Tag: اردو ادب

  • اور نواب تاباں کا ناریل چٹخ گیا!

    اور نواب تاباں کا ناریل چٹخ گیا!

    نواب تاباں نواب سائل کے بڑے بھائی تھے۔ بالکل انھیں کی طرح میدہ و شباب رنگ، ویسا ہی ڈیل ڈول، ناک نقشہ اور لباس، مگر دونوں بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

    بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی سے نہ جانے کیا کد تھی کہ ہمیشہ برا بھلا ہی کہتے رہتے تھے۔ بلکہ گالیاں دینے سے نہ چوکتے تھے اور گالی بھی ایک سے ایک نئی تراشتے تھے۔ سائل بے چارے سر جھکا کر کہتے ’’بھائی جان آدھی مجھ پر پڑرہی ہیں اور آدھی آپ پر‘‘ اس پر وہ اور بگڑتے اور ایسی سناتے جو دھری جائیں نہ اُٹھائی جائیں۔

    نواب تاباں بھی شاعر تھے۔ اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم اجمل خان کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباں کی تعریف غائبانہ سن چکے تھے۔ ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔ حکیم صاحب نے ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیرمقدم کیا۔ عزت سے بٹھایا۔ خاطر تواضع کی۔

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مُدَمّعِْ آدمی تھے، خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباں نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے،

    ’’ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے اور غزل کا اگلا شعر سنایا۔ مولانا نے فرمایا سبحان ﷲ خوب شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘

    بس پھر تاباں آئیں تو جائیں کہاں؟ بگڑ کر بولے،

    ’’ابے میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے اسے ایک منٹ میں سمجھ لیا، بیٹا یہ شعر العجم نباشد۔ اس کے بعد ان کی گالیوں کا پٹارہ کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہوگیا۔

  • نصرت ظہیر: معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی دنیا سے رخصت ہوئے

    نصرت ظہیر: معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی دنیا سے رخصت ہوئے

    سہارن پور(بھارت) سے خبر آئی ہے کہ معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی نصرت ظہیر دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔ ان کی عمر 69 برس تھی۔

    نصرت ظہیر نے دنیائے ادب کے لیے‌ اپنی تخلیقات ’’بقلم خود‘‘، ’’تحت اللفظ‘‘ اور ’’خراٹوں کا مشاعرہ‘‘ کے نام سے چھوڑی ہیں۔ نصرت ظہیر نے اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے سہ ماہی ’’ادب ساز‘‘ نکالا تھا۔

    نصرت ظہیر نے مختلف روزناموں کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔

    یہاں ہم ان کے ایک مزاحیہ مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں۔

    "اُن ہی دنوں شہر کی ایک ویران سڑک سے گزر رہا تھا کہ راہ میں ایک لکڑ بھگے سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے سوچا فرسٹ ہینڈ جانکاری کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا۔ کیوں نہ لکڑ بھگے سے انٹر ویو کر لیا جائے۔

    ویسے بھی میں سیاست دانوں کے انٹرویو کر کر کے تنگ آچکا تھا۔ تو جسٹ فار اے چینج، کسی لیڈر کی بجائے لکڑ بھگّا ہی سہی۔

    ’’باقی باتیں تو بعد میں ہوں گی لکڑ بھگے بھائی! پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا اصلی نام کیا ہے۔ لکڑ بھگا، لکڑ بگا، یا لکڑ بگھا؟‘‘

    یہ سن کر لکڑ بھگا پہلے متغیّر پھر متفکر اور بعد ازاں متشکک ہوا۔ بالآخر متبسم ہو کر بولا۔

    ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہم جیسے ادنیٰ جانوروں کی وجہ سے آپ اس قسم کی لسّانی الجھنوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ خیر… بات یہ ہے کہ پہلے ہم لکڑ بھگے یا لکڑ بگھے ہی ہوا کرتے تھے۔ مگر امتداد زمانہ سے گھستے گھستے لکڑ بگے رہ گئے۔

    ویسے آپ چاہیں توہمیں لگڑ بگڑ بھی کہہ سکتے ہو۔ اہلِ فارس نے تو ہمیں چرخ کا نام دے ڈالا، جس کی وجہ سے ہند کے تمام شاعر بنا ہاتھ دھوئے ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ چنانچہ ان چرب زبانوں نے چرخِ پیر، چرخِ زریں، چرخِ کبود اور چرخِ دولابی کی آڑ میں ہمارے فارسی نام کو اتنا بد نام کیا کہ اخترالایمان و الحفیظ جالندھری…”

  • اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے!

    اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے!

    عبدالحمید عدمؔ اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر ہیں۔ عدم نے غزلوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے مختصر بحروں کا انتخاب‌ کیا۔ ان کا سادہ مگر دل کش اندازِ بیاں انھیں دیگر شعرا سے جدا کرتا ہے۔ عدم کا کلام سہلِ ممتنع کا عمدہ نمونہ ہے۔ ان کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور یہ شعر تو آپ کو بھی یاد ہو گا۔

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں‌ اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ کی ایک غزل آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

    آگہی میں اک خلا موجود ہے
    اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے

    ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
    آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے

    بانکپن میں اور کوئی شے نہیں
    سادگی کی انتہا موجود ہے

    ہے مکمل بادشاہی کی دلیل
    گھر میں گر اک بوریا موجود ہے

    اس لیے تنہا ہوں میں گرمِ سفر
    قافلے میں رہنما موجود ہے

    ہر محبت کی بنا ہے چاشنی
    ہر لگن میں مدعا موجود ہے

    ہر جگہ، ہر شہر، ہر اقلیم میں
    دھوم ہے اس کی جو ناموجود ہے

    جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ
    وہ ستم گر جا بہ جا موجود ہے

  • وہ نام وَر ادیب جنھوں نے ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھیں

    وہ نام وَر ادیب جنھوں نے ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھیں

    ریڈیو پر کہانی یا افسانہ پیش کرنے اور سننے سنانے کا رواج کئی دہائیوں پر محیط ہے۔

    متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو مختلف اسٹیشنوں سے مختلف زبانوں میں کہانیاں نشر کرتا رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے دنیا کی مختلف زبانوں کی تخلیقات ترجمہ ہو کر اور کئی قسط وار ناول بھی پیش کیے گئے جن کا خوب شہرہ ہوا اور انھیں بے حد سراہا گیا۔

    اردو کے عظیم ناول نویس مرزا ہادی رسوا جن کا ناول امراﺅ جان ادا، پریم چند کا ناول گئو دان اور رتن ناتھ سرشارکا ناول فسانۂ آزاد وغیرہ قسط وار نشر ہوئے اور انھیں بے حد پسند گیا۔

    اسی طرح اردو کے کئی نام ور اور اہم ادیبوں نے باضابطہ ریڈیو سے وابستہ ہوکر کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔

    ریڈیو کے سامعین کو اپنی تخلیقات سے محظوظ کرنے والوں میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک شامل ہیں۔ یہ اردو کے وہ ادیب ہیں جنھوں نے باقاعدہ ریڈیو میں ملازمت اختیار کی، اس میڈیم کے لیے لکھا اور ان کے ریڈیائی ڈرامے ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد یہ سلسلہ آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کی صورت میں جاری رہا اور سرحد کے دونوں پار بسنے والے ادیبوں اور تخلیق کاروں نے ریڈیو کے سامعین کے لیے معیاری کہانیاں اور افسانے پیش کیے۔

  • کنجوس جوہری(اردو ادب سے انتخاب)

    کنجوس جوہری(اردو ادب سے انتخاب)

    بہت دنوں کی بات ہے۔ کسی قصبے میں ایک جوہری رہا کرتا تھا۔ قصبہ چوں کہ چھوٹا تھا اس لیے یہاں کے رہنے والے تقریباً سبھی لوگ ایک دوسرے سے واقف تھے۔

    جوہری کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنے آپ پر اور بیوی بچوں پر تو خاصی رقم خرچ کرتا تھا، لیکن وہ دوسروں پر کسی مطلب کے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا فقیر اس کے پاس آ جاتا تو جو ہری اس کو اس بری طرح جھڑکتا کہ بے چارہ بھکاری پھر کبھی بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہ کرتا۔

    کنجوس جوہری کے بہت کم دوست تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر بھی پیسہ خرچ نہ کرتا، بلکہ ان سے ہی کھانے پینے کی توقع رکھتا۔ چوں کہ وہ باتیں بنانے کا ماہر تھا، اس لیے کچھ لوگ اس کے دوست بن گئے تھے اور کبھی کبھی اسے کھلا پلا دیتے تھے۔

    اسی قصبے میں ایک دھوبی رہا کرتا تھا۔ وہ جوہری کے بالکل برعکس تھا۔ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ جو پیسہ ہوتا، وہ دوستوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کر دیا کرتا۔ جب شاہی دھوبی بیمار ہو جاتا تو وہ بادشاہ کے کپڑے بھی دھویا کرتا۔ وہ لوگوں میں بڑا ہر دل عزیز تھا۔ وہ دھوبی تھا، مگر لوگ جوہری سے زیادہ اس کی عزت کرتے تھے۔

    ایک شام دھوبی کام ختم کر کے اپنے دوستوں سے گپ شپ کر رہا تھا کہ کنجوس جوہری کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک دوست نے کہا: "اس جیسا کنجوس انسان تو ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا نہ سنا۔”

    دوسرے دوست نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی: "اس نے آج تک کسی کو ایک گلاس پانی نہیں پلایا۔”

    دھوبی بولا: ” میں اس کنجوس جوہری سے چائے پانی تو ایک طرف رہا۔ کھانا تک کھا سکتا ہوں۔”

    تمام دوستوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ایک دوست نے ٹانگیں پھیلاتے ہوئے کہا: "بڑے بڑے تیس مار خاں اس سے چائے تک نہیں پی سکے، بھلا تم کھانا کیسے کھاؤ گے؟”

    دھوبی نے کہا: "آخر تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا؟”

    "جب اس کنجوس جوہری سے کوئی چیز کھانا ممکن نہیں تو یقین کیسے آئے گا؟”

    دھوبی نے کہا: "اگر میں نے اس سے کھانا کھا لیا تو تم مجھے کیا انعام دو گے؟”

    ایک دوست بولا: ” ہم سب مل کر تمھاری ایک شان دار دعوت کریں گے۔”

    دھوبی بولا: ” تو پھر ٹھیک ہے۔ میں کل دوپہر کا کھانا جوہری کے گھر کھاؤں گا۔”

    "ٹھیک ہے۔ ہم بھی وہاں آئیں گے۔” سب بے ایک زبان ہو کر کہا۔

    دھوبی رات دیر تک کنجوس جوہری سے کھانا کھانے کی ترکیب سوچتا رہا۔ آخر ایک ترکیب اس کی سمجھ میں آ ہی گئی۔

    دھوبی نے اگلے دن ایک خالی ڈبا لیا اور جوہری کے گھر جا پہنچا۔ اسے معلوم تھا کہ جوہری اس وقت دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    "کون ہے؟” اندر سے جوہری کی آواز آئی۔

    "میں ہوں، دھوبی۔”

    "تمھیں معلوم نہیں، یہ میرے کھانے کا وقت ہے؟” جوہری بیزاری سے بولا۔

    دھوبی نے ادب سے جواب دیا: "معلوم ہے جناب! لیکن اس وقت میں آپ کے پاس ضروری کام سے آیا ہوں۔”

    "کون سا کام؟”

    دھوبی نے کہا: "آپ دروازہ کھولیے۔ ایک ہیرے کے بارے میں بات کرنی ہے۔”

    ہیرے کا نام سنتے ہی جوہری کے منھ میں پانی بھر آیا اور اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ دھوبی کے ہاتھ میں ڈبا دیکھ کر وہ سمجھا کہ اس میں ہیرا ہے، جسے دھوبی بیچنے آیا ہے۔

    جوہری کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ دھوبی کبھی کبھی شاہی محل میں کپڑے دھوتا ہے۔ اس نے سوچا: بہت ممکن ہے، میلے کپڑوں میں بھولے سے کوئی ہیرا آ گیا ہو۔

    جوہری نے کہا: "باہر کیوں کھڑے ہو، ادھر آ جاؤ۔ بیٹھ کر آرام سے باتیں ہوں گی۔”

    دھوبی، جوہری کے گھر میں داخل ہو گیا۔ اس وقت دسترخوان پر کھانا چنا جا چکا تھا، جس کی خوشبو سے دھوبی کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھنے لگیں۔

    "مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کی آج کل کیا قیمت ہے؟ ” دھوبی نے اطمینان سے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

    یہ سن کر جوہری کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے سوچا کہ ڈبے میں ضرور کوئی بڑا ہیرا ہے، جو دھوبی کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ میں اسے بیوقوف بنا کر قیمتی ہیرے کو اپنے قبضے میں لے لوں گا۔ بھلا اسے ہیرے کے بارے میں کیا معلوم۔

    "ہاں تو بتائیے! مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کے کیا دام چل رہے ہیں ؟” جوہری کو خاموش دیکھ کر دھوبی نے دوبارہ پوچھا۔

    جوہری نے دعوت دی: "آؤ، پہلے کھانا شروع کرو، ہیرے کی باتیں کھانے کے بعد ہوتی رہیں گی۔”

    دھوبی تو اسی انتظار میں تھا۔ فوراً لذیذ کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔ پلاؤ، شامی کباب، شاہی ٹکڑوں اور گاجر کے حلوے کو جلدی جلدی حلق سے نیچے اتارنے لگا۔

    جوہری نے اپنے دل میں کہا: کوئی بات نہیں بچو! اڑا لو میرا مال، جتنا اڑا سکو۔ میں نے بھی تم سے چند سکوں میں ہیرا نہ ہتھیایا تو جوہری کا کام چھوڑ دوں گا۔

    دھوبی نے کہا: "سنا ہے، مرغی کے انڈے جتنے ہیرے بڑے نایاب ہوتے ہیں۔”

    جوہری نے چالاکی سے کہا: "ہیروں کی قیمت آج کل گری ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب ہیروں کے دام بہت چڑھے ہوئے تھے، لیکن جب سے نقلی ہیرے بننے شروع ہوئے ہیں، اصلی ہیروں کی مانگ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔”

    "پھر بھی آخر اتنا بڑا ہیرا کتنے کا ہو گا؟” دھوبی شامی کباب منھ میں رکھتے ہوئے بولا۔

    "یہی کوئی پچاس ساٹھ روپے کا۔” جوہری نے ڈبے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

    "اتنے بڑے ہیرے کی اتنی کم قیمت!” دھوبی نے رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔

    "صحیح قیمت تو ہیرا دیکھنے کے بعد ہی بتائی جا سکتی ہے۔ آج کل تو نقلی ہیرے بھی اصلی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔” جوہری نے ملازم کو خالی برتن لے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    "بڑی مہربانی جوہری صاحب! آپ نے ہیروں کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔” دھوبی جوتا پہنتے ہوئے بولا۔

    جب وہ ڈبا اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھا تو جوہری بڑا سٹپٹایا اور بولا: "کیا تم ہیرا نہیں دکھاؤ گے؟ بیچنے کا ارادہ بدل دیا ہے کیا نقلی ہیرے کے بھی کچھ نہ کچھ پیسے تو مل ہی جائیں گے۔”

    دھوبی نے پُر اعتماد لہجے میں کہا: "آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، جوہری صاحب! میرے پاس نہ نقلی ہیرا ہے نہ اصلی۔ بھلا غریبوں کے پاس بھی ہیرے ہوا کرتے ہیں؟”

    "تو۔۔۔۔۔۔ تو پھر میرے پاس کس لیے آئے تھے؟”

    "چند دوستوں سے میری شرط لگی ہ، وہ کہتے ہیں کہ مرغی کے انڈے جتنا ہیرا ہوتا نہیں، جب کہ میں کہتا ہوں کہ ہوتا ہے۔ بس یہی بات آپ سے پوچھنے چلا آیا تھا۔”

    "مکار! دغا باز! نکال میرے کھانے کے پیسے، ورنہ تیری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔” جوہری ایک بڑا سا ڈنڈا لے کر اس کی طرف جھپٹا۔

    شور و غل کی آواز سن کر کئی لوگ جمع ہو گئے، جن میں دھوبی کے دوست بھی تھے۔ اتنے میں دھوبی نے چلانا شروع کر دیا: "ارے! میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ تمھارے کھانے نے میرے پیٹ میں درد کر دیا ہے۔ دوا کے پیسے نکالو، ورنہ تمھیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔”

    لوگوں نے جب یہ سنا تو انھوں نے سوچا کہ جوہری تو کسی کو ایک گلاس پانی تک نہیں پلاتا، پھر اس نے دھوبی کو کھانا کیسے کھلا دیا؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ وہ سب مل کر بولے: "دھوبی کو دوا کے پیسے دو، ورنہ تمھیں پولیس کے حوالے کر دیں گے۔”

    اب تو جوہری بڑا گھبرایا۔ وہ پولیس سے بہت ڈرتا تھا۔ جی کڑا کر کے اس نے دھوبی کو دوا کے پیسے دیے اور اپنی جان چھڑائی۔ جب دھوبی دوستوں کے ساتھ دکان پر پہنچا تو انھوں نے اس سے کہا: "بھئی مان گئے! آج شام ہمارے طرف سے تمھاری دعوت ہے۔

    مصنف: مہروز اقبال

  • "یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے!”

    "یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے!”

    جب مرض بہت پرانا ہو جائے اور صحت یابی کی کوئی امید باقی نہ رہے تو زندگی کی تمام مسرتیں محدود ہو کر بس یہیں تک رہ جاتی ہیں کہ چارپائی کے سرہانے میز پر جو انگور کا خوشا رکھا ہے اس کے چند دانے کھا لیے، مہینے دو مہینے کے بعد کوٹھے پر غسل کر لیا یا گاہے گاہے ناخن ترشوا لیے۔

    مجھے کالج کا مرض لاحق ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔ شباب کا رنگین زمانہ امتحانوں میں جوابات لکھتے لکھتے گزر گیا۔ اور اب زندگی کے جو دو چار دن باقی ہیں وہ سوالات مرتب کرتے کرتے گزر جائیں گے۔ ایم اے کا امتحان گویا مرض کا بحران تھا۔

    یقین تھا کہ اس کے بعد یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے۔ سو مرض تو بدستور باقی ہے اور ہم… ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں۔

    طالب علمی کا زمانہ بے فکری کا زمانہ تھا۔ نرم نرم گدیلوں پر گزرا، گویا بستر عیش پر دراز تھا۔ اب تو صاحبِ فراش ہوں۔ اب عیش صرف اس قدر نصیب ہے کہ انگور کھا لیا۔ غسل کر لیا۔ ناخن ترشوا لیے۔ تمام تگ و دو لائبریری کے ایک کمرے اور اسٹاف کے ایک ڈربے تک محدود ہے اور دونوں کے عین درمیان کا ہر موڑ ایک کمین گاہ معلوم ہوتا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مضمون "اب اور تب” سے اقتباس)

  • "پیرس چمک رہا تھا!”

    "پیرس چمک رہا تھا!”

    ثریا حسین کے سفر ناموں میں ان کی خوب صورت اور رواں نثر، پُرلطف منظر نگاری اور دل چسپ اسلوب قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ علی گڑھ کی، شعبۂ اردو سے وابستہ ثریا حسین نے 1984 تک اہم درس گاہ میں‌ صدرِ شعبہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔

    ثریا حسین کا ایک سفر نامہ ’پیرس و پارس‘ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے نام میں جو حسن ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

    ’پیرس و پارس‘ گویا مشرق و مغرب کی تہذیبوں کا وصال ہے۔ یہ جدید و قدیم دو متضاد لہروں اور سمتوں کا حسین امتزاج بھی ہے۔ گویا مصنفہ نے ’پیرس و پارس‘ کے ذریعے دو مختلف اور متضاد تہذیب و تمدن سے عوام کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور ان دونوں کے تضادات اور مماثلات کو بھی روشن کیا ہے۔

    یہ سفر نامہ بنیادی طور پر ان کے پیرس کے قیام پر محیط ہے۔ انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، جیسے جیسے مقامات مشاہدے میں آئے، جیسے جیسے افکار و خیالات کے جزیروں سے آشنائی ہوئی، ان سب کو انتہائی خوب صورت پیرائے میں ڈھال کر اسے سفرنامے کی شکل عطا کر دی۔

    اس میں جہاں پیرس کی تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی صورت حال سے آشنائی ہوتی ہے وہیں وہاں کے رنگ و بو سے بھی ذہن کو نئی روشنی ملتی ہے۔

    وہاں کے دریا، محلات، مصوری اور گیت، غرض یہ کہ ہر چیز کا ذکر تمام تر تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کتاب محض جغرافیائی اور تاریخی معلومات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے، بلکہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کا سفر کر رہے ہیں اور ایک ایک ذرے سے آشنا ہو رہے ہیں۔ چوں کہ پیرس مصوری کا مرکز رہا ہے، تو وہاں کے مصوروں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔

    شہر دل ربا پیرس کے بارے میں اس سفر نامے سے ایک پارہ آپ کے ادبی ذوق اور سیاحت کے شوق کی تسکین کے لیے پیش ہے:

    ”رات کے دو بجے پیرس سے پندرہ میل دور ’اورلی‘ ایئرپورٹ، طیارہ کی کھڑکی سے دیکھا، دور دور تک پیرس چمک رہا تھا۔ دل کی شکل یہ سحر آفریں، روشنیوں کا شہر! پیرسیائی نام کے کیلٹک قبیلہ نے پہلی صدی قبل مسیح دریائے سین کے کنارے ایک گاؤں آباد کیا جو لوٹیشیا کہلاتا تھا، بعد میں اس جگہ رومن سپاہیوں نے اپنی چھاؤنی چھائی۔

    تیسری صدی عیسوی میں جرمن قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے لوٹیشیا کے باشندے دریائے سین کے جزیروں پر چلے گئے۔ ان کی یہ بستی بہت جلد پیرسیوں کا شہر کہلانے لگی اور اس قبیلہ نے Sle De La Cite جزیرے کے شہر کو قلعہ بند کیا۔ (اسی جزیرہ پر آج نو تردام کا کلیسا اور پولیس کا ہیڈکوارٹر موجود ہے)

    ثریا حسین مزید لکھتی ہیں:

    پیرس بہت جلد ایک اہم مسیحی مرکز بن گیا اور یہاں بہت سی خانقاہیں قائم ہوئیں۔ کئی بادشاہوں نے اس شہر کو اپنی راج دھانی بنایا۔

    نویں صدی میں نارویجین حملہ آور اپنے جہاز لے کر سین پر اترے لیکن جزیرہ کے قلعے کو فتح نہ کر پائے۔“

    ثریا حسین نے اس سفر نامے میں بہت سے ادیبوں کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں موپاساں، برگ ساں، موزاٹ اور فرائڈ شامل ہیں۔

  • حمق کا عارضہ….

    حمق کا عارضہ….

    ادب نگری میں فسانہ آزاد کو ناول اور بعض ناقدین نے داستان شمار کیا ہے۔ اسے اردو ادب کے عہدِ اولین کا ایک خوب صورت نقش ضرور تسلیم کیا جاتا ہے جس کے مصنف پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری ہیں۔ کہتے ہیں یہ 1878 کا ناول ہے جو 1880 میں پہلی بار کتابی شکل میں شایع ہوا۔

    اس کا ہیرو ’’آزاد‘‘ ایک ذہین بانکا اور خو برو نوجوان ہے جو علم و فن میں یکتا ہے۔ جہاں گشت ہے اور ایک دوشیزہ پر دل و جان سے فدا ہوجاتا ہے جو اسے دنیا میں نام ور اور مشہور ہونے کو کہتی ہے، تب یہ نوجوان میدانِ جنگ میں شجاعت اور جواں مردی دکھاتا ہے اور بدیس میں اس کا چرچا ہوتا ہے۔

    اس داستان کو مختلف عنوانات کے تحت سمیٹا گیا ہے جس کا یہ ٹکڑا آپ کی دل چسپی اور توجہ کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ اس داستان کے ہیرو کا غم کے ایک موقع پر دوسرے کردار سے مکالمہ ہے۔

    حمق کا عارضہ

    ۔۔۔۔میاں آزاد کا دل بھر آیا۔ رقیق القلب تو تھے ہی آٹھ آٹھ آنسو روئے۔ ایک مرد آدمی سے جو قریب بیٹھے تھے، پوچھا: یاحضرت! بھلا یہ پیر مرد کس عارضے میں مبتلا تھے۔

    اس نے آہ سرد کھینچ کر کہا کہ یہ نہ پوچھیے حمق کا عارضہ تھا۔

    کیا حمق، یہ کون سا عارضہ ہے؟

    صاحب قانونچے میں اس کا کہیں پتا نہیں۔ طبِ اکبر میں اس کا ذکر بھی نہیں. یہ نیا عارضہ ہے۔ جی اُمّ العوارض ہے۔

    ذرا اس کے علامات تو بتائیے؟

    اجی حضرت کیا بتاؤں۔ عقل کی مار اس کا خاص باعث ہے۔

  • سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    ممتاز ادیب اور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کا ناول "کارِ جہاں دراز ہے” شاید آپ نے بھی پڑھا ہو۔ ان کی اس سوانحی تصنیف میں ایک ایسی تحریر سے اقتباس بھی شامل ہے جس کا مصنف نامعلوم ہے۔

    کہتے ہیں یہ تحریر سترھویں صدی کے کسی مفکر اور دانا کی ہے جو انگلستان کے ایک قدیم گرجا گھر سے ملی تھی۔ یہ اقتباس ہم آپ کے لیے یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    ’’شور اور ہنگامے میں سے پُرسکون گزرو۔ اور یاد رکھو کہ امن خامشی میں ہے۔ خود کو جھکائے بغیر سب سے نبھائو۔ اپنی سچائی کو شانتی اور صراحت کے ساتھ بیان کرو اور دوسروں کی سنو خواہ وہ لوگ غیر دل چسپ یا کم علم ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ ان کے پاس بھی ان کی کہانی موجود ہے۔

    چھچھورے لوگوں سے احتراز کرو کہ وہ روح کے لیے ناگوار ہیں اور اگر تم نے اپنا موازنہ دوسروں سے کیا تمھارے اندر نخوت یا تلخی پیدا ہو جائے گی، اپنے کارناموں اور منصوبوں سے لطف اندوز ہو، اپنے کام اور فرضِ منصبی میں دل لگائو خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو کیوں کہ تھارا ہنر ہی وہ شے ہے جسے گردشِ ایام کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔

    اپنے معاملات میں سوجھ بوجھ سے کام لو۔ دنیا مکروفریب سے پُر ہے۔ لیکن اہلِ دنیا کے چھل کپٹ سے دل برداشتہ ہو کر اچھے انسانوں کی نیکیوں کو نظر انداز نہ کرو۔

    بہت سے لوگ ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نصب العین کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور ہر جگہ زندگی دلاوری سے معمور ہے۔ تم جو خود ہو، وہی رہو مصنوعی جذبات کا اظہار نہ کرو۔ نہ محبت کے متعلق کلبیت کا رویہ اختیار کرو کیوں کہ ساری خشک سالی اور مایوسیوں کے درمیان محبت سدا بہار گھاس کی مانند اگتی رہتی ہے۔

    گزرتے برسوں کے مشوروں کو نرم مزاجی سے قبول کرو۔ اور نوعمری کے مشاغل سے وقار کے ساتھ دست بردار ہونا سیکھو۔ اپنی اندرونی قوت کو پروان چڑھائو جو کسی اچانک مصیبت کے وقت تمھارے کام آسکے۔ لیکن توہمات سے خود کو پریشان نہ کرو کہ بہت سے خوف اور خدشے درماندگی اور تنہائی کی وجہ سے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔

    ایک معقول حد تک ضبط وتوازن قائم کرکے اپنی ذات سے نرمی برتو۔ اپنے اوپر بلاوجہ ظلم نہ کرو اور یاد رکھو کہ زمین کی گھاس اور آسمان کے درخشاں ستاروں کی طرح تم بھی کائنات کے بچے ہو اور چاہے تمھاری سمجھ میں یہ بات نہ آوے، مگر کائنات متواتر اور پیہم اپنے اسرار منکشف کررہی ہے چناں چہ جو بھی تمھارا تصور خدا کے متعلق ہے، راضی برضائے پرورد گار ہو جائو اور زندگی کی پرُشور الجھنوں کے درمیان اپنی روح کے ساتھ امن سے رہو کیوں کہ اپنی تمام بیہودگیوں اور کلفتوں کے باوجود دنیا بڑی خوب صورت جگہ ہے۔‘‘

  • اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    بیکاری یعنی بے روزگاری اس اعتبار سے تو نہایت لاجواب چیز ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا انسان اپنے گھر میں تمام دنیا سے بے نیاز ہو کر اس طرح رہتا ہے کہ ایک شہنشاہِ ہفت اقلیم کو اپنے محل میں وہ فارغ البالی نصیب نہیں ہو سکتی۔

    سچ تو یہ ہے کہ وہ دولت جس کو تمام دنیا کے سرمایہ دار اپنی جان اور اپنا ایمان سمجھتے ہیں، ایک ایسا مستقل عذاب ہے جو انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ سرمایہ داروں کی تمام زندگی بس دو ہی فکروں میں کٹتی ہے ایک یہ کہ اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہوگا؟

    یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق، آنتوں کی دق، ہڈی کی دق وغیرہ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔ بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔

    مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقتا کشمکشِ جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے۔

    اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے۔ نہ جینے کی خوشی تھی، نہ مرنے کا کوئی غم۔

    "اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے”

    (شوکت تھانوی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)