے اور ان کے جرائم و مظالم کے علاوہ سیاست اور قانون کی کم زوریوں اور مفاد کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اس پر پابندی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جانگلوس استحصالی قوتوں کی قلعی کھولتا ہے خاص طور پر جاگیرداری نظام کی۔ اور امراء کے گھناؤنے کردار اور بدترین روپ کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ یہ ناول ڈائجسٹ ’’سب رنگ‘‘ کراچی میں قسط وار شائع ہوتا رہا اور بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوا تھا۔ یہ ناول تین جلدوں پر محیط ہے۔

    پاکستان کے اس ممتاز فکشن رائٹر کی دیگر تصانیف میں افسانوں کے مجموعے راتوں کا شہر، رات کی آنکھیں، کوکا بیلی، کیمیا گر، شریف آدمی جب کہ ناول چار دیواری اور کمین گاہ شامل ہیں‌۔ ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    شوکت صدیقی روزنامہ انجام اور مساوات کے مدیر بھی رہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے 2002ء میں انہیں کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا تھا جب کہ 2004ء میں عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈ بھی شوکت صدیقی کو دیا گیا تھا۔

    انتظار حسین کہتے ہیں، ‘شوکت صدیقی نے لوگوں‌ کے لیے لکھا اور لوگوں کے بارے میں‌ لکھا۔’

    انھیں‌ کراچی کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ‌‌ خاک کیا گیا۔

  • ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کے مصنّف عزیز احمد کا تذکرہ

    ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کے مصنّف عزیز احمد کا تذکرہ

    عزیز احمد کو جہاں اردو ادب میں افسانہ نگار، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، وہیں‌ عالمی سطح پر انھیں اسلامی تاریخ اور ثقافت کے ایک ماہر اور استاد کے طور پر بھی شناخت کیا جاتا ہے۔ ان کے قلم نے اردو اور انگریزی زبانوں میں علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    ترقی پسند دانش ور اور ادیب عزیز احمد 16 دسمبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ انھوں نے حیدر آباد، تلنگانہ میں 11 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مرفّہ الحال ریاست حیدرآباد دکن کی مشہورِ زمانہ درس گاہ جامعہ عثمانیہ میں داخل ہوئے اور بعد میں لندن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد عزیز احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے اور یہاں وزارتِ اطلاعات سے منسلک ہوگئے۔ 1958ء میں انھوں نے لندن کا سفر اختیار کیا اور وہاں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور تا دمِ آخر پروفیسر کی حیثیت سے اسی جامعہ سے وابستہ رہے۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔

    وہ ایک محقّق اور نقّاد بھی تھے اور اسلامی علوم و ثقافت پر ان کی انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی سے متعلق گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ عزیز احمد کی انگریزی زبان میں‌ تحریر کردہ ان کتابوں کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔

    پروفیسر عزیز احمد کا کینیڈا میں‌ انتقال ہوا اور وہ ٹورنٹو ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم مصنفہ اور ہندوستان میں خواتین کے پہلے اردو ہفت روزہ ‘تہذیب نسواں’ کی مدیر تھیں۔ وہ عورتوں کی تعلیم اور ان میں‌ سیاسی و سماجی بیداری کے اوّلین علم برداروں میں شامل ہیں۔

    وہ دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ ان کا گھرانا روشن خیال تھا اور اس انتہائی قدامت پسند دور میں بھی والدین نے ذہین بیٹی کو تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں مولوی سید ممتازعلی سے ہوئی جو تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ ان کو شمس العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم سے ان کی یہ دوسری شادی تھی۔ انھوں نے گھر کا سارا انتظام اور ذمہ داری سنبھالی اور جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں بھی اپنے شوہر سے کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر اپنی فکر، اپنے نظریے اور تخیل سے اردو زبان اور ادب کو یوں مرصع و آراستہ کیا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    شوہر کے ساتھ مل کر محمدی بیگم نے عورتوں کے رسالے کی ادارت سنبھالی۔ 1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا۔ تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

  • وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    عبدالمجید سالک شاعر اور اپنے زمانے کے ایک مقبول کالم نویس تھے۔ وہ زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو انھوں نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘

    بات یہ تھی کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ ادھر مولانا عبدالمجید سالکؔ جو خود شگفتہ مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت موجود ہوتی تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔

    ان کا نام عبدالمجید، سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بنے اور 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    شعر گوئی، ادب، تنقید اور صحافت ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

    عبدالمجید سالک 1959 میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

  • فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    رام لال نارائن نے فکر تونسوی کے قلمی نام سے جہانِ اردو میں خوب شہرت پائی اور اپنے وقت کے معروف و مقبول طنز و مزاح نگاروں میں ان کا شمار ہوا۔ 1987ء میں آج ہی کے دن فکر تونسوی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر تونسہ شریف میں‌ پیدا ہوئے، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔

    گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاعری سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا اور ان کی غزلیں مختلف چھوٹے چھوٹے جرائد اور اخبار میں شائع ہوتی رہیں۔ 1942ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے مؤقر ادبی رسالے "ادبی دنیا” میں ان کی ایک نظم "تنہائی” شائع ہوئی جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ 1945ء میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں فکر تونسوی نے میگزین "سویرا” شائع کیا۔ بعد میں "ادبِ لطیف” سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے اور تب 1947ء میں تقسیمِ ہند کا اعلان ہو گیا جس کے بعد فسادات کے باعث وہ بھارت ہجرت کرگئے جہاں دلّی میں‌ وفات پائی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی فکر تونسوی نے طنز و مزاح اور نثر لکھنا شروع کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا” ہے جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ فکر تونسوی نے کالم نگاری کی، ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچر لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ترنیم کش، ماڈرن الہ دین، بدنام کتاب، پیاز کے چھلکے، چھلکے ہی چھلکے کے علاوہ آپ بیتی بھی شامل ہے۔

  • سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی ادب اور زبان کے ایک محسن اور بڑے خدمت گار مرزا قلیچ بیگ آج بہی کے دن 1929 کو وفات پاگئے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ نے مختلف موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں‌ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ ولیم شیکسپیئر سمیت مختلف غیر ملکی ادیبوں‌ کی کہانیوں‌ کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اور علم و ادب کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔

    مرزا قلیچ بیگ کے تحریر کردہ ڈراموں کی تعداد 32 ہے جن میں‌ رومانوی، تاریخی، سماجی مسائل سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ نے 1880 میں پہلا ڈرامہ’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا تھا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’موہنی‘‘ تھا جو 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔

    پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول جن میں زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) شامل ہیں، کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔ انھوں نے مزاحیہ انداز میں بھی ڈرامے لکھے۔

    مرزا قلچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نومسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے سندھ لائے گئے تھے جہاں 4 اکتوبر 1853ء کو ان کے گھر مرزا قلیچ بیگ کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ انھوں نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور کام یابی کے بعد ہیڈ منشی بھرتی ہوئے۔ 1891 میں ایک امتحان پاس کرکے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران وہ اپنے علمی اور ادبی مشاغل اور تصنیف و ترجمہ کا شوق بھی پورا کرتے رہے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے آٹھ مختلف زبانوں میں 457 کتابیں تصنیف و تالیف اور تراجم کیے۔ ان کی کتب تاریخ، لطیفیات، شاعری، بچوں کا ادب، تنقید، سائنس کے علاوہ دیگر موضوعات پر تھیں۔ انھوں نے’’ زینت‘ ‘کے عنوان سے ناول لکھا جو پہلا سندھی ناول کہلاتا ہے۔ انھوں نے سندھی ادب سے متعلق 385 کتابیں لکھیں اور خطاب و القاب سے نوازے گئے۔

  • عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    برّاعظم افریقا کے مغرب میں واقع سینیگال سے تعلق رکھنے والے عثمان سیمبین کو دنیا بھر میں‌ ایک ناول نگار اور فلم ساز کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ فلم نویسی اور افسانہ نگاری بھی ان کی وجہ شہرت ہے۔

    وہ فلمی صنعت میں‌ پروڈیوسر، ہدایت کار کے طور پر مصروفِ عمل رہے اور اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔ عثمان سیمبین کی کہانیوں کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، جن میں فرانسیسی اور انگریزی سرفہرست ہیں۔

    عثمان سیمبین ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مدرسے اور اسکول گئے۔ اسکول کی تعلیم ادھوری رہ گئی اور کچھ عرصہ والد کے ساتھ کام میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔

    1938 میں اپنے آبائی علاقے سے ملک کے دارلحکومت ’’ڈاکار‘‘ آگئے اور وہاں مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں۔ 1944 میں فرانسیسی فوج کی مقامی’’فری فرنچ فورسز‘‘ سے وابستہ ہوئے اور دوسری عالمی جنگ تک اپنے ملک اور دیارِ غیر میں مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے۔ جنگ کے خاتمے پر، وطن واپس آگئے۔

    یہ 1947 کی بات ہے جب ریلوے لائن بچھانے کا ملک گیر منصوبہ شروع ہوا تو عثمان اس کا حصّہ بن گئے۔ یہاں ہونے والے تجربات کی بنیاد پر، انہوں نے اپنا نیم سوانحی ناول ’’گاڈز بٹس آف ووڈ‘‘ لکھا، جسے بہت شہرت ملی۔

    چالیس کی دہائی کے اواخر میں عثمان فرانس چلے گئے، وہاں دورانِ ملازمت ’’فرانسیسی ٹریڈ یونین تحریک‘‘ کا حصہ بنے اور کمیونسٹ پارٹی کے مقامی دھڑے میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے افریقا سے تعلق رکھنے والے معروف انقلابی دانشور’’کلاؤڈ میکے‘‘ اور معروف مارکسسٹ ’’جیکولین رومین‘‘ کو دریافت کیا، ان کی فکر کو قبول کیا اور عملی زندگی میں اسے اپنایا بھی۔ فلم سازی کا شوق ہوا تو روس جاکر فلم سازی کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور پھر وطن واپس لوٹ آئے۔

    1956 میں عثمان کا فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا پہلا ناول’’لی ڈوکرنوئر‘‘ اشاعت پذیر ہوا، اس کے لغوی معنی ایک کالے مزدور کے ہیں۔ عثمان نے فرانس میں بطور افریقی مزدور، جن تعصبات کا سامنا کیا، ان کو بنیاد بنا کر ناول کی کہانی ترتیب دی تھی۔ 1957میں ان کا دوسرا ناول’’اے میرے پیارے ملک اور لوگو‘‘ تھا، جو ایک کسان کی کہانی تھی۔ اس ناول کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی ملی، خاص طور پر کمیونسٹ ممالک سوویت یونین ، چین اور کیوبا کی طرف سے سراہا گیا۔ انہوں نے جہاں اپنی کہانیوں میں فرانسیسی آقاؤں کے تعصبات کو موضوع بنایا، وہیں افریقی اشرافیہ کی زبوں حالی پر بھی مفصّل بات کی۔

    ان کا ایک ناول ’’ژالا۔ Xala‘‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے ایسے ہی افریقی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کردار کو پیش کیا۔ یہ کردار ایک تاجر کا تھا، جس نے تین شادیاں کیں۔ ناول نگار نے اس کی بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اور بشری کمزوریوں کو نہایت خوب صورتی سے کہانی میں‌ پیش کیا ہے۔

    1973 میں یہ ناول فرانسیسی زبان میں چھپا، تین سال بعد اس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول پر عثمان نے خود ہی فلم بنائی، جس کو 1975 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایات بھی دیں۔ فلم میں مقامی اداکاروں اور ہنر مندوں نے کام کیا تھا، کچھ غیر افریقی ہنرمندوں کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔ یہ فلم افریقا کے علاوہ، روس اور امریکا میں بھی نمائش پذیر ہوئی۔ سینیگال کی تاریخ میں اس ناول اور فلم کی بے حد اہمیت ہے۔ نوآبادیاتی افریقا کی آزادی کے بعد، سنیما کی تاریخ میں، عثمان ہی وہ سب سے پہلے فلم ساز ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی۔

    عثمان سیمبین نے 4 ناول اور کئی مختصر کہانیاں لکھیں، جن کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں 13 فلموں کی ہدایات دیں، 11 فلمیں تحریر کیں، 4 فلموں میں اداکاری بھی کی، جب کہ تین فلموں کے پروڈیوسر رہے۔

    عثمان سیمبین ایک ایسے افریقی ادیب اور فلم ساز ہیں، جنہوں نے ایک پس ماندہ سماج میں رہتے ہوئے ادب اور فن کی بلندی کو چھوا۔

    یکم جنوری 1923ء کو پیدا ہونے والے اس افریقی ناول نگار اور فلم ساز کی زندگی کا سفر 09 جون 2007ء کو تمام ہوا۔

    (عثمان سیمبین پر خرّم سہیل کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • منّو بھائی: ایک گوہرِ نایاب کا تذکرہ

    منّو بھائی: ایک گوہرِ نایاب کا تذکرہ

    پاکستان میں ایک نسل ٹیلی ویژن پر ڈرامہ ’’سونا چاندی‘‘ دیکھتے ہوئے منّو بھائی کی بھی مداح ہوگئی، لیکن اس ڈرامے کا اپنے زمانے میں جو شہرہ ہوا، اس نے آنے والی نسل کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ ویڈیو ریکارڈنگ لے کر یہ ڈرامہ دیکھے۔ سونا چاندی اور منّو بھائی آج بھی ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔

    منّو بھائی نے ارد گرد پھیلی ہوئی کہانیوں کو اپنے ڈراموں‌ میں‌ پیش کیا اور ان کے کردار بھی گلی محلّے میں چلتے پھرتے لوگ اور ان کی سرگرمیاں تھیں۔ سونا چاندی بھی ایک سادہ لوح دیہاتی جوڑے کی کہانی ہے جو شہر آ کر مختلف گھروں میں نوکری کرتا ہے اور ان کی توسط سے شہری زندگی اور معاشرے کے بہت سے تضاد اور نشیب و فراز سامنے آتے ہیں۔

    19 جنوری 2018ء کو منّو بھائی ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے۔ بلاشبہ وہ گوہرِ نایاب تھے جن کا قلم بامقصد، تعمیری اور مفید تحریروں کے لیے متحرک رہا۔ انھیں ڈرامہ نگار اور کالم نویس کے طور پر شہرت ملی۔ انھوں نے اپنے کالموں میں سماجی برائیوں اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی اور ساتھ ہی اپنے ڈراموں کے ذریعے ہماری گرفت کرتے ہوئے اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ منّو بھائی نے پنجابی کھیل ’’کی جاناں میں کون‘‘ بھی تحریر کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    منّو بھائی نے صحافت بھی کی اور کافی عرصہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ بعد میں انھوں نے ڈرامے تحریر کیے جن میں‌ سلسلہ وار اور طویل دورانیے کے کھیل شامل ہیں۔

    ان کا تحریر کردہ سلسلے وار کھیل ’’آشیانہ‘‘ خاندانی اقدار سے جڑے مسائل پر مبنی تھا جب کہ مشہور ڈرامہ ’’دشت‘‘ بلوچستان کی ثقافت اور روایات کی عکاسی تھی۔ منّو بھائی نے مشہور ڈرامہ ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی، جسے دیہاتی زندگی اور کردار نگاری میں شان دار کہانی قرار دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ سیریل سونا چاندی کے علاوہ ان کے طویل دورانیے کے کھیل ’’خوب صورت‘‘ اور ’’گم شدہ‘‘ آج بھی ذہنوں میں‌ محفوظ ہیں۔

    منّو بھائی نے 6 فروری 1933ء کو پنجاب کے شہر وزیر آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ والد عظیم قریشی پاکستان ریلوے میں ملازم تھے جب کہ پنجابی زبان کے مشہور شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی نے 1947ء میں میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج کیمبل پور(اٹک) چلے گئے جہاں اساتذہ کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے انھیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع دیا اور وہ پنجابی زبان میں‌ شاعری کرنے لگے۔ بعدازاں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور رپورٹنگ کے ساتھ کالم نویسی شروع کردی۔ وہ ’’گریبان‘‘ کے نام سے مؤقر اخبارات میں‌ لکھتے رہے۔ وہ اپنی فکاہیہ تحریروں میں معاشرے کی برائیوں اور انفرادی رویّوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر اظہارِ‌ خیال کرتے تھے جنھیں قارئین میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ کالم نویسی کے ساتھ انھوں نے پنجابی میں شاعری بھی جاری رکھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں ’’اجے قیامت نئیں آئی ( پنجابی شاعری کا مجموعہ)، جنگل اداس ہے ( منتخب کالموں کا مجموعہ)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں اور انسانی منظر نامہ (تراجم) شامل ہیں۔

    2007ء میں منّو بھائی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔