Tag: اردوآن

  • قطرمیں ترک فوجی اڈے کا دورہ کرنے والی خاتون صحافی کا اردوآن کو ٹیلی فون

    قطرمیں ترک فوجی اڈے کا دورہ کرنے والی خاتون صحافی کا اردوآن کو ٹیلی فون

    دوحہ/انقرہ : ترکی کی خاتون صحافی ھند فرات کا کہنا ہے کہ نئے فوجی اڈے کے قیام سے قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق قطر میں ترکی کے نئے فوجی اڈے کا انکشاف کرنے والے ترک خاتون صحافی ھند فرات اس وقت ترکی میڈیا کی توجہ کا خاص مرکز ہیں۔ ھند فرات نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں دورہ قطر اور دوحا میں ترکی کے بڑے اور نئے فوجی اڈے کے دورے کا احوال بیان کیا،اس نے قطر میں موجود ترک فوجی افسران کے ساتھ لی گئی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔

    ھند فرات کو وسط جولائی 2016ء کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی تھی جب اس نے صدر رجب طیب ایردوآن کو ٹیلیفون کرکے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا، اس رات ترک فوج کے ایک گروپ نے بغاوت کرکے حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی تھی جب کہ ایردوآن کا ساتھ دینے والوں میں ھند فرات بھی شامل تھی۔

    ھند فرات کا کہنا ہے کہ نئے فوجی اڈے کے قیام سے قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

    اخباری رپورٹ کے مطابق جلد ہی ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور امیر قطر اس کا افتتاح کریں گے،ترک خاتون صحافی ھند فرات نے اخبار میں شائع اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ترکی قطر میں اپنے سیاسی، سیکیورٹی اور عسکری ڈھانچے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

    ترک صحافی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اس نے دوحہ کا دورہ کیا تھا جہاں اس کی ترک حکام سے طارق بن زیاد چھاؤنی میں ترکی کی مسلح افواج کے سربراہ اور برّی فوج کے چیف کرنل مصطفیٰ ایدن سے بھی ملاقات ہوئی۔

    ھند فرات کا کہنا ہے کہ ترک فوج دوحا میں قطر۔ ترکی مشترکہ فورسز کے نام سے ایک فوجی مشن شروع کررہا ہے، عنقریب قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔

    اس کا کہنا ہے کہ جلد ہی آپ ایک ایسے مقام پر ہمارے فوجیوں کے اڈے کے بارے میں سنیں گے جہاں کا درجہ حرارت 47 درجے سینٹی گریڈ ہے۔ ترکی اور قطر کے دو طرفہ عسکری تعلقات کی بنیاد کا مقصد خطے میں امن وامان کا قیام ہے۔

    واضح رہے کہ قطر میں طارق بن زیادہ فوجی چھاؤنی 2015ءکو قائم کی گئی تھی، دسمبر 2017ء سے قطر۔ ترکی مشترکہ فوجی کمان کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی ہے۔

  • دریائے فرات کے مشرقی کنارے میں فوجی آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں، اردوآن

    دریائے فرات کے مشرقی کنارے میں فوجی آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں، اردوآن

    انقرہ : ترک صدر نے امریکا اور روس کو واضح کردیا ہے کہ مشرقی شام میں آپریشن ہوگا، ہمارے پاس اب دریائے فرات کے مشرقی کنارے میں فوجی آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ روس اور امریکا پر واضح کردیا ہے کہ ترک فوج شمالی شام میں دریائے فرات کے مشرقی کنارے میں کرد عسکریت پسند گروپ پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے خلاف فوجی آپریشن کا ارادہ کا رکھتا ہے۔

    خیال رہے کہ ترکی امریکا اور روس کے ساتھ مل کر شمال مشرقی شام میں سیف زون کے قیام کے لیے ایک سمجھوتہ کرنا چاہتا تھا مگر فی الحال ترکی کو اس میں ناکامی کاسامنا ہے اور اسے سخت مایوسی ہے۔

    ترک صدر نے کہا کہ ہمارے پاس اب دریائے فرات کے مشرقی کنارے میں فوجی آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ ہم نے اس حوالے سے امریکا اور روس کو بھی بتا دیا ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی شام سےاپنی فوج نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت نیٹو کے دونوں رکن ملکوں نے ترکی کی شمال مشرقی سرحد سے متصل شامی علاقوں میں سیف زون کےقیام کی کوششوں پر اتفاق کیاگیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شام میں کرد پروٹیکشن یونٹس کو امریکا کی حمایت حاصل ہے جب کہ ترکی اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔

    ترک حکومت کا کہنا تھا کہ مشرقی شام میں سیف زون کےقیام کے حوالے سے کوششیں جمود کا شکار ہیں۔

    انقرہ نے واشنگٹن پرزور دیا ہے کہ وہ کردوں کے ساتھ رابطے ختم کرے،ترکی اگرشام میں فوجی کشی کرتا ہے تو یہ تین سال کے دوران کردوں کے خلاف تیسر آپریشن ہوگا۔

  • اردوآن کی مداخلت کے باعث عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے، امریکی اخبار

    اردوآن کی مداخلت کے باعث عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے، امریکی اخبار

    انقرہ : امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ ترکی میں جج خود حکومتی دباؤکے باعث خوف کا شکار رہتے ہیں جو آزادانہ فیصلے صادرکرنے میں ناکام ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ جوانی کی عمر میں موجودہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو ایک سیاسی مجمع میں متنازع نظم پڑھنے کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی، وہ وقت اور آج کا وقت ایردوآن خود کو آزادی اور انصاف کا ہیرو بنانے کو بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ملک میں اپنے ابتدائی دور حکومت میں انہوں نے قابل قدر عدالتی اصلاحات کیں جنہیں عوامی سطح پر سراہا گیا۔

    امریکی اخبارنے اپنی رپورٹ میں ترکی میں عدلیہ کی آزادی اور ترک صدرکی طرف سے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ ترکی میں صدر ایردوآن کی مداخلت کے نتیجے میں عوام کا عدالتوں پراعتبار اٹھ چکا ہے۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایردوآن کے پہلے برسوں کے دور اقتدار میں عوام کا عدلیہ پر اعتبار بڑھا مگروقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایردوآن نے اقتدار پراپنی گرفت مضبوط بنانے کے لیے عدلیہ کو ایک مہرے کے طورپر استعمال کرنا شروع کیا۔ اس کا عوام الناس پر منفی اثر پڑا اور لوگوں نے عدالتوںپر اعتماد کرنا چھوڑ دیا۔

    ایردوآن کے سیاسی مخالفین ان کے استبدادی اسلوب سیاست، حکمراں جماعت کے اندر من مانی اور ملک میں آمرانہ انداز حکمرانی کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔

    صدر ایردوآن کی اپنی پارٹی میں من مانی اور آمرانہ طرز سیاست کے باعث ترکی کے تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص معیشت، تعلیم اور روزگار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترکی کی عدالتوں میں فیصلوں میں جلد بازی معمول بن چکی ہے۔

    قانونی ماہرین کا کہنا تھاکہ ملک میں تطہیر کا عمل جاری ہے اور عدالتوں کے جج خود حکومتی دباﺅکے باعث خوف کا شکار رہتے ہیں جو آزادانہ فیصلے صادرکرنے میں ناکام ہیں۔