Tag: اردو ادب

  • خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    کراچی : محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر جن کا ساحرانہ ترنم اور لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے کا ہنر انہیں امر کرتا ہے، بلند خیالات کو انوکھے انداز میں بیان کرنے والی اس عظیم شاعرہ کی آج 24ویں برسی ہے۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 14 نومبر1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

    دوران تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1986 میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکریٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔

    سن 1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔

    پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر نصیرعلی سے ہوئی ، جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ انہوں نے جذبات کو اپنی تصانیف میں نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

    خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب تھی جس نے پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا بے، بے باک اندازمیں دل کی بات کہہ دینا آسان نہیں لیکن پروین شاکرکی شاعری میں اس کی جا بہ جا مثالیں ملتی ہیں۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    عظیم شاعرہ پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اماں نامہ – مزاح نگاری میں تازہ ہوا کا جھونکا

    اماں نامہ – مزاح نگاری میں تازہ ہوا کا جھونکا

    زبان کوئی بھی مزاح نگاری یقیناً ایک دشوار گزار مرحلہ ہے جس کے سبب بہت سے بہترین ادیب بھی اس رستے سے کنی کتر ا کر گزرجاتے ہیں، اردو ادب کی تاریخ میں مزاح نگار انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں اور اب یقیناً اس میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوچکا ہے۔

    افسانوں کی دنیا میں زورِ قلم آزمانے والی نشاط یاسمین خان نے اپنی زندگی کو موضوعِ گفتگو بناتے ہوئے ’’اماں نامہ‘‘ کے نام سے اپنے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ترتیب دیا ہے جسے بلاشبہ مزاح نگاری کےمیدان میں تازہ ہوا کا جھونکا تصور کیا جاسکتا ہے۔ نشاط کے اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف ظرافت اور بھونڈے پن کے درمیان موجود بال برابر فرق کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اسی فرق کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے جس طرح انہوں نے معاشرے کے کئی بوسیدہ رویوں کو انوکھے انداز میں برتا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔

    مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’ رنگِ ادب پبلیکشنز نے کراچی سے شائع کی ہے۔ کل صفحات کی تعداد 128 ہے،طباعت نسبتاً بہترکاغذ پر کی گئی ہےاوراس کی قیمت 300 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    اماں نامہ – کتاب پر ایک نظر


    کتاب کے پیش لفظ میں نشاط خان ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ کتاب اور اس موجود مضامین در اصل ان کی آپ بیتی ہیں لیکن وہ اس میں محض راوی کے طور پر موجود ہیں اور جب آپ کتاب پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے ، ’اماں ‘ آپ کو ہر میدان میں غالب نظر آئیں گی۔

    اس خود نوشت میں مصنف معاشرے کے کچھ ایسے رویوں کو لطیف تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جن کے بارے میں عموماً پورے معاشرے کو ہی یقین ہے کہ یہ رویے کسی بھی صورت درست نہیں ، اس کے باوجود وہ رویے عام ہیں اور کوئی بھی انہیں ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ نشاط نے ان رویوں پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کے مثبت اور منفی پہلو کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں جس کے بعد قاری باآسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون سا رویہ درست ہے اور کون سا غلط۔ مثال کے طور پرگھروں میں والدین کی جانب سے بچوں میں کی جانے والی تفریق ہو، شادیوں کے موقع پر رشتے ڈھونڈنے کا چلن ہو یا شادی کے بعد نئی رشتے داری کو نبھانے کا معاملہ ہو، اس کتاب کی بدولت ہم اپنے گریبان میں جھانک پاتے ہیں کہ ہم نے اپنے ارد گرد کیسے کیسے رویوں کو فروغ دے رکھا ہے اور ان پر نازاں بھی ہیں۔

    ایک مقام پر اماں مصنف کے والد سے فرماتی ہیں کہ ’’دیکھ لیجیے گا کہ ایسا بر ملے گا کہ سارا خاندان رشک کرے گا۔ آپ تو اپنی والی کی فکر کریں ،’’انہیں تو کوئی عقل کا اندھاگانٹھ کا پورا‘‘ مل جائے تو بہت ہے۔ ہمیں تو ابھی سے اس کی فکر ستائے جارہی ہے‘‘۔

    اب اس ایک جملے میں دیکھیں کس طرح مصنف نے والدین کے درمیان بچوں کی تقسیم بھی اجاگر کی ہے اور ساتھ ہی شادی بیاہ کو لے کر ہمارے معاشرتی رویوں کو بھی بیان کیا ہے کہ ہم اسے دو انسانوں کے بندھن کے بجائے سماج میں نمود و نمائش کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”اماں، جس طرح جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اور ایک ڈربے میں دو مرغے، اسی طرح ایک گھر میں دو داماد نہیں رہ سکتے۔ اس طرح ایک طرف تو اقتدار کی جنگ شروع ہوجائے گیاور دوسری طرف آپ محلاتی سازشوں کا شکار اور ہم بھی تو اقوامِ عالم میں سراٹھا کرجینا چاہتے ہیں” style=”style-7″ align=”center”][/bs-quote]

    یہ کتاب آگے چل کر خاندانی تعلقات سے ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور سماجی تعلقات کو بھی موضوع گفتگو بناتی ہے اور اس میں سب سے اہم کردار میاں عبدالقدوس کا ہے ، مصنف کہتی ہیں کہ ’’بے چارہ عبدالقدوس ‘‘ بری کے سامان کے ساتھ مفت میں پڑتا ہے ۔ لیکن یہی مفت کا’عبدالقدوس ‘ زندگیوں میں کس طرح کا کردار ادا کرتا ہے وہ آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

    اسی آپ بیتی بیتی میں ایک کردار بڑے میاں کا بھی ہے ، یہ ایک مختصر کردار ہے لیکن ہمیں بتاتا ہے کہ معاشرے میں پرانے ملازمین کس مالکان کے معاملات میں کس حد تک دخیل ہوتے ہیں اور مالکان بھی پرانے ملازمین کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھتے ہیں۔

    سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے معاملات اس کتاب میں اس قدر دلچسپ اندا ز میں بیان کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والا موضوع کے سحر میں کھو سا جاتا ہے اور ایک مرتبہ کتاب اٹھانے کے بعد اسے مکمل کیے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ کتاب کے کچھ کمزور مقامات کے بارے میں مصنف نے پہلے ہی نشاندہی کی ہے یہ کتاب ’’الل ٹپ‘ انداز میں سودا سلف لانے والی کاپی پر لکھی گئی ہے جس کی وجہ سے رعایت دینا ضروری ہے۔

     

     

    مصنف کے بارے میں


    نشاط یاسمین خان کی یہ چوتھی مطبوعہ کتاب ہے اور اس سے قبل وہ ایک ناول ’تیسرا کنارہ) ( 2007) میں، دوریاں اور قربتیں (افسانوی مجموعہ) اور سرخ لکیریں ( افسانوی مجموعہ) تحریر کرچکی ہیں۔

    ان کی زیرِ طباعت کتب میں ابا نامہ ، م سے مرد ، رود کوہی اور سو لفظوں کی کہانیاں شامل ہیں، جو عنقریب ہی ان کے قارئین کو میسر ہوں گی۔

    انہوں نے جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم حاصل کی ہے اور بنیادی طور پر ایک گھریلو خاتون ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کی بے ساختگی کسی سنی سنائی کی محتاج نہیں بلکہ وہ حالات واقعات کو ایسے ہی بیان کرتی چلی جاتی ہیں جیسا کہ وہ ان پر بیتے اور یہی ان کی
    تحریر کا حسن بھی ہے ۔

    اماں نامہ کی صورت ان کے مزاح نگاری کے جوہر کھل کر سامنے آئے ہیں اور اگر وہ ایسے ہی اس سلسلے کو آگے بڑھاتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ان کا شمار صف ِ اول کے مزاح نگاروں میں ہوسکتا ہے۔

  • صاحبِ اسلوب مزاح نگارپطرس بخاری کو گزرے 60 برس بیت گئے

    صاحبِ اسلوب مزاح نگارپطرس بخاری کو گزرے 60 برس بیت گئے

    اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ادیب سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری 58 ویں برسی ہے‘ آپ 5 دسمبر 1958 میں نیویارک میں انتقال کرگئے تھے۔

    پطرس بخاری 1 اکتوبر 1898ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید اسد اللہ شاہ پشاور میں ایک وکیل کے منشی تھے ،ابتدائی تعلیم پشاورمیں حاصل کی اوراس کے بعد گورنمٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اوراعزازی نمبروں کے ساتھ ایم اے پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں انہیں شعر و ادب سے گہری دلچسپی تھی‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین’راوی‘کے ایڈیٹر بھی رہے۔

    ایم اے کرنے کے بعد آپ انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی‘ وہاں کے اساتذہ کی رائے تھی کی بخاری کا علم اس قدر فراخ اور وسیع و بسیط ہے کہ ایک انگریز کے لیے بھی اتنا علم اس عمر میں رکھنا کم وبیش ناممکن ہے۔

    پطرس بخاری اپنے ایک شاہکار مضمون ”کتے“ میں یوں رقمطراز ہیں کہ

    علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا ۔ خود سرکھپاتے رہے لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا فائدہ ہے۔ کہنے لگے وفادار جانور ہے اب جناب اگر وفاداری اس کا نام ہے تو شام کے سات بجے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتاربغیردم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے ہی چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

    وطن واپس آنے پر سنٹرل ٹریننگ کالج اورپھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادبیات کے پروفیسررہے۔ 1937ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا تو بخاری کی خدمات مستعار لی گئیں اور وہ سات برس تک بطورڈائریکٹر ریڈیو سے منسلک رہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد آپ لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1950ء میں آپ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ بنا کر بھیجا گیا۔ اس عہدے پر 1954ء تک فائز رہے۔ 1955ء میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ آپ دسمبر 1957ء میں ریٹائر ہونے والے تھے اور کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسری قبول کرچکے تھے مگر موت نے مہلت نہ دی اور 5 دسمبر 1958ء کو صبح نیویارک میں حرکت قلب بند ہوگئی۔

    اصل نام سید احمد شاہ بخاری تھا لیکن اپنے قلمی نام پطرس سے مشہور ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے 44 برس بعد 14 اگست 2003ءکو انہیں ہلال امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔

  • اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    لاہور: نامور شاعرہ، مترجم اور افسانہ نویس فہمیدہ ریاض کو لاہور کے ایک مقامی قبرستان میں سپردِ خا کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز نظم نگار اور افسانے لکھنے والی ترقی پسند 73 سالہ ادیبہ فہمیدہ ریاض گزشتہ روز انتقال کر گئیں تھیں، انھیں آج لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

    [bs-quote quote=”شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فہمیدہ ریاض کی نمازِ جنازہ میں ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات نے شرکت کی۔

    نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں معروف شاعر امجد اسلام امجد بھی شامل تھے، شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

    فہمیدہ ریاض نے اپنی ادبی اور سماجی زندگی میں ملک میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور خواتین کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے جدوجہد کی۔

    خیال رہے فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں


    ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔

    فہمیدہ ریاض کے انتقال پر آج پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی اظہارِ افسوس کیا۔

  • نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں

    نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں

    لاہور: اردو کی نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں، ان کی عمر 73 سال تھی اور کافی عرصے سے شدید علیل تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز شاعرہ اور فکشن نگار فہمیدہ ریاض لاہور میں جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں، وہ 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔

    [bs-quote quote=”خواتین کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کے حوالے سے بھی مشہور تھیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فہمیدہ ریاض کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا، ان کے والد ریاض الدین احمد ایک ماہرِ تعلیم تھے، تقسیم کے بعد ان کا خاندان حیدر آباد سندھ میں قیام پذیر ہوا تھا۔

    فہمیدہ ریاض شاعری میں اپنی تانیثی (فیمنسٹ) آواز کے لیے معروف تھیں، وہ اپنے غیر روایتی خیالات کے باعث اردو ادبی منظر نامے میں تیزی سے مقبول ہو گئی تھیں۔

    وہ خواتین کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کے حوالے سے بھی مشہور تھیں، جمہوریت کی خاطر انھیں جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا، ضیا الحق کے انتقال کے بعد وہ بھارت سے واپس پاکستان آئیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے


    فہمیدہ ریاض نے لندن سے فلم ٹیکنک میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا، طالب علمی ہی کے زمانے میں حیدر آباد میں پہلی نظم لکھی جو معتبر ادبی پرچے ’فنون‘ میں چھپی۔

    ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔

    ان کی شعری تصانیف میں پتھر کی زبان، بدن دریدہ، دھوپ، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے، اپنا جرم ثابت ہے، ہم رکاب اور کلیات میں مٹی کی مورت ہوں شامل ہیں۔

  • کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی: صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا، انھوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام گیارہویں اردو کانفرنس 22 نومبر سے شروع ہو رہی ہے جو کہ 25 نومبر تک جاری رہے گی۔

    [bs-quote quote=”اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”احمد شاہ”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے فلسفی، محقق، ادیب اور شاعر شامل ہوں گے۔ کانفرنس میں شامل ہونے والوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہو گا جن میں ہندوستان، امریکا، چین، جرمنی اور برطانیہ سرِ فہرست ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، ڈراما، فلم، تعلیم، زبانوں، رقص، مصوری، اور صحافت کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

    احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا، ان سرگرمیوں کی مدد سے ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر رہے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  جب آنگن میں‌ ستارے اتریں گے، گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 22 نومبر کو ہوگا


    احمد شاہ نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اردو کانفرنس کو ترویج دینے میں بہت معاونت کی، میڈیا ہی کی وجہ سے اس وقت عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کی ایک بین الاقوامی برانڈ بن چکی ہے۔

    پریس کانفرنس میں سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی، معروف ادیبہ حسینہ معین اور تھیٹر کی نامور شخصیت طلعت حسین بھی موجود تھے۔

    اردو کانفرنس میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا دوسرا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوراڈ فلم اور ٹی وی کے شعبے میں ضیا محی الدین کو دیا جائے گا جب کہ کانفرنس کے پہلے روز نام ور شاعر جون ایلیا کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا جائے گا۔

  • آج اردو ادب کی زندہ روایت’زاہدہ حنا‘ کی 72ویں سالگرہ ہے

    آج اردو ادب کی زندہ روایت’زاہدہ حنا‘ کی 72ویں سالگرہ ہے

    آج معروف ادیب ، افسانہ نگار اور کالم نگار زاہدہ حنا کی72 ویں سالگرہ ہے، آپ 05 اکتوبر 1946 میں متحدہ ہندوستان کے صوبہ بہار میں پیدا ہوئی تھیں۔

    ممتاز ادیبہ اور مشہور افسانہ نگار زاہدہ حناصوبہ بہار کے شہر سہسرام میں پیدا ہوئیں۔ زاہدہ حنا کے والد اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرانا چاہتے تھے مگر معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے وہ انہیں کسی اچھے سکول میں تعلیم نہ دلا سکے۔ زاہدہ حنا کی رسم بسم اللہ کے بعد زاہدہ کو گھر میں آپ کے والد نے پڑھانا شروع کیا۔

    چھ سال کی عمر میں انہیں ’’مسدس حالی‘‘ ازبر کرا دی گئی۔ آٹھ سال کی عمر میں انہیں ’’شعر العجم‘‘ پڑھائی گئی۔ گھر میں تعلیم کے بعد اسکول کی تعلیم کے لیے ساتویں کلاس میں داخل کرا دیا گیا۔ کاسمو پولیٹن گرلز سیکنڈری سکول سے میٹرک کیا۔ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ زاہدہ حنا کی شادی اکتوبر 1970ء میں مشہور و معروف شاعر جون ایلیا سے ہو گئی۔ 1990 ء میں دونوں کی علیحدگی ہو گئی۔

    زاہدہ حنا کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ نو سال کی عمر میں انہوں نے کہانیاں اور چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے شروع کر دیئے۔ 1962 میں ان کا پہلا مضمون ماہنامہ ’’انشا‘‘ کراچی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 1964ء میں ان کی پہلی کہانی ماہنامہ ’’ہم قلم‘‘ کراچی میں شائع ہوئی۔ 19 سال کی عمر میں وہ صحافت سے وابستہ ہو گئیں۔ زاہدہ حنا نے کچھ عرصہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں بھی کام کیا۔ انہوں نے پاکستان کی عالمی سروس کے لیے بھی ہفت روزہ پروگرام کئے۔ 1988ء سے 2006ء تک روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں کالم لکھتی رہیں۔ اس کے بعد سے ا ب تک ایک موقر روزنامے سے وابستہ ہیں ۔

    زاہدہ حنا پاکستان‘ ہندوستان‘ انگلستان‘ امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں مختلف موضوعات پر مقالے بھی پڑھ چکی ہیں۔ ان کے متعدد افسانوں کے ترجمے ہندی‘ گورمکھی‘ بنگلہ‘ انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں فیض ایوارڈ‘ لٹریری پرفارمنس ایوارڈ‘ ساغر صدیقی ایوارڈ‘ کے ایم پی ایوارڈ بہترین افسانہ نگار‘ سندھ اسپیکر ایوارڈ اور بھارت میں ملنے والا سارک ادبی ایوارڈ 2001ء شامل ہیں۔ 2006ء میں اُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا لیکن انہوں نے ملک میں ملٹری حکومت ہونے کی وجہ سے احتجاجاً یہ اعزاز لینے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا تو وہ انکار نہ کرسکیں ۔

    زاہدہ حنا کے افسانوی مجموعے ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘، ’’راہ میں اجل ہے‘‘ ، ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘، ’’رقص بسمل ہے‘‘ اور ’’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو ناول ’’درد کا شجر‘‘ اور ’’درد آشوب‘‘ بھی تصنیف کئے ہیں۔ انہوں نے ٹیلیویژن کے لیے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا طویل دورانیہ کا ڈرامہ ’’زرد پتوں کا بن‘‘ بہت مقبول ہوا ۔

  • معروف مصنف اشفاق احمد کو گزرے 14 برس بیت گئے

    معروف مصنف اشفاق احمد کو گزرے 14 برس بیت گئے

    لاہور: آج اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانشور، براڈ کاسٹر اور صوفی جناب اشفاق احمد 14ویں برسی ہے، آپ 7 ستمبر 2004کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

    معروف مصنف اشفاق احمد22 اگست 1925ءکومکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔

    وہ انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا ًبعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے، انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔

    آپ داستان گو اور لیل و نہار نامی رسالوں کے مدیر بھی رہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے،اجلے پھول، سفر مینا، پھلکاری اور سبحان افسانے کے نام سے شائع ہوئے۔

    ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور 41 سال تک چلتا رہا۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے۔ صوفی مزاج کے حامل اشفاق احمد 7ستمبر 2004ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اشفاق احمد کی تحاریر سے اقتباسات


    ایک سوال

    اشفاق احمد لکھتے ہیں ایک سوال نے مجھے بہت پریشان کیا

    سوال تھا:مومن اور مسلم میں کیا فرق ہے؟
    بہت سے لوگوں سے پوچھا مگرکسی کے جواب سے تسلی نہ ہوئی
    ایک دفعہ گاؤں سے گزر رہا تھا،دیکھا ک ایک بابا گنے کاٹ رہا ہے
    نہ جانے کیوں دل میں خیال آیاکہ اِن سے یہ سوال پوچھ لوں۔
    میں نے بابا کو سلام کیااور اجازت لے کر سوال پوچھ لیا۔
    بابا جی تھوڑی دیر میری طرف دیکھتےرہے اور جواب دیا۔۔
    مسلمان وہ ہے جو اللہ کو مانتا ہے۔
    مومن وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے۔

    عشق

    مجھے بہت جستجو تھی کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی میں فرق جان سکوں،ایک دن ابا جی نے بتایاکہ۔۔۔۔
    اشفاق،اپنی انا کو کسی ایک شخص کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے، اور اپنی انا کو سب کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔

    عورت

    آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی بات کریں، کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں اگر اِس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اِس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔
    اِس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اِس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہےاور وہ اِسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔
    اس لیے وہ کسی عقل و دانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی۔
    اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے۔

    محبت

    میرا پہلا بچہ میری گود میں تھا۔
    میں ایک باغ میں بیٹھا تھا۔
    اور مالی کام کر رہے تھے۔
    ایک مالی میرے پاس آیا اور کہنے لگا” ماشا اللہ بہت پیارا بچہ ہے۔اللہ اِس کی عمر دراز کرے”۔
    میں نے اُس سے پوچھا ،” تمھارے کتنے بچے ہیں؟” ۔
    وہ کہنے لگا،” میرے آٹھ بچے ہیں”۔
    جب اُس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا ،تو میں نے کہا کہ ” اللہ اُن کو سلامت رکھے ۔لیکن میں اپنی محبت کو آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں”۔
    یہ سُن کر مالی مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا۔
    صاحب جی! ” محبت تقسیم نہیں کیا کرتے ۔۔۔۔۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں “۔

    خوشی

    خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو دو چار آنے دے دئیے۔
    خوشی تب ملتی ہے جب آپ اپنے خوشیوں کے وقت سے وقت نکال کر انہیں دیتے ہیں جو دُکھی ہوتے ہیں،کوئی چیز آپ کو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو خوشی آپ کو روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے ۔

  • افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    ڈاکٹر افشاں ملک

    ناصر دفتر سے لوٹا تو روزانہ کی طرح امّاں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھیں‘ ہاتھ میں تھمی تسبیح کے اک تواتر سے گرتے دانے ،بند آنکھیں اور بے آواز ہونٹوں کی جنبش بتا رہی تھی کہ کوئی ورد جاری ہے۔ شہلا اپنے کمرے میں اپنی کسی دل چسپی میں مگن تھی اور ملازمہ معمول کے مطابق باورچی خانے میں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی۔

    ناصر کی شادی کو ایک سال ہونے والا تھا لیکن امّاں نے ابھی تک اس کی بیوی شہلا کو گھر کی ذمہ داریوں سے دور ہی رکھا تھا۔ وہ خود ملازمہ کے ساتھ مل کر بڑی خوش اسلوبی سے گھر چلا رہی تھیں ۔ لیکن ناصر چاہتا تھا کہ اب شہلا گھر کی ذمّہ داریاں سنبھال لے۔ وہ جب بھی امّاں کو ملازمہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مصروف دیکھتا تو بڑی محبت سے کہتا: ” امّاں اب آپ گھرکے کاموں کی ذمّہ داری شہلا کو سونپ کر سبک دوش ہو جائیں ،آرام کریں اور ہم دونوں سے اپنی خدمتیں کروائیں ۔“

    ناصر کی اس محبت پر امّاں کی آنکھیں بھر آتیں: ”بس بیٹا‘ رہنے دو ابھی اسے آزاد کچھ دن۔ عمر پڑی ہے کام کرنے کے لیے۔ یہی کچھ دن ہوتے ہیں لڑکیوں کے جب وہ کچھ آزادی محسوس کرتی ہیں۔ بعد میں تو بچوں کی دیکھ بھال اور گھر گرہستی کے کاموں میں گزر جاتی ہے ان کی ساری زندگی اور ملازمہ بھی توہے میری مدد کے لیے بس ذرا نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے سو میں دیکھ لیتی ہوں ۔“

    ناصر نے اماں کے اکیلے پن کو دیکھتے ہوئے گھر کے کاموں کے لیے کل وقتی ملازمہ بہت پہلے ہی رکھ لی تھی۔ بھلی اور ایمان دار عورت تھی، کوئی بچہ بھی نہ تھا، شوہر کے انتقال کے بعد بے گھر ہو گئی تھی۔ یوں اسے بھی مخلص لوگ اور ایک چھت میسر آ گئی تھی ۔امّاں اور ناصر اسے گھر کے فرد جیسا ہی سمجھتے تھے۔

    ناصر کی دلہن کے روپ میں شہلا امّاں کو بہت اچھی لگتی تھی، وہ اس کی خوب ناز برداریاں کرتیں، اس سے پوچھ پوچھ کر اس کی پسند کے کھانے پکواتیں، کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتیں، سجا سنورا دے کھ کر خوش ہوتیں، ہزاروں دعاﺅں سے نوازتیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوش دیکھ کر مطمئن ہو جاتیں۔ لیکن شہلا عجیب مزاج کی لڑکی تھی اسے نہ امّاں پسند تھیں اور نہ امّاں کی محبت کے انداز بھاتے تھے۔ اسے صرف ناصر پسند تھا بلا شرکت غیرے۔

    امّاں کا دل چاہتا کہ شہلا ان کے پاس بیٹھے بات کرے لیکن شہلا ناصر کے دفتر جاتے ہی اپنے کمرے تک محدود ہو جاتی، گھر میں ہوتی تو ٹیلی ویژن پر ڈیلی سوپ اور فلمیں دیکھ کر وقت گزارتی، سہیلیوں سے فون پر باتیں کرتی اورسارا سارا دن یوں ہی اپنے کمرے میں گزار دیتی۔ یا پھر اسے ناصر کے ساتھ باہر گھومنے جانا پسند تھا۔ امّاں کی قربت اسے گوارا نہ تھی۔ شروع کے دنوں میں شہلا کی کم گوئی کو امّاں نے شرم پر محمول کیا لیکن رفتہ رفتہ اس کی بے نیازی انہیں محسوس ہونے لگی۔ جہاندیدہ تھیں، ایسے ہی رویوں کی ستائی ہوئی بھی تھیں سو خاموشی اختیار کرلی۔ ناصر سے بھی کچھ نہ کہا لیکن وہ شہلا کے اس رویے سے بے خبر نہ تھا اورخاموشی سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شہلا کسی وقت نہ امّاں کے پاس بیٹھتی ہے نہ ان سے مخاطب ہوتی ہے اور اگر امّاں خود اس سے مخاطب ہوتی ہیں تو لیے دیے انداز میں نپے تلے جواب دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔

    جب تک ناصر گھر میں رہتا اور امّاں کے پاس بیٹھا ہوتا تو شہلا کو بھی ناصر کی وجہ سے بادلِ نخواستہ امّاں کے پاس بیٹھنا پڑتا لیکن اس کی کوشش یہی رہتی کہ ناصر بھی امّاں سے دور رہے۔ مگردفتر سے لوٹ کرناصرکا امّاں کے پاس بیٹھ کر کچھ وقت گزارنا روزانہ کا معمول تھا اور جب سے شادی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ امّاں اور شہلا روزانہ کچھ وقت ساتھ گزاریں ،باتیں کریں۔ شہلا جب تک آکر نہ بیٹھتی ناصر اسے آوازیں دیتا رہتا۔ ناصر کے اصرار پر شہلا وہاں آکر بیٹھ تو جاتی لیکن اس کے چہرے سے بے زاری صاف جھلکتی جسے امّاں کے ساتھ ہی ناصر بھی خوب سمجھتا تھا بلکہ اب تو ملازمہ بھی امّاں کے تئیں شہلا کے اس رویے کو سمجھنے لگی تھی۔


    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں


    ناصر کی فکر دن بدن بڑھتی جا رہی تھی، وہ ہر حال میں امّاں اور شہلا کے درمیان اچھے تعلقات کا متمنی تھا ۔ ایک طرف شہلا اس کی بیوی جس سے وہ محبت کرتا تھا اوردوسری طرف امّاں تھیں جن کا دل دکھانے کا خیال بھی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔ امّاں سے تواس کا رشتہ ہی بہت انوکھا تھا بلکہ سچ تو یہ تھا کہ ان میں تو کوئی رشتہ ہی نہیں تھا نہ وہ اس کی سگی ماں تھیں نہ سوتیلی وہ تو اس کی منھ بولی ماں تھیں۔ ناصر کے دل میں ان کے لیے بے حد عزت و احترام تھا اوروہ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے۔

    امّاں اور ناصر کے اس انوکھے رشتے کی کہانی بھی خوب تھی۔ ناصر صحافی تھا اور ایک مشہور ٹی وی چینل میں ریسرچ اور اسکرپٹ رائٹنگ کے شعبے سے منسلک تھا۔ حالیہ پروجیکٹ کے تحت چینل کی طرف سے اسے ایسے فلاحی اداروں کا سروے سونپا گیا تھا جو عمر رسیدہ، بیوہ اور بے سہارا خواتین کے تحفظ اور فلاح کے لیے کام کر رہے تھے۔ ”آشیانہ“ نام کے ایک غیر سرکاری’ اولڈ ایج ہوم ‘ میں اس کی ملاقات صابرہ خاتون سے ہوئی تھی۔ سروے کے دوران بزرگ اور بے سہارا خواتین کے بہت سے مسائل اور کچھ ایسی تلخ سچائیاں سامنے آئیں جن کا ناصر پر بہت گہرا اثر ہوا۔ وہ بے سہارا اور عمر رسیدہ خواتین جن کا دنیا میں کوئی نہیں تھا، ان اداروں میں انہیں روٹی کپڑے اور ایک محفوظ چھت کے ساتھ ہی بیماری میں دوا علاج بھی اگر میسر تھا تو غنیمت تھا اور وہ اتنی سہولیات ملنے پر مطمئن اور خوش بھی تھیں۔ زندگی کی ڈھلتی شام میں ان کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔ مگر ایسی بزرگ خواتین جو اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوکر یہاں پناہ گزین ہو گئی تھیں ذہنی طور پر زیادہ مایوس اور دکھی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنوں کا انتظار جیسے ٹھہر گیا تھا۔ اور کئی کئی برس گزر جانے کے بعد بھی آس کی ڈورکویقین سے تھامے وہ اپنوں کی راہ دیکھ رہی تھیں کہ شاید ان کے دل میں کبھی محبت کا دیا روشن ہو جائے اور وہ انہیں یہاں سے لے جائیں۔ صابرہ خاتون بھی ایک ایسی ہی ماں تھیں جو اپنے بیٹوں کی بے رخی کا شکار ہو کر اس ادارے میں آئی تھیں۔ تفصیلی بات چیت کے دوران انہوں نے ناصر کو بتایا تھا۔

    ”ان کے دو بیٹے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ میں مقیم آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سال پہلے ان کے شوہر کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا اور وہ اکیلی رہ گئیں۔ والد کے گزر جانے کے بعد بچوں نے ان سے رابطہ کیا تسلی دی اور کاروباری مصروفیت کی بنا پر فوری آنے سے معذرت کرتے ہوئے جلد ہی اپنے پاس بلانے کا یقین دلایا۔ مگر دو سال کا عرصہ گزر جانے پر بھی نہ وہ آئے اور نہ ہی مجھے اپنے پاس بلایا۔ شوہر کے گزر جانے کا صدمہ، بڑھتی عمر اور اکیلا پن مجھے اندرہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں مجھے بس اپنے بچوں کا انتظارتھا۔ میرا انتظار بڑھتا جا رہا تھا لیکن نہ وہ خود آرہے تھے اور نہ مجھے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ ہاں میرے دونوں بیٹوں کی باقاعدگی سے بھیجی گئی رقم سے میرا بینک بیلنس بڑھتا جا رہا تھا اوران کی بے رخی اور بے اعتنائی سے میرا دل خالی ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے ان کے پیسوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ میری خوشی تو اپنے بچوں اور ان کے بچو ں کے ساتھ رہنے میں تھی۔ حالاں کہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ کر انڈیا میرے پاس آکر نہیں رہ سکتے لیکن میں تو ان کے پاس جا کر رہ سکتی تھی۔ نہ معلوم وہ خود مجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے یا ان کی بیویوں کو میرا وہاں ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔“

    بولتے بولتے ان کا گلا بھر آیا تھا مگر وہ خاموش نہیں ہوئیں شاید آج پہلی بار انھوں نے کسی سے اپنا درد بانٹا تھا۔

    ”تنہائی اور خاموشی مجھے ڈر انے لگی تھی، میری دل چسپی ہر چیز سے ختم ہوگئی تھی، میرے گھر کا وہ باغیچہ جس میں میرے لگائے ہوئے بیلے اور موگرے کے پھولوں کی مہک سے فضا میں ہر وقت بھینی بھینی سی خوش بو پھیلی رہتی تھی سوکھنے لگا تھا۔ دیسی گلاب کے وہ پودے بھی میری توجہ سے محروم ہو چلے تھے جن پر کھلنے والے پیازی رنگ کے پھولوں کی مہک سے میری روح تک معطّر ہو جایا کرتی تھی۔ میرے بچوں کا بچپن ان کی معصوم شرارتیں، اچھل کود اور ہنسی کی وہ آوازیں جوگھر کے ہر گوشے میں محفوظ تھیں، تصور میں مجھے اپنا چہرہ دکھا تیں تو میری بے چینی اور بڑھ جاتی۔ اپنے ہی گھر میں ایک بھٹکی ہوئی روح کی طرح میں چکراتی پھرتی۔ تب گھبرا کر میں نے وہ گھر بیچ دیا اور ساری رقم اسی ادارے کو دے دی اور میں خود بھی یہیں آگئی، کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا میرے پاس۔ میں نے سوچا یہاں میرے جیسی اور بھی عورتیں ہوں گی سب مل کر ایک دوسرے کا درد بانٹ لیں گی۔ جب سے یہاں آئی ہوں تنہائی کا احساس کافی حد تک کم ہوگیا ہے مگر دل کا درد کم نہیں ہوتا!“

    صابرہ خاتون کی آپ بیتی سن کر ناصر بہت اداس ہو گیا تھا۔ وہ خود بھی اس دنیا میں اکیلا تھا اور اکیلے پن کے درد کو بہ خوبی سمجھتا تھا۔ اس کی ماں اس کی پیدائش کے وقت ہی چل بسی تھی‘جب وہ ایک سال کا تھا تب اس کا باپ بھی ایک حادثے کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ بوڑھی دادی تھی جس نے تین سال کی عمر تک اسے اپنے سینے سے لگائے رکھا لیکن ایک دن اچانک جب دادی بھی چل بسی تو محلے کا کوئی شخص از راہِ ہمدردی اسے ایک یتیم خانے میں چھوڑ آیا جہاں اس کی پرورش ہوئی۔

    ناصر ایک ذہین اور سلجھا ہوا بچہ تھا، اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے یتیم خانے کے مہتمم سر فراز علی نے ذاتی طور پراس کی سرپرستی کی ذمّہ داری اپنے سر لے لی اوراس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ ناصر نے بھی ان کو کبھی مایوس نہیں کیا، تعلیمی مراحل بہ خوبی طے کیے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے صحافت کو بہ طور کیریئر چنا۔ تین سال پرنٹ میڈیا میں کام کرنے کے بعد ناصر نے الیکٹرانک میڈیا کی طرف رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنی محنت اور لگن سے بہت جلد اپنی شناخت قائم کر لی۔

    صابرہ خاتون سے مل کرجب ناصر لوٹا تو اس نے اپنے دل میں ایک مضبوط فیصلہ کرلیا تھا۔ اس نے ایک ہفتے کے اندر ہی ” آشیانہ “پہنچ کر صابرہ خاتون سے دوبارہ ملاقات کی اورنم ناک آنکھوں اور بھرّائی ہوئی آواز میں ان سے اپنی دلی تمنا کا اظہارکر دیا۔

    صابرہ خاتون کو اس وقت ناصر ایک معصوم بچہ نظر آیا۔ ایک لمحے کو انہیں محسوس ہوا کہ ایک اونچے پورے مرد کے اندر کا بچہ ماں کی مامتا پانے کے لیے بے قرار ہے۔ پیٹ کی اولاد نے تو آنکھیں پھیر لی تھیں لیکن دو ملتجی غیر آنکھیں ان کے چہرے پر جمی ہوئی ان سے مامتا کی بھیک مانگ رہی تھیں۔ بس وہی ایک لمحہ زخمی مامتا پر جیسے مرہم کا ٹھنڈا پھاہا رکھ گیا، صابرہ خاتون نے ناصر کی خواہش پر ہامی بھردی ۔

    ناصر نے ضابطے کے مطابق حلف نامہ جمع کرایا اور صابرہ خاتون کوماں بنا کراپنے گھرلے آیا ۔ دونوں کے بیچ کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک خوبصورت اور مضبوط رشتہ بن گیا۔ ان کو ناصر کے ساتھ رہتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے اوراب وہ ناصر کی شادی کر کے ایک ماں کا فرض ادا کرنا چاہتی تھیں۔ ایک دن جب ناصر بہت اچھے موڈ میں ان کے پاس بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا تب انہوں نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی۔

    ”بیٹا میں چاہتی ہوں تمہاری شادی ہوجائے‘ گھر بس جائے تمہارا۔“

    ”گھر تو بسا ہوا ہے امّاں!“

    ”کب اور کیسے؟ “ صابرہ بیگم نے حیران ہو کر ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” آپ کے آجانے سے امّاں‘ ‘ وہ شرارت پر آمادہ تھا۔

    ”بے وقوف لڑکے‘ میں تیری شادی کی بات کر رہی ہوں۔ “ ناصرکی بات سن کر وہ مسکرائے بغیرنہ رہ سکی تھیں۔

    ”دیر سے شادی ٹھیک نہیں بچّے۔ اگر تم نے کوئی لڑکی پسند کر رکھی ہو تو بتاؤ، ورنہ میں کچھ کرتی ہوں۔“

    ”ارے نہیں امّاں! میں نے کوئی لڑکی وڑکی پسند نہیں کر رکھی‘ بس آپ کو پسند کیا تھا اور لے آیا۔“ وہ بہ دستور مذاق کے موڈ میں تھا اور ہنس رہا تھا لیکن صابرہ خاتون کو سنجیدہ دیکھ کر بول اٹھا ۔”اچھا اچھا ‘ جیسی آپ کی مرضی! لیکن میری ایک شرط ہے کہ شادی آپ کی پسند سے ہوگی اورآپ کو حق ہے جس پر چاہیں قربان کر دیں مجھے‘ اُف بھی نہ کروں گا۔ “

    وہ چھیڑنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ اس کی رضا مندی مل جانے پر صابرہ خاتون نے سرفراز علی کی بیوی کی مدد سے دو ایک لڑکیاں دیکھیں اور شہلا کو پسند کرکے بہو بنالائیں۔

    ناصر کی زندگی میں شہلا بہار بن کر چھا گئی۔ خلوتیں آباد ہوئیں تو زندگی اس کے سامنے ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ دل میں مسرت اور شادمانی کے موسم اُتر آئے، بشاشت اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگی، اس کی زندگی میں اب خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔

    چند مہینے ہی اچھے گزرے پھر رفتہ رفتہ صابرہ خاتون کے تئیں شہلا کا رویّہ بدلنے لگا۔ اس کی نظروں میں ان کے لیے نہ احترام ہوتا نہ محبت۔ امّاں کو اس طرح نظر اندازکرتے دیکھ کر ناصرکو تشویش ہونے لگی۔ اسے شہلا کے رویے کی وجہ سے اپنے دل میں امّاں سے عجیب سی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ توتصوّر میں بھی امّاں کو دکھ نہیں پہنچا سکتا تھا۔ زندگی میں ان کے آجانے سے اس نے ماں کی مامتا کو محسوس کیا تھا اور ایک ایسا رشتہ جیا تھا جس کا مزہ اس نے چکھا ہی نہیں تھا، اس کی زندگی کے اتنے بڑے خلا کو صابرہ خاتون نے اپنی بے لوث محبت سے پُر کیا تھا۔ وہ بےچین ہو اٹھا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شہلا سے کھل کر بات کرے گا اور اسے سمجھائے گا۔ امّاں سے اپنے رشتے کی نوعیت بتائے گا۔ ناصر کو یقین تھا کہ شہلا پڑھی لکھی لڑکی ہے احساس دلانے پراپنے رویے پر ضرورغور کرے گی۔ لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی ناصر نے اس سے کھل کر بات کی تو وہ بھی کھل کر سامنے آگئی، دل میں صابرہ خاتون کو لے کر جو غبار بھرا ہوا تھا ایک جھٹکے میں نکال باہر کیا۔

    ”ناصر اچھا ہوا تم نے ہی بات چھیڑ دی۔ میں خود تم سے بات کرنے والی تھی۔“

    ”ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اگر امّاں سے تمہیں کوئی شکایت ہو تو مجھے بتاﺅ۔ یوں تووہ تم سے اور مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں سارا گھر سنبھال رکھا ہے انہوں نے پوری طرح آزاد ہو تم۔ وہ اسے احساس دلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن شہلا تو جیسے ناصر کی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی اپنی ہی کہے جا رہی تھی۔

    ”ناصر حیرت ہوتی ہے مجھے تمہاری حرکتیں دیکھ کر۔ تمہارا سارا دھیان صرف امّاں کی خوشی میں ہی رہتا ہے۔ ۔چہرہ پڑھتے رہتے ہو تم ان کا۔ میں تو تمہیں نظر ہی نہیں آتی۔ لوگ سگی ماؤں کی اتنی پرواہ نہیں کرتے جتنی تم اس غیرعورت کی کرتے ہو۔ اور تم کوئی بچّے تو تھے نہیں کہ تمہیں ماں کی اتنی ضرورت تھی کہ اپنی ماں نہیں تھی تو اولڈ ایج ہوم سے ہی ماں کے نام پراٹھا لائے ایک عورت۔“

    وہ ایسا زہر اگلے گی ناصر کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ گنگ سا بیٹھا وہ اسے دیکھ رہا تھا مگرشہلا کے ترکش میں ابھی کچھ تیر باقی تھے۔

    ”تنگ آگئی ہوں میں ان کی دخل اندازی سے۔ ہر وقت نصیحتیں، ہر وقت تاکیدیں، ناصر کو یہ پسند ہے، وہ پسند نہیں ہے۔ ناصر لاابالی سا ہے، اس کی بکھری چیزیں سمیٹ کر رکھ دیا کرو۔ اس کی پسند کی ایک ڈش بنا لیا کرو۔ اس کی الماری ٹھیک کردیا کرو، حد ہوگئی ہے ناصر۔ اچھا یہ بتاﺅ وہ ہوتی کون ہیں مجھ پر اس طرح حکم چلانے والی؟ بس ایک منھ بولا رشتہ ہی تو ہے تمہارے اور ان کے درمیان۔ اور سنو، وہ جس طرح تمہارے اوپر حکم چلاتی ہیں مجھے وہ بھی پسند نہیں ہے۔ تمہیں نہیں لگتا کہ حد پار کر رہی ہیں وہ؟“

    ”خاموش ہو جاﺅ! اب ایک لفظ بھی آگے مت بولنا۔‘‘ ناصرچیخ پڑا۔ ’’کتنی بے حس ہو تم! جذبات سے عاری عورت۔ اور کیسی تعلیم حاصل کی ہے تم نے کہ ذرا تمیز نہیں ہے تمہیں۔بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، ادب لحاظ سب طاق پر رکھ دیا ہے۔ کبھی سوچا تم نے کہ تمہارا یہ رویّہ کتنا دکھ دیتا ہوگا انہیں؟“

    ناصر کے اندر ایک درد سا اتر آیا لیکن شہلا کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی اسے توجیسے اپنے اور ناصر کے درمیان صابرہ خاتون کا وجود برداشت ہی نہیں تھا ۔امّاں کو لے کردونوں کے بیچ سرد جنگ شروع ہو گئی آپس میں بات چیت بھی کم ہو گئی، دونوں کھنچے کھنچے سے رہنے لگے۔ کئی دن یوں ہی گزر گئے۔

    امّاں کی وجہ سے ناصر بات کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا تھا، سو اس نے خود ہی شہلا سے بات کرنے کی پہل کر دی۔ شہلا بھی شاید انتظار میں ہی تھی، اس نے بھی زیادہ نخرے نہیں دکھائے۔ ماحول میں کچھ اچھی سی تبدیلی ہوئی تو ناصر کو بھی سکون کا احساس ہوا اورحالات کے بہتر ہونے کی آس بھی بندھ گئی۔

    اس دن جب ناصر دفتر سے لوٹا تو خلافِ معمول شہلا کو اچھے موڈ میں دیکھ کر اسے اطمینان سا ہوا۔ سوچنے لگا کہ شاید شہلا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں پہنچا تو شہلا کو اپنا منتظر بھی پایا۔ ادھر کافی دنوں سے وہ دیکھ رہاتھا کہ جب وہ بیڈ روم میں آتا تو شہلا اسے سوئی ہوئی ملتی، نہ معلوم سو جاتی تھی یا سوجانے کا ناٹک کرتی تھی۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوگیا۔

    ’’کیا بات ہے بھئی آج تو تم جاگ رہی ہو، کیا ہمارا انتظار ہو رہا تھا ؟“ اس نے مسکراتے ہوئے شریر انداز میں شہلا کی طرف دیکھا۔

    ”ہاں ناصر! میں کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ تم سے بات کروں لیکن تم ناراض تھے تو میری ہمت ہی نہیں ہوئی۔“ بڑی ادا سے اس نے ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” ہاں تھا تو ناراض۔ تم منا لیتیں۔ میں تو منتظر تھا۔ خیر کوئی بات نہیں میں منا لیتا ہوں تمہیں۔ بتاؤ کیا بات ہے؟“ وہ ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ” ناصر غلطی میری بھی ہے اتنے دنوں میں بھی تم سے دور دور رہی۔“

    شہلا کی اس تبدیلی پر ناصرکو حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہو رہی تھی۔ و ہ اسے اب اور شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھاوہ تو بس یہی چاہتا تھا کہ شہلا ماں کے رشتے کی نوعیت کو سمجھ لے ان کی عزت کرے ان سے محبت کرے بس!

    ”ہاں تم کیا کہنا چا رہی تھیں کہو نہ۔ دل کی بات دل دار سے کہنے میں اتنی شرم؟“ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ ایک قاتل ادا سے شہلا نے ناصر کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔

    ”ناصر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم امّاں کو واپس ’آشیانہ‘ پہنچا دو؟“

  • حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    تحریر: شیخ نوید

    میرے پسندیدہ ادیب گیبریئل گارسیا مارکیز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نوبیل انعام کے حصول کے بعد جب ان کی شہرت کو پر لگ گئے تو ان کے لیے نئے دوستوں کی تعداد گننا نا ممکن ہو گیا، مارکیز کے مطابق جہاں کچھ افراد منافقانہ خوشامد کے ساتھ ان کی شہرت سے اپنا حصہ لینے کے خواہش مند تھے وہیں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اتنے ہی مخلص تھے جتنا غربت اور مشکلات کے دور میں ساتھ دینے والا کوئی خلوص کا مارا ہم درد ساتھی ہوسکتا ہے، شہرت نے انھیں میرا اتا پتا بتایا اور وہ مجھ سے آ ملے، شہرت سے مخلص دوستوں کے ملنے کا یہ پہلو تعجب خیز اور دل فریب بھی ہے۔

    حفیظ تبسم سے رابطے کا معاملہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے لیکن یہاں ملاپ کا ذریعہ میری یا حفیظ کی شہرت نہیں بلکہ فیس بک کی ویب سائٹ تھی۔ صحیح طرح سے یاد نہیں، حفیظ نے شاید اپنے پسندیدہ ناولوں کی فہرست لگائی تھی اور دوستوں کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنے ناولوں کی لسٹ بنائیں، حفیظ نے شاید میرے کسی دوست کو ٹیگ کیا ہوا تھا اس لیے اُس پوسٹ تک میں بھی پہنچ گیا، اس وقت دوچار تنقیدی کتابیں کچی پکی پڑھ کر میں ’’کلاسیکی تنقیدیت‘‘ کو اپنے جیب میں ڈالے گھوما کرتا تھا۔ جھٹ سے اپنی فہرست اس تیقن کے ساتھ لگائی کہ اس سے بہتر کوئی لسٹ روزِ قیامت تک وجود میں نہیں آ سکتی۔ حفیظ نے اعتراض کیا، میں نے جواب دیا، کچھ ایچ پیچ بھی ہوئی، میں نے حفیظ کی پروفائل پر جا کر سرسری جائزہ لیا تو ان کو صاحبِ کتاب پا کر مرعوب ہوگیا، وہ بھی تین کتابیں، میں نے پسپائی میں ہی عافیت سمجھی، دوسری مرتبہ کسی پوسٹ میں برادرم سید کاشف رضا کا کمنٹ پڑھا جس میں انھوں نے حفیظ تبسم کی شاعری سے نہایت مثبت توقعات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اسی روز انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی اور یوں ہماری دوستی کی بنیاد پڑی۔

    حفیظ تبسم

    حفیظ سے پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں عالمی ادبی کانفرنس کے موقع پر ہوئی جب وہ عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام کے گھیرے میں آڈیٹوریم کے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر ٹہلتے نظر آئے، عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام سے حلقہ ارباب ذوق کراچی کے اجلاسوں میں شناسائی ہوچکی تھی، حیرت کی بات یہ تھی کہ حفیظ تبسم کو پہچاننے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی، شاید اس کی وجہ ان کا اور میرے جثے کا متضاد ہونا تھا، مجھے اگر تین برابر حصوں میں کاٹا جائے تو ایک حصے کا وزن حفیظ تبسم سے تھوڑا زائد ہی نکل آئے گا، ایک بھاری جسم والا انسان سنگل پسلی کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور زیادہ نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ پھر اسے بھوک لگ جاتی ہے۔ رشک کے اسی جذبے نے اس کے منحنی سے وجود کو میرے دماغ میں نقش کردیا تھا۔

    حفیظ تبسم نے جب اپنی کتاب ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ میرے حوالے کی تو انوکھے عنوان نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، دشمنوں کی فہرست کا جائزہ لیا تو سرفہرست میرے جگری دوست رفاقت حیات، سید کاشف رضا، عاطف علیم، عطاء الرحمٰن خاکی اور پسندیدہ شخصیات میں افضال احمد سید، پابلو نیرودا، رسول حمزہ توف، نصیر احمد ناصر، ملالہ یوسف زئی، سید سبط حسن، سورین کرکیکارڈ، عذرا عباس اور انور سن رائے کی نام جگمگاتے نظر آئے، حفیظ نے منٹو کو بھی نہیں بخشا، فیشن کے مطابق تو منٹو کو گالی دینا مشرقی روایات کے عین مطابق ہے لیکن حفیظ نے دشمنی کے لیے منٹو کو کیوں چنا یہ فی الوقت واضح نہیں تھا۔

    سب سے پہلے لفظ دشمن پر غور کیا، امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا فقرہ یاد آیا کہ میری قدر و قیمت کا اندازہ میرے دشمنوں سے لگایا جائے، مطلب یہ کہ دشمن آپ کی طاقت یا کم زوی کا پیمانہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو حفیظ تبسم نے ایسے دشمن چنے ہیں جن کی تخلیقات لاکھوں افراد کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں اور کروڑوں دلوں پر راج کرتے ہیں اور حتمی طور پر حفیظ تبسم کے فکری نشوونما اور شاعری کی رخ کو بھی متعین کرتے ہیں۔

    دشمنوں کو ایک اور پہلو سے ممتاز بھارتی ادیب ارون دھتی رائے نے دیکھا ہے، ان کے بقول دشمن تمہارے حوصلے کبھی توڑ نہیں سکتے یہ کام صرف دوست سر انجام دیتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے حفیظ تبسم کے دشمنوں کی لسٹ پر نظر دوڑائی جائے تو حفیظ کے حوصلوں کی بلندی قابل داد نظر آتی ہے۔ کس ماں نے ایسا بچہ کب جنا ہے جو منٹو کے حوصلوں کا مقابلہ کرے۔

    میں نے لفظ دشمن کو کسی اور نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عام فہم معنی میں میٹھی سی زندگی کے اندر کڑواہٹ گھولنے والوں کو دشمن کہا جاتا ہے، جسم کی طرح دماغ بھی آرام کا متلاشی رہتا ہے، دماغ کے لیے سوچنا ایک قسم کی مشقت ہے اور پسینہ بہانا (لغوی معنوں میں) کسے پسند ہے۔ دنیوی راحتوں اور رنگینیوں میں مست فرد کے دماغ کو سوچنے کی دعوت دینا سخت اذیت سے دوچار کرنا ہی کہلائے گا، بغیر کسی حتمی جواب کے سوالات اٹھانا کسی بھی پرسکون دماغ میں اتھل پتھل لانے کے لیے کافی ہے، حفیظ نے جو دشمنوں کی فہرست بنائی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو سوالات اٹھانے کا خطرناک فن جانتے ہیں۔

    سنجیدہ ادب کے مقابلے میں پاپولر ادب کو اسی لیے عام قارئین پسند کرتے ہیں کہ اس میں اول تو کسی قسم کے سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے اور اگر غلطی سے ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے سوالات خود بہ خود کھڑے بھی ہو جائیں تو مصنف کی جیب میں موجود آفاقی سچائیوں سے جوابات ڈھونڈ کر قاری کو مطمین کر دیا جاتا ہے اور سوالات ہمیشہ کے لیے لٹا دیے جاتے ہیں، ایک بے راہ رو ہمیشہ آسمانی عذاب کا شکار ہوتا ہے، گنہگار اپنے بد ترین انجام کو پہنچتا ہے، عظیم سپاہی ہمیشہ اپنے مشن میں کام یاب ہوتے ہیں اور آخر میں ہیرو ہیروئن  عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں (نسیم حجازی کے ناولوں میں وہ گھوڑوں پر سوار ہوکر اپنے مزاج کے مطابق بحرِ ظلمات کے روٹ پر بھی نکل جاتے ہیں)۔

    دماغ اسی وقت پریشان ہوتا ہے جب منٹو ایمان والوں کو ’’کھول دو‘‘ کی ننگی حقیقت سے دوچار کرتا ہے۔ جب وہ کوٹھے کے جہنم میں بھی جنتی وجود تلاش کرلیتا ہے اور چمڑی بیچنے والے سوداگروں میں انسانی جذبات کو باہر کھینچ نکال لاتا ہے۔

    حفیظ تبسم کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی جس نے مجھے از حد متاثر کیا وہ سریئلزم اور تجریدی تمثالوں کی فراوانی ہے، آپ ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ کا کوئی صفحہ بھی بلا ارادہ کھول لیں، سریئلزم کی جان دار تمثیلوں اور تشبیہوں سے دماغ کو عجیب سی فرحت کا احساس ملتا ہے، افضال احمد سید، احمد جاوید، احمد فواد اور سعید الدین سمیت ہمارے متعدد شعرا نے نثری نظموں میں جس کے قسم کے جدید سریئلزم تجربات کیے، حفیظ اسی راستے کو کام یابی کے ساتھ اپنے خوب صورت اور بے لگام تخیل سے مزید کشادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

    دوسری خوبی جو اس مجموعے کو منفرد بناتی ہے اور وہ منظومہ افراد کی تخلیقات کے عنوانات سے ان افراد کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے سارے تخلیقی حوالوں کے بعد ان کی نظم کی تفہیم مشکل ہوجاتی اور جب تک دشمنانِ منظومہ کی تمام تخلیقات کا مطالعہ نہ کرلیا جائے اسے سمجھنا مشکل ہوتا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ حفیظ تبسم نے ان تخلیقات کے موضوعات اور عنوانات کو نظم کی کرافٹ میں اتنی سلیقہ مندی سے کھپایا ہے کہ وہ منظومہ فرد کی شخصیت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایک کارنامہ ہی ہے کہ حفیظ نے اپنے تخیل سے فن پارے کو اس کے فن کار کی ذات میں تحلیل کرکے اسے ایک نئی معنویت تک پہنچا دیا ہے۔

    دوسرے پہلو سے جن افراد نے دشمنانِ منظومہ کی تخلیقات کا فرسٹ ہینڈ مطالعہ کر رکھا ہے ان کے لیے نظم کی قرأت منفرد سطح کا لطف پیدا کرتی ہے، ویسے بھی نظموں میں اس طرح کے اشارے رکھنے کی ایک مکمل تاریخ ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے جب اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ شائع کی تو اسے بھی مشورہ دیا گیا کہ اس کے ساتھ اشارات اور علامات کی ایک شرح بھی شائع کی جائے۔ میرا خیال ہے حفیظ کو مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم جیسے سہل طبیعت کے قاری بھی دشمنانِ منظومہ کی تخلیقی کارناموں سے واقف ہوسکیں اور ممکن ہے کہ جوش میں آکر کوئی قاری ان کی تخلیقات پڑھنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دے، معجزے کی توقع کسی بھی شخص سے رکھی جاسکتی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو اردو ادب کا قاری کہتا ہو۔

    حفیظ اپنے ’دشمنوں‘ کے صرف کردار کا جائزہ لینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے لاشعوری احساس سے اپنے عصر کے منظر نامے کو بھی پینٹ کرتا ہے اور اُس میں ہر اس انوکھے رنگ کو ڈال دیتا ہے جس کی ضرورت اس کا عصری مسائل سے لاشعوری طور پر مزین تخیل اجازت دیتا ہے۔ سیاسی سفاکیت اور بے حسی، فکری انہدام کی گہری گھاٹیاں، علم دشمنی کی خیرہ کن چمک دمک، نفسیاتی بھول بھلیوں اور سماجی ناانصافی کے غیر عقلی رویوں کا بیان بھی ان کی نظموں میں زیریں سطح پر بہتا ہوا نظر آتا ہے اور کسی موقع پر سرئیلزم کے زبان میں نہایت کاٹ دار لہجہ اختیار کرلیتا ہے۔

    اچھے اور معیاری ادب کی یہ خوبی مسلم ہے کہ وہ مانوس کو نامانوس بنا کرپیش کرتا ہے۔ دشمنانِ حفیظ بھی جانے پہچانے اور بہ ظاہر مانوس نظر آتے ہیں۔ منٹو کا نام سن کر ہر گنہگار کانوں کو ہاتھ لگانا فرض سمجھتا ہے، نیرودا کو بھی اسی قسم کے جنسی جذبات سے عاری قدسی صفات افراد کی مخالفت کا سامنا رہا، سبط حسن کی کتابیں آج بھی کئی افراد کی جبیبوں پر شکنیں ڈال دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملالہ یوسفزئی کو گالی دینا تو کچھ افراد کے نزدیک مذہبی رسومات میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گالی کے ساتھ ان کے ایمانی درجے میں بڑھوتری ہوجاتی ہے۔

    حفیظ کی نظموں میں یہ شخصیات ماوارئی کردار میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور کردار حقیقی وجود رکھتے ہوئے بھی اتنے غیر حقیقی بن جاتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے فینٹیسی کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ حفیظ ان کے ادبی یا سماجی کارناموں کی علامات کو تجریدیت اور سرئیلزم کی سرحد کے پار ڈال کر انہیں ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں مکمل نامانوسیت کی فضا طاری رہتی اور قاری بھی اسی انوکھی اور ان دیکھی فضا میں خود کو تحلیل ہوتے پاتا ہے۔

    کہیں پڑھا تھا کہ اگر امر ہونا چاہتے ہو تو کسی ادیب سے دوستی کرلو، حفیظ تبسم نے اپنے مجموعے ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ سے بھی اسی قسم کی کاوش کی، اُس نے اپنے’ دشمنوں‘ کو آب حیات کے رنگ سے تراشنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ خاکے ہمارے ادبی سفر کا ایک وقیع تجربہ ہیں جس کی معنویت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ خاکے ہماری زبان کے ادبی سفر کے روشن پڑاؤ ہیں جس کی روشنی راہ ادب کو مزید منور کرے گی۔

    خوشی کی بات ہے کہ شاعری کے ساتھ حفیظ تبسم نے ایک ناول بھی لکھا ہے جو اشاعت سے قبل کے نظرثانی کے آخری مراحل پر ہے، مجھے امید ہے کہ اپنی شعری تخلیقات کی طرح وہ اپنے فکشن سے بھی اپنے استاد ساحر شفیق کی طرح افسانوی ادب میں نئی راہ نکالنے میں کام یاب رہیں گے۔ مجموعہ پڑھنے سے پہلے میں حفیظ کو اپنا دوست سمجھتا تھا لیکن اب، مجموعہ پڑھنے کے بعد، اُس کا نام میں نے اپنے دشمنوں کی سنہری فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ روک سکو تو روک لو۔