Tag: اردو ادب

  • آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ!

    آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ!

    سر تاج من سلامت!

    کورنش بجا لا کر عرض کرتی ہوں کہ منی آرڈر ملا۔ یہ پڑھ کر کہ طبیعت اچھی نہیں ہے از حد تشویش ہے۔ لکھنے کی بات تو نہیں مگر مجھے بھی تقریباً دو ماہ سے ہر رات بے خوابی ہوتی ہے۔ آپ کے متعلق برے برے خواب نظر آتے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ صبح کو صدقے کی قربانی دے دی جاتی ہے اس پر کافی خرچہ ہو رہا ہے۔

    آپ نے پوچھا ہے کہ میں رات کو کیا کھاتی ہوں۔ بھلا اس کا تعلق خوابوں سے کیا ہو سکتا ہے۔ وہی معمولی کھانا البتہ سوتے وقت ایک سیر گاڑھا دودھ، کچھ خشک میوہ جات اور آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ۔ حلوہ اگر زیادہ دیر رکھا رہا تو خراب ہو جائے گا۔

    سب سے پہلے آپ کے بتائے ہوئے ضروری کام کے متعلق لکھ دوں کہ کہیں باتوں میں یاد نہ رہے۔ آپ نے تاکید فرمائی ہے کہ میں فوراً بیگم فرید سے مل کر مکان کی خرید کے سلسلے میں ان کا آخری جواب آپ کو لکھ دوں۔ کل ان سے ملی تھی۔

    شام کو تیار ہوئی تو ڈرائیور غائب تھا۔ یہ غفور دن بدن سست ہوتا جا رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی کم زور ہونے لگی ہے۔ اس مرتبہ آتے وقت اس کے لیے ایک اچھی سے عینک لیتے آئیں۔ گھنٹوں بعد آیا تو بہانے تراشنے لگا کہ تین دن سے کار مرمت کے لیے گئی ہوئی ہے۔ چاروں ٹائر بیکار ہو چکے ہیں۔ ٹیوب پہلے سے چھلنی ہیں۔ یہ کار بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کے آنے پر نئی کار لیں گے۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اس کار کو منگا لیں۔

    خیر تانگہ منگایا۔ راستےمیں ایک جلوس ملا۔ بڑا غُل غپاڑہ مچا ہوا تھا، ایک گھنٹے ٹریفک بند رہا۔ معلوم ہوا کہ خان بہادر رحیم خان کے صاحبزادے کی برات جا رہی ہے۔ برات نہایت شاندار تھی۔ تین آدمی اور دو گھوڑے زخمی ہوئے۔

    راستے میں زینت بوا مل گئیں۔ یہ ہماری دور کی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ احمد چچا کے سسرال میں جو ٹھیکیدار ہیں نا ان کی سوتیلی ماں کی سگی بھانجی ہیں۔ آپ ہمیشہ زینت بوا اور رحمت بوا کو ملا دیتے ہیں۔

    رحمت بوا میری ننھیال سے ہیں اور ماموں عابد کے ہم زلف کے تائے کی نواسی ہیں۔ رحمت بوا بھی ملی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کبھی قدسیہ باجی کو ساتھ لا کر ہمارے ہاں چند مہینے رہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وہی ہیں جو تایا نعیم کےساتھ ہماری شادی پر آئی تھیں۔ تایا نعیم کی ساس ان کی دادی کی منہ بولی بہن تھیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے دوپٹے بدل چکی تھیں۔ یہ سب اس لیے لکھ رہی ہوں کہ آپ کو اپنے عزیز و اقارب یاد نہیں رہتے۔ کیا عرض کروں آج کل زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ رشتہ دار کی خبر نہیں۔

    میں نے زینب بوا کو کو گھر آنے کے لیے کہا، تو وہ اسی شام آ گئیں۔ میں نے بڑی خاطر کی۔ خواہش ظاہر کرنے پر آپ کے ارسال شدہ روپوں میں سے دو سو انہیں ادھار دیے۔

    ہاں تو میں بیگم فرید کے ہاں پہنچی۔ بڑے تپاک سے ملیں۔ بہت بدل چکی ہیں۔ جوانی میں مسز فرید کہلاتی تھیں، اب تو بالکل ہی رہ گئی ہیں۔ ایک تو بے چاری پہلے ہی اکہرے بدن کی ہیں، اس پر اس طرح طرح کی فکر۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتی ہیں۔ کہنے لگیں اگلے ہفتے برخوردار نعیم کا عقیقہ ہے اور اس سے اگلی جمعرات کو نورِ چشمی بتول سلمہا کی رخصت ہو گی، ضرور آنا۔ میں نے ہامی بھر لی۔

    (شوہر کو بھیجے گئے نامے سے چند پیرا، شفیق الرحمٰن کی کتاب مسکراہٹیں سے انتخاب)

  • ” تمہارا بیٹا بڑا پکا Flirt ہے…”

    ” تمہارا بیٹا بڑا پکا Flirt ہے…”

    ٹریننگ کالج، علی گڑھ
    24 جولائی 1945

    میرے اپنے اختر

    پچھلا میرا خط تمہیں مل گیا ہوگا۔ تم خود پریشان ہو، اس پر میں بھی تمہاری فکروں میں دانستہ اضافہ کرتی رہتی ہوں، مگر کیا کروں ساجن! تمہارے سوا کوئی اور دکھائی بھی تو نہیں پڑتا۔ میرا تو اب کوئی نہیں ہے سوا تمہارے۔ اگر تمہیں اس احساس سے کچھ تسکین ممکن ہے تو اِسی کو بہت سمجھو۔ میں تمہارے ہی سہارے جیتی ہوں اختر!

    خط کل ہی لکھتی مگر سلیبس خریدنا تھا۔ دنیا کے اس سِرے پر رہتی ہوں کہ نہ مجھے کسی کی کوئی خبر نہ کسی کو میری۔ کل شام بد دقّت ہزار تانگہ حاصل کیا، شمشاد بلڈنگ پہنچ کر سلیبس لائی۔ زیدی وقت وقت پر آتے ہیں، باقی ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ کوئی کام نہیں نکل سکتا۔ پھر آج کل تو ان کی بیگم صاحبہ میرٹھ گئی ہوئی ہیں، کوئی ایک ہفتے کے لیے اپنی بہن کے گھر، وہ کوئی میری طرح پابند تو نہیں۔ اگر نفیس اور اماں جان نہ ہوتیں تو تنہا گھر میں مجھے رہنا ہی پڑتا، مگر حال درست ہوجاتا۔

    لکھنؤ سے آج ہی حمیدہ کا خط آیا۔ رحیم قطعی راضی نہیں ہے۔ بہرحال ہر طرف ہاتھ پیر چلاتی ہوں مگر نتیجہ کچھ نہیں۔ اماں جان ویسے دن بھر کام کرتی رہتی ہیں مگر جادو کو کوئی دل چسپی ان سے نہیں، ان کی گود میں پہنچتے ہی چیخنا شروع کرتا ہے۔ نفیس کی مصاحبت البتہ پسند ہے۔ پرسوں گرلز کالج لے کر گئی تھی، ہر استانی سے عشق بازی کی۔ سب کی رائے ہے کہ تمہارا بیٹا بڑا پکا Flirt ہے۔ کیوں نہ ہو ”باپ پر پوت پتا پر گھوڑا۔“

    اس کی تندرستی البتہ بہت گرگئی ہے۔ دودھ کے سلسلے میں مجھے جن الجھنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے ان کا علم تمہیں نہیں۔ بمشکل ایک گوالہ گائے کا دودھ دینے پر راضی ہوا تھا۔ کل اس قدر شوخ بسنتی رنگ کا دودھ لے کر آیا کہ عقل دنگ رہ گئی۔ ڈانٹ پھٹکار ہوئی، دھمکی دی گئی، پتا چلا کہ موذی بھینس کے دودھ میں رنگ ملاکر لاتا رہا ہے اور میری معصوم جان کو مستقل زہر پلاتا رہا ہے۔

    رات بھر ایسی ذہنی کوفت رہی کہ اپنی آسائش کی خاطر میں اس غریب کو کس قدر تکلیف میں مبتلا کیے ہوئے ہوں۔ بس جی چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو ٹھکرا کر اپنے بچے کی ہو کر رہوں؛ مگر دنیا کو میں ٹھکراتی ہوں تو جواب میں کیا وہ مجھے نہ ٹھکرائے گی اختر؟ غرض کہ دماغی کشمکش سے کسی لحظہ مجھے فرصت نہیں ہوتی۔

    سوچتی ہوں کہ کل مشن اسکول چلی جاؤں، شاید ادھر کے علاقے میں کوئی عیسائی عورت رضامند ہوجائے بچے کی پرورش پر۔ ٹریننگ کالج کا کام چل نکلا ہے۔ مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ ادھر ماجد کبھی کبھی آجاتے ہیں۔ جذبی رشید صاحب کے مہمان ہیں، کبھی وہ آ نکلتے ہیں۔ مجھے فرصت ہوئی تو برآمدہ میں کھڑی ہوکر بات کرلیتی ہوں۔

    نفیس کا داخلہ ہوسٹل میں نہیں ہوسکا ہے اب تک۔ ممکن ہے کہ داخلہ نہ ہونے کی صورت میں اس وقت تک وہ میرے ہی پاس قیام کرے جب تک آپا کو فراغت ہو۔ پھر گھر درست ہو۔

    تم خط لکھ دیا کرو اختر۔ اگر میری زندگی میں کبھی وہ منحوس لمحہ بھی آجائے کہ تمہیں میرا واقعی خیال نہ رہے تو بھی میں تم سے یہی چاہوں گی کہ تم مجھے فریب دیتے رہنا۔ کیا اتنا بھی نہ کر سکو گے میرے ساتھ؟

    نثار (پرویز) کا سلیبس اور ایوب (مرزا وجد چغتائی) کا بھی بھیج رہی ہوں۔ ایوب کے لیے بقیہ تفصیلات پھر لکھوں گی۔ ایوب کا کارڈ بھی کل ہی ملا۔
    اپنی شاعری ہر رنگ میں برقرار رکھتے ہو، دوسروں کو نشانہ بناکر خود ہی مظلوم بنتے ہو! خیر تمہیں ہر طرح کی آزادی ہے، شاعر ہو۔
    جاوید تمہیں بہت پیار کرتا ہے۔ اب تو وہ باقاعدہ پیار کرنا سیکھ گیا ہے۔
    Believe it or not
    زیادہ پیار
    تمہاری اپنی
    صفیہ

    (نوٹ: ممتاز شاعر جاں نثار اختر کے نام ان کی بیگم صفیہ اختر کا خط۔ اس خط میں‌ انھوں‌ نے اپنے بیٹے جاوید اختر کا ذکر "جادو” کی عرفیت سے کیا ہے، جو ہندوستان کے مقبول شاعر اور اپنی گیت نگاری‌ کے لیے مشہور ہیں)

  • "صدر” کا حکم

    "صدر” کا حکم

    مشہور شاعر اور فلم کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے شکیل بدایونی جگر مراد آبادی کے شاگرد تھے۔

    ایک مرتبہ راندیر (سورت، انڈیا) میں شکیل بدایونی کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں جگر مراد آبادی بھی تشریف لائے۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے شکیل بدایونی نے مائک پر کہا:

    ’’چونکہ جگر صاحب میرے بزرگ ہیں اس لیے میں اس مشاعرے کی صدارت کرنے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔‘‘

    جگر صاحب نے مائک ہاتھ میں لیا اور کہا:

    ’’اگر شکیل مجھے اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں تو بحیثیت بزرگ میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ مشاعرے کی صدارت کریں۔‘‘

    وہ دور بڑی محبت، رواداری، بزرگوں کی عزت اور تکریم کرنے والا دور تھا۔ جگر صاحب کی بات سن کر شکیل بدایونی کچھ نہ کہہ سکے اور ان کی صدارت میں مشاعرہ شروع ہوا۔

    تمام شاعر کلام پڑھ چکے اور صرف دو یعنی جگر صاحب اور شکیل بدایونی کلام سنانے سے رہ گئے تو شکیل بدایونی مائک پر اپنا کلام سنانے آ گئے تاکہ جگر صاحب سب سے آخر میں کلام سنائیں۔

    یہ مشاعروں کی روایت رہی ہے کہ صدرِ محفل سب سے آخر میں‌ کلام سناتے ہیں۔

    لیکن شکیل بدایوںی کے ساتھ ہی جگر صاحب بھی اٹھ کر آگے آ گئے اور کہنے لگے:

    ’’آپ صدر ہیں آپ سب سے آخر میں اپنا کلام سنائیے گا۔‘‘

    اس پر شکیل برجستہ بولے: ’’جگر صاحب اگر آپ مجھے صدر مانتے ہیں تو میں بحیثیت صدر میرا حکم ہے کہ آپ سب سے آخر میں کلام سنائیں گے۔‘‘

    محفل میں قہقہے بلند ہوئے اور جگر صاحب کو شکیل بدایونی کی بات ماننی پڑی۔

  • اسرار الحق کو گھر میں "جگن” کیوں‌ کہا جاتا تھا؟

    اسرار الحق کو گھر میں "جگن” کیوں‌ کہا جاتا تھا؟

    اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ انقلاب کی دھمک، رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و غم، رنج و الم سبھی کچھ ملتا ہے۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کے جنون اور رومان نے اسے‌ "آوارہ” اور "رات اور ریل” جیسی نظموں کا خالق بھی بنایا جنھوں‌ نے اس دور میں‌ ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ اپنی نظموں‌ سے شہرت پانے والے مجاز اپنی چند عادات کی وجہ سے بھی اپنے حلقہ احباب میں‌ خوب یاد کیے جاتے تھے۔

    مشہور ہے کہ اسرار الحق مجاز رات گئے گھر جاتے تھے اور اسی لیے انھیں گھر میں "جگن” کہا جاتا تھا۔

    وہ ہاکی کے اچھے کھلاڑی مانے جاتے تھے۔ پڑھائی کی بات کی جائے تو اکثر امتحانی کاپی سادہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ زود رنج اور حساس ایسے کہ ایک فساد کے دوران کسی آدمی کو مرتا دیکھا اور تین دن تک کھانا نہ کھا سکے۔

    زمانہ طالبِ علمی میں جہا‌ں کالج کی لڑکیوں میں‌ ان کی شاعری کو بہت پسند کیا جاتا تھا، وہیں ان کے عشق کی سچی جھوٹی کہانیاں، ان کے جنون اور کثرتِ شراب نوشی کا بھی بہت چرچا تھا۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر کی زندگی پر تین فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

  • "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    عشق میں کیا کیا میرے جنوں کی، کی نہ برائی لوگوں نے
    کچھ تم نے بدنام کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے
    میرے لہو کے رنگ سے چمکی کتنی مہندی ہاتھوں پر
    شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے

    1970 کی دہائی میں یہ کلام بہت مشہور ہوا، آواز تھی محمد رفیع کی جن کے گائے ہوئے فلمی گیت آج بھی نہایت ذوق و شوق سنے جاتے ہیں اور بہت مقبول ہیں۔

    محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی اس غزل کی دھن اس وقت کے معروف موسیقار جے دیو نے تیار کی تھی۔ فلم کے لیے لکھا گیا یہ کلام اور ترتیب دی گئی موسیقی کا تو بہت شہرہ ہوا، لیکن چند وجوہ کی بنا پر فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    اس غزل کے شاعر تھے ظفر گورکھپوری جو دنیائے سخن میں فلمی گیت نگار اور ادبِ اطفال کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بچوں‌ کے لیے نظمیں ہی نہیں کہانیاں‌ بھی لکھیں۔

    ظفر گورکھپوری نے جہاں غزل کے میدان میں فکری اور فنی سطح پر اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا ہے، وہیں بچوں‌ کے لیے ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع اور شعری جوہر قابلِ داد ہے۔ فلمی گیتوں اور دوہوں میں بھی انھوں نے خوبی سے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔

    ظفر گورکھپوری کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ انھیں فلمی دنیا کی چکاچوند اور مال و زر سے کوئی رغبت نہ تھی بلکہ ان کی زندگی کا اصل مقصد ادب اور درس و تدریس کے ذریعے نئی نسل کی تربیت کرنا اور کردار سازی تھا۔

    ظفر گورکھپوری کا نام ظفرالدین اور تخلص ظفرتھا۔ وہ 5 مئی 1935 کو ضلع گورکھپور، یو پی میں پیدا ہوئے، وہ نوعمری میں‌ ممبئی آگئے تھے جہاں‌ علمی اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ فلم کے لیے نغمہ نگاری کا سلسلہ جاری رہا، 2017 میں‌ ان کا انتقال ہو گیا۔

    1996 میں ہندی فلم ’کھلونا‘ ریلیز ہوئی جس کا ایک گانا بہت مقبول ہوا۔

    ہم جانتے ہیں تم ہمیں ناشاد کرو گے
    توڑو گے میرا دل مجھے برباد کرو گے
    دل پھر بھی تمھیں دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

    ظفر گورکھپوری کے گیتوں کو اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں نے گایا جن میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت عزیز، کشور کمار، کمار سانو وغیرہ شامل ہیں۔

  • تاریخ عندلیب شادانی کا خوابِ جوانی نہ دہرا سکی!

    تاریخ عندلیب شادانی کا خوابِ جوانی نہ دہرا سکی!

    اردو زبان کے نام ور شاعر، ادیب، نقاد، محقق اور مترجم ڈاکٹر عندلیب شادانی 29 جولائی 1969 کو ڈھاکا میں انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عندلیب شادانی کا تعلق رام پور سے تھا جہاں‌ انھوں نے یکم مارچ 1904 کو آنکھ کھولی تھی۔

    ڈاکٹر عندلیب شادانی ڈھاکا یونیورسٹی میں شعبہ اردو اور فارسی کے سربراہ رہے۔ حکومت پاکستان نے اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر عندلیب شادانی کو ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ان کا مجموعہ کلام ’’نشاط رفتہ‘‘اور دیگر تصانیف میں نقش بدیع، نوش و نیش، سچی کہانیاں شامل ہیں۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
    اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو…..

  • "میں نے کون سا گالی دی ہے!”

    "میں نے کون سا گالی دی ہے!”

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انھیں دنیائے ادب میں انشا پرداز، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    غلام رسول مہر کا بسلسلۂ روزگار حیدر آباد دکن میں بھی چند سال قیام رہا۔ وہ جالندھر کے علاقے پھول پور کے باسی تھے اور پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی تھی۔ اکثر حیدرآباد سے اپنے اہلِ خانہ کو ملنے آبائی علاقے جاتے رہتے تھے۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے اس باکمال تخلیق کار اور نہایت قابل شخصیت سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے:

    "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

  • "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں!”

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں!”

    میں مدت سے حیدر آباد (دکن) میں ہوں۔ مولوی وحید الدین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انھیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔

    گزشتہ سال کالج کے جلسہ میں مولوی عبدالحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔

    طالب علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بےضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل انہی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔

    ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پرکھڑے گپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ کو چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے ، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔ متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفید پائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔

    حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے ۔ کیا امیر حبیب اللہ خان اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا:

    "میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے، کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آکر ملوں۔ مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔”

    میں پریشان تھا کہ یا اللہ یہ ہیں کون اور کیا کہہ رہے ہیں؟ مگر میری زبان کب رکتی ہے، میں نے کہا:

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، مر جائیے، مضمون میں لکھ دوں گا۔”

    (معروف ادیب اور مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی شگفتہ بیانی)

  • نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات

    نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات

    اردو ادب میں خدیجہ مستور کا نام ان کی تخلیقات کے سبب ہمیشہ زندہ رہے گا۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انھوں نے ناول بھی لکھے۔ ان کے افسانوں کی بنیاد سماجی اور اخلاقی اقدار پر ہے اور ان میں سیاسی ماحول کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

    خدیجہ مستور کے افسانے’’محافظ الملک‘‘ کو اردو کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح آزادی کی تحریک اور قیامِ پاکستان پر ان کے ناول ’’آنگن‘‘ کو بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔

    آج خدیجہ مستور کی برسی ہے۔ خدیجہ مستور 26 جولائی 1982 کو لندن میں انتقال کرگئی تھیں۔

    اردو زبان کی اس نام ور افسانہ نگار نے 11 دسمبر 1927 کو بریلی (بھارت) میں آنکھ کھولی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والی خدیجہ مستور نے لاہور کو اپنا مستقر ٹھہرایا۔ خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن بھی اردو ادب میں صف اوّل کی افسانہ نگار شمار ہوتی ہیں۔ ان کا نام ہاجرہ مسرور ہے۔

    خدیجہ مستور نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942 میں کیا۔ ان کے ابتدائی افسانوں کے دو مجموعے ’’کھیل‘‘ اور ’’بوچھاڑ‘‘ کے نام سے منظرِ‌عام پر آئے اور پاکستان آنے کے بعد تین افسانوی مجموعے چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی کے نام سے شایع ہوئے۔

    خدیجہ مستور کے دو ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ نے بھی ناقدین اور قارئین کو متاثر کیا۔ آنگن وہ نامل ہے جسے اردو کے صفِ اول کے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس تخلیق پر انھیں آدم جی انعام بھی دیا گیا۔

  • اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    26 جولائی شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی تاریخِ پیدائش ہی نہیں‌ یومِ وفات بھی ہے۔ 1928 کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہونے والے اسرار احمد کی زندگی کا سفر 1980 میں تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران اسرار احمد نے دنیا بھر میں‌ اپنے قلمی نام ابنِ صفی سے پہچان بنائی اور آج بھی ان کا نام جاسوسی ادب میں‌ سرِفہرست اور معتبر ہے۔

    ابنِ صفی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیار کیا۔ بعد میں‌ وہ نثر کی طرف متوجہ ہوئے اور طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952 میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ 1952 میں شایع ہوا اور اسی سال وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے’’عمران سیریز‘‘ کے عنوان سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ 1955 میں شایع ہوا۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی۔ اپنی زندگی کی 52 ویں سال گرہ کے روز وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے ناولوں کے کردار آج بھی قارئین کو یاد ہیں‌۔ جاسوسی ادب میں ابنِ صفی کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اپنے دور کے کئی اہم اور نام ور غیر ملکی ادیبوں اور نقادوں نے بھی ان کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔