Tag: اردو ادب

  • آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    آغا حشر کاشمیری: ہندوستانی شیکسپیئر سے ملیے

    بیسویں صدی کے آغاز میں‌ ہندوستان میں ناٹک اور تھیٹر تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اس میدان میں آغا حشر کاشمیری نے اپنے تخلیقی جوہر اور صلاحیتوں کی بدولت وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور تمثیل نگاری نے شائقین کو تھیٹر کا دلدادہ بنا دیا تھا، انھوں نے اپنے ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئر کی کہانیوں کا ترجمہ بھی کیا اور انھیں تھیٹر کے ذریعے ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور ان کی توجہ حاصل کی۔

    اس دور میں تھیٹر اور اسٹیج پرفارمنس ہی ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی، اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے ڈرامے تحریر کیے اور انھیں تھیٹر پر پیش کیا جو شائقین میں بے حد مقبول ہوئے۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔

    1910 میں آغا حشر نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے تخلیق کردہ ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    اردو ڈراما نویسی اور تھیٹر کی تاریخ میں آغا حشر کاشمیری کا نام ہمیشہ زندگہ رہے گا۔ 28 اپریل 1935 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا اور انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو  جان لیں!

    سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو جان لیں!

    ادب میں‌ جہاں سیاست سے سماج تک ہر شعبے میں عام مسائل اور مختلف خامیوں اور برائیوں کی نشان دہی کے لیے نثر نگاروں نے طنز و مزاح کا سہارا لیا ہے، وہیں، شعرا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

    انور مسعود پاکستان کے ممتاز مزاح گو شاعر ہیں۔ یہاں ہم ان کی ایک مزاحیہ نظم پیش کررہے ہیں جو ایک طرف تو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردے گی، اور دوسری جانب یہ غیر ضروری اور معمولی شکایت کی صورت میں ادویہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے۔

    اگر صرف سَر درد کی بات کی جائے تو اکثر اسکرین کے سامنے مسلسل اور زیادہ وقت گزارنے، موسمی اثرات جیسے تیز دھوپ میں رہنے کی وجہ سے بھی سَر میں بھاری پن اور درد محسوس ہوسکتا ہے، اور یہ کیفیت کچھ دیر بعد ختم ہوجاتی ہے، لیکن بعض لوگ درد کُش ادویہ کے ذریعے مسئلے سے فوری نجات چاہتے ہیں جس سے بچنا چاہیے۔

    اگر چند گھنٹوں کے آرام سے مسئلہ حل نہ ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ اس سَر درد کی کوئی خاص وجہ ہے تو مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

    اب آپ اس مزاحیہ کلام سے لطف اندوز ہوتے ہوئے "ازخود” علاج کی صورت میں پیدا ہونے والے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرسکتے ہیں۔

    سَر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
    پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
    دل تنگ و پریشان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے کچھ ثقلِ سماعت کی شکایت
    بیکار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
    ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    پڑ سکتی ہے کچھ جلد خراشی کی ضرورت
    خارش کا کچھ امکان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا اس سے متاثر
    معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    بینائی کے حق میں بھی یہ گولی نہیں اچھی
    دیدہ کوئی حیران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
    گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے ذرا سا
    پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے

  • یہ اصل زندگی ہے….

    یہ اصل زندگی ہے….

    اصغر گونڈوی کا اصل نام اصغر حسین ہے۔ ان کا شمار کلاسیکی دور کے شعرا میں کیا جاتا ہے۔ 1884 میں متحدہ ہندوستان کے ضلع گورکھ پور میں‌ پیدا ہوئے، لیکن ان کا خاندان گونڈہ منتقل ہو گیا تھا جہاں ان کے والد بسلسلہ ملازمت قیام پذیر تھے۔

    اصغر گونڈوی کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی۔ علم و ادب اور مطالعے کے شوق نے شعر کہنے کی طرف مائل کیا۔ منشی جلیل اللہ وجد اور منشی امیر اللہ تسلیم سے اصلاح لیتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کو سادہ طبیعت اور پاکیزہ خیالات کا مالک کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق کے مضامین کے علاوہ فلسفہ اور تصوف کے موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔ وہ 1936 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    اصغر گونڈوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    جانِ نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
    جنت ہے ایک خونِ تمنا کہیں جسے

    اس جلوہِ گاہِ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
    ایسا حجاب، چشمِ تماشا کہیں جسے

    یہ اصل زندگی ہے، یہ جانِ حیات ہے
    حسنِ مذاق شورشِ سودا کہیں جسے

    اکثر رہا ہے حسنِ حقیقت بھی سامنے
    اک مستقل سراب، تمنا کہیں جسے

    اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے
    شکلِ صفات معنیِ اشیا کہیں جسے

    زندانیوں کو آ کے نہ چھیڑا کرے بہت
    جانِ بہارِ نکہتِ رسوا کہیں جسے

    سرمستیوں میں شیشۂ مے لے کے ہاتھ میں
    اتنا اچھال دیں کہ ثریا کہیں جسے

    شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
    وہ ربطِ خاص، رنجشِ بے جا کہیں جسے

    میری نگاہِ شوق پہ اب تک ہے منعکس
    حسنِ خیال، شاہدِ زیبا کہیں جسے

    دل جلوہ گاہِ حسن بنا فیض عشق سے
    وہ داغ ہے کہ شاہدِ رعنا کہیں جسے

    اصغرؔ نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر
    رازِ حیات، ساغر و مینا کہیں جسے

  • پیاری ڈکار……

    پیاری ڈکار……

    کونسل کی ممبری نہیں چاہتا۔ قوم کی لیڈری نہیں مانگتا۔ کوئی خطاب درکار نہیں۔ موٹر، اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنا نہیں۔ میں توخدا سے اور اگر کسی دوسرے میں دینے کی قدرت ہو تو اس سے بھی صرف ایک ”ڈکار“ طلب کرتا ہوں۔

    چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے بادلوں کو حلق میں بلاؤں اور پوری گرج کے ساتھ باہر برساؤں۔ یعنی کڑا کے دار ڈکار لوں۔ پَر کیا کروں یہ نئے فیشن والے مجھے زور سے ڈکار لینے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ڈکار آنے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اسے چپ چاپ اڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینا بڑی بے تہذیبی ہے۔

    مجھے یاد ہے یہ جیمس لا ٹوش، یو پی کے لفٹیننٹ گورنر علی گڑھ کے کالج میں مہمان تھے۔ رات کے کھانے میں مجھ جیسے ایک گنوار نے میز پر زور سے ڈکارلے لی۔ سب جنٹلمین اس بیچارے دہقانی کو نفرت سے دیکھنے لگے، برابر ایک شوخ و طرار فیشن ایبل تشریف فرما تھے۔ انہوں نے نظرِ حقارت سے ایک قدم اور آگے بڑھا دیا۔ جیب سے گھڑی نکالی اور اس کو بغوردیکھنے لگے۔ غریب ڈکاری پہلے ہی گھبرا گیا تھا۔ مجمع کی حالت میں متاثر ہو رہا تھا۔ برابر میں گھڑی دیکھی گئی تو اس نے بے اختیار سوال کیا۔

    ”جناب کیا وقت ہے۔“ شریر فیشن پرست بولا۔ ”گھڑی شاید غلط ہے۔ اس میں نو بجے ہیں، مگر وقت بارہ بجے کا ہے کیوں کہ ابھی توپ کی آواز آئی تھی۔“ بیچارہ ڈکار لینے والا یہ سن کر پانی پانی ہوگیا کہ اس کی ڈکار کو توپ سے تشبیہہ دی گئی۔

    اس زمانہ میں لوگوں کو سیلف گورنمنٹ کی خواہش ہے۔ ہندوستانیوں کو عام مفلسی کی شکایت ہے۔ میں تو نہ وہ چاہتا ہوں۔ نہ اس کا شکوہ کرتا ہوں۔ مجھ کو تو انگریزی سرکار سے صرف آزاد ڈکار کی آرزو ہے۔ میں اس سے ادب سے مانگوں گا۔ خوشامد سے مانگوں گا۔ زور سے مانگوں گا۔ جدوجہد کروں گا۔ ایجی ٹیشن مچاؤں گا۔ پُر زور تقریریں کروں گا۔ کونسل میں جاکر سوالوں کی بوچھاڑ سے اونریبل ممبروں کا دم ناک میں کر دوں گا۔

    لوگو! میں نے تو بہت کوشش کی کہ چپکے سے ڈکار لینے کی عادت ہوجائے۔ ایک دن سوڈا واٹر پی کر اس بھونچال ڈکار کو ناک سے نکالنا بھی چاہتا تھا، مگر کم بخت دماغ میں الجھ کر رہ گئی۔ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اور بڑی دیر تک کچھ سانس رکا رکا سا رہا۔

    ذرا تو انصاف کرو۔ میرے ابّا ڈکار زورسے لیتے تھے۔ میری اماں کو بھی یہی عادت تھی۔ میں نے نئی دنیا کی ہم نشینی سے پہلے ہمیشہ زور ہی سے ڈکار لی۔ اب اس عادت کو کیونکر بدلوں۔ ڈکار آتی ہے تو پیٹ پکڑ لیتا ہوں۔ آنکھیں مچکا مچکا کے زور لگاتا ہوں کہ موذی ناک میں آجائے اور گونگی بن کر نکل جائے، مگر ایسی بد ذات ہے، نہیں مانتی۔ حلق کو کھرچتی ہوئی منہ میں گھس آتی ہے اور ڈنکا بجا کر باہر نکلتی ہے۔

    کیوں بھائیو! تم میں سے کون کون میری حمایت کرے گا اور نئی روشنی کی فیشن ایبل سوسائٹی سے مجھ کو اس ایکسٹریمسٹ حرکت کی اجازت دلوائے گا۔ ہائے میں پچھلے زمانہ میں کیوں نہ پیدا ہوا۔ خوب بے فکری سے ڈکاریں لیتا۔ ایسے وقت میں جنم ہوا ہے کہ بات بات پر فیشن کی مہر لگی ہوئی ہے۔

    تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں ماش کی دال کھانے والے یتیموں میں شامل ہو جاؤں گا۔ کیسے خوش قسمت لوگ ہیں، دکانوں پر بیٹھے ڈکاریں لیا کرتے ہیں۔ اپنا اپنا نصیبا ہے۔ ہم ترستے ہیں اور وہ نہایت مصرفانہ انداز میں ڈکاروں کو برابر خرچ کرتے رہتے ہیں۔

    پیاری ڈکار میں کہاں تک لکھے جاؤں۔ لکھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ صبر بڑی چیز ہے۔

    (معروف ادیب اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کا شگفتہ شکوہ)

  • ماں جی

    ماں جی

    قدرت اللہ شہاب

    ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا۔

    جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا، پنجاب کے ہر قصبے سے غریب الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لیے اس نئی کالونی میں جوق در جوق کھنچے چلے آ رہے تھے۔ عرف عام میں لائل پور، جھنگ، سرگودھا وغیرہ کو "بار” کا علاقہ کہا جاتا تھا۔

    اس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی۔ اس حساب سے ان کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہو ئی ہو گی۔

    ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا۔ والدین کے پاس چند ایکڑ اراضی تھی۔ ان دنوں روپڑ میں دریائے ستلج سے نہر سرہند کی کھدائی ہو رہی تھی۔ نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی۔ روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمینوں کے معاوضے دئے جاتے تھے۔ نانا جی دو تین بار معاوضے کی تلاش میں شہر گئے لیکن سیدھے آدمی تھے۔ کبھی اتنا بھی معلوم نہ کر سکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لیے کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ انجام کار صبر و شکر کر کے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی کی مزدوری کرنے لگے۔

    انہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آباد کاروں کو مفت زمین مل رہی ہے۔ نانا جی اپنی بیوی، دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور روانہ ہو گئے۔ سواری کی توفیق نہ تھی۔ اس لیے پا پیادہ چل کھڑے ہوئے۔

    راستے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے۔ نانا جی جگہ بہ جگہ قلی کا کام کر لیتے یا کسی ٹال پر لکڑیاں چیر دیتے۔ نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کے فرش اور دیواریں لیپ دیتیں۔ لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا، جگہ جگہ بھٹکتے تھے اور پوچھ پوچھ کر دنوں کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے۔

    ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے۔ پا پیادہ چلنے اور محنت مزدوری کی مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے۔ یہاں پر چند ماہ قیام کیا۔ نانا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کرتے۔ نانی پرچہ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سنبھالتیں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتمل تھا۔

    انہی دنوں بقر عید کا تہوار آیا۔ نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہو گئے تھے۔ انہوں نے ماں جی کو تین آنے بطور عیدی دیے۔ زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے آئے تھے۔ انہوں نے بہت سوچا لیکن اس رقم کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آسکا۔ وفات کے وقت ان کی عمر کوئی اسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن ان کے نزدیک سو روپے، دس روپے، پانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا۔

    عیدی کے تین آنے کئی روز ماں جی کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے۔ جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا۔ باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے تو وہ فوراً مسجد میں تیل بھجوا دیتیں۔

    ساری عمر جمعرات کی شام کو اس عمل پر بڑی وضع داری سے پابند رہیں۔ رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آگئی لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی انہیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا تھا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے۔ وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے۔ غالباً یہ پیسے بھی مسجد کے تیل کے لیے جمع کر رکھے تھے، چوں کہ وہ جمعرات کی شب تھی۔

    ان چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کچھ اور رقم تھی اور نہ کوئی زیور۔ اسبابِ دنیا میں ان کے پاس گنتی کی چند چیزیں تھیں۔ تین جوڑے سوتی کپڑے، ایک جوڑا دیسی جوتا، ایک جوڑا ربڑ کے چپل، ایک عینک، ایک انگوٹھی جس میں تین چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے ہوئے تھے۔ ایک جائے نماز، ایک تسبیح اور باقی اللہ اللہ۔ پہننے کے لیے تین جوڑوں کو وہ خاص اہتمام سے رکھتی تھیں۔ ایک زیب تن، دوسرا اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھا رہتا تھا تاکہ استری ہو جائے۔ تیسرا دھونے کے لیے تیار۔ ان کے علاوہ اگر چوتھا کپڑا ان کے پاس آتا تھا تو وہ چپکے سے ایک جوڑا کسی کو دے دیتی تھیں۔ اسی وجہ سے ساری عمر انہیں سوٹ کیس رکھنے کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔

    لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لیے انہیں تیاری میں چند منٹ سے زیادہ نہ لگتے تھے۔ کپڑوں کی پوٹلی بنا کر انہیں جائے نماز میں لپیٹا۔ جاڑوں میں اونی فرد اور گرمیوں میں ململ کی دوپٹے کی بکل ماری اور جہاں کہیے چلنے کو تیار۔

    سفرِ آخرت بھی انہوں نے اسی سادگی سے اختیار کیا۔ میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھے۔ نہا دھو کر بال سکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے سب سے لمبے سفر پر روانہ ہو گئیں۔ جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں، اسی خموشی سے عقبیٰ کو سدھار گئیں۔ غالباً اس موقع کے لیے وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتی تھیں، کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ چلتے چلاتے اٹھا لے۔ اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے۔

    کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ اور غریب مزاج تھیں۔ ان کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی، دھنیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ تھی۔ باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتی تھیں لیکن شوق سے نہیں۔ تقریباً ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں۔ پھلوں میں کبھی بہت ہی مجبور کیا جائے تو کبھی کبھار کیلے کی فرمائش کرتی تھیں۔ البتہ ناشتے میں چائے دو پیالے اور تیسرے پہر سادہ چائے کا ایک پیالہ ضرور پیتی تھیں۔ کھانا صرف ایک وقت کھاتی تھیں۔ اکثر و بیشتر دوپہر کا۔ شاذ و نادر رات کا۔ گرمیوں میں عموماً مکھن نکالی ہوئی ہوئی پتلی نمکین لسی کے ساتھ ایک آدھ سادہ چپاتی ان کی محبوب خوراک تھی۔

    دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور ہمیشہ دعا کرتی تھیں۔ سب کا بھلا۔ خاص اپنے یا اپنے بچوں کے لیے انہوں نے براہ راست کبھی کچھ نہ مانگا۔ پہلے دوسروں کے لیے مانگتی تھیں اور اس کے بعد مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی تھیں۔ اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو انہوں نے اپنی زبان سے کبھی "میرے بیٹے” یا "میری بیٹی” کہنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہمیشہ ان کو اللہ کا مال کہا کرتی تھیں۔

    کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا۔ اپنے سب کام وہ اپنے ہاتھوں خود انجام دیتی تھیں۔ اگر کوئی ملازم زبردستی ان کا کوئی کام کر دیتا تو نہیں ایک عجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگتا تھا اور وہ احسان مندی سے سارا دن اسے دعائیں دیتی رہتی تھیں۔

    سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا، کچھ یقیناً زندگی کے زیر و بم نے سکھایا تھا۔

    جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور خورد سال بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کی کالونی کی طرف روانہ ہوئیں تو انہیں معلوم نہ تھا کہ انہیں کس مقام پر جانا ہے اور زمین حاصل کرنے کے لیے کیا قدم اٹھانا ہے۔

    ماں جی بتایا کرتی تھیں کہ اس زمانے میں ان کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہ کہیں سرِ راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہو گا۔ کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پا پیادہ بھٹکتا رہا لیکن کسی راہ گزار پر انہیں کالونی کا خضر صورت راہ نما نہ مل سکا۔ آخر تنگ آ کر انہوں نے چک نمبر 392 جو ان دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دیے۔

    لوگ جوق در جوق وہاں آ کر آباد ہو رہے تھے۔ نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھے کہ کالونی میں آباد ہونے کا شاید یہی ایک طریقہ ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کر کے کاشت کی تیاری کرنے لگے۔

    انہی دنوں محکمۂ مال کا عملہ پڑتال کے لیے آیا۔ نانا جی کے پاس الاٹ منٹ کے کاغذات نہ تھے۔ چناں چہ انہیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر نا جائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں ان کے برتن اور بستر قرق کر لیے گئے۔ عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اتروا لیں۔ ایک بالی اتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی۔ جس سے ماں جی کے کان کا زیریں حصہ بری طرح سے پھٹ گیا۔

    چک 392 سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ دن بھر لو چلتی تھی۔ پانی رکھنے کے لیے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا۔ جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آیا ماں جی اپنا دوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے سے اپنے چھوٹے بھائیوں کو چساتی جائیں۔ اس طرح وہ چلتے چلتے چک نمبر507 میں پہنچے جہاں پر ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔ نانا جی ہل چلاتے تھے۔ نانی مویشی چرانے لے جاتی تھیں۔ ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمین دار کی بھینسوں اور گایوں کے لیے لایا کرتی تھیں۔ ان دنوں انہیں مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری طرح کھا سکیں۔ کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا، کبھی خربوزے کے چھلکے ابال کر کھا لیتے تھے۔ کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو ان کی چٹنی بنا لیتے تھے۔ ایک روز کہیں سے توریے اور کلتھے کا ملا جلا ساگ ساگ ہاتھ آگیا۔ نانی محنت مزدوری میں مصروف تھیں۔ ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا۔ جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الّن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آ پڑا۔ ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی۔ رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا۔

    چک نمبر507 نانا جی کو خوب راس آیا۔ چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آباد کاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر ان کو ایک مربع زمین مل گئی۔ رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں ان کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا۔ جوں جوں فارغ البالی بڑھتی گئی توں توں آبائی وطن کی یاد ستانے لگی۔ چناں چہ خوش حالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا۔ ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا۔ وہ سارا وقت کھڑکی سے باہر منہ نکال کر تماشا دیکھتی رہیں۔ اس عمل میں کوئلے کے بہت سے ذرے ان کی آنکھوں میں پر گئے۔ جس کی وجہ سے کئی روز تک وہ آشوبِ چشم میں مبتلا رہیں۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے ساری عمر اپنے کسی بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔

    ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔ ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ایئرکنڈیشنڈ ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

    منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحاف دیے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھرماں جی کے لیے بَر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزت لوگوں میں ہوتا تھا۔ چناں چہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پے در پے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لیے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

    کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دو بھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جارہی ہے۔ دیکھیے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

    "ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا!” ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

    "توبہ توبہ پت” ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں "میر ی نظر میں بھلا کوئی کیسے ہو سکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔”

    ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبد اللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبد اللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چناں چہ عبد اللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چناں چہ عبد اللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔

    وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

    اڑتے اڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبد اللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچرر ہو گئے۔

    سر سید کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبد اللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

    پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

    اس حرکت پر سر سید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا، بجھایا، ڈرایا، دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

    "کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟” سر سید نے کڑک کر پوچھا۔

    "جی ہاں” عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔

    یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا "اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔”

    عبد اللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چناں چہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔

    جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی انہی دنوں عبد اللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔ قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا۔ ان کی منگنی ہو گئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبد اللہ صاحب دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جائیں۔

    منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں۔ اتفاقاً یا شاید دانستہ عبد اللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔

    ماں جی کی سہیلیوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر ان سے پانچ پانچ روپے وصول کر لیے۔ عبد اللہ صاحب نے ماں جی کو بھی بہت سے روپے پیش کیے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔

    "اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی” عبد اللہ صاحب نے پوچھا۔

    اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈال دوں گی۔ ما ں جی نے جواب دیا۔

    زندگی کے میلے میں بھی عبد اللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔ اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔

    گلگت میں عبد اللہ صاحب کی بڑی شان و شوکت تھی۔ خوب صورت بنگلہ، وسیع باغ، نوکر چا کر، دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ۔ جب عبد اللہ صاحب دورے پر باہر جاتے تھے یا واپس آتے تھے تو سات توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ یوں بھی گلگت کا گورنر خاص سیاسی انتظامی اور سماجی اقتدار کا حامل تھا لیکن ماں جی پر اس سارے جاہ و جلال کا ذرہ بھی اثر نہ ہوا۔ کسی قسم کا چھوٹا بڑا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہوتا تھا۔ بلکہ ماں جی کی اپنی سادگی اور خود اعتمادی ہر ماحول پر خاموشی سے چھا جاتی تھی۔

    ان دنوں سر مالکم ہیلی حکومتِ برطانیہ کی طرف سے گلگت کی روسی اور چینی سرحدوں پر پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر مامور تھے۔ ایک روز لیڈی ہیلی اور ان کی بیٹی ماں جی سے ملنے آئیں۔ انہوں نے فراک پہنے ہوئے تھے اور پنڈلیاں کھلی تھیں۔ یہ بے حجابی ماں جی کو پسند نہ آئی۔ انہوں نے لیڈی ہیلی سے کہا "تمہاری عمر تو جیسے گزرنی تھی گزر ہی گئی ہے۔ اب آپ اپنی بیٹی کی عاقبت تو خراب نہ کرو۔” یہ کہہ کر انہوں نے مس ہیلی کو اپنے پاس رکھ لیا اور چند مہینوں میں اسے کھانا پکانا، سینا پرونا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا سکھا کر ماں باپ کے پاس واپس بھیج دیا۔

    جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچنر سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔ ان کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا اہتمام ہوا۔ ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے۔ کھانے لذیذ تھے۔ لارڈ کچز نے اپنی تقریر میں کہا "مسٹر گورنر، جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں، براہِ مہربانی میری طرف سے آپ ان کے ہاتھ چوم لیں۔”

    دعوت کے بعد عبد اللہ صاحب فرحاں و شاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی خانے کے ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔

    ایک اچھے گورنر کی طرح عبد اللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا "اگر لارڈ کچز یہ فرمائش کرتا کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں؟”

    "میں” ماں جی تنک کر بولیں۔ "میں اس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیتی۔ پھر آپ کیا کرتے ؟”

    "میں” عبد اللہ صاحب نے ڈرامہ کیا۔ "میں ان مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمہیں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا، جیسے سر سید کے ہاں سے بھاگا تھا۔”

    ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بارماں جی رشک و حسد کی اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔

    گلگت میں ہر قسم کے احکامات "گورنری” کے نام پر جاری ہوتے تھے۔ جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبد اللہ صاحب سے گلہ کیا۔

    "بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خوامخواہ!”

    عبد اللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ رگِ ظرافت پھڑک اٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا۔ بھاگوان یہ تمہارا نام تھوڑا ہے۔ گورنری تو دراصل تمہاری سوکن ہے جو دن رات میرا پیچھا کرتی رہتی ہے۔”

    مذاق کی چوٹ تھی۔ عبد اللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی لیکن ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا۔ اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں۔

    کچھ عرصہ کے بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا۔ ماں جی نے مہارانی سے اپنے دل کا حال سنایا۔ مہارانی بھی سادہ عورت تھی۔ جلال میں آ گئی "ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم۔ میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبد اللہ صاحب کی خبر لیں۔”

    جب یہ مقدمہ مہاراجہ پرتاب سنگھ تک پہنچا تو انہوں نے عبد اللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی۔ عبد اللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آپڑی لیکن جب معاملے کی تہ تک پہنچے تو دونوں خوب ہنسے۔ آدمی دونوں ہی وضع دار تھے۔ چنانچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت کے نام سے پکاراجائے۔ 1947 کی جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔

    یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوش خبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے۔

    "اب تم دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو۔” مہارانی نے کہا۔ "کبھی ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔”

    مہاراجہ اور مہارانی کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے۔ اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔

    ماں جی خود ہی تو کہا کرتی تھیں کہ ان جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہے لیکن اگر صبر و شکر، تسلیم و رضا کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ، کتنے غم، کتنے صدمے نظر آتے ہیں۔

    اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔ دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصہ بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں۔ سب سے بڑا بیٹا عین عالم شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔

    کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لے لیا لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کر خون کے آنسو رویا نہ کرتی ہوں گی!

    جب عبد اللہ صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ عبد اللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسب معمول گاؤ‮‫‫ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے۔ ماں جی پائنتی بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی تھیں۔ وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے۔ پھر یکایک سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے۔ "بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دیے تھے کیا ان کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا؟”

    ماں جی نے نئی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔ ان کے سینے میں بیک وقت بہت خیال امڈ آئے۔ "ابھی وقت کہاں آیا ہے۔ سرتاج شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔ اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں۔ ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔”

    لیکن قضا و قدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا۔ جب ماں جی نے سر اٹھایا تو عبد اللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لیے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے۔ ماں جی نے بہتیرا بلایا، ہلایا، چمکارا لیکن عبد اللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے جس سے بیداری قیامت سے پہلے ممکن ہی نہیں۔

    ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا لگا کر تلقین کی” بچہ رونا مت۔ تمہارے ابا جی جس آرام سے سو رہے تھے، اسی آرام سے چلے گئے۔ اب رونا مت۔ ان کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔”

    کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیاکہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا، ورنہ ان کو تکلیف پہنچے گی لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہو ں گی جس نے باسٹھ سال کی عمر تک انہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے گورنری کے علاوہ اور کوئی سوکن اس کے سرپر لا کر نہیں بٹھائی۔

    جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں، جو قیامت تک انہیں عقیدت کے بیابان میں سرگرداں رکھے گا۔

    اگر ماں جی کے نام پرخیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی، لیکن مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔

    ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔

    ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ان کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔

  • انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    اپنے خیالات و جذبات، اپنے دکھ سکھ، اپنے غم و مسرت کو اتنی اہمیت دینا کہ آدمی انہی کا ہو کر رہ جائے، ایک قسم کی ذہنی بیماری ہے۔

    غموں کو اتنی زیادہ اہمیت دینے سے آدمی میں دنیا بے زاری، کلبیّت، جھلاہٹ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے اور خوشیوں کو اتنا اہم سمجھنے سے خود غرضی، خود پرستی اور خود بینی جنم لیتی ہے۔ بس اتنا ہی تو ہے کہ ہمارے غم ہمیں تباہ کر دیتے ہیں، ہماری شخصیت کو مٹا دیتے ہیں اور ہماری خوشیاں ہمیں جِلا دیتی ہیں، بنا سنوار دیتی ہیں، لیکن ہمارا بننا سنورنا، ہمارا مٹنا مٹانا دوسروں کی زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے؟

    ہم رو رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں روئیں؟ ہم ہنس رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں ہنسیں؟ ہمارے پاؤں میں کانٹا گڑا ہے تو دوسروں کو تکلیف کیوں پہنچے؟ ہمیں پھولوں کی سیج میسر ہے تو دوسروں کو راحت کیوں ہو؟

    انسان، انسان کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار کھنچی ہوئی ہے۔ ادب اس دیوار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام نہیں کرتا، ادب شخصی اور ذاتی غموں اور مسرتوں کی ڈائری نہیں ہوتا۔ اس کا کام تو انسان کو انسان کے قریب لانا ہے۔

    انسان انسان کے درمیان کھنچی ہوئی شخصیت کی دیوار کو توڑ کر انہیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا ساتھی بنانا ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کے دلوں میں جھانک کر ان کے دکھ سکھ کو سمجھنے کی ایک مقدس اور مبارک کوشش ہے۔

    ادب کی سب سے بڑی قدر اس کی انسانیت، اس کی مخلوق دوستی، اس کی انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی خواہش ہے۔ ہر بڑا شاعر اور ادیب اپنی آواز کو، اپنے دل کی دھڑکنوں کو، عام انسانوں کی آواز، عام انسانوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے ملانے، عام انسانوں کے دکھ سکھ، امیدوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرنے، عالمِ خارجی کے گوناگوں پہلوؤں اور حیات و کائنات کے رنگا رنگ مظہروں سے دل چسپی رکھنے اور اپنی شخصیت اور عالمِ خارجی کے درمیان توازن قائم رکھنے کی وجہ سے بڑا ہے۔

    زندگی کے انفرادی شعور سے ایک فرد کے ذاتی غموں اور خوشیوں، آرزوؤں اور حسرتوں، امیدوں اور مایوسیوں، ناکامیوں اور کامرانیوں غرض ایک فرد کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثوں کی ڈائری تو لکھی جا سکتی ہے، لیکن زندگی کی تنقید، زندگی کے مستقبل کے امکانات کا اندازہ، زندگی کے ماضی و حال کے صالح عناصر کی پرکھ، ایک بہتر انسان اور بہتر معاشرے کا تصور انفرادی شعور کے بس کی بات نہیں۔

    یہ بصیرت تو صرف انسانی ذہن کے اجتماعی طرزِ فکر اور انسانی زندگی کے اجتماعی ذہنی و عملی رجحانات کے علم ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اور کسی طرح نہیں۔

    (اردو زبان میں تنقید، نظم اور نثر میں اپنی تخلیقات اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر فکر کا اظہار کرنے والے سلیم احمد کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو بیش قیمت تخلیقی سرمائے سے مالا مال کرنے اور نثر یا نظم کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد موضوعات کی وجہ سے پہچان بنانے والوں میں اشرف صبوحی بھی شامل ہیں۔

    انھیں ایک صاحب اسلوب ادیب کی حیثیت سے اردو ادب میں خاص مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ آج ان کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہونے والے اشرف صبوحی 22 اپریل 1990 کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔

    اشرف صبوحی کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تھا۔ ان کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں صاحب اسلوب ادیب کہا جاتا ہے۔ اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا۔ دلّی سے متعلق اشرف صبوحی کی تحریر سے ایک پارہ باذوق قارئین کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید، رات شبِ برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی، غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکا محل نہ سہی کچی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔

    ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔

  • بھنور میں تُو ہی فقط میرا آسرا تو نہیں! (شاعری)

    بھنور میں تُو ہی فقط میرا آسرا تو نہیں! (شاعری)

    غزل

    بھنور میں تُو ہی فقط میرا آسرا تو نہیں
    تُو ناخدا ہی سہی  پر  مرا  خدا تو  نہیں

    اک اور مجھ کو  مری طرز کا ملا ہے یہاں
    سو اب یہ سوچتا ہوں میں وہ دوسرا تو نہیں

    ابھی بھی چلتا ہے سایہ جو ساتھ ساتھ مرے
    بتا اے وقت کبھی  میں شجر  رہا  تو  نہیں

    ہیں گہری جڑ سے شجر کی بلندیاں مشروط
    سو  پستیاں یہ کہیں میرا  ارتقا تو  نہیں

    جو پاس یہ مرے بے خوف چلے آتے ہیں
    مرے بدن پہ پرندوں کا گھونسلا تو نہیں

    اے آئنے تُو ذرا دیکھ غور سے مری آنکھ
    گرے ہیں اشک کوئی خواب بھی گرا تو نہیں

     

     

     

    اس غزل کے خالق عزم الحسنین عزمی ہیں جن کا تعلق گجرات کے گاؤں ڈوڈے سے ہے، ان کا کلام مختلف اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس پر شایع ہوچکا ہے

  • یومِ وفات: بیگم حمیدہ اختر حسین کی زندگی پر ایک نظر

    یومِ وفات: بیگم حمیدہ اختر حسین کی زندگی پر ایک نظر

    معروف ترقی پسند ادیب اختر حسین رائے پوری کی رفاقت اور ان کے طفیل اپنے وقت کے جید اور باکمال لکھاریوں سے ملنے، صاحبِ طرز ادیبوں اور شعرا کو پڑھنے اور ان سے ملاقاتوں کا موقع ملا تو بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کو بھی لکھنے کی تحریک ملی۔ ادب پڑھنے کا شوق انھیں بہت پہلے سے تھا، کیوں کہ ان کے والد بھی جاسوسی رائٹر تھے۔

    بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی جس کا مرکزی موضوع، ان کے شوہر اختر حسین رائے پوری ہیں، سامنے آئی تو اسے سبھی نے منفرد قرار دیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان کی ہر قدم پر راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی جس نے ان کے اندر موجود تخلیق کار کو ابھرنے کا موقع دیا۔

    ان کی پیدائش 1918 کی ہے۔ بیگم حمیدہ نے 1935 میں اختر حسین رائے پوری سے شادی کی جو اردو کے نام ور نقاد، محقق اور ادیب تھے۔ ان کے اتنقال کے بعد بیگم حمیدہ اختر حسین نے ادبی سفر شروع کیا اور اپنے اسلوب کے سبب اہم لکھاریوں میں شمار ہونے لگیں۔ خود نوشت سوانح عمری اور خاکوں کے دو مجموعے ان کی یادگار تخلیقات ہیں۔ اس کے علاوہ ناول اور دیگر کتب بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 20 اپریل 2009 کو ہوا تھا۔ بیگم حمیدہ حسین کراچی میں مدفون ہیں۔

  • ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    پاکستان کی نام ور علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی ایک سال پہلے آج ہی کے روز اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    18 اپریل 2019 کو انتقال کر جانے والے ڈاکٹر جمیل جالبی کی اردو زبان اور ادب کے لیے خدمات اور تحقیقی کاوشیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے مختلف اہم اور بعض ادق موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت، علمی استعداد کو منواتے ہوئے محنت اور مستقل مزاجی سے کام کیا اور کئی اہم تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    پاکستان میں انھیں ایک نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 12 جون، 1929 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہا‌ں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور کام یابیاں سمیٹتے رہے۔

    جالبی صاحب نے کہانی سے تخلیقی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں ان کی تحاریر دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہوئیں۔

    ان کی کتابوں میں جارج آرویل کے ناول کا ترجمہ، پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو کے علاوہ دیگر تصانیف و تالیفات میں نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ شامل ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔