Tag: اردو ادب

  • مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی 150ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، گیارہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے اسد اللہ کو شاید خود بھی علم نہ تھا کہ ان کی شاعری اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتی رہے گی۔

    مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔

    آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

    نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
    ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

    شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورقرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے شاہی قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    مرزا غالب اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اوراشعار میں زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی نے غالب کو عظیم بنایا۔

    شاعری میں روز مرہ محاوروں سے دل میں اتر جانے والی سادگی کے کمال نے غالب کو زمانے میں یکتا کر دیا، وہ بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

    غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔

    کثرت شراب نوشی کے باعث ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی انتقال سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

    غم ہستی کو اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

  • فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے

    فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔

    فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کوشاعرِ مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، وہ انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے، ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے، اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض نے 1930 میں لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبۂ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض نے 1935 میں ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کی پھر 1942 میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے، انھوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    انھوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سرِ وادی سینا ،مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    اردو کے عظیم شاعر فیض 1959 میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری تعینات ہوئے پھر 1962 تک وہیں تعینات رہے۔ ادبی رسالہ ادب لطیف کے مدیر اور اس کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر اعلیٰ رہے۔

    انھیں 9 مارچ 1951 کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا، فیض نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں گزارے، جب کہ دو اپریل 1955 کو انھیں رہا کر دیا گیا۔

    فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنھیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    اردو کے شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی شاعری آج بھی بے حد مقبول ہے۔

  • فاطمہ ثریا بجیا کوہم سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

    فاطمہ ثریا بجیا کوہم سے بچھڑے 3 برس بیت گئے

    کراچی: پاکستان ٹیلی ویژن کے شمع اور افشاں جیسے مشہور ڈراموں کی خالق فاطمہ ثریا بجیا کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے، فاطمہ ثریا بجیا ایک عہد ایک تہذیب اور ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا طویل عرصے تک اردو ادب کے دامن میں اپنے نایاب فن پارے ٹانکنے کے بعد تین برس قبل 85 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    ایک ایسی شخصیت جن کی تحریر کے ساتھ لوگوں کے دل دھڑکتے تھے، وہ سراپا سادگی کا نمونہ تھیں اورادبی دنیا کی معروف شخصیت فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی تربیت کی۔

    فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبرانیس سو تیس کوحیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں، قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی آکر آباد ہوا، فاطمہ ثریا بجیا نے انیس سوساٹھ میں پی ٹی وی سے ناطہ جوڑا، انہوں نے آگہی شمع، افشاں سمیت کئی مشہور ڈرامے لکھے جنہوں نے مقبولیت اور پسندیدگی کے ریکارڈ قائم کئے۔

    ان کے لکھے گئے ڈراموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بھی کافی مقبولیت حاصل رہی ہے۔

    فاطمہ ثریا بجیا کو ان کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جس میں جاپان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    واضح رہے کہ محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جیسا کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود جبکہ بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ہیں۔

  • اردو کی مشہورناول نگار بانو قدسیہ کی دوسری برسی

    اردو کی مشہورناول نگار بانو قدسیہ کی دوسری برسی

    اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ کی دوسری برسی آج منائی جا رہی ہے‘ داستان سرائے کی اس مکین کے رخصت ہونے سے اردو ادب ایک بے مثال و بے بدل مصنف سے محروم ہوگیا۔

    مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جبکہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہرلا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائینگ روم میں چلی گئیں۔

    پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی۔

    میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہین پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں۔

    بانو قدسیہ چار فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئی تھیں‘ جس کے بعد اردو ادب کا ایک اورباب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔

  • سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی آج 64 ویں برسی ہے، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اورنمایاں مقام رکھتے ہیں۔

    ‎اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے باک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی 1912ء کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کے مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض 43 سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎منٹو کا قلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت ورسوائی سے بھی دوچارکیا۔

    معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    سعادت حسن منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمرکے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔

  • شہرہ آفاق شاعر’احمد فراز‘ کا 88 واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    شہرہ آفاق شاعر’احمد فراز‘ کا 88 واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    اسلام آباد: اردو زبان اورغزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعراحمد فرازؔ کا آج 88 واں یومِ پیدائش ہے‘ آپ کا شمارعصرحاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجئیے

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اورانہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطورلیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہردورمیں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اورجلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • دلوں کو چھو لینے والے شاعر اور ادیب ابن انشا کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    دلوں کو چھو لینے والے شاعر اور ادیب ابن انشا کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    کراچی: شاعر، مزاح نگار، اور کئی کتابوں کے مصنف ابن انشا کو ہم سے بچھڑے اکتالیس برس بیت گئے، وہ اپنے طرز کے واحد ادیب تھے، جہاں ان کی نثر قاری کے دل کو گدگداتی تھی تو وہیں انکی شاعری کا سوزدلوں کو گداز کردیا کرتا تھا۔

    بیسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہوں انہی میں معروف ادیب، شاعر، مترجم و سفارتکار ابن انشا بھی شامل ہیں، ابن انشا کو بچھڑے 41 برس بیت گئے۔

    بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927ء کو پیدا ہونے والے ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیوپاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کئے۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    انشاء جی نے جہاں اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا ۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تار کو چھولیتے۔

    استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ( انشا جی اٹھو اب کو چ کرو) کے خالق ابن انشا تھے، ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلا حیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ گیارہ جنوری انیس سو اٹھتر کو انشا جی کو دنیا سے کو چ کرگئے، کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    لاہور: اردو ادب کی ممتاز شخصیت، استاد، افسانہ نگار، نقاد اور 100 سے زائد کتب کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر لاہور میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے نامور نقاد، افسانہ نگار، ماہرِ لسانیات، ماہرِ اقبالیات، ادبی مؤرخ، معلم اور محقق ڈاکٹر سلیم اختر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    [bs-quote quote=”سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ڈاکٹر سلیم اختر کی نمازِ جنازہ بہ روز پیر 10 بجے صبح نرسری گراؤنڈ، جہاں زیب بلاک اقبال ٹاؤن میں ادا کی جائے گی-

    سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، انھیں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 2008 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکاردگی سے نوازا گیا۔

    ڈاکٹر سلیم اختر 11 مارچ 1934 کو لاہور میں پیدا ہوئے، جامعہ پنجاب سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم ہی سے بہ طور اردو لیکچرار وابستہ ہوگئے اور مختلف ادبی رسالوں کے ساتھ بھی منسلک رہے۔

    ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب ’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ اردو ادب میں اب تک لکھی گئی تاریخ میں اہم ترین حوالے کے طور پر یاد کی جاتی ہے، انھوں نے ’اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ‘ بھی مرتب کی۔


    یہ بھی پڑھیں:  شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے


    سلیم اختر نے فکرِ اقبال کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی آشکار کیا، اور شرح ارمغان حجاز لکھی، اقبالیات پر انھوں نے 9 اہم ترین کتابیں تصنیف کیں۔

    ڈاکٹر سلیم اختر اپنے افسانوں کے سبب بھی الگ پہچان رکھتے ہیں، ان کے افسانوی مجموعوں میں آدھی رات کی مخلوق، مٹھی بھر سانپ، کڑوے بادام، کاٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، ضبط کی دیوار شامل ہیں، افسانوں کی کلیات بھی نرگس اور کیکٹس کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

    ان کی دیگر کتب میں اک جہاں سب سے الگ (سفرنامہ)، نشان جگر سوختہ (آپ بیتی)، انشائیہ کی بنیاد، ادب اور کلچر، ادب اور لاشعور، شادی جنس اور جذبات وغیرہ شامل ہیں۔

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔

  • نامور شاعرمنیرنیازی کو ہم سے بچھڑے 12 برس بیت گئے

    نامور شاعرمنیرنیازی کو ہم سے بچھڑے 12 برس بیت گئے

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 12 برس بیت گئے۔

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیارپور کے ایک گاؤں میں 1928 میں پیدا ہوئے۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

    منیر نیازی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

    معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔

    منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔

    شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

    میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا