راولپنڈی: آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سندھ میں پاک فوج کی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، کراچی کے مختلف علاقوں میں آرمی موبائل اسپتال قائم کر لیے گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ کراچی میں پاک فوج کی امدادی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری ہیں، شدید بارشوں سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر کراچی کے مختلف علاقوں میں 32 میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقوں سرجانی، سعدی ٹاؤن اور قیوم آباد میں 3 آرمی موبائل اسپتال قائم کیے گئے ہیں، سرجانی ٹاؤن میں 50 بستروں کا اسپتال قائم کیا گیا، مختلف علاقوں میں متاثرین کے لیے 56 امدادی کیمپ بھی قائم کیے گئے، جن میں لیاری، گارڈن، کلفٹن، کیماڑی، صدر، گلبرگ، کچی آبادی، لیاقت آباد، ملیر، کورنگی، ضلع شرقی کے علاقے شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق کراچی کے 9 مختلف مقامات پر ڈی واٹرنگ کی گئی، پاک فوج کے جوان متاثرہ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر رہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد کے 2 مقامات پر بھی ڈی واٹرنگ کی گئی، حیدآباد میں متاثرہ افراد کو تیار کھانے کی بھی فراہمی کی گئی، دادو میں بھی پاک فوج نے 350 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا، دادو کے متاثرہ افراد میں کھانے پینے کی اشیا بھی تقسیم کی گئیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق بدین میں پاک بحریہ نے میڈیکل کیمپ قائم کیا، بدین کے 5 متاثرہ دیہات میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
کراچی: محکمہ موسمیات نے منگل کی شام سے جمعہ تک ہونے والی بارش کے باعث کراچی اور سندھ کے دیگر زیریں علاقوں میں اربن فلڈ کی باقاعدہ وارننگ جاری کردی۔
محکمہ موسمیات نے سندھ کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی شدید بارش کی پیش گوئی کی ہے۔
محکمے کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق مون سون کا طاقتور اسپیل ملک کے جنوبی حصوں کو متاثر کرے گا۔
پریس ریلیز کے مطابق ہزارہ ڈویژن، راولپنڈی، گوجرانولہ، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاولپور، میرپور خاص، شہید بینظیر آباد، حیدرآباد، قلات، کوئٹہ، سبی، ژوب، نصیر آباد، اسلام آباد اور کشمیر میں طوفان اور شدید بارشیں ہوں گی جبکہ آج کا دن موسم گرم اور مرطوب رہے گا۔
محکمہ موسمیات نے کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص میں اربن فلڈ کی وارننگ جاری کردی ہے جبکہ مشرقی بلوچستان کے ندی نالوں میں پانی بھر جانے سے فلیش فلڈ کا خطرہ بھی ظاہر کیا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
عام سیلاب اور شہری سیلاب (اربن فلڈ) میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر ماحولیات رفیع الحق نے بتایا کہ عام سیلاب اس وقت آتا ہے جب کسی دریا یا نالے کے کنارے بھر جائیں، پانی ابل پڑے اور آس پاس کی آبادیاں زیر آب آجائیں۔ یہ ایک قدرتی عمل اور قدرتی آفت ہے۔
تاہم ان کے مطابق اربن فلڈ ناقص شہری منصوبہ بندی کے باعث رونما ہوتا ہے اور یہ سراسر انسانی ہاتھوں کی کارستانی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا، ’جہاں کہیں سڑکوں پر نشیب واقع تھا اور پانی بہہ کر ایک طرف ہو جاتا تھا، وہاں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی یا اسپیڈ بریکر بنا دیا گیا جس کے باعث پانی کی آمد و رفت رک گئی۔ اب جب اس جگہ پر بے تحاشہ پانی کھڑا ہوجائے گا تو وہ مقام زیر آب آجائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ پورے شہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلاؤ جاری ہے، کہیں نہر ہے، نالہ ہے یا دریا ہے وہاں گھر بنا کر پانی کا بہاؤ روک دیا گیا۔ ’پورا شہر کچرے سے اٹا ہوا ہے، نکاسی آب کے ذرائع کچرے سے بھرے پڑے ہیں، ایسی صورت میں پانی جمع ہو کر شہر میں سیلاب ہی لاسکتا ہے‘۔
کراچی کا گجر نالہ
رفیع الحق نے بتایا کہ اربن فلڈ آنے کی ایک وجہ درختوں کا نہ ہونا بھی ہے کیونکہ درخت کسی مقام کی مٹی کو تھام کر رکھتے ہیں یوں زمین کے اوپر کوئی بڑا نقصان نہیں ہونے پاتا، ’لیکن ہم نے درختوں کو بھی کاٹ دیا، پورا شہر عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے‘۔
مستقبل کو مدنظر رکھنا ضروری
رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اب بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’بظاہر سعودی دارالحکومت ریاض بہت منصوبہ بندی سے بنایا ہوا شہر ہے لیکن جب وہاں غیر معمولی بارشیں ہوئیں تو شہر میں سیلاب آگیا اور پورا شہر زیر آب آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سائنسی بنیادوں پر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کے خیال میں کم بارشیں ساری زندگی ہوتی رہیں گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے کراچی میں بارش کی چھینٹ پڑنے کی دیر تھی کہ اسکول اور دفاتر میں چھٹیاں ہوجایا کرتی تھیں اور لوگ خوشی خوشی بارش کا لطف اٹھانے سڑکوں پر نکل آیا کرتے تھے، لیکن اب یہ حال ہے کہ بارشیں ہوتے ہی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی خبریں سامنے آتی ہیں‘۔
انہوں نے ایک بار پھر موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر وقت ہر قسم کے حالات سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صحرا میں برف باری ہو یا خشک ترین شہروں میں بارشوں اور سیلابوں کا آنا، اب ہر جگہ کے لوگوں کو، ہر قسم کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
تحفظ کیسے ممکن ہے؟
رفیع الحق نے ارلی وارننگ یعنی قبل از وقت انتباہ کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی ہیں جب ان پر عمل کر کے آنے والے وقت سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں بارش شروع ہونے سے قبل ہنگامی بنیادوں پر کسی حد تک صفائی کر کے نکاسی آب کے راستوں کو بحال کردیا جائے تو آنے والے سیلاب کا خدشہ خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں بھی بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ بدھ سے جمعہ تک ٹھٹہ، بدین، سجاول، مٹھی، تھر پارکر اور نواب شاہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔