Tag: اردو ادب

  • داد اور دادا!

    داد اور دادا!

    لکھنؤ میں ایک روز میر اور سودا کے کلام پر دو اشخاص میں تکرار ہو گئی۔

    دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ بحث طول پکڑ رہی تھی اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا۔ تب دونوں خواجہ باسط کے پاس پہنچے اور اپنا معاملہ ان کے سامنے رکھا۔

    ”اس پر آپ کچھ فرمائیں۔“ انھوں نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔

    ”دونوں صاحبِ کمال ہیں، مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام ’آہ‘ اور مرزا صاحب کا کلام’واہ‘ ہے۔ یہ کہہ کر میر صاحب کا شعر بھی پڑھ ڈالا۔

    سرہانے میر کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    اس کے بعد مرزا کا شعر پڑھا۔

    سودا کی جو بالیں پہ گیا شورِ قیامت
    خدامِ ادب بولے، ابھی آنکھ لگی ہے

    ان میں سے ایک شخص، جو سودا کا طرف دار تھا، ان کے پاس پہنچا اور اپنی تکرار اور خواجہ باسط سے ملاقات کا احوال بھی بیان کر دیا۔ سودا نے جب میر کا شعر سنا تو مسکرائے اور بولے۔

    ”شعر تو میر صاحب کا ہے، مگر داد خواہی ان کے دادا کی معلوم ہوتی ہے۔“

  • میونسپل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پارسائی

    میونسپل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پارسائی

    منیر الٰہ آبادی بڑے شریف اور ہنس مکھ انسان تھے۔ میونسپل اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اور ہمیشہ شیروانی اور ٹوپی میں نظر آتے تھے۔ اچھے شاعر تھے۔ ایک بار بمبئی میں چھوٹا سونا پور کے علاقے میں مشاعرہ تھا جس کی وہ صدارت کر رہے تھے۔ اتفاق سے بمبئی کے مشہور شاعر آوارہ سلطان پوری عین اس وقت پہنچے جب منیر صاحب اپنی غزل سنا رہے تھے.

    انھوں نے شعر پڑھا۔
    تقدس تری بزم کا توبہ توبہ
    یہیں تو مری پارسائی گئی ہے

    آوارہ سلطان پوری نے داد دیتے ہوئے مکرر فرمائش کی اور کہا

    واہ استاد پھر سنائیے: تقدس تری بزم کا اللہ اللہ

    منیر صاحب نے مصرع سنا تو فوراً سمجھ گئے اور ان کی اس دل نشیں انداز سے کی گئی اصلاح کو قبول کرتے ہوئے یوں شعر سنایا۔

    تقدس تری بزم کا اللہ اللہ
    یہیں تو مری پارسائی گئی ہے
    راوی: سلمان غازی

  • امورِ خانہ داری: میز پوش سینے اور کپڑے دھونے کا انوکھا طریقہ!

    امورِ خانہ داری: میز پوش سینے اور کپڑے دھونے کا انوکھا طریقہ!

    میز پوش سینا

    جس میز کے لیے پوش درکار ہوں، اس کا ناپ لو۔
    بہتر ہو گا کہ کپڑے کو میز پر پھیلا کر لمبائی چوڑائی کے مطابق وہیں قینچی سے قطع کر لیا جائے۔
    اب ہاتھ یا پاؤں سے چلنے والی سلائی کی مشین منگاؤ۔ سوئی میں دھاگہ پرو کر میز پوش کے ایک کونے سے سلائی شروع کرو اور سیتی چلی جاؤ حتیٰ کہ وہی کونا آ جائے جہاں سے بخیہ شروع کیا تھا۔
    اب میز پوش کو استعمال کے لیے تیار سمجھو۔ اگر سیتے وقت سارے کپڑے کے دو چکر لگ جائیں تو دگنا پائیدار میز پوش تیار ہو گا۔ ضرورت کے مطابق بعد میں کسی سے بیل بوٹے کڑھوائے جا سکتے ہیں۔

    کپڑے ڈرائی کلین کرنا

    مناسب کپڑے چُن کر ایک سمجھ دار ملازم کے ہاتھ ڈرائی کلین کی دکان پر بھجوا دو۔
    بھیجنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ صرف وہی کپڑے بھیجو جنہیں بعد میں پہچان سکو۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کپڑے واقعی ڈرائی کلین کیے گئے ہیں ایک بڑی آزمودہ ترکیب ہے۔
    کپڑوں کو سونگھ کر دیکھو، اگر پٹرول کی بو آ رہی ہو تو سمجھ لو ٹھیک ہے۔ اب کپڑے ڈرائی کلین ہو چکے ہیں اور انہیں فوراً استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
    (ایک شگفتہ تحریر، معروف مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے)

  • سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تذکرہ

    سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تذکرہ

    سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کے یومِ پیدائش پر آج مداح ان کی یاد تازہ کررہے ہیں۔ قتیل شفائی کی شاعری پڑھی جارہی ہے اور ان کے مقبول گیت سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    الفت کی نئی منزل کو چلا، حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں، بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں، ستارو تم تو سو جاؤ جیسے لازوال گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تعلق ہری پور سے تھا۔ وہ 24 دسمبر 1919 کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا۔ شاعری کا سلسلہ شروع ہوا تو قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔ یہ 1938 کی بات ہے۔

    قتیل کی مقبولیت کی ایک وجہ سادہ انداز اور عام فہم شاعری ہے۔ پاکستان کے معروف گلوکاروں کی آواز میں قتیل شفائی کی غزلیں اور رومانوی گیتوں کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    انھوں نے نغمہ نگاری کا آغاز فلم تیری یاد سے کیا تھا جب کہ غزل اور دیگر اصنافِ سخن میں بھی اپنے جذبات اور خیالات کو سادہ اور نہایت پُراثر انداز سے پیش کیا۔ دنیا بھر میں قتیل شفائی اردو شاعری کا ایک مستند اور نہایت معتبر حوالہ ہیں۔

    1994 میں قتیل شفائی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا جب کہ آدم جی ایوارڈ، امیر خسرو ایوارڈ سمیت دیگر اہم ایوارڈ بھی ان کے نام ہوئے۔

  • مقتول کو مفتون پڑھنے والے دیوان سنگھ کی کہانی

    مقتول کو مفتون پڑھنے والے دیوان سنگھ کی کہانی

    1924 میں سردار دیوان سنگھ مفتون نے دہلی سے اپنا مشہور ہفتہ وار با تصویر اخبار ”ریاست“ نکالا جو اپنے مواد اور ہیئت یا صورت و سیرت دونوں کے لحاظ سے اعلیٰ پائے کے انگریزی جرائد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا تھا۔

    یہ اخبار جسے اردو صحافت میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے سال ہا سال تک نکلتا رہا۔ صحافت میں سردار دیوان سنگھ مفتون اس قول پر پوری ایمان داری سے عمل پیرا تھے کہ ”اخبار نویس دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے پیدا ہوا ہے جو مصائب میں مبتلا ہوں۔ ان لوگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں جو عیش و آرام میں زندگی بسر کررہے ہوں۔“ چنانچہ ان کا اخبار ”ریاست“ مظلوموں کی پناہ گاہ تھا۔

    ستم رسیدہ لوگ اپنی شکایتیں لے کر ان کے پاس پہنچتے تو وہ یہ تحقیق کرلینے کے بعد کہ ان کی شکایت صحیح ہے ان کی حمایت پر کمر بستہ ہوجاتے۔ ”ریاست“ نے دیسی ریاستوں اور رجواڑوں کے حکم رانوں کی سیاہ کاریوں اور سازشوں، حکومت اور پولیس کی چیرہ دستیوں اور معاشرے کی نا ہمواریوں اور ظلم و جبر کو آشکارا کرکے اردو صحافت میں آزادیِ رائے اور بے لاگ تنقید و احتساب کی ایک روشن روایت قائم کی۔

    دیوان سنگھ مفتون نے زندگی کے ہفت خواں طے کرنے کے لیے مختلف کام سیکھے اور مختلف پیشے اختیار کیے۔ ساتھ ساتھ حصولِ علم کے لیے ذاتی مطالعہ بھی جاری رہا۔ پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوا اور اس شوق کے طفیل صحافت کا ایسا چسکا پڑا کہ پھر ساری عمر کے لیے اِسی کے ہوکر رہ گئے۔ سید جالب دہلوی اور خواجہ حسن نظامی جیسے جید صحافیوں سے انھوں نے صحافت کے گُر بڑی کھکھیڑ اٹھاکر سیکھے اور خود اپنی محنت اور تگ و دو سے اردو صحافت میں تاریخ ساز کارنامے انجام دیے۔

    یہاں یہ اَمر آپ کی معلومات میں دل چسپی میں اضافے کا باعث ہوگا کہ سردار دیوان سنگھ کے ساتھ”مفتون“ کا لاحقہ کیسے لگا۔ کہیں آپ اسے ان کا تخلص تو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں وہ خواجہ حسن نظامی کے صحافت میں شاگرد تھے ان کی کسی تحریر پر اصلاح دینے کے بعد خواجہ صاحب نے، جو خاصے بزلہ سنج واقع ہوئے تھے، ایک تہدیدی نوٹ لکھا جس میں انھیں مخاطب کرتے ہوئے ان کے نام دیوان سنگھ کے ساتھ ”مقتول“ کا لاحقہ لگا دیا۔ انھوں نے ”مقتول“ کو ”مفتون“ پڑھا اور اسے استاد کی طرف سے اپنی عزت افزائی سمجھتے ہوئے اپنے نام کا مستقل جزو بنالیا۔
    (خلیق ابراہیم خلیق کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    مصنف: عبداللطیف ابوشامل

    ان کے ابُو جنھیں وہ بہت پیار سے پاپا کہتے تھے کسی ہنگامے میں تو نہیں مرے تھے، رات کو اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر گھر آرہے تھے کہ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار انھیں کچلتی ہوئی ہوا ہوگئی اور وہ دم توڑ گئے۔
    جب وہ صبح سویرے اپنی موٹر سائیکل کو ککیں مار کر بے حال ہوکر زمین پر بیٹھ جاتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کب اس کھٹارے کا پیچھا چھوڑیں گے؟ تو وہ مسکرا کر کہتے تھے:
    ”بس اسٹارٹ ہونے میں ضد کرتی ہے ویسے تو فرسٹ کلاس ہے، بڑا سہارا ہے اس کا، ورنہ تو بسوں کے انتظار اور دھکوں سے ہی دم توڑ دیتا۔“
    آخر موٹر سائیکل ایک بھیانک آواز سے دم پکڑتی اور وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ گلے میں ڈالتے اور پھر رخصت ہوجاتے۔
    بہت محتاط تھے وہ۔ بہت عسرت سے جیتے تھے۔ بہت سلیقہ مند بیوی ہے ان کی۔ عید پر رات گئے گھر آتے تو میں پوچھتا:
    ”آج دیر ہوگئی۔“ ”ارے یار وہ چھوٹی والی ہے نا اس کی جیولری لے رہا تھا، وہ دو دن میں خراب ہوجاتی ہے، لیکن چھوٹی ضد کرتی ہے۔“
    بس اسی طرح کی زندگی تھی ان کی۔ اور پھر ایک دن وہ روٹھ گئے۔ مرنے سے ایک دن پہلے ہی تو انھوں نے مجھ سے کہا تھا:
    ”کچھ پیسے جمع ہوگئے ہیں، سوچ رہا ہوں اپنے ”گھوڑے“ کی فرمائش بھی پوری کر دوں، کچھ پیسے مانگ رہی ہے موٹرسائیکل۔“
    بندہ فرمائشیں پوری کرتے کرتے بے حال ہو جاتا ہے، لیکن خوش بھی کتنا ہوتا ہے! اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔
    تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوہ۔ تین دن تو ٹینٹ لگا رہا اور عزیزوں کا جمگھٹا…. اور پھر زندگی کو کون روک سکا ہے! سب آہستہ آہستہ رخصت، گھر خالی، تنہائی، خدشات اور نہ جانے کیا کیا خوف۔ بیٹے نے رب کا نام لیا اور پھر ایک دفتر میں معمولی سی نوکری کرلی۔ اٹھارہ سال کا نوجوان جس نے ابھی فرسٹ ایئر کا امتحان دیا تھا۔ اور کیا کرتا! ماں نے سلائی مشین سنبھالی اور پھر زندگی سے نبرد آزما تھے وہ سب۔ بڑی بیٹی نے جیسے تیسے میٹرک کیا اور ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے لگی۔ چھوٹی والی ٹیوشن پڑھاتی اور تیسری تو بہت چھوٹی تھی، ہنستی، کھیلتی بچی جو ہنسنا کھیلنا بھول گئی تھی۔
    بڑی بیٹی ایک دم بوڑھی ہوگئی تھی۔ ایک دن میں نے بڑی سے پوچھا:
    مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ پھر تو سیلاب تھا. ”کیا کیا بتاؤں، صبح جاتی ہوں تو عجیب عجیب آوازیں، بے ہودہ فقرے، بسوں کے دھکے، اور پھر فیکٹری میں تو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا، واپس آؤ تو کئی کاریں قریب آجاتی ہیں، جن میں بیٹھے لوگ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔“
    ”جینا سیکھو“ بس میں اتنا کہہ سکا تھا۔ چھوٹی والی اسکول میں پڑھاتی تھی جس سے رجسٹر پر درج تنخواہ پر دست خط کرا کر اس سے نصف بھی نہیں دی جاتی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد سب کے سب زندگی سے نبرد آزما۔ کیا کیا مرحلے آئے ان پر! جی جانتا ہوں میں لیکن کیا کریں گے آپ سن کر؟
    میرا بدنصیب شہر نہ جانے کتنے جنازے دیکھ چکا ہے اور کتنے دیکھے گا، اس کی سڑکیں خون سے رنگین ہیں اور اس کے در و دیوار پر سبزہ نہیں خون ہی خون ہے۔ قبرستان بس رہے ہیں، شہر اجڑ رہا ہے۔ اب تو کوئی حساب کتاب بھی نہیں رہا کہ کتنے انسان مارے گئے۔ اور شاید یہ کوئی جاننا بھی نہیں چاہتا۔
    تحقیق و جستجو اچھی بات ہے، ضرور کیجیے۔ چاند ستاروں پر تحقیق کیجیے۔ زمین پر انسانیت کا قتل عام کیجیے اور چاند اور مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیجیے۔
    مجھ میں تو تحقیق کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کوئی لکھا پڑھا آدمی ہوں۔ آپ میں تو ہے، تو کبھی اس پر بھی کوئی تحقیقی ادارہ بنا لیجیے۔ اس پر بھی اپنی محنت صرف کر لیجیے۔ ساری دنیا کو چھوڑیے، پہلے اپنی تو نبیڑ لیجیے۔ صرف اس پر تحقیق کر لیجیے کہ اس شہر ناپرساں و آزردگاں میں کتنے انسان بے گناہ مارے گئے اور اب ان کے اہل و عیال کس حال میں ہیں؟ وہ زندگی کا سامنا کیسے کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی کیفیت کیا ہے، وہ کن مشکلات کا شکار ہیں؟ لیکن یہ کام کرے کون….؟
    اچھا ہے معصوم یتیم بچے کسی ہوٹل یا گیراج میں ”چھوٹے“ کہلائیں گے۔ ہماری جھڑکیاں سنیں گے۔ بیوہ ہمارے گھر کی ماسی بن جائے گی یا گھر گھر جاکر کپڑے لے کر انھیں سیے گی۔ جوان بہنیں دفتر یا فیکٹری کی نذر ہوجائیں گی، بھوکی نگاہیں انھیں چھیدیں گی، اور بدکردار کہلائیں گی۔ ان کے کانوں میں آوازوں کے تیر پیوست ہوتے رہیں گے۔ بوڑھا باپ کسی سگنل پر بھیک مانگے گا اور ماں دوا نہ ملنے پر کھانس کھانس کر مر جائے گی اور، اور، اور….
    اچھا ہی ہے، ہمیں چند ٹکوں میں اپنے کام کرانے کے لیے افرادی قوت میسر آجائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اچھا یہ ہے کہ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ہمیں کھل کھیلنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے اور ہم ٹھاٹ سے جیے جائیں گے۔
    پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔ اے دانش ورو، اے منبر و محراب سجانے والو! تمہارے لیکچر، تمہارے پند و نصائح اور تمہاری ”حق گوئی“ کسی ایک کا پیٹ نہیں بھر سکتی، چاہے کتنی محنت سے اپنے مقالات لکھو، چاہے کتنی قرأت سے وعظ فرمالو۔ پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔
    وہ دیکھ رہا ہے، تو بس پھر کیا ہے، خالق و مالک تو وہی ہے، ہم کیا کہیں گے اس سے کہ جب مظلوم کا خون آلود جسم مٹی چاٹ رہا تھا تب ہم کیا کر رہے تھے!
    نہیں رہے گا کوئی بھی، میں بھی اور آپ بھی، بس نام رہے گا اللہ کا۔
    فقیروں سے خوشامد کی کوئی امید مت رکھنا
    امیرِ شہر تو تم ہو‘ خوشامد تم کو کرنا ہے

  • غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    ایک دن شام کو اپنے کوارٹر کی دیوار پر ایک قلمی پوسٹر چسپاں دیکھا جس میں بزمِ بہارِ ادب کے ماہانہ مشاعرے کا زیرِ صدارت حضرت بہار کوٹی، ان کے مکان پر منعقد ہونے کا اعلان تھا۔

    کسی مشاعرے میں شریک ہوئے مدت ہوچکی تھی۔ یہ مشاعرہ میرے گھر کے قریب منعقد ہورہا تھا۔ عزم مصمم کیا کہ کل رات کو اس میں ضرور شریک ہوں گا۔

    چناں چہ دوسرے دن رات کو میں اس مشاعرے میں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ بہار صاحب کا برآمدہ اور صحن شعرا اور سامعین سے بھرا ہوا ہے۔ جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے مجھے جوتوں کے قریب جگہ ملی۔ میں وہیں بیٹھ گیا اور اپنی حالت زار پر افسوس ہوا کہ اس طرح بھی مشاعروں میں شریک ہونا مقدر تھا۔

    دس بجے شب کو یہ مشاعرہ شروع ہوا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ عنبر چغتائی اس مشاعرے کو اناؤنس کررہے تھے۔ عام طور پر مشاعروں کا اصول یہ ہے کہ اناؤنسر یا تو ابتدا میں غزل پڑھ لیتا ہے، یا پھر زیادہ سے زیادہ وسط میں۔ عنبر چغتائی نے اس مشاعرے میں غلطی یہ کی کہ وہ دوسروں سے غزلیں پڑھواتے رہے۔ خود غزل نہیں پڑھی۔

    جب دو چار شاعر باقی رہ گئے تو اس پر جمیل بدایونی مرحوم کا اچانک ناریل چٹخ گیا اور انہوں نے نہایت خشمگیں آواز میں عنبر چغتائی کو للکارا۔

    عنبر! تمہارا یہ رویہ غلط ہے کہ تم نے اب تک مشاعرے خود غزل نہیں پڑھی اور دوسروں سے غزلیں پڑھواتے جارہے ہو۔ یہاں تک کہ اساتذہ اب غزلیں پڑھ رہے ہیں۔ کیا تم اپنے آپ کو اس شہر کے اساتذہ سے بھی بلند تصّور کرتے ہو، حالاں کہ ابھی تمہارا شمار مبتدیوں میں ہے۔ اگر حوصلہ ہے تو آؤ اور یہیں زانو سے زانو ملاکر کوئی طرح مقرر کرکے غزل کہو۔ ابھی معلوم ہوجائے گا کہ کتنے پانی میں ہو۔

    عنبر نے یہ غیر متوقع جملہ سنا۔ ان کی آواز ویسے بھی منحنی ہے۔ جمیل کے اس غیر متوقع جملے نے گھگیا دیا۔ ہر طرف سے موافقت اور مخالفت کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ شور تھا کہ کان پڑی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔

    بہار صاحب کبھی جمیل بدایونی کو سمجھاتے، کبھی عنبر چغتائی کو روکتے، مگر بات بڑھتی جارہی تھی۔ یہ محفل مشاعرہ نہایت بدمزگی سے درہم برہم ہوئی۔
    (نوٹ: یہ واقعہ معروف ادیب اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • پطرس بخاری: وفات کے 45 سال بعد ہلالِ امتیاز پانے والے مزاح نگار

    پطرس بخاری: وفات کے 45 سال بعد ہلالِ امتیاز پانے والے مزاح نگار

    اردو ادب میں طنز و مزاح کا دفتر کھلے اور پروفیسر احمد شاہ بخاری کا نام نہ لیا جائے، یہ ممکن نہیں۔ انھیں ہم پطرس بخاری کے قلمی نام سے جانتے ہیں۔

    پطرس بخاری اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ مزاح نگاری ان کا وہ حوالہ جس سے دنیا بھر میں بسنے والے شائقینِ ادب واقف ہیں لیکن وہ ایک جید صحافی، ماہرِ تعلیم، نقّاد اور صدا کار بھی تھے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے احمد شاہ نے اردو کے علاوہ فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس حاصل کی اور تعلیمی مراحل طے کیے۔ کالج کے زمانے میں ہی معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز کیا۔

    کیمبرج پہنچے تو انگریزی زبان کے ادب سے گہری شناسائی ہوئی۔ غیر ملکی ادب میں دل چسپی لی اور تراجم بھی کیے۔ خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں تھے۔ پانچ دسمبر کو اچانک کمرے میں ٹہلتے ہوئے بے ہوش ہو گئے اور ان کی زندگی کا سفر بھی تمام ہوگیا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ سطور پڑھیے۔
    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے جیسے عام جانور کے بارے میں لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کو ان کی وفات کے پینتالیس سال بعد ہلالِ امتیاز سے نوازا۔

  • طالب اور موہنی نے کنوئیں میں کود کر جان دے دی!

    طالب اور موہنی نے کنوئیں میں کود کر جان دے دی!

    تاریخ میں طالب اور موہنی نامی دو کرداروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن کے عشق کی داستان کو اردو ادب میں‌ بھی جگہ دی گئی ہے. ایک دکھنی شاعر سید محمد والہؔ موسوی نے اس قصے کو نظم کیا ہے۔ اس مثنوی کا ایک نسخہ انڈیا آفس لندن میں محفوظ ہے اور ایک ادارۂ ادبیات اُردو کے کتب خانہ میں دست یاب ہے۔

    سید محمد والہ، سید محمد باقر خراسانی کے فرزند تھے۔ عالم شباب میں لاہور اور وہاں سے دہلی آئے۔ 1724 میں دہلی سے نظام الملک آصف جاہ کے ساتھ دکن چلے آئے۔ مختلف عہدوں اور ذمہ داریوں پر مامور رہے۔ ان کی وفات 1769 میں ہوئی۔ فارسی کے صاحبِ دیوان تھے۔ سید محی الدین قادری زورؔ نے مثنوی طالب و موہنی کے علاوہ ان کی دس دیگر تصانیف کی نشان دہی کی ہے۔

    والہؔ جس زمانے میں دکن میں وارد ہوئے ابنِ نشاطی کی مثنوی پھولبن کا بڑا شہرہ تھا۔ یہ مثنوی انھیں پسند نہ آئی اور اسی کے جواب میں انھوں نے طالب و موہنی کا قصہ نظم کیا۔ مشہور ادیب، محقق اور نقاد گوپی چند نارنگ نے ان کا ذکر اپنی کتاب ‘‘ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں’’ میں کیا ہے۔

    اورنگ آباد اور احمد نگر کے جنوب میں موجودہ عثمان آباد کے قریب قلعہ پرینڈہ ایک تاریخی مقام ہے۔ وہاں ایک بوڑھے برہمن نے والہ کو طالب اور موہنی کی داستانِ عشق سنائی۔ والہ کے دل پر اس کا گہرا اثر ہوا اور انھوں نے اسے مثنوی میں بیان کر دیا۔ یہ قصّہ کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔

    طالب نامی ایک مسلمان نوجوان نے مہاجن کی لڑکی موہنی کو پنگھٹ پر پانی بھرتے دیکھا اور اس پر شیدا و مفتوں ہوگیا۔ اس نے موہنی کا تعاقب کیا اور گھر دیکھ لیا۔ کہتے ہیں کہ وہ مہاجن کے گھر کے سامنے ہی بیٹھا رہتا۔ سب کو اس کی حالت کا علم ہو چکا تھا۔ طالب نے کھانا پینا بند کردیا اور ہر طرف اس کے عشق و جنون کا چرچا ہونے لگا۔ کھانا پینا بند کرنے سے اس کی حالت غیر ہونے لگی تو مہاجن ڈر گیا کہ خون ناحق اس کے سَر نہ جائے، اس نے طالب کو کھانا پیش کیا، مگر اس نے انکار کردیا۔ آخر لوگوں کے کہنے سننے پر مہاجن نے موہنی کے ہاتھ کھانا بھیجا جو طالب نے قبول کرلیا۔

    بات بڑھتے بڑھتے شہر کے منصف تک پہنچی، مگر وہ بھی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ آخر مہاجن نے ایک چال چلی اور خبر اُڑائی کہ موہنی بیمار ہے۔ کچھ روز بعد مشہور کردیا کہ موہنی مر گئی ہے اور اس کا جنازہ اٹھایا گیا۔

    طالب پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ وہ ماتم کرتا ہوا جنازے میں شریک تھا۔ موہنی کے عزیز و اقربا نے اس پر لعنت ملامت کی کہ تیری محبوب مَر گئی ہے اور تُو زندہ ہے۔ کون کہتا ہے کہ تُو عاشقِ صادق ہے۔ یہ جنازہ اور ایسی باتیں طے شدہ اور فرضی تھیں۔ والہؔ نے اسی قصّے کو نظم کیا ہے جسے اس دور کی زبان میں‌ کچھ اس طرح‌ باندھا گیا۔

    او طالب عاشقِ صاحب وفا تھا
    عشق میں روزِ اوّل سُوں فدا تھا
    یہ طعنہ جب سُنا غیرت میں آیا
    وہ ڈولی سُوں اپس کا مُکھ پھرایا
    دنیا کا میں اتا پانی پیوں حیف
    مَرے موہنی اور اس بن میں جیوں حیف
    نظر آیا تمام آفاق کالا
    اپس کو بے دھڑک پائیں میں ڈالا
    گرا اور جیو دیا سَر نیں اُچایا
    فنا مشتاق یک غوطہ نہ کھایا

    کہتے ہیں موہنی بھی طالب کا اپنے لیے یہ جنون دیکھ کر اسے دل دے بیٹھی تھی کہ ایسا سچا پیار کرنے والا کون ہوتا ہے۔ اسے جب اپنے فرضی جنازے کے بعد طالب کے کنوئیں میں کود کر مر جانے کی خبر ہوئی تو وہ بھی اسی کنوئیں میں کود گئی اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ روایت ہے کہ انھیں ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔

  • گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    کراچی: خوش بو جیسے اشعار اور نظمیں کہنے والی اردو زبان کی مقبول عام شاعرہ پروین شاکر کا 67 واں یوم پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔

    رنگ اور خوش بو کی شاعرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گوگل نے اپنا ڈوڈل پروین شاکر کے نام کر دیا ہے۔

    خوش بو، صد برگ، خود کلامی، اور انکار جيسے شعری مجموعوں کی مصنفہ پروین شاکر بلاشبہ ہر دل عزیز شاعرہ تھیں، کتاب خوشبو سے شہرت کی بلنديوں کو چھونے والی شاعرہ کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    24 نومبر 1952 کو کراچی ميں پيدا ہونے والی پروين شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئیں اور 42 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔

    محبت کی خوش بو شعروں میں سمونے والی پروین شاکر نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، آج ان کے مداح ان کی 67 ویں سال گرہ منا رہے ہیں۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی شاعرہ پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں، بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    ان کے چند مشہور اور زبان زد عام اشعار یہ ہیں:

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوش بو کی طرح میری پذیرائی کی

    ….

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

    ….

    وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
    مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

    ….

    حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    ….

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

    ….

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

    ….

    تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
    اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں

    ….

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی