Tag: اردو ادب

  • مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو زبان اور ادب کے ارتقائی دور میں غزل کہی اور اسے خاص طور پر ابہام سے دور رکھتے ہوئے معاصر شعرا کے برعکس اپنے کلام میں شستہ زبان برتی۔

    وہ اپنے دور کے اہم شعرا میں شمار کیے گئے۔ مختلف ادبی تذکروں میں مظہرؔ جانِ جاناں کی پیدائش کا سال 1699 درج ہے۔

    ان کے والد اورنگریب عالم گیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے۔ کہتے ہیں بادشاہ اورنگزیب نے ان کا نام جانِ جان رکھا تھا، لیکن مشہور جانَ جاناں کے نام سے ہوئے۔ ان کی عرفیت شمسُ الدین تھی اور شاعری شروع کی تو مظہرؔ تخلص اختیار کیا۔

    شاعری کے ساتھ علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ انھیں ایک صوفی اور روحانی بزرگ کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    اولیائے کرام کے بڑے محب اور ارادت مند رہے اور خود بھی رشد و ہدایت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سیکڑوں لوگ خصوصاً روہیلے آپ کے مرید تھے۔

    1780 میں مظہرؔ جانِ جاناں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر تھے، لیکن ان کا بہت کم کلام منظرِ عام پر آسکا۔

    مظہرؔ جانِ جاناں کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    چلی اب گُل کے ہاتھوں سے لٹا  کر  کارواں اپنا
    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
    اگر   ہوتا    چمن اپنا،    گُل اپنا، باغباں اپنا

    الم سے  یاں تلک روئیں کہ آخر  ہو  گئیں رُسوا
    ڈوبایا  ہائے آنکھوں نے  مژہ کا خانداں اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    مرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
    کہ جن نے آسرے پر گُل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

  • خوشی کا ماسک…

    خوشی کا ماسک…

    میں بندرگاہ کے کنارے کھڑا ان سمندری پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے تھے۔

    ان کے پروں سے پانی پھولوں پر شبنم کی طرح ٹپک رہا تھا۔ میں محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمک دار اور گہرا بنا دیا تھا۔ اردگرد کوئی جہاز نہیں تھا۔

    بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں، لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت پر قد غن ہے۔

    یکایک ایک پرندہ ڈبکی لگا کر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور فضا میں بلند ہوکر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگایا اور پَر پھڑپھڑا کر، اپنا بدن ہولے ہولے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا۔

    میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آرہا ہے۔ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہورہی تھی۔ جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی۔ وہ ہمت نہ ہارتا۔

    میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکرا ہوتا تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا لیکن میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح بے بس تھا۔

    میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبا لی۔ دفعتاً کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک پولیس والا تھا۔

    مجھے اس کی یہ دخل اندازی بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

    ”کامریڈ“! اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کہا۔

    ”جی جناب!“ میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

    ”جناب؟ جناب کوئی لفظ نہیں، یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں۔“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔

    ”آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہے؟“

    وہ مسکرایا۔”تم مغموم نظر آتے ہو۔“ اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا۔

    ”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا۔

    میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت بیزاریت کا شکار ہے اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔ نہ کوئی نشے میں دھت مئے نوش اور نہ کوئی جیب تراش۔ لیکن چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصّے میں ہے۔

    اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کرلیا۔ اس وقت میری حالت اس پرندے جیسی تھی جو جال میں پھنس گیا ہو اور نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہو۔ اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اپنے صیاد کے پہلو میں چلنے لگا۔

    پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ”کامریڈ، میر اقصور تو بتائیے؟“

    ”قصور! اس ملک کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے۔“

    ”لیکن میں تو بے حد مسرور ہوں۔“ میں نے پورے جوش و جذبے سے جواب دیا۔
    ”بالکل غلط ۔“

    ”لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے ناواقف ہوں۔“

    ”کیوں؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے۔ تم نے کیوں نہیں سنا؟ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے۔“

    وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا۔ شدید سردی کے سبب میں بری طرح کانپ رہا تھا۔ بھوک نے الگ ستا رکھا تھا۔ میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، جب کہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے۔

    تو یہ تھا میرا جرم……!

    تھانے جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھا رکھا ہے۔ ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رک جاتے۔ سپاہی ہررک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا تو اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگتا حالاں کہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بولایا بولایا پھر رہا ہے۔

    صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

    ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ وہ حلیے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ بچ نکلنے سے قاصر تھا۔

    قاعدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا۔

    ”غدار کہیں کا۔“ اس کی اس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہو گئے، مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائیگی سے اس کا گلا خشک ہوگیا ہے۔

    میں نے آستین سے تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر زور دار مکّا پڑا۔ میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا۔

    اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہوگیا۔ آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے۔ یکایک بیل بجنے کی آواز آئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہا دھوکر، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں۔

    قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آرہا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پاکر بغلیں بجارہا ہے۔

    میری خوش بختی کہ بگل دس منٹ پہلے بجا دیا گیا۔ شکر ہے یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا۔

    مجھے جس عمارت میں لے جایا گیا تھا وہ سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھی میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ رسید کیے۔

    اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون پڑا تھا، مجھے کمرے کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔

    میز کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ایک اور شخص خاموشی سے اندر آیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا، جب کہ دوسرا فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔

    ”تم کیا کرتے ہو؟“

    ”ایک عام کامریڈ ہوں۔“

    ”تاریخِ پیدائش۔“

    یکم جنوری، 1901ء“

    ”یہاں کیا کررہے ہو؟“

    ”جی، میں ایک جیل میں قید تھا۔“ میرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔

    ”کس جیل میں؟“

    ”جیل نمبر 12، کوٹھری نمبر 13۔ میں نے کل ہی رہائی پائی ہے۔“

    ”رہائی کا پروانہ کہاں ہے؟“ میں نے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔

    ”تمہارا جرم کیا تھا؟“

    ”جی میں ان دنوں خوش خوش دکھائی دے رہا تھا۔“ وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    ”کھل کر بات کرو۔“

    ”اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے۔

    مجھے اس افسر سے کوئی دل چسپی نہ تھی اس لیے الگ تھلگ رہا۔ ایک پولیس والے نے مجھے یہ کہہ کراندر کروا دیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منا رہا تھا۔“

    ”تمہیں کتنی سزا ہوئی؟“

    ”پانچ سال قید…“ جلد ہی میرا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    اس بار دس سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    جی ہاں! خوشی سے کھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے مغموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزا دلا ئی تھی۔

    میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہوگی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو۔

    نہ خوش و خرّم، نہ مغموم اور اداس چہرہ۔

    (یہ کہانی جرمن ادیب ہینرخ بوئل کی تخلیق ہے، اس کا اصل عنوان ” خلافِ ضابطہ” ہے)

  • وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    غالبؔ کے ایک امیر دوست جن کی حالت غدر میں بہت سقیم ہوگئی تھی، چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے ملنے آئے۔

    غالبؔ نے انھیں کبھی مالیدے یا جامہ دار کے چغوں کے سوا نہیں دیکھا تھا۔

    چھینٹ کا فرغل دیکھ کر غالبؔ کا دل بھر آیا، امداد کا خیال پیدا ہوا، لیکن دوست کی دل داری کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسے طریق پر سلوک کیا جائے کہ اسے اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس نہ ہو اور پیش کردہ ہدیہ قبول کرتے ہوئے عار نہ آئے۔

    غالبؔ نے یہ عرض مدِنظر رکھ کر چھینٹ کے فرغل کی بے حد تعریف کی۔

    پوچھا کہ یہ چھینٹ کہاں سے لی ہے اور (دوست سے) درخواست کی کہ مجھے بھی اس کا فرغل بنوا دیا جائے۔

    دوست نے بلا تکلف کہا کہ ”اگر آپ کو یہ بہت پسند ہے تو یہی لے لیجیے۔“

    غالب نے کہا، ”جی تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ابھی چھین لوں، لیکن جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان(اپنے گھر تک) کیا پہن کر جائیں گے۔“

    اسی کے ساتھ اپنا مالیدے کا نیا چغہ (اپنے دوست کو) پہنا دیا۔


    (حالی کی مشہور تصنیف "یادگارِ غالبؔ” سے انتخاب)

  • گدھوں کی خوبیاں

    گدھوں کی خوبیاں

    میں گدھوں کی خوبیاں نہیں گنواؤں گا، اگر آپ خود بال بچوں والے ہیں تو آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ آپ اپنے بیٹے سے لاڈ کرتے ہوئے، اسے مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے:

    ”اوئے گدھے“ بلکہ جب بہت ہی پیار آتا تھا تو اسے گدھے کا بچہ بھی کہہ دیتے تھے۔

    یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنے چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار سے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اوئے مگرمچھ یا اوئے گھوڑے کے بچے۔ صرف گدھے کے بچے کہتے ہیں تو اس سے گدھے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

    ایک بار لاہور کے ڈیفنس میں مَیں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گدھا گاڑی والا سنگِ مَرمَر کی ٹائلیں گاڑی پر لاد رہا ہے اور ان کا وزن اتنا ہے کہ پورے کا پورا گدھا ہوا میں معلق ہو چکا ہے اور بے بسی سے ٹانگیں چلا رہا ہے۔

    باقاعدہ گدھا بھی نہیں تھا، گدھے کا بچہ تھا۔ تو مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اس کے مالک سے کہا کہ بھائی یہ بے زبان جانور ہے۔ ریڑھی پر اتنا وزن تو نہ لوڈ کرو کہ یہ بے چارہ ہوا میں معلق ہو کر ٹانگیں چلانے لگے تو وہ ہنس کر بولا۔

    ”صاحب آپ نہیں جانتے کہ یہ اس لمحے زندگی سے بہت لطف اندوز ہو رہا ہے بلکہ ہوا میں ریلیکس کر رہا ہے اور یوں ٹانگیں چلانے سے اس کی تھکن دور ہو رہی ہے۔“

    ٹائلیں لوڈ کرنے کے بعد گاڑی والے نے ہوا میں معلق گدھے کو کان سے پکڑ کر نیچے کیا، اس کے پاؤں زمین تک نہیں لایا اور اس سے پیشتر کہ وہ گاڑی کے بوجھ سے پھر بلند ہو جاتا، اُچک کر گاڑی کے اگلے حصے پر بیٹھ گیا اور یوں اس کے وزن سے گاڑی بیلنس میں آ گئی اور گدھا نہایت مزے سے کان ہلاتا سڑک پر رواں ہو گیا۔

    (طنز و مزاح، مستنصر حسین تارڑ کے قلم سے)

  • سمندر میں پرستان

    سمندر میں پرستان

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔

    سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چناں چہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کی "جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟

    اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔”

    اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟

    وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔

    بادشاہ نے باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان سے مخاطب ہوا، وہ بلا جھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں "ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔

    گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔

    حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ جب تمھارا دل چاہے، رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے۔

    البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پُھرتی کے ساتھ۔”

    چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے ہاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگا تار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو بادشاہ نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: ” ہم کو یہاں آکر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا اتنا وقت گزر گیا ہے۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا وہ سنائیں گے۔”

    رات کو پریاں سمندر سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے جمع ہو گیا اور انھوں نے سمندر کی تہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور سب حیران رہ گئے اور بڑی دل چسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں کہ انھیں اپنی سلطنت اور بادشاہ ملا اور وہ محل تعمیر کرنے سمندر میں چلی گئیں۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔

    محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔

    دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف باغات تھے۔ رات کو مچھلیاں ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں۔

    وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ ایک بوڑھے دریائی بچھڑے کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئی اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔

    سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹھ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائے ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھدار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوب صورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔

    بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔

    ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟

    شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت پر کھیلنا کودنا، بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔

    بد ذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔

    سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی طوفان آتے تو پریاں پانی کی سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے جان لیا کہ سمندر میں پریاں کس طرح اور کیوں کر آ گئیں؟

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • دستاویز

    دستاویز

    ہمارا خاندان نسلوں سے نیو یارک میں آباد ہے۔ میرا نام انتھونی پورٹر ہے، یہ نام میرے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا۔

    21 دسمبر 1820 کی بات ہے۔ ویرک اسٹریٹ پر واقع مورٹیئر ہاؤس، چارلٹن کے آخری گوشے میں منتقل کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ اب نیو یارک کے وسط میں آگیا ہے۔ منتقلی کے موقع پر میرے دادا انتھونی پورٹر نے اپنے ملازموں کی خدمات مستعار دی تھیں۔

    اس پرانی حویلی کو ایک اعزاز حاصل تھا، یہ جون 1776 سے ستمبر 1776 تک جارج واشنگٹن کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کی گئی تھی۔ منتقلی کے موقع پر باورچی خانے کی چمنی کی ایک اینٹ اکھڑی ہوئی تھی، اس کے پیچھے سے ایک خط ملا تھا۔

    یہ خط لیفٹیننٹ جنرل سر ولیم ہوو کے نام تحریر کیا گیا تھا۔ خط پر 29 جولائی 1776 کی تاریخ پڑی تھی۔ سَر ولیم ان برطانوی فوجوں کے کمانڈر تھے جو نیویارک کے اطراف میں جمع تھیں۔

    نامعلوم وجوہ سے وہ انگریز قاصد یہ خط نکالنے سے قاصر رہا جو اسے خفیہ مقام سے نکال کر منزل تک پہنچانے کا ذمے دار تھا، اس طرح یہ خط کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔

    میرے آبا و اجداد یہ خط ایک یادگار کے طور پر محفوظ کیے ہوئے تھے مگر بعد کی نسلیں ماضی کے بجائے مستقبل پر زیادہ نگاہ رکھتی تھیں۔ لہٰذا خاندان کے دیگر اہم کاغذات کے ساتھ اس خط پر بھی مٹی جمتی رہی۔

    میں چوں کہ اپنی نسل کا آخری فرد تھا اور میں نے شادی بھی نہیں کی تھی اس لیے میرا شجرہ آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی بنا پر میری دل چسپی اپنے بزرگوں کے ادوار اور ان کی نشانیوں سے بڑھتی رہی۔

    پہلی ہی بار اس خط کے متن نے مجھے متاثر بھی کیا تھا اور الجھن میں بھی ڈال دیا تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا۔

    عزت مآب، عالی جناب جنرل صاحب!

    جب یہ خط آپ تک پہنچے گا آپ اس خط کی ایک اہم اطلاع سے با خبر ہوچکے ہوں گے یعنی ہمارا دشمن جارج واشنگٹن مرچکا ہوگا اس کے مرنے کے بعد ان کی فوج کی حیثیت ایک ایسی ناگن جیسی رہ جائے گی جس کا سر قلم کردیا گیا ہو۔

    دشمن کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کرنی پڑے گی لیکن اس میں کیا مضائقہ ہے۔ امید ہے، سورج غروب ہونے تک دشمن کا بالکل صفایا کردیا جائے گا۔ اس وقت تک میں بھی مرچکا ہوں گا لیکن یہ بات میرے اور میرے خاندان کے سوا کسی کے لیے اہم نہیں ہوگی۔

    میں جنرل واشنگٹن کے ادارے میں باورچی کی حیثیت سے ملازم ہوں اور پہلے بھی آپ کو باغیوں کے منصوبوں اور ان کی صف بندی کے بارے میں خبریں بھیجتا رہا ہوں اور یہ میرے اور میری نسلوں کے لیے باعثِ صد افتخار ہے کہ مجھے تاجِ برطانیہ کے لیے ایک انتہائی اہم خدمت انجام دینے کا موقع میسر آرہا ہے۔

    جنرل واشنگٹن ایک تنہائی پسند شخص ہے اور اپنے دانتوں کی تکلیف کی وجہ سے اکثر تنہا کھانا کھاتا ہے۔ حال میں سردی لگنے سے اس کے سر میں بھی تکلیف شروع ہوگئی، سر درد نے اس کے ذائقے کی حس بری طرح متاثر کی ہے۔

    آج رات کے کھانے میں، میں نے اس کے لیے بچھیا کا گوشت پیاز اور آلو پکائے ہیں اور ساتھ ہی اپنا ایک خاص جزو بھی کھانے میں شامل کیا ہے۔ یہ ایک لال پھل ہے جو نائٹ شیڈ فیملی کے ایک زہریلے پودے پر اُگتا ہے۔

    جناب والا کو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک بے حد مشکل کام ہے، میں ایک باعزت آدمی ہوں، میں نے آج تک کسی کو چوری چھپے یا عیاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس کے علاوہ میری دانست میں جنرل واشنگٹن ایک عظیم راہ نما ہے، اس کے بلند مرتبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

    خطرات میں ہوش مندی سے کام لینا اس کا شیوہ ہے، اس کی دیانت داری کی داستانیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، اس کی ہمت اور باتدبیری سے آپ خود بھی بہ خوبی واقف ہیں لیکن …… لیکن چوں کہ وہ میرے ملک معظم تاج دار برطانیہ عظمیٰ جارج کی خداداد حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اس لیے تاج شاہی کے ایک ادنیٰ وفادار کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں اپنے طور پر جب بھی مناسب موقع میسر آئے اس کا قصہ پاک کردوں۔

    مجھے ہر چند افسوس بھی ہے کہ میں جارج واشنگٹن، ایک بڑے آدمی کی موت کا ذمے دار ہوں گا، لیکن یہ احساس میرے افسوس پر غالب آجائے گا کہ میں نے یہ کام خدا، ملکِ معظم اور اپنے عظیم ملک کے لیے انجام دیا ہے۔

    یہاں سے چند سطریں خالی تھیں جیسے خط نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس کے بعد خط دوبارہ لکھا گیا تھا۔

    شکر ہے میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میں نے جنرل کی موت اس کے خاص خادم کے ہاتھوں میں پہنچا دی ہے اور اس طرح میں نے اپنے بادشاہ (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) سے کیا ہوا عہد پورا کر دیا ہے۔ اب مجھے اپنے کام کا آغاز کرنا ہے۔ میں یہ خط مقرر کردہ جگہ پر رکھ دوں گا۔

    چوں کہ مجھے جنرل کے حامیوں کی جانب سے وحشیانہ انتقام کا خطرہ ہے چناں چہ اپنی جان خود لے رہا ہوں۔ زہر کھانے پر میری طبیعت مائل نہیں ہے۔ اپنے فربہ جسم کی وجہ سے میں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکنے سے بھی قاصر ہوں البتہ چاقو کے استعمال میں مجھے خاصی مہارت حاصل ہے لہٰذا اسی کو ترجیح دے رہا ہوں۔

    الوداع، میری درخواست ہے کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کو کوئی مشکل پیش نہ آنے پائے۔ میں انھیں تاج دار برطانیہ جارج کی سخاوت کے نام پر اور سر ولیم آپ کی پناہ میں چھوڑے جارہا ہوں۔ میرے بعد میری شہرت اس بات کا ثبوت ہوگی کہ میں نے آپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، میں بہ صمیم قلب و دماغ اپنے ملک، اپنے بادشاہ اور آپ کی اقبال مندی کے لیے دعا گو ہوں۔

    مجھے فخر ہے کہ میں ہمیشہ آپ سب کا وفادار رہا ہوں۔

    آپ کا حقیر ترین تابع
    جیمز بیلی

    اس خط میں جولیس سیزر کے قتل کی تاریخ کے سب سے اہم قتل کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، ہم سب جانتے ہیں کہ جارج واشنگٹن اس کے بعد پورے تئیس برس یعنی 1799 تک زندہ رہا اور اس بات کا کہیں کوئی نشان نہیں ہے کہ 1776 میں اس کی جان لینے کی کوئی ناکام کوشش بھی کی گئی ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جیمز بیلی نے اس مفروضہ قتل کی انتقامی کارروائی کے خوف اور ندامت کے باعث خود کو ہلاک کرلیا تھا۔

    اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے جرم کی سزا دے ڈالی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا، میں نے خود کو اس تناقص کی توجہیہ کے لیے وقف کردیا کب کوئی قتل، قتل نہیں ہوتا؟

    یہ سوال بچوں کی پہیلیوں کے مانند میرے ذہن میں گردش کرتا رہاکہ کب کوئی زہر، زہر نہیں ہوتا؟ پھر میں نے اپنی توجہ اس پھل پر مرکوز کردی جس کا تذکرہ جیمز بیلی نے اپنے خط میں کیا تھا۔

    لال پھل؟ میری نگاہ میں یہی ایک کلید تھی، میں نے اپنی تحقیق کا آغاز اسی سے کیا۔

    آخر میں نائٹ شیڈ فیملی کا ایک ایسا پودا اور دریافت کرنے میں کام یاب ہوگیا جس پر لال پھل اُگتے تھے۔

    امریکا میں یہ پھل 1882 تک زہریلا سمجھا جاتا تھا۔ یہ پھل جب بھی موجود تھا اور آج بھی دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ اسے ہم سب ٹماٹر کے نام سے جانتے ہیں۔

    (رچرڈ ایم گورڈن کی اس کہانی کو رابعہ سلطانہ نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

  • فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم، درخت کی نئی اور پرانی چھال کا تصادم ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تصادم کوئی نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ زندگی مائل بہ ارتقا ہے۔

    وہ ہر سال اپنی پرانی کینچلی اتار کر ایک نئی کینچلی پہن لیتی ہے۔ ہمارا واہمہ ہے کہ ہمیں پرانی اور نئی کینچلی کے رشتے میں فرد اور معاشرے کا تصادم نظر آتا ہے۔

    زندگی کا اصل مقصد، تسلسل ہے اور یہ تسلسل زیر و بم کے اس انداز کے تابع ہے، جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے، یعنی آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل، جس کے تسلسل اور تواتر میں کبھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔

    جب زندگی آگے بڑھتی ہے تو اس کام کے لیے فرد کو بروئے کار لاتی ہے۔ جب وہ پیچھے ہٹتی ہے، تاکہ نئی فتح یا نئے قدم کے آثار بہرہ اندوز ہوسکیں تو سوسائٹی کی قدروں سے کام لیتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ پچھلے برس کی چھال ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کا ایک حصہ، روایت کی صورت میں زندگی کے تنے سے چپک جاتا ہے اور اس کی جسامت میں اضافہ کردیتا ہے، جیسے درخت کی نئی اور پرانی چھال میں لپکنے اور سمٹنے کا عمل جاری رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درخت کے اندر سے ایک تخلیقی جہت وجود میں آتی ہے، جو درخت کی نسل ہی کو بدل دیتی ہے۔

    فرد اور سوسائٹی کے رشتے میں بھی یہ بات عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایسا فرد پیدا ہوجاتا ہے، جو سوسائٹی کو اٹھا کر ایک نئی سطح اور ایک نئے مدار میں لے آتا ہے اور یہ بات ایک تخلیقی جست کے تابع ہے۔

    (ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ”فرد، معاشرے اور تخلیقی جست“ سے محسن علی کا انتخاب)

  • دوا کا نسخہ

    دوا کا نسخہ

    لڑکی دوا فروش سے سکون آور دوا کا مطالبہ کررہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر کا نسخہ دکھاؤ۔

    لڑکی کو یہ مطالبہ کچھ عجیب سا لگا کیوں کہ وہ خواب آور دوا نہیں مانگ رہی تھی۔ دوا فروش اس کی بات تو سمجھ گیا لیکن سکون آور دوا کے لیے بھی ڈاکٹر کا نسخہ ضروری تھا۔

    لڑکی اب بحث پر اتر آئی۔ ”سکون آور دوا سے کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہیں ہے اور میں اس دوا کی عادی ہوں۔“

    دوا فروش نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ”سوال یہ نہیں ہے کہ تم کیا کیا استعمال کرتی رہی ہو۔ تم جو کررہی ہو، یہ ایک خطرناک حرکت ہے۔“

    ”یعنی تم سمجھتے ہو کہ میرا خود کُشی کا ارادہ ہے؟“

    ”نہیں ایسا تو نہیں، مگر اس میں کافی خطرہ ہے۔“

    اب لڑکی نے ذرا مختلف انداز میں سوال کیا۔ ”تمہارے پاس سکون آور دوائیں کون کون سی ہیں۔“

    دوا فروش نے ایک نام بتایا۔ یہ ایک بہت ہی معمولی طاقت کی دوا تھی اور اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ پھر بھی اس کا خیال تھا کہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    ”دیکھو! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔“ لڑکی نے جھلا کر کہا۔

    ”اگر کوئی اس دوا سے خودکشی کرنے کی کوشش کرے تو اسے کم از کم ایک سو گولیاں کھانی ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی درجن بوتلیں درکار ہوں گی۔ انھیں نگلنے کے لیے بھی گھنٹوں لگ جائیں گے اور بے اندازہ پانی پینا پڑے گا۔ یہ تمام ملغوبہ مل کر اس کے پیٹ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے گا اور اس قدر طویل وقت کو دیکھتے ہوئے موت کو بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔

    گولیوں کو اپنا اثر دکھانے کے لیے ایک معقول وقت چاہیے اور یہ عمل پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ آدمی اپنی حرکت سے توبہ کرلے گا اور فوراً اسپتال پہنچ جائے گا جہاں ڈاکٹر اسے بچالیں گے۔ اب تو تمہاری عقل میں یہ بات سماگئی ہوگی کہ اس قدر معمولی مقدار کی سکون آور دوا خودکشی کے لیے ناکافی ہے۔“

    ”آپ بڑی ذہین اور سمجھ دار خاتون ہیں۔“ دوا فروش نے مرعوب ہوتے ہوئے کہا۔ ”آپ پورے مرحلے سے اچھی طرح با خبر ہیں، فرض کرلیں کہ آپ کی تمام باتیں تسلیم کر لیتا ہوں…..“

    ”آپ جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں وہ سب غلط ہے۔“ لڑکی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
    دوا فروش نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مزید بحث کرنا فضول ہے، اسے ایک بوتل پکڑا دی۔ لڑکی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل گئی۔

    اس نے دوسری فارمیسی میں بھی یہی ڈراما دہرایا۔ تیسری فارمیسی میں اسے اپنی کہانی سنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ دوا فروش نے بلا حیل و حجت ایک شیشی اسے پکڑا دی۔ چوتھی میں اسے زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں پڑی اور اسی طرح پانچویں میں بھی اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔

    اخبار میں خبر کی اشاعت ہوئی کہ ایک نوجوان لڑکی اپنے بستر پر مردہ پائی گئی۔ اس کے قریبی میز پر سکون آور دوا کی کئی بوتلیں خالی پڑی تھیں اور اس کے ساتھ ہی ایک نوٹ بھی رکھا ہوا تھا۔

    ”میں نے اس زندگی کو خود پسند کیا تھا اور اس کے لیے کسی سے رائے نہیں مانگی، مگر زندگی نے میری قدر نہ کی لہٰذا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اپنی زندگی کو ختم کرلینے کا فیصلہ بھی میرا اپنا ہے۔“

    لوگوں نے یہ خبر پڑھ کر اظہار تاسف کیا۔ بے چاری لڑکی! نہ جانے کس بات سے عاجز آکر اس نے یہ فیصلہ کر ڈالا۔ ایک شخص نے تبصرہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کے ساتھ بے وفائی کی، دوسرے نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    دوا فروش نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہاکہ وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھی اور اس نے خودکشی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔

    دوا فروش نے اخبار میں تصویر دیکھ کر اس کو پہچان لیا اور اپنے بیان میں کہاکہ اب اس بات کو زیادہ طول نہ دیا جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اس کی ماں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا۔

    ”ہم نے اس کی جان بچانے کی سَر توڑ کوشش کی۔ اس کی زندگی میں کوئی راز نہیں تھا۔ اسے اپنی زندگی سے بے حد پیار تھا۔ وہ بے حد شرارتی اور کھلنڈری لڑکی تھی۔ شاید اس نے کوئی شرارت سوچ کر یہ حرکت کی ہوگی۔

    (اس کہانی کے مصنف ڈیزی الامیر (عراق) اور مترجم ابوالفرح ہمایوں ہیں)

  • یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    مشہور شاعر بشیر بدر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

     

    غزل
    یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی  شام گھر بھی رہا کرو
    وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو

    کوئی  ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو  گلے ملو  گے تپاک  سے
    یہ  نئے  مزاج  کا  شہر  ہے، ذرا  فاصلے سے  ملا کرو

    ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا، کوئی جائے گا
    تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا، اُسے بھولنے کی دعا کرو

    مجھے  اشتہار  سی  لگتی  ہیں  یہ   محبتوں  کی   کہانیاں
    جو  کہا  نہیں وہ  سنا  کرو،  جو  سنا  نہیں  وہ  کہا  کرو

    نہیں بے  حجاب وہ  چاند سا کہ نظر کا  کوئی  اثر نہ ہو
    اسے  اتنی  گرمئی شوق سے  بڑی دیر  تک نہ تکا کرو

    یہ خزاں کی  زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
    یہ تمہارے  گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

  • "ہمارے ہاں مینڈک کی کچھ قدر نہیں”

    "ہمارے ہاں مینڈک کی کچھ قدر نہیں”

    ہمارے ہاں تو بے چارے مینڈک کی کچھ قدر نہیں، لیکن دنیا کے اکثر ممالک میں انہیں نہایت رغبت سے کھایا جاتا ہے۔

    فرانسیسیوں کا تو نام ہی اس لیے فراگ پڑ گیا کہ وہ مینڈکوں کے بے حد شوقین ہیں، لیکن ذرا کوریا، چین اور ویت نام وغیرہ جا کر دیکھیے جہاں مینڈک کڑاہی، مینڈک فرائی اور مینڈک پلاؤ وغیرہ نہایت پسندیدہ ڈشیں ہیں۔

    پاکستانی ادیبوں کے وفد کے ساتھ چین جانے کا اتفاق ہوا تو ایک صبح ہوٹل کے ڈائننگ روم میں ناشتے کے لیے اترے، وہاں ایک جانب مغربی ناشتے کا اہتمام تھا اور برابر میں چینی ناشتا سجا ہوا تھا، میں نے سوچا کہ انڈہ ٹوسٹ وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں کیوں نہ چینی ناشتا نوش کیا جائے۔

    اب وہاں پہنچے تو کوئی شے ایسی نہ تھی جس سے کچھ واقفیت ہو۔ ایک تشتری میں سفید رنگ کے نہایت خوش نظر قتلے سجے تھے جو نہایت ذائقہ دار لگ رہے تھے۔

    ذرا قریب ہو کر ملاحظہ کیا تو ہر قتلے کے سرے پر دو آنکھیں نظر آئیں جو شناسا سی لگتی تھیں، پھر یاد آگیا کہ انہیں کہاں دیکھا ہے، اپنے گاؤں کے جوہڑ کی سطح پر دیکھا تھا!

    یعنی مینڈک تھے، جی تو چاہا کہ ذرا ٹرائی کر لیے جائیں، لیکن آس پاس اپنی ادیب برادری تھی جس نے پاکستان واپسی پر مشہور کر دینا تھا کہ جی یہ تارڑ تو وہاں دن رات مینڈک کھاتا رہتا تھا۔

    یہ بھی شنید ہے کہ آپ جس جانور کا گوشت کھائیں آپ میں اس کی خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وطن واپسی پر گھر میں اچھلتے پھریں اور بچہ لوگ کو بھی پتہ چل جائے کہ والد صاحب تو ڈڈو کھاتے ہیں۔

    ویسے اس کا امکان تو نہ تھا کیوں کہ یہ مفروضہ درست نہیں کہ انسان جس جانور کا گوشت کھائے اس میں اسی جانور کی خصلتیں نمودار ہو جاتی ہیں۔

    وہ جو کہتے ہیں کہ مینڈکی کو زکام ہونا تو اس کے علاوہ ایک اور محاورہ ہے جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے کہ مینڈک چلا مینڈک کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    یہ اس لیے معرضِ وجود میں آیا کہ دنیا بھر میں ہر مینڈک کی چال الگ الگ ہوتی ہے، چال سے مراد ان کا اچھل اچھل کر سفر کرنا ہے۔

    ہر مینڈک کے اچھل کر آگے جانے کا فاصلہ کسی اور مینڈک سے مختلف ہوتا ہے۔ کئی بار کوئی مینڈک کسی خوش رفتار مینڈک کی اچھل کود کی کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بری طرح ناکام رہتا ہے۔

    اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو کہیں سے دو مینڈک حاصل کیجیے اور پھر جب وہ اچھلنے لگیں تو ان کی چھلانگوں کا فاصلہ ناپیے، آپ دیکھیں گے کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

    (مستنصر حسین تارڑ کے "ڈڈو” سے انتخاب)