Tag: اردو ادب

  • پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    عبدالمجید قریشی کے اردو ادب میں مقام اور ان کی خدمات کے ساتھ ان کا تعارف پڑھنے سے پہلے انہی کے قلم سے نکلا یہ دل چسپ واقعہ پڑھیے۔ یہ ان کی مقبول تصنیف ‘‘ کتابیں ہیں چمن اپنا’’ سے نقل کیا گیا ہے۔

    شرارت سبھی بچے کرتے ہیں۔ میرے بچے بھی۔ گھر کی مختلف چیزیں گاہ بہ گاہ ان کی شرارتوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، لیکن جہاں تک میری کتابوں کا تعلق ہے وہ بھی انھیں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    بچھلے دنوں ایک دل چسپ واقعہ رونما ہوا۔ میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ قریب ہی میز پر رکھی ہوئی کتاب نیچے گر گئی۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ اسے اٹھا کر میز پر رکھ دو۔

    بچہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا کہاں جارہے ہو۔ بچے نے کہا، ‘‘ابھی آیا۔’’

    دو چار منٹ بعد لڑکا واپس آگیا۔ وہ اپنے ہاتھ دھو کر آیا تھا اور تولیے سے پونچھ رہا تھا۔

    میں نے دریافت کیا یہ کیا معاملہ ہے۔ کہنے لگا۔

    ‘‘میرے ہاتھ صاف نہیں تھے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ نئی کتاب میلی نہ ہو جائے۔ اس لیے ہاتھ دھو کر آیا ہوں، اب اٹھاتا ہوں۔’’ اس نے بڑی آہستگی سے کتاب کو اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔

    ایک اور موقعے پر جب میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ میرا دوسرا بچہ آیا۔ میرے پاس کھڑے ہو کر کتاب کو دیکھا اور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو دونوں ہاتھوں پر صاف ستھرا تولیا پھیلایا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔

    ‘‘تھوڑی دیر کے لیے یہ کتاب مجھے دے دیجیے، تولیے پر رکھ کے دیکھوں گا، میلا نہ ہونے دوں گا۔’’

    عبدالمجید قریشی 1921 میں پیدا ہوئے۔ وطن مشرقی پنجاب تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور محکمۂ ڈاک میں ملازم ہوئے۔ مطالعے کے رسیا اور کتاب اندوز مشہور تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ مختلف موضوعات اور خاص طور پر فنونِ لطیفہ سے متعلق رسائل سے سجا رہا۔

    خود بھی نثر نگار تھے اور نہایت لطیف و دل کش اسلوب کے حامل تھے۔ ان کے مضامین اس دور کے معیاری رسائل اور اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ وہ تین کتابوں کے مصنف ہیں جو ان کی زندگی میں شایع ہوئیں۔ سوانح عمری، آپ بیتی اور واقعات نگاری سے خاص شغف تھا۔ 2010 اس دنیا میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ ان کی عمرِ عزیز کے آخری ایّام ملتان میں گزرے۔

  • چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    عارف حسین

    کہانی ہمیں متوجہ کر لیتی ہے؛ داستانیں، قصے پُر لطف ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب انسان نے لکھنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ وہ مظاہرِ قدرت اور خود سے طاقت ور یا نفع و نقصان پہنچانے والے جان دار و بے جان اجسام اور قدرتی عوامل سے متاثر ہوتا اور چوں کہ وہ اس کا علم اور شعور نہیں رکھتا تھا تو اس کے بارے میں عجیب و غریب کہاںیاں اور قصے گھڑ لیتا۔ اسے دوسروں کے آگے طرح طرح سے بیان کرتا اور نہایت ڈرامائی انداز اختیار کرتا۔ پھر انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور ارتقائی منازل طے کیں تو اس کا وہی تجسس، تحیّر، وہی بیانیہ ادب اور اس کی مختلف اصناف میں ڈھل گیا۔ وہ زیادہ جاننے اور بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ یوں کہانی، ناول، ڈراما لکھے گئے اور یہ ایک فن ٹھہرا۔

    قارئین آج ہم اخبار اور سوشل میڈیا پر مختلف مصنفین کی مختصر کہانیاں (شارٹ اسٹوریز) پڑھتے ہیں۔ تحریر کے علاوہ ہمارے ہاں بصری اور صوتی ذرایع سے بھی مختصر ماجرا بیان کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خصوصاً دو دہائیوں کے دوران شعور اور آگاہی کا سفر طے کرنے والی نسل کے لیے سو لفظوں کی تحریر سے لے کر دو، تین منٹ تک کی ویڈیو کہانی کوئی نئی بات نہیں، مگر ستّر اور اسّی کے زمانے میں کتب و جرائد کے مطالعے کے رسیا ‘‘افسانچہ’’ پڑھتے تھے جو عموماً طنز و مزاح، شوخی و ظرافت پر مبنی ہوتا تھا۔ تاہم اس کا خالق کسی واقعے، ذاتی تجربے اور مشاہدے کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں بھی بیان کرتا تھا۔ ان ہی افسانچوں نے کئی باقاعدہ لکھاری بھی تیار کیے۔ آج کی مختصر کہانیاں تحریری شکل میں ہوں یا ویڈیو کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہوں، ان میں واقعاتی، حالاتِ حاضرہ اور سماج کے بدرنگ اور تکلیف دہ پہلوئوں کا خاص طور پر احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہ سیاست کے ایوانوں سے لے کر سماج کے ہر شعبے تک سنجیدہ پیغام دینے اور شعور اجاگر کرنے کی کوشش تو ہیں اور مقبول بھی۔ مگر چار دہائیوں قبل افسانچہ اخبارات اور دوسرے جرائد میں خاص طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ یہ دل چسپ اور پُرلطف تحریر کسی بڑے اور نام ور ادیب کی نہیں بلکہ ایک عام قاری کی ہوتی تھی۔ مدیر ذرا سی قطع برید اور کمی بیشی سے اسے قابلِ اشاعت بنا لیتے تھے۔ اسّی کی دہائی کے وہ گدگداتے افسانچے الگ ہی لطف رکھتے ہیں۔

    یہ بھی مطالعہ کریں:  محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    شارٹ اسٹوری یا مختصر کہانی اردو ادب میں نئی نہیں۔ افسانچہ شاید اسی کی ایک شکل ہے جسے عام لوگوں نے برتا اور یہ ان میں مقبول ہوئی۔ دوسری طرف ہم سعادت حسن منٹو کے کمالِ فنِ مختصر نویسی اور اس دور کے دیگر کہانی کاروں کی بات کریں تو نہایت پُرمغز اور فنی مہارت سے آراستہ کہانیاں بھی سنجیدہ اور باوقار قارئین کی توجہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ آج بھی اردو ادب میں ان کی اہمیت اور افادیت برقرار ہے۔ منٹو کے دوسرے افسانوں کے علاوہ سنجیدہ قارئین میں ان کی مختصر کہانیاں بھی مقبول ہوئیں اور یہ سب جان دار اور نہایت پُر اثر تھیں۔ اردو میں منٹو کے بعد مختصر کہانیوں کا مزید تجربہ کیا گیا۔ سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں دراصل منٹو کے سنجیدہ اور بامقصد افسانچے منظرعام پر آئے۔ ان میں سے دو یہاں آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہیں۔

    ‘‘خبردار’’

    بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے، کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔ مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’ ‘‘

    ‘‘دعوتِ عمل’’

    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔ صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔

    ‘‘یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔’’

    اس کے علاوہ جوگندرپال، ابراہیم جلیس اور دیگر متعدد لکھاریوں نے بھی خوب مختصر نویسی کی، مگر جب عام قارئین نے اپنے جذبات، خیالات کا چند سطری اظہار چاہا تو کچھ الگ ہی ڈھب اپنایا۔ عوامی سطح پر یہ اظہار ‘‘افسانچہ’’ کی شکل میں اتنا مقبول ہوا کہ اکثر اخبارات اور جرائد اس سے کنارہ نہ کر سکے۔ یہ بات کہنا کچھ مشکل نہیں کہ افسانچہ قطعی عوامی ثابت ہوا۔ وقت بدلا تو سماج کے مسائل اور عوام کا مزاج بھی بدل گیا۔ آج مختصر نویسی یا شارٹ اسٹوری ایک اور ہی انداز سے ہمارے سامنے ہے۔ یہ زیادہ تر سنجیدہ اور نہایت اہم موضوعات کا احاطہ کرتی کہانیاں ہیں جو واقعاتی، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ تاثراتی ہو سکتی ہیں۔ آج تحریری اور تصویری شکل میں کہانی اپنے قارئین تک تو پہنچ رہی ہے، مگر افسانچہ، یعنی وہ تحریری اظہار جس کا آغاز سنجیدہ اور پُر تجسس جب کہ انجام نہایت لطیف اور گدگداتا ہوتا تھا، اب بہت کم نظر آتا ہے۔

  • محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر  اپنی فکر،  اپنے نظریے اور تخیل سے اردو  زبان اور ادب کو  یوں مرصع و آراستہ کرگئیں کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ اس تحریر سے نئی نسل کو  ایک نہایت قابل و  باصلاحیت مدیر، لکھاری اور خصوصاً عصرِ حاضر کی خواتین کے لیے ایک مدبر و مصلح کی زندگی اور خدمات کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔

     آئیے، محمدی بیگم کی زندگی  کے اوراق الٹتے ہیں۔

    دہلی کے نواحی قصبے شاہ پور  میں 1879ء  آنکھ کھولی۔ والد سید احمد شفیع اسٹنٹ کمشنر  تھے۔ والد باذوق اور  روشن خیال تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو بنیادی تعلیم کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق تربیت اور تہذیب سے آراستہ کیا۔

    محمدی بیگم کا حافظہ قوی تھا۔ اُن کا شمار ذہین بچوں میں ہوتا تھا، کم عمری میں لکھنے پڑھنے کے ساتھ، امورِ خانہ داری سیکھے۔  کم عمری ہی میں کتب بینی کا شوق اور علم و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی تھی اور یہی سلسلہ آگے چل کر  ہفتہ وار مجلّہ تہذیبِ نسواں، ماہ نامہ مشیرِ مادر جیسے رسائل اور دیگر تصانیف تک پھیل گیا۔

    محمدی بیگم 19 برس کی تھیں جب اُن کی شادی سید ممتاز علی سے ہوئی جو خود بھی ایک مصنف، مترجم اور ناشر تھے۔ ان کی پہلی زوجہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ محمدی بیگم کو ایک عورت ہونے کے ناتے نہ صرف گھر کی ذمہ داریاں نبھانا تھیں بلکہ انہیں اپنے شوہر اور اُن کے بچوں کی نگہداشت کے ساتھ تربیت بھی کرنا تھی جو انہوں نے بہت اچھے انداز سے کی اور خود کو ایک بہترین شریکِ حیات کے ساتھ اچھی ماں ثابت کیا۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طو ر پر یاد کیا جاتاہے۔

    سید ممتاز علی ایک روشن خیال اور بیدار مغز انسان تھے۔ انھوں نے محمدی بیگم کی قابلیت اور  صلاحیتوں کو دیکھ کر مسلم عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ محمدی بیگم نے اپنے رفیقِ حیات کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں تہذیبِ نسواں اور خواتین میں بیداری سے متعلق انجمن کی بنیاد پڑی۔

    شادی کے بعد خاوند نے محمدی بیگم کی ضرروی تعلیم کا بند و بست کیا، انھوں نے گھر پر انگریزی، ہندی اور  ریاضی سیکھی جب کہ شوہر نے انھیں عربی اور فارسی کی تعلیم دی جس کے  بعد محمدی بیگم نے عورتوں کے لیے رسالے کی ادارت سنبھالی۔  1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر  بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔

    یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا ۔تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف کے عنوانات سے ظاہر ہے کہ محمدی بیگم کی تحریروں کا محور عورت اور ان مضامین کا مقصد زندگی اور رشتوں کے ساتھ عملی زندگی سے آگاہی دینا تھا۔  آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی۔ ہندوستان میں خواتین کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لیے دن رات محنت اور لگن سے کام کرنے والی محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔


    تحریر: عارف عزیز

  • میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے 209 برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    لاہور: اردو کے ممتاز فکشن نگار، ڈراما نویس، مصور اور دانش ور ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ آج لاہور میں ادا کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف ادیب انور سجاد گزشتہ روز جمعرات کو لاہور میں 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے، انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنی رہایش گاہ میں لیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ میں اہل خانہ اور معروف شخصیات سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

    انور سجاد طویل عرصے سے علیل تھے، پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے تاہم لوگوں میں ان کی شہرت ان کے لکھے گئے ڈراموں، اداکاری اور فکشن نگاری کی وجہ سے تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  “خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    دریں اثنا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اردو ادب کا اثاثہ تھے، ادب و فن کے لیے ان کی گراں قدر خدمات بھلائی نہیں جا سکتیں۔

    خیال رہے کہ ڈاکٹر انور سجاد 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے، ان کے سوگواران میں ایک بیوہ اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

  • "خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    "خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    اردو کا منفرد  تخلیق کار رخصت ہوا، ایک  عہد تمام ہوا، آدمی چلا گیا، اب صرف کہانی باقی ہے۔

    بیماری سے جوجھتے، سماج سے نالاں  اردو کے ممتاز فکشن نگار، ڈراما نویس، مصور، رقاص، صدا کار، انور سجاد جہان فانی سے کوچ کر گئے.

    یہ سانحہ لاہور میں پیش آیا، وہ ہی شہر جہاں تقسیم سے قبل اس انوکھے کلاکار نے آنکھ کھولی تھی۔  ڈاکٹر انور سجاد گزشتہ چند برس سے علیل اور شدید کسمپرسی کا شکار تھے۔

    کلاکار کی ادب کہانی

    انور سجاد اردو افسانے میں ایک رجحان کا نام ہے. انھوں نے کہانی کے روایتی اسلوب اور سانچے کو شعور ی طور پر توڑ کر اپنے عصر کی پیچیدہ صورت حال کے اظہار کے لیے نئے وسائل، نئے استعارے تراشے، ان کا منفرد اسلوب اور تجریدی تجربات ابتدا ہی سے زیر بحث رہے.

    ان کے افسانوی مجموعے "چوراہا”، "استعارے”، "آج” اور "پہلی کہانیاں” کے زیر عنوان شایع ہوئے. تین ناولز "رگ سنگ”، خوشیوں کا باغ” اور جنم روپ”۔ انھوں نے اردو ادب کو دیے. یوں تو ہر تخلیق اہم، البتہ خوشیوں کا باغ خصوصی طور  پر زیر بحث آیا۔

    انجمن ترقی پسند مصنفین سے ان کی گہری وابستگی رہی. "آرٹسٹ ایکویٹی” نامی ایک تنظیم بھی بنائی. حلقہ ارباب ذوق، لاہور کے عہدے دار رہے. پاکستان آرٹس کونسل، لاہور کے چیئرمین بھی رہے.

    اوائل میں شاعری بھی کی، مگر کلی طور پر فکشن کی سمت آگئے. پہلا افسانہ ’’ہوا کے دوش‘‘ پر نقوش میں شایع ہوا.

    پرفارمنگ آرٹ ابتدا ہی سے دل چسپی کا محور تھا. ڈراما نگاری کا سفر پی ٹی وی سے شروع ہوا. "رات کا پچھلا پہر”، "پک نک”، "کوئل”، صبا اور سمندر”، ــیہ زمین میری ہے‘‘، ’’روشنی روشنی‘‘ اور ’’جنم دن‘‘ سمیت کئی کام یاب کھیل لکھے. کئی ڈراموں اداکاری بھی کی.

    واجد علی شاہ کا کردار نبھانے کے لیے مہاراج غلام حسین کتھک سے رقص سیکھا.

    دوستوں کے حلقے اور رنگوں میں دل چسپی مصوری کی جانب لائی. ان کے فن پارے تاثراتی اور تجریدی رنگوں‌ سے مزین ہوتیں.

    فکشن نگار کار کی کہانی اور سیاست

    ڈاکٹر انور سجاد 27مئی 1935میں‌لاہور کے علاقے چونا منڈی میں پیدا ہوئے، ان کے والد ڈاکٹر سید دلاور علی شاہ اپنے شعبے کی معروف شخصیت تھے.

    سن 1948 میں انھوں نے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج میں زیر تعلیم رہے۔ کنگ ایڈورڈ کالج، لاہور سے طب کی تعلیم مکمل کی۔ 1964میں لیورپول یونیورسٹی، انگلینڈ سے ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کی ڈگری لی.

    سن 2002 تک اپنا کلینک چلاتے رہے. اسی دوران ڈراما نگاری بھی کی۔  پھر کراچی میں‌ ایک ٹی وی چینل میں‌ اسکرپٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہوگئے اور وہیں سے بیماری کے باعث الگ ہوئے.

    سیاست ابتداسے ان کی دل چسپی کا محور تھا. طلبا سیاست کے زمانے میں جھکاؤ لیفٹ کی جانب تھا. لیفٹ کو مرکزی دھارے میں‌ لانے کے ارادے سے عملی سیاست میں آئے.

    ان کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکار میں‌ہوتا ہے. پارٹی انھیں الیکشن کا ٹکٹ دینا چاہتی تھی، مگر یہ انھیں منظور نہیں تھا. ان کی نظریاتی سوچ کے باعث اختلافات بھی پیدا ہوئے.

    مارشل لا کے نفاذ کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا. بعد میں‌ بھی احتجاجی سرگرمیوں‌ میں حصہ لیا، مگر پیپلز پارٹی کے مزاج کی تبدیلی سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے اور کنارہ کش ہوگئے.

    ایک بار عمران خان کی درخواست پر پی ٹی آئی کے ایک جلسے میں بھی شرکت کی، مگر عملی سیاست سے دور رہے.

    آخر دنوں کا غم ناک تذکرہ

    انور سجاد صاحب گزشتہ کچھ عرصے سے بیمار تھے. وہ ان اداروں اور افراد سے بھی شاکی تھے، جن کے ساتھ انھوں نے کام کیا.

    حالات سے مجبور کر انھوں نے امداد کی اپیل بھی کی. حکومت پنجاب کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کی داد رسی کی گئی ہے، مگر بعد میں اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا.

  • ماہرلسانیات، ادیب اوراستاد ڈاکٹرجمیل جالبی انتقال کرگئے

    ماہرلسانیات، ادیب اوراستاد ڈاکٹرجمیل جالبی انتقال کرگئے

    اردو زبان کی خدمت میں شب و روز کوشاں رہنے والے اردو نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی، سابق چیئرمین مقتدرہ قومی زبان اور سابق صدراردو لُغت بورڈ ڈاکٹر جمیل جالبی قضائے الہی سے انتقال کرگئے۔

    ڈاکٹرجمیل جالبی 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ، برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان ہے۔ ان کے آباء و اجداد یوسف زئی پٹھان ہیں اور اٹھارویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے والد محمد ابراہیم خاں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی نے ہندوستان، پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ 1943ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک کیا۔ میرٹھ کالج سے 1945ء میں انٹر اور 1947ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

    کالج کی تعلیم کے دوران جالبی صاحب کو ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر غیور احمد رزمی اور پروفیسر کرار حسین ایسے استاد ملے جنہوں نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ اردو ادب کے صف اول کے صحافی سید جالب دہلوی اور جالبی صاحب کے دادا دونوں ہم زلف تھے۔ محمد جمیل خاں نے کالج کی تعلیم کے دوران ہی ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ ان دنوں ان کا آئیڈیل سید جالب تھے۔ اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کر لیا۔

    تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہاں ان کے والد صاحب ہندوستان سے ان دونوں بھائیوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم بھیجتے رہے۔ بعد ازاں جمیل جالبی کو بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔

    جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کر لیے۔ اس کے بعد 1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی نگرانی میں قدیم اُردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978ء میں مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔

    بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہوئے اور کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والدین کو بھی پاکستان بلا لیا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔ قبل ازیں انہوں نے ماہنامہ ساقی میں معاون مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ نیا دور بھی جاری کیا۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1987ء میں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔

    جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جانورستان تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔

    ان کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے جس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔

    ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔

    اردو ادب کے یہ نابغہ روزگار محسن آج 18 اپریل 2019 کو تقریباً نوے سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ادب کے لیے بیش بہاخدمات پر انہیں امتیازحکومت پاکستان، کمال فن ایوارڈ،چاربارداؤد ادبی انعام اورطفیل ادبی سمیت کئی اعزازات سےنوازاگیا تھا۔

  • جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    اسلام آباد: پاکستان میں تعینات سیاحت کے بے حد شوقین جرمن سفیر مارٹن کوبلر پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی سیاحت کے بعد اردو ادب کے بھی شائق نکل آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن سفیر مارٹن کوبلر پاکستان کے تین صوبوں کے مشہور اور تاریخی مقامات کی سیاحت کر چکے ہیں، انھوں نے سیر کے دوران عام لوگوں سے تعلق رکھنے کی ایک نئی نظیر قائم کی۔

    پاکستانی کھانوں، بالخصوص بریانی، پلاؤ اور مٹن ڈشز کے شوقین مارٹن کوبلر اب اردو ادب کے بھی شوقین نکل آئے ہیں۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جرمن سفیر کی پوسٹس فالو کرنے والوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب انھوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اردو فکشن کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی کتاب کا مطالعہ کرتے دکھائی دیے۔

    یاد رہے کہ آج دنیا بھر میں ارتھ آور منایا جا رہا ہے، جس کے تحت رات کے 8:30 سے 9:30 تک ایک گھنٹے کے لیے تمام روشنیاں بھجائی جا رہی ہیں۔

    مارٹن کوبلر نے اس حوالے سے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اندھیرے میں نظر آ رہے ہیں، اور اردو کے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے افسانے پڑھ رہے ہیں۔

    جرمن سفیر نے لکھا کہ انھوں نے سفارت خانے اور اپنی رہائش گاہ کی تمام غیر ضروری روشنیاں بھجا دی ہیں، کیا آپ لوگ بھی ارتھ آور منا رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمی تبدیلی سے متعلق شعور اجاگر کیا جانا بے حد ضروری ہے، اپنی زمین، اور فطرت کے بچاؤ کے لیے لائٹس بجھا دیں، اور اس طرح توانائی، پیسا اور سیارہ بچائیں۔

    خیال رہے کہ تصویر میں منٹو کی جو کلیات دکھائی دے رہی ہے، یہ خالد حسن نے اردو سے انگریزی میں ترجمہ اور ایڈٹ کی ہے۔

  • امید ہے لاپتا افراد کا مسئلہ بہت جلد حل ہوگا: صدر عارف علوی

    امید ہے لاپتا افراد کا مسئلہ بہت جلد حل ہوگا: صدر عارف علوی

    کراچی: صدرِ ملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ لاپتا افراد کی بہت اہمیت ہے اور یہ معاملہ بہت تکلیف دہ بھی ہے تاہم اس حوالے سے بہت پیش رفت ہوئی ہے، امید ہے لاپتا افراد کا مسئلہ بہت جلد حل ہوگا۔

    ان خیالات کا اظہار وہ کراچی میں سندھ لٹریچر فیسٹیول میں خطاب کرتے ہوئے کر رہے تھے، صدرِ مملکت نے کہا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے ایک بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے، امید ہے لاپتا افراد کا مسئلہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔

    [bs-quote quote=”دنیا بھر میں کتابوں کا رجحان ختم ہو کر انٹرنیٹ پر آ رہا ہے، جو ادب ہے وہ میراث ہے اور ہم اس کے وارث ہیں۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”ڈاکٹر عارف علوی” author_job=”صدر مملکت”][/bs-quote]

    عارف علوی کا کہنا تھا کہ انھیں حیرت ہے کہ سندھ میں انتہا پسندی کہاں سے آئی، وہ سندھ کی تمام قومیتوں کوجوڑنا چاہتے ہیں، انھیں آپس میں لڑانا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، مذہبی اور لسانی نفرتیں لوگوں کو لڑانے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔

    صدر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان وہ دھرتی ہے جس نے افغان مہاجرین کو قبول کیا، ابھی بھی 25 لاکھ افغان مہاجرین سندھ میں موجود ہیں، تھرپارکر میں بسنے والوں کی حالت کو بہتر کرنا ہے، سندھ میں تعلیم اور صحت کی سہولیات بہتر ہونی چاہئیں، سرکار ذمے داری پوری نہیں کرتی تو ہم سب کو آگے بڑھنا چاہیے۔

    صدرِ مملکت کا کہنا تھا کہ قوم سرکار سے نہیں عوام سے بنتی ہے، سندھی قوم کسی حکومت نے نہیں بنائی، اچھے معاملات کرپشن کی وجہ سے نہیں چل سکتے، سعودی شہزادے نے کہا ہم پاکستان میں سرمایہ کریں گے، دنیا بھر سے سرمایہ پاکستان لائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  ایم کیو ایم نے وزیرِ اعظم عمران خان کو لاپتا افراد کی فہرست پیش کر دی

    انھوں نے ادب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کتابوں کا رجحان ختم ہو کر انٹرنیٹ پر آ رہا ہے، جو ادب ہے وہ میراث ہے اور ہم اس کے وارث ہیں۔

    صدر عارف علوی نے مزید کہا کہ محبت کا پیغام شاہ لطیف کا ہے جو سندھ دھرتی کا زیور ہے، سندھ کے اندر بہت ساری چیزیں زبانی چلتی ہیں، لوگوں کو اندازہ نہیں سندھ کے لوگ کتنے مہمان نواز ہیں۔

  • آج شاعرِآخرالزماں جوش ملیح آبادی کی 37ویں برسی ہے

    آج شاعرِآخرالزماں جوش ملیح آبادی کی 37ویں برسی ہے

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗپھرجوش کو دے کرلقبِ شاہ ِسخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنرتازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22 فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش