Tag: اردو ادب

  • قوّت

    قوّت

    مصنف: سجاد حیدر یلدرم

    گلی کے کنارے اس مجمع کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ مزدوروں کے، قلیوں کے، لڑکوں کے غول کے غول دوپہر کو وہاں کھیلتے ہوتے تھے، آپس میں الجھتے تھے، چیختے تھے، چلاتے تھے۔

    ایک دن میں اس راستے سے گزر رہا تھا۔ لڑکوں کا مجمع تو تھا مگر کھیل نہ تھا بلکہ لڑکے حلقہ باندھے کسی چیز کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مزے دار تماشا انہیں بہت لطف دے رہا تھا۔

    سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے دیکھا کہ جسے وہ اس ذوق و شوق سے دیکھ رہے تھے، وہ ایسا تماشا تھا جو غالباً ان کی تفریحِ طبع کے لیے روز ہوتا ہو گا۔

    ایک لڑکا جو سن میں سب سے زیادہ معلوم ہوتا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قریب قریب جوان ہو چکا تھا، متکبرانہ بیچ میں کھڑا تھا اور ایک چھوٹا لڑکا اس سے دست و گریبان ہو رہا تھا۔ بڑا لڑکا اس کو ہٹا رہا تھا اور غلیظ گالیاں دے دے کر اپنے سے علیحدہ کر رہا تھا۔

    چھوٹا لڑکا گھونسے کھا رہا ہے، بڑے لڑکے کے ہر جھٹکے پر زمین پر گر پڑتا ہے، ہر گھونسے اور ہر تھپڑ پر ہائے کی آواز اس کی جگر گاہ سے نکلتی ہے، مگر گر کے اٹھتا ہے، روتا جاتا ہے، رونے سے اور زمین پر گرنے سے اس کے بال، اس کا چہرہ خاک آلود ہو رہے ہیں، لیکن وہ پھر بڑے لڑکے سے غصے میں چمٹ جاتا ہے۔ ہچکیاں بندھ رہی ہیں، مگر کہے جاتا ہے۔

    میری ہے۔۔۔۔ لاؤ۔ یہ کہہ کر ایک قمچی کو بڑے لڑکے سے چھیننا چاہتا ہے۔

    ہر طلبِ حق کے مقابلے میں اسے ایک گھونسا، ایک لات ملتی ہے جسے کھا کر وہ لڑکھڑا کے پیچھے ہٹتا ہے، مگر پھر آگے آتا ہے۔ رونے اور چیخنے کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئی ہے۔ اس کا عجز و ضعف بڑھتا جا رہا ہے، لیکن اپنی قمچی اس سے واپس لینے کی کوشش کیے جا رہا ہے۔

    آخر کار اس پر ایسا لپّڑ پڑا جس سے وہ بھنّا گیا اور چکر کھا کر زمین پر گر پڑا۔ اب اس میں اٹھنے کی قوت بھی نہ رہی تھی، کم زوری سے زمین پر پڑا رو رہا تھا اور بڑے لڑکے کو گالیاں دے رہا تھا۔ اور وہ جبرو قہر سے حاصل کی ہوئی قمچی کو متفخرانہ انداز سے ہلا ہلا کے اس چھوٹی سی مخلوق کی جو حلقہ باندھے کھڑی تھی (اور جو قوت کے مقابلے میں عاجز کو ہیچ جانتی تھی) قہقہوں، تالیوں میں جھومتا ہوا چلا گیا۔

    عین اس وقت اس منظر کے اوپر سے ایک کوّا جس نے ایک آشیانِ شفقت میں گھس کر ابھی ابھی انڈوں کو پھوڑا تھا، اور انہیں کھا کر شکم سیر ہوا تھا، مصنوعی فرار کے انداز سے گزر رہا تھا، اور فیضِ مادرانہ میں بھری ہوئی ایک مینا، سادہ لوحی سے ٹھونگیں مارنے کی کوشش کر کے قوّت اور حیلے کو اپنے زعم میں مجروح کر رہی تھی۔

  • شہزادہ تاجُ الملوک اور گلِ بکاؤلی

    شہزادہ تاجُ الملوک اور گلِ بکاؤلی

    ایک بادشاہ زینُ الملوک کے پانچویں بیٹے کی پیدائش سے پہلے نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔

    بہرحال، بچے کا نام تاج الملوک رکھا جاتا ہے۔ ادھر طبیب بادشاہ کا اندھا پن کو دور کرنے کے لیے ایک پھول تجویز کرتے ہیں جسے گُلِ بکاؤلی کہتے تھے۔ وہ پھول پریوں کی شہزادی کے باغ میں مل سکتا تھا۔

    کہانی کے مطابق بعد میں یہی نوجوان شہزادہ تاج الملوک گل بکاؤلی حاصل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور اس کے لیے پریوں کی شہزادی جس کا نام بکاؤلی ہے، کے باغ میں داخل ہو جاتا ہے۔ شہزادہ وہاں سے یہ پھول چُرا لیتا ہے۔

    ادھر بکاؤلی اپنے پھول کی تلاش میں نکلتی ہے اور شہزادے تک پہنچ جاتی ہے جس نے دراصل اس کے باغ میں گھس کر چوری کی تھی، لیکن شہزادے پر پہلی ہی نظر ڈالتے ہی وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔

    کہانی آگے بڑھتی ہے جس میں بکاؤلی کی ماں اپنی بیٹی کو ایک آدم زاد کے ساتھ پاکر غضب ناک ہو جاتی ہے اور شہزادے کو زیرِ زمین قید کر دیتی ہے، لیکن اس کی ایک وفادار اس آدم زاد سے متعلق غلط فہمی دور کردیتی ہے اور آخر میں تاج الملوک اور بکاؤلی کی شادی ہو جاتی ہے۔

    یہ تحیر آمیز اور دل چسپ قصہ منثور نہیں بلکہ منظوم ہے۔ اس کلام کو ‘‘مثنوی’’ کہا جاتا ہے، یعنی ایک طویل نظم جس میں کوئی قصّہ یا کسی واقعے کو بیان کیا جاتا ہے۔

    یہ چند سطری خلاصہ دیا شنکر نسیمؔ کی مشہور مثنوی کا ہے۔

    ان کا تعلق کشمیری خاندان سے تھا۔ 1811 میں پیدا ہونے والے دیا شنکر کے استاد خواجہ حیدر علی آتش تھے۔ 1845 میں اس مشہور مثنوی کے خالق دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • مرزا غالب، مغربی دانش وروں کی نظر میں

    مرزا غالب، مغربی دانش وروں کی نظر میں

    نام وَر نکتہ شناس اور معنی آفریں شاعر غالب کی شخصیت اور شاعری کو بعض مغربی دانش وروں نے بھی قابلِ اعتنا سمجھا ہے، مگر ان قابلِ ذکر ناموں کے لیے ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی زیادہ ہیں۔

    لے دے کے الساندرو باﺅزانی، رالف رسل، نتالیہ پریگارنیا اور این میری شمل کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کا غالب کے فکر و فن پر تحریری سرمایہ قابلِ قدر ہونے کے باوجود اس امر کا متقاضی ہے کہ کوئی وسیع لسانی پس منظر رکھنے والا شعر شناس عالم اور ماہر غالبیات اس کا گہرا لسانی اور تجزیاتی مطالعہ کرکے بے لاگ انداز میں اپنے نتائجِ تحقیق پیش کرے۔

    این میری شمل کا شمار ممتاز جرمن مستشرقین میں ہوتا ہے، مگر غالب پر ان کی تحریریں بعض جہتوں سے فکر افروز ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی اطمینان بخش نہیں۔ خصوصاً بعض اردو اور فارسی اشعار کے ترجمے میں انھوں نے متعدد جگہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ کہیں کہیں یہ ترجمے مضحکہ خیز حد تک غلط ہیں۔ علاوہ ازیں ان تحریروں میں بعض واقعاتی غلطیاں بھی جا بجا ملتی ہیں۔

    قاری کو یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ شمل کا فارسی زبان و ادب کا مطالعہ ناقص ہے اور یہ احساس صرف غالب پر ان کی تحریروں تک محدود نہیں بلکہ بعض دیگر کتب کے مطالعے سے بھی ہوتا ہے۔

    این میری شمل جرمن استشراق کی روایت میں اِس اعتبار سے تو قابلِ توجہ قرار پاتی ہیں کہ ان کے علمی کاموں میں غیرمعمولی تنوع ہے، مگر متعدد ادبیات کے حوالے سے یہ کارنامے بہت سی خامیوں اور بعض صورتوں میں فاش غلطیوں کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔ کثرت نویسی کی یہ قیمت تو دینا ہی پڑتی ہے۔

    غالب سے این میری شمل کا لگاﺅ گمان ہے کہ اقبال سے گہرے معنوی تقرب کے نتیجے میں پیدا ہوا ہوگا۔ حقیقت جو بھی ہو، یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شمل کے غالب پر مطالعات کا زمانہ نہ صرف یہ کہ زیادہ طویل نہیں بلکہ خود یہ مطالعات ایک حد تک ہی اطمینان بخش کہے جاسکتے ہیں تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان مطالعات کے بعض مباحث بڑے عمدہ اور فکر کو مہمیز کرتے ہیں۔

    ( ممتاز نقاد، محقق اور شاعر ڈاکٹر تحسین فراقی کے ایک مضمون سے چند سطور)

  • سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    غفور علی مول تلا میں گوہر علی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک دن نہ جانے اسے کیا ہوا کہ کُدال لے کر سڑک کو دیوانہ وار توڑنے پھوڑنے لگا۔

    دیکھنے میں تو اس کا یہ فعل بڑا ہی مجنونانہ تھا، لیکن درحقیقت یہ کوئی اضطراری فعل نہ تھا۔ اس کے پیچھے حالات کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ ورنہ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سڑک گاؤں کے سب سے لوگوں نے مل جل کر بنائی تھی اور جس کے لیے خود گوہر علی نے اپنی زمین کا بہت سا حصہ دیا تھا، وہ اسی کو دیوانہ وار تباہ کرنے کی کوشش کرے۔

    مول تلا ان چھوٹے چھوٹے دیہات میں سے تھا جن کا جنگ سے پہلے باہر کی دنیا سے بہت کم میل جول تھا۔ اور لوگ وہی پرانے زمانے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کم ازکم سڑک بننے سے پہلے اس کی وضع اور ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور تھا تو بالکل برائے نام۔

    وہ ایک خاص وضع کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں ان کی اپنی ہی رسموں اور ریتوں کو دخل ہوتا تھا۔

    ایک مرتبہ اس گاؤں کا نوجوان اس زندگی سے دامن چھڑا کر باہر نکل گیا۔ جب وہ واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ روپیہ پیسہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا تصور اور بلند تر معیار زندگی بھی لے کر آیا۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ مول تلا کی ندیوں اور نہروں سے پرے، ایک جگہ ہے جسے ”شہر“ کہتے ہیں۔ زندگی کے بہتر پہلو سے روشناس ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شہروں اور بندرگاہوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ یہ مسئلہ فی الفور ایک سڑک تعمیر کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔

    اسی دن سے جناب علی حوالدار نے عہد کیا کہ اپنی ساری قوت اور ذرائع گاؤں کی ترقی پر صرف کرے گا۔ اس نے ڈسٹرکٹ بورڈ کو بھی سڑک بنانے پر آمادہ کرلیا ۔ گاؤں کے دوسرے مرفہ الحال لوگوں نے بھی بڑی سرگرمی سے سدھار کا بیڑا اُٹھایا جو ان کے خیال میں ضرور سماجی ترقی کا باعث ہوگا۔

    اس سلسلے میں زیادہ مشکل گوہر علی جیسے غریب کسانوں کے سبب پیدا ہوئی۔ جن کی زرعی زمینوں کا حصہ سڑک کی بھینٹ چڑھتا تھا۔ لیکن سڑک کے بارے میں دل میں عجیب و غریب تصورات کا ایک طلسم پیدا ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کب تک اس زمین کی معمولی سی پیداوار کو دانہ دانہ کرکے چُنتا رہے گا۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ وہ نئی زندگی کا خیر مقدم کرے۔ گھر واپس جاکر اس نے اپنی بیوی کو بھی اس زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

    آخر کار سڑک تعمیر ہوگئی۔ لوگوں نے شہر آنا جانا شروع کردیا۔ جب سڑک کا پہلا پہلا طلسمی اثر دور ہوگیا تو لوگ سڑک کے کنارے اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے لگے۔ اس کے کنارے بیٹھ کر حقہ پیتے اور گپیں ہانکتے۔ ادھر بعض نوجوان گاؤں کو چھوڑ کر دھن دولت کی تلاش میں شہر کو روانہ ہوجاتے۔

    ایک دن گوہر علی نے سج دھج کر تین دن کے لیے شہر میں رہنے کو چل پڑا۔ واقعی شہر کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی گئی تھیں۔ وہ بالکل صحیح تھیں۔ اس میں ایسے لوگ بستے تھے جن کی زندگیاں خوشی اور خوش نصیبی سے بھرپور تھیں، لیکن اس کے باوجود دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔

    ان لوگوں کو سمجھنا، ان کے دل کی تہ تک پہنچنا دشوار تھا۔ انھیں اس جیسے غریبوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اور کوئی اس سے ایک دو منٹ بھی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔

    گوہر علی نے پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ شہروں میں ہر بات پیسے کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ تیسرے دن وہ شہر کے خلاف بڑی نفرت اور غصے سے بھرا ہوا دل لے کر گاؤں واپس چلا آیا۔

    وہ خیالات میں کھویا رہا۔ آخر فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کی بنیاد دولت ہی پر رکھے۔ چنانچہ اس نے ایک کام شروع کردیا۔ ایک دن ہاجرہ کو کہنا ہی پڑا، ”اے میاں! جس طرح تم نے بے تحاشا چیزیں بیچنی شروع کردی ہیں کچھ عجب نہیں کہ ایک دن میں بھی بکاؤ مال میں شامل ہو جاؤں۔“

    گوہر علی اب دونوں ہاتھوں سے دھن کما رہا تھا۔ تین سال میں اس کی کٹیا پر ٹین کی چھت پڑ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی طرف آمد و رفت بھی شروع ہوگئی۔ دیہاتیوں کی سیدھی سادی زندگی میں سازش اور مکاری بھی شامل ہوگئی۔

    سڑک کے دونوں طرف کتنے ہی گلی کوچے بن گئے جن میں خدا جانے کتنے ہیر پھیر تھے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن کسی شخص کی چند گائیں چرتی چرتی کسی اور کے کھیت میں جا نکلیں۔ جس پر جھگڑا ہوگیا اور ایک آدمی مارا گیا۔

    جب تک جناب علی کو اس کی خبر ہو اور وہ موقع واردات پر پہنچے۔ سڑک کا کافی حصہ بھی نابود ہوچکا تھا کیوں کہ لڑنے والوں نے اس کے اکھڑے اکھڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔

    جناب علی نے سب کو بلایا اور کہا ”کیا ہم نے سڑک اسی لیے بنائی تھی؟ ارے گنوار وحشیو!“ لیکن اس کے الفاظ کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ سب تو تھانے، عدالت اور مقدمے کی فکر میں تھے۔

    اسی اثنا میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ جو کچھ گزشتہ کئی صدیاں نہیں کرسکی تھیں، وہ انگریزوں کی دو سو سال کی حکومت نے کر دکھایا۔

    اناج کا بھاؤ تیزی سے چڑھنے لگا۔ زندگی کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے سڑک کے راستے قحط بھی آن پہنچا اور چور بازاری اور اس قسم کے اور وتیرے بھی ریلے مار مار کر آنے لگے۔ ان کی امڈتی ہوئی موجیں اپنے ساتھ امن کو بہا لے گئیں۔

    ساتھ ہی سرکاری حکام سڑک کے راستے گاؤں میں آنے لگے۔ یہ لوگ اپنی جیبیں رشوتوں سے بھر بھر کر واپس جاتے۔ شہر کے ایک بڑے رئیس کا باورچی لطفو ایک شخص اصغر اللہ کی جوان بیٹی کلثوم کو لے بھاگا۔

    فوجیوں کی رسد کے لیے ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ سبزیاں، ترکاریاں، لکڑی، کاٹھ اور مرغیاں وغیرہ لینے آتے۔ گوہر علی کی ان میں سے ایک کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ گوہر علی بڑی مشکل میں تھا۔ اس نے سوچا کہ اپنے نئے دوست کے اثر و رسوخ سے آمدنی بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کرے۔ لیکن اس کی کوششوں کے باوجود کچھ بھی بن نہ پڑا۔ صرف ایک صبح ہاجرہ گھر سے کہیں غائب ہوگئی۔ وہ دوست اس کے بعد کبھی دکھائی نہ دیا۔

    پوچھ گچھ کرنے پر سات میل دور ایک کسان سے پتا چلا کہ اس نے ایک دن صبح سویرے ایک عورت کو کسی مرد کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

    قحط نے گوہر علی کو ظاہری حیثیت سے پہلے ہی قلاش کردیا تھا۔ اب وہ روحانی طور پر بھی قلاش ہوگیا۔ ایک دن گاؤں میں خبر مشہور ہوگئی کہ گوہر علی اپنی بیوی کے چلے جانے پر دیوانہ ہوگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنے کے لیے دوڑ دوڑ کر آنے لگے۔

    گوہر علی سڑک پر اندھا دھند کدال پر کدال برسا رہا تھا۔ سب پوچھنے لگے یہ کیا کر رہا ہے؟“ اس نے کدال روکے اور آنکھیں اٹھائے بغیر جواب دیا۔

    ”اس سڑک کا صفایا کر رہا ہوں۔“

    ”وہ کیوں؟“

    اس لیے کہ اس سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی۔ اسے ہرگز نہیں بننا چاہیے تھا۔“

    گوہر علی نے کدال سے تابڑ توڑ چوٹیں برساتے ہوئے یہ الفاظ کچھ اس طرح کہے گویا وہ اپنے دل سے کوئی بات کررہا ہو۔

    (ابوالکلام شمس الدین کے بنگالی زبان کے افسانے کا ترجمہ)

  • جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    اس کی دل چسپی جادوئی کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں تھی۔

    جب وہ بچہ اس قابل ہوا کہ ذہن کے پردے پر کوئی تصویر بنا سکے یا کچھ سوچ سکے تو انوکھی اور انجانی دنیا آباد کر لی جس میں عجیب و غریب کردار سامنے آتے، جادوئی اور پُراسرار واقعات رونما ہوتے اور وہ چشمِ تصور سے ان کا نظارہ کرتا۔

    اس بچے نے شعور اور آگاہی کی مسافت طے کی تو خود اُس پر کھلا کہ قلم کی طاقت سے وہ اپنے بچپن کے اُن خوابوں کو تعبیر دے سکتا ہے۔ تب اس نے اپنے تخیل کا سہارا لیا اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، یہ ہرمن ہیسے کا تذکرہ ہے جو اپنے جادوئی اسلوب کی بدولت دنیا بھر کے ادبیوں میں سب سے ممتاز اور مقبول ترین ہے۔

    ہرمن ہیسے کی تاریخِ پیدائش 20 جولائی 1877 ہے۔ اس نے جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کے کٹر مذہبی اور روایات کے پابند گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدین تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزار دیتے اور وہ گھر میں تنہا رہ جاتا اور پھر مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔

    نوعمری میں اس نے کتابوں کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا جس کے سبب مطالعے کا شوق پروان چڑھا۔

    ہرمن ہیسے نے شاعری بھی کی، مگر نام وری اور وجہ شہرت فکشن کا میدان ہے۔ وہ 25 سال کے تھے جب ان کا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے توجہ نہ ملی. 1905 میں ان کا ناول Beneath the Wheel شایع ہوا اور ادبی حلقوں کی توجہ سمیٹی۔ ہرمن ہیسے نے افسانوی کہانیاں‌ بھی تخلیق کیں جن میں یورپ کے معاشرتی رویوں اور اخلاقی قدروں کو موضوع بنایا اور ان کو کھوکھلا اور بگڑتا ہوا پیش کیا۔

    The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    سدھارتھ 1922 میں شایع ہوا تھا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ مقبول ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ دست یاب ہے۔ 1946 میں اس عظیم تخلیق کار کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    آخری عمر میں ہرمن ہیسے گوشہ نشیں ہو گئے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے صدر دروازے پر لکھوا دیا تھا کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔

  • دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا!

    دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا!

    دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب جی چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہو کر رات کو فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سو گئے۔

    آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے۔ سال میں کئی کئی پھیرے لاہور کے ہوجاتے تھے۔ لاہور ادیبوں کی منڈی تھا۔

    سر سید نے انھیں زندہ دلانِ پنجاب کہا اور واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس خطے میں زندگی ابلتی ہے اور گنگناتی گاتی پھرتی ہے۔ کتنا خلوص تھا یہاں کے لوگوں میں اور کتنی محبت۔ ٹوٹ کر ملتے، ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سر آنکھوں پر بٹھاتے۔

    ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ ان میں تیر میر نہیں آئی تھی۔

    ادیب اور شاعر نرے ادیب اور شاعر ہی تھے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ آرٹسٹ کا مذہب تو آرٹ ہی ہوتا ہے۔ اب کی مجھے خبر نہیں، یہ کوئی سترہ اٹھارہ سال ادھر کی باتیں۔ اب تو زمین آسمان ہی بدل گئے تو بھلا ادب و شعر کی قدریں کیوں نہ بدلی ہوں گی؟ خیر، کچھ ہو گا۔ یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا نہیں۔

    ہاں تو اچھے وقت تھے، اچھے لوگ تھے۔ ان سے مل کر جی خوش ہوتا تھا، ایک بار ملے، دوبارہ ملنے کی ہوس۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بعض کے ساتھ برسوں یک جائی رہی اور جی نہیں بھرا۔ بلکہ ان سے بے ملے چین نہیں پڑتا تھا۔

    بے غرض ملتے، جی کھول کر ملتے۔ اجلی طبیعتیں تھیں۔ بعض دفعہ بڑی ناگوار باتیں بھی ہو جاتیں، مگر کیا مجال جو آنکھ پر ذرا بھی میل آجائے۔ تم نے ہمیں کہہ لیا، ہم نے تمھیں کہہ لیا، ایلو، دل صاف ہو گئے۔ اچھے لوگوں میں یہی ہوتا ہے۔ زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ جب تک بندھن بندھا ہوا ہے، بندھا ہوا ہے، جب ٹوٹا ساری تیلیاں بکھر گئیں۔ جو دم گزر جائے غنیمت ہے۔ اب وہ دن جب بھی یاد آتے ہیں تو دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ یہی کیا کم عذاب تھا کہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، اب سناؤنی سننے کو کہاں سے پتھر کا دل لاؤں۔

    بڈھے مرے، انھیں تو مرنا ہی تھا۔ میر ناصر علی مرے، ناصر نذیر فراق مرے، میر باقر علی داستان گو مرے، علامہ راشد الخیری مرے، مولانا عنایت اللہ مرے، کس کس کو گناؤں۔ ایک ہو تو بتاؤں۔

    شاہد احمد دہلوی کی باتیں اور یادیں، ان کی کتاب گنجینہ گوہر سے انتخاب

  • وہ لمحہ جب اقوامِ متحدہ کا جنرل سیکریٹری اپنی ماں‌ سے ملا

    وہ لمحہ جب اقوامِ متحدہ کا جنرل سیکریٹری اپنی ماں‌ سے ملا

    اوتھانٹ، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری، لاہور آئے۔

    ان کا استقبال کرنے والوں میں‌،میں بھی شامل تھا۔ انھوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔

    اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔ وہ سوال پوچھتے رہے۔ اوتھانٹ ٹالتے رہے۔ میں دیکھتا اور سنتا رہا۔

    یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔ بے معنی جملے جو بے ایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔ بے وزن باتیں جنھیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔ بے وجہ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔

    ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیر اعظم کہتے ہیں۔ یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں ‌کر سکتا۔ آٹو گراف بُک جیب میں ‌ہی پڑی رہی اور دوسرے دن ان کا جہاز جاپان کے شہر ناگوما چلا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گزر گئی۔

    میں جاپان کے اسی شہر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔ میں نے جب اسے کھولا تو اس میں ‌اوتھانٹ کی تصویر تھی۔

    وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔ یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔ تصویر میں ‌ایک دبلی پتلی سی بڑھیا اونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے۔ معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں۔ سادہ سی صورت اور اس پر بہت سی جھریاں۔ چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔

    اس کے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو بھول چکا ہوں اور اب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں‌ تاکہ وہ میری آٹو گراف بُک پر اپنے دستخط کر دے۔

    (مختار مسعود کی کتاب آواز دوست سے انتخاب)

  • جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگر میر مہدی مجروح تھے۔

    غالب انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے اور اپنا فرزند کہتے تھے۔

    ایک روز میر مہدی مجروحؔ اپنے استاد اور محسن مرزا غالب کے کمرے میں‌ داخل ہوئے تو دیکھا کہ استاد صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ مجروح‌ ان کے پاؤں دابنے بیٹھ گئے۔

    مرزا صاحب نے کہا، بھئی تُو سید زادہ ہے، اس طرح‌ مجھے کیوں گناہ گار کرتا ہے؟

    میر مہدی مجروح کے دل میں‌ جانے کیا آئی کہ بولے، آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجیے گا۔

    اس پر استاد نے کہا، ہاں اس میں مضائقہ نہیں۔

    مجروح‌ پیر داب کر اٹھے تو ازراہِ تفنن مرزا صاحب سے اجرت طلب کی۔

    سچ ہے استاد تو استاد ہی ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے شاگرد کی بات سنی اور ان کی طرف دیکھ کر بولے۔

    بھیا کیسی اجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے، میں نے تمہارے پیسے دابے۔ یوں‌ حساب برابر ہوا۔

  • میانوالی جیل کی پُرلطف محفلیں

    میانوالی جیل کی پُرلطف محفلیں

    مولانا عبدالمجید سالک 1922 میں تحریکِ خلافت کے سلسلے میں میانوالی جیل میں اسیر تھے۔

    اس جیل میں نہ صرف وہ بلکہ مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا اختر علی خاں، مولانا داؤد غزنوی، مولوی لقاءُ اللہ پانی پتی، مولانا سید عطاءُ اللہ شاہ بخاری اور مولوی عبدالعزیز انصاری بھی مقید تھے۔

    سالک صاحب مولانا احمد سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ عالمِ دین اور شیوہ بیاں خطیب ہونے کے باوجود ہم لوگوں میں بیٹھ کر دن بھر لطیفہ بازی کیا کرتے تھے بلکہ جب ہم رات کو وقت گزاری اور تفریح کے لیے قوّالی کرتے تو مولانا اس مجلس میں صدر کی حیثیت سے متمکن ہوتے۔

    مولانا داؤد غزنوی اور مولوی عبدالعزیز انصاری بعض اوقات حال کھیلتے کھیلتے مولانا کی توند پر جا پڑتے۔ مولانا ہنستے بھی جاتے اور بُرا بھلا بھی کہتے جاتے۔

    ایک دفعہ ہم نے مولانا کو ایک گیت سنانے پر مجبور کر دیا۔ مولانا نے بڑے مزے لے لے کر گایا۔

    یہاں ہماری زندگی کا ایک خاص انداز شروع ہوا۔ میں نے اور عبدالعزیز انصاری صاحب نے مولانا احمد سعید سے عربی صَرف و نحو، ادب اور منطق کا سبق لینا شروع کیا۔ ایک آدھ گھنٹے پڑھ لیتے، پھر ایک دو گھنٹے آموختہ دہراتے اور اردو سے عربی میں ترجمہ کر کے مولانا کو دکھلاتے۔

    مولانا کا اندازِ تدریس اگرچہ وہی اساتذہ قدیم کا سا تھا، لیکن وہ اس میں خاص دل آویزی پیدا کردیتے تھے جس سے بیزاری اور ناگواری کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا اور ہم لوگ بے تکان پڑھتے چلے جاتے تھے۔

    راوی: عبدالمجید قریشی

  • جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    ہمارے ایک ٹیچر مشتاق نامی لڑکے سے بہت بیزار تھے۔

    مشتاق کا کمال یہ تھا کہ اسے جو بھی مضمون لکھنے کو کہتے وہ اس میں کہیں نہ کہیں سے "میرا بہترین دوست” ضرور فٹ کردیتا تھا جو اسے فَر فَر یاد تھا۔

    مثال کے طور پر اسے کہا جاتا کہ ریلوے اسٹیشن پر مضمون لکھ دو تو وہ یوں لکھتا کہ میں اور میرے ماں باپ چیچو کی ملیاں جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن گئے، وہاں گاڑی کھڑی تھی اور گاڑی میں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے، اس کے تین بہن بھائی ہیں، اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    اگر اسے "میرا استاد” مضمون لکھنے کو کہتے تو وہ لکھتا۔

    ماسٹر افتخار میرے پسندیدہ استاد ہیں۔ ایک روز میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو وہاں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں۔ اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    ظاہر ہے جب کرکٹ میچ یا پکنک کی باری آتی تو وہاں بھی زاہد حسین موجود ہوتا ہے۔ تنگ آکر ماسٹر صاحب نے کہا کہ دیکھو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر جگہ تمھارا دوست زاہد حسین موجود ہو۔ آج تم ہوائی جہاز پر مضون لکھو اور یاد رکھو ہوائی جہاز میں زاہد حسین موجود نہیں ہونا چاہیے۔

    دوسرے دن مشتاق نے مضمون لکھا وہ اس طرح تھا۔

    میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایئرپورٹ گیا۔ وہاں جہاز کھڑا تھا، ہم اس میں بیٹھ گئے۔ جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا۔ پھر جہاز اڑنے لگا۔ میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو زمین پر میرا بہترین دوست زاہد جا رہا تھا۔ زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی……