Tag: اردو ادب

  • معروف شاعر اور کالم نگار شبنم رومانی کی برسی

    معروف شاعر اور کالم نگار شبنم رومانی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب شبنم رومانی 17 فروری 2009ء کو وفات پاگئے تھے آج ان کی برسی منائی جارہی ہے

    30 دسمبر 1928ء کو شاہ جہاں پور میں پیدا ہونے والے شبنم رومانی کا اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائی تھا۔ شبنم ان کا تخلص تھا۔ بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔ یہاں تخلیقی سفر اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ کالم نگاری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔

    طویل عرصے تک روزنامہ مشرق میں ہائیڈ پارک کے نام سے ان کے ادبی کالم شایع ہوتے رہے تھے اور اسی نام سے کالموں کا مجموعہ بھی منظرِ عام پر آیا۔ شبنم رومانی نے 1989ء میں ادبی جریدہ اقدار جاری کیا جو ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔

    شبنم رومانی کے شعری مجموعے مثنوی سیرِ کراچی، جزیرہ، حرفِ نسبت، تہمت اور دوسرا ہمالا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ شبنم رومانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے

    غزل
    میرے پیار کا قصّہ تو ہر بستی میں مشہور ہے چاند
    تُو کس دھن میں غلطاں پیچاں کس نشے میں چور ہے چاند

    تیری خندہ پیشانی میں کب تک فرق نہ آئے گا
    تُو صدیوں سے اہلِ زمیں کی خدمت پر مامور ہے چاند

    اہلِ نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ماہِ کامل کہتے ہیں!
    تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھرپور ہے چاند

    تیرے رُخ پر زردی چھائی میں اب تک مایوس نہیں
    تیری منزل پاس آ پہنچی میری منزل دور ہے چاند

    کوئی نہیں ہم رازِ تمنّا کوئی نہیں دم سازِ سفر
    راہِ وفا میں تنہا تنہا چلنے پر مجبور ہے چاند

    تیری تابش سے روشن ہیں گُل بھی اور ویرانے بھی
    کیا تُو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند

  • ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    آل احمد سرور بدایوں کے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعات کے شعبۂ اردو میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ سرور نے ادب کے مطالعے کے ساتھ قلم تھاما اور شاعری اور تنقید نگاری میں نام و مقام بنایا۔

    ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ تازہ کاری ملتی ہے۔ اردو ادب کے اس نام وَر کی ایک غزل آپ کے حسنِ‌ مطالعہ کی نذر ہے۔

    وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے
    چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے

    بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند
    ہم ایک شوخ کرن سے پگھل گئے کیسے

    امید جن سے تھی وضعِ جنوں نبھانے کی
    وہ لوگ وقت کے سانچے میں ڈھل گئے کیسے

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا
    خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے

    خزاں سے جن کو بچا لائے تھے جتن کر کے
    وہ نخل اب کے بہاروں میں جل گئے کیسے

    نہ جانے کیوں جنہیں سمجھے تھے ہم فرشتے ہیں
    قریب آئے تو چہرے بدل گئے کیسے

    ہر ایک سایۂ دیوار کی لپیٹ میں ہے
    سرورؔ آپ ہی بچ کر نکل گئے کیسے

  • مادھو، جس نے لاہور کے نوجوان شعرا کو پریشان کر دیا تھا!

    مادھو، جس نے لاہور کے نوجوان شعرا کو پریشان کر دیا تھا!

    عشق، مشک اور شاعری یہ تین چیزیں کبھی چھپی نہیں رہا کرتیں۔ ان کی خوش بُو پھیلے ہی پھیلے۔

    اس شہر لاہور میں ایک نوجوان تھا جو نظم پہ نظم باندھے چلا جارہا تھا اور چھپا کر رکھے چلا جارہا تھا۔ شاعری جب بہت ہو گئی اور اس کے لیے چھپا کر رکھنا مشکل ہو گیا تو اس نے شہر میں ایک رازداں تلاش کیا۔

    یہ صفدر میر تھے۔ اس سادہ دل نے اپنی نظموں کی کاپی صفدر میر کے سپرد کر دی اور تاکید کی کہ کسی دوسرے تک یہ راز نہ پہنچے۔ یہ 60ء کی آس پاس کا ذکر ہے۔ ان دنوں لاہور شہر میں نوجوان شاعروں کی ایک پوری ٹولی نئی شاعری کا طوفان اٹھا رہی تھی۔

    انہی دنوں کراچی سے محمد حسن عسکری کے سائے میں ایک ادبی پرچہ نکلا۔ صفدر میر سے شاعری کی یہ کاپی اسمگل ہو کر اس رسالہ میں پہنچ گئی۔ وہاں یہ نظمیں چھپیں۔ بس اس کے ساتھ ہی ایک نئی قسم کی شاعری کی خوش بُو کراچی سے لاہور تک پھیل گئی۔ شاعر کا نام پھر بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ نظمیں مادھو کے نام سے شائع ہوئیں۔

    لاہور کے نوجوان نئے شاعر سخت پریشان کہ یہ مادھو کون ہے مگر مادھو تو ان کے بیچ میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اتنا سیدھا سادہ اور خاموش قسم کی شے تھا کہ انہیں اس پر شاعر ہونے کا گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

    وہ روز کوئی کتاب بغل میں دابے پجامہ قمیص پہنے ٹی ہاﺅس آتا۔ نئے شاعروں کے بیچ میں بیٹھ کر خاموشی سے شاعری پر بحثیں سنتا۔ پھر بیزاری سے لمبی جمائی لیتا اور اٹھ کر چلا جاتا۔

    رفتہ رفتہ یہ بات نکل گئی کہ زاہد ڈار مادھو ہے۔ تب نئے شاعر اس غریب پر بہت لال پیلے ہوئے کہ تم نے یہ نظمیں لکھی ہیں۔ اس نے بہت انکار کیا مگر بالآخر اسے اعتراف کرنا پڑا اور پھر وہ مادھو کا نقاب اتار کر سیدھا زاہد ڈار بن کر میدانِ شاعری میں اتر آیا اور 65ء آتے آتے اس نے اپنا مجموعہ کلام بھی ”درد کا شہر“ کے نام سے چھپوا دیا۔

    شاعر بالعموم رفتہ رفتہ کر کے مانے جاتے ہیں مگر زاہد ڈار تو بس آناً فاناً جانا پہچانا شاعر بن گیا، مگر شاعر اب پھر پردۂ اخفا میں ہے۔ اس کی نظم کسی رسالہ یا کسی اخبار میں نہیں دیکھی جاتی۔

    میں نے پوچھا کہ کیا تم نے شاعری سے توبہ کرلی ہے؟ جواب دیا کہ شاعری تو میں نے شروع ہی اب کی ہے۔

    پہلے کیا کر رہے تھے؟

    دل لگی۔ بات یہ ہے کہ شاعری محبت کے بغیر تو نہیں ہو سکتی۔

    پھر اس شاعری کو باہر کیوں نہیں لاتے؟ اس نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے اپنی طرف سے اور بات کہی۔

    کہا کہ ”شاعری میرے لیے فارم کا نام نہیں تجربے کا مسئلہ ہے۔ یہ تجربہ کسی بھی شکل میں اظہار پا سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی وقت رقص میں اظہار پا جائے۔“

    زاہد ڈار کو اس کی شاعری نہیں اس کی زندگی کا طور بھی دوسرے شاعروں سے الگ کرتا ہے۔

    سچ پوچھو تو اب اردو شاعری میں بے عمل شاعر ایک زاہد ڈار ہی رہ گیا ہے ورنہ سب شاعر اور سب ادیب صاحبِ عمل ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں۔

    زاہد ڈار کے لیے زندگی کی دوڑ اس قدر ہے کہ ایک عدد کتاب کے ساتھ صبح ہی گھر سے نکلنا اور سواری کا مرہونِ منت ہوئے بغیر ٹی ہاﺅس پہنچنا اور وہاں بیٹھ کر پوری کتاب ختم کر ڈالنا۔ کہتا ہے کہ بعض ادیب ادب برائے ادب کے قائل رہے ہیں۔ بعض ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ میں زندگی برائے شاعری کا قائل ہوں۔

    کتاب پڑھنا بھی زندگی برائے شاعری ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ ویسے کتاب پڑھنے کے سلسلے میں بھی زاہد ڈار کی ایک سنک ہے۔ انگریزی کتابیں بہت پڑھنے کے بعد اس نے یہ طے کیا کہ صرف اردو پڑھو اور صرف اردو لکھو۔ اب اس کا طور یہ ٹھہرا ہے کہ اردو کی جو کتاب نظر آتی ہے وہ اچھی ہو یا بری اسے پڑھ ڈالتا ہے۔ زاہد ڈار اردو کا وہ واحد قاری ہے جس نے اردو کی معیاری کتابوں کے ساتھ اسی زبان میں لکھی ہوئی گھٹیا کتابیں بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھی ہیں۔

    لاہور کی مال روڈ بہت خوش نصیب ہے۔ نئی سواریوں کی بہتات کے باوصف اسے ہر دور میں کوئی نہ کوئی پیادہ پا مل ہی جاتا ہے۔ اب سے پہلے بالعموم گرمیوں کی عین دوپہر میں اس کے فٹ پاتھ پر مولانا صلاح الدین سوٹ پہنے‘ ہیٹ لگائے‘ چھڑی ٹیکتے نظر آتے تھے۔ اب وقت بے وقت کبھی دوپہر میں‘ کبھی دن ڈھلے‘ کبھی شام پڑے زاہد ڈار کتاب دَر بغل ان فٹ پاتھوں پر بھٹکتا نظر آتا ہے۔

    اس کے یہاں بھٹکنے کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس وقت ٹی ہاﺅس میں بہت ہجوم ہے اور جس کونے میں وہ اکیلا بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا، اس گوشے کا امن اس کی میز پر آ کر بیٹھنے والے ادیبوں کے ہاتھوں برباد ہو چکا ہے۔ زاہد ڈار مولانا صلاح الدّین احمد کے بعد شہر کا دوسرا پیدل ادیب ہے۔‘‘

    (علم و ادب کے رسیا اور شاعر زاہد ڈار کے بارے میں‌ ممتاز ادیب اور نقّاد انتظار حسین کی ایک تحریر)

  • خوشامد

    خوشامد

    کسی جنگل میں ایک پیڑ کے نیچے لومڑی آرام کررہی تھی کہ کہیں‌ سے ایک کوّا اڑتا ہوا آیا اور درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ کوّے کی چونچ میں ایک بڑا سا گوشت کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس کا جی بہت للچایا اور وہ ترکیب سوچنے لگی کہ اسے کیسے ہڑپ کرسکے۔

    ادھر کوّا اس بات سے بے خبر اپنا سانس بحال کررہا تھا کہ اس کے لائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پر لومڑی کی نیّت خراب ہوچکی ہے۔

    کوّا اس وقت چونکا جب لومڑی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک واہ وا شروع کردی۔ وہ ایک سانس میں‌ بولے جارہی تھی کہ سبحان اللہ جیسی تیری صورت ہے، ویسی ہی سیرت بھی تُو نے پائی ہے۔ تیرے پر کیا خوش رنگ ہیں اور اس کی سیاہی کیسی چمک دار ہے۔ تیرے گلے پر کیسا اجلا نشان ہے اور تیری چونچ کتنی مضبوط اور حسین ہے۔

    کوّا اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھول گیا۔ پہلے کبھی کسی نے اس کی ایسی تعریف نہیں‌ کی تھی۔ ادھر لومڑی بولے ہی جارہی تھی۔‌ اے پرند تُو اپنی سیرت میں بھی یکتا ہے اور میں‌ نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو بڑا دور اندیش بھی ہے، مگر قدرت نے ایک صفت سے تجھے محروم رکھا ہے تاکہ تُو اپنی اوقات میں رہے اور کسی میں کوئی کمی دیکھے تو اسے حقیر جان کر طعنہ نہ دے سکے۔ کوّا جس نے اب تک اپنے لیے صرف تعریفی کلمات سنے تھے، اچانک ایسی بات سن کر تڑپ اٹھا اور یہ جاننے کے لیے فوراً اپنا منہ کھول دیا کہ وہ کس صفت سے محروم ہے؟

    کوّے نے جیسے ہی منہ کھولا، اس کی چونچ سے گوشت کا ٹکڑا نکلا اور لومڑی کے سامنے آ گرا جس نے اسے ہڑپ کرنے میں‌ بس اتنی ہی دیر لگائی جتنی دیر میں‌ کوئی پلک جھپکتا ہے۔ کوّا سمجھ گیا تھا کہ لومڑی نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔

    لومڑی نے کوّے سے کہا، اے کم عقل، تُو کس صفت سے محروم ہے، سچ پوچھ تو مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں‌، لیکن میں‌ یہ ضرور جانتی ہوں کہ خوشامد سے سو کام نکل سکتے ہیں۔

    (ماخوذ از حکایت)

  • علم دوست خدا بخش

    علم دوست خدا بخش

    جب کبھی کہیں‌ اجاڑ موسم آتا ہے تو پرندے وہاں سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔ کچھ یہی حال کتابوں کا ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جب تاتاریوں نے بغداد کو لوٹا تو وہاں کی کتابیں ٹونک تک پہنچیں اور جب عیسائیوں نے قرطبہ پر دھاوا بولا تو وہاں‌ پٹنہ تک گئیں۔

    ہمارا یہ باب پٹنہ کے لیے مخصوص ہے۔ ایک صاحب تھے "خدا بخش”۔ علم و ادب پر ان کے اتنے احسانات ہیں‌ کہ دل سے ان کے لیے یہی صدا نکلتی ہے کہ خدا بخشے۔

    ان کے والد جب انتقال کرنے لگے تو ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک ہزار چار سو کتابیں‌ بیٹے کے حوالے کرگئے اور کہہ گئے کہ جوں‌ ہی حالات اجازت دیں ان کتابوں کو عوام کے لیے کھول دینا۔

    خدا ایسی کتابیں اور ایسے بیٹے سب کو دے۔ خدا بخش علم کے اس خزانے میں‌ نئے نئے جواہر بھرتے گئے، یہاں‌ تک کہ ان کے پاس چار ہزار مخطوطے جمع ہوگئے۔ اب یہ کھیتی پک کر تیّار تھی۔ بیٹے نے باپ کا خواب پورا کر دکھایا۔ 29 اکتوبر 1891ء کو یہ کتب خانہ وقف قرار پایا اور کتب خانے کا نام رکھا گیا ” اورینٹل پبلک لائبریری” اس کے نام میں‌ نہ کسی شخصیت کا نام شامل تھا، نہ کسی کاروباری ادارے کا۔ مگر اس زمانے میں‌ عوام طے کیا کرتے تھے کہ ان کا محسن کون ہے۔

    چناں چہ لوگ نہ مانے۔ انھوں نے اورینٹل پبلک لائبریری کو اوّل دن سے خدا بخش لائبریری کہا اور بانکی پور کے بارونق علاقے میں وہ آج بھی خدا بخش لائبریری کے نام سے ماضی کی عظمتوں کا مینارہ بنی کھڑی ہے اور اس کی کرنیں‌ کہاں‌ کہا‌ں نہیں بکھری ہیں۔

    (نام ور براڈ کاسٹر، محقّق، مصنف اور سفر نامہ نگار رضا علی عابدی کے قلم سے)

  • چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اور میرا حافظہ بہت دور تک کام کرتا ہے۔ صرف قریب کی باتوں اور واقعات کو یاد رکھنے سے انکاری ہے۔ تو جہاں تک یاد پڑتا ہے ضمیر بھائی سے میرا تعارف 1951ء کے اواخر میں نہایت عزیز دوست میاں فضل حسن مرحوم کے توسل سے ہوا۔ فضل صاحب شعر و ادب، شکار اور موسیقی کے رسیا تھے۔ جامع الحیثیات شخصیت، کئی ہزار کتابوں اور ایک مل کے مالک تھے۔

    شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچّے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ یا خارج المیعاد یعنی پرانے سکّے جمع کرتے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو سات آٹھ شاعروں کو گھیر گھار کر گارڈن ایسٹ میں اپنے دولت کدے پر لاتے جہاں ایک بجے تک گپ اور لنچ کے بعد مشاعرے کا رنگ جمتا۔

    لنچ کا ذکر اس لیے بھی کرنا پڑا کہ من جملہ دیگر لذائذ کے دستر خوان پر چنیوٹ کا اچار بھی ہوتا تھا جس میں مجھ سے فرق ناشناس کو بس اتنا ہی فرق معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ کھٹا ہوتا ہے اور سرسوں کے تیل میں اٹھایا جاتا ہے جس کی بُو مجھے اچھی نہیں لگتی۔

    فضل صاحب کہتے تھے جس کیری پہ چنیوٹ کا طوطا بیٹھ جائے وہ بڑی جلدی پکتی اور گدر ہوتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ طوطا اگر انڈسٹری پہ بیٹھ جائے تو وہ بھی خوب پھل دیتی ہے۔ ہمارے ناپسندیدہ تیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں الہڑ مٹیاروں کے ہاتھوں کی مست مہک آتی ہے جو سنہرے کھیتوں میں سرسوں چنتی ہیں!

    ہمیں آج بھی اس تیل کا اچار کھانا پڑا تو یہ سمجھ کے کھاتے ہیں گویا سنہرے کھیتوں میں مذکورہ بالا ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں۔

    (نام ور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر "ضمیر واحد متبسم” سے اقتباس)

  • یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    یہ میر ناصر علی کون ہیں؟

    اللہ بخشے میر ناصر علی دلّی کے ان وضع دار شرفا میں سے تھے جن پر دلّی کو فخر تھا۔ عجب شان کے بزرگ تھے۔

    ‘‘بزرگ’’ میں نے انہیں اس لیے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں بزرگ ہی دیکھا۔ سوکھ کر چمرغ ہوگئے تھے۔ خش خشی ڈاڑھی پہلے تل چاولی تھی، پھر سفید ہوگئی تھی۔ کتری ہوئی لبیں، پوپلا منہ، دہانہ پھیلا ہوا، بے قرار آنکھیں، ماتھا کھلا ہوا، بلکہ گدّی تک ماتھا ہی چلا گیا تھا۔

    جوانی میں سرو قد ہوں گے، بڑھاپے میں کمان کی طرح جھک گئے تھے۔ چلتے تھے تو پیچھے دونوں ہاتھ باندھ لیتے تھے۔ مستانہ وار جھوم کے چلتے تھے۔ مزاج شاہانہ، وضع قلندرانہ۔ ٹخنوں تک لمبا کرتا۔ گرمیوں میں موٹی ململ یا گاڑھے کا، اور جاڑوں میں فلالین یا وائلہ کا۔ اس میں چار جیبیں لگی ہوتی تھیں جنہیں میر صاحب کہتے تھے۔ ‘‘یہ میرے چار نوکر ہیں۔’’ گلے میں ٹپکا یا گلو بند، سر پر کبھی کپڑے کی پچخ گول ٹوپی اور کبھی صافہ۔

    گھر میں رَدی کا کنٹوپ بھی پہنتے تھے اور اس کے پاکھے الٹ کر کھڑے کر لیتے، جب چُغہ پہنتے تو عمامہ سر پر ہوتا۔ اک بَرا پاجامہ، ازار بند میں کنجیوں کا گچھا۔ پاؤں میں نری کی سلیم شاہی، کسی صاحب بہادر سے ملنے جاتے تو انگریزی جوتا پاؤں میں اڑا لیتے۔

    آپ سمجھے بھی یہ میر ناصر علی کون ہیں؟ یہ وہی میر ناصر علی ہیں جو اپنی جوانی میں بوڑھے سرسیّد سے الجھتے سُلجھتے رہتے تھے۔ جنہیں سرسید ازراہِ شفقت ‘‘ناصحِ مُشفق’’ لکھتے تھے۔ ‘‘تہذیبُ الاخلاق’’ کے تجدد پسند رُجحانات پر انتقاد اور سر سیّد سے سخن گسترانہ شوخیاں کرنے کے لیےآگرہ سے انہوں نے ‘‘تیرہویں صدی’’ نکالا، اور نیچریوں کے خلاف اِس دھڑلّے سے مضامین لکھے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔

    صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اندازِ تحریر پر بہت سوں کو رشک آیا۔ بعض نے کوشش کرکے نقل اتارنی چاہی تو وہ فقرے بھی نہ لکھے گئے اور خون تھوکنے لگے۔ اردو میں انشائیہ لطیف کے موجد میر صاحب ہی تھے۔ ان کا اندازِ بیان انہی کے ساتھ ختم ہوگیا۔

    غضب کی علمیت تھی ان میں۔ انگریزی، فارسی اور اردو کی شاید ہی کوئی معروف کتاب ایسی ہو جس کا مطالعہ میر صاحب نے نہ کیا ہو۔ کتاب اس طرح پڑھتے تھے کہ اس کے خاص خاص فقروں اور پاروں پر سُرخ پنسل سے نشان لگاتے جاتے تھے اور کبھی کبھی حاشیے پر کچھ لکھ بھی دیا کرتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں شعر فارسی اور اردو کے یاد تھے، حافظہ آخر تک اچھا رہا۔ انگریزی اچھی بولتے تھے اور اس سے اچھی لکھتے تھے۔ ساٹھ پینسٹھ سال انہوں نے انشا پردازی کی داد دی۔

    نمک کے محکمے میں ادنٰی ملازم بھرتی ہوئے تھے، اعلیٰ عہدے سے پنشن لی۔ حکومت کی نظروں میں بھی معزز ٹھہرے ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب ملا، دلّی میں آنریری مجسٹریٹ رہے، اور پاٹودی میں نو سال چیف منسٹر۔

    (صاحبِ طرز ادیب شاہد احمد دہلوی نے علم و ادب میں‌ ممتاز میر ناصر علی دہلوی کا یہ خاکہ کاغذ پر اتارا تھا جس سے ہم نے چند پارے یہاں‌ نقل کیے ہیں)

  • دلِ احباب میں گھر رکھنے والے چکبست لکھنوی کا یومِ وفات

    دلِ احباب میں گھر رکھنے والے چکبست لکھنوی کا یومِ وفات

    12 فروری 1926ء کو اردو کے مشہور شاعر پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے متعدد اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔

    وہ شاعری ہی نہیں‌ نثر پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں‌ لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں‌ نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں‌ بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعہ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔

    چکبست کا یہ شعر بھی مشہور ہوا۔

    زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
    موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا

    یہاں‌ ہم چکبست کی ایک غزل آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
    سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا

    لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
    یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا

    کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
    وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا

    دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
    یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا

    کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
    شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا

    خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
    یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

  • مسافر کا لاشہ

    مسافر کا لاشہ

    (صحرا) بیچوں بیچ ایک کنواں جس کے گرد خار دار تار کی باڑ کھنچی ہوئی ہے۔ اس کے سلاخچے کے پاس ایک بڑا سا ڈول رکھا ہوا ہے۔ ڈول پر موٹی رسّی لپٹی ہوئی ہے۔

    (مسافر) تھکا ہارا اور ننگے پاؤں، پتلون قمیص پہنے، پسینے میں تربتر، اسٹیج پر آتا ہے۔ بہت پیاسا ہے، زبان باہر لٹکی پڑ رہی ہے۔ کنویں کی طرف لپکتا ہے۔ باڑ کے گرد کئی چکر کاٹتا ہے اور گردن بڑھا بڑھا کر کنویں کو دیکھتا ہے۔ تاروں کے بیچ سے گزرنا چاہتا ہے۔ نہیں گزر پاتا۔ تاروں کو پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے۔ اس کی انگلیاں زخمی ہوجاتی ہیں۔ پھر کنویں کے گرد دوڑ لگاتا ہے اور کنویں کو دیکھتا ہے۔ پھر تاروں کو پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے۔ پھر کنویں کے گرد دوڑتا ہے اور ہانپتا ہے۔

    (وہ) رک جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ ایک سلاخچے کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور ناخنوں سے سلاخچے کے اردگرد کی مٹی کھودتا ہے۔ سلاخچے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتا ہے اور زور لگاتا ہے۔ سلاخچہ اکھڑ جاتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے سلاخچے کو بھی اکھاڑ لیتا ہے۔ تار زمین پر گر جاتے ہیں۔ ایک طرف سے کنویں کا راستہ کھل جاتا ہے۔

    خالی ڈول کو اٹھاتا ہے اور کنویں میں ڈالتا ہے۔ کنواں گہرا ہے۔ مسافر کے ہاتھ میں رسّی کا سرا رہ جاتا ہے۔ بھاری ڈول کو اوپر کھینچتا ہے۔ بھری ہوئی بڑی سی مشک ڈول میں رکھی ہے۔ مشک کو تعجب سے دیکھتا ہے، ڈول میں سے نکالتا اور ہلاتا ہے۔ پانی کی آواز آتی ہے۔ جلدی جلدی مشک کا دہانہ کھولتا اور اسے ڈول میں انڈیلتا ہے۔ مشک ہوا سے پھولی ہوئی ہے۔

    کنویں کی تہ میں قہقہے لگتے ہیں۔ مسافر ڈر جاتا ہے اور مشک کو کنویں میں پھینک دیتا ہے۔ مشک اوپر اچھال دی جاتی ہے۔

    ڈول کنویں میں ڈالتا ہے اور رسّی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک بڑی سی پرانی کتاب باہر آتی ہے۔ کتاب کو اٹھا لیتا ہے اور اس کے ورق پلٹتا ہے۔ بڑے شوق سے اس کی تصویریں دیکھنے لگتا ہے۔ کنویں کی تہ میں رونا ہوتا ہے۔ کتاب مسافر کے ہاتھ سے نکل کر کنویں میں گر جاتی ہے۔ انتظار کرتا ہے۔ کتاب اوپر نہیں آتی۔

    پھر ڈول کنویں میں ڈالتا ہے، رسّی کو جھٹکے دیتا ہے، اوپر کھینچتا ہے۔ کٹا ہوا ایک ہاتھ اور ایک پیر ڈول میں رکھ دیا گیا ہے۔ دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ کنویں کے اندر قہقہے لگتے ہیں۔ مسافر ڈول کو کنویں میں الٹ دیتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کو پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

    کنویں میں ڈول کو ڈالتا ہے اور رسّی کو جھٹکے دیتا ہے۔ اوپر کھینچتا ہے اور دیکھتا ہے۔ ایک بہت بڑا ہیرا ڈول میں سے نکالتا ہے۔ خوشی خوشی ہیرے کو انگلیوں میں گھماتا ہے۔ کنویں کے اندر رونا ہوتا ہے۔ مسافر کچھ سوچتا ہے اور ہیرے سے کھیلتا رہتا ہے۔ ہیرا اس کی انگلیوں سے چھوٹتا ہے اور کنویں میں گر جاتا ہے۔ ہیرے کو دوبارہ اوپر نہیں پھینکا جاتا۔

    جِھلّا کر ڈول کو کنویں میں ڈالتا ہے، رسّی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک گلا ہوا مردہ سانپ ڈول میں رکھ دیا گیا ہے۔ دہل جاتا ہے۔ کنویں کے اندر قہقہے لگتے ہیں۔ ڈول کو کنویں میں پلٹ دیتا ہے۔ مردہ سانپ کو پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

    مسافر زمین پر بیٹھ جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ مردہ سانپ اور کٹے ہوئے ہاتھ پیر اور خالی مشک کو برابر برابر رکھتا اور دیکھتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھ پیر کو اپنے ہاتھ پاؤں سے ملا کر دیکھتا ہے۔ اٹھتا ہے اور ڈول کنویں میں ڈالتا ہے۔ رسی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک بڑا انار باہر آتا ہے۔ کنویں کے پاس سے ہٹ جاتا ہے اور انار پر منھ مارتا ہے۔ انار پلپلا ہوچکا ہے۔ کنویں کی تہ میں رونا ہوتا ہے۔ مسافر طیش کھا کر قریب جاتا ہے اور انار کو کنویں میں پھینک دیتا ہے۔

    رونے کی آواز یک دم رک جاتی ہے۔ مسافر پچھتاتا ہے۔ انتظار کرتا ہے۔ لجاجت کے ساتھ کنویں کو دیکھتا ہے۔ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ انار کو باہر نہیں پھینکا جاتا۔

    مسافر ڈول کو ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے ہوئے کئی مرتبہ کنویں کے گرد دوڑ لگاتا ہے۔ آسمان کو اور افق کو دیکھتا ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔

    کنویں کے کنارے بیٹھ جاتا ہے اور سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک مذہبی مرقع آہستہ آہستہ کنویں سے ابھرتا ہے۔ مسافر ہاتھ پھیلا کر مرقع کو پکڑ لیتا ہے اور سینے سے لگاتا ہے، بھنچی بھنچی آواز میں روتا ہے۔ کنویں کے اندر بہت سے لوگوں کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ مسافر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگتے ہیں۔ چند لمحے گزرتے ہیں۔ کنویں کے اندر رونے کا انداز دھمکانے کا سا ہوجاتا ہے۔ مسافر مرقع کو کنویں کے حوالے کردیتا ہے۔ انتظار کرتا ہے۔

    مرقع دوبارہ اوپر نہیں آتا۔ کچھ دیر سوچتا رہتا ہے۔

    وہ پھر ڈول کو اٹھاتا ہے اور سوچتا ہے۔ پھر اس کو کنویں میں ڈالتا ہے اور سوچتا ہے۔ اوپر کھینچتا ہے۔ ڈول میں ایک پستول رکھ دیا گیا ہے۔ پستول کو اٹھا لیتا ہے۔ کنویں میں سے ہنسنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پستول کو کنویں میں ڈال دیتا ہے۔ اسے دوبارہ اوپر اچھال دیا جاتا ہے اور قہقہے لگتے ہیں۔ پھر پستول کو ٹھوکر مار کر کنویں میں گرا دیتا ہے۔ تیسری بار قہقہے لگتے ہیں اور پستول اوپر اچھال دیا جاتا ہے۔

    مسافر پستول ہاتھ میں لیتا ہے اور کنویں کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ پستول کو اور کنویں کو دیکھتا ہے۔ زبان سے پستول کے فولاد کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا ہے۔ اس کی نال کو منھ میں لیتا ہے اور بے خیالی میں لبلبی دبا دیتا ہے۔

    گولی کا ٹراقا اسٹیج پر گونجتا ہے۔ مسافر کا جسد کنویں میں گر جاتا ہے۔ کنویں میں سے زور دار قہقہوں کی آواز بلند ہوتی ہے۔

    کچھ دیر تک خاموشی رہتی ہے۔ مسافر کا لاشہ اوپر اچھال دیا جاتا ہے۔

    (اس کہانی کا اصل عنوان ‘گدا’ ہے جس کے مصنّف غلام حسین ساعدی (ایران) اور مترجم نیّر مسعود ہیں)

  • تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    آج اردو زبان کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی کی برسی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا، انھوں نے تخلّص جمال اختیار کیا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا خاندان پانی پت کا تھا۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں شاعری کا آغاز کرنے والے جمال احسانی بہت جلد اہم غزل گو شعرا میں شمار ہونے لگے تھے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے