Tag: اردو

  • کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے، اس تاثر میں کتنی سچائی ہے، یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں

    کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے، اس تاثر میں کتنی سچائی ہے، یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں

    اردو ایک مہذب، نفیس اور خوب صورت زبان مانی جاتی ہے۔ پاکستان میں کراچی والوں کو اس زبان کا امین سمجھا جاتا تھا اور کراچی کے اردو بولنے والے اس پر فخر بھی کرتے تھے، لیکن اب شکوہ کیا جاتا ہے کہ کراچی میں اردو زبان پہلی جیسی رہی، نہ ہی گفتگو کا وہ سلیقہ رہا۔

    کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے۔ اس تاثر میں کتنی سچائی ہے یہ جاننے کے لیے ہم اردو کی تلاش میں نکلے۔ قریہ قریہ گئے اردو کو تلاش کیا، لوگوں سے ملاقات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کراچی میں اردو زبان کا صحیح تلفظ اور حسین لہجہ کہیں کھو تو نہیں گیا، کراچی والوں کا شین قاف اب بھی درست ہے یا بگڑ چکا ہے۔

    اس ویڈیو رپورٹ کی ریکارڈنگ کے دوران لوگوں کی دل چسپ گفتگو سننے کو ملی۔ کچھ لوگوں نے کہا جو زبان اور حسین لب و لہجہ ان کے آبا و اجداد ہجرت کے وقت کراچی لے کر آئے تھے اس کی نہ صرف انھوں نے حفاظت کی بلکہ اگلی نسلوں میں بھی گفتگو کا سلیقہ منتقل کیا۔


    کیا 6 ماہ سے یرغمال بنے سکندر کو ماموں نے قتل کیا؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو رپورٹ


    کچھ لوگوں نے اعتراف کیا کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ زبان اور لہجے میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ اردوزبان اب بولی بن گئی ہے۔ صرف رابطہ قائم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے لیے نئی نسل کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر ہم اچھے اور درست الفاظ کا استعمال نہیں کریں گے تو نئی نسل سے شکوہ کرنا غلط ہے۔ کراچی میں اردو گم نہیں ہوئی ارد گرد ہی موجود ہے صرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • جاپانی قائم مقام قونصل جنرل ناکاگاوا یاسوشی کی اردو میں قرارداد پاکستان کی مبارک باد کی ویڈیو

    جاپانی قائم مقام قونصل جنرل ناکاگاوا یاسوشی کی اردو میں قرارداد پاکستان کی مبارک باد کی ویڈیو

    کراچی: جاپان کے قائم مقام قونصل جنرل نے پاکستانیوں سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ’اردو دانی‘ کا ہنر خوب صورتی سے آزمایا، جنھیں ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں جاپانی قائم مقام قونصل جنرل ناکاگاوا یاسوشی نے اردو زبان میں قرارداد پاکستان کی مبارک باد دی ہے، اس سلسلے میں انھوں نے خاصا طویل ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔

    ناکاگاوا یاسوشی نے کہا ’’پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو سلام پیش کرتا ہوں، 23 مارچ کا دن پاکستان کے لیے تاریخی لحاظ سے بہت اہم اور فخر کا دن ہیں۔‘‘

    قائم مقام قونصل جنرل نے کہا ’’میں اپنی طرف سے قونصل جنرل جاپان ہاتوری ماسارو اور پورے جاپانی قونصل خانے کے عملے کی جانب سے پاکستانیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘


    یوم پاکستان پر گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ کی مزار قائد پر حاضری


    ناکاگاوا یاسوشی نے مزید کہا ’’قونصل جنرل جاپان ہاتوری ماسارو نے خصوصی پیغام جاپان سے پاکستانیوں کے لیے بھجوایا ہے، یہ دن پاکستان اور اس کے عوام کے لیے امن، استحکام اور خوشیوں کی ماند ہے۔‘‘

    واضح رہے کہ آج ملک بھر میں یوم پاکستان ملی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، دن کے آغاز پر وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔

  • مودی سرکار نے اردو دشمنی میں بڑا قدم اٹھا لیا

    مودی سرکار نے اردو دشمنی میں بڑا قدم اٹھا لیا

    جے پور: بھارتی ریاست راجستھان میں مودی حکومت نے ریاست کے سرکاری اسکولوں میں اردو کی جگہ سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر متعارف کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق راجستھان کے محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن نے بیکانیر کے ہائر سیکنڈری اسکول میں اردو ادب کی جگہ سنسکرت ادب کو شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جو اپریل 2025 سے نافذ العمل ہوگا۔

    اس سے قبل جے پور کے مہاتما گاندھی سیکنڈری اسکول اور کئی دیگر اسکولوں میں بھی ایسے ہی احکامات جاری کیے جا چکے ہیں، اس فیصلے کے تحت جن اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ نہیں ہیں یا وہ دل چسپی نہیں رکھتے، وہاں اب سنسکرت پڑھائی جائے گی۔

    محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر آشیش مودی نے مؤقف پیش کیا کہ بیکانیر کے ناپاسر اسکول میں صرف ایک طالب علم اردو پڑھ رہا تھا، جو اب بارہویں کلاس مکمل کر کے کالج جا رہا ہے، چوں کہ وہاں مزید کوئی اردو پڑھنے والا نہیں ہے، اس لیے اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    بھارت میں آئرش خاتون کی عصمت دری، قتل کرنیوالے شخص کو عمرقید کی سزا

    اس فیصلے پر اساتذہ اور سماجی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، اردو کے اساتذہ نے بھی احتجاج کیا ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اردو کو اسکولوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ریاست میں لسانی تنوع کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    اساتذہ نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت جان بوجھ کر اردو زبان کو کمزور کر رہی ہے اور سنسکرت کو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے۔

    ادھر راجستھان کے وزیر داخلہ جواہر سنگھ بے دھم نے سوشل میڈیا پر ایک متنازع بیان جاری کر کے معاملے کو اور ہوا دی ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ اردو کے اساتذہ جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے ہیں۔

  • دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ’’اردو‘‘ کا نمبر کون سا؟

    دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ’’اردو‘‘ کا نمبر کون سا؟

    دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں مگر ان میں سے چند ہی ایسی زبانیں ہیں جو کثیر اقوام بولتی ہیں کیا آپ جانتے ہیں اردو اس فہرست میں کس نمبر پر ہے؟

    دنیا میں انسان نے ترقی کے ساتھ اشاروں کی زبان کو صوتی زبان میں تبدیل کیا اور جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھتی گئی، نئے خطے آباد ہوتے گئے۔ ویسے ویسے نئے رسم ورواج کے ساتھ زبانیں بھی وجود میں آتی گئیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریبا سات ہزار کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مگر ان میں سے صرف چند درجن ہی ایسی زبانیں ہیں جو زبان زد عام مقبول اور کثیر اقوام بولتی ہیں۔ ان میں ہی ایک زبان اردو بھی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان انگریزی (انگلش) ہے۔ اقوام عالم میں رابطوں کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھی جانے والی یہ زبان ایک ارب 42 کروڑ سے زائد افراد بولتے ہیں۔

    سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی زبان دوسرے نمبر پر ہے اور دنیا کے ایک ارب 11 کروڑ سے زائد افراد یہ چین میں بولی جانے والی زبان کا اس فہرست میں دوسرا نمبر ہے جسے 1.119 ارب افراد چین کے مختلف علاقوں میں بولتے ہیں۔

    دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان میں تیسرے نمبر پر ہندی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد 60 کروڑ سے زائد ہے۔ تاہم واضح رہے کہ ہندی زبان میں کثرت سے اردو زبان کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

    دنیا کے 55 کروڑ سے زائد افراد اسپینش (ہسپانوی) زبان بولتے ہیں اور یہ 21 ممالک کی سرکاری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے۔

    دنیا کی سب سے خوش لحن زبان سمجھی جانے والی ’’اردو‘‘ بولنے والوں کی تعداد 23 کروڑ سے زائد ہے اور یہ دسویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔

  • خطبہ حج اردو سمیت 20 زبانوں میں نشر ہوگا

    خطبہ حج اردو سمیت 20 زبانوں میں نشر ہوگا

    رواں سال 14 جون سے مناسک حج کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے خطبہ حج اردو سمیت 20 بین الاقوامی زبانوں میں نشر کیا جائے گا۔

    دنیا بھر سے لاکھوں عازمین فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں اور مناسک حج کا آغاز جمعہ 14 جون سے ہو رہا ہے۔ حج کا رکن اعظم وقوف عرفات ہفتہ کو ہوگا۔

    سعودی میڈیا ایس پی اے کے مطابق اس سال خطبہ حج اردو سمیت 20 بین الاقوامی زبانوں میں نشر کیا جائے گا اور یہ خطبہ دنیا کے ایک ارب سے زائد لوگ سن اور دیکھ سکیں گے۔

    خطبہ حج اسمارٹ موبائل فون، حرمین شریفین کی ویب سائٹ اور منارۃ الحرمین پلیٹ فارم کے ذریعے بھی پیش ہوگا۔

    اس حوالے سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ کے امور کے لیے جنرل پریذیڈنسی عرفات کے خطبے کے لیے اب تک کا سب سے بڑا ترجمہ پروجیکٹ شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

    حرمین شریفین میں دینی امور کے سربراہ شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس نے تصدیق کی کہ خطبہ حج کے ترجمے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ یہ 20 بین الاقوامی زبانوں میں بیک وقت ڈیجیٹل چینلز، پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا کے ذریعے نشر ہوگا۔

    ایس پی اے کے مطابق یہ اہم منصوبہ مملکت کے مذہبی روادری، اعتدال اور امن کے پیغام کو اجاگر کرنے،اسلام کی حقیقی تصویر اور اس کی اعلی اقدار کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    ’خطبہ حج کا ترجمہ حج سیزن میں دینی امور کے آپریشنل پلان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس کا مقصد تمام زبانوں کے مسلمانوں اور دنیا بھر تک اسلام کا حقیقی پیغام  پہنچانا ہے‘۔

    عبدالرحمن السدیس کا کہنا تھا ’ یہ منصوبہ اسلام کے پیغام کو پھیلانے اور عازمین کی خدمت میں مملکت کی کوششوں کو اجاگر کرنے میں دانشمندانہ قیادت کی گہری دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے‘۔

    واضح رہے کہ 2017 میں پہلی مرتبہ پانچ بین الاقوامی زبانوں میں خطبہ حج کا ترجمہ نشر کیا گیا تھا جس کو بعد ازاں بتدریج بڑھاتے ہوئے 10 تک پہنچا دیا گیا تھا جب کہ 2022 میں 14 زبانوں میں خطبہ حج نشر کیا گیا تھا۔

    گزشتہ برس بھی فرانسیسی، انگریزی، فارسی، اردو، ہاؤسا، روسی، ترکی، پنجابی، چینی، مالائی، سواحلی، ہسپانوی، پرتگالی، امہاری، جرمن، سویڈش، اطالوی، ملیالم، بوسنیائی اور فلپائنی زبانوں میں خطبہ حج کا ترجمہ کیا گیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/saudi-arabia-a-pakistani-pilgrim-handed-over-a-bag-full-of-thousands-of-rials-to-the-haj-mission/

  • قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    اس کا نام سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے یہ تصویر ابھرتی ہے۔

    گہری رنگت والا ایک طاقت وَر شخص، وحشی گھوڑے پر سوار، دو آہنی آنکھیں اور بھری بھری مونچھیں۔ اس کے ہونٹ مونچھوں میں چھپے رہتے تھے۔ کوسما ایک خطرناک آدمی تھا، قانون کا مجرم، ہمیشہ گھوڑے پر سوار، کندھوں پر رائفل اور کمر میں گز بھر لمبی تلوار۔

    اب میں کم و بیش سو سال کا ایک بوڑھا ہوں، سو سال میں بڑی دنیا دیکھی ہے میں نے، جگہ جگہ کی سیر کی ہے، طرح طرح کے لوگوں سے ملا ہوں، لیکن کوسما جیسا دلیر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

    وہ کوئی دیوہیکل شخص نہیں تھا درمیانہ قد، چوڑی اور پُرگوشت ہڈیاں، سورج کی تمازت نے اس کا رنگ جھلسا دیا تھا۔ گھر سے باہر رہنے والوں کے ساتھ عموماً یہی ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دبدبے اور ہیبت کا دوسرا نام کوسما تھا۔ کسی کا اس سے ایک بار آنکھیں ملا لینا ہی بہت تھا۔

    وہ زمانہ ہمارے وطن کے لیے بڑا پُرآشوب تھا۔ ترک اور یونانی، رومانیہ کی سرزمین تاراج کررہے تھے۔ عجب اداسی اور بے کیفی کا دور تھا۔ ہر رومانیین غیر محفوظ تھا اور خوف کی حالت میں زندگی گزار رہا تھا۔ کوسما نے انہی حالات کے باعث باغیانہ رویہ اختیار کیا تھا اور اس طرز حیات میں خوب کام یاب تھا۔ شاید وہ واحد رومانیین تھا جو ترکوں اور یونانیوں دونوں سے محفوظ تھا۔

    اس کا مسکن جنگل اور پہاڑ تھے آج یہاں تو کل وہاں، اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ ایک بار وہ گرفتار بھی ہوا اور اسے ہتھ کڑیاں پہنادی گئیں لیکن وہ بھی کوئی اور نہیں، کوسما تھا۔ اس نے صرف ایک جھٹکے سے خود کو آزاد کرلیا پھر فوراً گھوڑے پر سوار ہوکے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    شاید اس کے نوشتے میں تحریر تھا کہ بندوق کی گولی اس پر اثرانداز نہیں ہوگی، ہاں! کوئی چیز اسے زد پر لے سکتی تھی تو وہ چاندی کی گولی تھی۔

    وہ عہد بہادروں کا عہد تھا۔ کم زور صرف سر جھکا کر، صرف اطاعت کرکے زندہ رہ سکتا تھا۔ سنتے ہیں، مالدیویا کی سرحدوں کے اس پار، ولے شیا میں بھی ایک شخص رہتا تھا جس کی صفات کوسما سے ملتی جلتی تھیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں آپس میں بہت اچھے دوست تھے۔

    وہ رات کی تاریکی میں سرحد پر ایک دوسرے سے ملتے اور اپنا اپنا مالِ غنیمت ایک دوسرے سے تبدیل کرلیتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرحد پر متعین محافظوں نے اسے گرفتار کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن کوسما کا گھوڑا تو کوئی جن یا بھوت تھا، پلک جھپکتے ہی غائب ہوجاتا، محافظوں کی گولیاں بھی اس تک نہ پہنچ پاتیں، ویسے بھی سرحد کا علاقہ بکاﺅ کی پہاڑی سے بہت دور تھا، رات کی رات وہاں جاکر لوٹ آنا بہت دشوار بلکہ ناممکن تھا، لیکن کوسما کے لیے ایسا نہیں تھا، وہ تو اس دنیا کا انسان ہی نہیں تھا۔

    اس کی زندگی، جنگلوں، میدانوں اور پہاڑوں میں گزر رہی تھی۔ وہ کوئی عاشق، کوئی مجنوں نہیں، ایک فاتح شخص تھا، فاتح اور ظفر مند، اس نے کبھی شکست نہیں کھائی تھی۔ لوگ اس کی دہشت سے لرزتے تھے۔

    ول تورستی میں یونانی نسل کا ایک شخص رہتا تھا اس کا نام فرنکو لازیم فریڈ تھا۔

    ہماری سَرزمین پر ایک ویران محفل میں رومانیہ کی ایک نازنین رہتی تھی، وہ بے مثال حسن کی مالک تھی، اس کی بھنویں کمان کے مانند اور آنکھیں جُادو بھری تھیں۔ نوعمری میں اس کی مرضی کے خلاف علاقے کے ایک بڑے زمین دار سے اس کی شادی کردی گئی تھی۔ حسن اتفاق سے شادی کے بعد جلد ہی اس کا خاوند چل بسا۔ اب یہ جواں سال حسینہ اس کی تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ اس کا نام سلطانہ تھا۔

    نکولازیم فریڈ اس حسین و جمیل بیوہ کے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے لیکن سلطانہ کسی طور بھی اس کی نہ ہوسکی، حد ہے کہ اس نے جادو ٹونے بھی کرائے، مگر سب بے سود۔

    ایک صبح نکولا بے حد ملول اور دل گرفتہ تھا، رات بھر اسے سلطانہ کی یاد ستاتی رہی تھی، وہ حویلی سے نکل کے اصطبل کی جانب گیا، چبوترے پر بیٹھ گیا اور سلطانہ کے تصور میں کھو گیا۔ سوچتے سوچتے اسے کوئی خیال آیا اس نے چونک کے آواز لگائی۔ ”ویسائل!“۔۔۔

    تبھی ایک معمر اور جہاں دیدہ شخص ادب سے سامنے آکے کھڑا ہوگیا۔ ویسائل، نکولا کا رازدار تھا۔ نکولا نے اسے اپنی پریشانی بتائی اور کہا کہ کوئی راہ نکالے۔

    اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں آقا؟“ ویسائل نے کہا۔

    ضرور ضرور۔ نکولا بے تابی سے بولا۔

    بوڑھے ویسائل نے کہا کہ سلطانہ کو طاقت کے زور پر اس کے محل سے اٹھوا لیا جائے۔ نکولا نے تذبذب سے دریافت کیا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

    کیوں نہیں میرے آقا! دنیا میں کوئی بات ناممکن نہیں۔ اسی رات نکولا پانچ مسلح سپاہیوں کے ساتھ سلطانہ کے کوچے فراسینی کی جانب روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد وہ سلطانہ کی حویلی کے سامنے پہنچ گئے۔ تاریکی میں ڈوبی حویلی کوئلے کا پہاڑ نظر آرہی تھی۔

    نکولا اور اس کے ساتھی احاطے کی دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ وہ خاموشی کے ساتھ گھوڑوں سے اتر کے دیوار پر چڑھ گئے۔ دوسرے ہی لمحے حویلی میں جاگ پڑگئی اور ہوشیار خبردار کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔

    نکولا نے اس شور کی پروا نہیں کی، وہ بے خوفی سے اپنے ساتھیوں سمیت حویلی کے اندرونی دروازے تک پہنچ گیا۔ سپاہیوں نے دروازہ توڑ دیا۔ انسانی سائے راہ داری میں ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے۔ اچانک خواب گاہ کا دروازہ کھلا اور روشنی کا سیلاب سا باہر نکلا۔

    نکولا نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ دروازے پر کھڑی ہے۔ نکولا کے منہ سے بے اختیار نکلا دیکھا، آخر میں نے تمہیں پالیا، وہ سفید لباس میں وقار اور تمکنت سے کھڑی تھی، خوابیدہ آنکھیں اس کا حسن اور نکھار رہی تھیں، اس سحر انگیز منظر نے نکولا کو دم بہ خود کردیا۔

    نکولا کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ جھک کر اس کے مرمریں پاﺅں چوم لے، لیکن اس نے خود پر قابو رکھا۔ سلطانہ بولی ‘‘اچھا، یہ تم ہو۔ میں تو سمجھی تھی چور وغیرہ آگھسے ہیں۔ اس کی آواز سے گھنٹیاں بج اٹھیں، مگر اس کے لہجے میں تمسخر تھا۔ اپنا جملہ ختم کرکے اچانک اس نے ہاتھ اٹھایا، ننگی تلوار چمکی، تلوار کی غیر متوقع چمک سے نکولا گڑ بڑا گیا۔ سلطانہ نے کسی تاخیر کے بغیر اس کے سر پر تلوار کی الٹی جانب سے ایک زور دار ضرب لگائی، نکولا لڑکھڑا گیا، پھر اس سے پہلے کہ اس کے ساتھی مدد کو آگے بڑھتے سلطانہ کے ملازمین نے ان پر دھاوا بول دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نکولا اور اس کے ساتھیوں کو پسپا ہونا پڑا اور وہ جان بچاکر بد حواسی سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس سانحے نے نکولا کو گوشہ نشین کردیا۔ وہ ہر وقت حویلی کے ایک گوشے میں پڑا آہیں بھرتا رہتا۔

    اس کا واحد غم گسار ویسائل تھا۔ ایک روز نکولا نے روتے ہوئے ویسائل سے کہا کہ اب ہم سلطانہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ویسائل نے آہستہ سے کہا: میں سمجھ سکتا ہوں، آپ پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے نکولا کو اس معاملے میں کوسما سے مدد لینے پر اکسایا اور کہا کہ اگر کوسما اس مہم پر آمادہ ہوگیا تو سلطانہ آپ کے پہلو میں ہوگی اور آپ جانتے ہیں کہ کوسما دولت کے عوض کچھ بھی کرسکتا ہے۔

    نکولا نے کوسما سے ملاقات کی اور اسے اپنے سامنے کھڑا پایا تو دَم بہ خود رہ گیا، وہ تھا ہی اتنا با رعب۔ ایک تو اس کی شخصیت کا جاہ و جلال، دوسرے اس کی شہرت دونوں ہی باتیں لوگوں کو خوف زدہ کرنے میں مہمیز کا کام کرتی تھیں۔

    گفت گُو میں پہل کوسما ہی نے کی۔ خدا تم پر مہربان ہو۔

    خوش آمدید کوسما! میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ ویسائل نے جواب دیا۔

    ادھر نکولا کچھ سنبھل گیا تھا، اس نے بھی براہ راست سوال کیا۔

    پچاس ہزار۔۔۔ نکولا نے ویسائل کو حکم دیا کہ رقم کی تھیلی لاﺅ۔

    نہیں۔ کوسما نے بے اعتنائی سے کہا۔ ابھی مجھے رقم نہیں چاہیے۔ یہ ایک سودا ہے میں فراسینی سے لاکر سلطانہ کو تمہارے حوالے کروں گا اس کے بعد تم مجھے رقم ادا کرو گے۔ رات ہونے تک میں یہیں وقت گزاروں گا، یہ کہتا ہوا کوسما اپنے گھوڑے سے اتر کر باغ میں آکر گھاس پر لیٹ گیا۔

    کوسما فراسینی پہنچا تو پوری بستی سورہی تھی۔ اس نے حویلی کے بیرونی دروازے پر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    کون ہے؟ اندر سے کسی نے پوچھا۔۔۔ دروازہ کھولو۔ کوسما نے حکم دیا۔

    تم ہو کون؟ اندر سے پھر استفسار کیا گیا۔ کھولو! کوسما گرجا۔ مزید سرگوشیاں سی ہونے لگیں کب تک انتظار کرنا پڑے گا؟۔۔۔ کوسما برہم ہوگیا۔

    نام بتاﺅ ورنہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ اندر سے آواز آئی۔

    نام سننا چاہتے ہو؟ اچھا۔۔۔ سنو، کوسما داکورے۔

    اندر خاموشی چھاگئی۔ پھر دروازے کی جھریوں سے روشنی کی کرن باہر آئی اور غائب ہوگئی۔ دوسرے ہی لمحے دروازے کی زنجیر بجی اور دروازہ کھل گیا۔ کوسما اعتماد سے اندر پہنچا اور گھوڑے سے اتر کر اندرونی دروازے کی جانب بڑھا۔ ملازموں میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اسے روکے۔ اندرونی دروازہ کھلا تھا کوسما درانہ اندر چلا گیا۔ دروازہ کھلا ہونے سے اس نے اندازہ لگایا کہ عورت دلیر معلوم ہوتی ہے۔

    راہ داری میں کوسما کے بھاری جوتے گونج پیدا کررہے تھے۔ معاً اندر کسی کمرے میں ہلکا سا شور ہوا کوسما چوکنا ہوگیا، اسی وقت راہ داری اچانک روشن ہوگئی۔ کوسما نے دیکھا کہ خواب گاہ کے دروازے پر سلطانہ کھڑی ہے۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے۔ وہ شب خوابی کا باریک سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔

    کون ہو تم؟ اور یہاں کس مقصد سے آئے ہو؟ سلطانہ نے سختی سے پوچھا۔

    میں کوسما ہوں اور رئیس نکولا کے لیے تمہیں لینے آیا ہوں۔ کوسما نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

    اچھا۔ سلطانہ نے اپنی تلوار اٹھائی۔

    میں ابھی سبق سکھاتی ہوں، تمہیں بھی اور تمہارے رئیس نکولا کو بھی۔

    کوسما پیچھے ہٹنے کے بجائے اس کے اور قریب ہوگیا، پھر اس نے چشم زدن میں عورت کی کلائی گرفت میں لے لی۔ تلوار عورت کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ وہ زور زور سے پکاری گبریل! نکولائی! دوڈو! دوڑو۔

    محافظ تیزی سے کوسما کی طرف بڑھے۔ کوسما ایک ہاتھ سے سلطانہ کو پکڑے ہوئے تھا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی اور آنکھوں میں چیتے جیسی چمک، اس کی خوں خواری دیکھ کر محافظ ٹھٹک گئے۔

    کوسما کے رعب نے انھیں مفلوج کردیا۔ انھیں رکتے دیکھ کر عورت نے ایک دم کوسما سے ہاتھ چھڑایا اور دیوار کی طرف لپکی، وہاں ٹنگی ہوئی تلوار کھینچ کر وہ اپنے آدمیوں پر چیخی۔

    بزدلو! کھڑے کیا ہو اسے باندھ دو۔

    مادام! کوسما نے تحمل سے کہا۔ آپ کیوں الفاظ ضایع کررہی ہیں، آپ کے نمک خوار آپ کی طرح بہادر نہیں ہیں۔
    سرکار! ایک ملازم نے ہکلا کے کہا۔ اسے ہم کیسے باندھ سکتے ہیں، یہ کوسما ہے۔۔۔ کوسما، اس پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔

    نوکروں سے مایوس ہو کے سلطانہ خود کوسما پر جھپٹ پڑی۔ کوسما نے بھی برق رفتاری کا مظاہرہ کیا اور سلطانہ کو آناً فاناً بے بس کرکے کسی بوری کی طرح اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ ملازم تتر بتر ہوگئے۔

    کوسما نے آگے بڑھتے ہوئے سوچا، واہ کیا عورت ہے؟ نکولا کی پسند واقعی قابل داد ہے۔

    باہر آکر کوسما گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ سلطانہ کو اس نے آگے بٹھالیا۔ مالک کا اشارہ ملتے ہی گھوڑا تاریکی میں سرپٹ دوڑنے لگا۔

    کچھ راستہ طے ہوگیا تو سلطانہ نے چہرہ موڑا اور مدھم چاندنی میں کوسما کو غور سے دیکھا۔
    گھوڑے کی رفتار اور تیز ہوگئی۔ سلطانہ کے بال ہوا میں لہرارہے تھے۔ وہ رہ رہ کے اپنے لٹیرے، اپنے ڈاکو کو دیکھ رہی تھی۔

    کوسما کے ہاتھ لوہے کی طرح مضبوط تھے اور سیاہ چمک دار آنکھیں پتھر کی طرح سخت تھیں۔ گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔ منزل نزدیک آتی جارہی تھی، چاند بادلوں میں تیر رہا تھا کبھی چھپ جاتا، کبھی سامنے آجاتا، دونوں خاموش تھے۔ سلطانہ پوری طرح کوسما کی طرف متوجہ تھی، مگر کوسما ایسے بیٹھا تھا، جیسے اس کے وجود سے بے خبر ہو۔

    منزل پر پہنچ کے درختوں میں ہلکی روشنی اور کچھ انسانی سائے نظر آئے۔ سلطانہ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟
    کوسما نے بتایا، نکولا اور اس کے ساتھی، یہ ہمارا انتظار کررہے ہیں۔

    سلطانہ خاموش ہوگئی۔ وہ کوسما کے بازوﺅں کے حصار میں تھی، اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے۔ اس نے تیزی سے دایاں ہاتھ بڑھا کے گھوڑے کی لگام تھامی اور بائیں کلائی کوسما کے گردن میں حمائل کردی، گھوڑا جھٹکا کھاکر رفتار کم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ سلطانہ نے کوسما کو سینے پر سَر رکھ کے سرگوشی کی۔

    مجھے کسی اور کو مت دو!

    کوسما نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا اور لگام ڈھیلی کردی۔ گھوڑے نے رخ موڑا اور تاریکی میں حرکت کرتے ہوئے سائے پیچھے چھوڑ کے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    (میخائل سیندو ویناﺅ کی اس کہانی کو صبیحہ علی نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے)

  • عزیز میاں قوال: اولیا اور صوفیا کا ارادت مند، فلسفے کا شائق!

    عزیز میاں قوال: اولیا اور صوفیا کا ارادت مند، فلسفے کا شائق!

    نام اُن کا عبدالعزیز تھا، مگر دنیا بھر میں عزیز میاں مشہور ہیں۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔

    یہ فنِ قوالی کے بے تاج بادشاہ کا تذکرہ ہے جن کی 19 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ قوالی کے شیدا عزیز میاں کے دیوانے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا منفرد انداز اور جذب و مستی کی وہ کیفیت ہے جس میں‌ ان کی برگزیدہ ہستیوں، اولیا و صوفیا سے عقیدت جھلکتی ہے۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے. پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں عزیز میاں کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    https://youtu.be/3dGTTiBMQ-s

    آئیے ان زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔
    دہلی میں 17 اپریل 1942 کو آنکھ کھولی۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگریاں لیں۔ عزیز میاں مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔ اس حوالے سے مباحث میں ان کی گفتگو سننے والے ان کی علمیت کا اعتراف ضرور کرتے۔

    قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو انھوں‌ نے معروف استاد عبدالوحید سے سمجھا اور سیکھا۔ عزیز میاں شاعر بھی تھے۔ کئی قوالیاں ان کی تخیل کا نتیجہ اور عقیدت کا دل رُبا نقش ہیں۔ انھیں‌ حکومت نے تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا.

    یہ قوالیاں‌آپ کے حافظے میں ضرور محفوظ ہوں گی۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ آج بھی یہ قوالیاں نہایت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔

    اسی طرح ‘‘شرابی میں شرابی’’ بھی ان کی مشہور ترین قوالی ہے۔ انھوں نے کئی نعتیں اور اپنے دور کے مشہور شعرا کا کلام بھی مختلف انداز سے پیش کر کے اس فن میں اپنا کمال ثابت کیا۔

    https://youtu.be/rj3R_h0tKDs

    ‘‘ نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ جیسے نعتیہ اشعار بھی عزیز میاں کی آواز میں بہت مشہور ہوئے۔

    ان کی زندگی کا سفر 6 دسمبر کو تمام ہوا۔ یہ سن 2000 کی بات ہے جب مختصر علالت کے بعد عزیز میاں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 58 برس تھی۔ وصیت کے مطابق عزیز میاں کو ملتان میں مرشد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

  • برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے حافظے میں یہ شعر ضرور محفوظ ہو گا، مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کے خالق آغا حشر ہیں جو برصغیر میں ڈراما نگاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔

    آغا حشر کاشمیری نے بیسویں صدی کے آغاز میں ڈراما نگاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ وہ تھیٹر کا زمانہ تھا اوراسٹیج پرفارمنس نہ صرف ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی بلکہ اس دور میں معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کو بھی تھیٹر پر خوب صورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مضبوط اور مقبول میڈیم تھا جس میں آغا حشر نے طبع زاد کہانیوں کے علاوہ شیکسپئر کے متعدد ڈراموں کا ترجمہ کر کے ان سے تھیٹر کو سجایا۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ بے حد مقبول ہوئے۔

    یکم اپریل 1879 کو بنارس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے آغا حشر کی تعلیم تو واجبی تھی، لیکن تخلیقی جوہر انھیں بامِ عروج تک لے گیا۔ انھیں یوں تو ایک ڈراما نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے ان کا تذکرہ ہوتا ہے، مگر اردو ادب کے سنجیدہ قارئین ضرور انھیں شاعر کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں علامہ اقبال بھی مشاعروں میں ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ آغا حشر کا انتقال 28 اپریل 1935 کو ہوا۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    غزل
    یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
    بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
    ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
    اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
    او وفا نا آشنا کب تک سنوں تیرا گلہ
    بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں
    آرزوؤں کا شباب اور مرگِ حسرت ہائے ہائے
    جب بہار آئے گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں
    حشرؔ میری شعر گوئی ہے فقط فریادِ شوق
    اپنا غم دل کی زباں میں دل کو سمجھاتا ہوں میں

  • تاجروں نے ٹیکس ریٹرنز فارم اردو میں بنانے کا مطالبہ کر دیا

    تاجروں نے ٹیکس ریٹرنز فارم اردو میں بنانے کا مطالبہ کر دیا

    اسلام آباد: آل پاکستان انجمن تاجران نے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیکس ریٹرنز فارم کو اردو میں بنایا جائے تاکہ تاجروں کو پریشانی نہ ہو۔

    تفصیلات کے مطابق صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ نے تاجروں کو درپیش مسائل کے پیش نظر وزیر اعظم عمران سے التجا کی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ٹھیک کیا جائے۔

    انھوں نے کہا وزیر اعظم سے التجا ہے ایف بی آر کو ٹھیک کریں، ٹیکس ریٹرنز ٹیم نے پیچیدہ فارم بنایا ہے، اسے اردو میں بنایا جائے، فکسڈ ٹیکس سے متعلق بھی تاجر پریشانی میں مبتلا ہیں۔

    صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف تاجروں سے بات کرے، آئی ایم ایف جو کہتا ہے ایف بی آر اسے مان لیتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پورے ملک میں 29 اور 30 اکتوبر کو احتجاجاً شٹر ڈاؤن کیا جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ناراض تاجروں کا 28 اور 29 اکتوبر کو ملک بھر میں شٹر ڈاؤن کا اعلان

    خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے تاجروں کے لیے ایک اور سہولت فراہم کر دی ہے، ایف ڈبلیو او نے ایم 9 موٹر وے پر ایکسل لوڈ کی عمل داری ایک سال کے لیے مؤخر کر دی ہے، یہ فیصلہ تاجر برادری کی درخواست پر کیا گیا۔

    یاد رہے کہ نیب نے تاجر برادری کے تحفظات اور جائز شکایات کے ازالے کے لیے نیب آرڈیننس کے تحت ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے کی روشنی میں کمیٹی قائم کر دی ہے، جو 6 ارکان پر مشتمل ہے، صدر پاکستان فیڈریشن آف چیمبر اینڈ انڈسٹری دارو اچکزئی کمیٹی میں شامل ہیں، جب کہ نائب صدر سارک چیمبر آف کامرس افتخار علی ملک بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

  • بے ترتیب کہانیوں کا کہانی کار، ارشد رضوی

    بے ترتیب کہانیوں کا کہانی کار، ارشد رضوی

    مضمون نگار: سید کامی شاہ

    ایک کہانی اس جملے سے شروع ہوتی ہے:

    ’’دن اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور وہ ڈھونڈتا رہتا ہے، مگر ڈھونڈ محض خود کو مصروف رکھنے کا عمل ہے۔ ورنہ زندگی تو ایسے بھی گزر جاتی ہے اور ویسے بھی۔ کھوج بے معنی ہے، ایک بے کار مشقت، جس کا حاصل فقط تھکن ہے۔‘‘

    اسی تھکے ہوئے، بکھرے ہوئے ہجوم میں ایک کہانی کار ہے، جس کا نام ارشد رضوی ہے اور وہ ایک انوکھا کہانی کار ہے۔

    اس کی کہانیاں پڑھیں تو لگتا ہے کہ ارشد رضوی وقت سے کٹ کر گرا ہوا لمحہ ہے جو کہیں خلائوں میں بھٹک گیا ہے۔ وہ سانس لیتے سایوں کا ہم سفر ہے۔ وہ بلیوں، سانپوں، بچھوئوں، مینڈکوں اور اندھیروں کے سانسوں میں جلتی کہانی ہے، وہ کونوں کھدروں میں بھٹکتی بے چین آنکھ ہے، جس کے گھر پر چوہوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ اس کا دماغ اوہام سے بھری پٹاری ہے، جس میں تشکیک کلبلاتی ہے اور تجسس کو ہوا دیتی ہے۔

    وہ انجان جزیروں پر بھٹکتا جہاز راں ہے، جسے سمندر  نے  پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ہزار سال پرانا جوگی ہے جو بھیس بدل کر سانپ بن جانا چاہتا ہے۔ وہ بے حس معاشرے کا حساس دماغ ہے اور  اسی لیے بے چین اور مضطرب رہتا ہے اور کھولتا رہتا ہے۔ وہ غضب کا کہانی کار ہے، اس کے جھولے میں کہانیوں کی بہت سی پٹاریاں ہیں جن میں رنگ برنگی، چمکیلی، اندھیری، سانپوں سی پُرپیچ کہانیاں ہیں۔ جیسے باغ کے کسی نیم تاریک گوشے میں کوئی چمکیلا سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو۔

    ڈاکٹر ارشد رضوی

    ارشد رضوی واحد کہانی کار ہے۔ جس کی کہانی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس کے دروازے تک لے گئی، اس کی کہانیاں عجیب کہانیاں ہیں۔ ایک عجیب سی فینٹسی میں وقوع پزیر ہوتی ہیں، جیسے کوئی نشے کی کیفیت ہو یا کوئی گہری نیند کا خواب یا آسمان پر بادلوں کو جوڑ کر منظر نامہ تشکیل دیا جارہا ہو۔ اس کی کہانیاں آدمی کے اندر کی کہانیاں ہیں۔ جو ہمارے باہر بکھری پڑی ہیں۔ اس کی ساری کہانیاں تلخ ہیں۔ ان میں ننگا سچ اُبلتا ہے اور خون کھولاتا ہے۔ وہ ایک سفاک کہانی کار ہے۔ اپنی کہانیوں کے بارے میں کہتا ہے:

    ’’یہ نہیں ہے کہ کہانیاں لکھی نہیں گئیں یا یہ خود فریبی کہ میرے بعد لکھی نہیں جائیں گی یا یہ کم عقلی کہ میری کہانیاں تخلیق نہ ہوتیں، تو کائنات کا یہ پرانا، مگر ہر لمحہ تبدیل ہونے والا چکر رک جاتا، کیا ہوتا اگر میری کہانیاں تخلیق کے جرم سے نہ گزرتیں؟ شاید میرا کتھارسس نہ ہوتا، ذات اندر ہی اندر مچلتی رہتی۔ خون اندر ہی اندر بہتا رہتا۔ زخم اندر ہی اندر جگہ بناتا رہتا۔‘‘

    اس بے یقینی اور عدم اطمینانی سے نکلنے کے لئے ارشد رضوی نے کہانی کا سہارا لیا، مگر کیا کہانی لکھنے کے عمل نے اس کے سلگتے ہوئے دماغ میں کچھ اطمینان بھرا یا اسے اور زیادہ بے چین کردیا؟

    اس بات کا جواب تو ارشد رضوی ہی دے سکیں گے، مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہانیاں لکھنے کے عمل نے ارشد رضوی کو اور زیادہ بے چین اور مضطرب کردیا ہے۔

    کہانی ارشد رضوی کا زخم بھی ہے اور مرہم بھی۔ کہانی دکھ بانٹنے والا دوست بھی ہے اور گھات میں بیٹھا دشمن بھی۔ کہانی اذیت پسند محبوبہ بھی ہے اور اکتائی ہوئی بیوی بھی۔

    [bs-quote quote=”کہانی ارشد رضوی کا زخم بھی ہے اور مرہم بھی۔ کہانی دکھ بانٹنے والا دوست بھی ہے اور گھات میں بیٹھا دشمن بھی” style=”style-8″ align=”left” author_name=”سید کامی شاہ”][/bs-quote]

    ارشد رضوی کو کہانی کے سارے رویوں سے محبت ہے۔ اس کی کہانیاں پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ کہانی بھی ارشد رضوی سے محبت کرتی ہے، جب ہی تو وہ اپنا آپ اسے سونپ دیتی ہے اور پھر دور کھڑی ہو کر اس کا تخلیقی انہماک دیکھتی ہے۔

    کہتے ہیں تخلیق انکشافِ ذات ہوتی ہے۔ ارشد رضوی کی کہانیوں کے کچھ ٹکڑے دیکھیے:

    ’’انہیں پاگل خانے بھیج دیجیے۔‘‘

    ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔ ’’میں نے لکھ دیا ہے، مریض ٹھیک ہونے کی حالت سے نکل چکا ہے۔،،

    ’’پاگل خانے؟‘‘ وہ بڑبڑایا

    ’’تو یہ سب کیا ہے، یہ بڑا سا پاگل خانہ۔ آسمان اور زمین کی بے معنی حدوں میں اسیر پاگل خانہ، جو مردہ خانے میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔،،

    کہتے ہیں، کسی بھی عہد کا قلم کار، شاعر ادیب جو کچھ بھی اپنے بارے میں لکھتا ہے در حقیقت وہ معاشرے کے بارے میں ہوتا ہے۔ ارشد رضوی نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ ایسا ہی ہے۔ بے ترتیب، بیمار، بیکار اور فرسٹرڈ۔ ایک بڑا سا پاگل خانہ جو ایک اور بڑے پاگل خانے کی سرحدوں میں واقع ہے۔ ارشد رضوی کی کہانیاں اگر بے ترتیب ہیں، تو ا س کا مطلب ہے سارا معاشرہ ہی بے ترتیب ہے۔ اگر اس کی کہانیاں بیمار ہیں اور پریشان کرتی ہیں، تو اسکا مطلب ہے کہ سارا معاشرہ ہی بیمار ہے اور پریشان کرتا ہے۔

    ارشد رضوی کا مشاہدہ جتنا مضبوط ہے، اس کی تخلیقی قوت بھی اتنی ہی طاقتور ہے، وہ ایسے غضب کے فقرے لکھتا ہے کہ دماغ سلگ اٹھتا ہے۔

    مضمون نگار

    اپنی کتاب کے دیباچے میں اس نے کہا:

    ’’یہ کہانیاں ہیں، جن کے سانس لیتے کردار ہیں، کرداروں کی پُرپیچ، پُراسرار، دیکھی ان دیکھی عادتیں ہیں، عادتوں میں عیاری ہے، تجسس ہے، نفرت ہے اور محبت بھی ہے، اندر کہیں مساموں سے پھوٹتی ہوئی، اس لئے کہ یہ پکے رنگ ہیں، جس بے ترتیب معاشرے میں مَیں نے آنکھ کھولی اس نے مجھے ایسے ہی کردار دیے ہیں۔ معاشرے کی بےترتیبی کرداروں میں نظر آسکتی ہے۔ اندر اور باہر دونوں طرف کی نفسیاتی دیواروں میں دیمک کی چھوڑی ہوئی لکیروں کی صورت۔‘‘

    ایسے بیسیوں جملے آپ کو اس کتاب میں ملیں گے، جو آپ کے حلق کڑواہٹ سے بھر دیں گے اور آپ کو سوچنے پر مجبور کردیں گے، مگر ایک بات ہے کہ ارشد رضوی کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایک تاثر غیر تکمیلیت کا ابھرتا ہے۔ کہیں کچھ چیزیں اور کردار ہیں، کچھ مناظر ہیں جو واضح نہیں ہیں۔ کہیں کچھ باتیں ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو آدھے ادھورے ہیں۔ اور ان کے رویے، ان کی باتیں، ان کے خواب، ان کے جذبے سبھی کچھ ادھورا ہے۔ کچھ واقعات کا ڈھیر ہے۔ جو ابہام کی دھند میں لپٹا ہے اور چیزوں نے اپنی ترتیب بدل لی ہے۔

    ایک عجیب سا موسم، ایک سا موسم آکر ٹھہر گیا ہے۔ عجیب شک زدہ، بے یقین، اور اداس سا موسم، اسی ٹھہرے ہوئے موسم میں خلق ہونے والی یہ بے ترتیب کہانیاں پڑھنا کسی کراس ورڈ پزل کو حل کرنے کے برابر ہے۔ جلدی جلدی تیز تیز جملے آتے جاتے ہیں اور اپنی ترتیب بناتے جاتے ہیں۔ بہت دیر تک تو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان سلگتے ہوئے، کڑوے اور بے ترتیب جملوں کے انبار تلے کوئی کہانی بھی پنپ رہی ہے۔ پھر کہیں سے اچانک ایک کہانی نمودار ہوتی ہے، میری کہانی، آپ کی کہانی، اس معاشرے کی کہانی،اس کائنات کی پرانی کہانی، مگر یہ طے نہیں ہے کہ کوئی بھی کہانی کسی قاری پر پوری کھلتی ہے یا نہیں۔

    [bs-quote quote=”ارشد رضوی کا مشاہدہ جتنا مضبوط ہے، اس کی تخلیقی قوت بھی اتنی ہی طاقتور ہے، وہ ایسے غضب کے فقرے لکھتا ہے کہ دماغ سلگ اٹھتا ہے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”سید کامی شاہ”][/bs-quote]

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی کوئی کہانی مکمل بھی ہوتی ہے؟

    میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی کہانی مکمل نہیں ہوتی بلکہ چلتی رہتی ہے، نئے مناظر، نئے کردار و واقعات کے ساتھ!

    کہیں کوئی منظر نامہ مکمل ہوجاتا ہے اور کرداروں کے پاس مزید کچھ کہنے کو باقی نہیں بچتا، مگر کہانی نہیں رکتی۔ کہانی چلتی رہتی ہے۔

    ایسی ہی بے ترتیب کہانیوں کا خالق ارشد رضوی فقط حیرت سے مسئال کو دیکھتا نہیں ہے، بلکہ وہ ان مسائل کے اندر اتر جاتا ہے اور جب باہر آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ایک کہانی دبی ہوتی ہے اور آنکھوں میں تخلیق کا شعلہ لپک رہا ہوتا ہے۔

    ارشد رضوی آدمی کو بھی جانتا ہے اور ادب کو بھی۔ انسانی نفسیات پر اس کی گرفت بہت کامیاب ہے۔ آدمی کے اندر کے معاملات کو اس نے اتنی عمدگی سے برتا ہے کہ باہر کا آدمی صرف باہر سے اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ارشد رضوی اپنے اندر اور باہر پھیلی دونوں دنیائوں کا عکاس ہے۔ ان بے ترتیب کہانیوں کو پڑھتے ہوئے آپ کو ایک عجیب و غریب سحر زدہ سی بستی نظر آئے گی جو اپنے ہی مکانوں کی چھتوں پر گر پڑی ہے، جس کے سارے ہی قواعد و ضوابط مختلف ہیں۔

    ارشد رضوی کو ان کہانیوں کو یکجا کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے، اس کے اندر ایک نامختتم اندھیرا کسی وہم کی صورت پھیلا ہے اور وہ کسی الوہی روشنی کا متلاشی ہے، اسے آسمان سے پرندوں کے روٹھ جانے کا دکھ ہے۔۔ وہ زندہ گھروں پر منڈلاتی موت کی بو سونگھتا ہے اور پوچھتا ہے۔۔

    زندگی کب تک مرنے اور جینے کے خانوں میں بٹی رہے گی؟

    اس کے اندر کی سلیٹ پر سوال لکھے جاتے ہیں، مگر جواب کہیں نہیں ہے۔ وہ انسانیت کے بدن کو دکھوں اور پپڑی جمے زخموں سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے مگر دکھ اس کے اندر ہی اندر جگہ بناتے رہتے ہیں اور وہ سوالوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

    ہم سب تیسری دنیا کے بے چہرہ، بے شناخت اور بے ترتیب لوگ ہیں۔

    بے ترتیبی بے یقینی کو جنم دیتی ہے یوں بے ترتیبی بڑھتی رہی اور کہانیاں لکھی جاتی رہیں، اسی زمین و کائنات کی اور ہم سب کی کہانیاں جن کے نام اور کردار بدل جاتے ہیں مگر کہانی کبھی نہیں بدلتی اور نہ رکتی ہے۔ کہانی کا سفر جاری رہتا ہے۔ کہانی ہمیشہ نئے کرداروں او رنئے منظرناموں کے ساتھ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ اور شناخت کے بحران کا عمل اسی طرح جاری ہے اور کہانی کی بُنت کا سفر بھی۔

    فی الحال ایک کہانی اس جملے پر ختم ہوتی ہے۔

    ’’میرے تلوؤں پر سرخ گلاب کھلا ہے اور انگلیوں میں تخلیق کا شعلہ ابھی بھی لپک رہا ہے۔،،

    مجھے یقین ہے کہ اتنے بھرپور لہجے میں بات کرنے والے ڈاکٹر ارشد رضوی کو جدید کہانی کے سفر میں ایک اہم کہانی کار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔