Tag: اردو ادب کے مشہور شاعر

  • کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ آغا حجو شرف کو جانتے ہیں؟

    اردو ادب، ریختہ اور کلاسیکی دور کے مختلف ادبی تذکروں میں سیادت حسن سیّد جلال الدین حیدر خاں کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے جن کی عرفیت آغا حجو تھی اور شرف ان کا تخلص۔ شاعری ان کا میدان تھا جس میں‌ انھیں آتش جیسا استاد نصیب ہوا۔

    آغا حجو کا درست سنِ پیدائش تو معلوم نہیں‌، لیکن ادبی محققین کا خیال ہے کہ وہ 1812ء میں پیدا ہوئے۔ وطن ان کا لکھنؤ تھا۔ اپنے دور کے نام ور شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگردوں میں‌ سے ایک تھے۔

    آغا حجو غدر سے قبل ہی وفات پاگئے تھے۔ آغا حجو شرف کی تین تصانیف ’’شکوۂ فرنگ‘‘، ’’افسانۂ لکھنؤ‘‘ اور ’’دیوانِ اشرف‘‘ دست یاب ہوئیں۔ آج رفتگاں کے باب سے اسی شاعر کا کلام آپ کی خدمت پیش ہے۔

    غزل
    جب سے ہوا ہے عشق ترے اسمِ ذات کا
    آنکھوں میں پھر رہا ہے مرقع نجات کا

    الفت میں مر مٹے ہیں تو پوچھے ہی جائیں گے
    اک روز لطف اٹھائیں گے اس واردات کا

    سرخی کی خطِ شوق میں حاجت جہاں ہوئی
    خونِ جگر میں نوک ڈبویا دوات کا

    اے شمعِ بزمِ یار وہ پروانہ کون تھا
    لَو میں تری یہ داغ ہے جس کی وفات کا

    اس بے خودی کا دیں گے خدا کو وہ کیا جواب
    دَم بھرتے ہیں جو چند نفس کے حباب کا

    قدسی ہوے مطیع، وہ طاعت بشر نے کی
    کُل اختیار حق نے دیا کائنات کا

    ناچیز ہوں مگر میں ہوں ان کا فسانہ گو
    قرآن حمد نامہ ہے جن کی صفات کا

    رویا ہے میرا دیدۂ تر کس شہید کو؟
    مشہور ہو گیا ہے جو چشمہ فرات کا

    دھوم اس کے حسن کی ہے دو عالم میں اے شرفؔ
    خورشید روز کا ہے وہ مہتاب رات کا

    شاعر: آغا حجو شرف

  • طوطی بولتا ہے!

    طوطی بولتا ہے!

    تذکیر و تانیث پر دہلی اور اودھ کے اسکولوں میں بڑی معرکہ آرائی رہی۔ یہ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ اسے دو اسکولوں نے اپنایا۔ دہلی نے جہاں اسے عظمت عطا کی، وہیں اودھ نے اس کے حُسن میں چار چاند لگائے۔

    ظاہر ہے بعض چیزوں میں اختلاف بھی ہوا، لیکن ہم دونوں اسکولوں کی نیت پر شبہ نہیں کر سکتے کہ دونوں ہی اس زبان کے عاشق تھے۔ میرے نزدیک ایسے اختلافات کو بنیاد بنا کر بحث و مباحثہ کرنا تضیعِ اوقات ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جو لطائف سامنے آئیں ان سے محظوظ ضرور ہوا جا سکتا ہے۔

    ایسے واقعات نہ تو کسی اسکول کی طرف داری میں پیش کیے جاتے ہیں اور نہ ہی مقصد کسی کی تضحیک ہوتا ہے، یہ صرف تفننِ طبع کے لیے ہیں۔

    ایک مرتبہ استاد ابراہیم ذوق نے اپنی ایک غزل سنائی جس کا شعر تھا:

    ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا
    خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیّاد کا

    شعر سنتے ہی ان کے ایک لکھنوی دوست نے ٹوکا اور کہا حضرت آپ نے طوطی کو مذکر کیسے باندھا جب کہ اس میں علامتِ تانیث کے طور پر یائے معروف موجود ہے۔

    استاد نے کہا کہ محاورے پر کسی کا اجارہ نہیں۔ آپ میرے ساتھ چوک چلیے جہاں چڑی ماروں کا ٹولہ آتا ہے اور سنیے وہ کیا ہانک لگاتا ہے۔

    دونوں جامع مسجد، دہلی کے ساتھ لگنے والے بازار پہنچے۔ وہاں بہت سے چڑی مار تیتر، بٹیر، مینا، بیا اور طرح طرح کے پنچھی لیے بیٹھے تھے۔ ایک بانکا طولی لیے چلا آتا تھا۔ استاد ذوق نے کہا۔ ذرا ان سے تو دریافت کیجیے۔ اس شخص نے بے تکلفی سے پوچھا۔

    بھیا آپ کی طوطی کیسے بولتی ہے۔ اس نے جواب دیا: بولتی تمہاری ہوگی، یاروں کا طوطی خوب بولتا ہے۔

    یہ سن ذوق نے کہا۔ اس پر نہ جائیے کہ یہ ان لوگوں کی زبان ہے، یہی دہلی کے خواص کی زبان بھی ہے۔

    ( زبان و ادب سے متعلق تذکروں‌ سے انتخاب، سید احمد دہلوی نے فرہنگِ آصفیہ میں اس واقعہ کو زیادہ تفصیل سے نقل کیا ہے)

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    شعرائے متاخرین، ناقدین اور ہر دور میں اردو زبان و ادب کی نادرِ روزگار ہستیوں نے جسے سراہا، جسے ملکِ سخن کا شہنشاہ مانا، وہ میر تقی میر ہیں۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کی ایک مشہور غزل جس کا مطلع اور اکثر پہلا مصرع آج بھی موضوع کی مناسبت سے ہر قول، تقریر، کہانی، قصے، تحریر کا عنوان بنتا ہے اور خوب پڑھا جاتا ہے۔

    یہ غزل باذوق قارئین کے مطالعے کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

    عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
    رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا

    سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
    کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا