Tag: ادیب

  • اردو کے مایہ ناز ادیب اور نقاد ڈاکٹر اسلم فرخی انتقال کرگئے

    اردو کے مایہ ناز ادیب اور نقاد ڈاکٹر اسلم فرخی انتقال کرگئے

    کراچی: اردو کے ممتازمحقق،ادیب اور نقاد ڈاکٹر اسلم فرخی رضائے الٰہی سے انتقال کر گئے۔

    ڈاکٹر اسلم فرخی طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔انہوں نےسندھ مسلم کالج اور کراچی یونیورسٹی میں معلم کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔

    ڈاکٹر اسلم فرخی کا شمار ملک کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا ہے، وہ استاد، شاعر، نثر نگار اور ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر اسلم فرخی نے طویل عرصہ تک کراچی یونیورسٹی میں اردو ادب کی تعلیم دی، وہ ایک ممتاز نقاد، ٰبلند پایہ خاکہ نگار، شاعر اور سب سے بڑھ کر ایک انتہائی محبت کرنے والے استاد تھے۔ وہ 23 اکتوبر 1923 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، ڈاکٹر فرخی نے ریڈیو پاکستان پر بھی خدمات سرانجام دیں ۔

    مرحوم کی نمازجنازہ کل جمعرات (16 جون 2016) کو بعد نماز ظہر، مدنی مسجد، بلاک 5 ، گلشن اقبال میں ادا کی جائے گی اور تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں عمل میں آئے گی ۔

  • عالمی شہرت یافتہ ادیب انتظار حسین انتقال کرگئے

    عالمی شہرت یافتہ ادیب انتظار حسین انتقال کرگئے

    لاہور: عالمی شہرت یافتہ ادیب، افسانہ نویس اور کالم نگار انتظار حسین لاہور میں انتقال کر گئے۔

    پاکستان کے معروف افسانہ اور ناول نگار انتظار حسین 92 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے ہیں۔

    ان کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے یا کہانی کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔

    جناب انتظار حسین 21 دسمبر 1923ءکو میرٹھ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے، میرٹھ کالج سے بی اے کیا اورقیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے جہاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعدوہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔

    انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلی کوچے “ 1953ءمیں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔

    انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب ، بدلتے لہجوں اور کرافٹنگ کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا ، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاہے۔

    ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت ،ماضی پرستی ، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔

    انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس،آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ ،خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند،شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک اور، چراغوں کا دھواں،دلی تھا جس کا نام،جستجو کیا ہے ، قطرے میں دریاجنم کہانیاں، قصے کہانیاں،شکستہ ستون پر دھوپ ،سعید کی پراسرار زندگی، کے نام سر فہرست ہیں ۔

    انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا ۔

    انتظار حسین آج 2 فروری 2016 کو مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔

  • ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    اردو کے منفرد و ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے اننچاس برس بیت گئے۔

    اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی ،نئی طرز کی افسانہ نگاری میں پہلی اینٹ رکھنے والے سعادت حسن منٹو , منٹو کے افسانے،ڈرامے مضامین اور خاکے اردو ادب میں لازوال حیثیت کے حامل ہیں۔ منٹو پر فحش نگا ری کا الزام لگا نے والو ں کو جواب خود منٹو نے دیا۔

    اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ منٹو نے صرف جنسی نفسیات پر مبنی افسانے نہیں لکھے ، بلکہ غربت ، افلاس، استحصال، مزدور کی حا لت زار ، غریبی اور امیری کے درمیان کی خلیج ، سیاسی بازیگری ، ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے ، فلمی دنیا کی مصنوعی چمک دمک جیسے اہم موضوعات پر بھی اچھو تے انداز سے قلم اٹھا یا ، منٹو نے لکھا کہ سعادت حسن فانی ہے لیکن منٹو رہتی دنیا تک زندہ رہے گا اور بلاشبہ ان کی تحریریں آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔