Tag: اردو ادب

  • سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    یورپ میں سوئٹزر لینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیّاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی و نظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔

    خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور مِلا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دل فریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔

    کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بہ فلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے۔

    تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشانِ چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دل فریبیاں کر رہے ہوں۔ وہ پری جمال اور دل رُبا چہرے جو صد ہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہِ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدّی مگر توانا و تن درست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو، مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہیے۔

    الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم مِلان سے ریل پر سوار ہو کے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ مِلان سے 4 بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوش نما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدّت نہیں نظر آتی تھی۔

    صبح کو تڑکے ہی اٹھائے گئے، اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزر لینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔ چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔

    یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلافِ معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیر ہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
    تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاری گری کا ہاتھ بالکل نہیں لگا تھا۔

    ریل سر سبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہم سفر انگلش دوست بار بار چلّا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔

    جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سَر بہ فلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، مشہور ناول نگار اور جیّد صحافی عبدالحلیم شرر کے سفر نامے سے انتخاب)

  • معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    معروف ماہرِ تعلیم اور مصنّف میجر آفتاب حسن کی برسی

    میجر آفتاب حسن کو سائنسی موضوعات پر اردو زبان کے مصنّف، محقّق اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے علمِ سائنس کے مختلف شعبوں کے حوالے سے مضامین اور تحقیقی کام کا اردو ترجمہ اور سائنسی اصطلاحات سازی میں‌ اہم کردار ادا کیا۔ آج میجر آفتاب حسن کی برسی ہے۔

    میجر آفتاب حسن بازید پور (بہار) میں 16 ستمبر 1909ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ملٹری اکیڈمی کاکول میں سائنسی شعبے کے سربراہ رہے، بعدازاں اردو سائنس کالج، کراچی کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔

    1960ء سے 1972ء تک جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کے سربراہ رہے۔ اس دوران انھوں نے اردو زبان میں سائنسی اصطلاحات سازی اور سائنس و تحقیق کے موضوعات پر کتب کی اشاعت کے لیے نہایت اہم اور قابلِ ذکر کام کیا اور اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    وہ مقتدرہ قومی زبان کے پہلے معتمد بھی تھے۔ میجر آفتاب حسن 26 فروری 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    آج نام وَر نقاد، افسانہ اور ناول نگار ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 26 فروری 1978ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 22 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کا موضوع پی ایچ ڈی کے لیے چنا اور یوں تعلیمی میدان میں مزید آگے بڑھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے تھے۔

    پاکستان میں انھوں نے جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی سے وابستگی کے دوران تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے۔ وہ انگریزی ادب کے ایک مستند استاد ہونے کے علاوہ بلند پایہ ادیب اور نقّاد تھے۔ انھیں جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا جب کہ اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر وں میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے جن میں ان کے فکر کا تنوع اور گہرائی دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کی بات کی جائے تو ان کا شمار صفِ اوّل کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں انھوں نے اپنی جو کتب یادگار چھوڑی ہیں‌، ان میں اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخ انگریزی ادب سرفہرست ہیں۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی۔ ان کے ناولوں میں شامِ اودھ، آبلہ دل کا، سنگِ گراں اور سنگم شامل ہیں جب کہ افسانوں کا مجموعہ رہِ رسمِ آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

    کوئٹہ میں وفات پانے والے ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کو کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ضرورت نہیں ہے!

    ضرورت نہیں ہے!

    اخبارات میں "ضرورت ہے” کے عنوان سے مختلف اشیا کی خرید و فروخت اور اسامیوں کے اشتہارات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، جو سنجیدہ اور واقعی ضرورت و طلب کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن ابنِ انشا نے ان اشتہارات کو یوں اپنی شگفتہ بیانی اور شوخیِ طبع کی "نذر” کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ہمیں درکار نہیں
    کار مارس مائنر ماڈل 1959ء بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو، نہایت خوب صورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔

    عدم ضرورتِ رشتہ
    ایک پنجابی نوجوان، برسرِ روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہ وار کے لیے باسلیقہ، خوب صورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دو شیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔

    داخلے جاری نہ رکھیے
    کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کر لیا تھا۔

  • اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں کیا فتنہ گرِ قد و گیسو تھی۔ پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ initiative ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریقِ مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔

    یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر سے ہی آیا: "تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟” اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ "تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد؟” لیکن سچّی بات یہ ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

    ” جی ہاں، نیا تو ہوں، ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں۔”

    "اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟”

    "یہی کہ عارضی ہوں۔”

    "تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں۔” رضیہ کا اشارہ دیوانِ غالب کی طرف تھا۔ میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا: "آپ دیوانِ غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟”

    "جی ہاں! اور خود غالب کو بھی۔”

    "میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پر یہ عتاب کیوں؟”

    "آپ ذرا آسان اردو بولیے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟”

    "عتاب غصّے کو کہتے ہیں۔”

    "غصّہ؟ ہاں غصّہ اس لیے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے پورا دیوان کیوں لکھ مارا؟”

    "اس لیے کہ لوگ پڑھ کر لذّت اور سرور حاصل کریں۔”

    "نہیں جناب۔ اس لیے کہ ہر سال سیکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں۔”

    "محترمہ۔ میری دل چسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمائیے آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟” جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی، لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

    میں نے کہا، "یہ تو بڑی لاجواب غزل ہے، ذرا پڑھیے تو۔”

    "میرا خیال ہے آپ ہی پڑھیں۔ میرے پڑھنے سے اس کی لاجوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے۔” مجھے محسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ صاحبہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔

    میں نے کہا، "میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہوگا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔”

    رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچّہ پڑھتا ہے۔

    ” یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل۔۔۔۔” میں نے ٹوک کر کہا۔

    "یہ وصل نہیں وصال ہے، وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔”

    رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔

    رضیہ بولی: "اچھا۔ وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟”

    "وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پھر مصرع پڑھیں۔” رضیہ نے دوبارہ مصرع پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

    "وصال یار نہیں وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔”

    "اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟”

    "یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آرہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔”

    "تو سیدھا سادہ وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟”

    "اس لیے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔” یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

    علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟”

    "علما کا تعلق وصال سے نہیں زیر سے ہے۔”

    "اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟”

    "شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔”

    "قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے، مطلب یہ کہ بے چارے کو وصال نصیب نہ ہوا۔”

    "جی ہاں کچھ ایسی ہی بات تھی۔”

    "کیا وجہ؟”

    "میں کیا کہہ سکتا ہوں؟”

    "کیوں نہیں کہہ سکتے۔ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔”

    "شاعر خود خاموش ہے۔”

    "تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی مگر یہ خوش خبری سنادی کہ وصال میں فیل ہوگئے؟”

    ” جی ہاں فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔” رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    میں نے رضیہ کی دل جوئی کے لیے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا، "شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔”

    "اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنیٰ بتا دیں۔” ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا۔

    "مطلب صاف ہے، غالب کہتا ہے قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔”

    ” توبہ اللہ، اتنا Lack of confidence، یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھےِ؟”

    گئے گزرے؟ نہیں تو۔۔۔غالب ایک عظیم شاعر تھے۔”

    "شاعر تو جیسے تھے، سو تھے لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے”

    (ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان کے قلم سے)

  • سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    سخت سردی کے باوجود مولانا نے کمبل اوڑھنا گوارا نہ کیا!

    انگریز برِصغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے، یہ کپاس انگلستان جاتی، وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے۔

    پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

    ایک کپاس ہی کیا، برِصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برِصغیر میں کارخانے بھی کم تھے۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

    برِصغیر کے راہ نماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کے لیے سودیشی تحریک شروع کی۔ سودیشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برِصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

    دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔ یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

    سودیشی تحریک کو لوگوں نے کام یاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہے۔

    ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے۔ رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔”

    مولانا سیّد صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سیّد صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے تو ہیں۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے۔

    ہُوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے، مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچّے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

    اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی” سے نثر پارے)

  • جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ کڑوی اور دل خراش، لیکن انسان مشیّتِ ایزدی کے آگے بے بس ہے۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ، خاص و عام، امیر غریب سبھی کو اس جہانِ رنگ و بُو سے ایک روز جانا پڑے گا۔

    اسی موضوع پر یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا

    موت سے کس کو رستگاری ہے
    آج وہ، کل ہماری باری ہے

    ہر عام آدمی کی طرح فن کار اور اہلِ قلم بھی اپنوں کی دائمی جدائی کا صدمہ اٹھاتے ہیں اور رفتگاں کو شدّت سے یاد کرتے ہیں اور یہ شدّت، یہ کرب اُن کی قوّتِ متخیلہ سے اُن کے فن میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مراثی اور حزنیہ کلام ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ، ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی ایک ایسی ہی نظم پیش کررہے ہیں‌ جو انھوں‌ نے اپنے بھائی کی رحلت کے بعد ان کی یاد میں‌ لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان "نوحہ” ہے جس میں فیض نے بھائی کے لیے اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دائمی جدائی کے کرب کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

    نوحہ
    مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
    لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

    اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
    اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب

    اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
    اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

    کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
    مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب

    آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال
    آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب

    آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
    مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

  • جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    آج جہانِ سخن میں ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات ہے جو زود گو اور ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے والے ان شعرا میں‌ سے ہیں‌ جنھوں‌ نے غزل کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر نہایت خوب صورت نظمیں کہیں اور ادب میں بڑا نام پیدا کیا۔

    صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ شعروسخن کی طرف مائل ہوئے۔

    صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمہ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے حمد و نعت کے علاوہ غزل، نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ انھیں پاکستانی ادب کے معماروں‌ میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    صہبا اختر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    اس نام وَر شاعر کو کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • جزائرِ ہند کے بے رحم یورپی تاجر

    جزائرِ ہند کے بے رحم یورپی تاجر

    سولھویں صدی کے اخیر میں ہالینڈ کے بہادر جہاز رانوں کو بھی یہ امنگ ہوئی کہ ایک عرصے سے پرتگیز ہند کی تجارت سے مالا مال ہو رہے ہیں، آئو اب ہم بھی وہاں چلیں اور اُس ملک کی تجارت سے ہاتھ رنگیں۔

    یہ دُھن باندھ کر وہ ہند کی طرف آئے اور پچاس برس کے عرصے میں انہوں نے پرتگیزوں سے کئی بستیاں چھین لیں اور یا تو پرتگیز ہند کے ساحلِ بحر پر حکم راں تھے یا اب اہلِ ہالینڈ کا بحری اقتدار سب پر غالب ہو گیا۔

    بنگالے میں جو چنسرا نام کا ایک مقام ہے، وہ ان لوگوں کی حکومت کا صدر تھا۔ مگر اُن کی حکومت کو بہت عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُن کو ایک ایسی ہم سَر قوم سے آکر مقابلہ پڑا جو اہلِ پرتگال سے کہیں زیادہ زبردست تھی۔ یعنی اب ان کی اہلِ انگلستان سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ کیوں کہ کچھ عرصے سے انگریز بھی ہند میں اپنے قدم جمانے لگے تھے۔

    ولندیز ہی یورپ کی پہلی قوم تھی جو پرتگیزوں کی تجارت میں مخل ہوئی۔ سولھویں صدی میں برگس اینٹ ورپ اور ایم سٹرڈم میں ہندوستان کی پیداوار زیادہ تر جایا کرتی تھی اور جرمن اور انگریز اسے خرید لے جاتے تھے۔ ولندیزوں نے بھی یورپ اور ایشیا کے شمالی کنارے کے برابر برابر ہند کا بحری راستہ دریافت کیا۔

    ولیم بارنٹس تین دفعہ اس کام کے لیے روانہ ہوا مگر آخری بار راستے ہی میں مر گیا۔ پہلا ولندیز جو راس امید کے گرد ہو کر ہندوستان میں آیا، کارنیلس ہوئیمن تھا۔ ہالینڈ کے بہت سے شہروں میں تجارت کی کمپنیاں فوراً ہی بن گئیں اور پھر سب مل کر ایک ہو گئیں۔ 1619ء میں ولندیزوں نے جاوا میں شہر بیٹویا کی بنیاد ڈالی۔ ان کی بڑی تجارت کی کوٹھی امبونا میں تھی۔

    سترھویں صدی میں ولندیزوں کی بحری طاقت دنیا میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ 1623ء میں انہوں نے بہت سے انگریزوں کو قتل کر ڈالا۔ چند ایک ہندوستان سے بھاگ آئے اور ہند میں سلطنتِ انگریزی قائم کرنے کا سبب ہوئے۔ ولیم آف اورمینج کے بادشاہِ انگلستان ہو جانے سے انگریزوں اور ولندیزوں میں لڑائیاں کم ہوئیں۔

    ولندیز کچھ عرصے تک بے خوف و خطر جزائرِ ہند میں حکم راں رہے اور انہوں نے پرتگیزوں کو چُن چُن کر وہاں سے نکالا۔

    ولندیزوں کا عروج کچھ بہت عرصے تک نہیں رہا۔ اُن کے زوال کا باعث اُن کی تجارت ہی ہوئی۔ تجارت زیادہ تر مسالوں ہی کی ہوا کرتی تھی اور وہ بھی بغیر کسی اصول کے، وہ اپنے ہم سَروں پر بڑی بے رحمیاں کیا کرتے تھے اور شائستگی بالکل نہ پھیلاتے تھے۔

    رابرٹ کلابو نے اُن کو بڑا ضعف پہنچایا۔ جب اُس نے چنسرا پر حملہ کیا تو قلعہ کے اندر قید ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کی لڑائی میں انگریزوں نے ولندیزوں کی مشرقی کوٹھیاں چھین لیں۔ زمانہ حال میں ولندیز ہندوستان میں کسی جگہ کے حاکم نہیں ہیں، مگر چنسرا اور ناگ پٹن کے مکانات کی وضع اور ساحل کارومنڈل اور ملیبار کے بندرگاہوں کی چھوٹی چھوٹی نہریں اُن کی یاد کو تازہ کرتی رہتی ہیں۔

    (علامہ اقبال اور لالہ رام پرشاد کی کتاب تاریخِ ہند سے انتخاب)

  • جود و سخا میں‌ مشہور چندو لال ‘مہاراجا’ کیسے بنے؟

    جود و سخا میں‌ مشہور چندو لال ‘مہاراجا’ کیسے بنے؟

    راجا چندو لال 1762ء میں پیدا ہوئے۔ راجا ٹوڈر مل ان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ یہ کہتری قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جدِ امجد رائے مول چند آصف جاہ اوّل کی ہمرکابی میں دکن آئے تھے۔

    راجا چندو لال کم سنی میں یتیم ہوگئے تھے۔ سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد شمشیر جنگ اور بدیع اللہ خاں کمشنر کروڈ گری کی ماتحتی میں کام کرتے رہے۔ پھر ترقی کرکے سبزی منڈی کی محرری پر مامور ہوئے اور صبح سے شام تک منڈی میں بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے بعد بیلی کے عہدے پر ترقی کی۔

    1797ء میں شمشیر جنگ نے انہیں اپنے تعلقہ موروثی کی کار پردازی پر مقرر کردیا اور اسی سال مشیر الملک بہادر کی تحریک پر دربارِ آصفیہ سے یہ قلعہ سدوٹ، موضع کریہ اور کانجی کوٹہ وغیرہ کے انتظام کے لیے چار ہزار سوار اور چار ہزار پیدل کے ساتھ مامور کیے گئے اور راجا بہادر کا خطاب پایا۔

    اس مہم سے واپسی کے بعد شمس الامرا کی جمعیت پائیگاہ ان کو تفویض کی گئی۔ ان خدمات کو انہوں نے کمال حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ جس کی وجہ سے میر عالم بہادر وزیر مملکت آصفیہ کی نگاہوں میں ان کا مقام بڑھ گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد سکندر جاہ بہادر نے ان کی قابلیت سے آگاہ ہوکر افواجِ آصفیہ کا پیش کار مقرر فرمایا۔

    1235ھ (1820۔1819ء) میں نواب سکندر جاہ بہادر نے ان کو مہاراجا کا خطاب دے کر نوبت اور جھالر دار پالکی سے سرفراز فرمایا۔ اور اس کے علاوہ ایک کروڑ روپیہ نقد عطا فرمایا۔ 1822ء میں ہفت ہزاری منصب سے سرفراز کیا۔ نواب منیر الملک کے انتقال کے بعد مہاراجہ چندو لال وزارتِ عظمیٰ پر سرفراز کیے گئے۔ 1844ء میں ملازمت سے مستعفی ہوئے اور 1854ء میں 86 برس کی عمر میں انتقال کیا۔

    مہاراجا چندو لال کو انگریزوں کی تائید کی وجہ سے ایسا مقام حاصل ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم امورِ نظم و نسق سے تقریباً بے دخل تھا اور سوائے دستخط کے عملاً اسے کوئی اختیار نہ تھا۔ نواب سکندر جاہ بھی بالکل بے اختیار ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے ان حالات سے متاثر ہو کر محل سے نکلنا چھوڑ دیا تھا، بعض اوقات چار چار سال تک انہوں نے قدم باہر نہیں نکالا۔

    1829ء میں نواب سکندر جاہ کا انتقال ہو گیا اور نواب میر فرخندہ علی خاں ناصرُ الدّولہ آصف جاہ رابع تخت نشین ہوئے۔ 1832ء میں نواب منیر الملک وزیرِ اعظم کا انتقال ہوگیا اور راجا چندو لال وزیرِ اعظم مقرر ہوگئے۔

    راجا چندو لال کے اوصاف میں جس چیز نے نظم اور نسق اور تہذیب دونوں کو متاثر کیا وہ ان کا جود و سخا تھا۔ ان کی فراخ دستی اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ نہ صرف مختلف تیوہاروں اور تقاریب پر وہ بے دریغ روپیہ صرف کردیتے بلکہ ہر روز ان کے داد و دہش کا یہ عالم رہتا کہ بقول نجم الغنی، مثنوی سحرُالبیان کے واقعات اس کے آگے پھیکے پڑ جاتے تھے۔

    حکیموں، شاعروں، مرثیہ خوانوں، سوز خوانوں اور اربابِ نشاط و طرب کو ہزاروں روپے انعام میں دیتے اور ان کی تنخواہیں اس کے سوا ہوتی تھیں۔ راجا چندو لال نے حیدرآباد میں بہت سی خوب صورت و بیش قیمت عمارتیں بنوائیں۔ اس فیاضی کے اثر سے اہلِ ہنر تو مستفید ہوئے لیکن اس کا بار حکومت کے خزانہ پر پڑا۔ چندو لال خود بھی شاعر و ادیب تھے اور اہلِ ہنر کے قدر داں تھے۔

    راجا چندو لال اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ ہر رات کئی گھنٹے اہلِ علم کی مجلس آراستہ کرتے جس میں شعر و سخن اور مسائلِ تصوف کا چرچا ہوتا۔ اس دور کے شعرا میں مولوی بو تراب، مولوی محمد حسین، مولوی غلام حسین، حفیظ دہلوی، فائز حاجی محمد علی ساغر، مرزا محمد طاہر تبریزی، حسین علی خاں ایما، تاج الدین مشتاق، ذوالفقار علی خاں صفا، میر عنایت علی ہمت، احمد علی شہید، ظہور اکرم، میر مفتون وغیرہ قابلِ ذکر شعرا گزرے ہیں۔

    (ضیا الدین احمد شکیب کے تحقیقی مضمون سے اقتباس، جس کی تیّاری میں مضمون نگار نے تاریخِ ریاستِ حیدرآباد دکن از محمد نجمُ الغنی خاں کا حوالہ بھی دیا ہے)