Tag: ادیب کا انتقال

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    ایک وقت تھا جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جیک لندن گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب قسمت نے یاوری کی اور علمی و ادبی تقاریب میں لوگ اسے دیکھتے تو آٹو گراف لینے کے جمع ہوجاتے۔ دنیا بھر میں اسے ایک باکمال تخلیق کار کے طور پر شہرت ملی۔

    وہ اپنے دور کا مقبول ترین ناول نگار بنا۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی پر جیک لندن پر مہربان ہوئی۔ اسے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن اخباری نمائندہ بن گیا۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز، ترنگ اور امنگ سے بھرپور زندگی گزاری جس میں اس نے سب سے بڑی کام یابی ایک ناول نگار اور رائٹر کے طور پر حاصل کی۔

    جیک لندن نے 12 جنوری 1876ء کو سان فرانسسکو، امریکا کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کی فطرت میں‌ تجسس کا مادّہ اور طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے کئی معمولی اور گھٹیا سمجھنے جانے والے ایسے کام کیے جس سے ایک وقت کی روٹی حاصل ہو جاتی، اور غربت اور فاقوں سے تنگ آکر چوری، لوٹ مار کے لیے ایک گروہ کا رکن بننا بھی قبول کرلیا، اسی طرح کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکلا تو کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے لیے جتن کیے۔

    17 سال کا ہوا تو بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ بہت سے سنسنی خیز، انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن گھر بار کب کا چھوڑ چکا تھا اور در بدر پھرتا تھا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کاٹی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اکثر فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا اور کبھی مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

    وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھ سکا تھا، وہ 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ اس نے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور پھر اسے جیسے پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جنون ہی ہو گیا۔ وہ ناولوں‌ میں‌ گم ہوگیا اور سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔

    1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور اتنی عمدہ کہانیاں تخلیق کیں جن کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ بعض کہانیاں اس کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    جیک لندن کو اس زمانے میں کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

    1916ء میں‌ آج ہی کے دن یہ ناول نگار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

  • ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    اردو کے ممتاز نقّاد، محقق، مترجم، ماہرِ تعلیم اور افسانہ نگار مجنوں گورکھ پوری 4 جون 1988ء کو اس جہانِ‌ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کی اس نام وَر شخصیت کی برسی ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ وہ 10 مئی 1904ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کی دنیا میں مجنوں نے اپنی قابلیت اور فن کی بدولت بڑا نام پیدا کیا اور مقام بنایا۔

    ان کا شمار اردو کے چند بڑے نقّادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر جیسا سرمایہ کتابی شکل میں چھوڑا ہے۔

    مجنوں گورکھ پوری ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سر نوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر بھی مجنوں گورکھ پوری کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائیرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔

    مجنوں گورکھ پوری کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    فرانز کافکا کو بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ تین جون 1924ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کافکا نے 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وہ یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور یہی اس کا مذہب رہا۔ کافکا نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    فرانز کافکا ناول نگار اور کہانی کار تھا۔ اس کی کہانیوں میں تمثیلی انداز متاثر کن ہے۔ مشہور ہے کہ کافکا نے اپنی کچھ تخلیقات کو خود نذرِ آتش کردی تھیں جب کہ اپنے ایک دوست کو یہ وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد اس کے مسوّدے جلا دے، لیکن دوست نے اس کی وصیّت پر عمل نہیں‌ کیا۔ شاید وہ نہ چاہتا ہو کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن موت کے بعد جب یہ تخلیقات سامنے آئیں تو ان کی ادبی حیثیت اور کافکا کے مرتبے پر بھی بات ہوئی۔

    فرانز کافکا کے ناولوں ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ ناول کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئے۔

    کافکا نے زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھیں اور پھر دنیا سے منہ موڑ لیا۔ یہاں ہم کافکا کی ایک مشہور تمثیل نقل کررہے ہیں جسے جرمن زبان سے مقبول ملک نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

    "ایک شاہی پیغام”
    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مُکے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔

    لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔ اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

  • یومِ‌ وفات:‌ وراسٹائل اداکار ادیب اسکرپٹ رائٹر بھی تھے

    یومِ‌ وفات:‌ وراسٹائل اداکار ادیب اسکرپٹ رائٹر بھی تھے

    متحدہ ہندوستان کی ریاست جموں و کشمیر کے مظفر علی کا خاندان تقسیمِ ہند سے قبل معاش کی غرض سے ممبئی منتقل ہو گیا تھا جہاں پیدا ہونے والے مظفر علی نے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد اسکرپٹ رائٹر کے طور پر تھیٹر اور بعد میں فلم نگری کا رُخ کیا جہاں اداکار کے طور پر کام کیا۔

    تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے فلموں میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور نام و مقام بنایا۔ وہ ادیب کے نام سے پہچانے گئے۔ 26 مئی 2006ء کو اداکار ادیب کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ وہ گردوں اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔

    اداکار ادیب کی فنی زندگی کا آغاز اسکرپٹ رائٹنگ سے ہوا تھا جب کہ فلم ’پاک دامن‘ میں ولن کے ایک کردار سے بڑے پردے پر ان کا نیا سفر شروع ہوا تھا۔

    پاکستان کے اس مشہور اداکار کی تاریخ پیدائش 4 اکتوبر 1928ء ہے۔ ادیب کی فن کارانہ زندگی کا آغاز ایک تھیٹر کمپنی سے بطور مصنّف ہوا تھا، بعد میں انڈین نیشنل تھیٹر میں کام کیا اور دس فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے، 1962ء میں وہ پاکستان آگئے۔ یہاں ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم دال میں کالا سے اپنی فنی زندگی شروع کی اور یہ سفر لگ بھگ 500 فلمیں کرنے تک جاری رہا۔

  • یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    آج معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 29 اپریل2011ء کو وفات پاگئے تھے۔

    25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے عبدالحمید نے قلم تھاما تو اے حمید مشہور ہوئے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر کام شروع کیا۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید نے ناول، افسانہ اور ڈراما نگاری کے لیے اپنے مطالعے اور مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت سے موضوعات چنے اور واقعات کو کہانی میں ڈھالا، ان کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی طرزِ‌ تحریر اور کرشن چندر کا اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں انھیں شہرت اور ان کی کہانیوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم ادیبوں کو نصیب ہوئی، وہ نوجوانوں کے مقبول ناول نگار بنے۔ ان کی کہانیاں نوجوانوں میں تجسس، شوق اور کھوج پیدا کرنے کے ساتھ انھیں‌ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    اے حمید نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور فکشن نگار کی حیثیت سے نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے۔ انھوں نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈراما ’عینک والا جن‘ لکھا جو پی ٹی وی سے نشر ہوتا تھا۔ اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ کہانی، ناول اور ڈرامے کے علاوہ اے حمید نے اردو شاعری اور اردونثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔

    اے حمید کی کچھ مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    اردو زبان و ادب میں‌ نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب ادیبوں میں اشرف صبوحی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جن کا بیش قیمت تخلیقی سرمایہ درجنوں کتابوں میں محفوظ ہے اور علم و ادب کی دنیا میں یہ کتب لائقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ یہ برصغیر کی نابغہ روزگار ہستیوں کی زندگی کے بعض‌ واقعات، تذکروں اور ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے پر سند و حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔

    اشرف صبوحی 22 اپریل 1990ء کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب ادیب مانا جاتا ہے۔ انھیں‌ واقعات اور خاکہ نگاری میں کمال حاصل تھا اور ان کے مضامین میں دلّی کی تہذیب، ثقافت وہاں کے خاص پکوان اور مختلف شخصیات کے تذکرے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اشرف صبوحی کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے جس نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین نے ان کی تحریروں کو بہت پسند کیا۔

    اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے تراجم دھوپ چھائوں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہوئے، اشرف صبوحی نے بچوں کے لیے بھی لکھا اور یہ سرمایہ کتابی شکل میں محفوظ ہے۔ وہ گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سیمنٹ فیکٹری کا ملازم عبداللہ حسین

    سیمنٹ فیکٹری کا ملازم عبداللہ حسین

    عبداللہ حسین کا نام اردو ادب میں بطور فکشن نگار ہمیشہ زندہ رہے گا۔

    اداس نسلیں اور باگھ جیسے مقبول ناولوں کے خالق 84 سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ ان کے تخلیقی سفر کی ابتدا اور قلم سے تعلق کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔ یہ قصہ انھوں‌ نے ایک علمی اور ادبی محفل میں حاضرین کے سامنے یوں بیان کیا تھا۔

    مجھے پہلی ملازمت ملی اور میں کام پر گیا تو وہاں روزانہ چھے، آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے تھے، جن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔

    یہ بات جان لیں کہ جہاں سیمنٹ فیکٹری ہوتی ہے، وہ ایک مکمل سنگلاخ یا پہاڑی علاقہ ہوتا ہے اور ایسا ویران کہ عام طور پر درخت تک نہیں ہوتے۔ چند دن یونہی گزر گئے، پھر میں نے سوچا کہ کچھ لکھنا چاہیے، لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ کہانی لکھوں۔ کہانی شروع کی اور کہانی چلی تو چلتی چلی گئی اور مجھے لگا کہ میں نے ایک مصیبت گلے میں ڈال لی ہے، خیر میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاتی ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے سیکڑوں صفحوں پر پھیل گئی۔ جب اسے پڑھا اور دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ تو ناول سا بن گیا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔

    لاہور میں چار جاننے والوں سے بات کی تو انھوں نے کتابیں چھاپنے والے ادارے کا بتایا۔ میں نے جا کر ناول ان کو دے دیا، انھوں کہا چند ہفتوں میں بتاتے ہیں کہ چھاپیں گے یا نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند ہفتوں بعد معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ ناول تو ٹھیک ہے اور ہم چھاپیں گے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی جانتا نہیں۔ اس لیے پہلے آپ کچھ کہانیاں لکھ کر دیں، ہم انھیں چھاپیں گے، اس طرح لوگ آپ کو جاننے لگیں گے اور پھر ہم اس ناول کو چھاپ دیں گے۔

    میں نے انھیں کہانی لکھ کر دی۔ یہ کہانی ‘‘ندی’’ کے نام سے ان کے رسالے سویرا میں چھپی۔ اس کے بعد میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ اور کہانی کب دینی ہے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اور لکھیں، نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔ ناول کی اشاعت کے لیے جتنی پہچان چاہیے وہ تو اس ایک کہانی نے ہی آپ کو دلا دی ہے۔ اس طرح ناول چھپ گیا۔

    یہ بات تو بعد میں پتا چلی کہ جب میں انھیں ناول دیا تو انھوں نے اسے حنیف رامے، محمد سلیم الرحمٰن اور صلاح الدین کو پڑھنے کے لیے دیا اور انھوں نے رائے دی تھی کہ ناول اچھا ہے، اسے چھپنا چاہیے۔

    اپنے انگریزی ناول کے بارے میں انھوں بتایا کہ جب وہ لندن گئے اور وہاں ایک بار لے لیا تو ان لوگوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا جو ہمارے ہاں سے غیر قانونی طور پر جاتے ہیں اور پھر وہاں چھپ کر رہتے ہیں۔

    لندن میں ان کے بار میں ایسے لوگ بھی آتے تھے جن کا ادب، آرٹ اور فلم وغیرہ سے تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا، ایک نوجوان ڈائریکٹر، جو خاصا نام بنا چکا تھا، اس نے ایک رسالے پر میری تصویر دیکھی تو پوچھا کہ یہ تصویر کیوں چھپی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ ادبی رسالہ ہے اور میں ادیب ہوں۔

    اس نے یہ سنا تو مجھ سے میری تخلیقات اور موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں ایک ناولٹ بھی لکھ رہا ہوں۔ اس کے پوچھنے پر میں نے مختصراً کہانی بھی بتا دی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے ایک صفحے کا سناپسس لکھوایا اور فلم ساز کے پاس لے گیا۔ اسے کہانی پسند آئی اور یوں اس پر فیچر فلم بن گئی۔