Tag: اردو ادب

  • ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتا جائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے، تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔

    بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔ آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔

    محبّت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔ اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔

    اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمہارا مذاق اُڑاے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکّار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔

    عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتّٰی کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنٰی اور بے سود تھا۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)

  • 25 اپریل 1937 کی وہ ‘واردات’ جسے تصویر کا موضوع بنایا گیا

    25 اپریل 1937 کی وہ ‘واردات’ جسے تصویر کا موضوع بنایا گیا

    اسپین کی خانہ جنگی (1939-1936) کے دوران 25 اپریل 1937ء کو جنرل فرانکو کی ہوائی فوج نے گیرنیکا کے قصبے پر بم باری کی۔ پیرس کے عالمی میلے میں اسپینی پویلین کے لیے پکاسو کو بڑی دیواری تصویر بنانے کے لیے کہا گیا تو اس نے اس واردات کو اپنی تصویر کا موضوع بنایا۔

    ”گیرنیکا اپنے فنی طریقِ کار کی جدّت اور پختگی کے لیے جدید فن کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور اس پر کتابیں تک لکھی جا چکی ہیں۔

    ”گیرنیکا“ پر گویا (فرانسسکو گویا، مصوّر) کے بھی اثرات ہیں۔ سیاہ، سفید اور خاکستری رنگوں کی تختیوں کا استعمال گویا کے نقوش سے مناسبت رکھتا ہے۔ ہنہناتے ہوئے زخمی گھوڑے کے پیٹ میں لکیریں اخبار کے صفحے کا سا تاثر دیتی ہیں اور مکبعیت کی اس ہیئت سے متعلق ہیں جہاں کولاژ میں بعض اوقات اخبار کو چسپاں کر دیا جاتا تھا۔ گویا کے برعکس پکاسو واردت کی جگہ سے دور تھا اور یہ خبر اس تک ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے ہی پہنچی تھی۔

    پکاسو نے شہری آبادی کے مصائب پر توجہ دی ہے، مگر یہ عکاسی نہیں۔ یہاں سامنے کی واردات اور فینٹسی کے پیکر گھل مل کر عجیب شکل اختیار کر گئے ہیں اور اسپنسر کے خیال میں یہ سوچی سمجھی تمثیل بھی ہے۔ خود پکاسو نے اس تصویر میں سانڈ کو ظلمت اور بربریت کی علامت بتایا اور گھوڑا ان لوگوں کا اجتماعی استعارہ ہے جو اس بربریت کا شکار ہوئے۔ سانڈ کے چہرے کے نیم تاریک سائے میں ایک عورت اپنے مردہ بچے کو لیے ہے۔ پکاسو کی یہ تصویر اور اس کی تمثیلی معنویت یہیں تک نہیں جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ اگر پکاسو کے پیکروں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو اس کی مزید گہری سطحوں تک بھی رسائی ہو سکتی ہے۔

    جوزف کیمبیل نے اپنی تصنیف Creative mythology میں پکاسو کی ”گیرنیکا“ کی علامتی نوعیت پر مفصل بحث کی ہے۔ ان کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ ان پیکروں کی معنویت کہیں گہری ہے۔ سانڈ کی علامت اسپینی بل فائٹ کے میدان سے لی گئی ہے۔ اور ہسپانوی مزاج کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ پھر جس قصبے پر بم باری ہوئی وہاں کے کسان ان انسانی نسلوں کی نمائندگی کرتے ہیں جن کے ذہن کی عمیق تہوں میں وہ اساطیری رسوم دبی ہوئی ہیں جن کا تعلق سانڈ یا بیل یا قربانی سے ہے اور جہاں سانڈ کو بار بار مرنے اور زندہ ہونے والے کے روپ میں زندگی کی لہروں کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔

    جوزف کیمبیل نے پکاسو کے رمزی پیکروں کی اساطیری معنویت کو جس تفصیل سے بتایا ہے اُس سب کا بیان یہاں غیر ضروری طوالت کا باعث ہو گا۔ وہ ان قدیم علامتوں کے حوالے سے پکاسو کے فن کی اس حیرت انگیز قوت کی داد دیتے ہیں جو ان پیکروں کو اس طرح کی نئی معنویت دینے پر قادر ہے۔

    جوزف کیمبیل کا کہنا ہے کہ پکاسو کی اس تصویر میں سیاہ و سفید کے انتخاب نے افلاطون کی غار میں سایوں کی تمثال جیسی معنویت پیدا کر رکھی ہے، جہاں اصل اور نقل کا پتا چلانا مشکل ہے۔ پکاسو کے طریقِ کار سے فن اور انسانی تقدیر کے مسئلے کے کئی جہتوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ وہ ایک خبر کے حوالے سے تصویر بنانے نکلا مگر خبر تک نہیں رہا، انسانی واردات کی عمیق گہرائیوں سے اُس نے وہ پیکر نکالے جن کا تعلق انسان کے وجود کی بعض بنیادی سچائیوں سے ہے۔

    یہ صحیح ہے کہ ہر فن کار گویا یا پکاسو نہیں ہوتا اور عظیم معیاروں پر ہر فن کو پرکھنا درست نہیں ہو سکتا۔ تاہم درجہ بندی کو ایک طرف رکھ کر فنی طریقِ کار سے تو کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

    ( ڈاکٹر سہیل احمد خان، مضمون ’فنونِ لطیفہ اور انسانی تقدیر‘ سے اقتباس)

  • رَسّی تیرے کتنے کام…. جتنے کام، اتنے نام!

    رَسّی تیرے کتنے کام…. جتنے کام، اتنے نام!

    ’’محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسّی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے۔“ صدیقی صاحب مرحوم (ابوالفضل صدیقی) نے فوراً ٹوکا کہ اُس کو رسّی نہیں ”الگنی“ بولتے ہیں۔

    پھر جمیل بھائی سے مخاطب ہو کر بولے رسّی کو بہ لحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کے لیے چھوڑا جاتا تو اِس ڈر سے کہ وہ کہیں بھاگ نہ جائے۔ اُس کی اگلی ٹانگوں میں رسّی باندھ دیتے ہیں۔ اُس کو ”دھنگنا“ کہتے ہیں۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ”اگاڑی“ ”پچھاڑی“ کہلاتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر جو رسّی سوار پکڑتا ہے وہ ”لگام“ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے اگر ٹم ٹم، بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسّی ”راس“ کہلاتی ہے۔

    اسی لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کے لیے جو رسید لکھی جاتی تھی، اُس میں یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ”یک راس گھوڑے کی قیمت“ اور ہاتھی کے لیے ”یک زنجیر ہاتھی“ استعمال ہوتا تھا۔

    گھوڑے کو جب ٹریننگ کے لیے سائیس پھراتا ہے اور جسے ”کاوا پھرانا“ بولتے ہیں، اُس رسّی کو جو سائیس اُس وقت پکڑتا ہے اس کو ”باگ ڈور“ کہتے ہیں۔

    پھر مرحوم نے کہا بیل کی ناک کے نتھنوں میں جو رسّی ڈالتے ہیں اُس کو ”ناتھ“ (اسی لیے ایسے بیل کو ”نتھا“ ہوا بیل بولتے ہیں، اُس کے بعد ہی بیل رہیلو اور ہل وغیرہ کے کام میں آتا ہے) کہتے ہیں اور اونٹ کی ناک میں ”نکیل۔“ کنویں سے بڑے ڈول کی جو بیل کھینچتے ہیں اُس میں جو موٹا رسّا استعمال ہوتا ہے اُس کو ”برت“ یا ”برتھ“ بولتے ہیں۔‘‘

    (نذر الحسن صدیقی کے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط سے اقتباس)

  • ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    ‘ٹوڈی’ جو راس کماری سے سری نگر اور سلہٹ سے خیبر تک مشہور تھا

    عبدالمجید سالک صحافت کے میدان میں خاص پہچان اور اپنے کالموں کے لیے مشہور تھے، وہ ہندوستان کے عوام میں مقبول اخبار’زمیندار‘ اور متعدد جرائد کے مدیر رہے، روزنامہ انقلاب جاری کیا، شاعر اور مضمون نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    آغا شورش کاشمیری جیسے مشہور و معروف صحافی، شاعر اور مضمون نگار نے اپنے ایک مضمون میں سالک صاحب کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے۔

    "ہوش کی آنکھ کھولی تو گھر بھر میں مولانا ظفر علی خاں کا چرچا تھا۔ ’’زمیندار‘‘ کی بدولت خاص قسم کے الفاظ زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ انہی الفاظ میں ایک ٹوڈی کا لفظ بھی تھا۔ زمیندار نے اس کو خالص وسعت دے دی تھی کہ مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں راس کماری سے لے کر سری نگر تک، سلہٹ سے لے کر خیبر تک اس لفظ کا غلغلہ مچا ہوا تھا، جس شخص کا ناطہ بلا واسطہ یا بالواسطہ برطانوی حکومت سے استوار تھا وہ فی الجملہ ٹوڈی تھا۔

    اس زمانہ میں ہمیں سیاسیات کے پیچ و خم سے زیادہ واقفیت نہ تھی۔ ہم نے ٹوڈی کے مفہوم کو اور بھی محدود کر رکھا تھا، وہ تمام لوگ جو مولانا ظفر علی خاں کے مخالف تھے یا جنھیں مولانا سے اختلاف تھا ہمارے نزدیک ٹوڈی تھے۔

    اب چوں کہ انقلاب کے دونوں مدیر (مہر و سالک) زمیندار کے مقابلہ میں تھے اور مولانا سے کٹ کے انقلاب نکالا تھا، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا عرف یا تخلص بھی ٹوڈی تھا۔ پھر یہ ہفتوں یا مہینوں کی بات نہ تھی، برسوں تک یہی خیال ذہن پر نقش رہا حتّٰی کہ ایک دہائی بیت گئی۔ دوسری دہائی کے شروع میں یہ لفظ کسی حد تک کچلا گیا اور اس کی جگہ بعض مستور الفاظ رواج پاگئے، مثلاً رجعت پسند، کاسہ لیس وغیرہ ان الفاظ میں دشنام کی بدمزگی تو نہ تھی لیکن حقارت کا مخفی اظہار ضرور تھا۔

    بالآخر ان ہجویہ الفاظ کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ یہ تمام الفاظ پھلجڑی کا سا سماں باندھ کر ٹھنڈے پڑگئے۔ جن تحریکوں کے ساتھ ان کا شباب تھا ان کے ختم ہوتے ہی ان کی رونق بھی مرجھا گئی اور ان کا تذکرہ سیاسی افکار کے عجائب گھروں کی زینت ہوگیا۔

    اس دوران سالک صاحب سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں، دفتر زمیندار ہی میں ان سے تعارف ہوا لیکن اس تعارف سے صرف علیک سلیک کا راستہ کھلا۔ وہ اپنی ذات میں مستغرق تھے، ہم اپنے خیال میں منہمک، تاثر یہی رہا کہ سالک صاحب ٹوڈی اور انقلاب ٹوڈی بچہ ہے۔

    سالک صاحب ہمیں کیا رسید دیتے، وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ادھر زمیندار نے ہمیں یہاں تک فریفتہ کر رکھا تھا کہ انقلاب کو ہم نے خود ہی ممنوع قرار دے لیا تھا۔ پانچ سات برس اسی میں نکل گئے۔

    دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو لمبی لمبی قیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم کوئی دس گیارہ نوجوان منٹگمری سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ سخت قسم کی تنہائی میں دن گزارنا مشکل تھا، قرطاس و قلم موقوف، کتب و رسائل پر قدغن، جرائد و صحائف پر احتساب، یہاں تک کہ عزیزوں کے خط بھی روک لیے جاتے۔ وحشت ناک تنہائی کا زمانہ۔ جیل کے افسروں سے بارہا مطالبہ کیا کہ اخبار مہیا کریں لیکن ہر استدعا مسترد ہوتی رہی۔ جب پانی سر سے گزرگیا تو ہم نے بھوک ہڑتال کردی، نتیجتاً حکومت کو جھکنا پڑا۔ ’’سول‘‘اور ’’انقلاب‘‘ ملنے لگے۔

    بظاہر یہ ایک لطیفہ تھا کہ جس اخبار کو ہم سرکاری مناد سمجھتے اور جس کالم میں قومی تحریکوں یا قومی شخصیتوں پر سب سے زیادہ پھبتیاں کسی جاتی تھیں، ہم نے اسے بھوک ہڑتال کرکے حاصل کیا۔

    غرض افکار و حوادث کی ادبی دل کشی کا یہ عالم تھا کہ ہم اس کی چوٹیں سہہ کر لطف محسوس کرتے۔ سیاسی تاثر تو ہمارا وہی رہا جو پہلے دن سے تھا، لیکن اس کی ادبی وجاہت کے شیفتہ ہوگئے۔ مہر صاحب کے اداریے ایک خاص رنگ میں ڈھلے ہوتے، ان میں تحریر کی دل کشی اور استدلال کی خوبی دونوں کا امتزاج تھا۔ سالک صاحب افکار و حوادث میں مطائبات کی چاشنی اور طنزیات کی شیرینی اس طرح سموتے تھے۔ جی باغ باغ ہوجاتا، محسوس ہوتا گویا ہم مے کدے میں ہیں کہ رندانِ درد آشام تلخ کام ہوکر بھی خوش کام ہو رہے ہیں۔

    ساتھیوں کا ایک مخصوص گروہ تھا، جس میں جنگ کی وسعتوں اور شدتوں کے باعث اضافہ ہوتا رہا۔ میں منٹگمری سنٹرل جیل سے تبدیل ہوکر لاہور سنٹرل جیل میں آگیا تو پہلا مسئلہ انقلاب ہی کے حصول کا تھا۔ سید امیر شاہ (جیلر) کی بدولت فوراً ہی انتظام ہوگیا۔ غرض قید کا یہ سارا زمانہ انقلاب سے آشنائی میں کٹ گیا۔ رِہا ہوا تو سالک صاحب سے ان کے دفتر میں جا کے ملا۔ مہر صاحب اس وقت موجود نہیں تھے۔ ان سے کھلا ڈلا تعارف تھا، سالک صاحب تپاک سے ملے۔

    گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی اس ملاقات میں وہ پھلجڑیاں چھوڑتے رہے۔ باتوں کو سنوارنا، گفتگو کو تراشنا، ان سے لطائف نکالنا ان کی طبیعت کا وصف خاص تھا۔ اس معاملہ میں ان کی تقریر، تحریر سے زیادہ دل فریب ہوتی۔ انسان اکتاتا ہی نہیں تھا۔ ایک آدھ دفعہ پہلے بھی یہ مشورہ دے چکے تھے اور اب کے بھی یہی زور دیتے رہے کہ سیاسیات میں اپنے آپ کو ضائع نہ کرو، صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤ اور کتاب و قلم کے ہوجاؤ۔ اب جو ان سے تعلقات بڑھنے لگے تو دنوں ہی میں بڑھ کے وسیع ہوگئے۔ یہ زمانہ انگریزی حکومت کے ہندوستان سے رخصت ہونے کا تھا۔ برطانوی سرکار کے آخری دو سال تھے۔

    تمام ملک میں فساد و انتشار سے آگ لگی ہوئی تھی۔ اس افراتفری کے دنوں ہی میں سالک صاحب سے ملاقات کے مزید راستے کھلے۔ خلوت و جلوت میں ان کا اندازہ ہونے لگا۔

    سیاسیات سے قطع نظر یہ بات ذہن میں آگئی کہ وہ ہمارے مفروضہ سے مختلف انسان ہیں بلکہ خوب انسان ہیں۔ یہ بات بری طرح محسوس ہوئی کہ بعض لوگ مستعار عصبیتوں کی وجہ سے بدنام ہوتے ہیں۔ اور انسان بلا تجربہ اپنے دماغ میں مفروضے قائم کر کے انھیں حقیقتیں بنا دیتا ہے، لیکن جب یہی لوگ تجربہ یا مشاہدہ میں آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاسنگ کا سونا ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ تجربہ و مشاہدہ میں آنے کے بعد دور کا ڈھول نکلتے ہیں، ان کی ہم صحبتی ان کے خط و خال کو آشکار کردیتی ہے۔

    سالک صاحب کو مستعار عصبیتوں سے دیکھا تو ان کی شگفتہ تصویر نہ بن سکی، یہی باور کیا کہ خوانِ استعمار کے زلّہ رُبا ہیں۔ قریب سے دیکھا تو ایک روشن تصویر نکلے۔

  • ‘بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے’

    ‘بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے’

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ آزادی کے جوش سے معمور تھا۔

    بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے، ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یک جہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟

    کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے، لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    (اردو کے نام وَر ادیب، انشا پرداز، مؤرخ، نقّاد، مترجم اور صحافی غلام رسول مہر کے مضمون چند پرانی یادیں سے انتخاب)

  • معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز سیاست دان، صحافی، مؤرخ، سفارت کار اور ادیب پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں سے ایک تھے جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    علی محمد راشدی کو ایک نہایت قابل علمی اور ادبی شخصیت اور زیرک سیاست داں مانا جاتا ہے، انھوں نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں لکھا اور صحافت سے سیاست سے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    1905ء میں‌ ضلع لاڑکانہ کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے پیر علی محمد راشدی کو وفات کے بعد کراچی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ہر شخص کی زندگی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتی ہے اور پیر علی محمد راشدی بھی اپنی علمی و ادبی حیثیت، سیاسی مرتبے اور قابلیت و صلاحیت کے باوجود مطعون کیے جاتے رہے اور مختلف حلقوں میں ناپسندیدہ رہے، لیکن علم و ادب کے حوالے سے ان خدمات کا دائرہ وسیع ہے جس کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔

    ان کی چند کتابوں‌ میں رودادِ چمن (اردو)، فریادِ سندھ (سندھی)، چین جی ڈائری (سندھی)، ون یونٹ کی تاریخ (اردو)، کراچی کی کہانی (اردو) شامل ہیں جب کہ ان کے کئی مضامین اردو اور انگریزی زبان میں مختلف اخبار اور جرائد کی زینت بنے۔

  • معروف شاعرہ شہناز نُور دنیا سے رخصت ہوگئیں

    معروف شاعرہ شہناز نُور دنیا سے رخصت ہوگئیں

    معروف شاعرہ شہناز نُور کراچی میں انتقال کرگئیں۔ شہناز نور نے اپنی خوب صورت شاعری سے جہانِ سخن میں نام و مقام بنایا اور اپنے دل کش ترنم کے سبب بھی ادبی حلقوں اور باذوق سامعین میں مقبولیت حاصل کی۔

    14 مارچ 2021ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والی شہناز نور 10 نومبر 1947ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ شہناز نور نے سکھر میں قیام کے دوران تعلیم مکمل حاصل کی۔ ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والی شہناز نور کو بھی ابتدائی عمر ہی سے شاعری کا شوق ہوگیا تھا۔ انھوں نے پہلا شعر 13 برس کی عمر میں کہا تھا۔ یہ مشقِ سخن جاری رہی اور شہناز نور کی پہلی غزل رسالہ ’’کلیم‘‘ میں 1974ء میں شائع ہوئی۔

    شہناز نور نے اپنا کلام شعری مجموعے ’’نشاطِ ہجر‘‘ میں یکجا کیا تھا۔ ان کا یہ مجموعہ 2004ء میں منظرِعام پر آیا۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل نقل کررہے ہیں‌ جس کا مطلع بہت مشہور ہوا۔

    کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
    میں بجھ رہی ہوں روا داریاں نبھاتے ہوئے

    کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی کیسے ہو
    کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے

    عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
    کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے

    کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی
    دل و نظر کے تقاضوں سے منہ چھپاتے ہوئے

    نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہوں نورؔ
    بدن کی خاک سے دیوار و در بناتے ہوئے

  • لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    دنیا کی یوں تو سبھی چیزیں بدلتی رہتی ہیں، کیوں کہ دنیا کا انتظام انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم انسان اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا اسی ڈھب پر چلتی رہے جس ڈھب پر سورج، چاند، ستارے اور ہوا جیسی چیزیں چلتی آرہی ہیں۔

    سورج وہی اپنی قدیم رفتار پر قائم ہے، نہ تو اس کے قد و قامت، جسامت اور ضخامت میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ اس کی مشرق کی طرف سے طلوع ہونے کی عادت بدلی ہے۔ مغرب نے سائنس وغیرہ کے معاملے میں اتنی ترقّی کرلی لیکن سورج نے اس ترقّی اور مغربی ممالک کے بڑھتے اقتدار کی کوئی پروا نہیں کی۔ یہی حال چاند ستاروں کا ہے۔ ہوا بھی ویسی کی ویسی ہی ہے، جیسی کہ پہلے تھی۔

    اس میں آلودگی ذرا زیادہ ہوئی ہے، لیکن یہ کوئی خاص تبدیلی نہیں ہے، لیکن دنیا کی ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ خود آدمی بھی اب اتنا بدل گیا ہے کہ پتا نہیں چلتا کہ یہ آدمی ہے بھی یا نہیں۔

    جہاں تک رفتار کا تعلق ہے، دنیا کی تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کس لمحہ بدل جائیں گی۔ لمحہ لمحہ بدلنے والی ان تین چیزوں میں پہلی چیز ہے قیمتیں۔ قیمتیں چاہے آلو کی ہوں یا رتالو کی۔ چولھے کی ہوں یا دولھے کی، زر کی ہوں یا زمین کی، اس قدر تیزی سے بدلنے لگی ہیں کہ زمین کے سودے کی بات چیت ختم ہونے سے پہلے زمین کی قیمت میں دس بیس فی صد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    دوسری چیز ہے عورتوں کا مزاج، یہ بھی کچھ کم تیزی سے نہیں بدلتا۔ ہمارے یہاں تو خیر ابھی بیسویں صدی کے آخری دہوں میں بھی غنیمت ہے کہ خواتین کسی اور بات کا نہ سہی، کم سے کم ازدواجی رشتوں کا تھوڑا بہت لحاظ کرتی ہیں، ورنہ دنیا میں ایسے کئی ملک موجود ہیں جہاں کی رہنے بسنے والی خواتین اس تیزی سے ان رشتوں کو بدلتی ہیں کہ مردوں کے فرشتوں کو بھی ان کے منصوبوں کی اطلاع نہیں ملتی۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ عدالت میں جب جج محترم قانون کے حق میں فیصلہ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو یہ محترمہ اپنا فیصلہ بدل دیتی ہیں اور عدالت سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ ملزم کو یعنی اُن کے شوہر کو راہِ راست پر آنے کے لیے چند دنوں کی مہلت عطا کرے۔

    ہمارے یہاں عورتوں کے مزاج اس تیزی سے نہیں بدلتے۔ ان کے مزاج میں پہلے صرف رچاؤ تھا، اب ٹھہراؤ آگیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ شاید یہ ہے کہ عورتوں کو اب مردوں پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ برابری کا درجہ تو حاصل تھا ہی، عورتیں اب سماج سدھار اور سیاست میں حصّہ لینے لگی ہیں حالاں کہ سماج سدھار اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔

    عورتوں کو اس سے تعلق ہے بھی نہیں کہ کون سی چیز مفید ہے اور کون سی نقصان دہ۔ بیلن اور تھالی لے کر جب وہ شارعِ عام پر نکل آتی ہیں تو سرکار لرزہ براندام ہوجاتی ہے، کیوں کہ عورتوں کو سرکار سے جب بھی کوئی مطالبہ کرنا ہوتا ہے وہ اتنے سخت لہجے میں مطالبہ کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکارسے نہیں اپنے گھر میں اپنے شوہر سے مخاطب ہیں۔ عورتوں کے اسی لب و لہجہ کو شاعروں نے سراہا ہے۔

    کہا جاتا ہے عورتوں کا مزاج، باورچی خانے میں بھی قابو میں نہیں رہتا۔ ویسے تو عام طور پر عورتوں نے کھانا پکانا ہی ترک کردیا ہے، لیکن جنھوں نے ترقّی کی اس منزل پر قدم نہیں رکھا ہے جب بھی کھانا پکاتی ہیں اپنا منصوبہ ہر دوسرے لمحے بدل دیتی ہیں۔

    کسی ایک پراجیکٹ پر کام کرنا ان سے ہو نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی تیّار کی ہوئی ڈش کھانے کی میز پر پہنچتی ہے تو پہچاننا دشوار ہو جاتا ہے کہ یہ غذا ہے یا راتب۔ شوہر اس غذا کو اس لیے قبول کرلیتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ کڑی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

    (طنز و مزاح نگاری میں ممتاز یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون فیشن سے اقتباس)

  • ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یومِ وفات

    ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یومِ وفات

    معروف ماہرِ تعلیم، مصنّف، مترجم اور شاعر ڈاکٹر غلام جیلانی برق کو مذہبی اسکالر اور دانش وَر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے، جو 12 مارچ 1985ء کو وفات پاگئے تھے۔

    برق کی علمی استعداد، قابلیت اور تحقیقی کام کو جہاں سراہا جاتا ہے، وہیں ان کی کتب اور بعض موضوعات نے انھیں متنازع بھی بنایا، لیکن پھر انھوں نے اپنے مؤقف سے رجوع کرلیا اور وضاحت دی جس نے ان کے وقار میں اضافہ کیا۔

    برق 26 اکتوبر 1901ء کو پنڈی گھیپ، ضلع کیمبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اسنادِ فضیلت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں انھوں نے امام ابنِ تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور ملازمت کے ساتھ مختلف موضوعات پر لگ بھگ چالیس کتابیں تحریر کیں۔ ان کی کتاب دو اسلام، فلسفیانِ اسلام، مؤرخینِ اسلام، حکمائے عالم، فرماں روایانِ اسلام، دانشِ رومی و سعدی، ہم اور ہمارے اسلاف قابلِ ذکر ہیں۔

  • نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر اور مستند نام آغا شاعر قزلباش دہلوی کا ہے جنھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار شخصیت اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔

    وہ 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا اور ان کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا۔ ان کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزہ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔