Tag: اردو ادب میں طنزومزاح

  • پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔

    ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے بھاؤ اور دوسرے مسائل سے کہاں فرصت ہو گی کہ شعر کہیں۔ غالب نور اللہ خاں کا نام بھی ڈائریکٹری میں ہے لیکن ہمارے مؤکل کا نام تو اسد اللہ خاں تھا جیسا کہ خود فرمایا ہے۔

    اسد اللہ خاں تمام ہوا
    اے دریغا وہ رند شاہد باز

    بے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔

    ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کر کے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روزنامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو یک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دل چسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظر بندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

    مرزا ظفر الحسن ہمارے دوست نے مرزا رسوا کو رسوائی کے مقدمے سے بری کرانے کے بعد اب مرزا غالب کی یاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مرزا کو مرزا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک ہوٹل میں ادارۂ یادگارِ غالب کا جلسہ کیا تو ہم بھی کچے دھاگے میں بندھے پہنچ گئے۔ ظفر الحسن صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد صہبا لکھنوی نے تھوڑا سا تندیٔ صہبا سے موضوع کے آبگینے کو پگھلایا۔
    اس کے بعد لوگوں نے مرزا جمیل الدین عالی سے اصرار کیا کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔ وہ نہ نہ کرتے رہے کہ ہے ادب شرط منہ نہ کھلواؤ لیکن پھر تاب سخن نہ کر سکے اور منہ سے گھنگنیاں نکال کر گویا ہوئے۔ غالب ہر چند کہ اس بندے کے عزیزوں میں تھا لیکن اچھا شاعر تھا۔ لوگ تو اسے اردو کا سب سے اونچا شاعر کہتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس کے نام پر منظوم جلسہ یعنی بیت بازی کا مقابلہ کرا رہے ہیں اور اسے کسوٹی پر بھی پرکھ رہے ہیں لیکن اس عظیم شاعر کی شایانِ شان دھوم دھامی صد سالہ برسی کے لیے ہندوستان میں لاکھوں روپے کے صرف کا اہتمام دیکھتے ہوئے ہم بھی ایک بڑے آدمی کے پاس پہنچے کہ خزانے کے سانپ ہیں اور ان سے کہا کہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ کچھ غالب نام آور کے لئے بھی ہونا چاہیے ورنہ، طعنہ دیں گے بت کہ غالب کا خدا کوئی نہیں ہے۔

    ان صاحب نے کہا، ’’آپ غالب کا ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لائے؟‘‘ یہ بولے، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’پھر کس بات کے روپے مانگتے ہو، وہ تو کہیں آگرے، دلّی میں پیدا ہوا، وہیں مر کھپ گیا۔ پاکستان میں شاعروں کا کال ہے۔‘‘ عالی صاحب نے کہا، ’’اچھا پھر کسی پاکستانی شاعر کا نام ہی بتا دیجیے کہ غالب کا سا ہو۔‘‘ بولے، ’’میں زبانی تھوڑا ہی یاد رکھتا ہوں۔ شاعروں کے نام، اچھا اب لمبے ہو جائیے، مجھے بجٹ بنانا ہے۔‘‘

    خیر ہندوستان کے شاعر تو ہندوستانیوں ہی کو مبارک ہوں۔ خواہ وہ میر ہوں یا انیس ہوں یا امیر خسرو ساکن پٹیالی واقع یوپی لیکن غالب کے متعلق ایک اطلاع حال میں ہمیں ملی ہے جس کی روشنی میں ان سے تھوڑی رعایت برتی جا سکتی ہے۔ ہفت روزہ قندیل لاہور کے تماشائی نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک اعلان سنا کہ اب اردن کے مشہور شاعر غالب کا کلام سنیے۔ یہ بھی تھا کہ ’’اردن کو مرزا غالب پر ہمیشہ ناز رہے گا۔‘‘ تو گویا یہ ہمارے دوست ملک اردن کے رہنے والے تھے۔ تبھی ہم کہیں کہ ان کا ابتدائی کلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا اور عربی فارسی سے اتنا بھرپور کیوں ہے اور کسی رعایت سے نہیں تو اقربا پروری کے تحت ہی ہمیں یوم غالب کے لیے روپے کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اردن سے ہماری حال ہی میں رشتے داری بھی ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ صد سالہ برسی فروری میں ہے۔
    فردوسی کی طرح نہ ہو کہ ادھر اس کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا اور ادھر خدام ادب اشرفیوں کے توڑوں کا ریڑھا دھکیلتے غزنی کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے۔

    عالی صاحب کا اشارہ تو خدا جانے کس کی طرف تھا۔ کسی سیٹھ کی طرف یا کسی اہل کار کی طرف۔ لیکن مرزا ظفر الحسن صاحب نے دوسرے روز بیان چھپوا دیا کہ ہم نے حکومت سے کچھ نہیں مانگا، نہ اس کی شکایت کرتے ہیں، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ یہ شکوہ شکایت ادارہ یادگارِ غالب کے حساب میں نہیں، مرزا جمیل الدین عالی کے حساب میں لکھا جائے، ہم تو پنسیلیں بیچ کر یوم غالب منائیں گے۔‘‘

    ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازار بند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔

    منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
    عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر و ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    مصروفیتیں مغربی، عادتیں بدستور مشرقی!

    عبد المجید سالک اردو زبان کے بڑے ادیب، شاعر، جیّد صحافی اور کالم نویس تھے جو اپنے دور کے مقبول اخبار ’زمیندار‘ کے مدیر رہے، تہذیبِ نسواں‌ اور پھول جیسے معتبر رسائل کی ادارت کی۔ سالک صاحب ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان کی نثر طنز و مزاح کے گلشن کا ایسا سدا بہار پھول ہے جس کی خوشبو آج بھی فکرِ انسان کو معطر رکھے ہوئے ہے۔ شوخی ان کا مزاج ہے اور ندرتِ خیال ان کے ذہن کی رفعت کا ثبوت۔

    یہاں ہم عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور اپنے کام سے لگاؤ کی ایک مثال انہی کے اُس کالم سے پیش کررہے ہیں جو روزنامہ "انقلاب” میں "افکار و حوادث” کے نام سے سالک صاحب لکھا کرتے تھے۔ ان کا یہ کالم ہر خاص و عام میں‌ بہت مقبول تھا۔ عبدالمجید سالک اپنے اُن ملاقاتیوں سے بہت بیزار تھے جو ان کا وقت برباد کرتے اور گپیں ہانکنے کے لیے ان کے دفتر آجایا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

    "ہندوستان عجب بدقسمت ملک ہے۔ اس کی مصروفیتیں تو روز بروز مغربی ہوتی چلی جا رہی ہیں لیکن عادتیں بدستور مشرقی ہیں۔ ہندوستانیوں نے اخبار نویسی مغرب سے سیکھی لیکن اخبار نویس کی مصروفیات کا اندازہ لگانے میں ہمیشہ مشرقیت کا ثبوت دیا۔ مدیر "افکار” بارہا لکھ چکا ہے کہ میں بے حد مصروف رہتا ہوں اس لئے ملاقات کرنے والے حضرات میری مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر اپنی عادات میں اصلاح فرمائیں تاکہ مجھے مروّت کے مشرقی اصول کو خیرباد نہ کہنا پڑے لیکن ملاقاتی حضرات بدستور بے تکلفی پر عمل پیرا ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جب مدیر "افکار” ہر شخص سے صاف کہہ دیا کرے گا کہ اب آپ تشریف لے جائیے۔”

    "ان ملاقاتی حضرات میں مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم تو ان زیرک و فہیم حضرات کی ہے جو کسی ضروری کام کے بغیر کبھی تشریف نہیں لاتے اور جب آتے ہیں فی الفور کام کی بات کہہ کر اس کا شافی جواب پا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسے مہربانوں کی تعداد روز افزوں فرمائے۔”

    "دوسری قسم ایسے حضرات کی ہے جو یوں تو کسی ضروری کام ہی کے سلسلے میں تشریف لاتے ہیں لیکن نہایت طویل مزاج پرسی اور ادھر ادھر کی غیر متعلق باتیں کرنے کے بعد حرفِ مطلب زبان پر لاتے ہیں۔ خاکسار فوراً ان کی بات کا جواب دے دیتا ہے، اس امید پر کہ شاید اس جواب کے بعد مخلصی کی صورت نکل آئے لیکن وہ حضرات جواب سننے کے بعد مطمئن ہو کر اور بھی زیادہ پاؤں پھیلا دیتے ہیں اور نہایت فراغت کے ساتھ دنیا جہان کے قصے، ادھر ادھر کی باتیں، واقعات پر تبصرہ اور حالات پر رائے زنی شروع کر دیتے ہیں اور خاکسار دل ہی دل میں اپنے وقت کے خون ہو جانے کا ماتم کرتا رہتا ہے۔”

    "تیسری قسم بے انتہا تکلیف دہ ہے۔ ان حضرات کی تشریف آوری کا کوئی قطعی مقصد نہیں ہوتا۔ محض "نیاز حاصل کرنے” کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ حالانکہ اکثر حالت میں خاکسار کو ان کی خدمت میں اس سے پیشتر پچیس دفعہ نیاز حاصل کرنے کا شرف نصیب ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر "حصول نیاز” کی مدّت مختصر ہو تو خیر اسے بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ حضرات نہایت ڈٹ کر بیٹھتے ہیں اور اس وقت اٹھتے ہیں جب ان کا اٹھنا میرے لئے بالکل مفید نہیں رہتا۔”

    "خاکسار دن کے وقت تحریر کا کام نہیں کرتا کیونکہ تنہائی اور یک سوئی دن کے وقت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ گرمی ہو یا جاڑا، بہار ہو یا خزاں، ہر روز رات کے دو بجے تک کام کرنا پڑتا ہے چونکہ اس وقت کوئی خلل انداز نہیں ہوتا اس لئے کام بہ سہولت ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک چوتھی قسم کے خطرات ہیں جو خاکسار کے وقت پر شب خون مارنے سے بھی باز نہیں آتے۔”

    "ایک صاحب کا ذکر ہے، آپ پچھلے دنوں رات کے بارہ بجے تشریف لے آئے۔ خاکسار نے متعجب ہو کر پوچھا: "حضرت اس وقت کہاں ؟” فرمانے لگے: "سینما دیکھ کر آیا تھا۔ سڑک پر آپ کے لیمپ کی روشنی دیکھی، جی میں کہا، چلو سالک صاحب سے تھوڑی دیر گپیں ہانکیں۔”

    "لاحول ولا قوة الا باللہ۔ گپوں کے لئے کتنا موزوں وقت تلاش کیا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ نہایت مری ہوئی آواز سے کہا: "تشریف لے آئیے۔”

    "آپ آکر بیٹھ گئے کچھ بات شروع کرنے والے ہی تھے کہ خاکسار نے چپ سادھ لی اور لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ خدا جانے کیا کچھ فرماتے رہے، کوئی لفظ خاکسار کی سمجھ میں آیا، کوئی نہ آیا، لیکن ایک مقررہ وقفہ سے "ہوں ہوں” برابر کرتا رہا تاکہ بالکل ہی بے مروّتی اور بدتمیزی ظاہر نہ ہو۔ اگر خاکسار کی جگہ کوئی اور شخص اور ان حضرت کی جگہ خاکسار ہوتا تو دوسرے شخص کو اس قدر مصروف دیکھ کر اور اس کی بے معنی ہوں "ہوں ہوں” سن کر پانچ منٹ بھی بیٹھنا گوارا نہ کرتا لیکن حضرتِ ممدوح کامل ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے اور جب تشریف لے گئے تو پانوں کی تھالی اور سگریٹ کی ڈبیا خاکسار کے دل کے طرح ویران پڑی تھی۔”

    "دوسرے دن ایک مجلس میں ان حضرت سے ہمارا سامنا ہو گیا۔ آپ بے تکلفی سے فرمانے لگے: "رات تو آپ بے انتہا مصروف تھے۔” ایک بذلہ سنج دوست پاس کھڑے تھے، کہنے لگے: "جی ہاں عمر بھر میں سالک پر ایک ہی مصروفیت کی رات آئی ہے اور وہ شبِِ گزشتہ تھی۔” وہ حضرت کھسیانے ہو کر ہنسنے لگے۔ خاکسار نے موقع پا کر نہایت متانت سے منہ بنا کر کہا کہ: "مجھے کبھی غصہ نہیں آتا لیکن جو شخص رات کے وقت میرے کام میں خلل انداز ہو، اسے جان سے مار دینے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کروں میری یہ خواہش بالکل اضطراری ہے۔ مجھے تو اس پر قابو نہیں لیکن احباب کو ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔”

    "وہ حضرت نہایت غور سے میری بات سنتے رہے پھر چپ چاپ ایک طرف چل دیے اور آج تک رات کے وقت کبھی تشریف نہیں لائے۔ جان کتنی عزیز شے ہے۔”

    اردو کے اس ممتاز ادیب اور شاعر نے لاہور میں وفات پائی اور اسی شہر کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • اگر میں شوہر ہوتی….(طنز و مزاح)

    اگر میں شوہر ہوتی….(طنز و مزاح)

    آپ پوچھیں گے کہ میرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا؟

    آپ اسے خیال کہہ رہے ہیں؟ جناب یہ تو میری آرزو ہے، ایک دیرینہ تمنا ہے۔ یہ خواہش تو میرے دل میں اس وقت سے پل رہی ہے، جب میں لڑکے لڑکی کا فرق بھی نہیں جانتی تھی۔

    اس آرزو نے اس دن میرے دل میں جنم لیا، جب پہلی بار میرے بھائی کو مجھ پر فوقیت دی گئی، ’جب‘ اور ’اب‘ میں اتنا ہی فرق ہے کہ جب میں یہ سوچا کرتی تھی کاش میں لڑکا (بھائی) ہو جاتی، اور ان سارے سرکش اور فضول سے بھائیوں سے گن گن کر بدلہ لیا کرتی اور ان کی وہ پٹائی کرتی، کہ وہ بھی یاد کرتے۔ اور اب یہ سوچا کرتی ہوں کاش میں مرد (شوہر) بن جاتی اور میرے ’مظلوم اور بے زبان‘ شوہر میری بیوی۔

    یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب ’وہ‘ بڑے طمطراق سے بولے، ’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں بیوی ہوتا اور تم شوہر‘‘ تو میں نے جھٹ یہ جواب دیا، ’’تو بن جائیے نا، اس میں سوچنے کی کیا بات ہے؟‘‘

    ’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ تم شوہر، ہوتیں تو کیا ہوتا؟‘‘

    ’’وہ نہ ہوتا جو آج ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’مان لو کہ تم شوہر ہو گئیں۔ اب بتاؤ، تم کیا کرو گی؟‘‘

    ’’تو پھرمیں گن گن کر بدلہ لوں گی اور کیا کروں گی، لیکن ذرا مجھے اس بات پر خوش تو ہولینے دیجیے۔‘‘

    اور سچ مچ میرے اوپر تھوڑی دیر تک ایک عجیب سی کیفیت طاری رہی۔ اس روح پرور خیال نے میرے پورے جسم و جان میں ایک وجدانی کیفیت پیدا کردی اور میں سوچنے لگی، کہ واقعی اگر میں شوہر بن جاتی تو کیا ہوتا، لیکن اتنا ہی تو کافی نہیں ہوتا کہ میں شوہربن جاتی، اس کے ساتھ میرے شوہر بھی تو میری بیوی بنتے۔ مزہ تو جب ہی تھا۔

    ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیے۔ اب میں شوہر بن گئی ہوں۔ مجھے کہیں دعوت میں جانا ہے، میں اپنی تیاری شروع کرتا ہوں۔ شیو بناتا ہوں، نہاتا ہوں، گھنٹہ بھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر کریم پوڈر مل مل کر بڑی مشکل سے اپنے کالے چہرے کو سانولے کی حد تک لے آتا ہوں، پھر ٹائی باندھتا ہوں، ناٹ درست کرنے میں بھی کم وبیش آدھا گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے، پریس کی ہوئی پینٹ کی کریز درست کرتا ہوں، ٹائی کے ہم رنگ نمائشی رومال کو کوٹ کی اوپری جیب میں باقاعدہ جماتا ہوں، وہ گندا رومال جو منہ، ہاتھ، چشمہ اور جوتے پونچھنے کے کام آتا ہے، اسے پینٹ کی جیب میں رکھتا ہوں۔

    اپنے فارغ البال ہوتے ہوئے سر پر بچے کھچے بالوں کی تہ اچھی طرح جماتا ہوں، تاکہ کہیں سے سپاٹ چاند نہ نمودارہوجائے۔ گھر میں بدقسمتی سے ایک ہی آئینہ ہے اور اس پر کم و بیش ڈھائی تین گھنٹے میرا قبضہ رہتا ہے۔ گھر کے جملہ امور نوکر کو سمجھانے اور دروازے وغیرہ اچھی طرح بند کرنے کی ہدایت دے چکنے کے بعد جب میری بیوی (یعنی میرے موجودہ شوہر) آئینہ کے سامنے کھڑی ہوکر میک اپ شروع کرتی، تو میں ٹھیک اپنے موجودہ شوہر کی طرح کہتا ہوں، ’’بس اب تیار ہو بھی ہو چکو، تمہاری وجہ سے پارٹی میں دیر ہوگئی۔ خدا بچائے عورتوں کے سنگھار اور آرائش سے۔‘‘

    میرے بار بار کہنے پر کہ دیر ہو رہی ہے، جلدی کرو، وہ غریب پندرہ منٹ میں الٹی سیدھی تیار ہوجاتی ہے اور جلدی میں ایک نئی اور ایک پرانی چپل پہن کر، یا ساڑی سے میچ کرتا ہوا پرس میز ہی پر چھوڑ کر پرانا پھٹا ہوا پرس ہاتھ میں لٹکائے چل پڑتی ہے، اور میں اس کی سابق شوہرانہ زیادیتوں کو یاد کر کے دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا اس کے ساتھ ہو لیتا ہوں۔ جب ہم دعوت میں پہنچتے ہیں تو تقریباً لوگ واپس جارہے ہوتے ہیں لیکن میں بڑی آسانی سے یہ کہہ کر صاف بچ جاتا ہوں۔

    ’’معاف کیجیے گا، ان کی تیاریوں میں دیر ہوگئی۔ عورتوں کا میک آپ تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘

    پھر بھلا کس میں ہمّت ہے کہ اس عالم گیر جھوٹ (جسے حقیقت کہا جاتا ہے) سے انکار کردے۔

    شوہر بننے کے ایک اور افادی پہلو پر بھی ذرا غور کر لیں۔ مجھے کہیں صبح سویرے ہی جانا ہے، دسمبر کی کڑکڑاتی سردی ہے۔ میں گھڑی میں چار بجے کا الارم لگا کر سوجاتا ہوں، میری بیوی الارم کی کرخت اور مسلسل آواز سے گھبرا کر اٹھ بیٹھتی ہے اور باورچی خانہ میں جاکر ناشتے کی تیاری میں جٹ جاتی ہے۔ اتنے سویرے نوکر کو اٹھانے کی کس میں ہمّت ہے، آپ ہی بتائیے، جب شوہر نہیں اٹھتا، تو نوکر کیا اٹھے گا۔

    باورچی خانے میں کھٹ پٹ کی آواز ہوتی رہتی ہے، اور میں لحاف میں دبکا پڑا رہتا ہوں۔ گرما گرم پراٹھوں، انڈوں حلوے وغیرہ کی اشتہا انگیز خوشبو بھی مجھے بستر سے اٹھانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر میری بیوی آتی ہے، ہولے ہولے مجھے اٹھاتی ہے، اور پھر جب میں گرم پانی سے شیو کرنے اور نہانے کے بعد تیار ہو کر میز پر پہنچتا ہوں تو ناشتہ کی بیش تر چیزیں اور چائے ٹھنڈی ہوچکی ہوتی ہے، اور ان چیزوں کے دوبارہ گرم ہونے میں جو وقت لگتا اسے اپنے لیٹ ہونے کا ذمہ دار قرار دے کر بکتا جھکتا میں گھر سے روانہ ہوجاتا ہوں۔

    اگر میں شوہر ہوتی۔ تو اس وقت کتنا مزا آتا جب دفتر سے ٹھیک ٹائم سے واپسی پر دفتر کے کینٹین یا کسی دوسرے ریستوران میں دوستوں کے ساتھ چائے ناشتہ کرتے ہوئے خوش گپیاں کرنے کے بعد منہ سکھائے ہوئے دفتر کے کام سے تھک جانے اور اپنے باس کی زیادتیوں کی شکایت لیے ہوئے گھر میں داخل ہوتا اور بے دم ہو کر مسہری پر گر پڑتا۔

    بیوی بے چاری لپک کر جوتے اتارتی، پنکھا آن کرتی اور تکیے وغیرہ ٹھیک سے رکھ دیتی اور تھوڑی دیر کے لیے میرے آرام و سکون کی خاطر گھر کے تمام ہنگاموں کو روک دیا جاتا اور میں بیوی کی طرف سے کروٹ لیے دل ہی دل میں ہنسا کرتا۔

    اور اس سے بڑھ کر مزا تو اس وقت آتا، جب دفتر سے نکلتے ہی یار لوگ کسی ادبی یا غیر ادبی پروگرام کے لیے باہر ہی باہر مجھے گھسیٹ لیتے اور ساڑھے پانچ بجے کی بجائے دس بارہ بجے رات کو تھکا ماندہ گھر پہنچتا اور بیوی کی عقل مندی اور تیزی و طراری کے باوجود اسے یہ باور کرانے میں کام یاب ہو جاتا کہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے آج میری ڈبل ڈیوٹی لگا دی گئی تھی۔

    میری بیوی دفتر کے بدانتظامیوں کو برا بھلا کہتی ہوئی کھانا گرم کرنے چل پڑتی۔ باورچی خانے سے اس کی بڑبڑانے کی آواز آتی رہتی اور میں دل کھول کر خوش ہوتا اور مزے لیتا۔

    ایک اور پُرلطف بات یہ ہوتی کہ میرے لیے پڑھنے لکھنے کا سامان اور سکون ہر وقت موجود ہوتا اور فرصت کے اوقات میں، میں بڑی آسانی سے لکھ پڑھ لیتا، میری زیادہ مصروفیت دیکھ کر میری بیوی گرم گرم چائے کی پیالی میز پر رکھ جاتی۔ یہی نہیں، بلکہ ایسے وقت میں ہر آنے والے کو ’’صاحب گھر میں نہیں ہیں‘‘ کا پیغام پہنچا دیا جاتا۔

    اس وقت تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا جب میں دیکھتا کہ میری بیوی اب کچھ لکھنے کو بیٹھی ہے۔ ابھی اسے کاغذ قلم لے کر بیٹھے ہوئے کچھ دیر بھی نہ ہوئی ہوتی کہ ملازم آدھمکتا۔

    ’’بی بی جی، سودا لایا ہوں، حساب ملا لیجیے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ہانک لگاتا، ’’بی بی جی گوشت کیسا پکے گا، شوربے دار یا بھنا ہوا۔‘‘ پھر ایک آواز آتی، ’’بی بی جی! کپڑے لائی ہوں، ملالیجیے۔‘‘ اور میری بیوی بھنّاتے ہوئے کاغذ قلم پٹخ کر دھوبن کا حساب کتاب کرنے اور پھر میلے کپڑے لکھنے کو چل پڑتی، اور جب اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ کے لکھنے پڑھنے کو کیا ہوا تو جل کر جواب دیتی، ’’چولھے بھاڑ میں گیا۔‘‘

    پہلی تاریخ کو ایک فرماں بردار شوہر کی مثال قائم کرتے ہوئے تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے تمام آسانی اور زمینی آفتوں سے بری الذّمہ ہوجاتا۔ بے فکری کے دن اور رات کٹتے، کبھی سوچنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ گھر کیسے چل رہا ہے۔ مقررہ جیب خرچ کے علاوہ بیوی کی صندوقچی پر بھی چھوٹے موٹے ڈاکے ڈالا کرتا اور اس کے پوچھنے پر اچھی خاصی جنگ کا ماحول پیدا کر دیتا۔ مجھے کبھی یہ پتہ نہ چلتا، کہ کب عید آئی اور کیسے بقرعید منائی گئی۔ ایک قربانی کے لیے بیوی نے کتنی قربانیاں دیں۔

    دوسروں کے یہاں کی تقریبات نے اپنے گھر گرہستی کی دنیا میں کتنا بڑا زلزلہ پیدا کیا اور تنخواہ کی بنیادیں تک ہلیں۔ میں تو بس ٹھاٹ سے ان تقریبات میں حصہ لیا کرتا، دوستوں اور عزیزوں سے ملاقاتیں ہوتیں، مزے دار کھانے ملتے اور خوب تفریح رہتی۔ اگر میری بیوی کبھی میری فضول خرچی سے تنگ آکر بجٹ فیل ہونے کی بات کہتی، تو میں بڑے پیار سے کہتا، ’’جان من! بجٹ فیل تو ہر بڑی حکومت کا رہتا ہے، بجٹ کا فیل ہونا باعثِ فکر نہیں، بلکہ باعث عزت و شوکت ہے۔‘‘

    تو جناب یہ ہے کہ میرا پروگرام۔ بس خدا ایک بار مجھے شوہر بنا دے تاکہ میں بھی فخر سے کہہ سکوں….

    زندگی نام ہے ہنس ہنس کے جیے جانے کا

    (طنز و مزاح‌ پر مبنی یہ تحریر سرور جمال کی ہے جن کا تعلق بہار، بھارت سے ہے)

  • بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    آج اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر دلاور فگار کی برسی ہے۔ 21 جنوری 1998ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے دلاور فگار کو بابائے ظرافت بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے شعر سفر کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا تھا، لیکن بعد میں مزاح گوئی کی طرف مائل ہوئے اور یہی کلام ان کی وجہِ شہرت بنا اور دلاور فگار اردو کے اہم مزاح گو شعرا میں شمار کیے گئے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 8 جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے اور 1968ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں بڑا نام و مرتبہ پایا۔ دلاور فگار نے جلد ہی کراچی کے ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی اور ‌مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ شہر کے باذوق اور طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو سمجھنے والوں نے انھیں‌ بہت پسند سراہا اور پذیرائی دی۔

    اردو کے اس مزاح گو شاعر کے مجموعہ ہائے کلام انگلیاں فگار اپنی، ستم ظریفیاں، آداب عرض، شامتِ اعمال، مطلع عرض ہے، خدا جھوٹ نہ بلوائے اور کہا سنا معاف کے نام سے شایع ہوئے۔ دلاور فگار نے امریکی جمی کارٹر کی ایک تصنیف کا اردو ترجمہ بھی خوب تَر کہاں کے نام سے کیا تھا۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا تھا۔ ان کے کئی مزاحیہ قطعات اور اشعار مشہور ہوئے اور اکثر تحریر و تقریر میں اپنے دل کی بات کہنے اور مدعا بیان کرنے کے لیے ان کے کلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کا وہ مشہور قطعہ نقل کررہے ہیں جس میں انھوں‌ نے ہمارے سماج میں جرم کے پھلنے پھولنے اور مجرم کے آزاد گھومنے کا سبب بیان کیا ہے۔

    حاکمِ رشوت ستاں، فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
    میں بتائوں تجھ کو، تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ لے
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    انھو‌ں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں زندگی کے بہت سے موضوعات اور انسانی کیفیات کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں پیش کیا۔ ان کا اسلوب اور موضوع کی تہ داری انھیں جدید دور کے مزاح گو شعرا میں منفرد اور ممتاز بناتا ہے اور ہمیں تبسم و لطافت کے ساتھ سماج کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔

    اردو زبان سے متعلق ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    نہ اردو ہے زباں میری، نہ انگلش ہے زباں میری
    زبانِ مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری