Tag: ادیب کی برسی

  • ورسٹائل اداکار ادیب کی برسی

    ورسٹائل اداکار ادیب کی برسی

    برطانوی دورِ حکومت میں ریاست جموں و کشمیر میں آباد مظفر علی کا خاندان معاش کی غرض سے ممبئی منتقل ہو گیا تھا یہ تقسیمِ ہند سے قبل کی بات ہے جہاں مظفر علی نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے لکھنے لکھانے کا آغاز کیا وہ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر تھیٹر اور بعد میں فلم نگری تک پہنچے اور بڑے پردے پر اداکاری کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد 1962 میں مظفر علی پاکستان چلے آئے اور یہاں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے اداکار کے طور پر شائقین کی توجہ حاصل کی اور اس نگری میں ادیب کے نام سے پہچانے گئے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم ’دال میں کالا‘ تھی۔ ادیب کو ’عادل‘ نامی فلم نے حقیقی معنوں میں شہرت دی اور اس فلم کی کام یابی کے ساتھ ہی ان کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہوگیا، وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے مصروف اداکار تھے جسے زیادہ تر منفی کردار نبھانے کو ملے اور وہ ایک عرصہ تک بطور ولن پردہ سیمیں پر راج کرتے رہے۔

    26 مئی 2006ء کو اداکار ادیب ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ انھیں گردوں اور دل کا عارضہ لاحق تھا۔

    اداکار ادیب کی فنی زندگی کا آغاز اسکرپٹ رائٹنگ سے ہوا تھا جب کہ فلم ’پاک دامن‘ میں ولن کے ایک کردار سے بڑے پردے پر ان کا نیا سفر شروع ہوا تھا۔ پاکستان کے اس مشہور اداکار نے 4 اکتوبر 1928ء کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کی فن کارانہ زندگی کا آغاز ایک تھیٹر کمپنی سے بطور مصنّف ہوا تھا، بعد میں انڈین نیشنل تھیٹر میں کام کیا اور ممبئی میں رہتے ہوئے دس فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے یہاں کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔ ادیب کی زندگی کی آخری فلم ’مجاجن‘ تھی۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    سیّد حسن عسکری اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے معروف ہوئے اور اپنی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی آج برسی ہے۔ حسن عابدی 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کئ ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    اردو زبان و ادب میں سجّاد باقر رضوی شاعر، ادیب، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ سجّاد باقر رضوی 1992ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    سجّاد باقر رضوی کا تعلق اعظم گڑھ، یو پی سے تھا جہاں‌ انھوں نے 4 اکتوبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور یہاں‌ جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا، بعد ازاں وہ لاہور چلے گئے اور اسلامیہ کالج سول لائنز اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے ادب کے ساتھ تعلیم کے شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    سجّاد باقر رضوی کا تنقیدی کام نہایت وقیع اور اہمیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کتب مغرب کے تنقیدی اصول اور تہذیب و تخلیق اردو تنقید میں اہم شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کے دو شعری مجموعے ’’تیشۂ لفظ‘‘ اور ’’جوئے معانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے جب کہ تراجم میں داستانِ مغلیہ، افتاد گانِ خاک، حضرت بلال اور بدلتی دنیا کے تقاضے کے نام سے کتابیں‌ علم و ادب کا سرمایہ اور ان کی یادگار ہیں۔

    لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر سجّاد باقر رضوی ماڈل ٹائون کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    نوبیل انعام یافتہ ادیب ٹونی موریسن 5 اگست 2019ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ وہ امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف تھیں جنھوں نے ادب کا معتبر ترین ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں منفرد اور بلند مقام و مرتبے کی حامل تھیں۔ انھیں افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

    وہ اوہائیو کے ایک علاقے میں 1931ء میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہاں اپنے تخیل اور قلم کا سہارا لے کر شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع کیا، وہیں درس و تدریس ان کے معاش کا ذریعہ کا شعبہ بنا۔ اس دوران وہ ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتی رہیں اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ناول نگاری کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد کہانیوں کی بدولت قارئین کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ان کے مداح تھے۔

    ٹونی موریسن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور اس موقع پر سویڈش اکیڈیمی کی جانب سے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور مصنّف کی بصیرت کو خاص طور پر سراہا گیا تھا۔

    ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) نے شہرت بھی دی اور یہ ناول 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کا بھی حق دار قرار پایا۔ یہ ایک درد ناک کہانی تھی جس میں انھوں نے ایسی ماں کو پیش کیا تھا جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے اسے قتل کر دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں(Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں زبردست پذیرائی ملی۔

    باراک اوباما کے دورِ صدرات میں انھیں امریکا کا ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔

    نیویارک میں مقیم ٹونی موریسن مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔

  • پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    6 جولائی 2003ء کو معروف ڈراما نویس اور افسانہ نگار حمید کاشمیری جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے ان کے تحریر کردہ متعدد ڈرامے مقبول ہوئے۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ وہ یکم جون 1929ء کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔ وہ لکھنے لکھانے کے ساتھ فروغِ علم و ادب کے لیے بھی کوشاں رہے اور ایک کتب فروش کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ کراچی میں صدر کے علاقے میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں اکثر بڑے بڑے ادیب اور نام وَر شخصیات اکٹھا ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی ویژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

    پت جھڑ کے بعد حمید کاشمیری کا وہ ڈراما تھا جس پر 1973ء میں انھوں نے میونخ ڈراما فیسٹیول میں انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ اور 2002ء میں اے آر وائی گولڈ انعام بھی حاصل کیا۔

    حمید کاشمیری کراچی کے میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ وراسٹائل اداکار ادیب اسکرپٹ رائٹر بھی تھے

    یومِ‌ وفات:‌ وراسٹائل اداکار ادیب اسکرپٹ رائٹر بھی تھے

    متحدہ ہندوستان کی ریاست جموں و کشمیر کے مظفر علی کا خاندان تقسیمِ ہند سے قبل معاش کی غرض سے ممبئی منتقل ہو گیا تھا جہاں پیدا ہونے والے مظفر علی نے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد اسکرپٹ رائٹر کے طور پر تھیٹر اور بعد میں فلم نگری کا رُخ کیا جہاں اداکار کے طور پر کام کیا۔

    تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے فلموں میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور نام و مقام بنایا۔ وہ ادیب کے نام سے پہچانے گئے۔ 26 مئی 2006ء کو اداکار ادیب کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ وہ گردوں اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔

    اداکار ادیب کی فنی زندگی کا آغاز اسکرپٹ رائٹنگ سے ہوا تھا جب کہ فلم ’پاک دامن‘ میں ولن کے ایک کردار سے بڑے پردے پر ان کا نیا سفر شروع ہوا تھا۔

    پاکستان کے اس مشہور اداکار کی تاریخ پیدائش 4 اکتوبر 1928ء ہے۔ ادیب کی فن کارانہ زندگی کا آغاز ایک تھیٹر کمپنی سے بطور مصنّف ہوا تھا، بعد میں انڈین نیشنل تھیٹر میں کام کیا اور دس فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے، 1962ء میں وہ پاکستان آگئے۔ یہاں ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم دال میں کالا سے اپنی فنی زندگی شروع کی اور یہ سفر لگ بھگ 500 فلمیں کرنے تک جاری رہا۔

  • ڈاکٹر جمیل جالبی:‌ اردو زبان و ادب کی ایک ہمہ صفت شخصیت

    ڈاکٹر جمیل جالبی:‌ اردو زبان و ادب کی ایک ہمہ صفت شخصیت

    معروف ادیب، نقّاد، محقق اور مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی 18 اپریل 2019ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اردو زبان و ادب کو مختلف موضوعات پر وقیع اور جامع کتب سے مالا مال کرنے والے اس ادیب کی دوسری برسی منائی جارہی ہے۔

    جمیل جالبی علم و ادب میں ایک ہمہ جہت اور ایسے قلم کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جنھوں نے کئی اہم اور ادق موضوعات پر بھی لکھا اور اپنی قابلیت اور علمی استعداد کو منواتے ہوئے کئی اہم تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    انھیں ایک نقّاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ اور ایسے محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے جس نے ایک قابلِ قدر اور لائقِ مطالعہ سرمایہ آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا ہے۔ وہ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے تصنیف و تالیف سے لے کر تدوین و ترجمہ تک خوب کام کیا۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 12 جون، 1929 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہا‌ں انھوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور امتحانات میں کام یابیاں سمیٹتے رہے۔ بعد میں انھوں نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو کہانی سے ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوا اور ان کی تحاریر دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہوئیں۔

    ان کی کتابوں میں جارج آرویل کے ناول کا ترجمہ، پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب میں نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ شامل ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

  • نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 19 مارچ 1999ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند کی اوّلین خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ علم و ادب کی رسیا اور فنونِ لطیفہ کی شائق حجاب امتیاز علی نے دنیائے ادب کو متعدد خوب صورت افسانے اور کہانیاں‌ دیں جنھیں‌‌ قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    وہ 4 نومبر 1908ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نام ور اہلِ قلم تھیں۔ حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور پھر افسانے لکھنے کا آغاز کیا جو مختلف ادبی رسالوں میں شایع ہوئے۔ حجاب اسماعیل کے نام سے ان کی تحریریں اس زمانے کے مقبول ترین رسالے تہذیبِ نسواں میں شایع ہوتی تھیں جس کے مدیر مشہور ڈراما و ناول نگار امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا اور 1934ء میں یہ دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

    حجاب اسماعیل نے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے متعدد افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے جن میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغماتِ موت، ظالم محبّت، وہ بہاریں یہ خزائیں شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی نے تہذیب نسواں کی ادارت بھی کی۔

    ہوا بازی کا شوق رکھنے والی حجاب امتیاز علی نے ایک فلائنگ کلب کی رکنیت اختیار کرکے برصغیر پاک و ہند کی پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وفات کے بعد انھیں لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    میر رحیم داد خان کو جہانِ علم و ادب میں مولائی شیدائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 12 فروری 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ مولائی شیدائی سندھی زبان کے معروف ادیب، مؤرخ، مترجم اور صحافی تھے۔

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں 1894ء میں پیدا ہونے والے رحیم داد خان لکھنے پڑھنے کا رجحان رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی تھی۔ ریلوے میں ملازم ہوئے اور یوں کسبِ معاش سے بے فکر ہوگئے۔ مولائی شیدائی نے اپنے پہلے مضمون کی اشاعت کے بعد باقاعدہ قلم تھام لیا اور تصنیف کی طرف آگئے۔ ان کا پہلا مضمون 1934ء میں شایع ہوا تھا جس کا عنوان ممتاز محل تھا۔

    یہ مضمون اس زمانے کے علم و ادب میں ممتاز مولانا دین محمد وفائی کی نظر سے گزرا تو انھوں نے مولائی شیدائی کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں باقاعدہ لکھنے کے لیے کہا۔ دین محمد وفائی نے ان کی راہ نمائی اور اصلاح بھی کی۔ یوں رحیم داد خان نے مولائی شیدائی کا قلمی نام اختیار کیا اور اسی نام سے معروف ہوئے۔

    1939ء میں ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد مولائی شیدائی نے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور سندھی کے کئی معروف جرائد کی ادارت کی۔

    مولائی شیدائی نے کئی قابلِ ذکر اور اہم موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ ان میں جنّتِ سندھ، تاریخِ بلوچستان، تاریخِ تمدنِ سندھ، تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخِ بھکر، روضہ سندھ، تاریخِ قلات اور اسی نوع کی علمی و تحقیقی کتب شامل ہیں۔