Tag: اردو ادب

  • لال قلعہ کی جھلکِ ظرافت آمیز

    لال قلعہ کی جھلکِ ظرافت آمیز

    بہادر شاہ ابو ظفر کے عہد میں غدر سے پہلے دو داستان گو شہر میں مشہور تھے۔ بڑے عبداللہ خاں اور چھوٹے عبد اللہ خاں۔ دونوں کے دونوں اپنے فن میں کامل تھے۔

    بڑے عبداللہ خاں اکثر حضورِ والا کو داستان سناتے تھے اور حضورِ والا پسند فرماتے تھے۔ میر کاظم علی دہلوی جو داستان گوئی میں فرد تھے، انہی کے شاگرد تھے اور میر باقر علی دہلوی انہی اپنے ماموں میر کاظم علی صاحب کے داستان میں شاگردِ بے نظیر تھے، جو حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔

    رات کا وقت تھا۔ حضورِ والا چھپر کھٹ پر لیٹے تھے۔ حکیم احسن اللہ خاں صاحب چھپر کھٹ کے پاس بیٹھے تھے۔ عبداللہ خاں نے حسبِ دستور داستان شروع کرنے سے پہلے یہ لطیفہ بیان کیا کہ امر گڑھ کے قلعہ کے پاس چوک میں دو مسافر یوں بات چیت کر رہے تھے۔

    ’’آپ کی وضع سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں! میں لکھنؤ کا باشندہ ہوں۔ مگر آپ کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دہلی والے ہیں۔‘‘

    ’’بیشک میں دہلی رہتا ہوں۔ لکھنوی صاحب! یہ تو فرمائیے، آپ یہاں کیوں آئے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    لکھنوی: میں امیروں کو میٹھی میٹھی باتیں سناتا ہوں۔ آپ کیا شغل رکھتے ہیں؟

    دہلوی: میں بات میں رفو کرتا ہوں۔

    لکھنوی: ہم تم اس راجہ کے دربار میں چلیں اور اپنا ہنر دکھائیں۔

    دونوں کی سرِشام راجہ تک پہنچ ہوگئی۔ راجہ نے کہا، ’’کچھ بیان کرو۔‘‘

    لکھنوی: حضور یہ فدوی آج ہی آپ کے شہر میں داخل ہوا ہے۔ شہر سے ملی ہوئی ندی جو بہتی ہے اس میں ٹخنوں ٹخنوں پانی تھا۔ اتفاقاً ایک بیل ندی میں اترا، اس کا پاؤں پانی میں پھسلا۔ گرا اور گرتے ہی بھسم ہوگیا اور ا س کا ریشہ ریشہ پانی میں بہہ گیا۔

    راجہ: یہ بات سمجھ میں نہیں آئی!

    دہلوی: حضور ان کا کہنا سچ ہے۔ بیل کی بیٹھ پر سوکھا چونا لدا ہوا تھا۔ بیل کے گرتے ہی چونا بجھا اور بیل کو گلا کر اس کی بوٹی بوٹی کردی۔

    راجہ اس حاضر جوابی سے بہت خوش ہوا اور دونوں کو پچاس روپیہ دے کر رخصت کیا۔ راجہ کے محل سے نکل کر لکھنؤ والے نے دہلی والے سے کہا،

    ’’کل پھر ہم تم مل کر راجہ کے یہاں چلیں گے۔‘‘

    دہلی والے بولے میں تمہاری بات میں رفو نہیں کرسکتا۔ تم بے تکی باتیں بناتے ہو۔ کجا سوکھی ندی میں بیل کا گرنا اور کجا اس کا بھسم ہوجانا وہ تو مجھے سوجھ گئی اور بات میں رفو ہوگیا۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب اور شاعر ناصر نذیر فراق دہلوی کے مضمون سے انتخاب)

  • اونچی ذات

    اونچی ذات

    نانی پیار سے اسے سِلیا ہی کہتی تھی۔ بڑے بھیّا نے اپنی تعلیم یافتہ سوجھ بوجھ کے ساتھ اس کا نام شیلجا رکھا تھا۔ وہ ماں باپ کی سلّی رانی تھی۔ سِلیا گیارھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ سانولی سلونی معصوم، بھولی، سیدھی اور سنجیدہ مزاج سِلیا اپنی اچھی صحّت کی وجہ سے اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی لگتی تھی۔ اسی سال 1960 کا سب سے زیادہ عجیب واقعہ ہوا۔

    ہندی اخبار ’نئی دنیا‘ میں اشتہار چھپا، ’’اچھوت خاندان کی بہو چاہیے۔‘‘ مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے جانے مانے نوجوان نتیا سیٹھ جی، اچھوت لڑکی کے ساتھ بیاہ کر کے سماج کے سامنے ایک مثال رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی صرف ایک شرط تھی کہ لڑکی کم سے کم میٹرک ہو۔

    مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع کے اس چھوٹے گاؤں میں بھی اشتہار کو پڑھ کر ہلچل مچی ہوئی تھی۔ گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں نے، برہمن بنیوں نے سِلیا کی ماں کو صلاح دی، تمھاری بیٹی تو میٹرک پڑھ رہی ہے، بہت ہوشیار اور سمجھ دار بھی ہے، تم اس کا فوٹو، نام پتہ اور تعارف لکھ کر بھیج دو۔ تمھاری بیٹی کے تو نصیب کھل جائیں گے، راج کرے گی۔ سیٹھ جی بہت بڑے آدمی ہیں۔

    سِلیا کی ماں زیادہ جرح میں نہ پڑ کر صرف اتنا ہی کہتی ہے۔‘‘ ہاں بھیّا جی، ہاں دادا جی….! ہاں بائی جی، سوچ سمجھ لیں۔‘‘

    سِلیا کے ساتھ پڑھنے والی سہیلیاں اسے چھیڑتیں، ہنسی مذاق کرتیں مگر سِلیا اس بات کا کوئی سَر پیر نہیں سمجھ پاتی۔ اسے بڑا عجیب لگتا۔ ’’کیا کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے؟‘‘

    اس بارے میں گھر میں بھی ذکر ہوتا رہتا۔ پڑوسی اور رشتے دار کہتے۔’’فوٹو اور نام پتہ بھیج دو۔‘‘

    تب سِلیا کی ماں اپنے گھر والوں کو اچھی طرح سمجھا کر کہتی۔ ’’نہیں بھیّا یہ سب بڑے لوگوں کے چونچلے ہیں، آج سب کو دکھانے کے لیے میری بیٹی کے ساتھ شادی کریں گے اور کل چھوڑ دیا تو ہم غریب لوگ ان کا کیا کر لیں گے؟ اپنی عزت اپنے سماج میں رہ کر ہی ہوسکتی ہے۔ دکھاوے کی چار دن کی عزت ہمیں نہیں چاہیے۔ ہماری بیٹی ان کے خاندان اور سماج میں ویسی عزت اور قدر نہیں پاسکے گی۔ ہم سے بھی دور کر دی جائے گی، ہم تو نہیں دیویں اپنی بیٹی کو۔ ہم اس کو خوب پڑھائیں گے، لکھائیں گے، اس کی قسمت میں ہو گا تو اس سے زیادہ عزت وہ خود پا لے گی۔‘‘

    بارہ سال کی سِلیا ڈری سہمی ایک کونے میں کھڑی تھی اور مامی اپنی بیٹی مالتی کو بال پکڑ کر مار رہی تھی۔ ساتھ ہی زور زور سے چِلّا کر کہتی جا رہی تھی ’’کیوں ری تجھے نہیں معلوم، اپنے وا کنویں سے پانی نہیں بھر سکے ہیں؟ کیوں چڑھی تو وہاں کنویں پر، کیوں رسّی بالٹی کو ہاتھ لگایا؟‘‘ اور جملہ پورا ہونے کے ساتھ ہی دو چار تھپڑّ، گھونسے اور برس پڑے مالتی پر۔ بے چاری مالتی دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپائے چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ ساتھ ہی کہتی جا رہی تھی۔ ’’او بائی معاف کر دے اب ایسا کبھی نہیں کروں گی۔‘‘

    مامی کا غصہ اور مالتی کا رونا دیکھ کر سِلیا اپنے آپ کو مجرم محسوس کر رہی تھی۔ اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس مار پیٹ کے سلسلے میں اس کی آواز دھیمی پڑ جاتی۔ مامی کا تھوڑا غصہ کم ہوتا دیکھ سِلیا نے ہمّت بٹوری۔ ’’مامی میں نے تو مالتی کو منع کیا تھا مگر وہ مانی نہیں۔ کہنے لگی جیجی پیاس لگی ہے، پانی پئیں گے۔‘‘

    مامی بپھر کر بولیں۔ ’’گھر کتنا دور تھا، مَر تو نہیں جاتی، مَر ہی جاتی تو اچھا تھا۔ اس کی وجہ سے اسے کتنی باتیں سننی پڑیں۔‘‘ مامی نے دُکھ اور افسوس کے ساتھ اپنا ماتھا ٹھونکتے ہوئے کہا تھا۔’’ہے بھگوان تو نے ہماری کیسی جات بنائی۔‘‘
    سِلیا نیچے دیکھنے لگی، سچ بات تھی۔ گاڈری محلے کے جس کنویں سے مالتی نے پانی نکال کر پیا تھا۔ وہاں سے بیس پچیس قدم پر ہی ماما مامی کا گھر تھا جس کی رسی، بالٹی اور کنویں کو چُھو کر مالتی نے ناپاک کر دیا تھا۔

    وہ عورت بکریوں کے ریوڑ پالتی تھی۔ گاڈری محلے کے زیادہ تر گھروں میں بھیڑ بکریوں کو پالنے کا اور انھیں بیچنے خریدنے کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ گاڈری محلّے سے لگ کر ہی آٹھ دس گھر بھنگی سماج کے تھے۔

    سِلیا کے مامی ماما یہیں رہتے تھے۔ مالتی سِلیا کی ہی ہم عمر تھی۔ بس سال چھے مہینے چھوٹی ہو گی، مگر حوصلہ اس میں بہت زیادہ تھا۔ جس کام کو نہ کرنے کی نصیحت اسے کی جائے اسی کام کو کر کے وہ خطرے کا سامان کرنا چاہتی تھی۔ سلیا سنجیدہ اور سادہ مزاج کی کہنا ماننے والی فرماں بردار لڑکی تھی۔

    مالتی کو روتا دیکھ کر اسے خراب ضرور لگا، مگر وہ اس بات کو سمجھ رہی تھی کہ اس میں مالتی کی ہی غلطی ہے۔ جب ہمیں پتہ ہے ہم اچھوت دوسروں کے کنویں سے پانی نہیں لے سکتے تو پھر وہاں جانا ہی کیوں؟‘‘ وہ بکری والی کیسے چِلّا رہی تھی۔ ’’دیکھو تو منع کرنے کے بعد بھی کنویں سے پانی بھر رہی ہے۔ ہماری رسی بالٹی خراب کر دی….‘‘ اور مامی کو اس نے کتنی باتیں سنائی تھیں: تہارے نزدیک رہتے ہیں تو کا ہمارا کوئی دھرم کرم نہیں ہے؟ کا مرضی ہے تمھاری۔ صاف صاف کہہ دو؟‘‘

    مامی گڑ گڑا رہی تھی۔’’بائی جی، معاف کر دو۔ اتنی بڑی ہو گئی مگر عقل نہیں آئی اس کو۔ کتنا تو مارو ہوں۔‘‘ مامی وہیں سے مالتی کو مارتی ہوئی گھر لائی تھیں۔ ’’بیچاری مالتی!‘‘ سِلیا سوچ رہی تھی بھگوان اسے جلدی سے عقل دے۔ تب وہ ایسے کام نہیں کیا کرے گی۔

    ایک سال پہلے کی بات ہے۔ پانچویں کلاس کے ٹورنامنٹ ہو رہے تھے۔ کھیل کود، کے مقابلوں میں اس نے بھی حصہ لیا تھا۔ اپنے کلاس ٹیچر اور کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ وہ تحصیل کے اسکول میں گئی تھی۔ اس کے مقابلہ کی دوڑ شروع میں ہونے سے جلدی پوری ہو گئیں۔ وہ لمبی دوڑ اور کرسی دوڑ کی ریسوں میں اوّل آئی تھی۔ وہ اپنی کھو۔ کھو ٹیم کی کٹنچ تھی اور کھو کھو کے کھیل میں اس کی وجہ سے جیت ملی تھی۔

    اس کے ٹیچر گوکل پرساد ٹھاکر جی نے سب کے سامنے اس کی بہت تعریف کی تھی۔ ساتھ ہی پوچھا تھا، ’’ شیلجا‘‘ یہاں تحصیل میں تمھارے رشتے دار رہتے ہوں گے۔ تم وہاں جانا چاہتی ہو تو بتاؤ ہم پہنچا دیں گے۔‘‘ سِلیا ماما، مامی کے گھر کا پتہ جانتی تھی مگر ٹیچروں کے سامنے شرم کے مارے وہ نہیں بتا پائی۔ اس نے کہا، ’’مجھے تو یہاں کسی کا بھی پتہ نہیں معلوم۔‘‘ تب سر نے اس کی سہیلی ہیم لتا سے کہا تھا ’’اسے اپنی بہن کے گھر لے جاؤ، شام کو سبھی ایک ساتھ گاؤں لوٹیں گے، تب تک یہ وہاں آرام کر لے گی۔‘‘ ہیم لتا ٹھاکر سِلیا کے ساتھ ہی پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ اس کی بڑی بہن کا سسرال تحصیل میں تھا۔ ان کا گھر تحصیل کے اسکول کے پاس ہی تھا۔

    وہ سِلیا کو لے کر بہن کے گھر آئی۔ بہن کی ساس نے ہنس کر ان کا استقبال کیا۔ ہیم لتا کو پانی کا گلاس دیا۔ دوسرا گلاس ہاتھ میں لے کر سِلیا سے پوچھنے لگی، ’’کون ہے، کس کی بیٹی ہے؟ کون ٹھاکر ہے؟ سِلیا کچھ کہہ نہ سکی۔ ہیم لتا نے کہا ’موسی جی، میری سہیلی ہے، ساتھ میں آئی ہے۔ اس کے ماما مامی یہاں رہتے ہیں مگر اسے ان کا پتہ معلوم نہیں ہے۔‘‘ بہن کی ساس اسے دھیان سے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے۔ پھر ہیم لتا سے اس کی ذات کے بارے میں پوچھتی ہے۔ ہیم لتا نے دھیرے سے بتا دیا۔ اسے لگا ذات کے بارے میں سن کر موسی جی ایک منٹ کے لیے چونکی۔ پھر انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے سلیا سے پوچھا۔ ’’گاڈری محلہ کے پاس رہتے ہیں۔‘‘

    سِلیا نے ہاں کہہ کر سَر جھکا لیا۔ تب موسی جی نے بہت پیار جتاتے ہوئے کہا ’’کوئی بات نہیں بیٹی، ہمارا بھیا تمھیں سائیکل پر بٹھا کر چھوڑ آئے گا، ایسا کہتے ہوئے موسی جی پانی کا گلاس لے کر واپس اندر چلی گئیں۔ سلیا کو پیاس لگی تھی۔ مگر وہ موسی جی سے پانی مانگنے کی ہمّت نہیں کرسکی۔ موسی جی کے بیٹے نے اسے گاڈری محلے کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ سِلیا راستے بھر کڑھتی آ رہی تھی۔ آخر اسے پیاس لگی تو اس نے موسی جی سے پانی کیوں نہیں مانگ کر پیا۔ تب موسی کے چہرے پر ایک پل کے لیے آیا۔ رنگ اُس کی نظروں میں تیر گیا۔ کتنا مکھوٹا چڑھائے رکھتے ہیں یہ لوگ۔ موسی جی جانتی تھیں کہ اسے پیاس لگی ہے۔ پر ذات کا نام سن کر پانی کا گلاس لوٹا لے گئی۔ ’’کیا وہ پانی مانگنے پر انکار کر دیتی؟‘‘ سِلیا کو یہ سوال کچوک رہا تھا۔

    سلیا کو دیکھ کر ماما، مامی اور مالتی بہت خوش تھے۔ بڑے جوش و خروش سے ملے تھے۔ مگر سِلیا، ہیم لتا کی بہن کی سسرال سے ملی گھٹن کو بھول نہیں پا رہی تھی۔ شام کے وقت ماما نے اسے اسکول پہنچا دیا تھا۔ سلیا کا مزاج پریشان کن بنتا جا رہا تھا۔ ریت رواج سے الگ نئے نئے خیال اس کے من میں آئے۔ وہ سوچتی ’’آخر مالتی نے کون سا جرم کیا تھا۔ پیاس لگی، پانی نکال کر پی لیا۔‘‘ پھر وہ سوچتی، ’’ہیم لتا کی موسی جی سے وہ پانی کیوں نہیں لے سکی تھی؟ اور اب یہ اشتہار اونچے گھرانے کا نوجوان، سماجی کارندہ، ذات پات کے بھید بھاؤ مٹانے کے لیے نیچ ذات کی اچھوت لڑکی سے شادی کرے گا…. یہ سیٹھ جی مہاشے کا ڈھونگ ہے۔ دکھاوا ہے یا وہ سچ مچ کے سماج کے ریت رواج بدلنے والے سماجی انقلاب لانے والے مہان آدمی ہیں؟ اس کے دل میں یہ خیال بھی آتا کہ اگر اسے اپنی زندگی میں ایسے کسی مہان آدمی کا ساتھ ملا تو وہ اپنے سماج کے لیے بہت کچھ کر سکے گی۔ لیکن کیا کبھی ایسا ہوسکتا ہے؟

    یہ سوال اس کے من سے ہٹتا نہیں تھا۔ ماں کے سچ کی بنیاد پر کیے گئے تجربات پر اس کا اٹوٹ یقین تھا۔ مدھیہ پردیش کی زمین میں 60ء تک ایسی فصل نہیں اُگی تھی جو ایک چھوٹے گاؤں کی اچھوت جانی جانے والی بھولی بھالی لڑکی کے من میں اپنا اعتبار قائم کرسکتی۔ اور پھر دوسروں کے رحم و کرم پر عزت؟ اپنی خود داری کو کھو کر دوسروں کی شطرنج کا مہرہ بن کر رہ جانا، بیساکھیوں پر چلتے ہوئے جینا، نہیں کبھی نہیں۔

    سِلیا سوچتی۔’’ہم کیا اتنے لاچار ہیں، بے بس ہیں، ہماری اپنی بھی تو کچھ آن عزت ہے۔ انھیں ہماری ضرورت ہے۔ ہم کو ان کی ضرورت نہیں۔ ہم ان کے بھروسے کیوں رہیں۔ پڑھائی کروں گی، پڑھتی رہوں گی، تعلیم کے ساتھ اپنی شخصیت کو بھی بڑا بناؤں گی۔ ان سبھی رسم و رواج کی وجوہات کا پتہ لگاؤں گی جنھوں نے انھیں اچھوت بنا دیا ہے۔

    علم، عقل اور تمیز سے اپنے آپ کو اونچا ثابت کر کے رہوں گی۔ کسی کے سامنے جھکوں گی نہیں۔ نہ یہ بے عزتی سہوں گی۔‘‘ ان باتوں کو دل ہی دل میں سوچتی اور دہراتی سلیا ایک دن اپنی ماں اور نانی کے سامنے کہنے لگی۔ ’’میں شادی کبھی نہیں کروں گی۔‘‘

    ماں اور نانی اپنی بھولی بھالی بیٹی کو دھیان سے دیکھتی رہ گئیں۔ نانی خوش ہو کر بولی،’’شادی تو ایک نہ ایک دن کرنی ہی ہے بیٹی۔ مگر اس کے پہلے تو خوب پڑھائی کر لے۔ اتنی بڑی بن جا کہ بڑی ذات کے کہلانے والے کو اپنے گھر نوکر رکھ لینا۔‘‘

    ماں دل ہی دل میں مسکرا رہی تھی۔ سوچ رہی تھی۔ ’’میری سلو رانی کو میں خوب پڑھاؤں گی۔ اسے عزت کے لائق بناؤں گی۔‘‘

    (سشیلا ناک بھورے کی ہندی کہانی کے مترجم ف س اعجاز ہیں)

  • فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا؛ عدیم ہاشمی کی برسی

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا؛ عدیم ہاشمی کی برسی

    عدیم ہاشمی کی وجہِ شہرت ان کی شاعری اور ڈراما نگاری ہے۔ شعروسخن کی دنیا میں ان کے منفرد لب و لہجے نے انھیں‌ ہم عصرو‌ں میں ممتاز کیا اور اسی طرح ان کے لکھے ہوئے ڈرامے بھی بہت پسند کیے گئے اور یادگار ثابت ہوئے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار کی زندگی کا سفر 5 نومبر 2001 کو تمام ہوا۔ وہ شکاگو میں‌ مقیم تھے۔ عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدین تھا۔ وہ یکم اگست 1946ء کو بھارت کے شہر ڈلہوزی میں پیدا ہوئے تھے۔

    عدیم ہاشمی کا شمار اردو کے جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، مجھے تم سے محبت ہے، چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے سرفہرست ہیں۔

    وہ اچھے ڈراما نویس بھی تھے۔ عدیم ہاشمی نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ڈراما سیریل ’’آغوش‘‘ تحریر کیا جسے ناظرین نے بہت پسند کیا۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب ڈراما سیریل تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزاحیہ ڈراما سیریز گیسٹ ہائوس کی چند کہانیاں‌ بھی تحریر کیں۔

    عدیم ہاشمی کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی جسے اپنے وقت کے مشہور گلوکاروں نے گایا۔ یہ غزل ملاحظہ کیجیے:

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

    عدیم ہاشمی امریکا کے شہر شکاگو میں‌ پاکستانیوں کے لیے مخصوص قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پیر بخارا والا

    پیر بخارا والا

    میر حسن کے صاحبزادے، حُسنِ اخلاق اور اوصاف کی بزرگی میں بزرگوں کے فرزند رشید تھے، متانت، سلامت روی اور مسکینی ان کی سیادت کے لیے محضرِ شہادت دیتے تھے۔

    فیض آباد اور لکھنؤ میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ 16 برس کی عمر مشقِ سخن شروع کی اور خلق حسن کی مناسبت سے خلیقؔ تخلص اختیار کیا۔ ابتدا میں غزلیں بہت کہتے تھے اور والد بزرگوار سے اصلاح لیتے تھے۔

    جب شیخ مصحفیؔ لکھنؤ میں پہونچے تو میر حسنؔ ان دنوں بدر منیر لکھ رہے تھے، اور میر خلیق کی آمد کا یہ عالم کہ مارے غزلوں کے دم نہ لیتے تھے۔ شفیق باپ کو اپنے فکر سے فرصت نہ دیتے تھے۔ بیٹے کو ساتھ لے گئے، اپنی کم فرصتی کا حال بیان کیا اور اصلاح کے لیے شیخ موصوف کے سپرد کر دیا۔

    ہونہار جوان کی جوان طبیعت نے رنگ نکالا تھا کہ قدر دانی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نیشا پوری خاندان میں پندرہ روپیہ مہینے کا نوکر رکھوا دیا۔ انہی دنوں میں مرزا تقی ترقی (مرزا تقی ترقی خاندان مذکور میں ایک عالی ہمت امیر تھے اور سرکار اودھ میں جاگیردار تھے۔) نے چاہا کہ فیض آباد میں شعر و سخن کا چرچا ہو۔ مشاعرہ قائم کیا اور خواجہ حیدر علی آتش کو لکھنؤ سے بلایا، تجویز یہ تھی کہ انھیں وہیں رکھیں۔ پہلے ہی جلسہ میں جو میر خلیقؔ نے غزل پڑھی۔ اُس کا مطلع تھا۔

    رشکِ آئینہ ہے اس رشکِ قمر کا پہلو
    صاف ادھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو

    آتش نے اپنی غزل پھاڑ ڈالی اور کہا کہ جب ایسا شخص یہاں موجود ہے تو میری کیا ضرورت ہے۔

    میر خلیقؔ، نازک خیالیوں میں ذہن لڑا رہے تھے کہ باپ کی موت نے شیشہ پر پتھر مارا، عیال کا بوجھ پہاڑ ہو کر سر پر گرا، جس نے آمد کے چشمے خاک ریز کر دیے، مگر ہمّت کی پیشانی پر ذرا بل نہ آیا۔

    اکثر فیض آباد میں رہتے تھے، لکھنؤ آتے تھے تو پیر بخارا میں ٹھہرا کرتے تھے۔ پُر گوئی کا یہ حال تھا کہ مثلاً ایک لڑکا آیا۔ اس نے کہا میر صاحب! آٹھوں کا میلہ ہے ہم جائیں گے ایک غزل کہہ دیجیے۔ اچھا بھئی کہہ دیں گے، میر صاحب! میلہ تو کل ہے، ہم کل جائیں گے ابھی کہہ دیجیے۔ اسی وقت غزل لکھ دی، اس نے کہا، یاد بھی کرا دیجیے۔ میر صاحب اسے یاد کروا رہے ہیں، اُن دنوں میں غزلیں بِکا کرتی تھیں۔ میاں مصحفیؔ تک اپنا کلام بیچتے تھے، یہ بھی غزلیں کہہ کر فروخت کرتے تھے۔

    ایک دن ایک خریدار آیا اور اپنا تخلص ڈلوا کر شیخ ناسخؔ کے پاس پہونچا کہ اصلاح دے دیجیے۔ شیخ صاحب نے غزل پڑھ کر اس کی طرف دیکھا اور بگڑ کر کہا، ابے تیرا منھ ہے جو یہ غزل کہے گا، ہم زبان پہچانتے ہیں۔ یہ وہی پیر بخارا والا ہے۔

    میر خلیقؔ صاحبِ دیوان تھے۔ مگر اُسے رواج نہیں دیا۔ نقد سخن اور سرمایہ مضامین جو بزرگوں سے ورثہ پہونچا تھا، اُسے زادِ آخرت میں صرف کیا اور ہمیشہ مرثیے کہتے رہے، اسی میں نام اور زمانہ کا کام چلتا رہا۔ آپ ہی کہتے تھے اور آپ ہی مجلسوں میں پڑھتے تھے۔ قدر دان آنکھوں سے لگا لگا کر لے جاتے تھے۔

    (محمد حُسین آزاد کی مشہور تصنیف آبِ حیات سے اقتباس)

  • پھر سے پڑھیے….

    پھر سے پڑھیے….

    رئیس صاحب کے قلم سے شعر ٹپکتے تھے۔ شہر کے نوجوان مشاعروں میں پڑھنے کے لیے ان سے غزلیں لکھوا کر لے جاتے تھے۔ ایک بار ایسے ہی ایک نوجوان نے، جو کسی طرح سے بھی شاعر نہیں لگتا تھا، پیچھے پڑ کر رئیس صاحب سے غزل لکھوا لی اور رات کو اسی مشاعرے میں سنانے پہنچ گیا جس میں رئیس صاحب بھی موجود تھے اور وہیں اسٹیج پر بیٹھے تھے۔

    اس لڑکے نے غضب یہ کیا کہ غزل اپنے ہاتھ سے بھی نہیں لکھی بلکہ رئیس امروہوی صاحب کے ہاتھ کی تحریر لے کر پڑھنے لگا۔ پڑھتے پڑھتے ایک مصرع کچھ یوں پڑھا:

    اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہے

    سارے مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ کہیں سے آواز آئی، پھر سے پڑھیے میاں صاحب زادے۔ مصرع پھر سے پڑھا گیا:

    اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہے​

    اس بار کئی آوازیں ابھریں۔ واہ وا۔ مکرر ارشاد۔ اس نے پھر پڑھا اور زیادہ لہک کر پڑھا؛
    اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہے…

    بس پھر کیا تھا۔ مجمع نے یہ مصرع بار بار پڑھوانا شروع کیا اور شاعر کی سرشاری بڑھتی گئی۔ قریب ہی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے رئیس امروہوی صاحب پہلے تو کھنکھارتے رہے، آخر ان سے نہ رہا گیا اور مصرعے کو درست کرتے ہوئے بولے۔

    اے کہ تیرے چتون سے۔۔۔۔ چتون سے۔۔۔۔

    اس پر شاعر کی باچھیں کھل اٹھیں اور رئیس صاحب کی طرف منہ کر کے بولا۔ "رئیس صاحب، چتون بھی ٹھیک ہوگا، مگر حَپّوں بھی مزا دے ریا ہے۔”

    (رضا علی عابدی کے مضمون "مشاعروں کی بود و باش” سے انتخاب)

  • مٹھّو بھٹیارا

    مٹھّو بھٹیارا

    ناشتہ بیچنے والے کو بھٹیارا کہا جاتا تھا۔ میاں مٹّھو کا نام تو کچھ بھلا سا ہی تھا، کریم بخش یا رحیم بخش ٹھیک یاد نہیں، ڈھائی ڈھوئی کے مینہ سے پہلے کی بات ہے، ساٹھ برس سے اوپر ہی ہوئے ہوں گے، مگر ایک اپنی گلی والے کیا، جو انھیں پکارتا میاں مٹّھو کہہ کر اور انھیں بھی اسی نام سے بولتے دیکھا۔

    میاں مٹّھو بھٹیارے تھے۔ سرائے کے نہیں، دلّی میں محلے محلے جن کی دکانیں ہوتی ہیں، تنور میں روٹیاں لگتی اور شوربا، پائے اور اوجھڑی بکتی ہے۔ نان بائی اور نہاری والوں سے ان بھٹیاروں کو ذرا نیچے درجے کا سمجھنا چاہیے۔ تنور والے سب ہوتے ہیں۔ نان بائیوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے۔ یہ بے خمیر کے پکاتے ہیں۔ ادھر آٹا گندھا اور ادھر روٹیاں پکانی شروع کر دیں۔

    پراٹھے تو ان کا حصہ ہے۔ بعض تو کمال کرتے ہیں۔ ایک ایک پراٹھے میں دس دس پرت اور کھجلے کی طرح خستہ۔ دیکھنے سے مُنھ میں پانی بھر آئے۔ قورمہ اور کبابوں کے ساتھ کھائیے۔ سبحان اللہ۔ بامن کی بیٹی کلمہ نہ پڑھنے لگے تو ہمارا ذمہ۔

    شاہ تارا کی گلی میں شیش محل کے دروازے سے لگی ہوئی میاں مٹّھو کی دکان تھی۔ شیش محل کہاں؟ کبھی ہو گا۔ اس وقت تک آثار میں آثار ایک دروازہ وہ بھی اصلی معنوں میں پھوٹا ہوا باقی تھا۔ نمونتہً بہ طور یادگار۔ اب تو ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ بھی صاف ہو گیا۔ اس کی جگہ دوسری عمارتیں بن گئیں۔ دروازہ تو کیا رہتا، دروازے کے دیکھنے والے بھی دو چار ہی ملیں گے۔

    سنا ہے جاڑے، گرمی، برسات محلّے بھر میں سب سے پہلے میاں مٹھو کی دکان کھلتی۔ منھ اندھیرے، بغل میں مسالے کی پوٹلی وغیرہ سر پر پتیلا، پیٹھ کے اوپر کچھ چھپٹیاں کچھ جھانکڑ لگنی میں بندھے ہوئے گنگناتے چلے آتے ہیں۔ آئے دکان کھولی، جھاڑو، بہارو کی، تنور کھولا، ہڈیوں گڈیوں یا اوجھڑی کا ہنڈا نکالا۔ ہڈیاں جھاڑیں۔ اس کوٹھی کے دھان اس کوٹھی میں کیے۔ یعنی گھر سے جو پتیلا لائے تھے۔ ہنڈے کا مال اس میں ڈالا۔ مسالہ چھڑکا اور اپنے دھندے سے لگ گئے۔

    سورج نکلتے نکلتے سالن، نہاری، شروا جو کہو درست کر لیا۔ تندور میں ایندھن جھونکا۔ تندور گرم ہوتے ہوتے غریب غربا کام پر جانے والے روٹی پکوانے یا لگاون کے لیے شروا لینے آنے شروع ہو گئے۔ کسی کے ہاتھ میں آٹے کا طباق ہے تو کوئی مٹّی کا پیالہ لیے چلا آتا ہے اور میاں مٹّھو ہیں کہ جھپا جھپ روٹیاں بھی پکاتے جاتے ہیں اور پتیلے میں کھٹا کھٹ چمچ بھی چل رہا ہے۔

    مٹھو میاں کی اوجھڑی مشہور تھی۔ دور دور سے شوقین منگواتے۔ آنتوں اور معدے کے جس مریض کو حکیم اوجھڑی کھانے کو بتاتے وہ یہیں دوڑا چلا آتا۔ کہتے ہیں کہ پراٹھے بھی جیسے میاں مٹھو پکا گئے پھر دلّی میں کسی کو نصیب نہ ہوئے۔

    ہاتھ کچھ ایسا منجھا ہوا تھا، تندور کا تائو ایسا جانتے تھے کہ مجال ہے جو کچا رہے یا جل جائے۔ سرخ جیسے باقر خانی، سموسے کی طرح ہر پرت الگ نرم کہو تو لچئی سے زیادہ نرم بالکل ملائی۔ کرارا کہو تو پاپڑوں کی تھئی۔ کھجلے کو مات کرے۔ پھر گھی کھپانے میں وہ کمال کہ پائو سیر آٹے میں ڈیڑھ پائو کھپا دیں۔ ہر نوالے میں گھی کا گھونٹ اور لطف یہ کہ دیکھنے میں روکھا۔ غریبوں کے پراٹھے بھی ہم نے دیکھے۔ دو پیسے کے گھی میں تر بہ تر۔

    بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا کہ ڈیڑھ پائو گھی والے سے دو پیسے والے پر زیادہ رونق ہے، اس ہنر کی بڑی داد یہ ملتی کہ غریب سے غریب بھی پراٹھا پکوا کر شرمندہ نہ ہوتا۔ پوسیری اور چھٹنکی پراٹھے دیکھنے والوں کو یکساں ہی دکھائی دیتے۔ مال دار اور مفلس کا بھید نہ کھلتا۔

    (مغلیہ دور اور برطانوی راج کی دلّی کے مختلف مقامات کا احوال اور وہاں کے لوگوں کے شب و روز کو اپنے منفرد اسلوب میں بیان کرنے والے اشرف صبوحی کے مضمون سے اقتباس)

  • درویش وزیر! (حکایت)

    درویش وزیر! (حکایت)

    کسی بادشاہ نے معمولی خطا پر اپنے وزیر کو اس کے منصب سے ہٹا دیا۔ فراغت کے دنوں‌ میں وزیر کو درویشوں کی صحبت میں‌ بیٹھنے کا موقع ملا اور اس نے خود کو بہت مطمئن، آسودہ اور روحانی طور پر مسرور پایا۔ ادھر تھوڑا عرصہ گزرنے پر بادشاہ کو احساس ہوگیا کہ وزیر کی خطا ایسی نہ تھی کہ اسے یوں دربار سے نکال دیا جاتا۔ اس نے وزیر کو دربار میں طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے اور جو ہوا اسے فراموش کردے۔

    اس پر سابق وزیر نے بادشاہ سے جو کہا وہ دنیا داروں اور درباریوں کے لیے حیران کُن تھا۔ درباریوں‌ نے سنا کہ اس نے بادشاہ کو نہایت نرم اور مؤدب لہجے میں‌ انکار کردیا اور وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ اب گوشہ نشیں‌ ہے اور سمجھتا ہے کہ جو لوگ مکانِ عافیت میں‌ بیٹھ جاتے ہیں‌ وہ دوسروں کی ناخوشی اور اپنی سلامتی کے خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر اصرار کیا اور کہاکہ مجھے سلطنت کے انتظام کے واسطے ایک عقل مند اور تجربہ کار وزیر کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے تم سے بہتر کوئی نہیں‌ ہے۔

    وزیر نے جواب دیا۔ آپ کو ایک عقل مند چاہیے اور اگر میں‌ یہ منصب قبول کرتا ہوں تو یہ میری کم عقلی اور نادانی ہو گی۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے کاموں کا ذمہ ہی نہ لیا جائے۔ بادشاہ سلامت غور کیجیے کہ ہُما تمام پرندوں میں کیوں‌ اتنا معزز ہے؟ وہ اس لیے کہ وہ ہڈیاں کھا لیتا ہے، لیکن کسی جانور کو نہیں‌ ستاتا۔

    سابق وزیر نے بادشاہ کو ایک حکایت بھی سنائی۔ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ کسی نے سیاہ گوش سے پوچھا، تم نے شیر کے قریب رہنا کیوں پسند کیا؟ سیاہ گوش نے جواب دیا، اس لیے کہ اس کے شکار کا بچا ہوا کھاؤں اور اپنے دشمنوں سے محفوظ رہوں، میں‌ شیر کے دبدبہ میں حفاظت سے زندگی بسر کررہا ہوں اور یوں دوسرو‌ں کی دشمنی سے محفوظ ہوں۔

    بادشاہ اس کی بات غور سے سن رہا تھا۔ وزیر نے اسے نرم اور اپنی طرف متوجہ پایا تو مزید حکمت و دانائی کے موتی بکھیرے۔ کہنے لگا، بادشاہ سلامت! دانا کہتے ہیں بادشاہوں کا مزاج بدلتا رہتا ہے، ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک وقت تو وہ سلام کرنے اور آداب بجا لانے پر رنجیدہ اور ناراض ہوسکتے ہیں اور دوسرے وقت گالیاں کھا کر انعام دیتے ہیں۔

    بادشاہ پر اس کی باتوں‌ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے اپنے سابق وزیر اور حال کے اس درویش مزاج شخص کو درباری منصب قبول کرنے پر مجبور نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور عزت کے ساتھ رخصت کردیا۔

    درویشوں کی صحبت میں اس دنیا اور جاہ و منصب کی حقیقت سے واقف ہوجانے والے اس شخص نے دربار سے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ اگر انسان اپنی عزت اور مرتبہ کو پہچان لے تو لازم ہے کہ وہ اس کا لحاظ رکھے، اور دل لگی اور ہنسی مذاق اُن مسخروں کے لیے چھوڑ دے جن کی کسی دربار میں‌ کمی نہیں‌ اور جو ہمہ وقت اس کام کے لیے حاضر رہنا پسند کرتے ہیں۔

    ( نامعلوم مصنف کی کہانی سے ماخوذ)

  • تابش دہلوی: آج ہستی کا طلسم ٹوٹا تھا!

    تابش دہلوی: آج ہستی کا طلسم ٹوٹا تھا!

    سید مسعود الحسن کو دنیائے ادب میں تابش دہلوی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ تابش دہلوی 23 ستمبر 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر اور براڈ کاسٹر کی برسی ہے۔

    9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہونے والے تابش دہلوی طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے بطور نیوز کاسٹر اور پروڈیوسر وابستہ رہے۔ ان کا مخصوص لب و لہجہ بھی ان کی وجہِ شہرت ہے۔

    تابش دہلوی کا کلام مشاعروں سے ان کے شعری مجموعوں تک بہت پسند کیا گیا۔ ان کی شاعری نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے مجموعوں‌ میں‌ محفوظ ہے۔ تابش دہلوی نے اپنے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات اور علمی و ادبی واقعات کو خوب صورتی سے صفحات پر اتارا۔ دیدہ باز دید ایک ایسی ہی تصنیف ہے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    باب نظارہ مگر کُھلتا ہے

  • لوحِ مزار یا ملازمت کی درخواست؟

    لوحِ مزار یا ملازمت کی درخواست؟

    اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیزوتکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کو ضرور ساتھ لیتا ہوں۔

    ایسے موقعوں پر ہر شخص اظہارِ ہم دردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطعۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ صرف پس ماندگان کو بلکہ خود مجھے بھی بڑا دکھ ہوتا ہے۔لیکن مرزا نے چپ ہونا سیکھا ہی نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صحیح بات کوغلط موقع پر بے دھڑک کہنے کی جو خداداد صلاحیت اُنہیں ودیعت ہوئی ہے وہ کچھ ایسی ہی تقریبوں میں گل کھلاتی ہے۔

    وہ گھپ اندھیرے میں سرِ رہ گزر چراغ نہیں جلاتے، پھلجھڑی چھوڑتے ہیں، جس سے بس ان کا اپنا چہرہ رات کے سیاہ فریم میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگتا ہے۔ اور پھلجھڑی کا لفظ تو یونہی مروّت میں قلم سے نکل گیا، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جس جگہ بیٹھ گئےآگ لگا کر اُٹھے۔

    اس کے باوصف، وہ خدا کے ان حاضر و ناظر بندوں میں سے ہیں جو محلّے کی ہر چھوٹی بڑی تقریب میں، شادی ہو یا غمی، موجود ہوتے ہیں۔ بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتےاور سب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اِس اندازِ نشست و برخاست میں ایک کُھلا فائدہ یہ دیا کہ وہ باری باری سب کی غیبت کر ڈالتے ہیں۔ ان کی کوئی نہیں کر پاتا۔

    چناں چہ اس سنیچر کی شام کو بھی میوہ شاہ قبرستان میں وہ میرے ساتھ تھے۔ سورج اس شہر خموشاں کو جسے ہزاروں بندگانِ خُدا نے مرمر کے بسایا تھا، لال انگارہ سی آنکھ سے دیکھتا دیکھتا انگریزوں کے اقبال کی طرح غُروب ہو رہا تھا۔ سامنے بیری کے درخت کے نیچے ایک ڈھانچہ قبر بدر پڑا تھا۔ چاروں طرف موت کی عمل داری تھی اور سارا قبرستان ایسا اداس اور اجاڑ تھا جیسے کسی بڑے شہر کا بازار اتوار کو۔ سبھی رنجیدہ تھے، (بقول مرزا، دفن کے وقت میّت کے سوا سب رنجیدہ ہوتے ہیں) مگر مرزا سب سے الگ تھلگ ایک پُرانے کتبے پر نظریں گاڑے مسکرا رہے تھے۔

    چند لمحوں بعد میرے پاس آئے اور میری پسلیوں میں اپنی کُہنی سے آنکس لگاتے ہوئے اُس کتبے تک لے گئے، جس پر منجملہ تاریخِ پیدائش و پنشن، مولد و مسکن، ولدیّت و عہدہ (اعزازی مجسٹریٹ درجہ سوم) آسُودہ لحد کی تمام ڈگریاں مع ڈویژن اور یونیورسٹی کے نام سے کندہ تھیں اور آخر میں، نہایت جلی حروف میں، مُنہ پھیر کر جانے والے کو بذریعہ قطعہ بشارت دی گئی تھی کہ اللہ نے چاہا تو بہت جلد اُس کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔

    میں نے مرزا سے کہا، ‘‘یہ لوحِ مزار ہے یا ملازمت کی درخواست؟ بھلا ڈگریاں، عہدہ اور ولدیت وغیرہ لکھنے کا کیا تُک تھا؟’’

    انھوں نے حسبِ عادت بس ایک لفظ پکڑ لیا۔ کہنے لگے‘‘ٹھیک کہتے ہو۔ جس طرح آج کل کسی کی عمر یا تنخواہ دریافت کرنا بُری بات سمجھی جاتی ہے، اِسی طرح، بالکل اِسی طرح بیس سال بعد کسی کی ولدیّت پُوچھنا بداَخلاقی سمجھی جائے گی!’’
    اب مجھے مرزا کی چونچال طبیعت سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انھیں ولدیّت کے مستقبل پر مسکراتا چھوڑ کر میں آٹھ دس قبر دُور ایک ٹکڑی میں شامل ہوگیا، جہاں ایک صاحب جنّت مکانی کے حالاتِ زندگی مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب خاکم بدہن سے انتخاب)

  • عشق و عاشقی کو فلموں میں سے نکال دیجیے!

    عشق و عاشقی کو فلموں میں سے نکال دیجیے!

    سنا ہے ریاض شاہد کی فلم غرناطہ کے بارے میں سنسر بورڈ کو تامل ہے کہ اس میں رقص کیوں ہیں، کہانی مجاہدانہ ہے، بلکہ بہت ہی مجاہدانہ جس کے لیے جناب نسیم حجازی کا نام ضمانت بلکہ ناقابلِ ضمانت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

    ہم کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ چھوٹی چوٹی اصلاحیں کرنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ اصلاح پوری ہونی چاہیے۔ اسلامی مملکت میں فلم بنے تو اس میں شراب اور شرابیوں کے سین کا کیا کام، لوگ لسی پیں کہ ہمارا قومی مشروب ہے اور اس کے بعد مونچھیں صاف کرتے اور ڈکار لیتے ہوئے الحمدُ للہ بھی کہیں تو اور مناسب ہے۔ میں آوارہ ہوں آوارہ ہوں، قسم کے گانے اور غنڈہ گردی کے سین، ہیروئن پر حملے خواہ وہ غیر مجرمانہ ہی کیوں نہ ہوں، آخر کہاں ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔

    چھی چھی، بُری بات اور ہم تو کئی بار یہ بھی کہ چکے ہیں عشق و عاشقی کو فلموں میں سے نکال دیجیے۔ ساری قابلِ اعتراض باتیں نکل جائیں گی۔ ہیرو ہیروئن کو مہنگے داموں محض اس لیے فلم میں ڈالنا پڑتا ہے کہ عشق کریں اور ولن بھی تاکہ اس عشق میں کھنڈت ڈالیں۔

    اب جب کہ ہماری فلمی صنعت کے اکثر لوگ حاجی ہو چکے ہیں۔ ہماری اس گزارش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

    جو لوگ مُصر ہیں کہ رومانی مناظر کے بغیر فلم نہیں بن سکتی، ان کی تالیف قلب کے لیے ہمیں ایک دوست کا یہ مشورہ پسند آیا کہ سارے رومانی سین تو رکھے جائیں، فقط اس وقت کیمرہ بند رکھا جائے۔

    (ابنِ‌ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)