Tag: اردو ادب

  • وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    ایک زمانہ تھا جب سبزیوں، پھلوں اور دیگر غذائی اجناس سے مختلف بیماریوں اور امراض کا علاج کیا جاتا تھا۔ خالص غذائی اجناس اور تازہ سبزیوں اور پھلوں کی افادیت اور ان کی خاصیت و تاثیر سے حکیم اور معالجین خوب واقف ہوتے تھے۔

    آج جہاں نت نئے امراض اور بیماریاں سامنے آرہی ہیں، وہیں ان کے علاج کا بھی جدید اور سائنسی طریقہ اپنا لیا گیا ہے جو کہ ضروری بھی ہے۔ تاہم مہلک اور خطرناک امراض ایک طرف عام شکایات کی صورت میں بھی ہم قدرتی طریقہ علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

    یہ نظم جہاں آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی، وہیں عام جسمانی تکالیف کے حوالے سے ایک حکیم جو کہ شاعر بھی تھے، ان کے تجربات اور معلومات کا نچوڑ بھی ہے۔

    دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں۔

    جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے​
    وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے

    ​اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ​
    تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ

    جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا​
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس​
    مربّہ آملہ کھا یا انناس

    ​اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی​
    تو پی لے سونف یا ادرک کا پانی

    تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے​
    تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے

    جو دُکھتا ہو گلا نزلے کے مارے​
    تو کر نمکین پانی کے غرارے

    ​اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل​
    تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل

    شفا چاہے اگر کھانسی سے جلدی​
    تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی
    ​​
    دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی​
    کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھلی
    ​​
    جو بد ہضمی میں تُو چاہے افاقہ​
    تو دو اِک وقت کا کر لے تُو فاقہ

  • دِلَدّر   دُور  ہو گئے!

    دِلَدّر دُور ہو گئے!

    مولانا سید مودودی کی شخصیت اور ان کے کارنامے کسی سند یا تعارف کے محتاج نہیں۔

    ان کے مختلف مضامین، خطوط، عربی سے اردو تراجم ان کی زبان و بیان پر گرفت اور وسیع مطالعہ کا ثبوت ہیں۔

    ادبی تذکروں میں مولانا مودودی اور مشہور شاعر ماہر القادری سے متعلق ایک واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اس واقعے کا لطف اٹھانے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ لفظ دِلدّر کیا ہے؟

    اس کا مطلب افلاس، تنگ دستی ہے اور اکثر یہ لفط نحوست کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

    یہ لفط سنسکرت زبان سے ماخوذ اور اسم ہے۔ اسے اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال کیا گیا ہے۔

    ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ محاورے کے طور پر ہمارے ہاں بولا جاتا ہے، لیکن سید مودودی نے اسے ’’دِلَدّر پار ہو گئے‘‘ لکھا ہے۔

    ایک بار ماہر القادری نے مولانا مودودی کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حضرت لغت میں تو اسے ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ لکھا گیا ہے، مگر آپ نے اس طرح برتا ہے۔ اس پر مولانا نے اطمینان سے جواب دیا،

    ’’لغت میں تصحیح کر لیں۔‘‘

  • چائے میں چینی اور کیمرے سے تصویر!

    چائے میں چینی اور کیمرے سے تصویر!

    جگن ناتھ آزاد کو ادبی دنیا ایک خوب صورت شاعر اور نثر نگار کے ساتھ ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے جانتی ہے۔ ان سے متعلق دو شگفتہ واقعات آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہیں۔

    ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد اٹلانٹا گئے جہاں ایک جاننے والے نے انھیں اپنے گھر دعوت پر بلالیا۔

    میزبان نے گپ شپ کے دوران ان کی طرف چائے بڑھانے سے پہلے پوچھا کہ آزاد صاحب چینی کتنی لیں گے؟

    انھوں نے جواب دیا: ’’اپنے گھر تو ایک ہی چمچ لیتا ہوں، لیکن باہر چائے پینے پر دو، تین چمچ سے کم چینی نہیں لیتا۔‘‘

    یہ سن کر میزبان نے چائے کی پیالی میں ایک چمچ چینی ڈالی اور ان کی طرف بڑھاتے ہوئے ظرافت سے کہا:

    ’’آزاد صاحب! اسے اپنا ہی گھر سمجھیے۔‘‘

    اسی طرح یہ واقعہ بھی ادبی دنیا میں بہت مشہور ہے کہ اٹلانٹا ہی میں جگن ناتھ آزاد، محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعر ایک روز اسٹون فائونڈیشن دیکھنے نکلے، اور جب حمایت علی شاعر وہاں کی سیر کے وہ لمحات کیمرے میں قید کرنے لگے تو کچھ سوچ کر اپنے ساتھیوں سے بولے۔

    کیمرہ تصویر تو لے لے گا، لیکن ہے ذرا پرانا۔

    آزاد نے اس پر برجستہ کہا:

    ’’ہمیں کون سا خریدنا ہے۔‘‘

  • "چیتے دراصل گدھے ہیں”

    "چیتے دراصل گدھے ہیں”

    کسی جنگل میں خرگوش کی ایک اسامی نکلی، لیکن کئی ماہ تک کسی خرگوش نے اس نوکری کے لیے درخواست نہیں دی۔

    ایک بے روزگار اور حالات کے ستائے ہوئے ریچھ نے اس اسامی پر اپنی درخواست جمع کرا دی۔

    اس ریچھ کو خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دے دی گئی۔

    نوکری کے دوران کہیں سے ریچھ کو معلوم ہوا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر اسی کی طرح ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور وہ مشاہرہ اور مراعات لے رہا ہے جو کہ ریچھ جیسے بڑے اور طاقت ور جانور کا حق ہیں۔ اسے کسی نے بتایا کہ خرگوش خود کو دھڑلے سے ریچھ کہتا ہے۔

    ریچھ نے اسے ناانصافی تصور کیا۔ اسے بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جب کہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ بن کر مزے کر رہا ہے۔

    ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے رابطہ کیا اور مشورہ مانگا۔ انھوں نے ریچھ کو کہا کہ یہ تو بڑا ظلم اور اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہی خواہوں کا مشورہ تھا کہ ریچھ اس کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

    خرگوش کی اسامی پر کام کرنے والے ریچھ نے جنگل کے منتظمِ اعلیٰ کو تحریری شکایت کی اور مؤقف اپنایا کہ یہ غیرقانونی اور اس جیسے جانور کی حق تلفی کے مترادف ہے۔

    جنگل کا منتظمِ اعلیٰ ریچھ کو کوئی جواب نہ دے سکا اور اس کی شکایت انتظامیہ اراکین کو بھیج دی۔ انھوں نے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جو اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھے۔

    کمیٹی اراکین نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ ذاتی حیثیت میں حاضر ہو کر اس حوالے سے اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔

    مقررہ تاریخ پر خرگوش کمیٹی کے سامنے پیش ہوا اور اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں رکھ دیں اور کسی طرح یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک ریچھ ہے۔

    اب کمیٹی نے ریچھ کو ہدایت کی کہ پہلے تو وہ اپنی موجودہ ملازمت کے حوالے سے یہ ثابت کرے کہ وہ ایک خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ نے ضروری کاغذات اور دستاویز پیش کر کے خود کو خرگوش ثابت کیا۔

    کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال رہ کر اپنے اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کوئی اعتراض کیے بغیر کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور اپنی راہ لی۔

    مایوس اور پریشان ریچھ کے دوستوں نے اسے بہت برا بھلا کہا اور بزدلی کا طعنہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریچھ کو چیتوں کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا چاہیے تھا۔

    تب ریچھ نے انھیں غور سے دیکھا اور سر جھکا کر بولا: میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کرسکتا تھا، اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا؟

    دوستو، جیسے میں ایک خرگوش اور ایک خرگوش ریچھ کی حیثیت سے جنگل سرکار سے تنخواہ لے رہا ہے بالکل اسی طرح کمیٹی میں شامل چیتے درحقیقت گدھے ہیں اور ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ چیتے ہیں تمام ضروری کاغذات اور دستاویز بھی موجود ہیں۔

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    شمسُ العلما ڈپٹی مولوی نذیر احمد دہلوی کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے۔ وہ یہ کہ اُن کے پاس عربی کی ایک نایاب کتاب تھی، جسے دیکھنے کے دلّی کے ایک مولوی صاحب بھی شائق تھے۔

    اُن سے ڈپٹی صاحب کے تعلقات کچھ اس قسم کے تھے کہ ڈپٹی صاحب نہ انکار کرتے تھے اور نہ دینا چاہتے تھے، لیکن ایک روز ڈپٹی صاحب کو یہ کتاب ان کو دیتے ہی بنی۔

    ڈپٹی صاحب کو اللہ نے حسِ مزاح سے پوری طرح نوازا تھا، کتاب مولوی صاحب کی جانب بڑھاتے ہوئے ڈپٹی صاحب نے فرمایا کہ کتاب تو بڑی اچھی ہے، لیکن اس کی جلد سُور کے چمڑے کی ہے۔

    مولوی صاحب نے جو یہ الفاظ سُنے تو لاحول پڑھتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹ گئے اور کتاب لینے سے انکار کر دیا۔

    راوی: عبدالمجید قریشی

  • مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    حضرت مرزا داغ دہلوی کو بھی مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ جو نئی کتاب بھی شایع ہوتی، وہ فوراً اسے خرید لیتے اور اس کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے۔

    مطالعہ وقفے وقفے سے کرتے، لیکن کتاب کو پوری پڑھ کر چھوڑتے۔ انھوں نے اپنے دولت کدے کا ایک بڑا کمرا کتب خانے کے لیے وقف کر رکھا تھا جس میں چار پانچ الماریاں کتابوں سے پُر تھیں اور ہر الماری میں دو دو ڈھائی ڈھائی سو کتابیں ہوتی تھیں۔

    وہ کتابوں کی جلدیں قیمتی بندھواتے اور ہر کتاب پر مالکِ کتاب کی حیثیت سے اپنا نام بھی ڈلواتے۔ اساتذۂ اردو اور فارسی کے پورے کلیّات اور دواوین ان کے کتب خانے میں موجود تھے۔

    کتب خانے کی فہرست مجلّد تھی۔ مرزا صاحب اپنے احباب اور شاگردوں کو کتابیں مستعار بھی دیتے رہتے، لیکن اُن کا اندراج ایک علاحدہ رجسٹر میں کر دیتے۔

    اس رجسٹر کی تنقیح ہر دوسرے تیسرے مہینے ہوتی رہتی اور اگر کوئی کتاب کسی کے پاس رہ جاتی تو تقاضا کر کے منگوا لیتے۔

    (علم و ادب کے شائق، مختلف ادبی واقعات، یادوں اور تذکروں کو کتابی شکل میں‌ محفوظ کرنے والے عبدالمجید قریشی کی ایک خوب صورت کاوش "کتابیں‌ ہیں‌ چمن اپنا” بھی ہے، جس میں‌ استاد شاعر داغ دہلوی کے کتب خانے کا ذکر بھی ہے اور یہ سطور اسی کتاب سے لی گئی ہیں)

  • "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    خواجہ صاحب کا نام معلوم نہیں کب سے کانوں میں گونجا ہوا تھا، مگر دیکھا سب سے پہلے گوالیار کی بزمِ اردو میں۔

    جب آپ نے خضر خان اور دیول دیوی کے متعلق اپنا وہ مقالہ پڑھا جس کا تعلق گوالیار ہی کے قلعے سے تھا اور جس میں ہندو مسلم اتحاد کا افسوں پھونکا گیا تھا۔

    کھانے کی میز پر باقاعدہ تعارف کی رسم مشیر احمد علوی نے ادا کی۔ خواجہ صاحب بہت محبت سے ملے۔ اپنی ریلوے ٹرین نما پان کی ڈبیا سے پان نکال کر دیا۔ دیر تک دل چسپ گفت گو فرماتے رہے اور پھر دہلی جاکر روزنامچے میں وہ تمام گفت گو درج کر دی۔

    دوسری مرتبہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ملا۔ پھر اسی ڈبیا سے پان کھلایا، یہ گفت گو مختصر تھی اور قہقہے زیادہ تھے۔ تیسری مرتبہ آپ سے اس طرح ملاقات ہوئی کہ آپ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر براڈ کاسٹ کرنے لکھنؤ تشریف لا رہے تھے۔ ہم لوگ آپ کے خیر مقدم کے لیے رات ہی سے یک جا ہوگئے، اس لیے کہ صبح پانچ بجے ٹرین آتی تھی۔

    مسٹر جگل کشور مہرا اسٹیشن ڈائریکٹر، ملک حسیب احمد پروگرام ڈائریکٹر، مسٹر غلام قادر فرید، مسٹر ہنس راج کوتھرا اور میں یہ سب کے سب ایک ہی کمرے میں فرشی بستر بچھا کر رات بھر سونے کے لیے جاگتے رہے، صبح آپ کا خیر مقدم کیا گیا۔

    آپ کو اسی گھر میں مہمان بنایا گیا۔ تیسری ملاقات کے بعد ہی آپ نے دہلی جاکر اپنے اخبار ‘‘منادی’’ میں مجھے ‘‘تفریحُ الملک’’ کے خطاب سے سرفراز کر دیا اور پھر برابر شوکت تھانوی کے بجائے ‘‘مولانا تفریح الملک’’ لکھتے رہے۔

    چوتھی مرتبہ مجھے اطلاع ہوئی کہ آپ بصیغۂ راز لکھنؤ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ڈھونڈتا ہوا پہنچا۔ بیٹے کی سسرال میں یہ خواجہ سمدھی صاحب نظامی پلاﺅ، زردہ، بالائی کھا رہے تھے، میں بھی ہاتھ دھو کر بیٹھ گیا اور پھر خواجہ صاحب کو ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر کے لیے آمادہ کر لیا۔

    اس مرتبہ خواجہ صاحب نے کچھ تجارتی معاملات مجھ سے طے کیے یعنی مجھ کو حکم دیا کہ میں منادی کے لیے ‘‘مرزا پھویا’’ کا فرضی روز نامچہ لکھوں اور اس کے معاوضہ میں جو کچھ مجھے دیا جائے اس سے انکار نہ کروں۔

    میں کچھ دن تک یہ خدمت انجام دیتا رہا۔ آخر فرار کی ٹھانی اور چُپ ہوکر بیٹھ رہا۔ اگر کچھ دن آدمی روپوش رہے تو پھر شرمندگی سنگین سے سنگین تر ہوجاتی ہے اور عذرِ گناہ کے امکانات دور ہٹتے جاتے ہیں۔

    چناں چہ یہی ہوا کہ اپنی کاہلی کی بدولت ایسے مشفق بزرگ، ایسے چہیتے دوست اور ایسے بے غرض مہربان کو ہاتھ سے کھو بیٹھا۔ وہ بیمار رہے، میں بے قرار رہا۔ انھوں نے آنکھوں کا آپریشن کرایا، ان کے یہاں حادثات ہوئے، مگر ہمت نہ ہوئی کہ تعزیت کروں۔ اور اب تک چوروں کی طرح مفرور ہوں۔ جُرم صرف اتنا ہے کہ مرزا پھویا نے لکھنا بند کیا۔ پھر اس کے بعد خط لکھنے کی ہمت نہ ہوئی اور اب خط لکھوں اور مراسم کی تجدید کروں تو کس منہ سے۔

    خواجہ صاحب کا میں مرید نہیں ہوں، مگر ان سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ وہ مجھے اپنی کاکلوں اور داڑھی کے ساتھ حسین نظر آتے ہیں۔ ان میں بلا کی دل کشی ہے۔

    لوگ کہتے ہیں کہ حسن نظامی چلتے پھرتے پوسٹر ہیں اور میں کہتا ہوں کہ حسن نظامی نہ پوسٹر ہیں نہ پیر، نہ ادیب ہیں نہ مقرر، بلکہ وہ جادوگر ہیں۔ یقین نہ آتا ہو تو ان کے پاس جاکر دیکھیے۔

    کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
    جادُو وہ جو سَر چڑھ کے بولے

    (معروف ادیب اور شاعر شوکت تھانوی کی نادر روزگار شخصیت خواجہ حسن نظامی سے متعلق یادیں)

  • مرحوم کی یاد میں

    مرحوم کی یاد میں

    ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔

    جب دوستی بہت پرانی ہو جائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے۔ لیکن میں زمانے کی ناساز گاری پر غور کر رہا تھا۔

    دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹر کار گزر جاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی موٹر کار کو دیکھوں، مجھے زمانے کی ناساز گاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے۔ اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جا سکے۔

    اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے گزر جائے کہ گرد و غبار میرے پھیپھڑوں، میرے دماغ، میرے معدے اور میری تلّی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آ کر علمِ کیمیا کی وہ کتاب نکل لیتا ہوں جو میں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔ اور اس غرض سے اُس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آجائے۔

    میں کچھ دیر تک آہیں بھرتا رہا۔ مرزا صاحب نے کچھ توجہ نہ کی۔ آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور مرزا صاحب سے مخاطب ہو کر کہا۔

    "مرزا صاحب۔ ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے؟”

    مرزا صاحب بولے۔ "بھئی کچھ ہو گا ہی نا آخر۔”

    میں نے کہا۔ "میں بتاؤں تمہیں؟”

    کہنے لگے۔ "بولو۔”

    میں نے کہا۔ "کوئی فرق نہیں۔ سنتے ہو مرزا؟ کوئی فرق نہیں۔ ہم میں اور حیوانوں میں۔۔۔ کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں!

    ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو۔ کہہ دو گے حیوان جگالی کرتے ہیں، تم جگالی نہیں کرتے۔ ان کے دُم ہوتی ہے، تمہاری دم نہیں، لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ ان سے تو صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں، لیکن ایک بات میں، میں اور وہ بالکل برابر ہیں۔ وہ بھی پیدل چلتے ہیں اور میں بھی پیدل چلتا ہوں۔ اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟ جواب نہیں۔ کچھ ہے تو کہو۔ بس چپ ہو جاؤ، تم کچھ نہیں کر سکے۔ جب سے میں پیدا ہوا ہوں اور اس دن سے پیدل چل رہا ہوں۔”

    "پیدل۔۔۔۔۔ تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔ پیدل کے معنی ہیں سینۂ زمین پر اس طرح سے حرکت کرنا کہ دونوں پاؤں میں ایک ضرور زمین پر رہے۔ یعنی تمام عمر میرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہا ہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں اور دوسرا اٹھاتا ہوں۔ دوسرا رکھتا ہوں، پہلا اٹھاتا ہوں۔ ایک آگے ایک پیچھے، ایک پیچھے، ایک آگے۔ خدا کی قسم اس طرح کی زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا، حواس بیکار ہوجاتے ہیں، تخیل مر جاتا ہے، آدمی گدھے سے بدتر ہو جاتا ہے۔”

    مرزا صاحب میری اس تقریر کے دوران کچھ اس بے پروائی سے سگریٹ پیتے رہے کہ دوستوں کی بے وفائی پر رونے کو دل چاہتا تھا۔ میں نے از حد حقارت اور نفرت کے ساتھ منہ ان کی طرف پھیر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مرزا کو میری باتوں پر یقین ہی نہیں آتا۔ گویا میں اپنی جو تکالیف بیان کر رہا ہوں وہ محض خیالی ہیں، یعنی میرا پیدل چلنے کے خلاف شکایت کرنا قابل توجہ ہی نہیں۔ یعنی میں کسی سواری کا مستحق ہی نہیں۔ میں نے دل میں کہا۔ "اچھا مرزا یوں ہی سہی۔ دیکھو تو میں کیا کرتا ہوں۔”

    میں نے اپنے دانت پچی کر لیے اور کرسی کے بازو پر سے جھک کر مرزا کے قریب پہنچ گیا۔ مرزا نے بھی سَر میری طرف موڑا۔ میں مسکرا دیا، لیکن میرے تبسم کا میں زہر ملا ہوا تھا۔

    جب مرزا سننے کے لیے بالکل تیار ہو گیا تو میں نے چبا چبا کر کہا۔

    "مرزا میں ایک موٹرکار خریدنے لگا ہوں۔”

    یہ کہہ کر میں بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا۔

    مرزا پھر بولے۔ "کیا کہا تم نے؟ کیا خریدنے لگے ہو؟”

    میں نے کہا۔ "سنا نہیں تم نے۔ ایک موٹرکار خریدنے لگا ہوں۔ موٹر کار ایک ایسی گاڑی ہے جس کو بعض لوگ موٹر کہتے ہیں، بعض لوگ کار کہتے ہیں، لیکن چوں کہ تم ذرا کند ذہن ہو، اس لیے میں نے دونوں لفظ استعمال کر دیے تاکہ تمہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔”

    مرزا بولے۔ "ہوں۔”

    اب کے مرزا نہیں میں بے پروائی سے سگریٹ پینے لگا۔ بھنویں میں نے اوپر کو چڑھا لیں۔ پھر سگریٹ والا ہاتھ منہ تک اس انداز سے لاتا اور لے جاتا تھا کہ بڑے بڑے ایکٹر اس پر رشک کریں۔

    تھوڑی دیر کے بعد مرزا بولے۔ "ہوں۔”

    میں سوچا اثر ہو رہا ہے۔ مرزا صاحب پر رعب پڑ رہا ہے۔ میں چاہتا تھا، مرزا کچھ بولے۔ تاکہ مجھے معلوم ہو، کہاں تک مرعوب ہوا ہے، لیکن مرزا نے پھر کہا۔ "ہوں”۔

    میں نے کہا۔ "مرزا جہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے اسکول اور کالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ تمہیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی اسکول یا کالج یا شریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے۔ پھر بھی اس وقت تمہارا کلام "ہوں” سے آگے نہیں بڑھتا۔ تم جلتے ہو۔ مرزا اس وقت تمہاری جو ذہنی کیفیت ہے، اس کو عربی زبان میں حسد کہتے ہیں۔”

    مرزا صاحب کہنے لگے۔ "نہیں یہ بات تو نہیں، میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کر رہا تھا۔ تم نے کہا میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں تو میاں صاحب زادے خریدنا تو ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے لیے روپے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہو جائے گا، لیکن روپے کا بندوبست کیسے کرو گے؟”

    یہ نکتہ مجھے بھی نہ سوجھا تھا، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں نے کہا۔ "میں اپنی کئی قیمتی اشیا بیچ سکتا ہوں۔”

    مرزا بولے۔ "کون کون سی مثلاً؟”

    میں نے کہا۔ "ایک تو میں سگریٹ کیس بیچ ڈالوں گا۔”

    مرزا کہنے لگے۔ "چلو دس آنے تو یہ ہو گئے، باقی ڈھائی تین ہزار کا انتظام بھی ہو جائے تو سب کام ٹھیک ہو جائے گا۔”

    اس کے بعد ضروری یہی معلوم ہوا کہ گفتگو کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے روک دیا جائے۔ چناں چہ میں مرزا سے بیزار ہو کر خاموش ہو رہا۔ یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ لوگ روپیا کہاں سے لاتے ہیں۔ بہت سوچا۔ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ چوری کرتے ہیں۔ اس سے ایک گونہ اطمینان ہوا۔

    مرزا بولے۔ "میں تمہیں ایک ترکیب بتاؤں ایک بائیسکل لے لو۔”

    میں نے کہا۔ وہ روپیا کا مسئلہ تو پھر بھی جوں کا توں رہا۔”

    کہنے لگے۔ "مفت”۔

    میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ "مفت وہ کیسے؟”

    کہنے لگے۔ "مفت ہی سمجھو۔ آخر دوست سے قیمت لینا بھی کہاں کی شرافت ہے۔ البتہ تم احسان قبول کرنا گوارا نہ کرو تو اور بات ہے۔”

    ایسے موقع پر جو ہنسی میں ہنستا ہوں، اس میں معصوم بچے کی مسرت، جوانی کی خوش دلی، ابلتے ہوئے فواروں کی موسیقی، بلبلوں کا نغمہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ چناں چہ میں یہ ہنسی ہنسا۔ اور اس طرح ہنسا کہ کھلی ہوئی باچھیں پھر گھنٹوں تک اپنی اصلی جگہ پر واپس نہ آئیں۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ یک لخت کوئی خوش خبری سننے سے دل کی حرکت بند ہو جانے کا جو خطرہ ہوتا ہے اس سے محفوظ ہوں، تو میں نے پوچھا۔ "کس کی؟”

    مرزا بولے۔ "میرے پاس ایک بائیسکل پڑی ہے تم لے لو۔”

    میں نے کہا۔ "پھر کہنا…. پھر کہنا!”

    کہنے لگے۔ بھئی ایک بائیسکل میرے پاس ہے جب میری ہے، تو تمہاری ہے، تم لے لو۔”

    یقین مانیے مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ شرم کے مارے میں پسینہ پسینہ ہو گیا۔ چودھویں صدی میں ایسی بےغرضی اور ایثار بھلا کہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ میں نے کرسی سرکا کر مرزا کے پاس کر لی، سمجھ میں نہ آیا کہ اپنی ندامت اور ممنونیت کا اظہار کن الفاظ میں کروں۔

    مشہور مزاح‌ نگار، معروف ادیب پطرس بخاری کے مضمون سے انتخاب

  • "انجیروں” کو اگر "انجینئروں” لکھ دیا تو کیا غلط کیا؟

    "انجیروں” کو اگر "انجینئروں” لکھ دیا تو کیا غلط کیا؟

    پہلے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ایک دن جھنجھلا کر کاتب بن گئے۔

    آپ کی تحریر پر پِروئے ہوئے موتیوں کا گماں گزرتا ہے۔ زبان کے پکے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو اسی سال کام مکمل کر کے رہتے ہیں۔

    لکھتے وقت موقعے (اور اپنے موڈ کے مطابق) عبارت میں ترمیم کرتے جاتے ہیں۔

    عالمِ دلسوزی کو عالمِ ڈلہوزی، بِچھڑا عاشق کو بَچھڑا عاشق، سہروردی کو سر دردی، سماجی بہبودی کو سماجی بیہودگی، وادیٔ نیل کو وادیٔ بیل بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔

    کسی غلام حسن کے نواسے نے اپنے آپ کو نبیرہ غلام حسن لکھا جو آپ کو نامانوس سا معلوم ہوا۔ چناں چہ آپ نے کچھ دیر سوچ کر اسے بٹیرہ غلام حسن تحریر فرمایا۔

    ایک رومانی افسانے میں حور شمائل نازنین کو چور شمائل نازنین لکھ کر کہانی کو چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح قہقہے کو قمقمے، موٹے موٹے انجیروں کو موٹے موٹے انجینیئروں، اپنا حصّہ کو اپنا حقّہ، پُھلواری کو پٹواری بنا دیتے ہیں۔

    پروازِ تخیل کی انتہا ہے کہ جہاں شبلی عفی عنہ لکھنا چاہیے تھا وہاں لکھا ستلی کئی عدد۔ اس وقت ملک میں آپ سے بہتر کاتب ملنا محال ہے۔


    (شفیق الرحمٰن کی کتاب میں یہ شگفتہ پارہ "صحیح رقم خوش نویس” کے عنوان سے محفوظ ہے)

  • قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    اس کا نام سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے یہ تصویر ابھرتی ہے۔

    گہری رنگت والا ایک طاقت وَر شخص، وحشی گھوڑے پر سوار، دو آہنی آنکھیں اور بھری بھری مونچھیں۔ اس کے ہونٹ مونچھوں میں چھپے رہتے تھے۔ کوسما ایک خطرناک آدمی تھا، قانون کا مجرم، ہمیشہ گھوڑے پر سوار، کندھوں پر رائفل اور کمر میں گز بھر لمبی تلوار۔

    اب میں کم و بیش سو سال کا ایک بوڑھا ہوں، سو سال میں بڑی دنیا دیکھی ہے میں نے، جگہ جگہ کی سیر کی ہے، طرح طرح کے لوگوں سے ملا ہوں، لیکن کوسما جیسا دلیر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

    وہ کوئی دیوہیکل شخص نہیں تھا درمیانہ قد، چوڑی اور پُرگوشت ہڈیاں، سورج کی تمازت نے اس کا رنگ جھلسا دیا تھا۔ گھر سے باہر رہنے والوں کے ساتھ عموماً یہی ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دبدبے اور ہیبت کا دوسرا نام کوسما تھا۔ کسی کا اس سے ایک بار آنکھیں ملا لینا ہی بہت تھا۔

    وہ زمانہ ہمارے وطن کے لیے بڑا پُرآشوب تھا۔ ترک اور یونانی، رومانیہ کی سرزمین تاراج کررہے تھے۔ عجب اداسی اور بے کیفی کا دور تھا۔ ہر رومانیین غیر محفوظ تھا اور خوف کی حالت میں زندگی گزار رہا تھا۔ کوسما نے انہی حالات کے باعث باغیانہ رویہ اختیار کیا تھا اور اس طرز حیات میں خوب کام یاب تھا۔ شاید وہ واحد رومانیین تھا جو ترکوں اور یونانیوں دونوں سے محفوظ تھا۔

    اس کا مسکن جنگل اور پہاڑ تھے آج یہاں تو کل وہاں، اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ ایک بار وہ گرفتار بھی ہوا اور اسے ہتھ کڑیاں پہنادی گئیں لیکن وہ بھی کوئی اور نہیں، کوسما تھا۔ اس نے صرف ایک جھٹکے سے خود کو آزاد کرلیا پھر فوراً گھوڑے پر سوار ہوکے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    شاید اس کے نوشتے میں تحریر تھا کہ بندوق کی گولی اس پر اثرانداز نہیں ہوگی، ہاں! کوئی چیز اسے زد پر لے سکتی تھی تو وہ چاندی کی گولی تھی۔

    وہ عہد بہادروں کا عہد تھا۔ کم زور صرف سر جھکا کر، صرف اطاعت کرکے زندہ رہ سکتا تھا۔ سنتے ہیں، مالدیویا کی سرحدوں کے اس پار، ولے شیا میں بھی ایک شخص رہتا تھا جس کی صفات کوسما سے ملتی جلتی تھیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں آپس میں بہت اچھے دوست تھے۔

    وہ رات کی تاریکی میں سرحد پر ایک دوسرے سے ملتے اور اپنا اپنا مالِ غنیمت ایک دوسرے سے تبدیل کرلیتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرحد پر متعین محافظوں نے اسے گرفتار کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن کوسما کا گھوڑا تو کوئی جن یا بھوت تھا، پلک جھپکتے ہی غائب ہوجاتا، محافظوں کی گولیاں بھی اس تک نہ پہنچ پاتیں، ویسے بھی سرحد کا علاقہ بکاﺅ کی پہاڑی سے بہت دور تھا، رات کی رات وہاں جاکر لوٹ آنا بہت دشوار بلکہ ناممکن تھا، لیکن کوسما کے لیے ایسا نہیں تھا، وہ تو اس دنیا کا انسان ہی نہیں تھا۔

    اس کی زندگی، جنگلوں، میدانوں اور پہاڑوں میں گزر رہی تھی۔ وہ کوئی عاشق، کوئی مجنوں نہیں، ایک فاتح شخص تھا، فاتح اور ظفر مند، اس نے کبھی شکست نہیں کھائی تھی۔ لوگ اس کی دہشت سے لرزتے تھے۔

    ول تورستی میں یونانی نسل کا ایک شخص رہتا تھا اس کا نام فرنکو لازیم فریڈ تھا۔

    ہماری سَرزمین پر ایک ویران محفل میں رومانیہ کی ایک نازنین رہتی تھی، وہ بے مثال حسن کی مالک تھی، اس کی بھنویں کمان کے مانند اور آنکھیں جُادو بھری تھیں۔ نوعمری میں اس کی مرضی کے خلاف علاقے کے ایک بڑے زمین دار سے اس کی شادی کردی گئی تھی۔ حسن اتفاق سے شادی کے بعد جلد ہی اس کا خاوند چل بسا۔ اب یہ جواں سال حسینہ اس کی تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ اس کا نام سلطانہ تھا۔

    نکولازیم فریڈ اس حسین و جمیل بیوہ کے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے لیکن سلطانہ کسی طور بھی اس کی نہ ہوسکی، حد ہے کہ اس نے جادو ٹونے بھی کرائے، مگر سب بے سود۔

    ایک صبح نکولا بے حد ملول اور دل گرفتہ تھا، رات بھر اسے سلطانہ کی یاد ستاتی رہی تھی، وہ حویلی سے نکل کے اصطبل کی جانب گیا، چبوترے پر بیٹھ گیا اور سلطانہ کے تصور میں کھو گیا۔ سوچتے سوچتے اسے کوئی خیال آیا اس نے چونک کے آواز لگائی۔ ”ویسائل!“۔۔۔

    تبھی ایک معمر اور جہاں دیدہ شخص ادب سے سامنے آکے کھڑا ہوگیا۔ ویسائل، نکولا کا رازدار تھا۔ نکولا نے اسے اپنی پریشانی بتائی اور کہا کہ کوئی راہ نکالے۔

    اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں آقا؟“ ویسائل نے کہا۔

    ضرور ضرور۔ نکولا بے تابی سے بولا۔

    بوڑھے ویسائل نے کہا کہ سلطانہ کو طاقت کے زور پر اس کے محل سے اٹھوا لیا جائے۔ نکولا نے تذبذب سے دریافت کیا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

    کیوں نہیں میرے آقا! دنیا میں کوئی بات ناممکن نہیں۔ اسی رات نکولا پانچ مسلح سپاہیوں کے ساتھ سلطانہ کے کوچے فراسینی کی جانب روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد وہ سلطانہ کی حویلی کے سامنے پہنچ گئے۔ تاریکی میں ڈوبی حویلی کوئلے کا پہاڑ نظر آرہی تھی۔

    نکولا اور اس کے ساتھی احاطے کی دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ وہ خاموشی کے ساتھ گھوڑوں سے اتر کے دیوار پر چڑھ گئے۔ دوسرے ہی لمحے حویلی میں جاگ پڑگئی اور ہوشیار خبردار کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔

    نکولا نے اس شور کی پروا نہیں کی، وہ بے خوفی سے اپنے ساتھیوں سمیت حویلی کے اندرونی دروازے تک پہنچ گیا۔ سپاہیوں نے دروازہ توڑ دیا۔ انسانی سائے راہ داری میں ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے۔ اچانک خواب گاہ کا دروازہ کھلا اور روشنی کا سیلاب سا باہر نکلا۔

    نکولا نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ دروازے پر کھڑی ہے۔ نکولا کے منہ سے بے اختیار نکلا دیکھا، آخر میں نے تمہیں پالیا، وہ سفید لباس میں وقار اور تمکنت سے کھڑی تھی، خوابیدہ آنکھیں اس کا حسن اور نکھار رہی تھیں، اس سحر انگیز منظر نے نکولا کو دم بہ خود کردیا۔

    نکولا کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ جھک کر اس کے مرمریں پاﺅں چوم لے، لیکن اس نے خود پر قابو رکھا۔ سلطانہ بولی ‘‘اچھا، یہ تم ہو۔ میں تو سمجھی تھی چور وغیرہ آگھسے ہیں۔ اس کی آواز سے گھنٹیاں بج اٹھیں، مگر اس کے لہجے میں تمسخر تھا۔ اپنا جملہ ختم کرکے اچانک اس نے ہاتھ اٹھایا، ننگی تلوار چمکی، تلوار کی غیر متوقع چمک سے نکولا گڑ بڑا گیا۔ سلطانہ نے کسی تاخیر کے بغیر اس کے سر پر تلوار کی الٹی جانب سے ایک زور دار ضرب لگائی، نکولا لڑکھڑا گیا، پھر اس سے پہلے کہ اس کے ساتھی مدد کو آگے بڑھتے سلطانہ کے ملازمین نے ان پر دھاوا بول دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نکولا اور اس کے ساتھیوں کو پسپا ہونا پڑا اور وہ جان بچاکر بد حواسی سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس سانحے نے نکولا کو گوشہ نشین کردیا۔ وہ ہر وقت حویلی کے ایک گوشے میں پڑا آہیں بھرتا رہتا۔

    اس کا واحد غم گسار ویسائل تھا۔ ایک روز نکولا نے روتے ہوئے ویسائل سے کہا کہ اب ہم سلطانہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ویسائل نے آہستہ سے کہا: میں سمجھ سکتا ہوں، آپ پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے نکولا کو اس معاملے میں کوسما سے مدد لینے پر اکسایا اور کہا کہ اگر کوسما اس مہم پر آمادہ ہوگیا تو سلطانہ آپ کے پہلو میں ہوگی اور آپ جانتے ہیں کہ کوسما دولت کے عوض کچھ بھی کرسکتا ہے۔

    نکولا نے کوسما سے ملاقات کی اور اسے اپنے سامنے کھڑا پایا تو دَم بہ خود رہ گیا، وہ تھا ہی اتنا با رعب۔ ایک تو اس کی شخصیت کا جاہ و جلال، دوسرے اس کی شہرت دونوں ہی باتیں لوگوں کو خوف زدہ کرنے میں مہمیز کا کام کرتی تھیں۔

    گفت گُو میں پہل کوسما ہی نے کی۔ خدا تم پر مہربان ہو۔

    خوش آمدید کوسما! میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ ویسائل نے جواب دیا۔

    ادھر نکولا کچھ سنبھل گیا تھا، اس نے بھی براہ راست سوال کیا۔

    پچاس ہزار۔۔۔ نکولا نے ویسائل کو حکم دیا کہ رقم کی تھیلی لاﺅ۔

    نہیں۔ کوسما نے بے اعتنائی سے کہا۔ ابھی مجھے رقم نہیں چاہیے۔ یہ ایک سودا ہے میں فراسینی سے لاکر سلطانہ کو تمہارے حوالے کروں گا اس کے بعد تم مجھے رقم ادا کرو گے۔ رات ہونے تک میں یہیں وقت گزاروں گا، یہ کہتا ہوا کوسما اپنے گھوڑے سے اتر کر باغ میں آکر گھاس پر لیٹ گیا۔

    کوسما فراسینی پہنچا تو پوری بستی سورہی تھی۔ اس نے حویلی کے بیرونی دروازے پر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    کون ہے؟ اندر سے کسی نے پوچھا۔۔۔ دروازہ کھولو۔ کوسما نے حکم دیا۔

    تم ہو کون؟ اندر سے پھر استفسار کیا گیا۔ کھولو! کوسما گرجا۔ مزید سرگوشیاں سی ہونے لگیں کب تک انتظار کرنا پڑے گا؟۔۔۔ کوسما برہم ہوگیا۔

    نام بتاﺅ ورنہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ اندر سے آواز آئی۔

    نام سننا چاہتے ہو؟ اچھا۔۔۔ سنو، کوسما داکورے۔

    اندر خاموشی چھاگئی۔ پھر دروازے کی جھریوں سے روشنی کی کرن باہر آئی اور غائب ہوگئی۔ دوسرے ہی لمحے دروازے کی زنجیر بجی اور دروازہ کھل گیا۔ کوسما اعتماد سے اندر پہنچا اور گھوڑے سے اتر کر اندرونی دروازے کی جانب بڑھا۔ ملازموں میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اسے روکے۔ اندرونی دروازہ کھلا تھا کوسما درانہ اندر چلا گیا۔ دروازہ کھلا ہونے سے اس نے اندازہ لگایا کہ عورت دلیر معلوم ہوتی ہے۔

    راہ داری میں کوسما کے بھاری جوتے گونج پیدا کررہے تھے۔ معاً اندر کسی کمرے میں ہلکا سا شور ہوا کوسما چوکنا ہوگیا، اسی وقت راہ داری اچانک روشن ہوگئی۔ کوسما نے دیکھا کہ خواب گاہ کے دروازے پر سلطانہ کھڑی ہے۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے۔ وہ شب خوابی کا باریک سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔

    کون ہو تم؟ اور یہاں کس مقصد سے آئے ہو؟ سلطانہ نے سختی سے پوچھا۔

    میں کوسما ہوں اور رئیس نکولا کے لیے تمہیں لینے آیا ہوں۔ کوسما نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

    اچھا۔ سلطانہ نے اپنی تلوار اٹھائی۔

    میں ابھی سبق سکھاتی ہوں، تمہیں بھی اور تمہارے رئیس نکولا کو بھی۔

    کوسما پیچھے ہٹنے کے بجائے اس کے اور قریب ہوگیا، پھر اس نے چشم زدن میں عورت کی کلائی گرفت میں لے لی۔ تلوار عورت کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ وہ زور زور سے پکاری گبریل! نکولائی! دوڈو! دوڑو۔

    محافظ تیزی سے کوسما کی طرف بڑھے۔ کوسما ایک ہاتھ سے سلطانہ کو پکڑے ہوئے تھا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی اور آنکھوں میں چیتے جیسی چمک، اس کی خوں خواری دیکھ کر محافظ ٹھٹک گئے۔

    کوسما کے رعب نے انھیں مفلوج کردیا۔ انھیں رکتے دیکھ کر عورت نے ایک دم کوسما سے ہاتھ چھڑایا اور دیوار کی طرف لپکی، وہاں ٹنگی ہوئی تلوار کھینچ کر وہ اپنے آدمیوں پر چیخی۔

    بزدلو! کھڑے کیا ہو اسے باندھ دو۔

    مادام! کوسما نے تحمل سے کہا۔ آپ کیوں الفاظ ضایع کررہی ہیں، آپ کے نمک خوار آپ کی طرح بہادر نہیں ہیں۔
    سرکار! ایک ملازم نے ہکلا کے کہا۔ اسے ہم کیسے باندھ سکتے ہیں، یہ کوسما ہے۔۔۔ کوسما، اس پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔

    نوکروں سے مایوس ہو کے سلطانہ خود کوسما پر جھپٹ پڑی۔ کوسما نے بھی برق رفتاری کا مظاہرہ کیا اور سلطانہ کو آناً فاناً بے بس کرکے کسی بوری کی طرح اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ ملازم تتر بتر ہوگئے۔

    کوسما نے آگے بڑھتے ہوئے سوچا، واہ کیا عورت ہے؟ نکولا کی پسند واقعی قابل داد ہے۔

    باہر آکر کوسما گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ سلطانہ کو اس نے آگے بٹھالیا۔ مالک کا اشارہ ملتے ہی گھوڑا تاریکی میں سرپٹ دوڑنے لگا۔

    کچھ راستہ طے ہوگیا تو سلطانہ نے چہرہ موڑا اور مدھم چاندنی میں کوسما کو غور سے دیکھا۔
    گھوڑے کی رفتار اور تیز ہوگئی۔ سلطانہ کے بال ہوا میں لہرارہے تھے۔ وہ رہ رہ کے اپنے لٹیرے، اپنے ڈاکو کو دیکھ رہی تھی۔

    کوسما کے ہاتھ لوہے کی طرح مضبوط تھے اور سیاہ چمک دار آنکھیں پتھر کی طرح سخت تھیں۔ گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔ منزل نزدیک آتی جارہی تھی، چاند بادلوں میں تیر رہا تھا کبھی چھپ جاتا، کبھی سامنے آجاتا، دونوں خاموش تھے۔ سلطانہ پوری طرح کوسما کی طرف متوجہ تھی، مگر کوسما ایسے بیٹھا تھا، جیسے اس کے وجود سے بے خبر ہو۔

    منزل پر پہنچ کے درختوں میں ہلکی روشنی اور کچھ انسانی سائے نظر آئے۔ سلطانہ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟
    کوسما نے بتایا، نکولا اور اس کے ساتھی، یہ ہمارا انتظار کررہے ہیں۔

    سلطانہ خاموش ہوگئی۔ وہ کوسما کے بازوﺅں کے حصار میں تھی، اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے۔ اس نے تیزی سے دایاں ہاتھ بڑھا کے گھوڑے کی لگام تھامی اور بائیں کلائی کوسما کے گردن میں حمائل کردی، گھوڑا جھٹکا کھاکر رفتار کم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ سلطانہ نے کوسما کو سینے پر سَر رکھ کے سرگوشی کی۔

    مجھے کسی اور کو مت دو!

    کوسما نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا اور لگام ڈھیلی کردی۔ گھوڑے نے رخ موڑا اور تاریکی میں حرکت کرتے ہوئے سائے پیچھے چھوڑ کے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    (میخائل سیندو ویناﺅ کی اس کہانی کو صبیحہ علی نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے)