Tag: اردو ادب

  • کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    زمانہ بدلتا ہے تو بعض رواج بھی بدل جاتے ہیں، طور طریقے اور رجحان بھی تبدیل ہوتے ہیں۔

    آج کسی لڑکی کا نام اکبری یا اصغری نہیں رکھا جاتا، لیکن ایک دور تھا جب یہ نام یا عرفیتیں عام تھیں۔

    اردو زبان اور ادب کے طالب علم اور باذوق قارئین کو معلوم ہو گاکہ ہمارے یہاں ناول نویسی کے آغاز کا سہرا مولوی نذیر احمد سَر ہے۔ ناقدین کی اکثریت نے انھیں اردو زبان کا پہلا ناول نویس تسلیم کیا ہے۔

    1869 میں ان کا مشہور ناول’’مراۃ العروس‘‘ شایع ہوا تھا جس میں دو بہنوں کی عادات و اطوار، سلیقے، پھوہڑ پن کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا تھا جس کا مقصد عام اصلاح، لڑکیوں میں عائلی زندگی اور معاشرت کا شعور اجاگر کرنا تھا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں دہلی کی ٹکسالی زبان بھی ملتی اور کرداروں کے مکالموں میں چاشنی بھی۔ لیکن اس ناول کی کم زوریاں بھی نقادوں نے اجاگر کی ہیں۔ اکثر نے انھیں ناصح اور روایتی سوچ والا بھی کہا ہے۔ تاہم ان کا یہ ناول اس دور کی خوب صورت تخلیقی یادگار ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ اس ناول کے مرکزی اور اہم کرداروں‌ کے نام کیا ہیں؟

    اکبری اور اصغری کے علاوہ اس ناول کے دیگر اہم کرداروں میں ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل، سیٹھ ہزاری مل، دور اندیش خان اور خیراندیش خان شامل ہیں۔

  • شہرِ سخن کے باکمال اختر حسین جعفری کی برسی

    شہرِ سخن کے باکمال اختر حسین جعفری کی برسی

    اردو ادب میں جدید نظم کے شعرا میں اختر حسین جعفری ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ بعض نقادوں نے بیدل کے بعد انھیں بلند پایہ تخلیق کار شمار کیا ہے۔

    اختر حسین جعفری کی زندگی کا سفر تین جون 1992 کو تمام ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا، اختر حسین جعفری نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔ ان کا کلام جدید اردو شاعری کا سرمایہ افتخار ٹھہرا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 2002 میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا جب کہ ان کی تصنیف آئینہ خانہ پر انھیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا تھا۔

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

  • یہ کیسے سر پھرے لوگ ہیں؟

    یہ کیسے سر پھرے لوگ ہیں؟

    دنیا بڑی باوری پتّھر پُوجن جائے
    گھر کی چاکی کوئی نہ پُوجے، جس کا پِیسا کھائے

    عجیب ہے یہ دنیا اور عجیب تر ہیں اس کے باسی۔ لیکن اسی انبوہ کثیر میں کچھ سرپھرے نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسے نمایاں کہ پھر جدھر دیکھیے وہی نظر آتے ہیں، ایسے سرپھرے کہ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔ کہلاتے وہ گم راہ ہیں، اور اسی لیے قدامت پسندوں کی نظر میں راندہ درگاہ ہوتے ہیں، لیکن راست باز تو وہی ہوتے ہیں۔

    عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے لوگ، زمین کا نمک۔ ایسے جو انسانیت کو اپنا کنبہ کہتے ہیں، ان کا مذہب تکریم انسانیت ہوتا ہے اور وہ ان کے حقوق کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ وہ کوئی جوہڑ نہیں ہوتے، نہ ہی کوئی جھیل اور دریا، وہ تو سمندر ہوتے ہیں، محبتوں کا سمندر، ان کی لغت میں قوم، مذہب، قبیلہ، خطہ نہیں ہوتا۔ عالم گیر فکر انسانیت کے علم بردار۔ یہ جو خود فراموشی ہے، یہ ویسے ہی نہیں مل جاتی، بہت کچھ اور کبھی کبھی تو اپنا سب کچھ قربان کردینے کے صلے میں ملتی ہے، ہر کس و ناکس کو نہیں کہ یہی تو جوہرِِ انسانیت ہے کہ جب تک خود کو فراموش نہ کیا جائے، کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔

    صوفیا اس منزل کو ”نفی ذات“ کہتے ہیں اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔ خیر، ہم کوئی اور بات کر رہے تھے، تو وہ جو کہا گیا ہے ناں کہ لوگوں نے آوازے کسے، طعنے دیے، فتوے جڑے، ایسے سخت جان کہ وہ سخت جاں ہنستا رہا، ہنستا رہا اور بس اپنی طے کردہ منزل کے راستے پر، خارزار راستے پر چلتا رہا، چلتا رہا۔ آبلہ پائی جیسا لفظ تو ان کی کفالت ہی نہیں کرتا، وہ تو مجسم مصلوب ہوتے ہیں، سنگ زنی میں بھی رقصاں، اور سنگ کا کیا صاحب، وہ تو پتھر ہیں سو اچھالا گیا پتھر کہیں سے بھی مضروب کرسکتا ہے، اپنی سولی آپ اٹھائے ہوئے مصلوب، ”سرِ بازار می رقصم“ کا گیت گاتے بس اپنے راستے پر رقص بسمل کرتے ہوئے رواں اور دواں۔

    عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے سرپھرے لوگ، زمین کا نمک…..ایسے جو انسانوں کو دو طرح سے دیکھتے ہیں۔ یہ طارق عزیز کس وقت یاد آئے:

    منڈھ قدیم توں دنیا اندر، دو قبیلے آئے نیں
    ہک جنہاں نے زہر نے پیتے، ہک جنہاں نے پیائے نیں

    ہاں ایسا ہی ہے، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ ظالم اور اس کے سامنے مظلوم کے حق میں نغمہ سرا، اور آپ تو جانتے ہی ہیں ناں جب کوئی مظلوم کے حق میں نغمہ سرا ہو، تو حُسین بنتا ہے، کربلا کا حسین اور پھر اس کے قبیلے کے لوگ نوک سناں پر بھی مظلوم کا ساتھ دیتے ہوتے نغمہ سرا ہوتے ہیں، عجیب قبیلہ ہے یہ، اچھا تو آپ جانتے ہیں یہ سب کچھ……!

    تو پھر یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ جب بھی اور جہاں بھی اور کوئی بھی مظلوم کا ساتھ دے گا، انہیں گلے لگائے گا، انہیں زمین سے اٹھائے گا اور اپنا حق مانگنے نہیں، چھیننے پر اکسائے گا تو وہ زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار تو ہوگا ہی، یہ دوسری بات کہ ان دیوتاؤں کے نام الگ الگ ہوں گے، ہر دور میں بدلتے ہوئے نام، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے، کوئی مذہبی، کوئی ریاستی اور کوئی………
    پھر انجام کیا ہوتا ہے، اس کے سوا کیا کہ:

    ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
    میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

    عبداللطیف ابُوشامل کے مضمون سے چند سطور

  • آخری جماعت

    آخری جماعت

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختہ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

    (فرانسیسی ادیب الفونزے ڈاؤڈٹ کی اس کہانی کے مترجم آکاش منور ہیں)

  • دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ

    دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ

    ہر پرانی چیز قیمتی ہوتی ہے۔ پرانا تو جھوٹ بھی نئے سچ سے زیادہ قابلِ اعتبار ہوتا ہے۔

    انسان کی جتنی عزت بڑھاپے میں ہوتی ہے، اتنی ساری زندگی نہیں ہوتی۔ بڑھاپے میں اس لیے عزت ہوتی ہے کہ اس وقت تک بندے کو جاننے والے ہم عمر بہت کم زندہ ہوتے ہیں، دنیا میں کوئی بوڑھا بے وقوف نہیں ہوتا، کیوں کہ جو بے وقوف ہوتا ہے وہ بوڑھا نہیں ہوتا۔

    دنیا میں تین قسم کے بوڑھے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ جنھیں دوسرے بوڑھا سمجھتے ہیں اور تیسرے وہ جو واقعی بوڑھے ہوتے ہیں۔

    دنیا میں جتنی عبادت ہوتی ہے اس میں نوے فی صد بڑھاپے میں ہوتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے قیامت میں بخشے نہ جانے والے لوگوں میں زیادہ تر وہی ہوں گے جنھیں بوڑھا ہونے کا موقع نہیں ملا ہوگا، اس دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کو بوڑھا کر دیا جائے۔

    (یونس بٹ کی کتاب شیطانیاں سے اقتباس)

  • شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، محقق اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان کا تعلق دہلی سے تھا۔

    آج شاہد احمد دہلوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے جو علم و ادب کی دنیا کے بڑے نام ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو کا باوقار جریدہ ساقی جاری کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور ادبی دنیا میں متحرک رہے۔

    وہ باکمال نثر نگار اور انشا پرداز تھے۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکوں کے علاوہ مختلف تذکروں اور واقعات کو بھی ادبی پیرائے میں‌ ڈھالا اور کتابی شکل دی۔ دلی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔

    ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی اور ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران موسیقی کے پروگرام پیش کرتے رہے۔

    27 مئی 1966 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے لیے بہت اہم ہیں۔

    ان کے مطالعے سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ شہری آنے والے خطرات سے ہوشیار بھی ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک تنظیم کے دیواروں پر تحریر کردہ نعرے سے پتا چلتا ہے کہ اس تنظیم نے راہ نما کی صورت میں شیر پال لیا ہے، لہٰذا جس کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے ”مت۔“

    ایک زمانے میں دیواروں پر تحریر ایک نعرے نے ظالموں میں خواہ مخواہ ہلچل مچادی تھی، حالاں کہ نعرے میں ظالموں سے صرف اتنا کہا گیا تھا کہ فلاں صاحب آرہے ہیں۔ وہ آکر کیا کریں گے؟ اس بابت کوئی اشارہ تک نہیں تھا۔

    کراچی میں کچھ عرصہ قبل دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے بہت کام آتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر ”حقیقی“ سمجھی جانے والی مفروضہ تقسیم کا شکار ہوچکا تھا، اور شہریوں کو سیاست دوراں پر بولنے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا کہ وہ شہر کے کس علاقے میں ہیں، ایسے میں دیواروں پر لکھے نعرے مشکل آسان کر دیتے تھے۔

    ہمارے ہاں دیواریں بیک وقت اخبار، ڈائری محبت نامے، اعمال نامے اور اشتہاری بورڈ کا کام دیتی ہیں۔ دیواریں پڑھ کر آپ اہم سیاسی خبروں سے واقف ہوسکتے ہیں، مثلاً کون صاحب شہر میں نزول فرمانے والے ہیں، جن کا والہانہ استقبال کرنا ہر شہری کا فرض ہے، یا نشتر پارک میں کون سیاست داں عوام سے ”تاریخی“ خطاب کرے گا۔

    دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے دیواروں سے اچھی کوئی جگہ نہیں، یہاں آپ علاقہ کونسلر سے لے کر صدر بُش تک جس کی شان میں جو چاہے بلاخوف و خطر لکھیں۔ دیواروں پر امریکا کو مٹا دینے، اسرائیل کو ملیا میٹ اور بھارت کو تہس نہس کر دینے کے نعرے پڑھ کر ایک عرصے تک ہم سمجھتے رہے کہ دشمنان اسلام کے خاتمے پر مُصر لشکر جرار دیواروں پر اپنے عزائم نقش کرنے کے فوری بعد ”محاذ“ پر روانہ ہوچکا ہے اور امریکا، اسرائیل اور بھارت کو نیست و نابود کرکے مال غنیمت سمیت واپس لوٹے گا۔

    اس انتظار میں برسوں بیت گئے، ”لشکر جرار“ کا راستہ دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں۔ مگر ادھر یہ حال کہ ”نہ آپ آویں نہ بھیجیں چٹھیاں“ تھک ہار کر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ دیواروں پر انتہا پسندانہ نعرے لکھنے والے عملی اقدام اٹھانے کے بجائے ساکت و جامد ہو کر دیوار کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    (محمد عثمان جامعی کی کتاب کہے بغیر سے انتخاب)

  • روز ایک افسانہ…

    روز ایک افسانہ…

    کرشن چندر کا یہ قاعدہ تھا کہ جب بھی انھیں کہانی کے لیے کوئی پلاٹ سوجھتا، وہ فوراً اس کے بنیادی خیال کو قلم بند کر کے محفوظ کر لیتے تھے تاکہ وہ ان کے ذہن سے نہ اُتر جائے۔

    اس طرح انھیں پلاٹ سوجھتے رہتے اور وہ انھیں نوٹ کرتے رہتے۔ جس خیال کو وہ کہانی کی شکل میں ڈھال دیتے، اُسے اپنی اس فہرست میں قلم زد کر دیتے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک رجسٹر بنا رکھا تھا۔

    محمد طفیل، جو مدیر ”نقوش“ لاہور تھے، انھو‌ں نے جب اُن کا یہ رجسٹر دیکھا تو ابھی ایک سو کے قریب کہانیوں کے بنیادی خیالات کو افسانوں کی شکل دینا باقی تھا۔ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں اس قدر زرخیز ادیب شاید ہی کوئی دوسرا ہوا ہو۔ اس بارے میں محمد طفیل لکھتے ہیں:

    ”میں نے ان سے پوچھا: آپ روز ایک سے ایک موضوع کس طرح لکھ لیتے ہیں؟ ”میرے پاس رجسٹر ہے….رجسٹر۔ جب کوئی پلاٹ ذہن میں آتا ہے تو اُسے یہاں نقل کر لیتا ہوں۔“

    ذرا دیکھوں!۔۔۔ میں نے رجسٹر دیکھا۔ اس میں تین تین چار چار سطروں میں افسانوں کے بنیادی خیال لکھے ہوئے تھے۔

    کچھ یاداشتوں کے آگے اس قسم کے (x) نشان پڑے ہوئے تھے اور کچھ یاداشتوں پر کوئی نشان نہ تھا۔ میں نے پوچھا ”یہ نشانات کیسے ہیں؟“

    کہنے لگے: ”جن پر اس قسم کے (x) نشانات ہیں، وہ افسانے تو لکھے جا چکے ہیں۔ باقی لکھے جانے والے ہیں۔“

    میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح تو وہاں بھی ایک سو کے قریب لکھے جانے والے افسانوں کی یاداشتیں موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز ایک افسانہ لکھ لیتے تھے۔“

    (ادب اور ادیبوں کے تذکروں سے انتخاب)

  • عید کی جوتی…

    عید کی جوتی…

    جناب اکبر نے فرمایا تھا، ڈاسن نے جوتا بنایا، میں نے مضمون لکھا۔ میرا مضمون نہ چلا اور جوتا چل گیا۔

    اب کوئی ان سےعرض کرے، ولایتی جوتوں کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے چلتے پاؤں بھی لنگڑے ہوئے جاتے ہیں۔ عید پر خلقت جوتے خریدنے جاتی تھی اور دو جوتیاں لاتی تھی، جوتا مذکر ہے اور جوتی مؤنث، لڑائی نے مرد ختم کر دیے، عورتوں کو بڑھا دیا تو مذکر جوتے کیوں نہ کم ہوتے۔ مونث جوتیوں کا ڈھیر تھا، مذکر جوتے ناپید تھے۔

    ہائے میری پیاری دلی کی پیاری پیاری نازک اندام وصلی کی جوتی چشمِ بدور، خدا نے اس کا نصیبہ جگایا۔ بارہ برس پیچھے دن پھرے۔ دلی والوں نے اٹھا کر سر پر رکھا۔ وصلی کی جوتی کی کیا بات ہے، درحقیقت جوتی ہے۔ کیسی بھولی بھالی۔ کیسی ہریالی متوالی۔ ولایتی بوٹ کی طرح خراٹ نہیں، یل تل نہیں۔ دیکھنے میں دیدار، پہننے میں سکھ دینے والی۔

    ولایتی جوتوں کے دام پوچھو گیارہ روپے سے بھی کچھ اوپر۔ اس جھجھماتی کی قیمت تین چار، حد سے حد پانچ چھے۔ دام کم، کام بڑھیا۔ پرانی ہو جائے تو آٹھ دس آنے کو آنکھ بند کر کے بک سکتی ہے، مگر یہ بوٹ بگڑے پیچھے کوڑی کام کا نہیں۔

    ذرا نام ہی خیال کرنا۔ ’وصلی۔‘ ہائے ’وصلی‘ میں وصال کا اشارہ ہے، یعنی وصلی کی جوتی پہنو تو دام کم خرچ ہوں گے اور دام کم خرچ ہوں گے تو دل مطمئن رہے گا۔ دل کا اطمینان وصالِ حقیقی ہے، ولایتی جوتا موسمی اور ’فصلی‘ جوتا ہے۔

    (خواجہ حسن نظامی کے مضمون "عید کی جوتی” سے انتخاب)

  • ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    آج اردو زبان کے نام ور ادیب، محقق، نقاد سید ابوالخیر کشفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 15 مئی 2008 کو انتقال کرجانے والے ابوالخیر کشفی اپنی ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    سید ابوالخیر کشفی نے 12 مارچ 1932 کو کان پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر عربی، فارسی اور اردو زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے کے مشہور عالم تھے جب کہ والد سید ابو محمد ثاقب کان پوری کا شمار نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔ اس طرح شروع ہی سے کشفی صاحب کو علمی و ادبی ماحول ملا جس نے ان کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا کیا۔

    وہ تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی شروع کرنے کے لیے انھوں نے تدریس کا سہارا لیا اور کالج سے لے کر جامعہ کراچی تک اپنے علم و کمال سے نسلِ نو کو سنوارا۔

    اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے جب کہ دیگر کتب میں ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل کے بعد خاکوں کا مجموعہ یہ لوگ بھی غضب تھے سامنے آیا۔

    سید ابوالخیر کشفی کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔