Tag: اردو ادب

  • انڈے کی آدھی خدمت

    انڈے کی آدھی خدمت

    ایک چڑے چڑیا نے ایک اونچی کوٹھی میں اپنا گھونسلا بنایا تھا۔ اس کوٹھی میں ولایت سے بیرسٹری پاس کر کے آنے والے رہتے تھے اور ایک میم کو ساتھ لے کر آئے تھے۔

    ان کی بیرسٹری کچھ چلتی نہ تھی مگرا میر زمیں دار تھے، گزارہ خوبی سے ہو جاتا تھا۔ ولایت سے آنے کے بعد خدا نےان کو ایک لڑکی بھی عنایت کی تھی۔

    چڑے چڑیا نے کھپریل کے اندر ایک سوراخ میں گھر بنایا۔ تنکوں اور سوت کا فرش بچھایا۔ یہ سوت پڑوس کی ایک بڑھیا کے گھر سے چڑیا لائی تھی۔ وہ بیچاری چرخا کاتا کرتی تھی۔ الجھا ہوا سوت پھینک دیتی، تو چڑیا اٹھا لاتی اور اپنے گھر میں اس کو بچھا دیتی۔ خدا کی قدرت ایک دن انڈا پھسل کر گر پڑا اور ٹوٹ گیا۔ ایک ہی باقی رہ گیا۔ چڑے چڑیا کو اس انڈے کا بڑا صدمہ ہوا، جس دن انڈا گرا تو چڑیا گھونسلے میں ہی تھی۔ چڑا باہر دانہ چگنے گیا ہوا تھا۔ وہ گھر میں آیا تو چڑیا کو چپ چپ اور مغموم دیکھ کر سمجھا میرے دیر سے آنے کے سبب خفا ہوگئی ہے۔

    لگا پھدک پھدک کر چوں چوں۔ چیں، چڑچوں، چڑچوں، چیں چڑچوں، چوں کرنے۔ کبھی چونچ مار کر گدگدی کرتا۔ کبھی خود اپنے پروں کو پھیلاتا مٹکتا، ناچتا، مگر چڑیا اسی طرح پھولی اپھری خاموش بیٹھی رہی۔ اس نے چڑے کی خوشامد کا کوئی جواب نہ دیا۔ چڑا سمجھا بہت ہی خفگی ہے۔ مزاج حد سے زیادہ بگڑ گیا ہے۔ خوشامد سے کام نہ چلے گا۔ میری کتنی بڑی توہین ہے کہ اتنی دیر خوشامد درآمد کی، بیگم صاحبہ نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔

    یہ خیال کر کے چڑا بھی منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ اور چڑیا سے بے رخ ہو کر نیچے بیرسٹر صاحب کو تاکنے لگا جو اپنی لیڈی کے سامنے آرام کرسی پر لیٹے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ چڑے نے خیال کیا یہ کیسے خوش نصیب ہیں۔ دونوں کا جوڑا خوش بشاش زندگی کاٹ رہا ہے۔ ایک میں بدنصیب ہوں، سویرے کا گیا دانہ چگ کر اب گھر میں گھسا ہوں، مگر چڑیا صاحبہ کا مزاج ٹھکانے میں نہیں ہے۔ کاش میں چڑا نہ ہوتا، کم سے کم آدمی بنا دیا جاتا۔

    چڑا اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ چڑیا نےغم ناک آواز نکالی۔ ’’چوں‘‘ چڑے نے جلدی سے مڑ کر چڑیا کو دیکھا اور کہا چوں چوں چڑچوں چوں کیا ہے، آج تم ایسی چپ کیوں ہو؟ چڑیا بولی انڈا گر کے ٹوٹ گیا۔ انڈا گرنے کی خبر سے چڑے کو رنج ہوا، مگر اس نے صدمہ کو دبا کر کہا، تم کہاں چلی گئیں تھیں۔ انڈا کیوں کر گر پڑا۔ چڑیا نے کہا میں اُڑ کر ذرا چمن کی ہوا کھانے چلی گئی تھی۔ انڈا پھسل گیا۔

    یہ سن کر چڑا آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کے مردانہ جوش میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کڑک دار گرجتی ہوئی چوں چوں میں کہا۔ پھوہڑ، بدسلیقہ، بے تمیز تو کیوں اُڑی تھی۔ تجھ کو چمن کی ہوا کے بغیر کیا ہوا جاتا تھا۔ کیا تُو نے بھی اس گوری عورت کی خصلت سیکھ لی ہے جو گھر کا کام نوکروں پر چھوڑ کر ہوا خوری کرتی پھرتی ہے۔ تُو ایک چڑیا ہے۔ تیرا کوئی حق نہیں ہے کہ بغیر میری مرضی کے باہر نکلے۔ تجھ کو میرے ساتھ اُڑنے اور ہوا خوری کرنے کا حق ہے۔ آج کل تُو انڈوں کی نوکر تھی۔ تجھے یہاں سے ہٹنے کا اختیار نہ تھا، تُو نے ایک انڈے کا نقصان کر کے اتنا بڑا قصور کیا ہے کہ اس کا بدلہ کچھ نہیں ہوسکتا، تُو نے خدا کی امانت کی قدر نہ کی، جو اس نے ہم کو نسل بڑھانے کی خاطر دی تھی۔ میں نے تو پہلے دن منع کیا تھا کہ اری کم بخت اس کوٹھی میں گھونسلہ نہ بنا، ایسا نہ ہو اُن لوگوں کا اثر ہم پر بھی پڑ جائے۔ ہم بیچارے پرانے زمانے کے دیسی چڑے ہیں۔ خدا ہم کو نئے زمانے کے چڑیا چڑے سے بھی بچائے رکھے، کیوں کہ پھر گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے، مگر تُو نہ مانی، کہتی رہی ’’کوٹھی میں رہوں گی، کوٹھی میں گھر بناؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر میراناک میں دَم کر دیا۔

    چڑیا پہلے تو اپنےغم میں چپ چاپ چڑے کی باتیں سنتی رہی لیکن جب چڑا حد سے بڑھا تو اس نے زبان کھولی اور کہا۔

    بس، بس سن لیا، بگڑ چکے، زبان کو روکو۔ انڈے بچّے پالنے کا مجھی کا ٹھیکہ نہیں ہے، تم بھی برابر کے شریک ہو۔ سویرے کے گئے یہ وقت آگیا، خبر نہیں اپنی کس سگی کے ساتھ گلچھرے اڑاتے پھرتے رہے ہو گے۔ دوپہر میں گھر کےاندر گھسے ہیں اور آئے تو مزاج دکھانےآئے۔ انڈا گر پڑا۔ مرے پنجہ کی نوک سے، میں کیا کروں۔ میں کیا انڈوں کی خاطر اپنی جان کو گھن لگا لوں، دو گھڑی باہر کی ہوا بھی نہ کھاؤں۔ صبح سے یہ وقت آگیا، ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں گیا۔ تم نے پھوٹے منہ سے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا تُو نے کچھ تھوڑا نگلا۔ مزاج ہی دکھانا آتا ہے، اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ اکیلی چڑیا یہ سب بوجھ اُٹھائے، اب آزادی اور برابری کا وقت ہے۔ آدھا کام تم کرو آدھا میں کروں۔ دیکھتے نہیں میم صاحبہ کو وہ تو کچھ بھی کام نہیں کرتیں۔ صاحب کو سارا کام کرنا پڑتا ہے۔ اور بچّے کو آیا کھلاتی ہے۔ تم نے ایک آیا رکھی ہوتی۔ میں تمہارےانڈے بچّوں کی آیا نہیں ہوں۔

    چڑیا کی اس تقریر سے چڑا سُن ہوگیا اور کچھ جواب نہ بن پڑا۔ بےچارہ غصّہ کو پی کر پھر خوشامد کرنے لگا اور اس دن سے چڑیا کے ساتھ انڈے کی آدھی خدمت بانٹ کر اپنے ذمہ لے لی۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، انشا پرداز اور طنز و مزاح نگاری کے لیے مشہور خواجہ حسن نظامی کی ایک شگفتہ تحریر، جس کا اصل عنوان "مس چڑیا کی کہانی” ہے)

  • زبان و بیان کے معاملے میں علّامہ اقبال بھی آغا صاحب سے رجوع کرتے تھے

    زبان و بیان کے معاملے میں علّامہ اقبال بھی آغا صاحب سے رجوع کرتے تھے

    آغا شاعر قزلباش دہلوی ان شاعروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنے عہد میں ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آج اردو کے اسی نام وَر اور باکمال شاعر کا یومِ پیدائش ہے۔

    آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے پہلے ہی سے معترف تھے۔

    آغا شاعر قزلباش 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ آپ کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا تھا۔

    کہتے ہیں کہ اسکول کے زمانے ہی میں ان کو مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔اسی دور میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا اور باپ نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلی ماں نے انھیں قبول نہ کیا اور ستانے کے بعد گھر سے نکال دیا۔ تب انھیں ایک بیگم نے جو شاعرہ بھی تھیں، پناہ دی اور آغا کی خوش خطی دیکھ کر ان سے اپنی غزلیں لکھوانا شروع کیں۔انہی بیگم صاحبہ کے توسط سے وہ طالب دہلوی کے شاگرد ہوئے اور بعد میں دکن پہنچ کر داغ سے تعلیم و اصلاح لی۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے:

    یہ کیسے بال کھولے آئے، کیوں صورت بنی غم کی
    تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی

    شکایت کس سے کیجے ہائے کیا الٹا زمانہ ہے
    بڑھایا پیار جب ہم نے محبت یار نے کم کی

    جگر میں درد ہے، دل مضطرب ہے، جان بے کل ہے
    مجھے اس بے خودی میں بھی خبر ہے اپنے عالم کی

    نہیں ملتے نہ ملیے خیر کوئی مر نہ جائے گا
    خدا کا شکر ہے پہلے محبت آپ نے کم کی

    مزہ اس میں ہی ملتا ہے نمک چھڑکو، نمک چھڑکو
    قسم لے لو نہیں عادت مرے زخموں کو مرہم کی

    گھٹائیں دیکھ کر بے تاب ہے، بے چین ہے شاعرؔ
    ترے قربان او مطرب سنا دے کوئی موسم کی

  • ٹکٹ چیکر کون تھا؟ ایک دل گداز واقعہ

    ٹکٹ چیکر کون تھا؟ ایک دل گداز واقعہ

    ایک بڑھیا بے چاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبّے میں سوار ہوگئی۔ چھوٹی سی گٹھری اس کے ساتھ تھی۔ اسے لے کر بمشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھ گئی۔

    یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبّہ تھا لیکن اس کے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا، جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی، اس میں سامان رکھا ہوا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھاکہ بھیّا تم کس درجہ کے مسافر ہو؟ یہ فرسٹ کلاس کا ڈبّہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لیے ریزرو ہے۔

    یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا، پاکستان وجود میں آیا ہی تھا، اللہ اور رسول ﷺ کے نام پر۔ اس لیے یہی مسلمانوں کا وطن تھا۔ ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچائے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے۔

    یہ بے چاری بڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی۔ اُسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ یہ ہمارا ملک ہے، یہ ہماری گاڑی ہے۔ جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔

    گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبّے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی، مشتاق احمد صاحب اپنی آپ بیتی کا روانِ حیات میں لکھتے ہیں۔

    "ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر معاً مجھے خیال آیا کہ مدتوں میں ریلوے کا افسر رہا ہوں۔ دیکھو! یہ چیکر کیا کرتا ہے۔

    چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ وہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے۔ اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا۔

    ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت، غم و اندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ مشتاق صاحب لکھتے ہیں۔ میں نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بڑھیا کا چالان کر دیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بڑھیا اُس سے بے اختیار بولی۔ بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تُو یہ رسید نہ کاٹ۔

    جواب ملا، امّاں اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمھارا چالان ہوگا، پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو۔ تمھارے لیے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دوگی، میں اپنی طرف سے دے دوں گا۔

    احساسِ فرض، ملک کی محبّت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا۔

    (شاہ بلیغ الدّین کی کتاب "روشنی ” سے ایک دل گداز پارہ)

  • ہم راجا ہیں راجا…

    ہم راجا ہیں راجا…

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی موگرا، موتیا وغیرہ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دل رُبا بنائے ہوئے تھے۔ شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔

    بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔ پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصّے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالاں کہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہیں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے، لیکن ہم تو راجا ہیں راجا، بغیر گھی مسالا کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹہل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم۔”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی:۔ سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی:۔ میں اپنی تعریف کیا سناؤں ، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کر تی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل: میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی: میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقت ور اور روغن دار ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے۔ پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتّوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا ہے۔ نامعلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (مصنف: نامعلوم)

  • عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    اردو کے نام وَر شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری 3 مارچ 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوتا تھا۔ اردو ادب میں فراق کو تنقید کے حوالے سے بھی اہم مقام حاصل ہے۔

    ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ وہ 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون اور اچھّے شاعر تھے۔ اسی علمی و ادبی ماحول میں فراق کی تعلیم و تربیت ہوئی اور وہ بھی اردو زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔

    وہ اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور شاعری کے ساتھ نقد و نظر کے میدان میں بھی اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ فراق نے اردو شاعری میں‌ اپنے تنقیدی میلانات کو کتابی شکل دی جس کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی کتاب اردو کی عشقیہ شاعری کے علاوہ حاشیے بھی تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔

    فراق اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ ان کا سب سے جدا اور اپنا ہی رنگ ان کے کلام سے جھلکتا ہے۔ فراق کو عہد ساز شاعر بھی کہا جاتا ہے جب کہ تنقید کے میدان میں‌ بھی ان کا مرتبہ بلند ہے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    دلّی میں‌ وفات پاجانے والے فراق گورکھپوری کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات دیے تھے۔

  • لوگوں کا کیا سمجھانے دو…..

    لوگوں کا کیا سمجھانے دو…..

    محسن بھوپالی کا شمار اردو کے مقبول شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے متعدد اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں ہم محسن بھوپالی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں، جسے پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو نے گایا اور یہ غزل بہت مشہور ہوئی۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری

    میں نے دل کی بات رکھی اور تُو نے دنیا والوں کی
    میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری

    روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
    کچّی مٹی تو مہکے گی ہے، مٹّی کی مجبوری

    ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
    جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری

    جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
    وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری

    مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
    ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری

  • مہمان کی تواضع

    مہمان کی تواضع

    قتیل شفائی نے ایم۔ اسلم سے اپنی اوّلین ملاقات کااحوال بیان کرتے ہوئے کہا۔

    ’’کتنی عجیب بات ہے کہ میں اسلم صاحب کی کوٹھی میں ان سے ملنے گیا لیکن اس کے باوجود ان کا تازہ افسانہ سننے سے بال بال بچ گیا۔‘‘

    ’’یہ ناممکن ہے …!‘‘ احباب میں سے ایک نے بات کاٹتے ہوئے فوراً تردید کر دی۔

    ’’سنیے تو۔‘‘ قتیل نے مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

    ’’ہوا یوں کہ انتہائی خاطر و مدارات کے بعد جب اسلم صاحب اپنا افسانہ سنانے کے موڈ میں آنے لگے تو انہوں نے کہا… ’’قتیل صاحب! آپ کی کچھ نظمیں میری نظر سے گزری ہیں ۔آپ تو خاصے مقبول شاعر ہیں، مگر نہ جانے عام لوگ ہر ترقی پسند شاعر کے بارے میں کیوں بدگمانی کا شکار ہیں۔‘‘ اور اسلم صاحب کی اس بات کے جواب میں نہایت انکساری سے کام لیتے ہوئے میں نے کہا:

    ’’جی ہاں واقعی عام لوگ بہت غلط فہمیاں پیدا کردیتے ہیں۔ دیکھیے نا، اب آپ کے بارے میں بھی یوں تو یہی مشہور ہے کہ آپ ہر نو وارد مہمان کی تواضع کرنے کے بعد اپنا کوئی نیا افسانہ ضرور سناتے ہیں، حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘

    (اردو کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کی اپنے زمانے کے مشہور و معروف ناول اور افسانہ نگار ایم اسلم سے متعلق شگفتہ بیانی)

  • برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے جہاں من مانے اصولوں اور قوانین کا سہارا لیا، وہیں ہندوستانیوں کی حمایت اور وفاداریاں سمیٹنے کی کوشش بھی کی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ برطانیہ اس خطّے اور مقامی لوگوں کی ترقی و خوش حالی چاہتا ہے جس کا ثبوت مختلف سرکاری اسکیمیں اور ترقیاتی کام ہیں۔

    کہتے ہیں اس زمانے میں عام لوگوں اور اسکولوں کے طلبہ کی "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ” کے تحت لٹریچر سے ذہن سازی کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں برطانوی راج کے فوائد و ثمرات سے متعلق سوالات ہوتے اور درست جواب دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے اردو کے مشہور و معروف افسانہ اور ناول نگار، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کی آپ بیتی ‘‘جزیرہ نہیں ہوں میں‘‘ سے یہ اقتباس لائقِ مطالعہ ہے۔

    خواجہ احمد عباس نے ایسے ہی ایک واقعے کو یوں رقم کیا ہے:

    ”مجھ سے آگے والے لڑکے سے انسپکٹر صاحب نے کہا، ”تم بتاؤ برطانوی راج کی رحمتیں کون کون سی ہیں؟“

    جواب پہلے سے ہمیں زبانی یاد کرایا جاچکا تھا اور ہم کو وہی دہرانا تھا۔ ”برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ سڑکیں بنوائی ہیں، ریلوے، ڈاک خانے، اسکول، اسپتال….“

    لڑکا کچھ ایسا ذہین نہیں تھا۔ اردو بولتے بولتے بھی اکھڑ گیا۔ انگریزی تو ہمارے اساتذہ تک کو نہیں آتی تھی۔

    ”جناب انسپکٹر صاحب، برطانوی حکومت نے ہمارے لیے بنائیں سڑکیں، ریلیں، ڈاک خانے….“ اس سے آگے کی فہرست وہ بھول گیا اور خاموش ہوگیا۔

    ”اور… اور؟“ انسپکٹر نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا۔ اس کو امید تھی کہ لڑکا کہے گا شفا خانے، کتب خانے وغیرہ وغیرہ۔

    ”اور کون بتا سکتا ہے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔ میں نے فوراً اپنا ہاتھ اٹھا دیا۔

    یہ واقعہ ہمارے شہر میں مہاتما گاندھی کی آمد کے فوراً بعد کا ہے اور مجھ کو معلوم تھا کہ ان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مجھ کو صرف ایک ہی اور ”خانہ“ معلوم تھا، جو لڑکا بتانا بھول گیا تھا۔

    ”ہاں؟“ انسپکٹر صاحب نے میری طرف رُخ کیا۔ میں جماعت میں سب سے چھوٹا تھا۔ انھوں نے مسکرا کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پہلے والے لڑکے کے الفاظ دہرائے۔ ”ریلیں، سڑکیں، ڈاک خانے….؟“

    میں نے بہ آوازِ بلند فاتحانہ انداز سے کہا۔ ”قید خانے۔“

    میرا اشارہ ان قید خانوں کی طرف تھا جن میں مہاتما گاندھی، علی برادران اور ان کے بہت سے پیرو کاروں کو بند کر کے رکھا گیا تھا۔

    میرے جواب پر انسپکٹر صاحب خوش نہیں ہوئے۔ حالاں کہ میں مطمئن تھا کہ قید خانے اور ڈاک خانے ہم صوت تھے۔

  • مشاعروں کی بود و باش

    مشاعروں کی بود و باش

    ایک بزرگ شاعر ہر مشاعرے میں اس ٹھسّے سے آتے تھے کہ ہاتھ میں موٹی سی چھڑی ہوتی تھی اور ساتھ میں کیمرہ لیے ان کا بیٹا ہوتا تھا۔

    بیٹا یوں تو بیٹھا اونگھتا رہتا تھا، لیکن جوں ہی ابّا جان شعر پڑھنے کو کھڑے ہوتے، وہ حرکت میں آجاتا اور تصویروں پر تصویریں اتارتا رہتا۔ ابّا جان بھی ایسے تھے کہ اپنی نشست پر جم کر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ مختلف بہانوں سے ادھر ادھر آتے جاتے رہتے تھے کہ کہیں انہیں شروع ہی میں نہ بلا لیا جائے۔

    ایک بار اپنے مخصوص ترنّم میں غزل کا پہلا شعر پڑھا اور اسی ترنّم میں لہک کر اس کی تقطیع بھی کر دی

    فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

    بس پھر غضب ہوگیا۔ جوں ہی وہ شعر مکمل کرتے، سارا مجمع اُسی ترنّم میں اور قوالی کے انداز میں اس کی تقطیع کرنے لگتا۔

    وہ پہلے تو محظوظ ہوئے، پھر خفا، پھر ناراض، پھر برہم اور آخر میں چھڑی اٹھائی، بیٹے کا ہاتھ تھاما اور محفل سے اس بڑھیا کی طرح نکل گئے جو اپنا مرغ بغل میں داب کر گاؤں سے چلی گئی تھی۔ لیکن مقطع سنائے بغیر نہیں گئے۔

    (رضا علی عابدی کی کتاب کے باب "مشاعروں کی بود و باش” سے اقتباس)

  • جادو کا پتھر….

    جادو کا پتھر….

    بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی جس کا ایک بیٹا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر اس سے کہا: "بیٹے! ذرا جا کر بازار سے روٹی لے آؤ۔” لڑکا پیسے لے کر بازار جا رہا تھا کہ ایک چوراہے پر اس نے کچھ بچّوں کو بلّی کے ایک مریل سے بچّے کو ستاتے ہوئے دیکھا۔

    اسے رحم آ گیا۔ اور اس نے بچّوں سے پوچھا: "اس بلّی کے بچّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” بچوں نے جواب دیا۔ "کیا لو گے؟” لڑکے نے پوچھا۔

    "جو جی چاہے دے دو۔” بچوں نے کہا۔ لڑکے کے پاس جتنے پیسے تھے سب دے کر اس نے بلّی کے بچّے کو لے لیا اور اس کو گود میں اٹھائے واپس گھر آیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے روٹی؟”

    "روٹی تو نہیں لایا۔ بلّی کا بچّہ لایا ہوں۔” لڑکے نے جواب دیا۔ "ارے کیا کہہ رہے ہو، بیٹے! یہ تم نے کیا کیا؟” ماں نے حیران اور اداس ہو کر کہا۔

    لڑکے نے سارا حال اپنی ماں کو سنانے کے بعد کہا: "ماں! کوئی بات نہیں۔ ایک دن روٹی کھائے بغیر ہی رہ لیں گے۔” دوسرے دن ماں نے لڑکے کو پھر کچھ پیسے دے کر قصائی کی دکان پر بھیجا۔ راستے میں سڑک پر لڑکے نے دیکھا کہ کچھ لڑکے ایک پلّے کو پتھروں سے مار رہے ہیں۔ لڑکے کو اس پلّے پر رحم آ گیا اور اس نے لڑکوں سے پوچھا: "اے لڑکو! اس پلّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” لڑکوں نے جواب دیا۔ لڑکے نے اپنے ہاتھ کے سارے پیسے ان کو دے دیے اور پلّے کو لے کر گھر واپس آ گیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے گوشت؟”

    لڑکے نے کہا: "ماں! آپ ناراض نہ ہوں۔ آپ نے جو پیسے دیے تھے، ان کو دے کر میں یہ پلّا لایا ہوں۔”

    "ارے بیٹے!” ماں نے اداس ہو کر کہا۔ "ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ میں نے جانے کتنی مشکلوں سے وہ پیسے کمائے تھے۔ تم ان سے پلّا خرید لائے۔ بھلا یہ ہمارے کس کام کا؟ اور پھر اس کو کھلانے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں۔”

    لڑکے نے جواب دیا: "ماں کوئی بات نہیں۔ ہم ایک دن گوشت کے بغیر جی لیں گے۔”

    تیسرے دن پھر ماں نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دیے اور اسے تیل لانے کے لیے بازار بھیجا۔ وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ لڑکے چوہے کے ایک بچّے کو جو چوہے دان میں پھنس گیا تھا، ستا رہے تھے۔ اس کو چوہے کے بچّے پر رحم آ گیا۔ اس نے اپنے سارے پیسے دے کر اس کو لے لیا اور لیے ہوئے گھر واپس آیا۔

    ماں نے پوچھا: بیٹے! تیل لے آئے؟” تو اس نے بتایا کہ کس طرح اسے تیل کے بجائے چوہے کے بچّے کو لینا پڑا۔ ماں بیٹے سے بہت پیار کرتی تھی۔ اس لیے اس بار بھی اس نے بیٹے کو برا بھلا نہ کہا۔ بس ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔

    بہت دن گزر گئے۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ پلّا کتّا بن گیا، بلّی کا بچہ بڑا ہو کر بلّی بن گیا اور چوہے کا بچّہ بھی ایک اچھا خاصا چوہا بن گیا۔

    ایک دن نوجوان نے دریا میں مچھلی پکڑ لی۔ اس نے مچھلی کو کاٹا اور اس کی آنتیں نکال کر کتّے کے آگے پھینک دیں۔ کتّا آنتوں کو کھانے لگا تو اچانک ان میں سے ایک چھوٹا سا پتّھر مل گیا جو سورج کی مانند چمک رہا تھا۔

    نوجوان نے اس پتّھر کو دیکھا تو خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ کیوں کہ وہ ایک جادو کا پتھر تھا جس کے متعلق نوجوان نے لوگوں سے سن رکھا تھا۔ اس نے پتّھر کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھا: "اے جادو کے پتھر! مجھے کھانا کھلا!”

    یہ کہہ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ پلک جھپکتے میں اس کے سامنے ایک بیش قیمت دستر خوان پر ایسے انوکھے اور لذیذ کھانے چنے ہوئے تھے جن کو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ پھر وہ دوڑ کر گھر آیا اور وہ جادو کا پتھر اپنی ماں کو دکھایا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ اسی دن سے ماں اور بیٹا دونوں بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    ایک دن نوجوان شہر گیا۔ وہاں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک نہایت حسین جوان لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی نوجوان کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اس نے اس سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنا یہ ارادہ ماں کو بتایا۔

    "واہ ! تم بھی کیا باتیں کرتے ہو!” ماں نے حیرت سے کہا۔ "تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ لڑکی خود بادشاہ سلامت کی بیٹی ہے۔ نہ بابا! میں پیغام لے کر بادشاہ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔”

    لیکن نوجوان اصرار کرتا رہا اور آخرکار ماں مجبوراً راضی ہو گئی۔ اس نے کہا: "اچھی بات ہے۔ کہتے ہو تو چلی جاؤں گی، لیکن اتنا یاد رکھنا کہ بادشاہ کے محل سے آج تک کبھی کسی کو سکھ نہیں ملا۔”

    رات کے وقت ماں شاہی محل تک پہنچ گئی اور محل کے دروازے کے سامنے کی سڑک پر جھاڑو دے کر اس کی صفائی کر دی۔

    صبح کو بادشاہ محل سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ دروازے کے سامنے کی ساری زمیں صاف ستھری ہو گئی ہے۔ اگلے دن صبح پھر اس نے دیکھا تو یہی حال تھا۔ اس نے زیادہ تعجّب ہوا اور اس نے رات کو دروازے کے سامنے پہرے دار کھڑے کر دیے۔

    تیسرے دن صبح سویرے پہرے دار ایک عورت کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ بادشاہ نے عورت سے پوچھا: "بتاؤ تم روز رات کو میرے محل کے دروازے کے سامنے جھاڑو کیوں دیتی ہو؟”

    عورت نے کہا: "میں ایک غریب بیوہ ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے۔ میں آپ کی بیٹی سے اس کی شادی کی خواہش لے کر آئی تھی، لیکن آپ کے پاس یوں چلے آنے کی مجھے جرات نہیں ہوئی۔ اور پھر آپ کے پہرے دار بھی تو آنے نہ دیتے۔”

    کسی غریب عورت کی یہ گستاخی بھلا بادشاہ کیسے برداشت کرتا۔ اس نے غصّے میں آ کر حکم دیا کہ عورت کو قتل کر دیا جائے، لیکن اس کے دائیں والے وزیر نے کہا: "بادشاہ عالم! اس بیچاری عورت کو قتل کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اس کو کوئی ایسا کام بتائیے جس کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ ہو۔ بس پھر یہ خود ہی محل میں آنا بند کر دے گی۔”

    وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے عورت سے کہا: "جاؤ جا کر اپنے بیٹے سے کہنا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کے لیے چالیس اونٹوں پر سونا لاد کر لائے۔”

    "ہم بیچارے اتنا سونا کہاں سے لائیں گے؟” عورت نے اداس ہو کر سوچا اور محل سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر لوٹ کر اس نے بادشاہ کی شرط اپنے بیٹے کو بتائی تو اس نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔”

    اس نے جادو کے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس سے کچھ کہا۔ بس پھر کیا تھا، صبح ہوتے ہیں غریب بیوہ کی جھونپڑی کے سامنے سونے سے لدے ہوئے چالیس اونٹ کہیں سے آ کر کھڑے ہو گئے۔

    نوجوان نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ ان چالیس اونٹوں کو بادشاہ کے پاس لے جائیں۔” ماں کو بڑا تعجب ہوا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر ان چالیس اونٹوں کو ہانکتی ہوئی بادشاہ کے پاس لے گئی۔

    بادشاہ کو بھی بہت تعجّب ہوا، لیکن اس نے فوراً ہی ایک اور حکم صادر کر دیا۔ اس نے عورت سے کہا: "اپنے بیٹے سے جا کر کہنا کہ وہ اپنی دلہن کے لیے ایک محل بنوائے جو سارے کا سارا خالص سونے کا ہو۔ تب ہی شادی بیاہ کی بات ہو سکتی ہے۔”

    ماں اور زیادہ اداس ہو گئی اور گھر جا کر بادشاہ کی نئی فرمائش اپنے بیٹے کو سنائی۔ نوجوان نے ماں کی باتیں چپ چاپ سن لیں اور پھر اس سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔ خالص سونے کا محل بھی بن جائے گا۔”

    صبح سویرے دریا کے کنارے ایک عالی شان محل کھڑا ہوگیا جو سارے کا سارا خالص سونے کا تھا۔ ایسا محل اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

    ماں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا: "بادشاہ عالم لیجیے محل تیار ہے۔ ذرا باہر چل کر اس کو دیکھیے تو۔”

    بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ باہر آیا اور محل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اب تو اس کو ٹال مٹول کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے غریب نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔

    بادشاہ کے محل میں ایک چڑیل رہتی تھی۔ اس نے راز معلوم کرنے کا عہد کیا کہ ایک غریب نے راتوں رات ایسا عالی شان محل کیسے بنوا لیا، وہ بھی سونے کا۔ یہ عہد کر کے وہ مزاج پرسی کے بہانے شہزادی کے پاس آئی اور اس کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ اپنے شوہر سے کسی طرح یہ راز معلوم کرے۔ چناں چہ اپنی بیوی کے اصرار پر نوجوان نے بتایا!

    "میرے پاس جادو کا ایک پتھر ہے۔ اس کی مدد سے میں جو کچھ چاہوں حاصل کر سکتا ہوں۔”
    "تم اس جادو کے پتھر کو کہاں رکھتے ہو؟” بیوی نے پوچھا۔
    "میں اس کو اپنے منھ میں زبان کے نیچے رکھتا ہوں۔” نوجوان نے جواب دیا۔

    اگلے ہی دن شہزادی نے یہ سب باتیں چڑیل کو بتا دیں۔ اس روز رات کو نوجوان گہری نیند سو گیا تو چڑیل نے آ کر آہستہ سے اس کے منھ سے جادو کا پتھر نکال لیا اور فوراً اس کو حکم دیا۔ "اے جادو کے پتھر! سونے کے محل کو شہزادی کے ساتھ ہی بادشاہ کے باغ میں منتقل کر دو اور غریب نوجوان پہلے جہاں تھا اسے وہی پہنچا دو۔”

    ایک ہی لمحہ بعد سونے کا محل بادشاہ کے باغ میں کھڑا تھا۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ نہ محل ہے، نہ شہزادی اور وہ خود اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے اندر پڑا ہوا ہے۔ پاس ہی اس کی ماں بیٹھی رو رہی ہے اور ایک کونے میں کتّا، بلّی اور چوہا اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

    "ہائے میری بدقسمتی!” نوجوان مایوس ہو کر کہہ اٹھا۔ "جادو کا پتھر گم ہو گیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کتّے، بلّی اور چوہے کو نوجوان پر رحم آ گیا۔

    ان میں سے ہر ایک اپنے دل میں سوچنے لگا کہ اب آخر کیا کیا جائے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کتّا بھونک اٹھا، بلی میاؤں میاؤں کر اٹھی، چوہا چیں چیں کرنے لگا۔ وہ تینوں دوڑتے ہوئے جھونپڑی سے باہر نکلے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

    وہ تینوں تمام دن برابر دوڑتے رہے اور شام ہوتے ہوتے بادشاہ کے باغ تک پہنچے۔ انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دیوار کے اس طرف نوجوان کا سنہرا محل چمک رہا تھا۔ "اب ہم کو کسی طرح باغ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔” کتّے، بلّی اور چوہے تینوں نے آپس میں طے کیا۔

    لیکن باغ کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ ان کو پھاند کر اندر جانا ناممکن تھا۔ سب دروازوں پر اندر سے مضبوط تالے لگے تھے۔

    تینوں دیوار میں کوئی سوراخ تلاش کرنے لگے۔ سوراخ نہ ملا تو وہ تینوں مل کر دیوار کے نیچے زمیں میں ایک سوراخ بنانے لگے۔ سب سے پہلے چوہے نے اپنے پنجے کام میں لگا لیے۔ پھر بلّی، اور آخر میں کتّا اس کی جگہ کام میں لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرنگ تیار ہو گئی۔

    پہلے چوہا سوراخ سے ہو کر اندر گیا۔ پھر بلّی بھی اندر چلی گئی۔ کتّا باہر پہرہ دینے لگا۔

    بلّی اور چوہا دونوں سارے محل میں دوڑتے پھرے اور بالآخر اس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں شہزادی سوئی ہوئی تھی اور پاس ہی چڑیل پڑی سو رہی تھی، جس نے اپنے ہونٹ زور سے بھینچ رکھے تھے۔ عقل مند چوہا فوراً سمجھ گیا کہ جادو کے پتھر کو اس نے اپنے منھ میں زبان تلے دبا رکھا ہے۔

    چوہا دبے پاؤں جا کر چڑیل کی چھاتی پر چڑھ گیا اور اپنی دُم کی نوک سے اس کی ناک میں گدگدی کرنے لگا۔ چڑیل نے اپنا منھ کھول کر ایک چھینک ماری اور جادو کا پتھر اچھل کر فرش پر گر پڑا۔ بلّی نے فوراً اس کو منھ میں اٹھا لیا اور جب تک چڑیل ہوش سنبھالتی بلّی اور چوہا دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہوئے سوراخ کے راستے باہر سڑک پر آ گئے جہاں کتّا ان کا انتظار کر رہا تھا، کتّے نے فوراً جادو کا پتھر بلّی سے لے کر اپنے منھ میں دبا لیا اور تینوں آگے دوڑ پڑے۔

    ادھر محل میں کھلبلی مچ گئی۔ سب "پکڑو! پکڑو!” کر کے چیخنے لگے۔ چور کی تلاش ہونے لگی، لیکن انھیں یہ کیا معلوم تھا کہ جادو کا پتّھر کسی کتّے کے منھ میں پڑا ہوا ہے۔

    کتا، بلّی اور چوہا تینوں دوڑتے ہوئے تھوڑی دیر میں دریا کے کنارے پہنچے اور آپس میں اس بات پر بحث کرنے لگے کہ جادو کے پتّھر کو اس پار کون لے جائے؟

    بلّی کہتی تھی: "پتھر کو اس پار میں لے جاؤں گی۔”

    کتا کہتا تھا: "نہیں، تمھیں تو تیرنا بھی نہیں آتا، کہیں اس کو لیے ڈوب ہی نہ جاؤ۔

    چوہے کی بھی یہی خواہش تھی کہ جادو کے پتّھر کو اُس پار میں لے جاؤں۔ تینوں بہت دیر تک بحث کرتے رہے۔ کتّا اپنی بات پر اڑا رہا اور پتّھر اسی کے پاس رہ گیا۔ تینوں تیرتے ہوئے دریا پار کرنے لگے۔ اچانک کتّے نے پانی میں اپنا عکس دیکھ لیا اور کوئی دوسرا کتّا خیال کر کے زور سے جو بھونکا تو جادو کا پتھر اس کے منھ سے نکل کر پانی میں گر گیا۔ اسی وقت اچانک کہیں سے ایک بڑی سی مچھلی نکلی اور وہ پتھر کو نگل گئی۔

    "میں نے کہا تھا نا کہ پتھر کو تم ہر گز نہ لے جانا۔” بلّی نے مایوس ہو کر کتّے سے کہا۔ اب وہ تینوں پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ اپنے مالک کے پاس خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتے تھے۔ نزدیک میں ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ وہ تینوں حیران و پریشان چلتے ہوئے اس بستی میں گئے۔ تینوں کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔

    خوش قسمتی سے ایک مچھیرے نے ایک بڑی مچھلی پکڑ لی تھی۔ اس نے مچھلی کو کاٹ کر اس کی آنتیں پھینک دیں۔ کتا بلّی اور چوہا تینوں آنتوں کو کھانے لگے۔

    اچانک بلّی خوشی سے میاؤں کر اٹھی۔ معلوم ہوا کہ مچھلی کی آنتوں میں اس کو اچانک کوئی چمکیلا پتّھر مل گیا ہے۔ تینوں نے اس کو ذرا غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ انھیں کا جادو کا پتھر ہے، تینوں خوشی سے اچھلنے لگے۔

    بلّی نے پتھر کو اپنے منھ میں لے لیا اور تینوں اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ گھر پہنچتے ہی بلّی نے جادو کے پتھر کو نوجوان کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ نوجوان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اس نے کتّے، بلّی اور چوہے تینوں سے کہا:

    "تم لوگوں کا احسان میں جیتے جی نہیں بھولوں گا۔”

    "اور ہم جیتے جی تمھاری خدمت کرنے کو تیار ہیں، کیوں کہ کبھی تم ہی نے ہماری جانیں بچائی تھیں۔” کتّے، بلّی اور چوہے نے ایک آواز میں اس کو جواب دیا۔

    نوجوان نے جوش میں آ کر کہا: "ابھی میں پتّھر کو حکم دیتا ہوں، وہ سونے کا محل پھر سے آ جائے گا۔”

    ماں نے بیٹے کو روکتے ہوئے کہا: "رہنے دو بیٹے۔ سونے کے محل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔” تب نوجوان نے جادو کے پتھر سے کہا:

    "محل کو مٹا دو۔” تو بس پھر کیا تھا، نہ محل رہا، نہ چڑیل رہی اور نہ ہی بادشاہ اور اس کی بیٹی رہی۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔

    لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بعد نوجوان نے ایک مالی کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہ لوگ بڑے سکھ اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    (مصنّف: نامعلوم)