Tag: اردو ادب

  • جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    "سر سید کے گھٹنوں میں جو تکلیف تھی، اسے آرتھرائٹس کہتے ہیں۔

    میں نیویارک کے بازار نما بھنڈار (store) سے خریدی ہوئی خانگی صحت اور طب کی نئی کتاب کھولتا ہوں۔ لکھا ہے کہ انسان کے جسم میں 187 جوڑ ہیں۔ گھٹنے کے جوڑ کو عمر بھر جتنا بوجھ اٹھانا اور کام کرنا پڑتا ہے، اتنی مشقت کسی اور جوڑ کی قسمت میں نہیں لکھی۔ اس جوڑ کے بنانے میں قدرت سے ذرا سی چوک ہو گئی اور یہ اتنا مضبوط نہ بن سکا، جتنا اس کو ہونا چاہیے تھا۔

    صرف امریکا میں تقریباً پچاس ملین افراد ایسے ہیں، جو گھٹنے کے درد میں مبتلا ہیں۔ اگر علم کی دولت سے مالا مال ملک کا یہ حال ہے تو ہمارے پسماندہ ملک میں اس کی تباہ کاریوں کا کیا عالم ہو گا۔

    میں گھبرا کر دوسری کتاب اٹھا لیتا ہوں۔ یہ عالمی ادب کی رفتار اور ترقی کے بارے میں ہے۔ 250 سال قبل مسیح وفات پانے والے یونانی شاعر تھیوک رے ٹس (Theocritius) کے اس قول پر نظر ٹھہر گئی:

    "Men must do somewhat while their knees are yet nimble”

    ہر شخص کا فرض ہے کہ جب تک اس کے گھٹنوں کا پھرتیلا پن سلامت ہے، وہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کر دکھائے۔

    اس شاعر پر آفرین ہو جس نے سوا دو ہزار سال پہلے جوڑوں کے درد کو عالمی ادب میں جگہ دی۔ اہلِ روم بھی اس سلسلہ میں زیادہ پیچھے نہیں رہے۔ ایک بہت پرانی کہانی میں نوجوان لڑکی باپ کو جو گرمیوں کے موسم میں درخت کے نیچے لیٹا ہوا ہے، ایک کتاب پڑھ کر سنا رہی ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر مصنف نے یہ اضافہ کیا کہ باپ ریشمی غالیچہ پر لیٹا ہوا ہے، تا کہ وہ گنٹھیا کے درد سے محفوظ رہے۔

    میں عالمی ادب کی تاریخ ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور تہذیبِ عالم کی تاریخ اٹھا لیتا ہوں۔ داستان کا تعلق ملکہ میری اسکاتلندی سے ہے۔ اسے پرستان کی ملکہ کہتے ہیں۔ پیدائش کے ایک ہفتہ بعد وہ اسکاٹ لینڈ کی ملکہ اور سولہ سال کی عمر میں فرانس کی ملکہ بن گئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی۔ قسمت کا پھیر اسے فرانس سے واپس اسکاٹ لینڈ لے گیا۔

    ہر روز بغاوت، ہر شب سازش، اکثر شکست، گاہے قید، بار بار فرار، کبھی میدانِ جنگ سے اور کبھی قید خانے سے۔ سالہا سال حراست میں رہنے کی وجہ سے اس کی صحت خراب ہو گئی۔ پینتیس برس کی عمر میں بال سفید ہو گئے اور گنٹھیا سے ٹانگیں اتنی سوج گئیں کہ دو چار قدم چلنا بھی دشوار ہو گیا۔

    چوالیس سال کی عمر میں اس نے چہرے پر نقاب ڈالا، روتی ہوئی وابستہ دامن خواتین کو صبر کی تلقین کی اور اپنا وبالِ دوش سر شاہانہ وقار کے ساتھ مشینِ گردن زنی کے کندھے پر رکھ دیا۔ مشین چلی۔ سر اُچھل کر دُور جا گرا۔ بے حس ٹانگیں جہاں تھیں وہیں پڑی رہیں۔”

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس)

  • بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بھورے بادل کی گود میں بجلی مچلی۔ آگے بڑھی، زمین کی طرف۔ بادل نے ٹوکا’’ کہاں چلیں؟‘‘

    ایک ننّھی سی تتلی پھولوں پر منڈلا رہی تھی کہ تبھی ایک گَوریّا اس پر جھپٹ پڑی اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اسے نگلنے کی کوشش کرنے لگی۔

    ’’اس بے رحم گَوریّا کو سبق سکھانے۔‘‘ بجلی نے اشاروں سے بتایا اور بادل کا ردِّ عمل جانے بغیر، زمین کی طرف بڑھنا چاہتی تھی کہ اس کی چیخ نکل گئی۔

    ’’بادل دادا!غضب ہو گیا۔‘‘ گَوریّا ابھی ٹھیک سے تتلی کو نگل بھی نہیں پائی تھی کہ اس پر ایک باز نے جھپٹّا مارا اور گَوریّا اپنی جان گنوا بیٹھی۔

    بادل خاموش رہا۔ ایک پُر اسرار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہی۔ادھر بجلی کا غصہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔

    ’’میں اس ظالم باز کو ہر گز نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ وہ غصے میں بڑبڑائی۔اچانک ایک احساس ندامت اس کی آواز میں اتر آیا۔

    ’’ہائے ابھی تک کتنی غلط تھی میں کہ گَوریّا کو ظالم سمجھ رہی تھی، گَوریّا سے بڑا ظالم تو وہ باز ہے۔ اچھا ہُوا کہ وقت سے پہلے حقیقت آشکار ہو گئی، ورنہ معصوم گَوریّا ہی میرے غضب کا شکار ہوتی۔‘‘

    بادل اب بھی مسکرا رہا تھا۔ بجلی کچھ اور آگے بڑھی۔ تب ہی اس کے کانوں میں ہلکی سی ایک آواز آئی۔ اس نے نیچے دیکھا۔ باز زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی بندوق لیے ایک شکاری کھڑا تھا۔

    ’’اُف۔۔۔ یہ شکاری تو سب سے بڑا ظالم و جابر ہے۔ گَوریّا نے تتلی کو مارا، اس لیے کہ وہ بھوکی تھی۔ باز نے گَوریّا کو مارا، اس لیے کہ اسے بھی بھوک نے مجبور کیا تھا۔

    اگر یہ دونوں اپنی اپنی بھوک کا کہا نہ مانتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ہی بھوک کا لقمہ بن جاتے، لیکن یہ شکاری۔۔۔!!

    اس نے تو محض اپنے شوق کی تسکین کے لیے باز کو نشانہ بنایا۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔ کچھ تو زمین کا بوجھ کم ہو گا۔‘‘ سوچتے ہوئے بجلی کا چہرا تمتمانے لگا۔

    وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ بجلی کی کڑک اور بادل کی گڑگڑاہٹ نے تیز بارش کی شکل اختیار کر لی۔ بارش سے بچنے کے لیے شکاری نے ایک غریب کسان کے جھونپڑے میں پناہ لی۔

    دانش وَروں کی طرح بجلی بھی اپنی بے جا ضد پر اَڑی رہنے والی تھی۔اپنے فیصلے پر وہ بھی نظرِثانی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جھونپڑی پر گری۔پَل بھر میں شکاری کے ساتھ غریب کسان اور اس کا خاندان بھی خاک ہو گیا۔

    عدلیہ کی طرح بجلی بھی مطمئن تھی کہ اس نے انصاف کر دیا ہے۔

    (اوم پرکاش کشیپ کی اس مختصر کہانی کا عنوان "مشیّت” ہے جو کسی بھی ریاست میں ظلم و جبر اور اشرافیہ کی من مانی اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتی ہے)

  • نہ مرغا امّاں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

    نہ مرغا امّاں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

    میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے، میرے بچے اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں، عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔

    میری یہ بات سننی تھی کہ انھوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔ بابا نے کہا:

    اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کیے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔

    ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسبِ معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے، اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔

    اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کبھی شمال کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔

    بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا، بابا بولا بالکل ٹھیک۔ یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساسِ برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔

    تُو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا:

    پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو۔

    (اردو کے مشہور و معروف ادیب اور ڈراما نویس اشفاق احمد کا تحریر کردہ سبق آموز پارہ)

  • وادیِ اذیت اور دنیا دار

    وادیِ اذیت اور دنیا دار

    صبر کرنے والے اس مقام سے آشنا کرا دیے جاتے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی توفیق دے رہا ہے اور اس مقام پر “صبر“ ہی “شکر“ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

    یہ وجہ ہے کہ اس کے مقرب اذیت سے تو گزرتے ہیں، لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گزرتے۔ وہ شکر کرتے ہوئے وادیِ اذیت سے گزر جاتے ہیں۔

    دنیا دار جس مقام پر بیزار ہوتا ہے، مومن اس مقام پر صبر کرتا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے، مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے، کیوں کہ یہی مقام و وصالِ حق کا مقام ہے۔
    تمام واصلینِ حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم و رضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے۔ یہی انسان کی رفعت ہے۔

    یہی شانِ عبودیت ہے کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو، دل یادوں سے زخمی ہو اور درِ نیاز سجدہ میں ہو کہ “اے خالق! تیرا شکر ہے، لاکھ بار شکر ہے کہ تُو ہے کہ تُو نے مجھے چن لیا، اپنا بندہ بنایا، اپنا اور صرف اپنا، تیری طرف سے آنے والے ہر حال پر ہم راضی ہیں۔

    ہم جانتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تُو ہے جس نے ہمیں تاج تسلیم و رضا پہنا کر اہلِ دنیا کے لیے ہمارے صبر کا ذکر ہی باعثِ تسکین روح و دل بنایا۔“

    (واصف علی واصف کی کتاب “دل، دریا، سمندر سے اقتباس)

  • وبا اور کوارنٹین

    وبا اور کوارنٹین

    کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتیں، قرنطینہ اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اقدامات، صحتِ‌ عامّہ کی تنظیموں کی جانب سے آگاہی مہمات جاری ہیں۔ پاکستان میں‌ لاک ڈاؤن اور اس حوالے سے پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں، مگر خوف کی فضا برقرار ہے، کیوں‌ کہ ابھی یہ وبا پوری طرح‌ ختم نہیں‌ ہوئی ہے۔

    چند ماہ کے دوران آپ نے متعدد ناولوں اور فلموں‌ کا ذکر سنا یا پڑھا ہو گا جو اسی قسم کی فرضی اور حقیقی وباؤں اور ہلاکتوں‌ کی افسانوی اور فلمی شکل ہیں، لیکن طاعون کی وبا وہ حقیقت ہے جسے برصغیر کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے نہایت خوبی سے اپنے افسانے میں سمیٹا ہے۔

    راجندر سنگھ بیدی کا یہ افسانہ ‘کوارنٹین‘ کے نام سے ان کے مجموعے میں‌ شامل ہے جس میں طاعون کے مرض‌ سے اموات، خوف کی فضا، اور قرنطینہ میں‌ ڈالے جانے والوں کے جذبات اور ان کی کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس افسانے سے چند اقتباسات پیش ہیں‌ جو کرونا کی وبا میں‌ ہمارے طرزِ عمل اور ماحول سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔

    اس افسانے کا آغاز یوں‌ ہوتا ہے:

    "ہمالہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھندلا بنا دینے والی کہرے کے مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔”

    "پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘‘ لکھا تھا۔ ”

    "کوارنٹین کے متعلق لوگوں کا خوف بجا تھا۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایّام میں بیمار لوگوں کو تن درست انسانوں سے ازروئے قانون علاحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔ ”

    "اگرچہ کوارنٹین میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا کافی انتظام تھا، پھر بھی مریضوں کی کثرت سے وہاں آ جانے پر ان کی طرف فرداً فرداً توجہ نہ دی جا سکتی تھی۔ خویش و اقارب کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ کئی تو اپنے نواح میں لوگوں کو پے در پے مرتے دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مرگئے۔”

    طاعون سے ایک ہی روز میں‌ کئی ہلاکتوں‌ کے بعد ان کی لاشوں‌ کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا وہ شاید جیتے جاگتے انسانوں‌ کی مجبوری تھا، لیکن لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ اپنے پیارے کی تدفین سے بھی محروم کر دیے جاتے تھے، اس پر مصنف لکھتے ہیں:

    "بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ کوئی معمولی طور پر بیمار آدمی وہاں کی وبائی فضا ہی کے جراثیم سے ہلاک ہو گیا اور کثرتِ اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقہ پر ادا ہوتیں، یعنی سیکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی کے مذہبی رسوم کا احترام کیے، پٹرول ڈال کر سب کو نذرِ آتش کر دیا جاتا اور شام کے وقت جب ڈوبتے ہوئے سورج کی آتشیں شفق کے ساتھ بڑے بڑے شعلے یک رنگ و ہم آہنگ ہوتے تو دوسرے مریض یہی سمجھتے کہ تمام دنیا کو آگ لگ رہی ہے۔”

    "کوارنٹین اس لیے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اسے چھپانے لگتے، تاکہ کہیں مریض کو جبراً کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چوں کہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لیے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کراتے اور کسی گھر کے وبائی ہونے کا صرف اسی وقت پتہ چلتا، جب کہ جگر دوز آہ و بکا کے درمیان ایک لاش اس گھر سے نکلتی۔”

    "ان دنوں میں کوارنٹین میں بطور ایک ڈاکٹر کے کام کر رہا تھا۔ پلیگ کا خوف میرے دل و دماغ پر بھی مسلّط تھا۔ شام کو گھر آنے پر میں ایک عرصہ تک کار بالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا، یا پیٹ کو جلا دینے والی گرم کافی یا برانڈی پی لیتا۔”

    گلے میں ذرا بھی خراش محسوس ہوتی تو میں سمجھتا کہ پلیگ کے نشانات نمودار ہونے والے ہیں۔۔۔ اُف! میں بھی اس موذی بیماری کا شکار ہو جاؤں گا۔۔۔ پلیگ! اور پھر۔۔۔ کوارنٹین!

    اس افسانے کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے وبا کے خاتمے یا اس کی شدّت میں‌ کمی کا ذکر یوں‌ ملتا ہے۔

    اب فضا بیماری کے جراثیم سے بالکل پاک ہو چکی تھی۔ شہر کو بالکل دھو ڈالا گیا تھا۔ چوہوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارے شہر میں صرف ایک آدھ کیس ہوتا جس کی طرف فوری توجہ دیے جانے پر بیماری کے بڑھنے کا احتمال باقی نہ رہا۔

    شہر میں کاروبار نے اپنی طبعی حالت اختیار کر لی، اسکول، کالج اور دفاتر کھلنے لگے۔

  • مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جو کم عمری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انڈسٹری میں نام اور مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ 17 اگست 1982 کو پاکستان کی فلمی صنعت کے اس خوب صورت نغمہ نگار کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا اور والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ تسلیم فاضلی صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر اپنے دل کش گیتوں‌ کی وجہ سے وہ آج بھی دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • 1947: دلّی کے ایک جلسے کا اکلوتا اور بے زبان سامع

    1947: دلّی کے ایک جلسے کا اکلوتا اور بے زبان سامع

    ’’ یہ 48 کا ذکر ہے۔ عسکری صاحب اور میں شام پڑے مال کی طرف نکل جاتے تو ادبدا کر ایک نوجوان سے مڈھ بھیڑ ہوتی۔ چھریرا بدن، لمبا قد، کھلتا ہوا رنگ۔ اپنی بھڑکیلی شرٹ اور ٹھاٹ دار پتلون کے ساتھ بہت سمارٹ نظر آتا تھا۔

    اپنے ٹامی کو لے کر نکلتا تھا۔ مستقل اسے روکتا ٹوکتا چلتا۔ ہمارے قریب آکر عسکری صاحب کو سلام کرتا اور پھر اپنے ٹامی سے باتیں کرتا آگے نکل جاتا۔ میں نے عسکری صاحب سے پوچھا کہ یہ کون نوجوان ہے۔

    کہا، ”اس کا نام انور جلال ہے۔“

    اگلے چند برسوں میں اس سے اس طرح تعارف ہوا کہ شاعری کرتا نظر آیا۔ پھر افسانے میں خامہ فرسائی کرتا دکھائی دیا۔ پھر اس کا ایک ناول شایع ہوا۔ اور اچھا بھلا ناول تھا۔ پھر قلم کے ساتھ اس کے ہاتھ میں موقلم نظر آیا۔ اس کے ساتھ اس کے نام کے ساتھ شمزا کا لاحقہ لگ گیا۔ اب وہ انور جلال شمزا تھا اور ادیبوں کے ساتھ کم مصوروں کی صحبت میں زیادہ دکھائی دینے لگا۔ ٹی ہاوس سے کافی ہائوس کی طرف۔ کافی ہائوس سے ٹی ہائوس کی طرف۔ تھوڑا ادب زیادہ مصوری۔ اور مصوری کے بہانے باہر نکل گیا۔ مصوری میں اس کے کام کی خوشبو پاکستان تک آئی۔

    زمانے بعد ایک سہ پہر میں نے ٹی ہائوس میں قدم رکھا تو دیکھا کہ انور جلال بیٹھا ہے۔ مجھے دیکھ کر چلایا ”یار میں اتنی دیر سے یہاں بیٹھا انتظار کر رہا ہوں۔ کوئی آشنا صورت نظر نہیں آ رہی۔ ناصر تو دنیا سے چلا گیا۔ باقی یار کہاں گئے۔“

    ”بس جیسے تم چلے گئے ویسے دوسرے بھی جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔“

    یہ اس کا شاید پاکستان کا آخری پھیرا تھا۔ پھر تو وہ آیا نہیں۔ اس کی خبر ہی آئی۔

    دوسرے کتے کو میں نے دیکھا نہیں، اس کا ذکر عبادت صاحب سے سنا۔ یہ غلام عباس کا کتا تھا جس کا نام حلقہ ارباب ذوق کی تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھا جانا چاہیے۔ عبادت صاحب بتاتے تھے کہ 47 میں 3 جون کے اعلان کے بعد کتنے یار جو دلی کے حلقہ میں شریک ہوا کرتے تھے پاکستان چلے گئے۔ غلام عباس ابھی موجود تھے۔

    شہر میں حالات بہت خراب تھے۔ کرفیو لگا ہوا تھا۔ آ گیا اتوار۔ غلام عباس کا گھر میرے گھر سے قریب ہی تھا۔ ان کا پیغام آیا۔ میں ان کے یہاں پہنچ گیا۔ کہنے لگے کہ آج اتوار ہے۔ حلقہ کا جلسہ نہیں ہو گا۔ میں نے کہا کہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کرفیو میں کون آئے گا۔ کہنے لگے کہ ہم اپنے گھر پہ جلسہ کیے لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ مگر لوگ کہاں ہیں۔

    بولے کہ دیکھیے میرے پاس نیا افسانہ پڑھنے کے لیے موجود ہے۔ آپ صدر بن جائیں گے۔ میں نے کہا ”اور سامعین کہاں سے آئیں گے۔“

    اس پر عباس صاحب نے تھوڑا سوچا۔ پھر اندر گئے۔ اور اپنے کتے کو پکڑ کر لائے۔ بولے ”لیجیے سامعین کا انتظام بھی ہو گیا۔ ہمارا ٹامی ہمارا افسانہ سنے گا۔“ پھر اسے پچکار کر بٹھایا۔ کہا کہ ”ٹامی تمہیں میرا افسانہ سننا ہے۔“

    سو میں صدر بنا۔ غلام عباس نے افسانہ پڑھا۔ ٹامی نے یہ افسانہ سنا۔ اس طرح 47 کے پُرآشوب دنوں میں دلی میں حلقہ کا جلسہ ہوا۔‘‘

    (انتظار حسین کی کتاب چراغوں کا دھواں سے انتخاب)

  • ہجرت اور فسادات کے موضوع پر مشہور ادیبوں کی پُراثر تخلیقات

    ہجرت اور فسادات کے موضوع پر مشہور ادیبوں کی پُراثر تخلیقات

    تقسیمِ ہند اور اس موقع پر لاکھوں انسانوں کی ہجرت ایک ایسا موضوع ہے جس پر اردو ادب میں‌ کئی ایسی تخلیقات سامنے آئیں جو اُس دور کی سیاسی، معاشی اور سماجی تاریخ کے ساتھ اُس وقت کے حالات کی لفظی جھلکیاں اور عکس ہیں۔

    پاک و ہند کے ادیبوں نے تقسیم اور ہجرت کے موضوع پر کئی افسانے، کہانیاں اور ناول لکھے اور یہ تخلیقات نہایت پُراثر اور درد ناک ہیں۔ برصغیر کی تاریخ اور خاص طور پر تقسیم اور ہجرت کے موضوع میں‌ دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس حوالے سے چند ادیبوں‌ اور ان کی تخلیقات کا تذکرہ پیش ہے۔

    اردو ادب میں اگر اس دور سے جڑے انسانی المیوں کی حقیقی لفظی جھلکیاں‌ کسی نے پیش کی ہیں‌ تو وہ سعادت حسن منٹو ہیں۔

    اردو کے اس مشہور ادیب کی تحریروں کا مجموعہ ’سیاہ حاشیے‘ ان مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے جو ظلم اور ناانصافی کے ماحول کی مؤثر تصویر کشی کرتی ہیں۔

    تقسیم کے پس منظر میں انھوں‌ نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جیسا افسانہ لکھا جسے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

    پاکستان کے نام ور ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی اس دور کے فسادات کو موضوع بنایا۔

    اسی طرح شوکت صدیقی، ڈاکٹر انور سجاد، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد نے بھی افسانے، کہانیاں اور ناولوں میں‌ تقسیم اور ہجرت کے المیوں، خوشی اور دکھ کی مختلف کہانیاں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان اور اُس سماج کی مختلف شکلیں‌ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ اور قرۃ العین حیدر کے ’آگ کا دریا‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں جو دراصل ہندوستان کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ کئی انسانی المیوں کی داستان ہے۔

    اُس زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات کی لفظی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتی تخلیقات میں ’کفن دفن، فساد، اندھیرا اور اندھیرا، ہفتے کی شام، لاجونتی، پشاور ایکسپریس، امرتسر اور لال باغ‘ بھی شامل ہیں۔

  • ممتاز ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم سجاد باقر رضوی کی برسی

    ممتاز ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم سجاد باقر رضوی کی برسی

    سجاد باقر رضوی کو اردو ادب میں‌ ایک شاعر، ادیب، نقاد اور مترجم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے درس و تدریس کے شعبے میں‌ خدمات انجام دیتے ہوئے خود کو علمی اور ادبی سرگرمیوں‌ سے جوڑے رکھا۔ 13 اگست 1992 کو سجاد باقر رضوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ، یو پی سے تھا جہاں‌ وہ 4 اکتوبر 1928 کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سجاد باقر رضوی کراچی آگئے اور یہاں‌ جامعہ کراچی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور چلے گئے۔ لاہور میں‌ انھیں‌ اسلامیہ کالج سول لائنز اور اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوکر تعلیم کے شعبے میں‌ خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

    سجاد باقر رضوی نے تنقید کے میدان میں نہایت اہم اور وقیع کام کیا۔ اس ضمن میں مغرب کے تنقیدی اصول اور تہذیب و تخلیق اردو تنقید کی اہم کتابوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ سجاد باقر رضوی کے شعری مجموعے ’’تیشۂ لفظ‘‘ اور ’’جوئے معانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ تراجم میں داستانِ مغلیہ، افتاد گانِ خاک، حضرت بلال اور بدلتی دنیا کے تقاضے کے نام سے ان کی کتابیں‌ ادبی کارنامہ ہیں۔

  • چُپ کہانی

    چُپ کہانی

    بعض ساعتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں، پل بھر میں بے جان چیزوں کو جاندار اور جاندار کو بے جان بنا دیتی ہیں۔ دین محمد میرے پاس سے گیا تھا تو کیسا زندہ آدمی تھا اور واپس آیا تو زندہ لاش بن چکا تھا۔ ساتھ کام کرنے والے دونوں لڑکے اس کے پاس افسردہ بیٹھے تھے۔

    دین محمد نے جب مجھ سے چھٹی مانگی تھی تو میں نے کہا تھا۔ ’’دیکھو رمضان کے مہینے میں ساری سلائیاں ہوتی ہیں، تم چلے جاؤ گے میرا بہت نقصان ہوجائے گا، بوتیک کی ساکھ خراب ہوجائے گی۔‘‘

    ’’باجی بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ اس نے شوخی سے چٹکی بجاتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’تم نے کہا اور میں نے مان لیا، چار دن تو آنے جانے میں لگیں گے پھر اگر دو تین دن بھی رہے تو پورا ہفتہ ہوگیا، آخر اتنی جلدی کیا ہے، عید پر تو تمہیں جانا ہی ہے۔‘‘

    ’’باجی عید کس نے دیکھی ہے، بیچ میں پورا مہینہ رمضان کا پڑا ہے، عید پر لمبی چھٹی لوں گا۔ ابھی جاؤں گا صرف دو دن ٹھہروں گا۔‘‘ اس نے اپنے بیگ کو بند کرتے ہوئے کہا۔ دونوں لڑکے جو اس کی سفارش کے لیے پاس ہی کھڑے تھے مسکرائے۔

    ’’عید بعد اس کی شادی ہے، ابھی یہ اپنی ماں، بہن اور بھابھی کے جوڑے لے کر جا رہا ہے، دلہن کا جوڑا اس نے خود سیا ہے، آپ دیکھیں نا کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ دونوں لڑکوں کی روشن آنکھوں کی چمک میں دین محمد کے خوابوں کی تعبیر کی آرزو یوں جھلک رہی تھی جیسے وہ ان کا بھی خواب ہو۔

    والدین اور گھر والوں سے ملنے دین محمد جارہا تھا مگر تصور میں یہ دونوں لڑکے بھی اس کے ہم سفر تھے، میرے اصرار پر دین محمد نے شرما کر اپنا سفری بیگ کھولا اور یکے بعد دیگرے بیس جوڑے نکال کر سامنے رکھ دیے۔ تین چار بہت قیمتی اور خوب صورت جوڑے تھے۔

    ’’یہ لشکارا مارنے والے جوڑے دلہن کے ہیں نا۔‘‘ میں نے اسی کے انداز میں پوچھا۔

    اس کی آنکھوں میں مستقبل کی خوشیوں کے چراغ جل اُٹھے۔ ’’یہ میری ماں کا جوڑا ہے، یہ تین جوڑے جو ایک سے ہیں ایک میری بھرجائی، ایک میری بہن اور یہ سرخ جوڑا اس کے لیے ہے۔‘‘ اس نے باری باری چاروں جوڑوں کو نکال کر وضاحت کی۔

    ’’بھائی نے کہا تھا اپنی بھرجائی کا جوڑا دلہن سے کم نہ ہو۔‘‘

    میں نے اس سے کہا تھا۔ ’’تمہاری دلہن کے لیے جھومر اور ٹیکا میں لاؤں گی، تصویریں اچھی آتی ہیں۔‘‘ اگلے دن میں نے صرف تین ہزار میں خوب صورت نگوں سے مزین جھومر اور ٹیکا اس کے سامنے رکھا، وہ خوشی کے مارے کھِل اُٹھا۔

    ’’باجی یہ تو بالکل ٹی۔ وی والی کشش کے جھومر اور ٹیکے جیسا ہے۔‘‘

    ’’ہاں یہ کشش جھومر اور کشش ٹیکا ہی ہے، ہیں تو یہ نقلی مگر بالکل اصلی لگتے ہیں، ان سے سج کر تمہاری دلہن ٹی۔ وی ڈرامے والی کشش ہی لگے گی۔‘‘ اس کے دونوں ساتھی بھی آنکھوں میں خواب سجائے محویت کے عالم میں جھومر اور ٹیکے کو دیکھنے لگے۔

    ’’میری شادی پر کشش بالیاں بھی دینا۔‘‘ جہانگیر کی آواز میں خواہش اور امنگ کا غلبہ تھا۔ دین محمد نے اپنا بیگ کھولا، کنگن، بالیاں اور پراندہ دکھاتے وقت اس کی آنکھوں میں سجی سجائی دلہن کی تصویر صاف نظر آرہی تھی، چہرہ دمک رہا تھا۔

    سات اکتوبر کی شام کو چنار پہنچتے ہی اس کا فون آیا۔ ’’باجی میں صرف دو دن یہاں رہوں گا، تم بالکل فکر نہ کرنا۔‘‘

    ’’دین محمد تم نے کپڑے اور زیور دکھائے سب کو، کیسے لگے؟‘‘ دوسری طرف سے امنگوں اور آرزوؤں سے بھری آواز میرے کانوں میں گونجی۔

    ’’باجی ابھی میں گھر نہیں گیا، پی سی او سے فون کر رہا ہوں، جہانگیر اور نور محمد سے کہنا مجھے رات کو موبائل پر فون کریں میں 13 یا 14 تاریخ کو آپ کے پاس آجاؤں گا۔‘‘

    ساری رات آنکھوں میں کٹی، سحری کے لیے بستر سے اُٹھی، فجر کی نماز کے بعد پل بھر کو آنکھ لگی، میں نے عجیب و غریب خواب دیکھا، مجھے محسوس ہوا جیسے زمین رو رہی ہے، میں نے آنکھیں ملیں اور پھر سونے کی کوشش کی، اس بار میں نے دیکھا تیز ہوائیں چل رہی ہیں اور زمین بین کر رہی ہے، یکایک محسوس ہوا ساری دنیا سمندر بن گئی ہے اور میں سمندر میں ہوں۔ خوف سے میری آنکھ کھل گئی مگر شاید یہ بھی خواب ہی کا عالم تھا کیوں کہ میں اس وقت بھی خواب کے حصار سے نکل نہیں پائی تھی۔

    زمین ایک ستم زدہ ماں کے روپ میں سینہ کوبی کررہی تھی، سمندر رو رہا تھا، ایک شور قیامت تھا، میں نے چیخنا چاہا مگر آواز گھٹ گئی تھی، میری نیند یوں اچاٹ ہوئی کہ پھر کوشش کے باوجود نہیں سوسکی، میرا دھیان اپنے سمندر کی طرف گیا، میں نے اپنے شہر کی سلامتی کی دعا ئیں مانگیں، دعاؤں کے بعد کمرے سے ٹی۔ وی لاؤنج کی طرف آئی، گھر کے سارے افراد ہمہ تن گوش تھے، ہر چینل سے پل پل زلزلے کی خبریں آرہی تھیں، پہلے تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا، خواب کے اثر سے باہر بھی نہیں نکلی تھی کہ یہ حقیقت آنکھوں کے سامنے تھی۔

    فوری طور پر میرے ذہن میں دین محمد کا شرماتا، مسکراتا خوابوں اور آرزوؤں سے بسا پیکر سوال کی صورت میں سامنے آیا۔

    ’’باجی عید کس نے دیکھی ہے۔‘‘ اس کا یہ جملہ مجھے اسی وقت کھٹکا تھا میں نے چاہا بھی تھا کہ کہہ دوں بری بات منہ سے نہیں نکالتے مگر اگلے سارے جملوں میں خوشیوں کی جھنکار تھی اس لیے وہ جملہ یاد بھی نہیں رہا تھا۔ میں نے بے شمار بار اس کے سیل فون پر رابطہ کرنا چاہا مگر دوسری طرف سے جواب نہیں آرہا تھا۔

    پندرہ دنوں کے بعد دین محمد کی آواز سن کر میں رو پڑی۔’’شکر ہے تم زندہ ہو دین محمد۔‘‘ میں نے بمشکل کہا۔ دین محمد کا نام سن کر دونوں لڑکے میرے پاس آگئے۔

    ’’باجی سب ختم ہوگیا۔‘‘ شدتِ غم سے اس کی آواز آنسوؤں میں ڈوب گئی، میں اور میرے پاس کھڑے دونوں لڑکے اس کا نام لیتے رہے، مگر وہ ایک لفظ بھی ادا نہیں کرسکا۔

    بیس دنوں کے بعد دین محمد واپس آیا مگر وہ دین محمد کب تھا، وہ تو کوئی اور ہی شخص تھا، ویران آنکھوں میں سارے جہان کا درد سمیٹے خوف زدہ سا ایک کونے میں کھوئی کھوئی سی پہچان لیے بالکل خاموش تھا۔

    بہت دیر کے بعد میں نے بولنے کی ہمت کی۔ ’’دین محمد چنار ایک بار پھر آباد ہوجائے گا، حوصلہ رکھو۔‘‘ میرا دل میری آواز کا ساتھ نہیں دے رہا تھا، اس نے بھی جن نظروں سے میری طرف دیکھا میں ان کی تاب نہ لاسکی گویا کہہ رہا ہو،

    ’’میرا شہر تو آباد ہوجائے گا، اینٹ، گارے، اور سریے سے بنی ہوئی عمارتیں دوبارہ کھڑی ہوجاتی ہیں مگر دل کا نگر اُجڑ جائے تو دوبارہ نہیں بستا۔‘‘ اس کا وجود بند قبر کی مانند تھا جس میں جیتا جاگتا دین محمد تمام امیدوں اور اُمنگوں کے ساتھ دفن تھا۔

    میرے پاس حروفِ تسلی تھے نہ اسم شفا۔ ’’باجی اب یہ کبھی کپڑے نہیں سی سکتا۔‘‘اس کے دونوں دوستوں نے روتے ہوئے کہا۔

    ’’کیوں نہیں سی سکتا، اسے اللہ نے زندہ رکھا ہے، تم لوگ اس کا حوصلہ بڑھاؤ، کشمیر کے لوگ بہت بہادر ہوتے ہیں، تم نے ٹی۔ وی پر ان کے انٹرویو سنے ہیں نا۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ اور لوگ ہیں باجی، اپنا دینے کراچی میں رہ کر کراچی والوں جیسا ہو گیا ہے، یہ اپنی روح وہیں چھوڑ آیا ہے۔‘‘

    ’’تم لوگ مجھے لاجواب کر دیتے ہو، اتنی بڑی بڑی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں؟‘‘

    ’’باجی ہم بھی انسان ہیں، ٹی وی اور فلموں میں ہماری کہانیاں ہوتی ہیں، آپ کو معلوم ہے اس نے گھر جا کر سارا سامان اپنی ماں کو دے دیا تھا، مگر اپنا لیا ہوا کنگن اور آپ کا دیا ہوا جھومر اسے لے جاکر ساری چیزیں دکھائی تھیں، اس کی کلائی میں اپنے ہاتھوں سے کنگن پہنایا تھا، اس نے شرما کر کنگن کو چوما تھا، اور پھر اتار کر دین محمد کو تھما دیا تھا کہ ماں سے کہنا صبح پہنا دے، ابھی پہنوں گی تو سب چھیڑیں گے۔

    ریشم گھر چلی گئی تھی مگر دین محمد سحری کے بعد اپنے دوست کے ساتھ کھلے میدان میں چادر تان کر سو گیا تھا، مجھے یہ سب اسی دوست نے بتایا تھا۔

    صبح ایک تیز آواز نے ان دونوں کو اُٹھایا جب تک یہ اپنے گھر گیا سب کچھ ختم ہو گیا تھا، اس نے اپنے ہاتھوں سے ملبہ ہٹایا تھا، ماں، باپ، بھائی، بھابھی، چاچا اور چاچی اور ان کی بیٹی سب اللہ کو پیارے ہوچکے تھے، تین چار دن تک کھدائی ہوتی رہی تھی، مٹی کے ڈھیر میں ایک ہی جگہ پر وہ پوٹلی پڑی تھی اور یہ کنگن جس میں ریشم کے ہاتھوں کی خشبو ہے، دین محمد کے پاس ہی پڑا تھا۔‘‘

    سحر زدہ سا دین محمد اپنے ساتھیوں سے اپنی ہی کہانی سن رہا تھا، اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ گویا کسی اور کی بات ہورہی ہو۔

    زلزلے نے اس کے دماغ کے کسی حصے کو ایسا دھچکا لگایا تھا کہ سارے کا سارا دین محمد اپنی آنکھوں میں آگیا تھا۔ گلے میں پڑا ہوا پراندہ درد کی تصویر بنا تھا۔ یکایک اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ کنگن نکالا جس میں ریشم کے ہونٹوں کی گرمی اور کلائی کی خوشبو بیتے دنوں کی یاد بن کر سسک رہی تھی۔

    دین محمد چپ تھا، مگر کنگن بول رہا تھا۔

    (اس کہانی کی مصنف شہناز پروین ہیں جنھوں نے برصغیر کے سیاسی اور سماجی حالات کو اپنی تخلیقات میں‌ سمویا ہے، افسانوں‌ کے علاوہ شہناز پروین کا ایک ناول بھی شایع ہوچکا ہے)