Tag: اردو ادب

  • پرنسپل کی کرسی اور عسکری صاحب

    پرنسپل کی کرسی اور عسکری صاحب

    اردو زبان و ادب میں محمد حسن عسکری کا نام ایک ایسے تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے جن کی تنقیدی فکر نے ان کے ہم عصروں کو متاثر بھی کیا اور انھوں نے اپنی نگارشات میں‌ جدید مغربی رجحانات کو اردو داں طبقے میں متعارف کرایا۔

    محمد حسن عسکری نام ور نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور انگریزی ادب کے استاد تھے جن سے متعلق ممتاز ادیب اور نقّاد سجاد باقر رضوی نے ایک جگہ لکھا ہے:

    ’’عسکری صاحب کو کئی بار کالج کی پرنسپلی کی پیش کش ہوئی، مگر وہ ہمیشہ انکار کر دیتے۔

    کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے، پرنسپل صاحب چھٹّی پر گئے تو انہیں بہ جبر و اکراہ چند دنوں کے لیے پرنسپل کا کام کرنا پڑا۔

    لوگوں نے دیکھا کہ وہ پرنسپل کی کرسی پر نہیں بیٹھتے۔ ساتھ کے صوفے پر بیٹھ کر کاغذات نمٹاتے ہیں۔

    ایک صاحب سے نہ رہا گیا، پوچھا: ”عسکری صاحب! آپ کرسی پر کیوں نہیں بیٹھتے؟“

    یار پھسلتی ہے۔“ عسکری صاحب نے کرسی کی مختصر مگر جامع تعریف کی۔‘‘

  • رانچی کے پاگل خانے کی "پری”

    رانچی کے پاگل خانے کی "پری”

    رانچی پاگل خانے کا جو منظر مجھے کبھی نہیں بھول سکا، وہ ایک بنگالی لڑکی تھی، جیسے سنگِ مَر مَر کو تراش کر کسی نے کوئی بُت بنایا ہو۔ باغیچے کے ایک الگ تھلگ کونے میں اکیلی بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے جیسے موتیوں کے دانے گر رہے ہوں۔

    میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ نیپال کی ڈاکٹر جو مجھے سینی ٹوریم دکھا رہی تھی، اس کا گلا یک لخت بھر آیا اور وہ خاموش ہو گئی۔

    پَل دو پَل کے لیے میرے قدم رک گئے اور میں اس حسینہ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔ دودھیا سفید کپڑے پہنے یوں لگ رہی تھی جیسے عرش سے اتری کوئی پری ہو۔ وہ ہلے جلے بغیر ایک جگہ خاموش بیٹھی تھی اور اس کے آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے۔ ” جیسے سنگِ مَرمَر کا کوئی پھوارا ہو۔“ میرے منہ سے نکلا۔

    اور پھر ہمارے ساتھ چل رہی نرس نے اس کی کہانی سنائی۔ ”بڑی بدقسمت لڑکی ہے۔ شکل سے سولہ سترہ سال کی ہو گی۔ اس کا پیار اپنے ٹیوٹر سے ہو گیا۔ وہ اسے پڑھانے آتا تھا۔ اتنے امیر ماں باپ کی بیٹی۔ اس کا بیاہ ایک معمولی ٹیوٹر سے وہ کیسے کر دیتے۔ گھر والوں نے ٹیوٹر کو کچھ دے دلا کر اس کا بیاہ کسی اور سے کروا دیا۔

    لڑکی نے جب سنا تو اس کا دماغ ہل گیا۔ بولتی ہے نہ کچھ کہتی ہے۔ کتنی کتنی دیر بھوکی کی بھوکی پڑی رہتی ہے۔ اسے جب موقع ملتا ہے سج سنور کر اس الگ تھلگ بینچ پر آکر بیٹھ جاتی ہے اور گھنٹوں بھر چھم چھم آنسو بہاتی رہتی ہے۔ جیسے چناب اس کے اندر پھوٹ پڑی ہو، اس کے آنسو نہیں رکتے۔ اس کی پلکیں نہیں سوکھتیں۔ اسے یہیں بیٹھے بیٹھے آنسو بہاتے رات ہو جائے گی۔

    اسی اسپتال کا ایک دوسرا واقعہ
    اسپتال کی سوشل ورکر ہمیں اس کے کمرے میں لے جا رہی تھی کہ ایک مریض جلدی جلدی آیا اور مجھے روک کر کہنے لگا۔ ”آپ کے ساتھ پردے میں ایک بات کرنی ہے۔“ میں ہنسنے لگا۔ ”ہاں بتاﺅ۔“ میں نے اس سے کہا۔

    ”ادھر چلو۔ ادھر۔“ اور وہ مجھے ایک طرف لے گیا جہاں دو شمال کی طرف پہاڑ دکھائی دیتے تھے۔

    ”ادھر سے آ رہے ہیں۔“ وہ مریض کہنے لگا۔ چیونٹیوں کی طرح فوجیں پہاڑوں سے اتر رہی ہیں۔ بم برسیں گے۔ گولے پھوٹیں گے۔ تڑ تڑ مشین گنیں چلیں گی۔ کوئی نہیں روک سکے گا، کوئی نہیں روک پائے گا۔ وہ دھکیلتے ہوئے ہمارے ملک میں داخل ہو جائیں گے۔ وہ ایسی مار ماریں گے کہ ہم کسی کو شکل دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔

    آپ مانو یا نہ مانو میں نے بتا دیا ہے۔ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ مجھے تو ان کی فوجیں سامنے سے آتی دکھائی دے رہی ہیں۔ آپ کو نظر نہیں آ رہیں۔ عجیب ہے آپ کی نظر۔ آپ کے پاس آنکھیں ہی نہیں ہیں۔ کتنی دیر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھے یوں بولتا رہا۔

    مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ میں مند مند مسکراتا ہوا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ چار دن بعد خبر آئی۔ چین نے ہمارے ملک پر حملہ کر دیا ہے۔ ان کی فوجیں چیونٹیوں کی طرح ہمارے ملک میں زبردستی گھس آئی ہیں۔ آگے ہی آگے بڑھ رہی تھیں۔

    (ناول نگار اور پنجابی زبان کے شاعر کرتار سنگھ دگل کی یادوں سے ترجمہ، مصنف کا تعلق گر داس پور، ہندوستان سے تھا)

  • پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    میری بڑی آپا ملکہ زمانی صاحبہ،
    آداب!

    میں اصل خیر سے دلّی پہونچ گئی اور سب چھوٹے بڑوں کو تن درست دیکھ کر اور ان سے مل جل کر خوش بھی ہو لی، مگر اللہ جانتا ہے کہ میرا دم آپ میں ہی پڑا ہے۔

    کیا کروں آپا جان! سسرال والوں کا پاس آن پڑا، نہیں تو زچہ خانہ میں آپ کو چھوڑ کر خدائیوں میں بھی نہ آتی۔ ویسے تو خدا رکھے دولہا بھائی نے نوکر چاکر، ماما اصیلیں آپ کی ٹہل کے لیے بہت سی لگا رکھی ہیں مگر جو ہم دردی ماں بہنیں کرتی ہیں وہ نوکریں کب کرسکتی ہیں۔ خیر بہت گئی، تھوڑی رہی ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب کے اٹھوارہ کو سلامتی سے آپ بڑا چلّہ نہا لیں گی اور پلنگ کو لات مار کر کھڑی ہو جائیں گی۔

    میاں ننّھے مجھے ہر وقت یاد آتے ہیں اور ان کی ہُواں ہُواں میرے کانوں میں بسی ہوئی ہے۔ خدا وہ دن بھی کرے گا جب میں اسے پھر موٹا تازہ آپ کی گود میں دیکھوں گی۔

    نوشابہ کے بیاہ کا حال تو پیچھے لکھوں گی، پہلے آپ یہ سن لیجیے کہ میں کن توائیوں سے دلّی پہونچی۔ اوّل تو پندرہ میل بگّی میں چلنا پڑا۔ بیٹھے بیٹھے نگوڑا دم گھبرا اٹھا۔ ڈگڈگیوں دن ہوگا جو پشاور کے اسٹیشن پر پہونچی۔ بگّی کا دروازہ کھول کر آپ کے بہنوئی بولے:

    “برقعہ اوڑھ کر اتر پڑو۔” میں نے کہا: “ڈولی ذری پاس لگوا دو تو میں جھپ سے اس میں بیٹھ جاؤں۔”

    ہنس کر کہنے لگے: “یہ دلّی کا اسٹیشن نہیں ہے جہاں ہر وقت ڈولیاں مستعد رہتی ہیں۔ یہاں تو بس اللہ کا نام ہے۔ بے ڈولی کے ہی چلنا پڑے گا۔” مرتا، کیا نہ کرتا۔ برقع اوڑھ لپیٹ کر بگّی سے اتر، ان کے ساتھ ہو لی، مگر مارے شرم کے چلنا دوبھر تھا۔ کہیں پیر ڈالتی تھی اور کہیں پڑتا تھا۔

    اسٹیشن کے اندر پہونچی تو وہ دھوم دھام اور آدمیوں کی چلت پھرت کہ الٰہی توبہ۔ لمبی ساری ایک کرسی بچھی ہوئی تھی۔ انھوں نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اس پر بٹھا دیا۔ مجھے بیٹھے ہوئے دو ہی گھڑی گزری ہوں گی جو ایک موٹا سا مردوا کالے کپڑے پہنے جھپ سے میرے پاس آن ٹُھسا۔ وہ میری دہنی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اشارہ سے کہا:

    “ یہ ظلم ہے، اس پر خدا کی مار ہے جو پرائی عورت کے پاس آن گھسڑا۔” انھوں نے چپکے سے جواب دیا۔

    “اس بینچ پر بیٹھنے کا حق سب کو حاصل ہے، عورت ہو یا مرد، کچھ برا ماننے کی بات نہیں۔” ڈاک گاڑی کے آنے کا وقت تو رات 9 بجے مقرّر تھا، مگر معلوم ہوا رستہ بگڑ گیا ہے، اس لیے دس بجے آئے گی۔

    میں نے اپنے دل میں کہا غریبوں نے روزہ رکھے دن بڑے آئے۔ وہ جو مثل مشہور تھی، ہنوز دلّی دور، آج اصل ہوگئی۔ کس کا کھانا، کس کا پینا۔ انھوں نے کہا بھی کہ کھانا کھالو، مگر میں نے الٹ کر انھیں یہی جواب دیا کہ صاحب میرا تو ستّر سے بہتّر مردوؤں میں ہواؤ نہیں پڑتا کہ بیٹھ کر نوالے ماروں۔ ریل میں بیٹھنے کو کوئی کونا مل جائے گا تو کھا لوں گی، نہیں فاقہ ہی بھلا ہے۔

    بیٹھے بیٹھے ٹانگیں شل ہوگئیں۔ سڑک کی طرف دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں مگر ریل نہ آنی تھی پر نہ آئی؛ اور غضب یہ ہوا کہ اسٹیشن میں قدم قدم پر بجلی کے ہنڈے روشن ہوگئے؛ رات کا دن بن گیا۔ وہ اجالا کہ زمین پر سوئی پڑے تو الگ دکھائی دے۔

    فرنگی، ریل کے بابو، چپراسی، خلاصی، قلی، مسافر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر پڑے پھرتے ہیں۔ کیا مقدور جو کوئی ڈھب پردہ کا نکل آئے۔ جوں جوں ریل کے آنے کا وقت قریب آتا جاتا تھا، اسٹیشن کے اندر مسافر بھرے چلے آتے تھے۔

    ڈاک گاڑی کے آنے میں پندرہ منٹ باقی ہوں گے جو اسٹیشن کا سارا چبوترہ آدمیوں سے بھر گیا۔ گھنٹی بجی اور ریل اس قہر کے ساتھ دندناتی ہوئی اسٹیشن میں داخل ہوئی کہ در و دیوار لرز گئے۔ میں سمجھی یہ لوہے کا سائبان جس میں ہم سب بیٹھے ہیں، دہل سے ٹوٹ کر اور اُڑ اُڑا کر سر پر آرہے گا۔ پھر جو مسافر بھاگے ہیں اور آپا دھاپی مچی ہے تو حشر برپا ہوگیا۔ تُو مجھ پر اور میں تجھ پر۔ سب سے آگے تو چار قُلی، اُن کے سروں پر ہمارے ٹرنک، بکس، بچھونے، اِن کے پیچھے وہ، اُن کے پیچھے مَیں۔

    ابھی ریل کا درجہ کوئی پانچ قدم پر ہوگا جو آگے سے ریلا آیا تو آپ کے بہنوئی الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ ان کا ہٹنا کہ میں پیچھے سَرکی۔ اگر اگلے آدمی اور ذرا دھکیلیں تو میں پس ہی گئی ہوتی، مگر خدا نے بال بال بچالیا۔

    بارے ہزار مشکل اور مصیبت کے ساتھ ریل کے اندر پہونچی تو معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے اس درجہ میں دس آدمی اور ٹھسے بیٹھے ہیں۔ بیٹھنے کیا کھڑے رہنے کا بھی ٹھکانہ نہیں۔ وہ الگ بغلیں جھانک رہے ہیں، میں جدا حیران کھڑی ہوں۔ اس میں انھیں کچھ خیال آیا اور ساتھ ہی ایک بھلے مانس نے کہا:

    “حضرت ان کو اوپر والے پلنگ پر چڑھا دیجیے۔” کیا بیان کروں کس مصیبت سے اوپر پہونچی۔ وہ پلنگ دو موٹی موٹی لوہے کی زنجیروں میں پڑا جھول رہا تھا۔ میری سلیم شاہی جوتی کی نوک جو ایک زنجیر میں اٹکی تو جوتی پنجہ سے نکل، نیچے جو ایک بوڑھے آدمی بیٹھے تھے اُن کی سفید ڈاڑھی پر جا گری۔

    وہ بیچارے جھینپ کر یہ کہنے لگے: “ریل کے سفر میں پردہ نشین عورتوں کے لیے انگریزی جوتی اچھی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس سے چلا اچھا جاتا ہے، دوسرے بھاگ دوڑ میں پاؤں سے نکلنے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔”

    ابھی میں سنبھل کر بیٹھنے بھی نہ پائی تھی، جو ایک اور آفت کا سامنا ہوا۔ آگے آگے ایک بابو، اس کے پیچھے ایک فرنگن بھبوکا رنگ، سادہ پن میں لاکھ لاکھ بناؤ، چھلّا جیسی کمر اور وہ بھی چمڑے کی پیٹی سے کسی ہوئی، گلے میں ڈھیلا سا ایک کوٹ جس کی سنجاف سمور کی تھی، سیاہ سایہ گھیر دار سر پر ٹوپی اور ٹوپی میں دو تین گلاب کے پھول اوڑھے ہوئے، مگر گلاب کے لال لال پھول اس کے چہرہ کی بہار کے سامنے بالکل پھیکے دکھائی دیتے تھے۔ ہاتھ میں ننھا سا کالے چمڑے کا ایک بیگ۔ ان کے پیچھے ان کے صاحب۔

    بابو نے ٹکٹ کاٹنے کی قینچی گاڑی کے کواڑ میں زور سے مار کر کہا: “تم ہندوستانی دیکھتا ہے، نہ بھالتا ہے، گاڑی میں یونہی گھس جاتا ہے۔ اترو اس میں سے، یہ صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا گاڑی ہے۔”

    اس صدا کو سن کر میرا تو جی چھوٹ گیا۔ نیچے جو لوگ بیٹھے تھے پہلے وہ اپنا اپنا اسباب سنبھالتے ہوئے نکل کر بھاگے۔ آپ کہیں گی کہ جو کمرا صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا ہوتا ہے، اس پر لکھا ہوا ہوتا ہے اور تمہارے میاں تو انگریزی پڑھے ہیں، وہ تمہیں انجانوں کی طرح اس کمرے میں لے کر کس طرح گھس گئے؟

    آپا جان! مسافروں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ رات کا وقت، ہول جول میں پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ بندریا کی طرح پھر اس پلنگ پر سے نیچے اتری۔ یہ بھلا ہوا تھا کہ قُلیوں کو ابھی چُکایا نہیں تھا اور وہ ریل سے لگے کھڑے تھے۔ نہیں تو اسباب کا اتارنا دوبھر ہو جاتا اور ریل ہنک جاتی۔ نکلتے نکلتے بابو نے ہمارے پیچھے دھیری لگا دی۔ “ڈاک گاڑی جاتا ہے جلدی اترو۔”

    اب کی دفعہ مجھے ایک زنانہ کمرا مل گیا۔ جس میں میرے سوائے عورت کیا کوئی چڑیا بھی نہ تھی۔ پاس ہی مردانہ کمرا تھا وہ اس میں بیٹھ گئے۔ ڈاک گاڑی چل دی۔ چلتی ریل میں ہمارا اسباب دھر دیا اور ایک قلی ریل کے پٹرے پر کھڑا ہو گیا اور اپنی مزدوری لے کر جھپ سے کود گیا۔

    اب کیا تھا، بلی کے بختوں چھینکا ٹوٹا۔ بے مہتا اکیلا کمرا مل گیا۔ کھانا بھی کھایا، پان بھی کھائے۔ اگلے اسٹیشن پر انھوں نے آکر بستر بند میں سے میرا بچھونا کھول کر بچھا دیا اور جو میں پاؤں پھیلا کر سوئی ہوں تو دلّی تک مجھے ہوش نہ ہوا۔ جب ریل اسٹیشن پر آکر ٹھہر گئی تو انھوں نے مجھے آکر جگایا کہ اٹھو گھر آگیا۔

    اسی میں میاں ناصر بھی آن پہونچے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر کہنے لگے: “باجی جان! آداب۔ میں ڈولی لے آیا ہوں۔ ”میں نے کہا شکر ہے۔


    (یہ افسانہ نما بیانیہ (خط) ہے جس میں پشاور سے دلّی جانے والی بلقیس زمانی نے اپنی بہن کو ٹرین کے سفر کا احوال لکھا ہے اور کچھ واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ پارہ ناصر نذیر فراق دہلوی کی کتاب "دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ” سے لیا گیا ہے)

  • ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ایک جنگل میں‌ ہرن کو پیاس لگی تو وہ اپنے محفوظ ٹھکانے سے نکلا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ آس پاس کوئی درندہ تو چھپا ہوا نہیں‌ ہے۔ اطمینان کرنے کے بعد وہ دریا کی طرف بڑھنے لگا۔

    قسمت اچّھی تھی، راستے میں کسی سے مڈ بھیڑ نہ ہوئی اور وہ دریا کنارے پہنچ گیا۔ دریا کے صاف شفاف اور میٹھے پانی سے سیراب ہونے کے لیے اس نے اپنا منہ ڈالا تو اُس آبِ زُلال میں اپنا سر نظر آیا۔

    وہ اپنے سَر پر موجود سینگوں کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر بعد دکھ، غصّے اور بے بسی کی ملی جلی کیفیت میں افسوس سے کہنے لگا کہ اگر میرے دبلے دبلے پاؤں اس خوب صورت شاخ دار سَر کی مانند ہوتے تو میں اپنے دشمنوں کو خاطر میں‌ نہ لاتا۔ ان کے لیے مجھے ہڑپ کرنا یوں آسان نہ ہوتا اور منہ کی کھاتے۔

    وہ ہرن اسی سوچ میں‌ گم تھا کہ اچانک شکاری کتّوں کے بھونکنے کی آواز اُس کے کان میں‌ پڑی جو لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی جارہی تھی۔ ہرن گھبرایا اور سوچا کہ اب کیا کروں، کتے اس کے قریب آچکے تھے۔ اس نے چوکڑی بھری اور ذرا فاصلے پر موجود درختوں کے جھنڈ میں گُم ہونے کے ارادے سے گھستا چلا گیا۔

    ہرن تیز رفتار اور پھرتیلا جانور تھا، وہ انھیں کہیں کا کہیں پیچھے چھوڑ چکا تھا، لیکن کتے اس کے تعاقب میں تھے۔ درختوں کے درمیان پہنچ کر اسے ایک جگہ جھاڑیاں نظر آئیں اور اس نے لمحوں میں فیصلہ کیاکہ وہ ان کے اندر سے ہوتا ہوا مزید آگے نکل جاسکتا ہے۔ وہ جیسے ہی جھاڑیوں میں گھسا، اس کے سینگ کانٹوں میں اُلجھ گئے۔ اس نے اپنے سَر کو بارہا جھٹکا، لیکن سینگ ان جھاڑیوں میں ایسے پھنسے کہ چھڑا نہ سکا۔

    اسی کوشش کے دوران اس نے دیکھا کہ چار پانچ کتے اس کے سَر پر پہنچنے کو ہیں۔ آخر کتوں نے ہرن پر حملہ کردیا اور اسے شکار کرکے اپنا پیٹ بھرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    کتوں کے حملہ کرنے کے بعد جب ہرن نے دیکھا کہ اب اس کی موت یقینی ہے، تب اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور نہایت افسوس سے کہنے لگا! دوستوں کو میں نے دشمن سمجھا اور دشمنوں کو دوست۔ میں اپنی شاخوں(سینگوں) پر فریفتہ ہوا تھا، مگر انھوں نے مجھے اس مصیبت میں گرفتار کیا، اور اپنے پاؤں کی طرف حقارت سے دیکھا تھا، لیکن پاؤں ہی کے سبب تو دریا سے بھاگ کر جنگل تک آیا تھا اور ہر بار یہی تو میری جان بچاتے رہے ہیں۔

    ہرن کو خیال آیا کہ وہ تو اس بار بھی اپنی ٹانگوں ہی کی بدولت سارا میدان طے کر آیا تھا، لیکن جب اس نے قدرت کی صنعت گری میں تعجب کیا اور عیب نکالا تو اس کا یہ حال ہوا۔

    کہتے ہیں، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی صنعت و تخلیق میں عیب تلاش کرنے والا نادان دراصل اس کی حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔

    (ماخذ: کتاب جوہرِ اخلاق)

  • یکتائے روزگار شاعر یاس یگانہ چنگیزی کی برسی

    یکتائے روزگار شاعر یاس یگانہ چنگیزی کی برسی

    اردو کے نام ور شاعر یاس گانہ چنگیزی 4 فروری 1956ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ وہ 17 اکتوبر 1884ء کو صوبہ بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو یاس تخلص رکھا، بعد میں یگانہ کے نام سے پہچان بنائی۔ 1904ء میں لکھنؤ ہجرت کرگئے اور وہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    اس دور میں لکھنؤ میں مشاعروں اور ادبی محافل کا انعقاد عام تھا، لیکن یگانہ کے مزاج نے انھیں سبھی سے دور رہنے پر مجبور رکھا۔ یگانہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، حتّیٰ کہ مرزا غالب جیسے شاعر پر بھی اعتراض اور ان کی مخالفت کرتے رہے۔ تاہم اس سے یگانہ کی شعر گوئی اور ان کے فن و تخلیق کی اہمیت کم نہیں‌ ہوتی۔ یگانہ نے بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی، سماجی اور فرد کے داخلی مسائل کو غزل میں‌ پیش کیا اور اپنے طرزِ‌ بیان سے اس صنفِ سخن کو جدید رنگ میں‌ ڈھلنے کا راستہ دکھایا۔

    یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصّہ لکھنؤ میں بڑی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیا۔ ان کے شعری مجموعے نشترِ یاس، آیاتِ وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    یگانہ لکھنؤ میں کربلائے منشی تفضل حسین (وکٹوریہ گنج) میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کے یہ مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
    خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

    ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
    دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

  • جنوری 1838ء: شہر لزبن میں‌ ایک سیّاح نے کیا دیکھا؟

    جنوری 1838ء: شہر لزبن میں‌ ایک سیّاح نے کیا دیکھا؟

    ستائیسویں جنوری 1838ء کی شہر لزبن میں پہنچا۔ وہ ہے دارُ السلطنت پرتکیزوں کا۔ وہاں جہاز تھے اور بھی کئی۔ ایک ڈونگی پرتکیزوں کی ہمارے جہاز کو راہ بتانے آئی۔ لزبن کنارے دریا ٹیکس کے ہے۔ جب جہاز ہمارا وہاں پہنچا، ہوا کا زور تھا مگر استادیِ کپتان سے جہاز سلامت رہا۔

    نیوٹن صاحب سوداگر میرے دوست تھے۔ وہ اس شہر میں تشریف رکھتے۔ جب میرے آنے کی خبر پائی، بہت تکلف سے دعوت میری کی۔ کئی طرح کا کھانا میرے لیے پکوایا۔ جب اس کو کھایا، دل کو بھایا۔ پھر سیرِ شہر کو چلا۔ وہاں کے آدمیوں کو کج اخلاق پایا۔ حسن و جمال عورتوں کا بہ نسبت لندن کے کم تھا۔

    بار برداری کی گاڑیوں میں بیل لگے تھے۔ رستے بازار کے صاف ستھرے تھے مگر دکانیں بمقابلہ لندن اور فرانس کے بد قرینے۔ ایک کلیسا عجب وضع کا بنا تھا۔ تصویریں حضرت عیسیٰ اور مریم اور حواریوں کی نفیس بنی ہوئی رکھیں، ان پر کام سونے کا۔ دو تین باغ دیکھے، بہت اچھے تھے۔

    ایک دن ناچ گھر کا تماشا دیکھنے گیا۔ شہزادی حاکمہ بھی آئی۔ میرے قریب بیٹھی۔ شوہر اس کا ایک امیر زادہ، بہت خوب صورت اور وجیہ ہمراہ تھا۔ سن و سال میں بیس برس کا۔ بندہ آدھی رات تک کیفیت دیکھتا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر آیا اور ملاح سے کہا کہ ناؤ پر سوار کر کے مجھ کو جہاز تک پہنچا دے۔ اس نے انکار کر کے کہا کہ رات کو ہمارے شہر میں کسی کو ناؤ پر نہیں چڑھاتے۔ یکبارگی مینھ بھی برسنے لگا۔ تب میں مجبور ہو کر سرا میں شب باش ہوا۔

    صبح اٹھ کر پھر سیر کو چلا۔ مکانات دیکھے، اوندھے پڑے۔ حال ان کا پوچھا، لوگوں نے کہا اسّی برس کا عرصہ ہوا کہ یہاں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا، ساٹھ ہزار آدمی اس میں مر گئے، بہت مکان اس میں گر گئے۔ پانی دریا کا اپنے ٹھکانے سے ہٹ گیا تھا۔ بعد اس کے اس آبادی کا جو تم دیکھتے ہو، اتفاق ہوا۔ یہ حال دیکھ کر گھبرایا۔

    دوسرے دن تیسرے پہر تک پھر سیر کرتا رہا۔ بعد اس کے جہاز وہاں سے رواں ہوا۔ میں اس پر سوار ہوا۔ کتنے صاحب اور بی بیاں اور بھی تھیں۔ بی بی اسمٹ بھی مع دونوں بیٹیوں پری زاد کے اس پر سوار ہوئیں۔ حرکتِ جہاز سے دونوں پریاں متلی اور ابکائی میں گرفتار ہوئیں۔ جہاز پر چڑھ کر نہایت بیزار ہوئیں۔ سچ ہے سواری جہاز کی عورتوں کو بہت ایذا دیتی ہے۔ مجھ کو ان کی بے چینی سے بے قراری تھی۔

    دو تین دن میں جہاز جاتے جاتے تیسرے پہر کو قریب شہر کندس کے ٹھہرا۔ کئی اسپانیوں نے کشتیوں کو ہمارے جہاز پاس پہنچایا۔ اکثر صاحب واسطے سیرِ شہر کے ناؤ پر سوار ہوئے۔ ہم بھی مدت سے مشتاق اس شہر کے دیکھنے کے تھے۔ ناؤ پر چڑھے بعد اس کے مینھ آیا۔ ہر شخص جہاز پر پھر گیا۔ مگر بندہ ناؤ پر بیٹھا رہا۔ اسپانیل جو ملاح تھے اپنی زبان میں باہم باتیں کرتے اور میرے مونھ کی طرف دیکھتے، بلا تحاشا ناؤ کو کنارے لیے جاتے۔

    ہر چند میں نے کنارے جانے سے انکار کیا، پر انھوں نے میری بات نہ سنی۔ ظاہراً معلوم ہوتا کہ کنارے لے جا کر گھڑی اور اسباب طلائی میرا چھین لیتے اور جان سے ہلاک کرتے۔

    ناگاہ جہاز کے چھوٹے کپتان نے میرے حال پر رحم کیا، چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر میری ناؤ کو خارِ آہنی سے اپنی طرف کھینچ کر جہاز پر پہنچایا اور اس آفت سے مجھ کو بچایا۔ بہ سبب مینھ کے اس شہر میں جانے کا اتفاق نہ پڑا، مگر سامنے سے بخوبی نظر آتا۔ عمارت عالی شان، وہاں حسن و جمال کی کان تھی۔ بیرن شاعر نے وہاں کے حسن کی تعریف کی ہے۔ دادِ سخن وری دی ہے۔

    (یہ پارہ ‘تاریخِ یوسفی المعروف بہ عجائباتِ فرنگ’ سے نقل کیا گیا ہے، جسے اردو کا پہلا سفرنامہ کہا جاتا ہے، یوسف خان کمبل پوش نے اسے 1847ء میں شایع کروایا تھا)

  • فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے…

    فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے…

    فراق گورکھپوری ایک عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے۔ انھیں اپنے دور میں‌ جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ کم ہی شعرا کو نصیب ہوئی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثّر کیا، اور نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ حسن و عشق کے شاعر تھے، لیکن نہ صرف جذبات و احساسات کی ترجمانی کی بلکہ شعور و ادراک اور جمالیاتی احساس کے حوالے سے بھی اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوئے۔ ان کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    غزل
    بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
    تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

    نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
    تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

    طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
    ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

    خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
    اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

    ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
    مری باتیں بہ عنوانِ دگر وہ مان لیتے ہیں

    تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
    ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

    زمانہ وارداتِ قلب سننے کو ترستا ہے
    اسی سے تو سَر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

    فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
    کبھی ہم جان لیتے ہیں، کبھی پہچان لیتے ہیں

  • یکم فروری:’آکسفورڈ ڈکشنری‘ کا پہلا نسخہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا

    یکم فروری:’آکسفورڈ ڈکشنری‘ کا پہلا نسخہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا

    انگریزی زبان کی مشہور و معروف اور معیاری لغت ’آکسفورڈ ڈکشنری‘ (Oxfird Dictionary) ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کے ساتھ ساتھ معلوماتِ عامّہ کا بھی مستند ذریعہ ہے جس سے دنیا بھر میں استفادہ کیا جاتا ہے۔

    یہ لغت جہاں انگریزی زبان کی تاریخ، تدریج و ترّقی سے آگاہ کرتی ہے، وہیں‌ زبان و بیان اور علم و ادب میں‌ دل چسپی رکھنے والوں کے لیے خزینۂ معلومات ہے۔ یہ ہر شعبۂ حیات اور تمام علوم کا احاطہ کرنے کے ساتھ عام بول چال، بامحاورہ اور روزمرّہ کا وسیع ذخیرہ رکھتی ہے اور علم و ادب کے موضوعات میں ادنیٰ طالبِ علم سے لے کر استاد اور محققین تک کی مددگار ہے۔ عام لوگ بھی حسبِ موقع اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ اس معروف معیاری لغت کا پہلا نسخہ 1884ء میں آج ہی کے دن، یکم فروری کو زیورِ طبع سے آراستہ ہوا تھا؟

    اسے اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس شایع کرتا ہے، اس لغت پر 1857ء میں کام شروع ہوا تھا، اور پہلا نسخہ مذکورہ تاریخ کو شایع ہوا۔ 1895ء میں اس لغت کے سرورق پر پہلی بار غیر رسمی طور پر ’’دی آکسفورڈ ڈکشنری‘‘ بھی لکھا گیا۔

    1928ء میں ادارے نے 10 جلدوں میں مکمل لغت شایع کی اور 1933ء میں باضابطہ طور پر اسے ’’دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس ایڈیشن میں کُل بارہ جلدیں اور ایک ضمیمہ بھی تھا۔ بعد میں ضمیموں کی اشاعت اور اس کے نئے ایڈیشنوں پر کام ہوتا رہا، جب کہ 1988ء میں لغت کا پہلا برقی نسخہ بھی شایع کیا گیا۔ 2000ء میں یہ آن لائن دست یاب ہوئی۔

    اس لغت کے ورقی اور برقی نسخوں سے دنیا بھر میں‌ لاکھوں لوگ استفادہ کرتے ہیں۔

  • شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    جلیل قدوائی کو دنیائے ادب میں شاعر، افسانہ نگار، محقّق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔

    آج اس معروف ادیب و شاعر کا یومِ‌ وفات ہے۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو اناؤ (اودھ) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید بھی لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

  • کرشن چندر کو ماسکو جانے کی اجازت کیوں نہیں‌ دی جارہی تھی؟

    کرشن چندر کو ماسکو جانے کی اجازت کیوں نہیں‌ دی جارہی تھی؟

    کرشن چندر کی بیٹی بیمار تھیں۔ وہ ماسکو علاج کے لیے جانا چاہتے تھے، لیکن حکومت ان کو پاسپورٹ دینے کو تیار نہ تھی۔

    میں ”شاہراہ“ کے دفتر میں گیا تو یوسف صاحب مرحوم، مالک شاہراہ، نے بڑی تکلیف کے ساتھ مجھے یہ بات بتائی۔ میری ملاقات کرشن چندر سے نہیں ہوئی۔

    شام کو میں حسبِ معمول قدسیہ آپا کے پاس گیا۔ دورانِ گفتگو کرشن چندر کے پاسپورٹ کی بات آئی۔ میں نے کہا،

    ”آپ کی حکومت عام انسانی معاملات میں بھی سیاست کو داخل کر لیتی ہے۔ کرشن چندر کے ترقی پسند ہونے کے یہ معنٰی نہیں کہ ان کی بیٹی کا علاج نہ ہوسکے، اور کرشن چندر کے خیالات، اس کے آڑے آئیں۔ حالاں کہ ان کے سیاسی خیالات محض ادب تک محدود ہیں۔“

    پہلی مرتبہ قدسیہ آپا لاجواب ہوگئیں۔ کہنے لگیں۔

    ”کافی پیو گے یا چائے۔“ ذرا سی دیر میں کولڈ کافی آگئی، لیکن قدسیہ آپا دوسرے کمرے میں ٹیلی فون پر بات کررہی تھیں۔ بے حد غصّے میں تھیں۔ انھوں نے اندرا گاندھی سے بات کی۔ محمد یونس خان سے بات کی۔ پنڈت نہرو کے سیکریٹری متھائی سے بات کی۔ اور وہی کرشن چندر والی بات۔ ان کی گفتگو سے غم و غصّے کا اظہار ہو رہا تھا۔

    شاید میری بات ان کے دل کو لگ گئی تھی۔ وہ بار بار کرشن چندر کی بیٹی کی بیماری کے بارے میں پوچھتی تھیں۔ ان کے چہرے پر کرب کے آثار نظر آرہے تھے۔

    اس کے بعد اگلے روز بارہ بجے تین مورتی سے قدسیہ آپا کا ٹیلیفون آیا۔ ”کرشن چندر کا پاسپورٹ تیار ہے۔ کرشن چندر کو اطلاع کر دو۔“

    مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کرشن چندر کہاں رہتے ہیں۔ اب قدسیہ آپا کرشن چندر کا گھر تلاش کررہی تھیں۔

    دو بجے معلوم ہوا کہ کرشن چندر شملہ جا چکے ہیں اور ایک ہفتے بعد واپس آئیں گے۔ اور اس کے بعد کرشن چندر جی پاسپورٹ لے کر ماسکو چلے گئے۔

    (ممتاز ادیب، محقق، نقّاد اور مترجم اطہر پرویز کے شخصی خاکوں کی کتاب کا ایک ورق جس میں انھوں نے نام ور افسانہ نگار کرشن چندر کی پریشانی اور ہندوستانی حکومت کے رویّے کی جھلک پیش کی ہے)