Tag: اردو ادب

  • مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    ذوالفقار علی بخاری کو دنیائے ادب اور فنون میں زیڈ اے بخاری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی وجہِ شہرت شاعری اور صدا کاری ہے، لیکن تخلیقی جوہر سے مالا مال زیڈ اے بخاری نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک ماہرِ نشریات اور منتظم، پروڈیوسر اور اسٹیج اداکار کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ 12 جولائی 1975 کو زیڈ اے بخاری اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    وہ 1904 میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں سب بخاری صاحب پکارتے جو اردو زبان کی صحت، املا اور ریڈیو پر درست تلفظ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

    زیڈ اے بخاری کو کم عمری ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی تھے۔

    یہ 1936 کی بات ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب بھی اس میڈیم سے منسلک ہوگئے اور زندگی بھر ریڈیو سے وابستہ رہے۔ انھوں نے لندن سے ریڈیو نشریات کے لیے تربیت حاصل کی اور واپسی پر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

    جب کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کا قیام عمل میں‌ لایا گیا تو بخاری صاحب ہی پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔

    ان کے والد صاحبِ دیوان نعت گو شاعر جب کہ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ایسے علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پروان چڑھنے والے بخاری صاحب کو حسرت موہانی، یاس یگانہ چنگیزی، نواب سائل دہلوی جیسے عظیم شعرا کی صحبت بھی میسر آئی جس نے انھیں‌ شاعری پر مائل کیا۔

    زیڈ اے بخاری کو اردو کے علاوہ فارسی، پنجابی، پشتو، بنگالی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے زمانے میں صحتِ زبان کا بہت خیال رکھا گیا۔

    زیڈ اے بخاری نے اپنے حالاتِ زندگی کو ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیا جو نثر میں ان کے کمال کی یادگار ہے۔ موسیقی کے رسیا ہی نہیں‌ راگ راگنیوں‌ سے بھی واقف تھے اور فنِ موسیقی پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی ان کی یادگار ہے۔

  • منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    اردو ادب میں سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی کا بنیادی حوالہ ان کی افسانہ نگاری ہے، لیکن مختلف موضوعات پر ان دونوں ادیبوں کے علمی و تحقیقی مضامین، کالم اور خاکے بھی اس دور کے قارئین میں مقبول ہوئے۔

    سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی ہم عصر تخلیق کار ہی نہیں دوست بھی تھے۔ ان دونوں ادیبوں میں شناسائی کی وجہ اور ان دس دنوں کی روداد پڑھیے جنھوں اپنے وقت کے ان عظیم لکھاریوں کو دوستی کے تعلق میں باندھ دیا۔

    1931 میں تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے، جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھاکہ وہ ایک غلام ملک یعنی ہندوستان واپس نہیں جائیں گے۔

    آزادی کے ہیرو مولانا جوہر کی اس خواہش کا احترام کیا گیا اور انہیں فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ممتاز افسانہ نگار اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے نکلنے والے اخبار ’سیاست‘ میں شایع ہوئی۔ اس نظم کو قاسمی صاحب اپنے شعری سفر کا آغاز کہتے تھے۔

    اسی دور میں انہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے۔ ان کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شایع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔

    قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد ان کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    منٹو ہی کی دعوت پر وہ نئی دہلی گئے، جہاں دس دن تک منٹو کے ساتھ رہے۔ یہی دس دن ان دنوں کے درمیان گہری دوستی کی بنیاد بنے۔

    اردو زبان کے ان دو نام ور افسانہ نگاروں کے درمیان مراسم منٹو کے انتقال تک قائم رہے۔

  • دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منہ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔

    ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔

    آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئی۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔

    اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔‘‘

    بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھویں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوف ناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔‘‘

    لے دے کر سارے گھر میں ایک غم گسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’موتی۔‘‘

    بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔

    بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آ جاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔

    کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔

    کنہیا لال کپور کے مضمون "مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ” سے انتخاب

  • خاطر غزنوی: خوب صورت شاعر اور ادیب

    خاطر غزنوی: خوب صورت شاعر اور ادیب

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    خاطر غزنوی کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا۔ آج اردو اور ہندکو کے اسی نام ور شاعر اور ادیب کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    7 جولائی 2008 کو خاطر غزنوی وفات پاگئے تھے۔ وہ پشاور میں آسودۂ خاک ہیں۔

    خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ 25 نومبر 1925 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، پشاور سے کیا۔ بعدازاں اپنے شہر کی یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایم اے کیا اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔

    1984 میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ خاطر غزنوی کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثری کتب میں زندگی کے لیے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، خوش حال نامہ، چین نامہ شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

  • حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    2003 میں آج کے روز حمید کاشمیری ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے تھے۔ اردو ادب میں افسانہ نگاری، ڈراما نویسی ان کا میدان رہا جس میں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    6 جولائی کو کراچی میں اردو کے اس معروف افسانہ نگار اور ڈراما نویس کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ یکم جون 1929 کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔

    کراچی میں صدر کی الفنٹن اسٹریٹ پر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں بڑے بڑے رائٹرز اور نام ور ادبی شخصیتیں اکثر اکٹھی ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی وژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

  • دل دل پاکستان جیسے مقبول ترین نغمے کے خالق کی برسی

    دل دل پاکستان جیسے مقبول ترین نغمے کے خالق کی برسی

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر نثار ناسک کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے۔

    نثار ناسک ”دل دل پاکستان“ جیسے مقبول ترین نغمے کے خالق بھی ہیں۔ جنید جمشید کی آواز میں یہ نغمہ کچھ یوں گونجا کہ اسے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ کہا جانے لگا۔ آج بھی یہ نغمہ ہر ایک کی زبان پر ہے۔

    نثار ناسک جزوی طور پر بینائی سے محروم اور ایمنیزیا کے مریض تھے۔ بدقسمتی سے ان کی زندگی کے آخری ایام کس مپرسی کے عالم میں گزرے۔ 3 جولائی 2019 کو نثار ناسک وفات پا گئے۔

    اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور صدارتی تمغے سے نوازا گیا۔ نثار ناسک کا کلام ان کی دو کتابوں ”چوتھی سمت آ نکلا“ اور ”دل دل پاکستان“ میں‌ محفوظ ہے۔

  • گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے (شاعری)

    گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے (شاعری)

    غزل اور نظم دوںوں اصنافِ سخن میں سارہ خان کی تخلیقات ہمارے سامنے ہیں۔

    خوب صورت لب و لہجے کی اس شاعرہ کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ تاہم گزشتہ پندرہ برس سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ یوں تو زمانہ طالبِ علمی سے شعر کہہ رہی ہیں، لیکن شاعری کا باقاعدہ آغاز چند سال پہلے ہوا اور ان کی تخلیقات مختلف ادبی پرچوں اور ویب سائٹس کی زینت بنیں۔

    سارہ خان کی پسندیدہ صنفِ سخن، نظم ہے۔

    فیض، ن، م راشد اور محسن نقوی سارہ خان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ان کی ایک نظم آپ کے شعری ذوق کی نذر ہے

    "کمی”
    گلاب لہجوں میں دل گزیں سے سراب کیوں کر
    گلاب لہجوں میں حسرتیں ہیں
    گلاب لہجوں میں خواب کیوں کر
    گلاب لہجے جو خوشبؤں کی ضمانتوں کے امین ٹھہرے
    یہ کیسی ان میں جھلک دِکھی ہے
    گلاب لہجوں میں خار کیوں کر۔۔۔۔
    یہ کون ہے جو گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے بھر رہا ہے
    یہ کون ہے جو گلاب لہجوں میں راکھ بن کے بکھر رہا ہے
    گلاب لہجوں پہ نقش کتنی کہانیاں ہیں
    خزاں رُتوں میں چمن میں اک آتشیں سماں ہے،
    گلاب لہجوں پہ ڈھیر ساری اداسیاں ہیں
    گلاب لہجے جو اک زمانے میں سانس لیتے تو گُل کھلاتے
    گلاب لہجوں پہ کس کا سایہ پڑا ہے
    کیسی ویرانیاں ہیں
    گلاب لہجوں میں اِک شکن ہے
    گلاب لہجوں میں کیوں تھکن ہے
    گلاب لہجوں پہ شامِ ہجراں کا عکس کیوں کر
    گلاب لہجوں میں ساعتوں کی نمی چھپی ہے
    گلاب لہجوں میں رقص کرتے ہزاروں منظر
    مگر جو دیکھو گلاب کی ہی…
    گلاب لہجوں میں کچھ کمی ہے!
    شاعرہ: سارہ خان

  • انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دن ایک عورت بکریوں کی تلاش میں نکلی جو اپنے ریوڑ سے بچھڑ گئی تھیں۔ وہ ان کی کھوج میں کھیتوں میں اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن بے سود۔

    آخر کار وہ سڑک کے قریب پہنچی۔ یہاں ایک بہرا آدمی اپنے لیے کافی بنارہا تھا۔ عورت کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بہرا ہے۔ اس نے اس سے پوچھ لیا، ”تم نے ادھر میری بکریاں دیکھی ہیں؟“

    بہرا آدمی سمجھا، وہ پانی کا پوچھ رہی ہے۔ اس نے دریا کی طرف اشارہ کردیا۔ عورت نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دریا کی جانب چل پڑی۔

    یہ محض اتفاق تھا کہ اسے وہاں بکریاں مل گئیں۔ بس ایک میمنا چٹان سے گر کر اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھا تھا۔ اس نے اسے اٹھا لیا۔ جب وہ بہرے آدمی کے قریب سے گزری تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے رک گئی اور اس کی مدد کے عوض اسے میمنا پیش کردیا۔

    بہرا آدمی اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ جب اس نے میمنا اس کی طرف کیا تو وہ سمجھا عورت اسے میمنے کی بدقسمتی کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ وہ ناراض ہوگیا۔

    ”میں اس کا ذمے دار نہیں۔“ اس نے واویلا کیا۔

    ”لیکن آپ نے مجھے راستہ دکھایا تھا۔“عورت بولی۔

    ”بکریوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔“ آدمی بولا۔

    ”لیکن یہ مجھے ادھر ہی ملیں، جہاں آپ نے بتایا تھا۔“

    آدمی غصے سے بولا ”چلی جاؤ اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ یہ میمنا میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“

    لوگ اکھٹے ہوگئے اور ان کے دلائل سننے لگے۔ عورت نے انھیں بتایا، ”میں بکریوں کی تلاش میں تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ دریا کے قریب ہیں۔ اب میں اسے یہ میمنا دینا چاہتی ہوں۔“

    آدمی غصے سے چیخا۔ ”تم میری توہین نہ کرو۔ میں نے اس کی ٹانگ نہیں توڑی۔“ اور ساتھ عورت کو تھپڑ رسید کردیا۔

    ”آپ دیکھ رہے ہیں، اس نے مجھے مارا ہے۔ عورت مجمع سے مخاطب ہوئی۔ میں اسے منصف کے پاس لے کر جاؤں گی۔“

    اس طرح اپنے بازوؤں میں میمنا اٹھائے عورت، بہرا آدمی اور تماش بین منصف کی طرف چل پڑے۔

    منصف ان کی شکایت سننے گھر سے باہر آگیا۔ پہلے عورت نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ پھر آدمی نے اپنی داستان سنائی۔ آخر میں مجمع نے منصف کو صورت حال بتائی۔ منصف اپنا سَر ہلاتا رہا۔

    بہرے آدمی کی طرح وہ بھی کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس کی نظر بھی کم زور تھی۔ آخر اس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ لوگ چپ ہوگئے۔

    اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔”اس طرح کے گھریلو جھگڑے بادشاہ اور کلیسا کے لیے بے عزتی کا باعث ہیں۔ پھر اس نے اپنا رخ آدمی کی طرف کیا، ”اپنی بیوی سے برا سلوک چھوڑ دو۔“

    اب وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ ”تم سست ہوگئی ہو۔ اپنے میاں کو وقت پر کھانا دیا کرو۔“

    اس نے پیار سے میمنے کی طرف دیکھا۔”خدا اسے لمبی عمر دے اور یہ آپ دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہو۔“

    مجمع تربتر ہوگیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے،

    ”واہ کیا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کتنا فاصلہ طے کرنا پڑا۔“

    ( اس کہانی کے مصنف کا نام حماتوما ہے اور اس کے مترجم حمید رازی ہیں)

  • مولوی سمیع اللہ کی دکان

    مولوی سمیع اللہ کی دکان

    جامع مسجد کے جنوبی دروازے کے بالمقابل اردو بازار میں مفتی کفایت اللہ صدر جمیعت العلمائے ہند کے داماد مولوی سمیع اللہ کی کتابوں کی دکان ادیبوں، شاعروں اور علم و ادب کا ذوق رکھنے والوں کی بیٹھک تھی۔

    مولوی سمیع اللہ بے حد منکسرالمزاج اور مجسم اخلاق تھے۔ آپ ان کی دکان پر کسی وقت بھی چلے جاتے، کسی نہ کسی علمی، ادبی یا سیاسی شخصیت سے ضرور مڈ بھیڑ ہوجاتی۔ ان میں دلی والے بھی ہوتے اور باہر سے آنے والے بھی۔

    اسی دکان پر میری ملاقات مولانا محمد حسین آزاد کے نواسے آغا محمد باقر، نخشب جارچوی، شکیل بدایونی، روش صدیقی، انور صابری اور مولانا امداد صابری سے ہوئی۔ غالباً انور صابری کو چھوڑ کر باقی حضرات اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

    حمید ہاشمی سے بھی طفیل احمد جمالی نے مجھے مولوی سمیع اللہ کی دکان ہی پر ملایا تھا۔

    حمید ہاشمی قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے اور روزنامہ ”امروز“ کے ادارتی عملے میں شامل تھے۔ قاہرہ کے الم ناک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی انیس ہاشمی کراچی کی نمایاں سیاسی و سماجی شخصیتوں میں سے تھے۔

    (معروف ادیب، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی دہلی میں قیام کے تذکروں سے ایک ورق)

  • پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
    کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو، در پہ آیا ہوں بن کر سوالی…..

    یہ نعتیہ کلام آپ نے ضرور سنا ہو گا جسے غلام فرید صابری قوال نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    اس خوب صورت قوالی(نعتیہ کلام) کے‌ خالق پُرنم الہٰ آبادی ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    کئی مشہور قوالیوں، نعتیہ اور صوفیانہ کلام اور گیتوں کے اس خالق کا اصل نام محمد موسیٰ ہاشم تھا۔

    1940 میں الہٰ آباد، ہندوستان میں پیدا ہونے والے اس خوب صورت شاعر نے اپنے دور کے مشہور اور استاد شاعر قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی۔ پُرنم الہٰ آبادی قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    انھوں نے شاعری میں صوفیانہ اسلوب اپنایا اور ایسا کلام تخلیق کیا جو لازوال ہے۔ کہتے ہیں وہ ہندوستان فلم انڈسٹری میں گیت نگار کی حیثیت سے جگہ بنا رہے تھے، لیکن پھر سب کچھ چھوڑ کر عشقِ رسول ﷺ کا یہ راستہ چنا اور بے پناہ شہرت اور عزت پائی۔

    سادہ اور عام فہم ہونے کی وجہ سے پُرنم الٰہ آبادی کا کلام عوامی سطح پر بے حد مقبول ہوا اور اسے گانے والوں کو بھی خوب شہرت ملی۔ وہ ایک سادہ اور گوشہ نشیں شاعر تھے۔

    29 جون 2009 کو انھوں نے اس عارضی ٹھکانے سے ہمیشہ کے لیے رخصت باندھ لی۔