Tag: اردو ادب

  • آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے بیس برس بیت چکے ہیں۔ اردو ادب میں‌ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کے لیے مشہور شخصیات میں‌ ضمیر جعفری‌ کا نام اپنے موضوعات اور شائستہ انداز کی وجہ سے سرِفہرست رہے گا۔

    سماج کے مختلف مسائل، خوبیوں اور خامیوں‌ کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھوں نے ہماری تفریحِ طبع کا خوب سامان کیا۔

    سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ پُر وقار انداز میں بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کی یہ غزل آپ کو ضرور مسکرانے پر مجبور کردے گی۔

    نمکین غزل
    شب کو دلیا دلا کرے کوئی
    صبح کو ناشتہ کرے کوئی

    آدمی سے سلوک دنیا کا
    جیسے انڈا تلا کرے کوئی

    سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
    دادی اماں کو کیا کرے کوئی

    جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
    ایسی تعلیم کیا کرے کوئی

    ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
    آ کے پیچھے سے ”تا” کرے کوئی

  • مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم و فن کا ایک دیوتا ہوں۔

    یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ ان پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتا ہے۔

    ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔

    جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہو گا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغلۂ بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریری سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آ کر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

    بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بے حد ادب و احترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیش تر وہ باقاعدہ وضو بھی کر لیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے، پھر مقامی اخبار کے بے حد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کر دیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔

    یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر ایک کانگریس نمبر بھی نکال مارا جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مرید پور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشا پردازی، صحیح الدماغی اور جوشِ قومی کی داد دی۔

    میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مرید پور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مرید پور گزٹ میں چھپتی رہیں۔

    میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بے خبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کر لیا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون "مرید پور کا پیر” سے انتخاب)

  • یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    یاد دریچے: ذکر سبطِ علی صبا کا…

    اردو ادب میں سبط علی صبا کی شناخت اور پہچان غزل گوئی ہے۔ اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کرنے والے دیگر شعرا کے مقابلے میں‌ وہ ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جن کا‌ ایک ہی شعر ان کی شہرت کا سبب بن گیا۔

    دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
    لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

    1935 میں پیدا ہونے والے سبطِ علی صبا نے فوج اور بعد میں پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں کام کیا۔ اس دوران مشقِ سخن جاری رکھی اور ادب کی دنیا میں‌ اپنی تخلیقات سے خوب نام پیدا کیا۔ ان کے لہجے میں تازگی اور خیال میں ندرت جھلکتی ہے۔

    زندگی نے سبطِ علی صبا کا زیادہ عرصہ ساتھ نہ دیا اور وہ 44 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 14 مئی 1980 کو انتقال کرجانے والے سبطِ علی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد شایع ہوا۔

    آج اس خوش فکر شاعر کی برسی ہے۔ سبطِ علی صبا کی یہ غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    لبِ اظہار پہ جب حرفِ گواہی آئے
    آہنی ہار لیے در پہ سپاہی آئے

    وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
    جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے

    اتنی پُر ہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
    شب کی دہلیز پہ جلنے کو دیا ہی آئے

    رہ روِ منزلِ مقتل ہوں مرے ساتھ صباؔ
    جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے

  • جادُوگر (کہانی)

    جادُوگر (کہانی)

    ملک کے سب سے اہم شہر میں میدان سجا تھا، تمام مجمع پر سحر طاری تھا، ایک جادوگر اپنے جادو کے حصار میں کھڑا منتر پھونک رہا تھا۔

    وہاں موجود ہزاروں کی تعداد میں اس کے چیلے دیوانہ وار جھوم رہے تھے۔ جادوگر نے اپنی شعلہ بیانی اور حُسنِ کلام سے چیلوں کے جذبات بلند از آسمان کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنے سحر سے لوگوں کے دل و دماغ پر قابض ہوکر انہیں نئی دنیا کی سیر کرا رہا تھا۔

    جادوگر کہہ رہا تھا جھومو، ناچو، گاؤ کہ منزل آنے والی ہے، وہ دن دور نہیں جب تم سب فلاح پاؤ گے، اس سیاہ رات کی صبح طلوع ہونے کو ہے، پھر ہر جگہ تم ہی تم ہوگے، تمہاری بادشاہی، حکم رانی ہوگی۔ یہ چور لٹیرے جو تمہارے حکم ران بنے بیٹھے ہیں، ان کی عیاشیوں کے دن گنے جاچکے ہیں۔ ان سب سے تم لوگوں کی محرومیوں کا انتقام لیا جائے گا۔ تمہارے خواب کی تعبیر کا وقت بس آن ہی پہنچا ہے۔

    جادوگر یہ کہہ کر اپنے طلسمی حصار میں واپس چلا گیا اس کے چیلے الفاظ کی دیوی سے سحرزدہ ہو کر اپنی آنکھوں میں ایک نئی دنیا کے خواب سجا کر خوابوں کی تعبیر کی موعود ساعت کا انتظار کرنے لگے، لیکن رات ڈھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

    ان کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا لیکن اب بھی وہ فُسوں کے حصار میں تھے، وہ حصار جس کی حدود صرف اس میدان تک تھیں اور اس میدان سے باہر موسم ویسا ہی سرد تھا۔ ہوا کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں کر رہی تھی۔

    چیلے ہوش و خرد سے بیگانہ اپنے ساحر کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن جادوگر کی نظریں اپنے چیلوں سے پرے اور اس میدان کے باہر کی دنیا دیکھ رہی تھی جہاں کوئی امید افزا پیغام نہیں تھا۔ جادوگر اپنی تمام شکتیاں بہ روئے کار لا رہا تھا مگر اس کی شکتیاں موسم میں کسی بھی قسم کی تبدیل لانے میں کام یاب نہیں ہو رہی تھیں۔

    اتنے میں کچھ غیبی طاقتیں اس کے پاس آئیں اور جا دو گر سے کہا: ”تمہاری شکتیاں ابھی کم زور ہیں تم جن سے لڑنے نکلے ہو ان کے پاس تم سے زیادہ شکتی ہے۔ تمہارا گیان ابھی ادھورا ہے۔ تمہیں اور تپسیا کی ضرورت ہے تب ہی تم ان سے جیت پاؤ گے۔“

    جادوگر بھی جان چکا تھا کہ ان شکتیوں کے ساتھ وہ کام یاب نہیں ہو سکتا لہذا ایک بار پھر اس نے اپنے طلسمی حصار سے اپنے چیلوں کو پکارا: ”مبارک ہو مبارک ہو ہم جس مقصد سے آئے تھے وہ پورا ہو گیا۔ ہماری جدوجہد کام یاب ہوئی۔ ہم اب بس اپنی مطلوبہ منزل سے ایک قدم دور ہیں اور جلد ہی وہ ہمارے قدموں میں ہوگی۔ اب ہم خوشیاں مناتے ہوئے بلند سروں کے ساتھ واپس جائیں گے۔“

    چیلے اپنے گرو کے حکم پر لفظ بہ لفظ عمل کرتے ہوئے مطمئن و شاداں واپس لوٹ آئے، مگر جادوگر خوش نہیں تھا۔ وہ تو اس زعم میں تھا کہ اس کے پاس ایسی قوت اور شکتیاں ہیں جن کی مدد سے وہ کسی کو بھی اپنے زیرِاثر لاسکتا ہے، کسی کا بھی تختہ الٹ سکتا ہے، مگر کیا ہوا کہ اس کی شکتیاں، اس کا جادو، اس کا طلسم کم زور پڑگیا۔

    اسے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اب اور کشٹ کرنا تھا اسے اور طاقت حاصل کرنی تھی۔ پس یہ سوچ کر جادوگر نے اپنا مال اسباب سمیٹا اپنے چیلوں اور ملک کو چھوڑ کر دور کسی جادو نگری میں شکتیوں کے حصول کے لیے نکل پڑا۔

    جادو نگری پہنچ کر سال بھر کڑی تپسیا کرتا رہا، کئی دوسرے طاقت ور جادوگروں سے ملا اور نئے جادو، ٹونے اور منتر سیکھے۔ برس بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد اسے لگا کہ اب اس نے تمام ضروری شکتیاں حاصل کرلیں ہیں اب وہ ایک شکتی شالی اور مہان جادوگر تھا۔ جادو نگری میں اس کی لگن اور کڑی تپسیا کو دیکھتے ہوئے اسے ایک خاص اور بہت بڑی شکتی ودیعت کی گئی لیکن اسے بتا دیا گیا کہ یہ شکتی ایک خاص وقت اور موقع پر ہی کارآمد ہوگی۔

    جادوگر اس شکتی کو پاکر بہت خوش ہوا اسے لگا کہ اس شکتی کی بہ دولت سفلتا اس کی جھولی میں آ گری ہے۔ غیبی طاقتوں نے جادوگر کو اپنی نئی طاقتیں آزمانے کا اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی جادوگر کو اپنے چیلوں کی یاد آئی۔

    جادوگر نے جادو نگری سے اپنے چیلوں کو پیغام بھیجا کہ متحد ہوجاؤ ہمارا جو خواب ادھورا رہ گیا تھا اس کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے۔ اپنے گرو کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے چیلے اپنی اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ وہ پُرجوش تھے۔

    چیلوں کے شور غل اور جادوگر کی نئی شکتیوں سے مغلوب ہو کر ”کالی طاقتوں“ سے ناراض کچھ گرو بھی جادوگر کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ چیلوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا جس سے ملک پر قابض بدی کی طاقتوں کو بھی پریشانی لاحق ہوگئی۔ انہیں لگا کہ جادو نگری سے آنے والا یہ جادوگر کہیں سچ مچ اتنا طاقت ور نہ ہوگیا ہو کہ ان کا قلع قمع کر دے۔ اسی سوچ کے کارن بدی کی طاقتوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، انہوں نے جادوگر کے چیلوں کو روکنے کی کوشش کی مگر چیلے تو سحر زدہ تھے وہ کہاں رْکنے والے تھے، اس پر بدی کی طاقتوں نے ان سحر زدہ چیلوں پر حملہ کرکے کئی چیلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کئی جاں بلب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔

    اپنے چیلوں کے خون سے جادوگر نے اپنے جسم میں اور طاقت اور گرمی محسوس کی اور وہ طاقت کے اسی گمان میں اْڑن کھٹولے پر بیٹھا اور جادو نگری سے اپنے چیلوں کے دیس کا سفر شروع کر دیا۔

    ادھر بدی کی طاقتیں اپنا جال بچھا رہی تھیں انہیں معلوم تھا کہ جادوگر کا جادو صرف ملک کے اسی شہر میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ انہیں جادوگر کی اس کم زوری کا بھی پتا تھا کہ جادوگر کی آدھی طاقت اڑن کھٹولے پر بیٹھتے ہی سلب ہوجاتی ہے۔ جیسے ہی جادوگر کا اڑن کھٹولا بدی کی طاقتوں کے دیس میں داخل ہوا تو انہوں نے اس کا رخ اپنے مضبوط چکرویو کی طرف موڑ دیا جہاں وہ اسے آسانی سے قابو کرسکتے تھے۔

    جادوگر یہ جان کر پریشان ہوگیا، اس کی آدھی شکتیاں سلب ہوچکی تھی وہ ہوا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا لیکن اسے ایک اطمینان تھا کہ زمین پر پہنچتے ہی اس کی ساری قوتیں واپس آجائیں گی اور پھر وہ ان بدی کی طاقتوں سے نمٹ لے گا۔

    زمین پر پہنچتے ہی جادوگر کی ساری شکتیاں اسے واپس مل گئیں مگر جادوگر اپنی سب سے بڑی شکتی کا انتظار کر رہا تھا جس کے آسرے پر وہ جادو نگری سے یہاں تک آیا تھا۔ وہ شکتی ابھی تک اس کی مدد کو نہیں آ رہی تھی، جادوگر منتر پھونکتا رہا مگر بے سود۔ اسے جس شکتی کی ضرورت تھی وہ اس وقت کسی اور راون سے الجھی ہوئی تھی۔

    جادوگر کے کانوں میں ایک آواز گونجی کہ ہم نے کہا تھا کہ وہ خاص شکتی ہے جو خاص وقت پر ہی تمہارے کام آئے گی۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا۔ جادوگر اپنے جادو کے زعم میں وقت کا سندیسہ نہ پڑھ سکا۔

    ادھر جادوگر کے چیلے اس کے سحر میں گرفتار اپنی آنکھوں میں روشنیوں کے خواب بن رہے تھے لیکن جادوگر اس خاص شکتی کے بغیر نہ ہی کوئی میدان سجا سکتا تھا اور نہ ہی بدی کی طاقتوں پر غالب آسکتا تھا۔ اب جادوگر سوچ میں تھا کہ وہ اپنے چیلوں کی آنکھوں کو کون سا نیا منظر دِکھائے جس سے ان کی آنکھوں کو دکھلایا گیا خواب دھندلا جائے۔

    یاسر شہباز کا انتخاب

  • امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہوگئے تھے اور عوام سخت پریشان تھے۔

    والیٔ رام پور نواب یوسف علی خان نے مشہور شاعر حضرت امیرؔ مینائی سے کہا کہ بارش کے لیے بارگاہِ الٰہی میں التجا کریں۔ امیر مینائی کا خاندان زہد و تقویٰ، خدمتِ خلق کے لیے مشہور تھا اور آپ بھی نیک طینت اور پرہیز گار شمار ہوتے تھے۔

    کہتے ہیں امیر مینائی ان دنوں کسی کام کی غرض سے رام پور آئے ہوئے تھے۔ نواب صاحب کی پریشانی اور اپنے لوگوں کے لیے ان کا درد سنا تو سبھی کو دُعا کا کہتے ہوئے خود بھی اپنے رب کی بارگاہ میں‌ ہاتھ اٹھائے۔ کہتے ہیں ان کی دُعا کے بعد وہاں خوب بارش ہوئی۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ انھوں نے بارش کے لیے اپنا ایک دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    (حضرت امیر مینائی کا یہ قصہ ڈاکٹر امیر علی نے ہندوستان کے اہم شعرا کے فن اور ان کی زندگی سے متعلق ادبی تحقیق پر مبنی مضمون میں رقم کیا ہے)

  • بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    اردو زبان کے مزاح گو شعرا میں‌ سید ضمیر جعفری اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ ساتھ بامقصد شاعری کے قائل ہونے کی وجہ سے ممتاز اور قابلِ ذکر ہیں۔ 1999 میں آج ہی کے دن فرشتہ اجل نے انھیں ابدی نیند کا پیام دیا تھا۔ آج ہم نام ور شاعر، ادیب اور مترجم سید ضمیر جعفری کی برسی منا رہے ہیں۔

    یکم جنوری 1914 کو ضلع جہلم میں پیدا ہونے والے سید ضمیر نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔ بعد میں فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں کار زار، لہو ترنگ، مافی الضمیر، مسدس بے حالی، کھلیان، ضمیریات، قریۂ جان، ضمیرِ ظرافت شامل ہیں۔ انھوں نے مختلف مضامین تحریر کرنے کے ساتھ کالم نویسی بھی کی جن میں ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ سماجی مسائل اور تلخ حقیقتوں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔

    سید ضمیر جعفری کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔ وہ راولپنڈی میں سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    اپنے معاصرین میں منٹو کیوں ممتاز ہوئے، اور کیا وجہ ہے کہ آج بھی انھیں پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے؟

     


    یوں تو کئی قابل، نہایت باصلاحیت لکھاری اور تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب منٹو کے ہم عصر اور اس دور کے اہم نام شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے نثر کی متعدد اصناف میں اردو ادب کے لیے بہت کچھ لکھا، مگر منٹو سب پر سبقت لے گئے۔

     
    منٹو کا تذکرہ آج بھی ہوتا ہے، اس ادیب کو صرف پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ اس کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

     

     

    شاید ایسا اس لیے ہے کہ سعادت حسن منٹو نے سماجی حقیقتوں، سچائیوں، تلخیوں کو بیان کیا اور اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں کی۔ آج اسی ادیب کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔

     

     

    گوگل نے اپنے ڈوڈل پر منٹو کو نمایاں کیا ہے جس کا مقصد انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔

     

     

    منٹو کی یہ تصاویر ان کی زندگی کے مختلف برسوں کی ہیں۔

     

     

    منٹو بھی دنیا کے اسٹیج کا ایک کردار تھے، اور ہر کردار کی طرح ان کی زندگی کی کہانی بھی موت کے ساتھ مکمل ہوئی۔ 1955 ان کی وفات کا سال ہے۔

     

     

    افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    مرزا غالب کی یہ مشہور غزل آپ میں سے اکثر قارئین نے پڑھی بھی ہو گی اور مختلف غزل گائیکوں کی آواز میں‌ یہ کلام سنا بھی ہو گا۔ یہ غزل مختصر بحر اور سہلِ ممتنع کی خوب صورت مثال ہے۔

    غالب کو ابتدا میں ان کے موضوعات اور مشکل گوئی کی وجہ سے پسند نہ کیا گیا، مگر جب انھوں نے مختصر اور رواں بحروں کا انتخاب کیا تو سننے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ آج ہندوستان ہی کیا، دنیا بھر میں‌ جہاں‌ کہیں‌ اردو شاعری کی بات ہوتی ہے تو غالب کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔

    مرزا غالب کی یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

    غزل

    دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
    آخر اس درد کی دوا کیا ہے

    ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

    میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
    کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
    ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

    ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
    جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

    ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
    اور درویش کی صدا کیا ہے

    جان تم پر نثار کرتا ہوں
    میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

    میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
    مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

  • دلّی ہم نے دیکھا….

    دلّی ہم نے دیکھا….

    میں جامعہ کے غیر مقیم طالبِ علموں میں سے تھا، یعنی جامعہ کی کسی اقامت گاہ میں نہیں رہتا تھا۔ میرا قیام بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے دولت کدے "علی منزل” میں تھا جو حضرت نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور غالب کی ابدی آرام گاہوں سے متصل تھا۔

    روزانہ صبح میں بھیا احسان الحق کے صاحب زادے شبلی کے ساتھ تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتا اور دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتا۔

    درگاہ حضرت نظام الدین تو علی منزل سے دو قدم پر ہی تھی۔ بستی سے نکل کر بڑی سڑک پر آئیے تو سڑک کی دوسری جانب ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر پرانا قلعہ آتا ہے۔

    پرانے قلعے سے اور آگے چلیے تو پرانی دہلی کے حدود میں داخل ہونے سے قبل فیروز شاہ کا کوٹلا ملے گا۔

    پرانی دہلی میں فیض بازار سے اردو بازار پہنچنے پر سامنے پریڈ کے لق و دق میدان کے پرے دائیں جانب لال قلعہ نظر آئے گا اور بائیں جانب قریب ہی جامعہ مسجد کی پُرشکوہ عمارت۔

    پریڈ کے میدان میں 1857 کی جنگِ آزادی سے قبل مغل دربار کے منصب داروں، امرا اور رؤسا کے محلات تھے، 1857 کی جنگِ آزادی کے ناکام ہونے پر انگریزوں نے لوٹ مار کے بعد ان محلات کو اس بری طرح مسمار کیا کہ آج اس میدان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل یہ دلی کا اعلیٰ ترین رہائشی علاقہ تھا۔

    (دہلی کی بستی نظام الدین سے قرول باغ تک ماضی کی نشانیوں اور یادگاروں کا تذکرہ خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے)

  • آپ زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

    آپ زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

    انسان شاید اس زمین پر اربوں سال سے آباد ہے، کتنے موسم بدلے، کتنی رُتیں آئیں اور رخصت ہوگئیں، زندگی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انسان نے کبھی سلطنت، قوموں کا عروج دیکھا، تو کبھی زوال۔ کبھی اسے اپنے ہی جیسے انسانوں کی سفاکی اور شقی القلبی کا ماتم کرنا پڑا تو کہیں‌ اس نے رحم دل اور نہایت مہربان حکم رانوں‌ کی وجہ سے لوگوں کو‌ خوش اور شاد باد پایا۔ غرض کہ انسان نے زندگی کے کتنے ہی روپ دیکھ لیے، لیکن آج بھی یہ اس کے لیے نئی اور پُرکشش ہے۔

    انسان زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو یہ اشعار اس معاملے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔

    کیف بھوپالی کا یہ شعر دیکھیے۔

    زندگی شاید اسی کا نام ہے
    دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں

    فراق گورکھپوری نے کہا تھا…

    موت کا بھی علاج ہو شاید
    زندگی کا کوئی علاج نہیں

    اصغر گونڈوی کا یہ شعر دیکھیے۔

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    معین احسن جذبی نے کہا…

    مختصر یہ ہے ہماری داستانِ زندگی
    اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے

    شاہد کبیر کا شعر ہے…

    زندگی اک آنسوؤں کا جام تھا
    پی گئے کچھ اور کچھ چھلکا گئے