Tag: اردوادب

  • دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    فسادی مزاج لوگوں کے جھگڑے کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ کوئی رُو بہ رُو، دُو بہ دُو اور تُو تڑاخ کر کے تسکین پاتا ہے تو کوئی غائبانہ فساد ڈالنے میں مہارت رکھتا ہے۔

    زمانے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی رونما ہو گئی۔ وہ جو کبھی ”گھر کی بات گھر میں رہے“ کے آرزومند ہُوا کرتے تھے اب دل کی بات بھی دل میں نہیں رکھ پاتے۔ یوں گھر کی بات گھر گھر پھیلتی ہے۔

    آج دنیا بھر میں‌ سماجی رابطے کا سب سے بڑا اور مقبول ذریعہ واٹس ایپ ہے جس کا اس حوالے سے فعال کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب سے واٹس ایپ پر فیملی گروپ کا رواج پڑا اور بڑھا ہے، انفرادی اور خاندانی جھگڑے یہیں نمٹائے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی گھر کے مکینوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہی فیملی گروپ مؤثر اور کارآمد معلوم ہوتے ہیں۔

    ہم نے اہتمام کیا کہ خیر النساء کے ”برسوں کے تجربات“، اُن کی بڑی بہو تابندہ کے”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“ چھوٹی بہو فراست کے ”آج کی سوغات“ اور خیر النساء کے بھائی نصیر کے”امن کی پُکار“ نامی گروپوں کے اسٹیٹس پر لگائی جانے والی گفتگو آپ کی نذر کریں۔

    ٭تابندہ٭ ”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“: محبت کیجیے، محبت بانٹیے، محبت پائیے۔

    ٭فراست٭ ”آج کی سوغات‘‘: محبت کی تقسیم پر اپنے پرائے سب کا یکساں حق ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: اتفاق میں برکت ہے۔

    لیکن پھر ہُوا یوں کہ تابندہ کے اسٹیٹس ”صبح سویرے دل پہ بیتی باتیں“ کے عنوان سے لگنے لگے۔ اب تابندہ دل کو چُھو لینے والے پیغامات کے بجائے دل پر بیتنے والی باتیں پیغامات کی صورت شیئر کر رہی تھیں، وہ بھی ایسے جو پڑھنے والوں کو چونکا دیتے تو فراست کے دل میں کانٹے بن کر چبھتے۔ کیونکہ وہ خوب جانتی تھیں کہ یہ پیغامات کس کے لیے ہیں لیکن چپ رہتیں۔ آخر کب تک؟ ایک دن تابندہ کا اسٹیٹس پڑھ کر فراست نے اپنی خاموشی توڑی اور ”نہلے پہ دہلا“ کے عنوان سے اسٹیٹس لگانے شروع کر دیے۔ ان بے لاگ اسٹیٹس کی وجہ سے دیورانی جیٹھانی میں بُری طرح ٹھن گئی۔ تابندہ کے سیر پر سوا سیر کا بٹہ مارنا فراست نے اپنا معمول بنا لیا۔

    ٭تابندہ٭ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    ٭فراست٭ معلوم نہیں کیوں لوگوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

    ٭تابندہ٭ سو باتوں کی ایک بات۔ کھاؤ من بھاتا پہنو جگ بھاتا۔

    فراست٭ کمی نہیں ایسے لوگوں کی جو من بھاتا کھاتے ہیں سو کھاتے ہیں، مانگا تانگا بھی کھانے سے نہیں ہچکچاتے۔

    ٭تابندہ٭ تجھ کو پڑائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔

    فراست٭ آدھا تیتر، آدھا بٹیر، ہنسی روکوں تو کیسے روکوں۔

    ٭تابندہ٭ ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

    ٭فراست٭ منہ اچھا نہ ہو نہ سہی۔ منہ سے نکلے بھلی بات کوئی

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: درگزر سے کام لو، دل صاف کرو، مل کر رہو، خوش رہو، لوگوں کے لیے مثال بنو۔

    ٭تابندہ٭ بات ہے پتے کی

    ٭فراست٭ عمل کی نوبت آئے تب۔ ورنہ؟

    ٭خیرالنساء٭ وہ نوبت بجے گی کہ دنیا دیکھے گی۔

    ٭فراست٭ دل میں چھپا ارمان تو یہی ہے لوگوں کے۔

    ٭خیرالنساء٭ کھانا پکائیں، اُبلا سُبلا اُبالا سُبالا، باتیں بگھاریں لذّت بھری۔

    اپنی ساس کے اسٹیٹس کے جواب میں فراست نے ”زندگی عذاب ٹرانسمیشن“ کے عنوان سے ساس کے برہمی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان جاری کیا۔

    ٭فراست٭ صبح ناشتہ مع طعنہ۔ ظہرانہ دل جلانا۔ ہائے ہائے اور عصرانہ جاری ہُوا شکایت نامہ سنگ عشائیہ۔

    فراست کے اسٹیٹس نے تابندہ کے دل میں گلاب کھلا دیے۔ دیورانی سے شدید اختلافات کے باوجود فوری دل، ستارے اور پھول بھیج کر بھر پور داد دی، اس بیان کے ساتھ کہ بہو وہی اچھی جو ساس نامی بھڑ کے جتھے کو نہ چھیڑے ورنہ…..؟

    ٭فراست٭ انجام کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی کیونکہ اس بھڑ کے جتھے میں ساس کی بد ذاتی کیفیات ذاتی رویوں کے ساتھ آپ کو ہلا کر رکھ دیں گی۔

    بہوؤں کے کاری واروں نے خیرالنساء کو اسٹیٹس کے نئے عنوان ”ساس کی للکار“ کے ہمراہ آنے پر مجبور کر دیا۔

    ٭خیرالنساء٭ طعنے بہوؤں کے سنوں اور کچھ بھی نہ کہوں
    ائی بہوؤں میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

    ٭فراست٭ نہ، نہ، نہ خاموش؟ ہر گز نہیں۔ خاموش رہ کر سینے پر مونگ دلنے سے بہتر ہے کہ بول کر بھڑاس نکال لی جائے۔

    ٭تابندہ٭ سکوتِ شہرِ سخن میں وہ آگ سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا نار نار کر دے گا

    ٭خیرالنساء٭ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔
    ٭فراست٭ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

    ٭تابندہ٭ دن بھر دل جلاتے رہنے والے تہذیب کے دیے جلاتے بھلے نہیں لگتے۔

    ٭خیرالنساء٭ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔

    ٭فراست٭ اور بہو کی ساس بنتے ہی ماں اس تربیت گاہ کے پرخچے اُڑا دیتی ہے اور اولاد کو تتر بتر کر دیتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بڑے جب چھوٹوں سے بڑھ کر چھوٹے بن جائیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے۔

    ٭فراست٭ دریا میں کنکر مارنے والے کریں سمندر کے سکوت کا تذکرہ۔ واہ بھئی

    ٭تابندہ٭ بیٹا اگر محبت سے شریکِ حیات کو تحفہ دے تو خوشی کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ آگ بگولہ ہوں۔

    ٭فراست٭ داماد بیٹی کو تحفہ دے تو نگاہوں تک سے بیٹی کی آرتی اُتار لی جاتی ہے اور………

    ٭تابندہ٭ خالی جگہ پُر کریں۔

    ٭فراست٭ بیٹا بہو کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو لفظوں کے تیروں سے بہو کا کلیجہ چھلنی کر دیں۔

    ٭خیرالنساء٭ جلنے والے اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جاتے ہیں۔

    ٭تابندہ٭ لے ساس بھی شائستہ کہ ظالم ہے بہت کام
    آفات کی اس پُڑیا کی تیشہ گری کا

    ٭فراست٭ چار دن ساس کے تو چار دن بہو کے۔

    جب اسٹیٹس کی جنگ کے شعلے زیادہ شدت سے بلند ہونے لگے تو خیرالنساء کے ہر دلعزیز اور صلح جُو بھائی نصیر کا اسٹیٹس ”امن کی پکار“کے نام سے آگیا۔

    ٭نصیر٭ نہ وہ بہوؤں میں لحاظ رہا
    نہ شرم ہے ساس کی زبان میں
    اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں اُچھالنے والوں کو اب سنبھل جانا چاہیے۔

    ٭فراست٭ نیک قدم بڑے اُٹھائیں گے تو چھوٹے وہی راہ اختیار کریں گے۔

    ٭تابندہ٭ لیکن جب بڑے بچوں کو بھی مات دے دیں تب یہ ناممکن ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ شعلوں کو ہوا دینے والے کیسے آگ بجھا سکتے ہیں؟

    ٭نصیر٭ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

    ٭فراست٭ ستائش بیٹیوں کے لیے اور آزمائش بہوؤں کے لیے ہو تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ اور جب چھلکتا ہے تو کیسا ادب؟ کیسی محبت؟

    ٭خیرالنساء٭ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

    ٭نصیر٭ جتنا بات کو بڑھائیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بعض لوگوں پر اپنے نام کا اثر ہی نہیں ہوتا۔

    ٭فراست٭ ہو بھی کیسے جب دل میں شر کے شرارے اور دماغ میں بدی کا طوفا ن اُٹھ رہا ہو۔

    ٭خیرالنساء٭ خیر و شر کی جنگ میں فتح ہمیشہ خیر کی ہوتی ہے۔

    ٭نصیر٭ معافی سے بڑا انتقام اور کوئی نہیں۔

    ٭خیرالنساء٭ بڑوں ہی کو دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ جب بڑے آغاز کریں تو چھوٹے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

    ٭فراست٭ اور چھوٹوں کا کام ہی بڑوں کی تقلید ہے۔ جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔

    ٭نصیر٭ بقول رابرٹ بینلن ”محبت تب ہوتی ہے جب کسی کی خوشی آپ کی خوشی کے لیے لازمی شرط ہو۔“

    ٭خیرالنساء٭ محبت میں اخلاص اور دوستی بھی شامل ہو تو محبت کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ اور میں اسی احساس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہوں۔

    ٭تابندہ٭ اگر ایسا ہے تو آج ہی سے ”ساس ہے میری سہیلی۔“

    ٭فراست٭ دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا۔

    ٭نصیر٭ محبت کے دیے جلا لو، وفا کے گیت گنگنا لو تقاضہ ہے یہ زندگی کا۔

    ٭خیرالنساء٭ مسکراتا رہے آشیانہ۔

    (کثیرالاشاعت روزناموں میں شائستہ زریں کی مفید اور بامقصد تحریریں، افسانے اور سروے رپورٹیں‌ شایع ہوتی رہتی ہیں، انھوں نے ریڈیو کے لیے سنجیدہ اور شگفتہ تحریروں کے ساتھ کئی فیچر اسٹوریز بھی لکھی ہیں)

  • چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    وہ تینوں اس وقت جزیرہ ماہی پر واقع ٹاؤن وکٹوریہ میں کھڑے تھے، سیچلز میں تقریباً ایک سو پندرہ جزیرے موجود ہیں۔ دانیال کو ریت عجیب سی لگی، اس نے مٹھی میں ریت بھری اور پھر اسے انگلیوں کے درمیان میں سے پھسلنے دیا۔ جبران نے ریت پر نگاہ ڈالی تو اسے اس میں ہلکا گلابی رنگ نظر آیا۔ فیونا نے کہا کہ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہاں رنگوں کے ہزاروں شیڈز پائے جاتے ہیں۔

    جبران نے فیونا سے پوچھا کہ یہاں انھوں نے کون سا پتھر ڈھونڈ نکالنا ہے، فیونا نے جواب دیا: ’’موتی … اور کیا تم دونوں نے محسوس کیا کہ ہم ایک اور جزیرے پر ہیں، آخر جزیرے ہی پر کیوں؟ کیا کنگ کیگان نے انھیں کہا تھا کہ ہر پتھر ایک جزیرے ہی پر چھپایا جائے؟‘‘

    دانیال نے سوچ کر کہا: ’’جزائر عام طور سے دور دراز مضافاتی علاقوں میں ہوتے ہیں، شاید اس لیے، جیسا کہ ہائیڈرا ایک دور مضافاتی علاقہ تھا، آئس لینڈ بھی، اور اب یہ سیچلز۔ میں نے تو ان کے نام بھی نہیں سنے تھے۔‘‘

    جبران نے اس کے کپڑوں کی طرف دیکھ کر کہا جو اتنی دیر میں بالکل سوکھ گئے تھے: ’’تمھیں بالوں میں کنگھی کرنی چاہیے، بال ایسے ہوئے ہیں جیسے رسیاں ہوں یا سانپ، ہائیڈرا کے عفریت کی طرح۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’ویسے آج کل جزائر مضافاتی نہیں رہے ہیں، کیوں کہ ہم کہیں بھی چند گھنٹوں میں اڑ کر وہاں جا سکتے ہیں۔‘‘

    ’’اور ہم تو ایک منتر پڑھ کر چند ہی سیکنڈ میں یہاں پہنچے۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ ’’لیکن دانی کی بات درست لگتی ہے، جونی اور جمی کے دور میں یہ جزائر واقعی دور دراز علاقوں میں واقع الگ تھلگ واقع تھے اور ان تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔‘‘

    فیونا نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر کہا: ’’آئس لینڈ سے واپسی پر میں نے انکل اینگس کو رقم واپس نہیں کی تھی، اس لیے یہ میرے پاس موجود ہے، اب ہمیں پھر سب سے پہلے بینک تلاش کرنا ہے، پتا نہیں یہاں برطانوی کرنسی چلے گی یا نہیں؟‘‘

    تینوں وکٹوریہ ٹاؤن میں گھومنے لگے، وہاں دکانیں بے حد شان دار تھیں۔ انھیں ایک بینک نظر آیا تو فیونا انھیں چھوڑ کر اندر چلی گئی لیکن ذرا ہی دیر بعد پریشانی کے عالم میں واپس آ گئی۔ ’’انھوں نے مجھے کرنسی تبدیل کر کے نہیں دی، کہہ رہے ہیں کہ پاسپورٹ کے بغیر تبدیل نہیں کریں گے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’تو کسی اور بینک میں کوشش کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے ایک اور بینک تلاش کیا، فیونا اندر گئی اور کچھ دیر بعد چہرے پر مایوسی طاری کیے واپس آ گئی۔ ان دونوں کے چہرے بھی اتر گئے، لیکن فیونا اچانک چہک اٹھی: ’’پریشان مت ہو، اب کہ بار میں کامیاب ہو گئی ہوں، یہاں سیچلز روپے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہیں لیکن وہ اس وقت سمندر میں نہانے چلے گئے ہیں اور ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے میری بات سن کر کوئی سوال نہیں کیا۔‘‘

    جب انھیں معلوم ہوا کہ بحر ہند کے مغربی حصے میں واقع سیچلز پر ایک سو پندرہ جزیرے ہیں تو انھیں حیرانی ہوئی، جلد ہی انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ان میں سے زیادہ ایسے جزائر ہیں جو مونگے کی چٹانوں اور دیگر چیزوں سے بنے ہیں، یعنی اصل جزیرے نہیں ہیں۔ فیونا نے کہا کہ چلو اب کوئی ہوٹل دیکھتے ہیں، لیکن جبران نے کہا: ’’ہم ہر بار ہوٹل میں کمرہ ہی کیوں لیتے ہیں، ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے، کیوں نہ ہم ابھی سے موتی ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

    دانیال اس بات پر اچھل پڑا: ’’کیا ہو گیا ہے تمھیں جبران! اگر ہمیں ابھی فوراً موتی نہیں ملا اور ہمیں بہت دیر ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا تم یہاں ساحل پر لمبی تان کر سو جاؤ گے؟‘‘

    دانیال درست کہہ رہا تھا، فیونا نے اس کی تائید کی اور کہا: ’’آئس لینڈ میں ہم نے کمرہ حاصل کیا تھا جو ہمارے بہت کام آیا تھا، ہائیڈرا میں نہیں لیا لیکن یہاں ہمیں کسی کمرے کی ضرورت ہے، میں نہانا بھی چاہتی ہوں، اور آرام کی بھی ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔ اگر یہاں سو سے زائد جزیرے ہیں تو میں شرط لگا سکتی ہوں کہ موتی اس والے جزیرے پر تو بالکل نہیں ہے۔‘‘

    انھیں پیاس لگی تو وہ ہوٹل کی تلاش چھوڑ کر ایک کھلی کیفے میں جا کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے ویٹر کو لیموں کے شربت کا آرڈر دیا، تو وہ کچھ دیر میں شیشے کی ایک صراحی کے ساتھ آ گیا، جس میں پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں لیمو، مالٹے اور گلاب کے کٹے پتے تیر رہے تھے۔ جبران نے لیموں کے رس سے گھونٹ بھرا اور تعریف کی۔ انھیں شربت بہت مزے دار لگا۔ شربت پینے کے بعد انھوں نے میز پر بل رکھا اور ساتھ میں ٹپ بھی، اور پھر نکل کر ہوٹل کی تلاش کرنے لگے۔ جلد ہی انھیں ہوٹل کا سائن بورڈ دکھائی دیا جس پر لکھا تھا: ’’سی سائیڈ فینٹیسی!‘‘

    (جاری ہے…)

  • ایک عجیب و غریب ٹیلیفونک بات چیت

    کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا۔

    مخاطب نے میرا نام لے کر کہا، ’’بتاؤ کیسے ہو۔ کس حال میں ہو؟‘‘ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتا سکوں۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچّا حال بتا بھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

    میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبد اللطیف بول رہا ہوں، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘ عبد اللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبد اللطیف تھا اور جس عبد اللطیف سے میری بات ہو رہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں۔

    عبد اللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی، وہ خود تو ادیب، شاعر یا فن کار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا۔ کوئی بقر عید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبد اللطیف نے کبھی کسی کام کے لیے نہیں کہا۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبد اللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لیے ایک اسٹول فراہم کر دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کر سکے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کر دیا تو وہ فون کر کے میرے پاس آنے لگا۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آ جاتا تھا۔

    چھے مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کر کے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہو گیا، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔‘‘ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔

    عبد اللطیف جیسے خاموش، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لیے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گر گیا ہے۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہو گئی ہے۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لٹ چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی رحلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ تاہم عبد اللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا نا سمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں۔

    کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دو چار ضروری کام کرنے تھے۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کر دوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کر سکوں۔ میں نہانے کے لیے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہو جانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہو گیا تھا۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا۔ میں نے بحالتِ مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دو کنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہو گیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

    غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے۔

    دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگا دی تھی۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے، وہ بھی کٹ جائے گی۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہو گا تب تک بل جمع نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا۔ مجھے رہ رہ کر عبد اللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہو گا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لیے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لیے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑ جائے۔ خیر بجلی کا بل جمع کر کے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے منت سماجت کر کے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبداللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جا چکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہ جمائی جا رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔

    مگر کل رات جب عبد اللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبد اللطیف! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لیے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو گا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘۔

    میری بات کو سن کر عبد اللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دیے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لیے کسی موزوں وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لیے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ جنت میں داخل ہو گئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آ جاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہو سکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے۔‘‘ عبد اللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کر پاتا۔‘‘

    عبد اللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس لیے کہ ایک عرصہ بعد عبد اللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہو گیا تھا۔

    دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا۔

  • آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے۔

    آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہر قانون اور اچھے شاعر تھے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد آئی سی ا یس (انڈین سول سروس) کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں استعفا دے دیا۔ جس کی پاداش میں انھیں جیل جانا پڑا۔ اس کے بعد وہ الہٰ اآباد یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے لکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    یہیں پر انہوں نے بہت زیادہ اردو شاعری کی جس میں آپ کی شہر آفاق کتاب گل نغمہ بھی شامل ہے۔ جس کو ہندوستان کا اعلی معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔ اور وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔

    بطور ممتاز شاعر انہوں نے اردو شاعری کی اہم اصناف مثلاً غزل، نظم، رباعی اور قطعہ میں کے وہ ایک منفرد شاعر ہیں جنہوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھیں۔

    ان کے متعدد شاعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روح کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گل نغمہ کے نام سرفہرست ہیں۔ حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات عطا کیے تھے۔

    فراق کا انتقال طویل علالت کے بعد 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں نئی دہلی میں ہوا۔ میت الہ آباد لے جائی گئی جہاں دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے سنگم پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔