Tag: اردو ادب

  • ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    آج اردو کی ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔ وہ 15 ستمبر 2012 کو کراچی میں‌ وفات پا گئی تھیں۔ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ مسرور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان آگئیں اور یہاں‌ لاہور میں سکونت اختیار کی۔

    ان کے والد ڈاکٹر تہوّر احمد خاں برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے جو 17 جنوری 1929 کو پیدا ہونے والی ہاجرہ مسرور کو کم عمری میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ والد کے انتقال کے بعد کنبے کی کفالت کی ذمہ داری والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ یوں اس خاندان اور ہاجرہ مسرور نے سخت اور مشکل حالات دیکھے۔ ہاجرہ مسرور کی بہن خدیجہ مستور بھی اردو کی معروف ادیب تھیں۔

    پاکستان میں ہاجرہ بطور کہانی و افسانہ نگار اپنا سفر شروع کرچکی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ ہاجرہ مسرور نے معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شایع کرنا شروع کیا جب کہ کے ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے سات مجموعے شایع ہوئے جن میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی لکھے۔

    ہاجرہ مسرور نے پاکستان میں متعدد فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھیں اپنے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔

    پاکستان کی اس معروف ادیب کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    ہاجرہ مسرور پاکستان کے معروف صحافی احمد علی خان سے رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئیں۔ بعد میں‌ ہاجرہ مسرور کراچی منتقل ہوگئیں اور اسی شہر میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • "مخربِ زبان….”

    "مخربِ زبان….”

    حالی کے دوست بے شمار تھے، لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی، غیرمذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔ حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سید سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سرسید کی سوانح حیاتِ جاوید کی تصنیف تھی۔

    یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:

    ”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔

    ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سید صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلیٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔

    حسرت اور اُن کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے مگر زین العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کرکے حسرت اور اُردوئے معلیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے۔

    حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے۔ اتنے میں سید صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:

    ” ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔

    فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکرا کر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کر دیتی تھی۔“

    جب حالی کی شاہ کار کتاب ’حیاتِ جاوید‘ شائع ہوئی تو شبلی نعمانی نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مولوی عبدالحق ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں جب میں نے حیاتِ جاوید کا ایک نسخہ ان کو دیا تو دیکھتے ہی فرمایا۔

    ”یہ کذب و افترا کا آئینہ ہے۔“ یہ جملہ سن کر عبدالحق دم بخود رہ گئے کیوں کہ پڑھنے سے پہلے ایسی سخت رائے کیا معنیٰ رکھتی تھی۔

    (سید تقی عابدی کے مضمون سے اقتباس)

  • 9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    دنیائے سخن میں‌ اختر شیرانی شاعرِ رومان مشہور ہیں۔ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے اختر شیرانی نے 9 ستمبر 1948 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج اردو کے اس معروف شاعر کا یومِ وفات ہے۔

    اختر شیرانی اردو زبان و ادب کے نام وَر محقق حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ 4 مئی 1905 کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہونے والے اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا اور وہیں‌ مدفون ہیں۔

    اختر شیرانی متعدد ادبی جرائد کے مدیر رہے۔ وہ اپنی نظم نگاری کے لیے زیادہ مشہور ہوئے اور روایتی رومانوی مضامین کے باوجود ان کا براہِ راست محبوب سے خطاب ان کی شہرت کا ایک سبب ہے۔

    اختر ایک رندِ بلاخیز تھے اور اسی کثرتِ شراب نوشی نے انھیں‌ زندگی سے محروم کردیا۔انھوں نے اپنی نظموں‌ کا موضوع اپنی محبوب شہناز، ریحانہ، عذرا، سلمیٰ کو بنایا اور ان سے براہِ راست خطاب کرنے کے ساتھ منظوم خطوط سے بھی دل دہی اور دل داریاں‌ کیں۔

    اختر شیرانی کی نظموں‌ میں‌ خوب صورت استعارے اور تراکیب ملتی ہیں‌ اور شعری لطافتوں اور نزاکتوں کا اہتمام بھی نظر آتا ہے۔ اختر نے رباعیاں اور ماہیے بھی کہے اور غزل بھی جن کے مضامین خمریات سے بھرے ہیں۔

    اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیورِ آوارہ اور لالۂ طور شامل ہیں۔

  • وہ مشہور صوفی جنھوں‌ نے اردو کو ہندوستانی عوام میں‌ مقبول بنایا

    وہ مشہور صوفی جنھوں‌ نے اردو کو ہندوستانی عوام میں‌ مقبول بنایا

    اردو زبان کس طرح وجود میں‌ آئی، برصغیر میں اس نے کیسے فروغ اور عروج پایا؟ یہ موضوع ماہرینِ‌ لسانیات اور علمی و ادبی محققین میں‌ زیرِ بحث رہا ہے اور آج بھی اس پر صرف علمائے اردو میں‌ اختلاف رائے موجود ہے بلکہ اردو شاید وہ واحد زبان ہے جو اس حوالے سے متنازع رہی ہے۔

    یہ ایک طویل بحث ہے جسے ماہرینِ لسانیات اور محققین نے اپنے طویل مضامین اور مقالوں‌ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن علمی و ادبی حلقوں میں ہندوستان کے صوفیائے کرام کا نام بھی لیا جاتا ہے جن کا‌ اردو کی تشکیل اور فروغ میں‌ بڑا اہم کردار ہے۔

    یہ صوفیا اور درویشانِ ہند گیارہویں سے انیسویں صدی عیسوی تک اس زبان کے فروغ کے لیے کسی نہ کسی شکل میں‌ متحرک نظر آتے ہیں۔

    علمی و ادبی تذکروں‌ اور مختلف کتب میں زبان کے تشکیلی دور میں مسلم صوفیا اور دیگر مذہبی شخصیات کا کردار بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں جن صوفیا کو اس حوالے سے نہایت معتبر تسلیم کیا جاتا ہے ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، برہان الدین قطب عالم، سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم، شاہ میراں جی شمس العشاق، قاضی محمود دریائی، شیخ برہان الدین جانم، شیخ خوب محمد چشتی، عبدالرحیم خان خاناں، سلطان باہو، بلھے شاہ، وارث علی شاہ کے علاوہ کبیر داس اور گورو نانک کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔

    ان صوفیا نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان پروان چڑھانے اور ملک کے کونے کونے تک پھیلانے کا جو کارنامہ انجام دیا اس سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا اور یہی نہیں‌ بلکہ انہی کی وجہ سے عوام میں‌ اس زبان سے لگاؤ اور قربت پیدا ہوئی جس نے ایک بولی کو زبان کی شکل دی۔ بقول انور سدید:

    "یہ لوگ حبِ دنیا، حبِ جاہ اور حب دولت سے آزاد تھے۔ دنیا پرستوں کو حق، صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصدِ حیات تھا۔ چنانچہ درویشانِ ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہانِ ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشوونما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔”

    صوفیا کا یہ لسانی کردار اردو کے لیے حقیقی معنیٰ میں مفید و کارآمد ثابت ہوا۔ تاریخ‌ بتاتی ہے کہ مشائخ نے ہندوستان میں اپنی تعلیمات اور سلوک سے امن اور پیار قائم کیا، بھائی چارے کو فروغ دیا اور جہاں ہندوستانیوں کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے کوششیں کیں، وہیں‌ اردو زبان کے لیے بھی ان کا کردار لائقِ‌ تحسین ہے۔

    (حیدر علی آرزو، دہلی کے مضمون سے اقتباس)

  • شہرۂ آفاق ادیب ابنِ صفی کے لیے ستارۂ امتیاز

    شہرۂ آفاق ادیب ابنِ صفی کے لیے ستارۂ امتیاز

    شہرۂ آفاق ناول نگار ابنِ صفی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا ہے۔ جاسوسی کی دنیا کے مقبول ترین کردار علی عمران کے خالق کو بعد از مرگ یومِ دفاع پر اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ایوانِ صدر سمیت صوبوں میں گورنر ہاؤس میں فنونِ لطیفہ سے وابستہ جن شخصیات کو اعزازات دیے گئے ان میں ابنِ صفی شامل کا نام شامل تھا جو 1980 میں انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا، جو دنیا بھر میں‌ قلمی نام ابنِ صفی سے پہچانے گئے۔ 1948 میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسرار احمد نے سنجیدگی سے قلم تھاما اور ان کی پہلی کہانی ایک جریدے میں شایع ہوئی جس کے بعد ہر ماہ ایک جاسوسی ناول لکھنے کا آغاز ہوا اور انھوں‌ نے خود کو ابنِ صفی کے نام سے متعارف کروایا اور آج بھی جاسوسی ادب میں یہ نام سرِفہرست اور نہایت معتبر ہے۔

    وہ 1952 میں پاکستان آگئے تھے اور یہاں جاسوسی دنیا کا وہ لازوال اور مقبول ترین کردار سامنے لائے جس نے گویا انھیں شہرت کے ہفت آسمان طے کروا دیے، یہ کردار تھا علی عمران۔

    یہ 1955 کی بات ہے اور اس کے بعد 1957 سے 1960 تک ابنِ صفی کا تخلیقی جوہر عروج پر نظر آیا۔ انھوں نے فریدی اور حمید جیسے جاسوسی کردار متعارف کروائے اور اسی دوران جاسوسی ناولوں شیدا قارئین عمران سیریز کے دیوانے ہوچکے تھے۔

  • آغا صاحب انسان نہیں!

    آغا صاحب انسان نہیں!

    آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔

    آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا۔ ’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھیے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھیے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘۔

    اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔

    ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سیکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں۔‘‘ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے:

    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے:

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    زردار، بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لیے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فرمایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے۔ وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا۔‘‘

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بامِ یار پر
    پَر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے:

    کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے:

    ہمیں بھی نامہ بَر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے
    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔ وہ شعر ہے۔۔۔۔ شعر ہے۔۔۔ کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔۔۔۔۔ ہاں، یاد آ گیا۔

    لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون "ایک شعر یاد آیا” سے اقتباس)

  • اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    آج دنیائے ادب کے معروف نقاد، انشائیہ نگار، محقق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات اور نئے زاویوں سے مالا مال کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922 کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متمول علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956 میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول ثابت ہوا جریدہ ثابت ہوا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی مضامین "نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا اور اسی طرح انشائیے بھی کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور ان کے متعدد شعری مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    7 ستمبر 2010 کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گائوں میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    آج اردو اور پنجابی زبانوں کے نام ور ادیب، دانش ور، افسانہ نگار اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی ہے۔ 22 اگست 1925 کو مکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہونے والے اشفاق احمد 7 ستمبر 2004 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ لاہور کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

    دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ اشفاق احمد نے تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ جیسے ادبی رسائل کی ادارت کی اور کئی برس اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے ان کے پروگرام یادگار ثابت ہوئے۔ اشفاق احمد کو ایک صوفی، حکیم و دانا کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے اخلاقی لیکچرز اور علمی و ادبی انداز میں‌ بیان کردہ واقعات اور قصّوں‌ پر مشتمل مضامین کے مجموعہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد کا افسانوں پر مشتمل مجموعہ "ایک محبت سو افسانے” بھی بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اسی طرح توتا کہانی ان کی ایک مشہور تخلیق ہے۔

    ریڈیو پر اشفاق احمد نے صدا کاری کے ساتھ ایک یادگار ڈرامے "تلقین شاہ” کا اسکرپٹ بھی لکھا جب کہ پاکستان ٹیلی وژن سے ان کے متعدد ڈراما سیریل نشر ہوئے جنھیں‌ بہت پزیرائی ملی۔ اشفاق احمد کے مضامین، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ڈراموں کو پاکستان بھر میں‌ بڑی تعداد میں قارئین اور ناظرین نے پڑھا، دیکھا اور انھیں سراہا۔

    اشفاق احمد کو حکومت نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیے۔ ان کی فکرانگیز تحریر سے ایک پارہ پیش ہے۔

    اشفاق احمد کہتے تھے میرے پاس ایک بلّی تھی، اس کو جب بھی بھوک لگتی تھی میرے پاﺅں چاٹ لیتی اور میں اسے کھانا دے دیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلّی مجھ سے بہتر ہے۔ اس کو پکا یقین ہے کہ اپنے مالک کے پاس سے اس کی ہر طلب پوری ہو گی، لیکن انسان کو ایسا یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ ان کاموں میں بھی جو اس کے اختیار میں نہیں ہوتے۔

  • ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    سید حسن عسکری نے اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے شہرت اور مقام حاصل کیا۔ آج اردو کے اس ترقی پسند ادیب، معروف شاعر اور صحافی کی برسی ہے۔ حسن عابدی 6 ستمبر 2005 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کی ایک ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • پچیس منزلہ عمارت، تیرہویں‌ منزل اور 74 برس کا شاعر

    پچیس منزلہ عمارت، تیرہویں‌ منزل اور 74 برس کا شاعر

    بزرگوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جنھیں دیکھ کر آدمی عبرت پکڑتا ہے، لیکن بعض خوش نصیب بزرگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کر آدمی عبرت کے سوائے ہر چیز کو پکڑ لیتا ہے، جیسے تین سال پہلے ایک دن میں نے کنور صاحب (کنور مہندر سنگھ بیدی سحر) کو دیکھ کر اپنا کلیجہ پکڑ لیا تھا۔

    یہ اُس دن کی بات ہے جب دہلی میں ہر دن کی طرح بجلی فیل ہوگئی تھی۔ مجھے اور کنور صاحب کو دہلی کی ایک پچیس منزلہ عمارت کی ساتویں منزل پر پہنچنا تھا اور لفٹ بند تھی۔ کام چوں کہ میرا تھا اسی لیے میں نے کنور صاحب سے کہا، ’’میرا کام اتنا ضروری نہیں ہے کہ آپ ساتویں منزل تک چڑھ کر جائیں اور پھر آپ کی عمر بھی تو 74 برس کی ہوچکی ہے۔‘‘

    میرے اس جملے کو سنتے ہی اُن کے بڑھاپے پر شباب آگیا اور وہ بڑی تیزی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ میں انہیں منع کرتا رہا، سمجھاتا رہا کہ میں نے یہ جملہ اس لیے نہیں کہا کہ وہ 74 برس کے ہوگئے ہیں بلکہ اس لیے کہا ہے کہ میں 48 برس کا ہوچکا ہوں۔ مسئلہ میرے ضعف کا ہے، اُن کے ضعف کا نہیں، مگر وہ نہ مانے اور سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے بلکہ اکثر موقعوں پر تو دو دو سیڑھیاں ایک ہی قدم میں پھلانگ ڈالیں۔

    میں اُن کے پیچھے ہانپتا کانپتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ میرے روکنے کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا۔ بالآخر اس سفر میں ایک نوبت وہ بھی آئی جب وہ مجھ سے دو منزل آگے ہوگئے۔ ان کے قدموں کی چاپ تو سنائی دے رہی تھی، مگر وہ خود دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ میں گرتا پڑتا ساتویں منزل پر پہنچا جہاں ہمیں ایک شخص سے ملنا تھا۔ میں نے اپنی اُکھڑی اُکھڑی سانسوں کو بڑی مشکل سے یکجا کر کے ان صاحب سے پوچھا کہ کہیں کنور صاحب اِدھرآ تو نہیں گئے۔

    وہ بولے ’’کنور صاحب تو نہیں آئے البتہ میں نے ابھی کچھ دیر پہلے سیڑھیوں پر ایک سردار جی کی جھلک دیکھی ہے جو بڑی تیزی سے اوپر جارہے تھے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’وہی تو کنور صاحب تھے جو آپ سے ملنے کے لیے اس عمارت میں آئے ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر وہ اُوپر کیوں چلے گئے؟‘‘ اُن صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

    میں نے کہا ’’کچھ نہیں ذرا جوشِ جوانی میں اوپر تک چلے گئے ہیں، ابھی آجائیں گے۔‘‘ کچھ دیر بعد کنور صاحب نیچے آگئے۔ پتہ چلا کہ میرے جملے نے انہیں اتنا مشتعل کیا کہ تیرہ منزلوں تک چڑھتے چلے گئے۔ تیرہویں منزل پر اشتعال کچھ کم ہوا تو انھیں احساس ہوا کہ ساتویں منزل پر ہی رُکنا تھا۔

    مجھ سے کہا، ’’تم کیسے جوان ہو۔ سات منزلیں تک نہیں چڑھ سکتے۔ کیا ابھی سے تم پر بڑھاپا آگیا ہے۔ مجھے دیکھو کہ 74 برس کا ہوچکا ہوں مگر آج بھی یہ حال ہے کہ ساتویں منزل پر کوئی کام ہو تو تیرہ منزل تک چڑھ جاتا ہوں۔‘‘

    میں نے اپنی ہار مانتے ہوئے معذرت کی اور اپنی صفائی میں ایک دانا کا قول سنایا کہ ’’بیس برس کی عمر کا گدھا، ساٹھ برس کے آدمی سے کہیں زیادہ بوڑھا ہوتا ہے، کیوں کہ بڑھاپے کا تعلق کسی مخلوق کی عمر سے نہیں، اس کے قویٰ سے ہوتا ہے۔‘‘ کنور صاحب اس قول سے ایسے ہی محظوظ ہوئے جیسے کہ ایک سچے سکھ کو ہونا چاہیے۔

    (ہندوستان کے مشہور شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر سے متعلق معروف مزاح نگار مجبتیٰ حسین کے مضمون سے اقتباس)