Tag: ادیب برسی

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اور مقبول ادیب کہا جاتا ہے جس کی کہانیوں اور ڈراموں کا متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔

    5 دسمبر 1870ء کو وفات پانے والے الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک علاقے میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو ایک ڈرامہ نویس کے طور پر منوایا اور بعد کے برسوں میں کہانیاں‌ لکھیں۔ اس کی کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    فرانس میں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور ناول نگار کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھیں‌ مختلف زبانوں‌ جن میں اردو بھی شامل ہے، ترجمہ کیا گیا۔ ڈوما کے ناولوں کو آج بھی دنیا بھر میں نہایت شوق اور دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا شوق اور تجسس بڑھاتے ہیں۔ اس کی کہانیاں‌ حیرت انگیز دنیا میں‌ لے جاتی ہیں‌ جہاں قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    ڈوما کی چند کہانیوں‌ میں‌ "تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” اردو میں‌ ترجمہ ہوکر بہت مقبول ہوئیں۔ اس نے اپنی کہانیوں‌ سے شہرت ہی نہیں دولت بھی کمائی، لیکن موت کے وقت وہ مالی مسائل سے دوچار تھا۔

    خاص طور پر اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز اور دل چسپ ہیں کہ قاری اس کہانی کو ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا اور واقعات کا تسلسل اسے صفحہ پلٹنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ اپنے وقت کا یہ مقبول کہانی کار آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر متعدد فلمیں‌ بھی بنائی‌ گئیں‌ جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو پطرس بخاری کے قلم نے انشائیوں کے ساتھ بیک وقت مزاح، بہترین تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم دیے، لیکن وہ صرف اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت میں‌ جیّد، صدا کاری و شعبۂ نشریات میں‌ ماہر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار بھی کہلائے۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    1898ء میں‌ پشاور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنے قلمی نام پطرس بخاری سے شہرت پائی۔ وہ اردو، فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا انگریزی زبان کا درست تلفّظ مشہور تھا۔

    احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم و ادب کے شوق کے سبب کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج گئے جہاں ان کی دل چسپی اور رغبت انگریزی شعروادب میں‌ بڑھی اور انھوں نے انگریزی کے ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہندوستان واپس آکر بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور دوسرے ادیبوں کو بھی ترجمے اور تالیف کی طرف راغب کیا۔

    ان کی ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی نے انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے ناظمِ اعلیٰ کے منصب پر پہنچایا، لیکن ان کی اردو سے محبّت اور ریڈیو پر ان کے بعض فیصلوں نے انھیں غیرمقبول اور بعض‌ شخصیات کی نظر میں‌ ناپسندیدہ بنا دیا اور وہ سازشوں اور شکایات کی وجہ سے تنگ آگئے اور جب انھیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا تو انھوں نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور باصلاحیت ہی نہیں‌ ذہین، مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔ اسی زمانے میں ان کا انتقال ہوا۔ 5 دسمبر 1958ء کو پطرس بخاری نیویارک میں چل بسے۔

    پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی اے کرنے کے بعد 1922ء میں لاہور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انھوں نے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔

    وطن واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے وابستہ رہے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔

    ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں کے علاوہ ان کے کئی شگفتہ مضامین اور خطوط بالخصوص قارئین میں مقبول ہیں۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    ایک وقت تھا جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جیک لندن گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب قسمت نے یاوری کی اور علمی و ادبی تقاریب میں لوگ اسے دیکھتے تو آٹو گراف لینے کے جمع ہوجاتے۔ دنیا بھر میں اسے ایک باکمال تخلیق کار کے طور پر شہرت ملی۔

    وہ اپنے دور کا مقبول ترین ناول نگار بنا۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی پر جیک لندن پر مہربان ہوئی۔ اسے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن اخباری نمائندہ بن گیا۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز، ترنگ اور امنگ سے بھرپور زندگی گزاری جس میں اس نے سب سے بڑی کام یابی ایک ناول نگار اور رائٹر کے طور پر حاصل کی۔

    جیک لندن نے 12 جنوری 1876ء کو سان فرانسسکو، امریکا کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کی فطرت میں‌ تجسس کا مادّہ اور طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے کئی معمولی اور گھٹیا سمجھنے جانے والے ایسے کام کیے جس سے ایک وقت کی روٹی حاصل ہو جاتی، اور غربت اور فاقوں سے تنگ آکر چوری، لوٹ مار کے لیے ایک گروہ کا رکن بننا بھی قبول کرلیا، اسی طرح کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکلا تو کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے لیے جتن کیے۔

    17 سال کا ہوا تو بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ بہت سے سنسنی خیز، انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن گھر بار کب کا چھوڑ چکا تھا اور در بدر پھرتا تھا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کاٹی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اکثر فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا اور کبھی مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

    وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھ سکا تھا، وہ 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ اس نے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور پھر اسے جیسے پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جنون ہی ہو گیا۔ وہ ناولوں‌ میں‌ گم ہوگیا اور سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔

    1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور اتنی عمدہ کہانیاں تخلیق کیں جن کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ بعض کہانیاں اس کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    جیک لندن کو اس زمانے میں کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

    1916ء میں‌ آج ہی کے دن یہ ناول نگار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔

  • معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    آج اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1976ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملےتھے۔

    وہ افسانوی ادب کے اوّلین نقّاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ وقار عظیم کو اردو کا پہلا “غالب پروفیسر” بھی مقرر کیا گیا تھا۔ یہ تخصیص و مقام ثابت کرتا ہے کہ وہ اردو ادب میں نثر و نظم کے کلاسیکی اور جدید دور کے ایک ایسے نکتہ بیں و رمز شناس تھے جن کی رائے معتبر اور مستند تھی۔

    وقار عظیم محقّق اور مترجم بھی تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنے وسیع مطالعے اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ انھوں‌ نے متعدد کتب یادگار چھوڑیں جو علم و ادب کی دنیا کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان میں نثر اور نظم کی مختلف اصناف ہیں‌ جن پر انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام سپردِ‌ قلم کیا۔

    ان کا پورا نام سیّد وقار عظیم تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا اور بعد میں الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں‌ تدریسی فرائض انجام دیے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ادبی جریدے “آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1949ء میں لاہور چلے آئے اور نقوش کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں‌ اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب کو سید وقار عظیم نے کئی علمی و ادبی تحریروں سمیت اہم موضوعات پر تصانیف سے مالا مال کیا۔ ان میں‌ افسانہ نگار، داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ سرفہرست ہیں۔

    وہ لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    سیّد حسن عسکری اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے معروف ہوئے اور اپنی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی آج برسی ہے۔ حسن عابدی 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کئ ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    مشہور ہے کہ ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنے کے لیے باقاعدہ بگل بجا کر اپنے بیٹے کی آمد کا چرچا کیا تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے والد کی موت طبعی نہ تھی بلکہ انھوں نے خود کُشی کی تھی اور 1961ء میں آج ہی کے دن ان کے بیٹے نے بھی اپنی زندگی کا ختم کرلی۔ خود کشی کے وقت وہ 61 برس کے تھے اور انھیں ایک ناول نگار، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا تھا

    ارنسٹ ہیمنگوے شہرۂ آفاق تخلیق کار تھا جو 21 جولائی 1899ء کو پیدا ہوا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ماں گریس ہال ہیمنگوے گلوکار اور موسیقار تھی۔ ماں باپ دونوں ہی تعلیم یافتہ اور نہایت قابل تھے اور ان کا شمار اپنے علاقے کے معزّزین میں‌ کیا جاتا تھا۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے نواحی علاقے سکونت پذیر تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے باپ کو سیر و سیّاحت کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جانے لگا۔ اس نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے باپ ہی سے سیکھا اور اس دوران فطرت کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا جس کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

    طالبِ علمی کے زمانے میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو اسکول میگزین اور اخبار سنبھالنے کا موقع ملا اور اس کا یہ تجربہ گریجویشن کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کی ملازمت کے دوران بہت کام آیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے یہاں چند ماہ کے دوران اچھی تحریر اور مضمون نگاری کے سنہری اصول سیکھے۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کا بھی دل دادہ تھا اور مطالعے کے ساتھ اسے اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، ان کا اسے بہت فائدہ ہوا۔ اس نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضامین بھی لکھے۔ 1921ء میں شادی کے بعد وہ پیرس چلا گیا جہاں ادیبوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ بزم آرائیوں نے اسے بھی ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    یہ ادیب اور شاعر اپنے وقت کی نادرِ روزگار اور باکمال شخصیات تھیں جن میں‌ ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس شامل ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اس نے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور وہ شایع ہونے لگیں۔ 1926ء میں ارنسٹ ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آگیا جو اس کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا۔ اس نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر اور وہاں‌ قیام کیا اور اس دوران اپنے وسیع تجربات اور مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیاں‌ دیں جن کی بنیاد پر اس نے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ دنیا کا سب سے معتبر نوبیل انعام بھی حاصل کیا۔

    اس کا ایک ناول فیئر ویل ٹو آرمز خود اس کے دو عاشقانہ قصّوں اور ایک جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ وہ ناول ہیں جنھیں اردو زبان کے شائقین نے بہت سراہا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے محبتیں‌ بھی کیں، شادیاں بھی اور متعدد ممالک میں قیام بھی کیا۔ اس دوران اس نے جنگ میں‌ بھی حصّہ لیا، تخلیقی سفر بھی جاری رکھا، سیرو سیاحت کے ساتھ تمام مشاغل بھی پورے کیے۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوق رکھتا تھا اور اسی کھیل سے متعلق اس کا ایک ناول بھی منظرِ عام پر آیا جو بہت مشہور ہوا۔

    فطرت کے دلدادہ اور جہانِ ادب میں نام ور ارنسٹ ہیمنگوے کو اس لحاظ سے بدقسمت کہا جاسکتا ہے کہ والد کی طرح خود اس نے ہی گولی مار کر اپنی زندگی ختم نہیں کی بلکہ اس کی بہنوں نے بھی خود کشی کی تھی۔

  • ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    اردو کے نام وَر ادیب، ڈرامہ و افسانہ نگار، نقّاد، مترجم اور صدا کار ڈاکٹر انور سجّاد 6 جون 2019ء میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ترقّی پسند ادیب تھے جن کے نظریات اور افکار ان کی تحریروں سے جھلکتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے 1989ء میں انھیں تمغہٴ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    انور سجاد نے 1935ء میں‌ لاہور میں‌ آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طبّی تدریس کے لیے مشہور لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں‌ داخلہ لے لیا، جہاں‌ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی، لیکن طبیعت اور رجحان فنون لطیفہ کی طرف مائل تھا، سو ان کی شہرت کا سبب علم و ادب کے مختلف شعبے رہے۔

    انور سجاد کی مشہور کتابوں میں چوراہا، جنم کا روپ، خوشیوں کا باغ، نیلی نوٹ بک شامل ہیں۔ وہ صدا کاری اور اداکاری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے تحریر بھی کیے اور خود اداکار کے طور پر اسکرین پر بھی نظر آئے۔

    ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کام یابی سے برتا گیا ہے۔ ان کی تحریریں گہرائی اور وسعت کی حامل اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈرامے بھی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے طویل دورانیے کے کھیل بھی تحریر کیے۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’’پکنک، رات کا پچھلا پہر، کوئل، صبا اور سمندر اور یہ زمیں میری ہے‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’زرد دوپہر‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی تھی۔

    ڈاکٹر انور سجّاد نے لاہور میں‌ وفات پائی اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

  • افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں کا تذکرہ

    افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں کا تذکرہ

    اردو کی نام ور نقّاد، افسانہ نگار اور مترجم ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جس نے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل کی اور یوں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور اس سفر میں‌ ان کے قلم نے کہانیاں اور افسانوں کے ساتھ تنقیدی مضامین اور ترجمہ بھی کیا۔ وہ اردو کے معروف ادبی جریدہ نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔

    12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہونے والی ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔