Tag: اردو ادب

  • جب مہاراجہ کی ٹرین "بے قابو” ہو گئی

    جب مہاراجہ کی ٹرین "بے قابو” ہو گئی

    ہندوستان کے نوابوں، راجاؤں اور مہاراجاؤں کے بعض‌ ناگفتہ بہ واقعات اور ان کی عجیب و غریب عادات یا مشاغل کا تذکرہ بدیسی صحافیوں اور مؤرخین نے اپنی تصانیف میں کیا ہے، جن میں سے بعض افسوس ناک بھی ہیں اور دل چسپ بھی۔ لیری کولنس، دامنک لیپئر کی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کا ایک باب اسی پر مشتمل ہے۔

    اس کتاب کا اردو ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے جس میں ’محل اور شیر، ہاتھی اور جواہرات‘ کے عنوان سے مہاراجہ گوالیار کا ایک عجیب و غریب مگر دل چسپ مشغلہ بیان کیا ہے۔ مہاراجہ کے اس مشغلے نے اپنے وقت کے کئی امراء اور منصب داروں کو مصیبت میں‌ گرفتار کیا اور ایک روز وائسرائے اور ان کے اہلِ خانہ بھی برے پھنسے۔ سعید سہروردی کا ترجمہ کردہ یہ اقتباس پڑھیے۔

    "اِسی طرح مہاراجہ گوالیار نے لوہے کی ایک بہت بڑی میز بنوائی۔ اُس پر چاندی کی پٹڑیاں بٹھائی گئیں جن کی لمبائی 250 فٹ سے زیادہ تھی۔ یہ میز کھانے کے کمرے میں رکھ دی گئی۔ دیوار میں سوراخ کر کے پٹڑیاں اِس طرح آگے بڑھائی گئیں کہ اُس میز کا ربط مہاراجہ کے باورچی خانے سے قائم ہو گیا۔ اُس کے بعد ایک کنٹرول پینل بنایا گیا، جس میں نہ جانے کتنے سوئچ، الارم، سگنل اور لیور لگے تھے۔ یہ پینل میز پر فٹ کر دیا گیا۔ مہاراجہ کے مہمان میز کے چاروں طرف بیٹھتے اور مہاراجہ خود کنٹرول پینل کو قابو کرتے تھے۔ وہ سوئچ دباتے، لیور اُٹھاتے گراتے، نہ جانے کیا کھٹر پٹر کرتے۔

    چاندی کی پٹڑیوں پر ٹرین دوڑتی، رکتی، سرکتی اور بھاگتی رہتی تھی۔ وہ ٹرین باورچی خانے میں جاتی تھی جہاں ملازم چپاتی، ترکاری اور دوسرے کھانے ٹرین کے کھلے ڈبوں میں رکھ دیتے تھے۔ مال سے لدی ہوئی ٹرین کھانے کے کمرے میں آتی تھی۔ مہاراجہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جس مہمان کے سامنے چاہتے ٹرین کو روک دیتے اور وہ اپنی پسند کی چیزیں نکال لیتا۔ اِسی طرح وہ جسے بھوکا رکھنا چاہتے تو کنٹرول کے مخصوص بٹن دبا دیتے تو مال سے لدی ہوئی ٹرین بچارے مہمان کے سامنے سے بغیر رکے سرسراتی ہوئی آگے نکل جاتی تھی۔

    ایک رات مہاراجہ نے وائسرائے اور اُس کے اہلِ خانہ کو کھانے پر مدعو کیا تو کنٹرول پینل میں شارٹ سرکٹ ہو گیا۔ مال سے لدی ہوئی گاڑی باورچی خانے سے تیر کی طرح آئی اور طوفانی رفتار سے میز کا چکر کاٹنے لگی اور رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کھلے ڈبوں سے سبزی، دال، گھی، تیل اچار اچھل اچھل کر مہمانوں کے کپڑوں پر گرنے لگا۔ مہمان توبہ بول گئے۔ ریلوں کی تاریخ میں اِس قسم کا حادثہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔”

  • ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ’میرا ہندوستان‘ اینگلو انڈین مہم جو، شکاری اور مصنّف جم کاربٹ کی کتاب ہے جو متحدہ ہندوستان کے پسے ہوئے اور مجبور طبقات کی زندگی کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔

    فن و ادب سے متعلق مزید تحریریں پڑھیں

    جم کاربٹ لکھتے ہیں، ’’میرا ہندوستان‘‘ میں، میں نے اُس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوے فیصد انتہائی سادہ، ایماندار، بہادر، وفا دار اور جفا کش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ’ہندوستان کی بھوکی عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے۔‘‘

    اس کا ترجمہ محمد منصور قیصرانی نے کیا ہے۔ جم کاربٹ نے اپنی اس کتاب میں ایک نوجوان جوڑے کی درد ناک کہانی بیان کی ہے، جس کے دادا بنیے کے جال اور سود کی دلدل میں پھنس گئے تھے اور اسے بھی اپنے والد کی موت کے بعد یہ رقم اتارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔

    بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔

    اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچّے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔ چوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا دیا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔

    یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نووارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھیلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

    بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔

    اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔ ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلّے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

    ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، واپس لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں واپس لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔

    پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

    ’’میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوتا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادے کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس اسٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔‘

    بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آباؤ اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

    بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط و کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔

    بنیے نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیے سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیے نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

    جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

    جتنی دیر ہماری خط و کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

    اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

    تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

  • فیض احمد فیض: یادوں کے دریچے سے

    فیض احمد فیض: یادوں کے دریچے سے

    ماہنامہ شبستاں کا فیض نمبر 1985ء میں شایع ہوا تھا۔ شبستاں، اپنے دور کا ایک نیم ادبی تفریحی اردو ڈائجسٹ تھا جو ہندوستان اور پاکستان میں اردو قارئین میں بے حد مقبول تھا۔ شبستاں کا ترقی پسند اور لینن انعام یافتہ شاعر فیض احمد فیض پر جو خاص نمبر شائع ہوا تھا اس میں ان کی مختصر خودنوشت بھی شامل تھی۔

    ادب اور ثقافت سے متعلق مزید تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہ خودنوشت کئی دل چسپ واقعات پر مشتمل ہے اور فیض صاحب نے بڑی سادگی سے اپنے بچپن اور نوجوانی کے واقعات کے ساتھ ادبی سفر کی روداد بھی قلم بند کی ہے۔ یہ چند پارے اسی خودنوشت سے لیے گئے ہیں۔ فیض صاحب لکھتے ہیں:

    ہمارے شعراء کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ ناقدریِ ابنائے وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے الٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایت کی اس قدر بارش رہی ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے ، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں کہ اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش کا مستحق ہونے کے لئے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔

    یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بچپن ہی سے اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے، اسکول میں پڑھتے تھے تو اسکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ خواہ مخواہ انہوں نے ہمیں اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالاں کہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں، یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے ، کھیل بھی لیتے تھے لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔

    بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات خاص طور سے یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے مونہہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی پتنگ اڑا رہا ہے، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے۔ کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود دیکھتے رہتے تھے، اکیلے بیٹھ کر "ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے” کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔

    اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی میں نہیں جانتا، ہمارے زمانے میں تو اسکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلّاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ یعنی فلاں کو چانٹا لگاؤ فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا۔ کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو؟ زور سے چانٹا مارو۔

    دو تأثر بہت گہرے ہیں، ایک تو یہ کہ بچوں کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت اور خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے ملا اور آج بھی مل رہا ہے۔

    صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے، ابا کے ساتھ مسجد گئے نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لئے گئے، پھر اسکول، رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لئے، اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔

  • مولانا حالی کے ایک سفر کی روداد

    مولانا حالی کے ایک سفر کی روداد

    مولانا حالی جب اینگلو عربک اسکول دہلی میں فرسٹ اورینٹل ٹیچر تھے تو موسمی تعطیلات میں جو اس وقت ایک مہینے کی ہوا کرتی تھیں، انہوں نے خاص طور پر ایک تفریحی سفر ریاست الور کا کیا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تفریح کے لئے خاص الور ہی کو مولانا نے کیوں منتخب کیا۔

    بہرحال اس سفر میں وہ علی گڑھ، فیروز آباد، اٹاوہ، مین پوری، کان پور، ہمیر پور اور باندی کوٹی ہوتے ہوئے الور پہنچے۔ علی گڑھ میں سرسید کے مہمان رہے اور علی گڑھ کالج دیکھنے کا ان کا یہ تیسرا موقع تھا۔ اس کا حال بیان کرتے ہوئے مولانا کے ایک ایک لفظ سے اس محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے جو مولانا کو علی گڑھ اور سرسید کی ذات سے تھی۔ راستے میں مولانا جن جن مقامات سے گزرے، ان کی مختصر کیفیت بیان کی ہے۔ (محمد اسماعیل)

    سفر کا مختصر احوال
    ایام تعطیل میں دوستوں اور عزیزوں سے ملنے کی غرض سے ہم کو چند مقامات میں دورہ کرنے کا اتفاق ہوا اور ہم دہلی سے علی گڑھ پہنچے اور جناب آنریبل سید احمد خاں بہادر کی کوٹھی پر ٹھہرے۔

    علی گڑھ
    اب کی دفعہ ہم نے مدرسۃ العلوم کو تیسری بار دیکھا اور اس کی روز افزوں ترقی دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ مدرسے کو دیکھ کر ہم کو اس بات کا پورا یقین ہو گیا کہ اولوالعزم اور مستقل مزاج آدمی اپنے ارادوں کی مزاحمت سے اور زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سوا جو عناد اور دشمنی سے اس مدرسے کے مخالف ہیں، باقی سب مسلمان رفتہ رفتہ اس کی قدر کرتے جاتے ہیں اور جن عمدہ اصول پر اس مدرسے کی بنیاد قائم کی گئی ہے، اب ان کی خوبی و عمدگی سب سے پر ظاہر ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے طلبہ کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بہت سے بے خبر اور ناواقف لوگ جو اپنی اولاد کو یہاں بھیجتے ہوئے جھجکتے تھے اور ان کے مذہب و عقائد کے بدل جانے سے ڈرتے تھے، وہ اب نہایت اطمینان اور دلجمعی سے اپنی اولاد کو وہاں بھیجنے لگے ہیں۔

    یہ بات تحقیق ہو گئی ہے کہ بانی مدرسۃ العلوم کے مذہبی اعتقادات اور رایوں کو مدرسۃ العلوم کی تعلیم میں کچھ بھی دخل نہیں ہے۔ اس امر کا یہاں تک خیال رکھا جاتا ہے کہ رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ جو مطبع علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ سے چھپ کر شائع ہوتا ہے، اس کی کوئی کاپی مفت یا بہ قیمت کسی طالب علم کو نہیں دی جاتی۔ طلبائے مدرسہ کے افعال و اخلاق کی نگرانی پر یہاں وہ لوگ مامور ہیں جو جمہور اہل اسلام کے طریقے سے سرِ مو تجاوز کرنے کو بھی کفر جانتے ہیں۔ علی گڑھ میں ہم بعض ایسے دوستوں سے بھی ملے جو چند سال پہلے اس مدرسے کو ’’دارالکفر‘‘ سمجھتے تھے، لیکن اب حد سے زیادہ اس کے مداح اور ثنا خواں ہیں اور اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں۔

    مدرسے میں دو چار کے سوا، جو کہ مریض تھے، ہم نے سب مسلمان طالب علموں کو روزہ دار پایا۔ افطار کے وقت نماز کے چبوترے پر، جو بالفعل عارضی طور پر بنایا گیا ہے، سب جمع ہوتے تھے اور نہایت لطف کے ساتھ روزہ افطار ہوتا تھا۔ نماز عشا کے بعد جناب مولوی محمد امیر صاحب تراویح میں قرآن سناتے تھے اور اکثر طالب علم ان کا قرآن سنتے تھے۔ ایک روز جناب مولوی سید فرید الدین احمد خاں بہادر نے اور دوسرے روز ہمارے جلیل القدر میزبان (یعنی سید احمد خاں صاحب) نے بھی روزہ افطار کی تقریب میں اپنے دوستوں کو بلایا تھا اور ان دونوں صحبتوں میں ہم بھی شریک تھے۔

    مدرسہ العلوم کی تعمیر نہایت شد و مد سے جاری ہے اور جس قدر کام اس میں ہو چکا ہے اور ہورہا ہے، اس کو دیکھ کر بے انتہا تعجب ہوتا ہے۔ مدرسۃ العلوم کے حامیوں اور کار پردازوں کی سرگرمی اور کوشش دیکھ کر ان لوگوں کے دل میں بھی، جو مسلمانوں کی ترقی سے مایوس ہیں، ایک جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور یہ امید ہوتی ہے کہ اس قوم کی ترقی کا اگرذمہ دار ہو سکتا ہے تو یہی مدرسہ ہو سکتا ہے۔ علی گڑھ میں پانچ روز ٹھہر کر ہم فیروز آباد، اٹاوہ، مین پوری اور کانپور ہوتے ہوئے ہمیرپور میں پہنچے۔

    فیروزآباد
    فیروزآباد ضلع آگرہ کا ایک مشہور قصبہ ہے جس میں سرکاری تھانہ اور تحصیل بھی ہے۔ یہ قصبہ جیسا کہ مشہور ہے، فیروز خواجہ سرا کا آباد کیا ہوا ہے، لیکن یہ ایک غیر محقق بات ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ فیروز شاہ کا آباد کیا ہوا ہو، جیسے فیروز پور یا حصار فیروزہ وغیرہ۔ یہاں کھجور کے پٹھے کی پنکھیاں ایسی عمدہ بنتی ہیں کہ ہندوستان میں شاید ہی کہیں اور بنتی ہوں۔ سادی پنکھیاں جن میں کسی قدر ریشم کا کام بھی ہوتا ہے۔ ایک روپیہ قیمت کی ہم نے بھی یہاں دیکھیں۔ اس کے سوا یہاں کی کوئی بات ذکر کے قابل نہیں ہے۔ یہاں کے مسلمان جو پہلے بہت آسودہ اور مرفہ الحال تھے، اب اس قدر پست حالت میں ہیں کہ وہاں کے ذی اعتبار باشندوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں آتا۔

    اٹاوہ
    اٹاوے میں ہم کو زیادہ ٹھہرنے کی مہلت نہیں ملی اور نہ اپنے شفیق میزبان کے مکان کے سوا کہیں جانے کا اتفاق ہوا۔

    مین پوری
    مین پوری میں ہم دو روز ٹھہرے۔ خوش قسمتی سے ہم کو ایک دن اور ایک رات جناب مرزا عابد علی بیگ صاحب سب آرڈنیٹ جج کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا۔ یہاں بھی طریقۂ معاشرت میں ہم نے وہی انوار و برکات مشاہدہ کئے جو علی گڑھ میں کئے تھے۔ جناب مرزا صاحب بھی اسی ’’مردود گروہ‘‘میں سے ہیں جو قومی ہمدردی کو راس الحسنات اور مخ العبادات جانتا ہے۔ جب ہم ان کے دولت خانے سے رخصت ہو کر ڈاک گاڑی پر پہنچے تو ان کے دو آدمی ہمارے ساتھ تھے، جن سے کوچ بان کو معلوم ہوا کہ وہ صدرِ اعلیٰ کے ہاں سے آئے ہیں۔ اس بات نے ہم کو بہت تکلیف میں ڈالا کیوں کہ گاڑی کا کوچ بان اتفاق سے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی نہایت متقی بھی تھا۔ اس نے یہ بات معلوم ہونے پر راستے میں ہم کو پانی پینے کے لئے اپنا کٹورا تک نہیں دیا اور ہم سے برابر ایسا پرہیز کرتا رہا جیسے بعض ہندو مسلمان سے کرتے ہیں۔ اوّل تو ہم کو اس سے بہت تعجب ہوا، لیکن پھر یاد آیا کہ ہم نے اپنے عالی قدر میزبان کے ہاں برابر دو وقت میز پر کھانا کھایا تھا اور اسی لئے ہم سے پرہیز کرنا ضروری تھا۔

    ہمیرپور
    جب ہم کانپور میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں سے ہمیر پور تک اونٹ گاڑی کے سوا کوئی سواری نہیں جاتی، اس لیے لاچار اسی میں جانا پڑا اور اتفاقاً ہم کو اوپر کے درجے میں جگہ ملی۔ ہم کو یاد نہیں کہ ہم نے کبھی کسی سواری یا پیدل جانے میں ایسی تکلیف اٹھائی ہو جیسی اس اونٹ گاڑی میں ہمیں پہنچی۔

    ریل کے زمانے سے پہلے یہی سواریاں نہایت غنیمت سمجھی جاتی تھیں مگر اب تو ان کے نام سے ہول آتی ہے۔ افسوس کہ یورپ کی صنعتیں روز بروز ہم کو پرلے درجے کا آرام طلب اور راحت پسند بناتی جاتی ہیں، اور اب وہ تمام اسباب اور ذریعے مفقود ہیں جن کے باعث سے کبھی کبھی ہم کو جفا کشی اور محنت کرنے کا بھی موقع ملتا رہے۔

    ہمیر پور کو جاتے ہوئے پچھم کی طرف سڑک سے کسی قدر فاصلے پر ہم نے ایک مندر دیکھا جو بیربر کا بنایا ہوا مشہور ہے۔ گو یہ مندر کچھ زیادہ شاندار نہیں ہے مگر اس سنسان جنگل میں ایک ایسے زمانے کو یاد دلاتا ہے جو ہندوستان کی تاریخ میں ’’طلائی زمانہ‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ اب ہم جمنا سے اتر کر ہمیر پور پہنچے۔ ہمیر پور راجا ہمیر سنگھ کا آباد کیا ہوا مشہور ہے، جس کے خاندان کی عمارتوں کے کھنڈر اب تک وہاں موجود ہیں۔ یہ قصبہ کان پور سے چالیس میل جانب جنوب بہت بلندی پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں جمنا اور جنوب میں بیدونتی ندی بہتی ہے اور مشرق میں ایک میل پر جاکر دونوں مل گئی ہیں۔ مغرب میں ایک نالہ ہے جو بیدونتی میں جاکر گرتا ہے۔ یہ نالہ برسات میں جاری ہو جاتا ہے اور ویسے ایام میں خشک رہتا ہے اور اس لحاظ سے ہمیر پور کو کبھی جزیرہ اور کبھی جزیرہ نما کہا جا سکتا ہے۔

    قدیم باشندے یہاں کے زیادہ تر ہندو ہیں۔ شریف مسلمانوں میں صرف ایک سیدوں کا خاندان ہے جو اکثر خانہ نشین اور بزرگوں کے متروکے پر قانع ہے۔ اس خاندان کے جتنے آدمی میں نے دیکھے ہیں، سب پرانی روش کے بھولے بھالے سیدھے سادے سید ہیں، جن پر زمانۂ حال کی چھینٹ بھی نہیں پڑی۔ اس مقام کی رونق زیادہ تر سرکاری ملازموں سے ہے، اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ یہاں سرکاری ملازموں میں جس قدر پردیسی مسلمان ہیں، وہ برخلاف عام مسلمانوں کے باہم برادرانہ محبت اور برتاؤ رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے درد اور دکھ میں شریک ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے تعصباتِ بے جا میں سب گرفتار ہیں۔ حقیقت میں ہمیر پور ایک ایسے گوشے میں واقع ہے جہاں زمانے کے شور و شغب کی آواز بہت کم پہنچتی ہے۔ مدرسۃ العلوم کا نام وہاں کے اکثر مسلمانوں نے کبھی کان سے بھی نہیں سنا اور جنہوں نے سنا ہے، ان کے ذہن میں اس کی ایسی ہول ناک صورت سمائی ہوئی ہے کہ اس کے نام سے پناہ مانگتے ہیں۔

    دلی سے ہمیر پور تک
    دلی سے ہمیر پور تک ہم کو شریف مسلمانوں کی اکثر صحبتوں میں بیٹھنے اور ان کی بات چیت سننے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً تمام مجلسوں کا رنگ ہم نے ایک ہی اصل پر دیکھا۔ وہی بے جا شیخی اور تعلی اور ہر ایک پہلو سے اپنی تعریف نکالنی، لوگوں کے عیب ڈھونڈنے اور ان کو برائی سے یاد کرنا، حاضرین کی خوشامد اور غائبین کی بد گوئی، بات بات میں فحش اور دشنام سے زبان کو آلودہ کرنا، اور سب سے زیادہ خود غرضی اور تعصب کا بازار ہر جگہ گرم پایا۔

    آگرے سے باندی کوٹی تک
    مراجعت کے وقت ہم ایک دن آگرے میں ٹھیر کر الور پہنچے۔ یہاں ہم کو راجپوتانہ اسٹیٹ ریلوے میں بیٹھنا پڑا۔ چونکہ یہ سرکاری ریل ہے، اس لیے ہم کو امید تھی کہ اس میں زیادہ آرام ملے گا، مگر بر خلاف اس کے سب سے زیادہ اسی میں تکلیف اٹھانی پڑی۔ اوّل تو اس میں انٹرمیڈیٹ کلاس کے نہ ہونے سے بڑا نقص ہے۔ کیوں کہ متوسط الحال آدمیوں کے لیے یہ درجہ فرسٹ کلاس کا حکم رکھتا ہے۔ دوسرے گاڑیاں اس قدر چھوٹی ہیں کہ ایک کمرے میں صرف چار آدمی آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ باوجود اس کے ایک ایک کمرے میں آٹھ آٹھ ادمی بٹھائے جانے کا حکم ہے۔ اور اس پر غضب یہ ہے کہ جب تک ایک کمرہ میں پورے آٹھ آدمی نہیں بیٹھ لیتے، تب تک دوسرا کمرہ نہیں کھولا جاتا، حالاں کہ اکثر اسی کلاس کی پانچ پانچ سات سات گاڑیاں ٹرین میں بالکل خالی جاتی ہیں۔

    ہم رات کی ٹرین میں سوارہوئے تھے اور ہماری گاڑی کے کسی کمرے میں آٹھ آدمی سے کم نہ تھے۔ نیند کے مارے ایک دوسرے پر گرا پڑتا تھا اور تمام راستے مسافروں میں باہم تکرار ہوتی رہی۔ علاوہ ان ’’خوبیوں‘‘ کے یہ ریل اور ریلوں کی نسبت سست رفتار بھی بہت ہے۔ صبح کے سات بجے ہم باندی کوٹی میں پہنچے اور دس بجے تک یہاں ٹھیرے رہے۔ یہاں تقریبا ڈیڑھ میل طول اور اسی قدر عرض کے میدان میں بالکل سنگین عمارتیں اس قدر بنائی گئی ہیں کہ بجائے خود ایک شہر آباد ہو گیا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ یہاں کسی قدر سرکاری فوج رکھی جائےگی۔

    الور
    وہاں سے چل کر ساڑھے بارہ بجے ہم الور پہنچے اور دوپہر تک نئی سرائے میں جو کیڈل صاحب پولیٹکل ایجنٹ کے عہد میں تیار ہوئی ہے، ٹھہرے۔ اس سرائے کی عمارت بالکل سنگین ہے۔ ظاہراً ہندوستان میں یہ پہلی سرائے ہے جس کے نقشے میں ہر ایک مسافر کی آسائش اور تمام ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ رات کو ہمارے ایک معزز دوست نے ہم کو اپنے مکان پر بلا لیا اور پانچ روز تک ہم ان ہی کے مکان پر ٹھہرے رہے۔ الور کو ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شہر کی آبادی دامن کوہ میں واقع ہوئی ہے اور اسی وجہ سے شہر کا شمالی حصہ جنوبی حصے سے کسی قدر بلند ہے۔ یہاں کے بازار اگرچہ بہت وسیع نہیں مگر پُر رونق ضرور ہیں اور عمارتیں اکثر سنگین ہیں۔

    شہر کی عام عمارتیں کچھ زیادہ امتیاز نہیں رکھتیں، لیکن سرکاری محلوں سے راج کی پوری پوری شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ خصوصاً وہ محل جو موتی ڈونگری کے باغ میں مہا راجا بنے سنگھ نے بنوایا ہے۔ عمارت کی خوبی کے علاوہ وہ ایک ایسے موقع پر واقع ہوا ہے جس سے اس کی شان اور عظمت دس گنی ہو گئی ہے۔ محل کے اوپر کے درجے پر چڑھ کر جس طرف نظر ڈالیے، زمین اور پہاڑ اور فرشِ زمردیں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اب تک وہاں بارش کم ہوئی تھی مگر پھر بھی وہاں کی قدرتی فضا دیکھنے کے قابل تھی۔

    یہاں ایک اور مقام بھی کمال دل کش اور روح افزا ہے جو سیلی سیڑھ کے نام سے مشہور ہے۔ شہر سے تقریبا ًچھ میل کے فاصلے پر ایک سیتلا کا مندر ہے۔ جس کو وہاں کے لوگ سیلی سیڑھ کہتے ہیں۔ (سیلی سیڑھ کے لفظی معنی ٹھنڈی سیتلا کے ہیں۔) یہاں دو طرف سے پہاڑ آ کر مل گیا ہے اور ایک مثلث کی سی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ اس مثلث کے گوشے میں ایک بڑا اور نہایت مستحکم بند باندھا گیا ہے جس میں وقتاً فوقتاً بارش کا پانی دونوں پہاڑوں سے جھر جھر کر اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔ اور یہاں سے الور تک ایک پختہ نہر بنی ہوئی ہے جس کے ذریعہ سے بند کا پانی رستے کے تمام کھیتوں کو سیراب کرتا ہوا شہر تک پہنچتا ہے اور وہاں جا کر الور کے تمام باغات اور اس کے تمام سواد کو سال بھر تک سر سبز و شاداب رکھتا ہے۔ بند کے ایک جانب پہاڑ پر ایک نہایت پختہ گؤ گھاٹ تقریبا پاؤ میل اونچا بنا ہوا ہے۔ جو پہاڑ کی چوٹی پر جاکر ختم ہوتا ہے اور وہاں سرکاری محل بنے ہوئے ہیں۔ یہ مہاراجا بنے سنگھ کی ایک نمودار یادگار ہے جو ہمیشہ ان کے عہد حکومت کو یاد دلائے گی۔

    الور کا سواد نہایت دل کش اور دل ربا ہے اور تمام باغات سے گھرا ہوا ہے۔ موتی ڈونگری کے باغ کے سوا جو کہ مشہور ہے، ایک کمپنی باغ بھی ہے جو مہاراجا شیو دھیان سنگھ نے حضور ڈیوک آف ایڈنبراکی تشریف آوری کے زمانے میں تیار کروایا تھا۔ یہ بھی ایک عمدہ پارک ہے۔ اس کے سوا کیڈل گنج، شفاخانہ اور اسکول وغیرہ کی عمارتیں جو کیڈل صاحب کے عہد میں بنی ہیں، نہایت عمدہ اور شہر کے لئے باعث زینت ہیں۔ ریاست الور کے پولیٹکل حالات جس قدر ہم کو معلوم ہوئے ہیں، ان سے ریاست کی آئندہ بہبودی اور ترقی کی بہت کچھ امید ہوتی ہے۔

    مہاراجا منگل سنگھ جو تقریبا دو ڈھائی برس سے با اختیار ہوئے ہیں ان کی تعریف میں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر سابق جب سال گزشتہ کے ختم پر اجمیر میں تشریف لئے گئے تھے تو انہوں نے میو کالج کے طالب علموں سے خطاب کر کے ایک لمبی اسپیچ کی تھی جس میں مہاراجا منگل سنگھ کی شہ سواری، گولہ اندازی، بہادری، جفاکشی، شائستگی اور عالی دماغی کی نہایت تعریف کرکے مخاطبین کو ان کی پیروی کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔

    مہاراجا صاحب نے اس نہایت قلیل زمانے میں جو دو ڈھائی برس سے زیادہ نہ ہو گا کئی ایسے کام کئے ہیں جن کا ایک نوجوان ہندوستانی رئیس سے وقوع میں آنا نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلے جنوبی ہندوستان کا ایک سفر اختیار کیا جس میں کسی قدر بحری سفر اور جزیرہ سیلون کی سیاحت بھی شامل تھی، اور بہت شوق سے اپنا سفر نامہ بھی تیار کرایا۔ پھر با اختیار ہونے کے وقت خزانہ بالکل خالی تھا بلکہ ریاست کسی قدر مقروض تھی، مگر اب سنا جاتا ہے کہ خزانے میں تقریبا سات آٹھ لاکھ روپیہ جمع ہے۔ ہر جمعرات کے دن ایک عام دربار مقرر کیا جس میں تمام ریاست کے مستغیثو ں کو اجازت دی گئی کہ خود مہاراجا کے روبرو حاضر ہوکر عرض معروض کریں۔ اور معمولی دربار جو ہر روز تین گھنٹے سے چار گھنٹے تک رہتا ہے اور جس میں کونسل کی تجویزات اور فیصلے پیش ہوتے ہیں یہ اس عام دربار کے علاوہ ہے۔ پولس اور مال کا ازسرنو انتظام کیا جس کی وجہ سے تقریباً پانچ سو روپے ماہوار کا اضافہ، پولس اور عملہ مال کی تنخواہوں میں کیا گیا۔ سررشتہ تعلیم میں بھی روزبروز ترقی ہوتی جاتی ہے۔

    ایک بڑا اسکول شہر میں عام رعایا کی تعلیم کے لئے ہے جس میں انٹرنس تک پڑھائی ہوتی ہے اور جو لڑکے یہاں سے انٹرنس پاس کرتے ہیں ان کو وظیفہ دے کر کسی کالج میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اگلے برس دو لڑکوں نے انٹرنس پاس کیا تھا، وہ دونوں لڑکے اجمیر کے گورنمنٹ کالج میں ترقی تعلیم کے لئے بھیج دیے گئے اور آٹھ روپیہ ماہوار ان کا وظیفہ مقرر کیا گیا۔ اس کے سوا ایک اور اسکول شہر میں ہے جو خاص ٹھاکروں اور سرداروں کی اولاد کے لئے مخصوص ہے۔ اس مدرسے کی حالت ابھی تک کچھ اچھی نہیں ہے۔ علاقہ الور کے دیہاتی مدارس کی ٹھیک تعداد ہم کو یاد نہیں رہی، لیکن غالباً سو سے زیادہ اور ڈیڑھ سو سے کم ہے۔ چودہ مدرسے زنانے بھی ہیں جن میں ہندو مسلمان دونوں قوموں کی لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں۔

    سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آرام طلبی اور سستی اور کاہلی جو ہندوستانی رئیسوں کی سرشت میں داخل ہے، وہ مہاراجا کے مزاج میں بالکل نہیں ہے۔ اور سادگی اور بے تکلفی ایسی ہے کہ اہل یورپ میں بھی ایسی نہیں دیکھی گئی۔ البتہ شکار کا شوق جس قدر ہونا چاہئے اس سے کسی قدر زیادہ ہے۔ باقی تعیش، لہو و لعب اور مسکرات سے، جہاں تک ہم نے سنا ہے، بہ کلی نفرت ہے اور یہ تمام باتیں بشرطیکہ استقلال کے ساتھ قائم رہیں، ایسی ہیں جو انسان کی ترقی کی اصل اصول ہیں۔ پانچ روز الور میں ٹھہر کر ہم رمضان کی انتیسویں تاریخ دن کی ریل میں الور سے روانہ ہوئے اور شام کو دلّی پہنچ گئے۔

  • غدر:‌ دہلی کالج کی بربادی اور مسٹر ٹیلر کا انجام

    غدر:‌ دہلی کالج کی بربادی اور مسٹر ٹیلر کا انجام

    ہندوستان میں انگریز راج کے واقعات اور 1857ء کے ہنگامے تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ غدر کے دوران دلّی کے مشہور تعلیمی ادارے کو بھی نقصان پہنچا تھا جس پر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے مرحوم دہلی کالج کے نام سے کتاب لکھی تھی۔ یہ ایک مدرسہ تھا جسے 1828ء میں کالج بنا دیا گیا تھا۔

    ادبی مضامین اور مشاہیر کی تحریریں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اس کالج کے پرنسپل ٹیلر صاحب باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اساتذہ بھاگ نکلے تھے جن میں سے کچھ جان بچا سکے اور باقی قتل ہوئے۔ کالج کو بڑا نقصان پہنچا جس کے بارے میں مالک رام لکھتے ہیں:

    "اس شورش سے کالج کو بہت نقصان ہوا۔ مدرسوں میں جو لوگ دیسی سپاہی کے چنگل سے بچ نکلے، وہ تتر بتر ہو گئے۔ کتاب خانہ وقف تاراج ہوا۔ جاہلوں نے کتابوں کو چیر پھاڑ کے ورق ورق کر دیا۔ یہاں کا سامان توڑ پھوڑ کر اسے ہمیشہ کے لیے بیکار بنا دیا۔”

    غدر کے بعد سات برس تک بند رہنے والے اس کالج کو جگہ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ کھولا گیا مگر اب پہلے والی شکل نہیں رہ گئی تھی اور 1877ء میں اس کا انجام ہوگیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب کے اس پارے میں ہندوستانی سپاہیوں اور مشتعل لوگوں کے انگریز اساتذہ پر حملے اور کالج میں توڑ پھوڑ کا افسوس ناک واقعہ یوں سنایا ہے:۔

    گیارھویں مئی پیر کا دن تھا۔ کالج کا وقت صبح کا تھا۔ پڑھائی حسبِ معمول ہو رہی تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے چند لالہ ہانپتے کانپتے آئے، ان کی سراسیمگی اور وحشت کا عجیب عالم تھا۔ دوڑے دوڑے آتے اور جماعتوں میں بے تحا شا گھس گئے اور اپنے لڑکوں سے کہا، گھر چلو، بھاگو غدر مچ گیا، سپاہی اور سواروں نے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ سنتے ہی لڑکے اپنے اپنے بستے سنبھال چمپت ہونے لگے۔

    پرنسپل صاحب حیران و ششدر تھے کہ یہ کیا تماشا ہے۔ اتنے میں میگزین کا چپراسی آیا اور کمانڈنٹ کا خط لایا، اس میں مرقوم تھا کہ شورش بپا ہو گئی ہے اور حالت لمحہ بہ لمحہ خطرناک ہوتی جاتی ہے، مصلحت یہ ہے کہ آپ فوراً مع انگریزی اسٹاف کے یہاں آجائیں اور میگزین میں پناہ لیں۔ پرنسپل ٹیلر، رابرٹس ہیڈ ماسٹر، اسٹوارٹ سیکنڈ ماسٹر، اسٹینر تھرڈ ماسٹر بوکھلائے ہوئے بھاگے اور میگزین میں پناہ گزیں ہوئے۔

    مسٹر ٹیلر کالج ہی کی کوٹھی میں رہتے تھے۔ رابرٹس کا بنگلہ بھی کالج کے احاطے میں تھا، ان کے بیوی بچے بھی ساتھ رہتے تھے، اسٹوارٹ منصور علی خاں کی حویلی میں اور اسٹینر کشمیری دروازے کی طرف کسی مکان میں اقامت گزیں تھے۔ پروفیسر یسوع داس رام چندر چاندنی چوک میں ایک کوٹھے پر رہتے تھے۔

    اس کے بعد ہندستانی سپاہیوں نے میگزین کو گھیر لیا۔ وہ ہر انگریزی چیز کو تباہ کرتے چلے آتے تھے۔ میگزین میں پانچ چھے انگریز افسر اور دو تین سارجنٹ تھے۔ ان لوگوں نے اپنی ننھّی سی جماعت سے بڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں ہندستانی سیڑھیاں لگا کر میگزین کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ جب انگریزوں کو کمک کی کوئی توقع نہ رہی تو انھوں نے میگزین کو آگ لگا دی اور ہزاروں ہندستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ کوئی پانچ انگریز خود بھی لقمۂ اجل ہوئے۔

    مسٹر ٹیلر اور مسٹر اسٹینر جان بچا کر بھاگے اور میگزین سے صحیح سلامت باہر نکل آئے، لیکن ہوش و حواس باختہ۔ حیران تھے کہ کہاں جائیں، ہر سمت موت کھڑی نظر آتی تھی۔ رابرٹس غریب تو وہیں ڈھیر ہو گیا اور اسٹوارٹ بھی میگزین کے شعلوں کے نذر ہوئے۔ بہ ہزار دقّت ٹیلر صاحب کالج کے احاطے میں آئے اور اپنے بڈھے خانساماں کی کوٹھری میں گھس گئے۔ اس نے انھیں محمد باقر صاحب مولوی محمد حسین آزاد کے والد کے گھر پہنچا دیا۔ مولوی محمد باقر سے ان کی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ انھوں نے ایک رات تو ٹیلر صاحب کو اپنے امام باڑے کے تہ خانے میں رکھا لیکن دوسرے روز جب ان کے امام باڑے میں چھپنے کی خبر محلّے میں عام ہو گئی تو مولوی صاحب نے ٹیلر صاحب کو ہندستانی لباس پہنا کر چلتا کیا۔ مگر ان کا بڑا افسوس ناک حشر ہوا۔

    غریب بیرام خاں کی کھڑکی کے قریب جب اس سج دھج سے پہنچے تو لوگوں نے پہچان لیا اور اتنے لٹھ برسائے کہ بچارے نے وہیں دم دے دیا۔ بعد میں مولوی محمد باقر صاحب اس جرم کی پاداش میں سولی چڑھائے گئے، اور ان کا کوئی عذر نہ چلا۔ مولوی محمد حسین آزاد کا بھی وارنٹ کٹ گیا تھا۔ مسٹر ٹیلر کے مارے جانے میں ان کی بھی سازش خیال کی گئی تھی اور ان پر بھی قوی شبہ تھا، مگر یہ راتوں رات نکل بھاگے اور کئی سال تک سرزمین ایران میں بادیہ پیمائی کرتے رہے جب معافی ہوئی تو ہندستان واپس آئے۔

    مسٹر ٹیلر نہایت قابل، نہایت ہمدرد اور شریف النفس انسان تھے۔ ان کے مرنے کا سب کو رنج اور صدمہ تھا۔ ان کے حالات میں کالج کے اساتذہ کے عنوان کے تحت الگ لکھوں گا، اس سے معلوم ہوگا کہ یہ کیسا عجیب و غریب شخص تھا۔

    اسٹینر صاحب سب سے اچھے رہے، میگزین اُڑنے سے جو اس کی چہار دیواری میں درز پڑگئی تھی اس سے ٹیلر صاحب کے ساتھ باہر نکل آئے۔ ٹیلر صاحب کی اجل تو انھیں کالج کی طرف لے گئی اور اسٹینر کی حیات انھیں جمنا پار میرٹھ لے گئی۔ وہاں یہ زندہ بچ گئے اور غدر کی پُر آشوب دارو گیر سے محفوظ رہے۔

    رہے پروفیسر رام چندر، یہ پیدل چل کر پن چکی کی سٹرک پر ہوتے ہوئے قلعے کے سامنے آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ چند ترک سوار یا مغلوں کا دستہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے ہوئے لال ڈگی کی سڑک پر آرہا ہے۔ یہ اسے دیکھ کر اپنے گھر کی طرف مڑ گئے اور چاندنی چوک کے کوٹھے پر صحیح سلامت پہنچ گئے۔ وہاں سے انھیں ان کے بھائی رام شنکر داس اپنے ساتھ لے گئے اور کایستوں کے محلّے میں اپنے کسی عزیز کے ہاں جا چھپایا، مگر ان کے اقربا نے اس خیال سے کہ ان کی وجہ سے کہیں ہم پر آفت نہ آئے ان کا وہاں زیادہ قیام گوارا نہ کیا۔ ان کا ایک قدیم نوکر جاٹ تھا، اس نے بڑی وفاداری اور رفاقت کی۔ انھیں جاٹ بنا کر گنواروں کے سے کپڑے پہنا پگڑ بندھوا اپنے گانو لے گیا اور وہاں رکھا۔ وہاں سے یہ باولی کی سرا میں انگریزی لشکر سے جا ملے۔

    رابرٹس صاحب کی دو لڑکیاں اور پانچ عیسائی طلبا بھی ان بے رحموں کے ہاتھ سے مارے گئے۔

  • پروفیسر حمید احمد خان اور قرآن کا اسلوب

    پروفیسر حمید احمد خان اور قرآن کا اسلوب

    آج شاذ ہی کوئی پاکستانی ادیب، محقق، ماہرِ تعلیم حمید احمد خاں کے نام اور ان کے علمی و ادبی کاموں سے واقف نکلے۔ ان کا تذکرہ بھی اب نہیں ہوتا کہ وہ اہلِ علم اور قلم کار بھی اٹھ گئے جو ان کے ہم عصر تھے یا حمید احمد خاں سے اپنے دور میں واقف ہوئے تھے۔ ان کی تصانیف میں‌ اقبال اور غالب پر کتابیں یادگار ہیں جب کہ تہذیب و تاریخ، تعلیم اور مذہب میں پروفیسر صاحب بہت دل چسپی رکھتے تھے اور مختلف مواقع پر ان سے متعلق کئی تقاریر اور مضامین اکٹھے کیے تھے۔

    حمید احمد خاں ایک کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں، میری زندگی کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس سے متعلق مشاغل میں گزرا ہے۔ چنانچہ گزشتہ پینتیس برس میں مجھے تحریر و تقریر کے ذریعے سے ان متفرق مسائل پر اظہار خیال کا موقع ملتا رہا جو اس دوران میں ہمارے اساتذہ و طلبہ کے لیے وقتاً فوقتاً مرکزِ توجہ ہے۔

    مارچ 1974ء میں پروفیسر حمید احمد خاں وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے اور تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد جب ہندوستان میں تحریکِ خلافت نے زور پکڑا تو وہ اس سے متاثر ہوکر حیدرآباد دکن چلے گئے تھے۔ بی۔اے کی ڈگری جامعہ عثمانیہ سے لی اور ایم۔اے کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے۔ بعد ازاں کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ انھیں اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ ان کی خواہش رہی کہ ان کے مضامین اور دوسرے اہلِ علم و فضل کے مقالات کو جمع و تدوین کے بعد طلبہ تک پہنچایا جائے جس کی تکمیل احمد ندیم قاسمی نے کی۔ اور ایک کتاب مرتب کی جس کے ابتدائیہ کی چند سطور یہ ہیں:

    پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم و مغفور ایک ایسی جامع الحيثيات شخصیت تھے جن کے علمی کارناموں کو زندہ رکھنا ہم سب کا ملّی فرض ہے۔ ان کے انتقال کے کوئی دو ماہ بعد ۱۸ مئی ۱۹۷۳ء کو مجلسِ یادگارِ حمید احمد خان کا قیام عمل میں آیا۔ مجھے (احمد ندیم قاسمی) نذرِ حمید احمد خان مرتب کرنے والی ذیلی کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا۔ میرے پیش نظر ایک ایسی کتاب کی ترتیب تھی جس میں خان صاحب مرحوم کے مرغوب اور پسندیدہ موضوعات پر ملک اور بیرون ملک کے معزز اہلِ علم اور اہلِ ادب حضرات کے مقالات شامل ہوں۔ جو لوگ خان صاحب مرحوم سے متعارف ہیں اور ان کے خیالات و نظریات سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مرحوم کو بعض موضوعات سے بطور خاص دلچسپی تھی اور یہی ان کی عمر بھر کی علمی سرگرمیوں کے محور تھے۔

    پروفیسر مرحوم کے جمع کردہ بعض مقالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن میں قرآن، اس کے اسلوب اور آہنگ سے متعلق قرآن مجید کے صوری اور معنوی محاسن جیسے موضوع پر مولانا ابوبکر غزنوی کے مقالے سے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

    قرآن مجید کا آہنگ
    قرآن مجید کی صوری رعنائیوں میں سے ایک ابھری ہوئی رعنائی قرآن مجید کا اسلوب ہے، اور اس کے اسلوب کی سب سے ابھری ہوئی خصوصیت اس کا آہنگ ہے، اس کے اسلوب کی موسیقیت ہے۔ قرآن کا آہنگ کانوں میں رس گھولتا ہے۔ یہ آہنگ کن عناصر سے ترتیب پایا ہے؟ یہ ایک تفصیل طلب بات ہے اور اس مختصر مقالے میں اس کی گنجائش نہیں:

    فرخنده شبے باید و خش مہتابے
    تا با تو حکایت کنم از ھر بابے

    ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان نے بحور و اوزان کے جتنے سانچے شعر کے لیے تراشے ہیں، قرآن کا اسلوب ان سب سے ہٹا ہوا ہے۔ وہ کسی بحر میں نہیں ہے۔ نہ طويل، نہ بسيط، نہ رجز، نہ رمل۔ شاید آپ کے جی میں یہ خیال آئے کہ نظمِ آزاد کا قالب بھی تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اور نظمِ آزاد بھی تو شاعری ہی کی ایک صنف ہے۔ پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے۔ جی میں یہ خیال نظمِ آزاد کی حقیقت سے ناواقفیت ہی کی بنا پر آ سکتا ہے۔ نظمِ آزاد گو ایک بحر میں نہیں ہوتی ہے اور ہر مصرع جدا بحر میں ہو سکتا ہے لیکن ہر ہر مصرع باوزن ہوتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ نظمِ آزاد کا کوئی مصرع سرے سے وزن ہی سے خارج ہو۔

    قرآن مجید میں چند آیتوں کے سوا بسم اللہ سے والنّاس تک تمام آیتیں انسان کے تراشے ہوئے اوزان سے ہٹ کر ہیں۔ پس نظمِ آزاد کا اطلاق بھی قرآن مجید پر نہیں ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید کی چند آیتیں باوزن ہیں، مثلا:

    ھیہات ھیہات لما توعدون (المؤمنون)
    ودانية عليهم ظلالها وذللت قطوفها تذليلا (الدهر)

    لیکن چند آیتوں کے با وزن ہونے کی بنا پر پورے قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ کبھی نثر نگار کے قلم سے اور مقرر کی زبان سے بھی بعض فقرے باوزن نکل جاتے ہیں۔ جیسے کہ اعجاز القرآن میں باقلانی نے مثال دی ہے کہ کبھی ایک عامی کی زبان سے بھی نکل جاتا ہے:
    اسقنى الماء يا غلام سريعاً
    (ترجمہ: او لڑکے! پانی جلدی سے پلاؤ)

    یہ قول باوزن ہے لیکن اس عامی کو شاعر کوئی نہیں کہتا۔

    مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کی ایک تقریب کے اختتام پر مہانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہا تھا: "یہ بندۂ فقير سراپا سپاس ہے۔ حاضرینِ مجلس میں ایک شاعر بھی تشریف فرما تھے، وہ جھٹ سے بول اٹھے کہ یہ تو مصرع ہو گیا، لیکن چونکہ ساری بات میں نے نثر میں کی تھی، اس ایک جملے کے باوزن ہونے کی بنا پر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں نے شعروں میں گفتگو کی ہے۔

    پس قرآن مجید کے تیس پاروں میں سے گنتی کی چند آیتوں کے باوزن ہو جانے کی بنا پر قرآن مجید کو شعر کی کتاب نہیں کہا جا سکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی ہے:

    وما علمناه الشعر وما ينبغی له
    (ہم نے انھیں شاعری نہیں سکھائی اور ان کی شان کے وه شایاں بھی نہ تھی)

    اگلا سوال ایک طالب علم کے ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ اگر قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے تو کیا وہ نثر کی کتاب ہے؟ نثر کا آہنگ بھی تو ایسا نہیں ہوتا ہے۔ نثر میں یہ موسیقیت تو نہیں ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر طہٰ حسین نے بجا کہا تھا:

    ترجمہ:‌ قرآن مجید شعر کی کتاب نہیں ہے، قرآن مجید نثر کی کتاب بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ ہم کہیں قرآن، قرآن ہے۔

    اس کا اسلوب منفرد ہے، اس کا آہنگ انوکھا اور اچھوتا ہے جیسے خدا اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے یکتا ہے، اس کا اسلوب بھی یکتا ہے۔

  • انگریز سوداگر کی عاشق یہودی لڑکی اور خواجہ صاحب کا تعویذ

    انگریز سوداگر کی عاشق یہودی لڑکی اور خواجہ صاحب کا تعویذ

    بمبئی میں، مَیں ایک یہودی مرید کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ مولانا شوکت علی مرحوم مجھ سے ملنے آئے۔ وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بڑھیا یہودن اپنی لڑکی کو لے کر آئی اور کہا کہ یہ لڑکی تین دن سے رو رہی ہے، سوتی نہیں ہے اور کھانا چھوڑ رکھا ہے۔

    میں نے کہا اس کو ایک انگریز سود اگر سے محبت ہے اور اس نے اس انگریز سے شادی کا اقرار کر لیا تھا۔ اب ایک دوسری لڑکی کا خط انگریز کے پاس دیکھا اور اس رنج میں اس نے کھانا چھوڑ دیا اور رو رہی ہے ۔ وہ لڑکی بے تاب ہوگئی اور اس نے کہا ہاں ہاں ٹھیک ایسا ہی ہے اور میری مدد کرو ورنہ میں مر جاؤں گی۔ میں نے اس کو تعویذ دیا اور کہا کل شام کو تیرا اس انگریز سے ملاپ ہو جائے گا۔

    جب وہ چلی گئی تو مولانا شوکت علی نے مجھ سے پوچھا، آپ کو کیسے معلوم ہو گیا کہ اس لڑکی کا تعلق کسی انگریز سوداگر سے ہے اور اس کے پاس کسی دوسری لڑکی کا خط دیکھ کر یہ لڑکی رو رہی ہے۔ میں نے کہا قیاس اور سمجھ، اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ میں نے بڑھیا یہودن کے غریبانہ لباس کو دیکھا اور اس کی لڑکی کے امیرانہ لباس کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ لڑکی بہت قیمتی جواہرات کا زیور پہنے ہوئے ہے اور اس کی صورت بھی اچھی ہے اور اس کی عمر بھی شادی کے قابل ہے۔ تو میں نے قیاس کیا اس کو کسی سے محبت ہے اور وہ محبت کرنے والا انگریز ہے اور سود اگر ہے کیونکہ لڑکی کا لباس اور زیورات انگریزی پسند کے تھے اور سوداگر اس واسطے کہا کہ کوئی نوکری پیشہ انگریز اتنی قیمتی چیزیں اپنی محبوبہ کو نہیں دے سکتا تھا اور نئی روشنی کی عشق بازی میں تین چار چیزیں عام طور سے ہوا کرتی ہیں، کسی ناچ میں مرد کو کسی دوسری عورت سے مخاطب دیکھنا یا کسی سینما میں دیکھنا یا عشقیہ خط دیکھنا۔ ان میں سے ایک بات میں نے کہہ دی اور وہ اتفاق سے ٹھیک ہو گئی۔

    (یہ ماجرا خواجہ حسن نظامی کی کتاب پروفیسر کیرو کی پیش گوئیاں سے نقل کیا گیا ہے)

  • خواجہ حسن نظامی کی نثر اور اردو کلچر

    خواجہ حسن نظامی کی نثر اور اردو کلچر

    مولانا صلاح الدین احمد کے بارے میں مشہور ہے کہ محمد حسین آزاد کی دربارِ اکبری رات کو عموماً اپنے آس پاس رکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ ’’دن بھر خراب اردو سنتے سنتے طبیعت مکدر ہو جاتی ہے تو سونے سے پہلے ایک دو صفحے اس کتاب سے پڑھ لیتا ہوں۔‘‘ گویا کہ اچھی زبان پڑھنا، دراصل اپنے آپ کو پھر سے پانے اور یکجا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔

    زندگی کی مکروہات میں آدمی صبح شام خود کو ضائع کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنے آپ سے کٹتے کٹتے ایک روز صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنے آپ کو بچائے رکھنے یا اپنی پہچان اپنے پاس رکھنے کی کوئی نہ کوئی صورت تو ہونی ہی چاہئے۔

    سو، اچھی نثر و نظم بھی اس مشکل سے نکلنے کا ایک وسیلہ ہوتی ہے۔ نثر و نظم کا دل کو لگنے والا اسلوب اپنے آپ میں ایک مکمل تجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ ذہن کی اوپری سیرت کے ساتھ ساتھ شخصیت کی گہرائیوں تک پہنچنے کا راستہ بھی بنا لیتا ہے۔ ہمارے شعور کے علاوہ ہماری بصیرتوں پر، ہمارے وجدان اور ہمارے وجود کو اساس مہیا کرنے والی قدروں پربھی اثر انداز ہوتا ہے۔ نثر کے بارے میں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا عمل معنی کی منتقلی یا خیال کی ادائیگی کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اچھی نثر، شاعری کی طرح محض پڑھی نہیں جاتی۔دیکھی، چکھی، سنی، سونگھی اور چھوئی بھی جا سکتی ہے۔ لفظ آنکھوں کے راستے ہمارے دل میں اترتے جاتے ہیں اور بتدریج ہمارے پورے وجود کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔

    خواجہ حسن نظامی کی نثر ایک نہایت منفرد، رنگارنگ اور دلچسپ شخصیت کا اظہار ہے۔ مگر اپنے آپ میں یہ نثر ایک ہمہ گیر تہذیبی تجربہ بھی ہے۔ ان کی کسی بھی تحریر کو پڑھتے ہوئے اس تاثر سے ہم خود کو الگ نہیں رکھ سکتے کہ ہمارا تعارف درحقیقت صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہا۔ ایک بھرپور اور توانا تہذیب بھی ہمارے تجربے میں آئی ہے۔ خواجہ صاحب کی نثر ہمیں ایک ساتھ کئی جہانوں کی سیر کراتی ہے۔ انسانی واردات اور احساسات کے بہت سے دروازے ہم پر اس نثر کی مدد سے کھلتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے لکھا تھا، ’’زبان ایک جادوگر ہے جو کہ طلسمات کے کارخانے الفاظ کے منتروں سے تیار کرتا ہے اور جو اپنے مقاصد چاہتا ہے، ان سے حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ایک چالاک عیار ہے جو ہوا پر گرہ لگاتا ہے اور دلوں کے قفل کھولتا اور بند کرتا ہے۔ یا مصور ہے کہ ہوا میں گلزار کھلاتا ہے اور اسے پھول، گل، طوطی اور بلبل سے سجا کر تیار کر دیتا ہے۔ (نیرنگِ خیال، حصہ اوّل)

    خواجہ صاحب کی نثر کا امتیاز یہ ہے کہ بہ ظاہر مانوس ہوتے ہوئے وہ اتنی ہی مرموز بھی ہوتی ہے۔ اپنی سادگی کے باوجود پڑھنے والے کی حیرتوں کو جگائے بھی رکھتی ہے۔ وہ ہمیں بادی النظر میں جتنے بے تکلف دکھائی دیتے ہیں، ان کی شخصیت اپنی نثر میں اسی قدر اسرار آمیز بھی ہوتی ہے۔ یہ شخصیت زمین اور مظاہر کی دنیا سے اپنا رشتہ کبھی ٹوٹنے نہیں دیتی، تاہم اسی کے واسطے سے ہم نادیدہ دنیاؤں کے اسرار تک بھی پہنچتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی شخصیت میں ایک طرف تو دور سے بھی دکھائی دینے والی، غیر معمولی عنصری سادگی کے اوصاف ملتے ہیں، دوسری طرف اس کی مانوس اور موہنی شخصیت کی ایک مخصوص مابعدالطبیعات بھی ہے جس کا سلسلہ ان کے روزنامچوں، چہروں، سفرناموں، انشائیوں سے لے کر نظامی بنسری تک پھیلا ہوا ہے۔

    جس شخص نے پچھہتر برس کی زندگی میں تجربے کی دیدہ اور نادیدہ دنیاؤں سے متعلق چھوٹی بڑی کوئی دو سو کتابیں لکھی ہوں، اس کے حواس کی دسترس کا اندازہ ہم آسانی سے نہیں کر سکتے۔ یہ ایک لمبی مہم اور مسافت تھی جس کا سلسلہ مکاں سے لامکاں تک اور جسم و جاں سے روح کی وسعت بے کراں تک پھیلا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب کی شخصیت ہمیں بار بار اپنی عام انسانی سطح سے اوپر اٹھنے اور ہستی کے ازلی اور ابدی اسرار میں حقیقت کی تلاش کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ شخصیت جانے اور ان جانے رنگوں کا ایک عجیب و غریب مرقع تھی۔

    خواجہ صاحب کی نثر کا دوسرا واسطہ، جس سے ان کی پہچان ہوتی ہے ان کی زبان اور اسلوب کا ثقافتی پہلو ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو خواجہ صاحب کی نثر، تن تنہا ایک فرد کے علاوہ ایک پورے عہد کا، اس عہد سے منسلک نظام اقدار کا، قدروں کی تہہ میں چھپے ہوئے ایک اجتماعی طرز احساس کا آئینہ بھی بن جاتی ہے۔ دراصل اسی سطح پر خواجہ صاحب کی نثر وجود کی چھوٹی بڑی کائناتوں Micrososm اور دونوں کا احاطہ ایک ساتھ کرتی ہے۔ حقیقت کی وہ شکل اور سطح جو ہم سب کے سامنے ہے اور حقیقت کی وہ شکل جن کی تھرتھری صرف زیرسطح محسوس کی جا سکتی ہے، خواجہ صاحب کی نثر کا جال ان دونوں پر پھیلا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب کی نثر زمین سے لگ کر چلتی ہے، ہر شئے کا نام پوچھتی ہے، ہر مظہر سے اپنا تعارف کراتی ہے، مگر اپنے آپ کو چھپائے بھی رکھتی ہے۔ انہیں خیالوں (Concepts) سے اور چیزوں (Things) سے یکساں دلچسپی ہے۔ میرا خیال ہے کہ خواجہ صاحب کے طرز احساس اور طرز اظہار کا یہی ایک وصف اتنا بڑا اور بسیط ہے جو ان کے ہم عصروں میں انہیں ممتاز کرنے کے لئے کافی ہے۔

    یاد کیجیے ہمارے میر صاحب ایک شخصیت سے، ہم سفری کے باوجود صرف اس بنا پر بات کرنے کے روادار نہ ہوئے کہ انہیں اپنی زبان کے بگڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ گویا کہ زبان محض بے جان لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتی، ایک جاگتی ہوئی، سوچتی اور سانس لیتی ہوئی تہذیب کی ترجمان، ایک زندہ روایت کا سلسلہ بھی ہوتی ہے۔ محمد حسین آزاد نے ایک جگہ لکھا تھا (نیرنگ خیال، حصہ اوّل) کہ کسی قوم یا قبیلے کی طرح الفاظ بھی ترقی و تنزل کرتے ہیں، سفر کرتے ہیں، اسی میں طبیعت اور رنگ بدلتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔ جس طرح قوموں کی تاریخیں اپنے حالات و مقالات سے کمہلائے ہوئے دلوں کو شگفتہ کرتی ہیں، لفظوں کی تاریخیں اپنے لطف و خوبی کے ساتھ اس سے زیادہ دماغوں کو شاداب کرتی ہیں۔

    زبانوں کا عالم اپنے الفاظ کے ساتھ آباد ہے۔ زبان کا ایسا گھنا پن ہمیں خواجہ صاحب کے ہم عصر لکھنے والوں میں اور کسی کے یہاں نہیں دکھائی دیتا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھرا پرا، گنجان، بھانت بھانت کے تجربوں سے چھلکتا ہوا منظر یہ محض تصورات یا محض موجودات اور مظاہر کے بیان سے مرتب نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے وہ جدلیاتی توازن اور تصور و تجربے کے مابین وہ تناسب ضروری ہے جو لکھنے والے کی بساط کو سمٹنے نہ دے اور اسے ایک ساتھ طبیعی اور مابعد الطبیعاتی واردات پر پھیلا سکتے ہیں۔ خواجہ صاحب کے موضوعات میں جس رنگارنگی اور تنوع اور بوقلمونی کا تجربہ ہوتا ہے، اس تجربے تک ہم ان کی لفظیات اور ان کے اسالیب کی وساطت سے بھی پہنچتے ہیں۔ بہت سے لکھنے والے اپنے طریق اظہار کی یکسانیت سے پہچانے جاتے ہیں اور اکثر لکھنے والوں کے یہاں ایک طرح کی تھکا دینے والے ایک رنگی ان کے صاحب اسلوب ہونے کا سبب ٹھہرتی ہے۔

    خواجہ صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بہت لکھا اور اپنے موضوعات، خیالوں اور تجربوں کی ضرورت کے مطابق بہت سے لہجے اختیار کئے اور ایک بہت وسیع ذخیرہ الفاظ کو اپنے مصرف میں لائے۔ شیکسپئر کے بارے میں عام اندازہ یہ ہے کہ اس نے تقریبا ًچھبیس ہزار لفظوں کا استعمال کیا، دوسری طرح یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ انسانی تجربوں اور مقدرات کو سمجھنے کے چھبیس ہزار ذرائع پر اس کے تخیل اکا اقتدار پھیلا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب کی تحریروں میں الفاظ کا جو ذخیرہ بکھرا ہوا ہے، اسے شمار کرنا آسان نہیں، تاہم قیاس کہتا ہے کہ ہمارے انشا پردازوں میں اس سطح پر ان کا سامنا بس اکّا دکّا لکھنے والے ہی کر سکیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ خواجہ صاحب کی زبان دانی اور لفظیات پر عبور سے زیادہ ان کے شعور کی وسعت اور ان کے تخیل کی جولانی ہے، جس کے لئے انسانی واردات، جذبے اور احساس کی کوئی بھی حد آخری حد نہیں ہوتی۔

    محمد حسن عسکری نے اشرف صبوحی کی نثر کے جائزے میں ایک معنی خیز بات یہ کہی تھی کہ اس سے صرف ایک فرد کی محدود انفرادیت کا اظہار نہیں ہوتا۔ اسے پڑھتے وقت پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ ’’وہ ایک جماعت کی طرف سے بول رہے ہیں۔ ان کا رشتہ جمہور سے نہیں ٹوٹا ہے۔ ان کی اور عوام کی حسیاتی زندگی میں بڑی یگانگت ہے اور وہ اپنے جمہور کے ساتھ مل کر اپنی جماعت کی زندگی کے لطف لے سکتے ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں عسکری صاحب کا یہ تاثر بھی درست ہے کہ دلّی کی تہذیب کا سب سے بڑا امتیاز اور اس کی عظمت کا سب سے بڑا سبب جمہور کے دلوں سے اس کی قربت تھی۔ لیکن انسانی احساسات اور تجربوں کی تہ درتہ سطح پر گرفت کے لئے صرف سامنے کی زندگی سے شناسائی کافی نہیں۔ صرف مشاہدہ کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف مطالعہ اور جذبہ بھی کافی نہیں ہے۔ تخیل اور تفکر کی دنیا روزمرہ تجربات کی دنیا سے آگے بھی جاتی ہے۔ اور یہ دونوں دنیائیں مل کر کسی تہذیب کا تانا بانا تیار کرتی ہیں۔ چنانچہ زمانوں کو عبور کرنے والی نثر تہذیب کے فطری بہاؤ کو اپنے اندر سموئے بغیر وجود میں نہیں آتی۔

    ہمارے زمانے کے ادب کو جو روگ لگے ہیں ان میں سب سے مہلک روگ اتھاہ اور بیکراں تہذیبی زندگی سے لکھنے والوں کی لاتعلقی ہے۔ لوگ اپنے خول میں سمٹتے جاتے ہیں اور خود کو یہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ اس طرح وجودی تجربے کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اردو کی مرکزی روایت کا شناس نامہ ہی اجتماعی زندگی کے مظاہر سے اس کی وابستگی کا تیار کردہ ہے۔ اس کی بنیادی رو، تہذیب کے کئی ادوار اور ایک رنگارنگ، مشترکہ قدروں کی امین قوم کے روحانی آشوب سے جڑی ہوئی ہے۔ روایت یہ ہے کہ پچیس چھبیس برس کی عمر میں خواجہ صاحب جوگیانا زیب تن کر کے ایک لمبی اور پُر پیچ روحانی یاترا پر بھی نکلے تھے اور اس سفر کی ایک روداد بھی مرتب کی تھی۔ وہ روداد تو شاید سامنے نہیں آئی لیکن ان کا یہ تجربہ مصدقہ ہے۔

    یہاں اس کی طرف اشارہ کا مقصد صرف اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ خواجہ صاحب کی نثر کو عقبی پردہ مہیا کرنے کے تجربے ایک ساتھ دیکھی، ان دیکھی کئی دنیاؤں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی لئے ان کے اسلوب میں بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ان کے اسالیب میں ملال آمیز تجربوں کا بیان بھی اس وقار اور طمانیت کے ساتھ ہوا ہے جو شخصیت میں گہرائی کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ خواجہ صاحب صرف دنیا کے نہیں آپ اپنے تماشائی بھی تھے، اسی لئے وہ خود کو بھی اسی عالم آب و گل کے ایک حوالے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس پر حقارت یا دوری یا لاتعلقی کی نظر نہیں ڈالتے۔

    میر امن، غالب، محمد حسین آزاد۔۔۔ ان سب کی نثر کا جادو اسی واقعے میں مضمر ہے۔ ہمارے زمانے نے گئے زمانوں کے کئی سبق بھلا دیے۔ مقام شکر ہے کہ خواجہ صاحب کی نثر نے ایک یہ سبق یاد رکھا کیونکہ اردو کی مرکزی روایت کے مستقبل اور اس کی بقا کا دارومدار بھی اسی واقعے پر ہے۔ یہی واقعہ اردو کلچر کی زندگی کا ضامن بھی ہے۔ اسے بھلانے کا مطلب ہے اپنے آپ کو بھول جانا۔ پڑھنے میں تو نیاز فتح پوری اور ابوالکلام کی نثر بھی اچھی لگتی ہے مگر ان کے واسطے سے ہم اپنے آپ کو اس طرح پہچان تو نہیں سکتے۔

    (اردو کے ممتاز محقق اور نقّاد شمیم حنفی کی ایک تحریر)

  • انتساب

    انتساب

    ادب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی نوعیت غیر قانونی نہ سہی، مشتبہ ضرور ہے۔ انھیں میں سے ایک انتساب ہے۔

    انتساب نہ تو کوئی صنفِ ادب ہے نہ ادب کی کوئی شاخ (شاخسانہ ضرور ہے۔) اردو میں انتساب کو آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ دورِ مغلیہ کے بعد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ بہت زیادہ قدیم ہوتی تو اب تک متروک ہو جاتی۔ متروک نہ ہوتی تو مکروہات میں ضرور شمار ہونے لگتی۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے اچھے دن دیکھے تھے۔ ان دنوں انتساب نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ خوشی خوشی کتابیں پڑھا کرتے تھے (اس زمانے میں کتابیں تھیں بھی کم۔) انتساب کی تحریک، پڑھے لکھے لوگوں کی اجازت بلکہ ان کے علم و اطلاع کے بغیر اچانک شروع ہوئی اور جب یہ شروع ہوئی اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ آگے چل کر یہ اتنی خطرناک صورت اختیار کرے گی کہ صرف انتساب کی خاطر کتابیں لکھی جانے لگیں گی اور ان کے شائع کیے جانے کے لیے متعلقہ لوگ جان کی بازی لگا دیں گے۔

    انتساب کو ادب میں اب وہی مقام حاصل ہے جو سترھویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دربار میں بیربل اور راجا ٹوڈر مل کو حاصل تھا۔ بیربل اور ٹوڈر مل کے فرائضِ منصبی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے اور مزاجاً بھی ان دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اسی لیے ان دونوں کا نام ایک ساتھ لیا گیا۔ انتساب بھی اپنے صفات کے اعتبار سے اتنے ہی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔

    ادب کے نصاب میں انتساب اگرچہ اختیاری مضمون ہے لیکن بے انتساب کتاب اس موسیقار کی طرح ہوتی ہے جو سُر میں نہ ہو۔ آج بھی اکثر کتابیں یوں ہی چھپ جاتی ہیں۔ یوں ہی سے مراد ایسی جن میں صفحۂ انتساب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ صفحۂ انتساب موجود نہ ہو تو قاری کے ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ مصنف میں قوتِ فیصلہ کا فقدان ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اپنی تصنیفِ لطیف کو کسی کے نام معنون نہ کر کے مصنف نے کسی کا حق غصب کیا ہے لیکن اسے تساہل تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ ایک ادیب میں قوتِ فیصلہ ہونی ہی چاہئے۔ بہت سے ادیب تو اپنے انتسابوں کی وجہ سے پہچانے جاتے اور ترقی کرتے ہیں۔ (انتساب کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلتا ہی ہے) مشکل یہ بھی ہو گئی ہے کہ اگرکتاب میں صفحۂ انتساب نہ ہو تو اسے بداخلاقی بلکہ بدنیتی سمجھا جانے لگا ہے۔ (مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی)

    انتساب ہر کسی کے استعمال کی چیز نہیں ہے۔ اس کے لیے ذرا ترقی کرنی پڑتی ہے۔ مضمون، افسانے، غزل یا رباعی کا انتساب نہیں ہوا کرتا۔ تہنیتی اور تعزیتی قطعات جن کے آخری مصرعے سے کسی واقعے یا سانحے کی تاریخ نکلتی ہو (صحیح یا غلط)، انتساب کی تعریف میں نہیں آتے۔ خود قصیدہ بھی جو کافی طویل اور سوائے ممدوح کے دوسروں کے لیے صبرآزما ہوتا ہے۔

    انتساب تو ایک نازک چیز ہوتی ہے اور اہم بھی۔ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنی پڑتی ہے۔ اس میں ضخامت کی کوئی قید نہیں۔ اگر وہ کتاب نہیں صرف کتابچہ ہے تب بھی اس کا انتساب جائز ہے۔ صندوق اور صندوقچے میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ بلکہ صندوقچہ زیادہ قیمتی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    انتساب اور نذرمیں بڑا فرق ہے۔ نذر بظاہر انتساب سے ملتی جلتی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ انتساب کی طرف پہلا قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ شاعر اپنی ایک مختصر سی غزل جس میں پورے 7 شعر بھی نہیں ہوتے۔ کسی پرچے میں چھپواتے وقت اسے اپنے سے ایک سینئر شاعر کے نام نذر کردیتے ہیں، یہ نجی طور پر تو جائز ہے، لیکن اس کی ادبی حیثیت صفر سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ شاعر تو مشاعروں میں اپنا کلام سنانے کے دوران بھی اپنے اشعار(ظاہر ہے انھیں کے ہوتے ہوں گے) مختلف سامعین (جنھیں وہ اپنی دانست میں معززین سمجھتے ہیں) کی نذر کرتے رہتے ہیں اور کسی دوسرے مشاعرے میں وہی نذر شدہ اشعار بانیانِ مشاعرہ میں سے کسی اور کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اسے انتساب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اسے نذر کہنا بھی خوش اخلاقی ہے۔ یہ صرف ایک عادت ہے جو مصالحِ انتظامی کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اور یہ رفتہ رفتہ اتنی جڑ پکڑ لیتی ہے کہ شاعر سے صرف اسی وقت چھوٹتی ہے جب اس کا مشاعروں میں آنا جانا موقوف ہوجاتا ہے۔

    اس کے برخلاف انتساب یوں جگہ جگہ استعمال کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مستقل اور دائم حیثیت ہے، یعنی اگر اتفاق سے (جسے حسنِ اتفاق نہیں کہا جاسکتا) کسی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے چھپنے کی نوبت آئے تو اس ایڈیشن میں بھی، سابقہ انتساب حسبِ حال برقرار رہے گا۔ چاہے ممدوح کی وفات ہی کیوں نہ واقع ہو چکی ہو۔ اپنا بیان مع اندازِ بیان اور اپنا کلام مع زورِ کلام کسی حد تک واپس لیا جاسکتا ہے لیکن ایک مرتبہ کے کیے ہوئے انتساب پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہوتا ہے۔

    انتساب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جتنی تصنیفات اتنی ہی قسمیں، لیکن سہولت کی خاطر انھیں چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تقسیم کا عمل ان دنوں بہت ضروری ہے اور اسے مجلسِ اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے۔

    انتساب کی موٹی موٹی قسمیں یہ ہیں۔

    حروف تہجی کے نام
    اس انتساب میں قارئین کو پتا نہیں چلتا کہ اس تصنیف کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس کا فیض مصنف اور ممدوح کی حد تک محدود رہتا ہے۔ ان دونوں کے قریبی دوستوں اور چند مخصوص سہیلیوں کو البتہ اس بات کی اطلاع ہوتی ہے کہ اس حروف تہجی کے پردہ نگاری کے پیچھے کون چھپا ہوا ہے۔ یہ بات آہستہ آہستہ کوٹھوں چڑھتی ہے۔ (اب تو لفٹ کی بھی سہولت موجود ہے۔)

    ایسی کوئی کتاب جس کا انتساب حرف الف کے نام کیا گیا ہو ہماری نظر سے نہیں گزری، لیکن کہیں نہ کہیں کوئی ضرور۔ ’ب‘ کا انتساب ہم نے ضرور دیکھا ہے۔ غالباً یہ کوئی مجموعۂ کلام تھا۔ اسی طرح سب تو نہیں لیکن کئی حروف تہجی انتساب میں کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سلام بن رزاق کی کتاب ’ع‘ کے نام ہے۔ اب یہ ’ع‘ ظاہر ہے عبدالسلام یا عبیداللہ نہیں ہوسکتے۔ ان دونوں میں سے کوئی ہوتے تو علی الاعلان سامنے آتے۔ حروف تہجی کے انتساب ہمیں بہرحال پسند ہیں۔ ہندستان میں تھوڑا بہت پردہ ابھی باقی ہے۔

    بے نام کے انتساب
    اس قسم کے انتساب بھی مقبول ہیں اور ان میں مصنف ذرا سی محنت کرے تو بڑی نزاکتیں پیدا کر سکتا ہے۔ اکثر مصنفین اس میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ بشر نواز نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’رائیگاں‘ شائع کیا تو اس کا انتساب اس طرح کیا، ’’نام پر اس حسین کے، جس کا نام نیلگوں آسمان کے صفحے پر روشنی کے قلم نے لکھا ہے۔ ’’

    یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتساب رائیگاں نہیں کیا ہوگا۔

    بے نام کے انتساب کا اشارہ کئی لوگوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جن کی شناخت ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جب اپنی کتاب ’نئے افسانہ نگاروں کے نام‘ معنون کی تو کئی افسانہ نگار جو کافی پرانے تھے اس انتساب کی خاطر نئے بن گئے (حالانکہ ادب میں دل بدلی ہوتی نہیں ہے) ایک نوجوان نے تو ہر کسی سے پوچھنا شروع کردیا کہ کیا آپ نے فاروقی صاحب کی وہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں‘ پڑھی ہے جس کا انتساب میرے نام ہے۔ ایک اور نوجوان چار قدم اور آگے نکل گئے اور فرمایا کہ اب جب کہ میرے نام یہ کتاب معنون ہی کردی گئی ہے تو میں بھی افسانے لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کسی دن لکھ ڈالوں گا کیوں کہ پلاٹ کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔

    اسی طرح بلراج کو مل نے اپنی ’نژاد سنگ‘ بچھڑے ہوئے دوستوں کے نام معنون کی ہے اور آج کل بچھڑے ہوئے دوستوں کی تعداد ’جاریہ‘ دوستوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ شناخت دونوں کی مشکل ہے۔ یوں بھی اب دوست ایک ہی جگہ رہتے ہیں لیکن بچھڑے رہتے ہیں۔ یہ خاموش ادبی معرکہ ہوتا ہے۔

    غلام ربانی تاباں نے ’ذوقِ سفر‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے، ’’میرے وہ دوست جنھیں میری شاعری پسند ہے اب اس بوجھ کو سنبھالیں۔ انھیں کے نام یہ کتاب معنون کرتا ہوں۔‘‘ اس انتساب میں بھی شناخت مشکل ہے۔ کوئی آگے بڑھ کر نہیں کہتا کہ یہ کتاب میرے نام ہے۔

    انگریزی کی ایک کتاب کا انتساب البتہ کچھ اس طرح کا تھا، ’’اپنی بیوی کے نام جو اس کتاب کی اشاعت میں اگر میرا ہاتھ نہ بٹاتیں تو یہ کتاب آج سے 5 سال پہلے چھپ جاتی۔‘‘

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کے مضمون سے شگفتہ پارے)

  • جب ایک پاکستانی مصوّر نے بھوک مٹانے کے لیے تصویری زبان کا سہارا لیا

    جب ایک پاکستانی مصوّر نے بھوک مٹانے کے لیے تصویری زبان کا سہارا لیا

    انسان نے جب اپنی عقل اور سوجھ بوجھ سے کام لے کر زمین پر اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنا چاہا تو ابتداً لکیروں اور مختلف نشانیوں کا سہارا لیا اور پھر تصویریں بنانے لگا پھر تحریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج اگر ہم بیرونِ ملک جائیں یا ایسے مقام پر ہوں جہاں کوئی ہماری مادری زبان نہ سمجھتا ہو تو اپنی بات اسے سمجھانا کتنا مشکل ہوگا، اس کا اندازہ آپ کر ہی سکتے ہیں۔

    اردو ادب اور مشاہیر سے متعلق تحریریں پڑھیں

    عطاء اللہ پالوی اردو کے ایک ایسے نثر نگار گزرے ہیں جنھوں نے علمی و ادبی موضوعات پر کئی مضامین اور کتب یادگار چھوڑی ہیں جو مصنف کے فلسفیانہ اور تنقیدی شعور کے ساتھ مذہبی رجحان، قرآن فہمی اور دینی تعلیمات میں غور و فکر کا نمونہ ہیں۔ وہ ایک صاحبِ مطالعہ ادیب تھے اور تاریخ و مذہب، سوانح و ادبی تذکرہ نویسی میں پہچان بنائی۔ وہ 1913 میں پیدا ہوئے تھے اور 1998 میں انتقال کیا۔ انھوں نے اپنی کتاب مشاطہ گانِ ادب میں زبان سے ناواقفیت کا ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے جو پاکستان کے ممتاز مصور زین العابدین کے اسپین میں قیام سے متعلق ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    نشانوں اور لکیروں نے ہی ترقی کر کے تحریر کی طرف قدم بڑھایا ۔ انسان کی پہلی تحریر بڑی سادہ اور بچوں جیسی تھی۔ اُس نے اپنا مطلب بیان کرنے کے لئے تصویریں بنانی شروع کیں۔ اس کو تصویری خط پکٹوریل (PICTORIAL) یا تصویری زبان ہیروگلی فکس (HIEROGLYPHICS) کہتے ہیں۔ تصویر کشی یا مرقع نویسی، دنیا میں انسان کی سب سے پہلی تحریر یا تصویری زبان ہے۔ اور اس تصویری تحریر یا تصویر کی زبان استعمال کرنے کی منزل سے، اگر چہ انسان، عرصہ دراز گزرا کہ ترقی کر کے بہت آگے بڑھ گیا ہے، مگر یہ تصویری زبان، اب بھی رائج اور کارفرما ہے۔

    مسٹر زین العابدین، پاکستان کے دوسرے نامور مصور ہیں۔ انھوں نے اپنے سفرِ اسپین کی روداد، رسالہ ماہِ نو، کراچی کے اگست نمبر1955ء میں شائع کرایا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ مجھے ایک اہم ضرورت سے اسپین جانا پڑا۔ ہوٹل میں اوپر سامان رکھنے کے بعد، نیچے کھانے کے لئے گئے۔ ہوٹل کے ویٹر صرف فرانسیسی اور اسپینی زبانیں بولتے تھے اور زین العابدین صاحب ان دونوں زبانوں سے ناواقف تھے۔ اب مصیبت ہو گئی۔ ویٹر ان کے پاس آتے تھے اور اپنی زبان میں سوال کر کے آرڈر لینا چاہتے تھے۔ جواب نہ ملنے پر واپس چلے جاتے تھے۔ زین العابدین صاحب نے لکھا ہے کہ بغل کے ٹیبل پر ایک صاحب مچھلی کھا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ ویٹر کو اس کی شکل دکھا کر مچھلی ہی منگا کے کھا لوں۔

    مگر جب تک ویٹر آوے آوے، وہ صاحب مچھلی کا آخری لقمہ بھی منہ میں ڈال چکے تھے۔ ناچار خاموش رہے اور سوچتے رہے کہ اس صورت حال میں تو پاکستان واپس چلا جانا ہو گا۔ کیونکہ یہ دقت ہر جگہ ہو گی اور بالخصوص جب کھانا ہی نہیں مل سکے گا تو یہاں رہا کیسے جا سکتا ہے؟

    ایک ذہین معمر ویٹر جب ان کے پاس آرڈر لینے کے لئے آیا اور اس کو سوال کا جواب اسپینی اور فرانسیسی دونوں زبانوں میں نہ ملا تو وہ سمجھ گیا کہ مسافر فرانسیسی اور اسپینی زبانیں نہیں جانتا اور اُس کو کھانا ملنا بھی چاہیے، لہٰذا اس نے منیجر کے پاس جا کر اس کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ تجربہ کار منیجر نے ویٹر سے کہا کہ اس مسافر کو باورچی خانہ میں لے جاؤ اور سب کھانے دکھاؤ اور جس جس چیز کو وہ پسند کرے، وہ اس کو دی جائے۔ چنانچہ وہ زین العابدین صاحب کو باورچی خانہ میں لے گیا۔ وہاں سب عورتیں ہی عورتیں تھیں۔ ویٹر کے صورت حال سمجھانے پر وہ سب کھل کھلا کے ہنس پڑیں، جس سے زین العابدین صاحب کو گُونہ خفت محسوس ہوئی مگر اسے برداشت کرنا ہی پڑا۔

    آخر کھانے سب دکھائے گئے اور جنہیں انھوں نے پسند کیا وہ ان کے سامنے پیش کیے گئے۔ اُس وقت تو کھانے کا مسئلہ یوں حل ہو گیا، مگر وہ بیچارے پریشان تھے کہ اس طرح کب تک اور کہاں کہاں کام چلے گا؟ بالآخر انہیں یکایک خیال آیا کہ تصویری زبان میں کیوں نہ بات کی جائے؟

    چنانچہ اس کے بعد جب وہ کھانے کی میز پر جاتے تو پنسل اور کاغذ ساتھ لے جاتے اور جو جو چیزیں چاہتے تھے، اس کی تصویریں بنا دیتے تھے۔ مثلاً بوائلڈ انڈہ طلب کرنا ہوا تو مرغی کی تصویر بنائی۔ اس کے پاس انڈے کی تصویر بنائی۔ اس کے سامنے چولھا کی تصویر بنائی اور اس پر پانی کو اُبلتے دکھا کے، انڈے کو اس میں کھولتے دکھاتے تھے۔ ویٹر مسکرا کر ان کے لئے ابالے ہوئے انڈے لے آتا تھا، یا گوشت منگوانا ہوا تو خصّی کی ران اور چولھا کی تصویر بنائی اور تیر کے ذریعہ اس کو چولھے کی طرف لے گئے اور دیگچی میں پکتے دکھایا۔ اس تصویری زبان کو دیکھنے اور مزہ لینے کے لئے ہر کھانے کے وقت متعدد ویٹر ان کے پاس اکٹھے ہو جاتے تھے اور دو ایک اور گاہک بھی وہاں پر تماشا دیکھنے آجاتے، اور ان میں سے کوئی نہ کوئی انگریزی زبان جاننے والا اُن کو مل جاتا تھا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے جو کام تھا اور جتنے دن کا کام تھا، میں نے ہر جگہ اسی ’تصویری زبان‘ کو استعمال کیا اور اس موقع سے کوئی نہ کوئی انگریزی داں مجھے مل جاتا تھا۔ یہاں تک کہ میں اپنا کام پورا کر کے کراچی واپس آیا۔ اس طور پر ساری ترقیوں کے باوجود اب بھی تصویری زبان سے انسان کام لے رہا ہے اور یہ زبان اب بھی زندہ ہے اور شاید ہمیشہ زندہ رہے گی۔