Tag: اردو ادب

  • وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔

    ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشراتُ الارض کا۔

    زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔

    بستی، گھر اور زبان خاموش۔ درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔ مٹی، موسم اور لب خشک۔ ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیں مارتا تھا وہاں خاک اڑنے لگی، جہاں سے مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ لوگ پہلے نڈھال ہوئے پھر بےحال۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔

    زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط میں زمین کا حال تھا۔

    ابر دل کھول کر برسا، چھوٹے چھوٹے دریاؤں میں بھی پانی چڑھ آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا جل تھل ہوا کہ سبھی تر دامن ہو گئے۔ دولت کا سیلاب آیا اور قناعت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ علم و دانش دریا بُرد ہوئے اور ہوش و خرد مئے ناب میں غرق۔ دن ہوا و ہوس میں کٹنے لگا اور رات ناؤ نوش میں۔ دن کی روشنی اتنی تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں، رات کا شور اتنا بلند تھا کہ ہر آواز اس میں ڈوب گئی۔

    کارواں نے راہ میں ہی رختِ سفر کھول دیا۔ لوگ شاد باد کے ترانے گانے لگے، گرچہ منزلِ مراد ابھی بہت دور تھی۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط الرجال میں اہلِ زمین کا حال تھا۔ شاعر نے جو یہ حال دیکھا تو نوحہ لکھا:

    بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
    بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں!

    دل گرفتگی نے کہا، ایسی شادابی اس ویرانی پر قربان جہاں مادرِ ایام کی ساری دخترانِ آلام موجود ہوں، مگر وبائے قحط الرجال نہ ہو۔ اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار، مردم شناسی ہو تو نایاب۔

    (اس نقشِ دل پزیر کے خالق مختار مسعود ہیں)

  • ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    تعلیم و تدریس کے شعبے میں خدمات، علمی و تحقیق کاموں اور ادب کے حوالے سے پری شان خٹک کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    معروف ماہرِ تعلیم اور ادیب پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے ہیں۔ آج 16 اپریل کو پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا انتقال 2009 میں ہوا تھا۔

    پروفیسر پری شان خٹک کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 1932 کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

    پری شان خٹک نے پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور یہی وجہ تھی کہ بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں میں منتظم مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا اور علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا۔

  • آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    ایک زمانہ تھا جب غزل وارداتِ قلبی، جذبات اور کیفیات سے سجی ہوتی تھی اور شعرا کے کلام کو رعایتِ لفظی، تشبیہات، استعاروں کے ساتھ نکتہ آفرینی منفرد اور مقبول بناتی تھی۔ اسی دور میں آرزو لکھنوی نے ہم عصروں میں اپنا نام اور مقام بنایا۔

    آج آرزو لکھنوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 16 اپریل 1951 کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

    اردو زبان کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا شاعری تھا۔

    نوعمری میں شعر کہنے لگے اور آرزو تخلص کیا۔ غزل کے ساتھ فلم کے لیے گیت نگاری بھی کی اور اسی عرصے میں ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے کلام سے چند اشعار پیش ہیں۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    نگاہیں اس قدر قاتل کہ اُف اُف
    ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    یہ بہت مشہور جانور ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔

    چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے۔

    بھینس دودھ دیتی ہے، لیکن وہ کافی نہیں ہوتا۔ باقی دودھ گوالا یعنی دودھ والا دیتا ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    تعاون اچھی چیز ہے، لیکن دودھ کو چھان لینا چاہیے تاکہ مینڈک نکل جائیں۔

    بھینس کا گھی بھی ہوتا ہے۔ بازار میں ہر جگہ ملتا ہے۔ آلوؤں، چربی اور وٹامن سے بھرپور۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ پیپے پر بھینس کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل میں نہ جانا چاہیے۔

  • فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    روزنامہ امروز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکٹر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات رہتی تھی۔

    وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیتی ہوئی محبت، ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔

    جب میں نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بلاغت کی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔

    پنجابی ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ کے معنیٰ سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا اپنی اس مشکل کا اظہار کر دیتا تھا۔

    وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنیٰ بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقے میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے، مگر شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ اور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کا تلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنیٰ میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔

    کسی ایک لفظ کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔

    مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اور اخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوستی کا اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔

    ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگو فرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہ کا شاہ کار یاد آجاتا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو خاص طور پر پنجابی ادب اور زبان کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ سطور مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مضمون سے منتخب کی گئی ہیں)

  • مرزا غالب اور دل آزاری

    مرزا غالب اور دل آزاری

    غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔

    خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔

    "تذکرہ غوثیہ” میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز مرزا، رجب علی بیگ سرور، مصنف فسانہ عجائب سے ملے۔ اثنائے گفتگو پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش” کی۔

    سرور نے "فسانہ عجائب” کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ خود مصنفِ "فسانہ عجائب” استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولا قوۃ” اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔

    جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب” کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، "ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔”

    دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے بے خبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔

    چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب” کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے۔ غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔

    دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

    شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں:

    "مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔” لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔

    (مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے انتخاب)

  • مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    علم وادب کی دنیا میں شخصیات کے مابین رنجش، تنازع کے بعد حسد اور انتقام جیسے جذبات سے مغلوب ہوکر دوسرے کی توہین کرنے کا موقع تلاش کرنے کے علاوہ معاصرانہ چشمک بھی رہی ہے جن کا تذکرہ ادبی کتب میں ملتا ہے جب کہ بعض واقعات کا کوئی حوالہ اور سند نہیں، لیکن وہ بہت مشہور ہیں۔

    یہاں ہم نام ور صحافی اور اپنے دور کی ایک قابل شخصیت جمیل مہدی اور اردو کے عظیم شاعر جگر مراد
    آبادی کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    مرحوم جمیل مہدی کو استاد شعرا کا بہت سا کلام گویا ازبر تھا۔ ان کے سامنے کوئی شاعر جب اپنا شعر پیش کرتا تو وہ اسی مضمون میں استاد یا کسی مقبول شاعر کے کلام سے کوئی شعر سنا دیتے اور کہتے کہ یہ بات تو آپ سے پہلے فلاں شاعر کہہ گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی خوبی اور انفرادیت نہیں ہے۔

    اس طرح وہ شعرا کو شرمندہ کرتے اور ان کی یہ عادت بہت پختہ ہوچکی تھی۔ اکثر شاعر اپنا سے منہ لے کر رہ جاتے اور دوبارہ انھیں اپنا کلام سنانے میں بہت احتیاط کرتے۔

    یہ سلسلہ وہ نوآموز، غیر معروف اور عام شعرا تک محدود رکھتے تو ٹھیک تھا، لیکن ایک بار انھوں نے جگر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

    ایک محفل میں جگر مراد آبادی نے انھیں اپنا یہ شعر سنایا۔

    آ جاؤ کہ اب خلوتِ غم خلوتِ غم ہے
    اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے

    جمیل مہدی صاحب نے حاضرین کی پروا کیے بغیر جگر صاحب کو ٹوک دیا اور یہ شعر سنایا۔

    ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
    اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی

    شعر سنا کر جگر صاحب سے مخاطب ہو کر بولے، حضرت آپ سے بہت پہلے خواجہ عزیز الحسن مجذوب یہی بات نہایت خوبی اور نزاکت سے کہہ چکے ہیں۔

  • لُٹی محفلوں اور عبرت سرائے دہر میں منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں اور عبرت سرائے دہر میں منیر نیازی کا تذکرہ

    اردو اور پنجابی کے صفِ اوّل کے شعرا کی بات ہو تو منیر نیازی کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آج منیر نیازی کا یومِ پیدائش ہے۔

    منیر نیازی نے 9 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر میں‌ اردو اور پنجابی شاعری کے علاوہ فلمی نغمات بھی تحریر کیے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔

    اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے ان کی تخلیقی یادگار ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور ان کے اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ وہ اپنے دور کے مقبول شعرا میں سے ایک ہیں جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔

    اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
    اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
    برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں
    آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
    راتوں کی پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

  • "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    آئیے، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔

    میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں۔

    پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے۔ مثلاً:

    "صدقہ دیجیے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے”
    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”
    ” آدمی پہچان لیتے ہیں؟”

    یقین جانیے یہ سُن کر پانی سَر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے۔

    سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں، مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِ دست اندازیِ مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

    میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہذیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم، اقبالِ گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔

    میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُرسا دینے۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ ہے۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شاید آخری پسینا ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر سے ایک پارہ)

  • میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    1957 میں مشہور امریکی ادارے پی، ای، این نے مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے، پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی اور دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصے میں پڑے۔

    مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔

    تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔

    ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی۔

    آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔

    ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔

    (ممتاز ادیب، مترجم اور محقق ابوالفضل صدیقی کی کتاب ”عہد ساز لوگ“ سے ایک ورق)