Tag: ادیب و شاعر

  • حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    اس کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ سیاست داں، صحافی، ادیب، مقرر، نقاد، دانش ور، خطاط، مصور بھی تھا اور ایک ناشر بھی تھا۔

    پھر یہ بھی کہ اس نے ہر شعبے یا ہر میدان میں نام وری اور مقام حاصل کیا، لیکن ان کام یابیوں اور کام رانیوں کے باوجود اس کی تحمل مزاجی اور میانہ روی میں فرق نہیں آیا۔

    وہ دھیمے مزاج اور لہجے میں بات کرتا تھا اور سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔ اقتدار میں بھی رہا، مگر اسے اقتدار کا وہ نشہ نہیں چڑھا جو انسان کو انسان سے دور لے جاتا ہے۔ شہرت اور نام وری کے باوجود اس کا لوگوں سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ اس نے یاریاں بھی نبھائیں اور فرائض بھی پورے کیے۔

    زندگی بھر انسانی رشتوں پر یقین رکھا اور دوستوں کا دوست رہا۔ مجھ سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں برادرانہ تعلقات قائم ہوئے تھے جو آخر تک قائم و دائم رہے۔ حالاںکہ اس دوران برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی اور بات چیت میں بھی طویل وقفے آجاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی دوری کا احساس نہیں ہوا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی یا ٹےلی فون پر بات ہو جاتی یا پھر خط آجاتا تو قربت و نزدیکی کا احساس قائم رہتا۔

    حنیف رامے کے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کا کاروبار کتابوں کی نشر و اشاعت تھا، اس لیے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہوگیا۔ نیا ادارہ اور مکتبۂ جدید کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والی کتابوں کی تزئین و ترتیب کے ساتھ ساتھ سرورق بنانے کا کام اس کے سپرد ہوا اور اس طرح آرٹ سے بھی رشتہ جڑا رہا۔ پھر جب بھائیوں میں کاروبار کا بٹوارا ہوا اور رشید احمد چوہدری اور بشیر احمد چوہدری نے الگ الگ کتابوں کے اشاعتی سلسلے شروع کیے تو حنیف رامے نے بشیر احمد چوہدری کو ”میری لائبریری“ کے نام سے مکتبہ قائم کروایا اور خود ”البیان“ کے عنوان سے اشاعتی مکتبے کی ابتدا کی۔

    ایک بات حنیف رامے کے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ کم قیمت کتابیں چھپنی چاہییں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریدیں اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو۔ حنیف رامے نے صرف کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ خود بھی لکھیں اور ایک ادیب کی حےثیت سے بھی نام پیدا کیا۔

    اس کی کتابوں میں ”پنجاب کا مقدمہ“ کو بڑی شہرت ملی اور دیگر صوبوں کے بعض ادیبوں نے اس کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اسی طرح اس کی کتاب ”دُبِ اکبر“ بھی بڑی توجہ کا مرکز رہی اور پھر زندگی کی آخری تصنیف ”اسلام کی روحانی قدریں موت نہیں زندگی“ کو تو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔

    حنیف رامے کا پسندیدہ موضوع معاشیات و اقتصادیات تھا اور اسی میں اس نے ایم اے کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا جو ”اقتصادی ترقی کا منظر اور پس منظر“ کے نام سے شایع ہوئی اور پھر ”اقبال اور سوشلزم“ مرتب کرکے شایع کی تھی۔ اس نے انگریزی میں ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس طرح دیکھیے تو وہ صرف ادب چھاپتا ہی نہیں رہا بلکہ اس کی تخلیق و تحریر میں بھی باقاعدہ شامل رہا۔

    (معروف ادیب اور صحافی شفیع عقیل کی کتاب سے ایک ورق)

  • جب شاعرِ مزدور نے جمعداروں کی نگرانی کرنے کا ارادہ کیا!

    جب شاعرِ مزدور نے جمعداروں کی نگرانی کرنے کا ارادہ کیا!

    احسان دانش اردو ادب کی ان چند شخصیات میں سے ہیں جن کا فن اور فکر آسودہ حالی، معاشی بے فکری کے ساتھ نظم کی شکل میں نہیں ڈھلا بلکہ اس کی آب یاری زندگی کی تلخیوں، مصائب، کڑے حالات اور معاشی تگ و دو نے کی۔

    احسان دانش نے زندگی کے کئی اتار چڑھاؤ اور روپ دیکھے۔ کبھی مزدوری کی، مالی بن کر کسی گلستاں کو سنوار تو پیٹ کی خاطر چپراسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ غرض کوئی بھی کام ملا کر لیا۔ لیکن اس محنت اور کڑی مشقت کے ساتھ ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا۔

    احسان دانش کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔

    اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی زندگی صبح سے رات تک محنت مشقت کرنے اور اگلے دن پھر معاش کی فکر میں گزر جاتی۔ احسان دانش نے محنت سے کبھی منہ نہ موڑا اور حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔

    معروف ادیب اور باکمال خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
    احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔

    احسان دانش عوامی شاعر اور باکمال انشا پردار کی حیثیت سے آج بھی اردو ادب کی تاریخ میں زندہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اس مقبول ترین شاعر کا کلام انقلاب آفریں نغمات، عوامی جذبات کی ترجمانی اور رومان پرور خیالات سے آراستہ ہے۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

  • حکومت سندھ کا ادب و ثقافت دشمن فیصلہ، کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کا نوٹس جاری کر دیا

    حکومت سندھ کا ادب و ثقافت دشمن فیصلہ، کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کا نوٹس جاری کر دیا

    کراچی: سندھ حکومت کے محکمۂ ثقافت نے حیدر آباد کا کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیفے انتظامیہ کو قانونی نوٹس جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ ثقافت نے حیدر آباد کا کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کے لیے کیفے کی انتظامیہ کو قانونی نوٹس جاری کر دیا، ڈائریکٹر جنرل ثقافت نے وکیل کے ذریعے نوٹس دیا۔

    محکمہ ثقافت کا کہنا ہے کہ کیفے خانہ بدوش 4 سال پہلے سول سوسائٹی کو کرائے پر دیا گیا تھا، 4 سال کے دوران کیفے کا کرایہ ادا نہیں کیا گیا، ساڑھے 44 لاکھ روپے کی رقم کیفے کی جانب واجب الادا ہے۔

    اس سے قبل بھی کیفے خانہ بدوش کی اونر امر سندھو کو لاکھوں روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی پر نوٹس بھجوایا جا چکا ہے جس میں کرائے اور بجلی سمیت دیگر واجبات شامل تھیں، جو ادا کر دیے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ محکمہ ثقافت کی جانب سے فروری 2015 میں ایک معاہدے کے تحت سندھ میوزیم میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے سندھ کی نام ور دانش ور اور ادیب امر سندھو کو 20 ہزار کرائے پر جگہ دی گئی تھی جس کا نام کیفے خانہ بدوش رکھا گیا تھا، جو آج حیدر آباد کا اہم ثقافتی و ادبی مرکز بن چکا ہے۔

    سندھ کے ادیبوں، شاعروں اور کالم نگاروں نے کیفے خانہ بدوش کو خالی کرانے کے نوٹس پر احتجاج کیا ہے، اور سندھ کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبے میں ادب و ثقافت کی سرگرمیوں کو حوصلہ شکنی کی بجائے اس کی سرپرستی کرے۔

    رانی باغ، قاسم آباد میں کیفے خانہ بدوش کا قیام مصنفہ امر سندھو اور عرفانہ ملاح کی کوششوں کا نتیجہ ہے، چند ماہ قبل یہاں سندھی کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی یاد میں پانچ روز کا ایک شان دار میلہ بھی منعقد ہوا۔

    ادب و ثقافت سے وابستہ افراد کا مؤقف ہے کہ معاملہ کرایہ نہ دینے یا جگہ خالی کروانے سے زیادہ ان ترقی پسند اور روشن خیال ادیبوں اور فن کاروں کی آمد کا ہے جو حیدر آباد میں علم و فکر اور جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں۔