Tag: اردو ادب

  • ایک بس ڈرائیور کا سڑک پر آخری دن

    ایک بس ڈرائیور کا سڑک پر آخری دن

    وہ عام بس تھی اور سروپ سنگھ عام ڈرائیور۔ سواریوں نے سوچا تھا کہ بھیڑ والے علاقے سے باہر آ کر بس کی رفتار تیز ہو جائے گی، لیکن آج ایسا نہیں ہوا….

    سروپ سنگھ کے ہاتھ سخت ہی نہیں ملائم بھی تھے۔ اس کا دل آج بہت پگھل رہا تھا، وہ کبھی بس کو کبھی سواریوں کو اور کبھی باہر دوڑتے بھاگتے پیڑوں کو دیکھنے لگتا، جیسے وہاں کچھ خاص بات ہو۔ کنڈکٹر اس راز کو جانتا تھا، لیکن سواریاں بس کی دھیمی رفتار سے پریشان ہو رہی تھیں۔

    ’’ڈرائیور صاحب ذرا تیز چلاؤ، آگے بھی جانا ہے۔‘‘ ایک نے نہایت کڑوے لہجے میں کہا۔

    سروپ سنگھ نے مٹھاس گھولتے ہوے کہا۔ ’’آج تک میری بس کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوا۔۔۔‘‘

    سواریاں اور بھی غصے میں آگئیں۔ ’’اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیس، تیس کی ڈھیچم ۔۔۔ ڈھیچم رفتار سے چلاؤ۔‘‘ دو چار تو کچھ برا بھلا بھی کہنے لگے۔

    کوشش کرنے کے باوجود سروپ سنگھ بس کی رفتار تیز نہیں کر پا رہا تھا۔اس نے بڑھتے ہوئے شور میں بس روک دی، اپنا چہرہ گھما کر بولا۔

    ’’بات یہ ہے کہ اس راستے سے میرا تیس سال کا رشتہ ہے، آج میں آخری بار اس راستے پر بس چلا رہا ہوں۔

    بس کے اپنے مقام پر پہنچتے ہی میں ریٹائر ہو جاؤں گا، اس لیے۔۔۔۔‘‘ اس کی آواز رُندھ گئی۔

    (اشوک بھاٹیہ کی اس مختصر کہانی کا عنوان "رشتے” ہے، جو ایک انسان کے اپنے کام، اس کے استعمال کی کسی مشین، شے یا کسی راستے سے اس کے برسوں پرانے تعلق کو جذباتی انداز سے پیش کرتی ہے، اس ہندی کہانی کو محمد افضل خان نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا(شاعری)

    شعرائے متاخرین، ناقدین اور ہر دور میں اردو زبان و ادب کی نادرِ روزگار ہستیوں نے جسے سراہا، جسے ملکِ سخن کا شہنشاہ مانا، وہ میر تقی میر ہیں۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کی ایک مشہور غزل جس کا مطلع اور اکثر پہلا مصرع آج بھی موضوع کی مناسبت سے ہر قول، تقریر، کہانی، قصے، تحریر کا عنوان بنتا ہے اور خوب پڑھا جاتا ہے۔

    یہ غزل باذوق قارئین کے مطالعے کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

    عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
    رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا

    سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
    کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

  • خاوندوں کے چہرے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

    خاوندوں کے چہرے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

    میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس دنیا کا سب سے پہلا مہذب جانور کون سا ہے تو میں کہوں گا ’’خاوند۔‘‘

    میں نے پوچھا ’’دوسرا مہذب جانور؟‘‘

    جواب ملا ’’دوسرا خاوند۔‘‘

    خاوند کو اردو میں عورت کا مجازی خدا اور پنجابی میں عورت کا بندہ کہتے ہیں۔ جب کہ گھر میں اسے کچھ نہیں کہتے۔ جو کچھ کہتا ہے وہی کہتا ہے۔

    سارے خاوند ایک جیسے ہوتے ہیں۔ صرف ان کے چہرے مختلف ہوتے ہیں تاکہ ہر کسی کو اپنا اپنا خاوند پہچاننے میں آسانی ہو۔

    ہر خاوند یہی کہتا ہے کہ مجھ جیسا دوسرا خاوند پوری دنیا میں نہیں ملے گا اور عورت اسی امید پر دوسری شادی کرتی ہے، مگر اسے ہر جگہ کوئی دوسرا نہیں ملتا، خاوند ہی ملتا ہے۔

    (یونس بٹ کے قلم کی شوخی)

  • فطرت الگ، منزل جدا….

    فطرت الگ، منزل جدا….

    ایک دفعہ ایک گدھ اور شاہین بلند پرواز ہو گئےـ بلندی پر ہوا میں تیرنے لگے۔ وہ دونوں ایک جیسے ہی نظر آ رہے تھے۔

    اپنی بلندیوں پر مست، زمین سے بے نیاز، آسمان سے بے خبر، بس مصروفِ پروازـ دیکھنے والے بڑے حیران ہوئے کہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں، ہم پرواز کیسے ہو گئے؟

    شاہین نے گدھ سے کہا، "دیکھو! اس دنیا میں ذوقِ پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابلِ غور نہیں۔”

    گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا۔ "ہاں مجھے بھی پرواز عزیز ہے۔ میرے پَر بھی بلند پروازی کے لیے مجھے ملے ہیں۔” لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھا۔ اسے دور ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیا۔ اس نے شاہین سے کہا، "جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی، مجھے میری منزل پکار رہی ہے۔” اتنا کہہ کر گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزلِ مردار پر آ گرا۔

    فطرت الگ الگ تھی، منزل الگ الگ رہی۔ ہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتا۔

    انسانوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ فطرت اپنا اظہار کرتی رہتی ہے۔ جو کمینہ(پست اور تنگ نظر) ہے وہ کمینہ ہی ہے، خواہ وہ کسی مقام و مرتبہ میں ہو۔

    میاں محمّد صاحبؒ کا ایک مشہور شعر ہے:
    نیچاں دی اشنائی کولوں کسے نئیں پھل پایا
    ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا

    (ترجمہ و مفہوم: کم ظرف یا پست ذہنیت انسان کی دوستی کبھی کوئی پھل نہیں دیتی جس طرح کیکر پر انگور کی بیل چڑھانے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہر گچھا زخمی ہو جاتا ہے)

    (واصف علی واصف کے افکار)

  • وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    گاڑی لاہور کے اسٹیشن پر رکی اور میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ہمیں وہی کالج کے دنوں کے مانوس در و دیوار نظر آئے۔ وہی رس بھری پنجابی آوازیں کانوں میں پڑیں اور وہی بھاگ بھری قمیصیں اور شلواریں دکھائی دیں۔ ایک غیبی طاقت نے ہمیں لاہور اترنے پر مجبور کر دیا۔

    اسٹیشن سے نکل کر پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ لاہور کے گلی کوچوں میں پیدل چلنا بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے لاہور ٹھہرے، ٹھہرے کیا اپنے آپ کو لاہور کے سپرد کر دیا اور یوں محسوس ہوا جیسے ہوائے لاہور ہماری سہ سالہ اجنبیت کو دھو کر ہماری باضابطہ تطہیر کررہی ہے۔

    دوسرے روز گھر پہنچے تو چھوٹوں کو بڑا پایا اور بڑوں کو اور بڑا، لیکن گاؤں کی بڑی خبر یہ نہ تھی کہ ہم نے انھیں کیسا پایا بلکہ یہ کہ ہم خود کیسے پائے گئے۔

    خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، "سرگٹ” بھی پیتا ہے،
    مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    "بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو ناں؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    "جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    (کرنل محمد خان کی کتاب بجنگ آمد سے اقتباس)

  • کیا آپ باگا ریڈی کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ باگا ریڈی کو جانتے ہیں؟

    تخلیق کار اپنی تخلیق، محقق اپنی تحقیق اور نقاد اپنی تنقید سے ادب کے گیسو سنوارنے میں مصروف رہتے ہیں۔ باگاریڈی نے اردو بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اردو کی گراں قدر خدمت انجام دی۔

    راقم کا آندھرا کی تشکیل کے بعد پہلے سب انسپکٹر پولیس، بیاچ 1958 سے تعلق رہا ہے۔ شرائطِ ملازمت کے اعتبار سے تین سال کے عرصہ میں اس بیاچ والوں کو تھرڈ کلاس تلگو زبان دانی کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا۔

    1959 میں ٹریننگ کے کام یاب اختتام پر راقم کو نظام آباد پر تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے بعد تین سال تک پبلک سروس کمیشن نے مطلوبہ زبان دانی کا امتحان ہی منعقد نہیں کیا۔ شرائطِ ملازمت کے تحت راقم، سری دھر راؤ اور محمد علی خاں کو ملازمت سے ہٹا دیا گیا۔

    باگاریڈی نے بحیثیت صدر انجمنِ تحفظِ اردو ہمارے کیس کو اس وقت کے چیف منسٹر جناب نیلم سنجیوا ریڈی صاحب سے رجوع کیا اور ان کی کام یاب نمائندگی سے تین مہینے میں ہم لوگوں کی بحالی عمل میں آئی۔

    باگاریڈی جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ ضلع پریشد میدک کے صدر نشین رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ظہیر آباد میں ایک ادبی انجمن ’’بزمِ سخن‘‘ قائم کی تھی۔

    انھوں نے اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کے صدر کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ انھوں نے اردو ویلفیر فنڈ قائم کیا تھا جس سے مستحق اور ضرورت مند قلم کاروں کی مدد کی جاتی تھی۔

    ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘‘ اور دوسری کتاب ’’تلگو زبان اور ادب‘‘ اور تیسری کتاب ’’آندھرا پردیش‘‘ ان کی یادگار ادبی تصانیف ہیں۔

    (رشید الدین کے مضمون سے انتخاب جو حیدرآباد دکن کی اُن غیر مسلم شخصیات سے متعلق ہے جو اردو کے شیدا اور اس کے بڑے خدمت کرنے والے رہے)

  • اداکارہ کے دیدار سے محروم شاعر نے کیا کیا؟

    اداکارہ کے دیدار سے محروم شاعر نے کیا کیا؟

    جوش ملیح آبادی کی خود نوشت "یادوں کی بارات” ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے زمانے کی کئی بلند پایہ اور مشہور شخصیات کی نجی زندگی کو گویا سب کے سامنے عریاں کر دیا، لیکن یہی نہیں انھوں نے خود اپنے بارے میں بھی وہ سب لکھا جس نے ان کی شخصیت کو متنازع بنا دیا تھا۔

    جوش ایک قادر الکلام شاعر تھے اور علم و ادب کی دنیا میں شہرت کے ساتھ ساتھ بہت بدنام بھی۔ ان کی حسن پرستی مشہور ہے۔ جوش صاحب رباعی کے بھی زبردست شاعر تھے۔ ان کی ایک رباعی پڑھیے جس کا پس منظر آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    کہتے ہیں بمبئی (ممبئی) میں جوش ملیح آبادی ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ اس کا دیدار نہ ہو سکتا تھا، ایک روز جوش نے اس پر یہ رباعی لکھی۔

    میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
    جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
    گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
    جو بھوک میں ہو سر پہ اُٹھائے ہوئے خوان

    (ادبی دنیا کے لطائف اور مختلف شخصیات کے تذکرے)

  • کوئی جنت تو کوئی قربِ خدا مانگتا ہے(شاعری)

    کوئی جنت تو کوئی قربِ خدا مانگتا ہے(شاعری)

    غزل

    کوئی جنت تو کوئی قربِ خدا مانگتا ہے
    تیرا درویش مگر، تیری رضا مانگتا ہے

    اس کی نظریں ہیں ترے پاس کی کرسی پہ جمی
    صاف ظاہر ہے کہ پہلو میں جگہ مانگتا ہے

    ایسی لذت ترے دھوکے نے عطا کی ہے اِسے
    اب اگر مانگتا کچھ ہے تو دغا مانگتا ہے

    گرچہ واقف ہے اسیری کی اذیت سے مگر
    پَر کٹا پھر تیرے پنجرے کی ہوا مانگتا ہے

    بس کرو بخیہ گرو میری تو عادت ہے کہ میں
    ایسا وحشی ہوں جو زخموں کی قبا مانگتا ہے

    ہڑبڑا کر اسے کہتا ہوں کہ ”اللہ حافظ“
    جب کوئی مجھ سے کبھی میرا پتہ مانگتا ہے

    تُو نے لوگوں کے کہے پر مجھے دھتکار دیا
    تو نے پوچھا ہی نہیں مجھ سے کہ کیا مانگتا ہے

    ایک وحشت جو عطا مجھ کو ہوئی ہے سو میاں
    کوئی تو ہے جو مرے حق میں دعا مانگتا ہے

    دل ملوث تھا اگر تیرگی لانے میں اویسؔ
    خوف اب کیا ہے اِسے، کیوں یہ ضیا مانگتا ہے

     

     

    شاعر: اویس احمد ویسی، زیارت معصوم، ایبٹ آباد 

     

  • دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔

    میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لیے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے۔

    جب دونوں نوجوان میدانِ مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فنِ مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔

    نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدر دان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدر دانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے۔

    ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں با کمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں، چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔

    (آزاد کی کتاب آبِ حیات سے انتخاب)

  • گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    گورکھپور کے مجنوں سے ملیے

    اردو زبان و ادب میں اپنی تخلیقی کاوشوں اور علمی خدمات کی وجہ سے ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کرنے والوں میں ایک نام مجنوں گورکھپوری کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مجنوں‌ گورکھپوری 1988 میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوئے تھے۔ وہ اردو کے ممتاز نقاد، محقق، مترجم، شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

    ان کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ 10 مئی 1904 کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں آنکھ کھولنے والے مجنوں گورکھپوری ماہرِ تعلیم بھی تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی سے بحیثیت استاد وابستہ رہے۔

    مجنوں گورکھپوری اردو کے چند بڑے نقادوں میں سے ایک تھے۔ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ وہ افسانہ نگار بھی تھے اور ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

    مجنوں‌ گورکھپوری نے جہاں اردو ادب کو تنقید سے مالا مال کیا اور اسے نکھارنے کے لیے دماغ سوزی کی، وہیں انگریزی ادب کو بھی اردو تراجم کے ذریعے قارئین تک پہنچایا۔

    شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو مجنوں گورکھپوری نے اردو کے قالب میں ڈھالا جو ان کا بڑا کام ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کی آخری آرام گاہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ہے۔