Tag: اردو ادب

  • شہرہ آفاق شاعراحمد فرازکو بچھڑے10 برس بیت گئے

    شہرہ آفاق شاعراحمد فرازکو بچھڑے10 برس بیت گئے

    تمغہ امتیاز، ہلال پاکستان اور نگارایوارڈز کے حامل شاعر احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے۔

    اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعراحمد فراز کی آج دسویں برسی ہے آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں

    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    وہ بہت سہولت کے ساتھ سادہ جملوں میں آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔ اکیلے میں جب آپ ان کا لکھا متن پڑھتے ہیں تو مسلسل ہنسنے کی وجہ سے دور سے دیکھنے والا آپ کو یقیناً پاگل سمجھے گا۔ یہ ذکر ہے اس عہدِ مزاح کا جو حیاتِ عارضی کی چمکیلی لیکن مسلسل پگھلتی برف پر پھسلتے پھسلتے اختتام کے نشان پر ٹھہر گیا ہے۔

    یہ ذکر ہے مشتاق احمد یوسفی کا، ذکر ہے آبِ گم کا، ذکر ہے خاکم بَدہن کا، اور زرگزشت کا اور چراغ تلے کا۔ یہ ذکر ہے مسلسل اور باقاعدہ فکر میں مبتلا کرنے والے مزاح کا، ان قہقہوں کا جو آپ کے حلق سے نکلتے ہیں اور اس رجحان ساز ادیب کے گرد خراجِ تحسین کا ہالہ بنا دیتے ہیں۔

    ابنِ انشا اور ظہیر فتح پوری سے ہم تک آتے آتے، کل تک ہم بجا طور پر کہا کرتے تھے کہ ’ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘ یہ عہد اب ختم ہوچکا۔ وہ مرچکے لیکن ان کی لطیف نثر انھیں ہمارے قہقہوں میں زندہ رکھے گی۔ مجھے وہ اس لیے پسند ہیں کیوں کہ وہ اس عہد کے کم کوش اور کم مطالعہ قاری کو بے خوفی سے اپنی شگفتہ نثر میں بھاری الفاظ کا جام پلا دیتے تھے، یہ قاری سمجھتے تھے کہ ان کا ادیب کسی دوسرے پر طنز کر رہا ہے لیکن بھاری لفظ پر پھسلنے والے کو احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ طمانچہ انھیں بھی پڑ چکا ہے۔

    94 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت سے ہونے والے اس عہد ساز ادیب نے سماج کے ہر شعبے کے افراد سے اپنی نثر کے ذریعے تعارف قائم کیا ہے، حتیٰ کہ ہمارا سیاسی شعبہ بھی جس سے وابستہ اکثر لوگ کتاب پڑھنے سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے جہل علم سے دور رہتی ہے، ان کی نثر کا مداح ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عہدِ یوسفی کو کس طرح خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

    صدر، وزیر اعظم و دیگر سیاسی شخصیات کا خراج تحسین


    ملک کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر صدر مملکت، نگراں وزیر اعظم اور ملک کی دیگر اہم سرکاری و سیاسی شخصیات کی جانب سے تعزیتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

    صدر مملکت ممنون حسین نے رجحان ساز مزاح نگار کی دنیا سے رخصتی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ادبی خدمات یاد رکھی جائیں گی، صدر کی جانب سے مرحوم کی مغفرت اور اخروی زندگی میں درجات کی بلندی کی دعا بھی کی گئی۔

    نگراں وزیر اعظم ناصر الملک کی جانب سے بھی مشتاق یوسفی کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، دعاؤں کے ساتھ انھوں نے مرحوم کی ادبی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا، کہا اُن کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    دریں اثنا نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے بہترین مزاح تخلیق کرنے والے ادیب کو خراجِ عقیدت پیش کیا، انھوں نے یوسفی کے غم زدہ خاندان سے اظہار ہم دردی کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے منفرد اسلوب سے مزاح نگاری کو نئی جہت دی۔ ان کا نہایت دکھ سے کہنا تھا کہ آج سے اُردو ادب میں مزاح نگاری کے خوب صورت عہد کا خاتمہ ہوگیا۔

    دوسری طرف کلیدی سیاسی شخصیات کی جانب سے بھی اُردو ادب کے اس روشن اور ہنستے ستارے کے انتقال پر تعزیتی پیغامات جاری کیے گئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی صنف مزاح نگاری سیاسی شعبے کے افراد سے کتنی قربت کی حامل ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ زبان و ادب کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی خدمات اَن مول ہیں، انھوں نے یوسفی کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ ان کی موت سے اردو مزاح نگاری کا عظیم عہد تمام ہوا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی منفرد مزاح نگار کے انتقال پر اظہارِ افسوس پر مبنی پیغام جاری کیا گیا ہے، ان کے بیان میں مرحوم کو اُردو ادب کا درخشندہ ستارہ قرار دیا گیا۔ بلاول نے مرحوم کے غم زدہ خاندان سے تعزیت کی اور کہا کہ یوسفی کی ادبی خدمات گراں قدر ہیں۔

    لطف کی بات ہے کہ سیاسی شخصیات سے ہٹ کر ایک اہم عسکری شخصیت پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے یوسفی کے انتقال پر تعزیت کی ہے۔ آصف غفور نے لکھا کہ مشتاق احمد یوسفی مسکراتے ہوئے ہمیں چھوڑ کر جنت کے ابدی امن کی طرف چل دیے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔

    آصف غفور نے ٹوئٹ کے ساتھ یوسفی کا ایک اقتباس بھی شیئر کیا ہے جو چراغ تلے سے لیا گیا ہے: ’انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔‘

    فردوس عاشق اعوان نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ اُردو ادب کے اثاثے کے چلے جانے پر انھیں گہرے دکھ نے آلیا ہے۔

    امجد اسلام امجد، افتخار عارف اور صابر ظفر


    ملک کی ممتاز ادبی شخصیات کی جانب سے بھی صاحب اسلوب مزاح لکھنے والے ادیب مشتاق یوسفی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز شاعروں میں سرِ فہرست شاعر، ڈراما نگار اور نغمہ نگار امجد اسلام امجد نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی شخصیت کے ایک اہم پہلو کو یاد کیا، کہا کہ مشتاق یوسفی محبت کرنے اور بانٹنے والی شخصیت تھے۔ معروف شاعر افتخار عارف نے بھی کہا کہ مزاح نگاری کے لیے یوسفی کی خدمات گراں قدر ہیں۔

    کراچی سے تعلق رکھنے والے منفرد اور ملک بھر میں مقبول شاعر اور مقبول ترین نغمہ نگار صابر ظفر نے یوسفی کے انتقال پر کہا ہے کہ وہ اس عہد کے مقبول ترین مزاح نگار تھے اور رہیں گے، بہ حیثیتِ انسان وہ بہت شفیق اور مہربان طبیعت کے مالک تھے۔ صابر ظفر نے بھی مرحوم کی شخصی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بعد آنے والے لکھاریوں کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے تھے، عبید اللہ علیم، افتخار عارف اور نصیر ترابی کو سامنے لانے میں ان کی نوازشوں کا بڑا دخل رہا۔ معروف شاعر نے انھیں ایک شجرِ سایہ دار قرار دیا جس کا خلا پورا ہونا ممکن نہیں لگتا۔

    قارئین اور مداحوں کا خراجِ تحسین


    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی پاکستان کے عظیم مزاح نگار کی موت پر انھیں ان کی خدمات کے صلے میں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا، ٹوئٹ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔

    ممتاز مزاح نگار کو ان کے قارئین نے اردو ادب کا لے جنڈ قرار دیا، مداحوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ جوش و خروش سے مرحوم کے لکھے ہوئے مشہور مضامین میں سے اقتباسات شیئر کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مشتاق یوسفی سے آخری دنوں میں ملاقات کرنے والی شخصیات نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یادگار تصاویر شیئر کیں، اور ان کے حوالے سے اہم باتیں بتائیں۔ ایک میڈیا شخصیت نے بتایا کہ 94 سال کی عمر میں بھی مرحوم کی یادداشت نہایت اچھی تھی، وہ ذہنی طور پر کچھ پریشان تھے کیوں کہ بہت کم زور ہوگئے تھے اور خوراک نہیں لے پا رہے تھے۔

  • مزاح کے عالمی دن پر مزاحیہ اردو ادب سے چند شہ پارے

    مزاح کے عالمی دن پر مزاحیہ اردو ادب سے چند شہ پارے

    آج دنیا بھر میں مزاح کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ آج کا دن زندگی کی پریشان کن مصروفیات میں سے کچھ لمحے نکال کر ایک دوسرے سے خوشگوار باتیں کرنے اور ہنسنے سے منسوب ہے۔

    ہمارا اردو ادب نہایت زرخیز ہے جس میں ہر موضوع کے مصنف و شاعر موجود ہیں۔ اسی طرح اردو ادب میں مزاح کی بھی کوئی کمی نہیں۔

    اردو زبان کے وجود میں آںے سے لے کر اب تک بے شمار مصنفوں و شاعروں نے مزاح لکھا جنہیں پڑھنے کے لیے آج کے دن سے بہتر موقع اور کوئی نہیں۔

    تو پھر آئیں مزاح کے عالمی دن پر اردو میں لکھے گئے مزاح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    مشتاق احمد یوسفی

    مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ معروف مصنف ابن انشا نے، جو بذات خود ایک بڑے مزاح نگار ہیں، ان کے بارے میں کہا تھا، ’ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔

    یوں تو یوسفی صاحب کا لکھا گیا ہر جملہ ہی باغ و بہار ہے، ان میں سے کچھ ہم نے آپ کے لیے منتخب کیے ہیں۔

    انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی، گانا اور گندا لطیفہ اپنی زبان میں ہی لطف دیتا ہے۔

    بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔

    دنیا میں جتنی لذیذ چیزیں ہیں ان میں سے آدھی تو مولوی حضرات نے حرام کردی ہیں، اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔

    مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شرع کرے تو سمجھ نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔

    مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

    پطرس بخاری

    پطرس بخاری کا مضمون ’ہاسٹل میں پڑنا‘، اور ’سائیکل کی سواری‘ ہم سب ہی نے اپنی نصابی کتب میں پڑھ رکھا ہے۔

    اپنی کتاب مضامین پطرس کے دیباچہ میں وہ لکھتے ہیں۔

    اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے، اب بہتر یہ ہے کہ آپ اسے اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔

    اپنے مضمون سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں اپنے پڑوسی کے لیے، جنہیں خود پطرس نے اپنے آپ کو جگانے کے کام پر معمور کر رکھا ہے، لکھتے ہیں۔

    یہ سوتوں کو جگا رہے ہیں یا مردوں کو اٹھا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو واجبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوں گے۔ زندہ ہوگیا تو ہوگیا نہیں تو چھوڑ دیا، کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر تھوڑی پڑجایا کرتے تھے، توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے۔

    اپنے پہلی بار سینما جانے کا احوال وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

    تھوڑی دیر بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگے، جہاں ذرا تاریک سا دھبہ دکھائی دے جائے وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگی۔ خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں اس کے پاؤں کو پھاند، اس کے ٹخنوں کو ٹکرا، خواتین کے گھٹنوں سے دامن بچا آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں۔ وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی وجہ سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔

    شوکت تھانوی

    شوکت تھانوی کی شہرہ آفاق تخلیق چاچا چھکن ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔

    اپنے ایک مضمون میں شوکت تھانوی لکھتے ہیں۔

    جس بیکاری (بے روزگاری) سے ایک دنیا چیخ اٹھتی ہے اس سے ہندوستان کیوں گھبراتا ہے، ہندوستان تو بقول ہمارے خداوندان نعمت کے ایک جاہل، وحشی، غیر مہذب اور کالے آدمیوں کا ملک ہے، یہاں اگر بیکاری ہے تو کیا تعجب۔ جب یورپ ایسے متمدن، تعلیم یافتہ، مہذب اور گورے آدمیوں کے ملک میں یہ حال ہے کہ بے چارے صاحب لوگ ہر طرح ناکام ثابت ہو کر وہاں کے ہر شعبہ ملازمت سے علیحدہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی جگہ میم صاحبات براج رہی ہیں۔

    اگر خدانخواستہ ہندوستان میں بھی یہی صورت ہوجاتی کہ اندرون خانہ ایک دم سے بیرون خانہ اور بیرون خانہ ایک دم سے اندرون خانہ ہو کر رہ جاتے تو شاید یہاں کے لوگ ہندوستان کو حوا کی بیٹیوں کے لیے چھوڑ کر یا تو کسی اور دنیا میں چلے جاتے جہاں ابن آدم کی حکومت ہو یا خود کشی کر لیتے۔

    اس لیے کہ یہ انقلاب ہندوستان کے مردوں کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ ان کی بیویاں تو کچہری عدالت کریں اور وہ خود گھر داری کریں، بچوں کو کھلائیں، یعنی مرد پیدا ہو کر عورت کے فرائض انجام دیں۔

    اپنے ایک مضمون نے شوکت تھانوی نے قلم سے ازار بند ڈالنے کی اصطلاح بھی تخلیق کی۔

    ابن انشا

    اردو مزاح نگاری میں ایک اہم نام ابن انشا کا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور ان سفر ناموں کو نہایت پر مزاح انداز سے تحریر کیا۔

    ان کی مشہور زمانہ کتاب اردو کی آخری کتاب ہے جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

    کوئی پوچھتا ہے، الگ ملک کیوں بنایا تھا؟ ہم کہتے ہیں، غلطی ہوئی معاف کیجیئے گا، آئندہ نہیں بنائیں گے۔

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

    بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    کرنل شفیق الرحمٰن

    اردو مزاح میں ایک اور اہم نام کرنل شفیق الرحمٰن کا ہے جن کے افسانوں کی کتاب حماقتیں نہایت مشہور ہے۔

    اپنے ایک افسانے میں شفیق الرحمٰن لکھتے ہیں۔

    بچوں کا غبارہ اڑ گیا تو وہ یہ دریافت فرما رہے تھے کہ کشش ثقل نے غبارے کو روکا کیوں نہیں؟ کشش ثقل سے ان کا اعتبار اٹھ چلا تھا۔

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

    ایک بار ایک بزرگ نے فرمایا، ’جب میں چھوٹا سا تھا تو اس قدر نحیف تھا، اتنا کمزور تھا کہ میرا وزن چار پونڈ تھا۔ مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا‘۔


    مزاحیہ اردو شاعری

    میر تقی میر اور غالب سے لے کر جدید شاعروں نے متفرق معاشرتی موضوعات پر لطیف پیرائے میں چوٹ کرتے ہوئے اپنی شاعری کو مزاح کا رنگ دیا تاہم اردو مزاحیہ شاعری میں سب سے بڑا نام اکبر الہٰ آبادی کا ہے۔

    اکبر الہٰ آبادی

    سرسید کی ترقی پسند تحریک اور ہندوستان میں تبدیلی کی ہواؤں سے بیزار اکبر الہٰ آبادی جا بجا اپنی شاعری کے ذریعے نئے رجحانات پر چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
    اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
    پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    ان کا ایک اور شعر ہے۔

    بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
    لیکن نہ آئے موت تو بوڑھے بھی کیا کریں

    سید ضمیر جعفری

    سید ضمیر جعفری کو اردو مزاحیہ شاعری کا سالار کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں۔

    اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجد
    قیس ہے دراصل اک مشہور پٹواری کا نام

    ان کا ایک اور شعر ہے۔

    حضرت اقبال کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا
    اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

    دلاور فگار

    دلاور فگار جدید اردو کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ فگار خاصے خود پسند شاعر تھے اور اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں گردانتے تھے۔

    وہ کون ہیں کہ شاعر اعظم کہیں جسے
    میں نے کہا ’جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
    میں نے کہا کہ ’جوش‘ کہا، قدر کھو چکے

    انور مسعود

    موجودہ دور میں انور مسعود کا نام مزاحیہ شاعری میں سرفہرست ہے جن کے قطعات مختلف اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔

    ان کا کئی برس قبل لکھا گیا ایک قطعہ پڑھیں جو بالکل تازہ معلوم ہوتا ہے۔

    چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہل ہمت
    اب ارادہ ہے کہ وہ جانب مریخ بڑھیں
    ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
    ہم اسی سوچ میں ہیں، عید پڑھیں یا نہ پڑھیں

  • اردو ادب کی عہد سازشخصیت، سعادت حسن منٹوِ کا آج یوم وفات ہے

    اردو ادب کی عہد سازشخصیت، سعادت حسن منٹوِ کا آج یوم وفات ہے

    کراچی : اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا 61 واں یوم وفات ہے، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اورنمایاں مقام رکھتے ہیں۔

     منٹو 11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے، آپ کے والد غلام حسن منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔

    منٹو ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921ء میں انہیں علاقے کے اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ ا‌فزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انہوں نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا۔

    manto-post-01

    انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں ، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔

    ابتداء میں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔

    manto-post-03

    سعادت حسن منٹو کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کے اعزاز میں یاد گاری ڈاک ٹکٹ کا بھی اجراء کیا۔

    سعادت حسن منٹو اردو کے واحد بڑے افسانہ نگار ہیں جن کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے ان کے افسانہ مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی۔

    manto-post-02

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔ سعادت حسن منٹو 18 جنوری 1955ء کو جگر کی بیماری کے باعث خالق حقیقی سے جاملے ۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    سعادت حسن منٹو کا ایک قول ہے کہ
    جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں ۔ اسی طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے
    (سعادت حسن منٹو)

  • محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

    منفرد انداز اور شان بے نیازی کے مالک اردو اور پنجابی کے صف اول کے شاعر منیر نیازی کی آج دسویں برسی ہے۔

    منیر نیازی 9 اپریل سنہ 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ دیال سنگھ کالج میں تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک وہ لاہور میں رہے۔

    جنگل سے منسلک علامات کو خوبصورت شاعری کا حصہ بنانے والے منیر نیازی اپنی مختصر نظموں میں ایسی کاٹ دکھاتے گویا نشتر آبدار فضا میں لہرا رہا ہو۔

    منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا۔ انہوں نے کبھی خود کو حکومت وقت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا۔

    ان کی شخصیت کا ایک حصہ شان بے نیازی ان کی شاعری کا اہم جزو ہے۔

    زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
    دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
    جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    منیر نیازی نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعر کی۔ ان کے اردو میں 13 اور پنجابی میں 3 اور انگریزی میں 2 شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    منیر نیازی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ادیب اور صحافی بھی تھے۔

    انہیں ہمیشہ اپنے معاشرے سے شکوہ رہا۔ ایک محفل میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’ایک زمانے میں نقادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں‘۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 26 دسمبر سنہ 2006 کو وہ لاہور میں وفات پاگئے۔ انہیں لاہور کے قبرستان ماڈل ٹاؤن کے بلاک میں پیوند خاک کیا گیا۔

    ستارے جو دمکتے ہیں
    کسی کی چشم حیراں میں
    ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
    جمال ابر و باراں میں
    یہ نا آباد وقتوں میں
    دل ناشاد میں ہوگی
    محبت اب نہیں ہوگی
    یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
    گزر جائیں گے جب یہ دن
    پھر ان کی یاد میں ہوگی

  • منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    آج اردو ادب کے معروف افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار منشی پریم چند کا 80 واں یوم وفات ہے،وہ اردو نثرمیں جدید اور اصلاحی ناول اور افسانہ نگاری  کے موجد کہلائے جاتے ہیں۔

    منشی پریم ۔۔۔ مختصر تعارف

    31 جولائی1880ء کو ضلع وار انسی مرٹھوا کے ’’لمبی‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہونے والے منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا جو اُن کے والد صاھب نے رکھا لیکن اُن کے چچا نے اپنے بھتجے کا نام پریم چند رکھا اور آگے چل کر وہ منشی  پریم چند کے نام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔

    درس و تدریس

    آپ نے ابتدائی تعلیم لائل پور ایک کے مولوی سے حاصل کی،جہاں منشی پریم چند اردو اور فارسی ذبان کے رموز سیکھے اور ادب سے شناسائی حاصل کی اور 1895ء میں گورکھپور سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور ۱۸ روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔

    بعد ازاں 1899ء میں بنارس میں اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری مل گئی اور 1900ء میں بیرائچ کے گورنمنٹ اسکول میں بہ طور ٹیچر مقرر ہوئے  تقرر ہوا اور الہ آباد میں جا کرآپ نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔

    1908ء میں جونیئرانگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی سے اردو ہندی کا خصوصی امتحان پاس کیا اور ۱۹۰۹ء میں ترقی پا کر سب انسپکٹر آف سکولز ہو گئے۔

    1919ء میں بی۔اے کیا اور فروری 1920ء میں عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں ملازمت سے علیحدہ ہوئے اور لکھنؤ میں پہلی مرتبہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی صدارت کی۔

    تصنیف اور تالیف 

    منشی پریم چند اپنے ناول ’’نواب رائے‘‘ کے نام سے لکھتے تھے آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں 18؍ اکتوبر1903ء کو شائع ہوا جس نے قبول سند عام حاصل کی جب  دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔

    امنشی پریم چند کا پہلا  افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے 1908ء میں شائع ہوا جس میں 5 افسانے شامل تھےان افسانوں میں آزادی ، حریت پسندی، غلامی سے نجات اور علم بغاوت بلند کرنے کے موضوعات کو سمیٹا گیا تھا۔

    جس کے باعث ہندوستان پر قابض حکومتِ برطانیہ نے اس افسانوی مجموعے پر پابندی عائد کردی چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے افسانوی مجموعے کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔

    اس واقعہ کے بعد سے منشی پریم چند اپنا ادبی نام ’’رائے نواب ‘‘ ترک کر کے اپنے چچا کی جانب سے دیے گئے نام میں منشی کا اضافہ کر کے ’’منشی پریم چند‘‘ اختیار کیا اور تا دم مرگ یہی ادبی نام استعمال کرتے رہے۔

    منشی پریم چند کے مشہور ناول میں اسرار مابعد اور کشانا مشہور افسانوں میں کفن،حج اکبر اور نجات جب کہ معروف کہانیوں میں انمول رتن شامل ہیں۔

    منشی پریم چند نے مریادا،مالا اور مادھوری کے نام سے نکلنے والوں علمی اور ادبی رسالوں کی ادارت کی اور بعد میں ملازمت ترکی کر کے اپنا رسالہ ’’ھنس‘‘ کے نام شائع کیا۔

    افسانوں کے مجموعے 

    ( 1) سوزِوطن(1908ء)، (2) پریم دلچسپی جلد اول (1915ء)، (3) پریم دلچسپی جلد دوم ( 1918ء)، (4) پریم بتیسی (1920ء)، (5) خاکِ پروانہ(1921ء)،(6) خواب وخیال ( 1928ء)، (7) فردوسِ خیال(1929ء)،(8) پریم چالیسی (1930ء)، (9) آخری تحفہ (1934ء)،(۱۰) زادِ راہ (1936ء )۔

     

    طرز تحریر کی نمایاں خصوصیات 

    پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی کالونیاں 20 ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔

    ایک طرف جہاں اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا اور 19 ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا یہی طرز نثری ادب میں دیکھا گیا اور یوں  جنگِ عظیم اول 1914ء اور انقلاب روس 1917ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔

    پریم چند بھی اسی نیم سیاسی اضطراب اور ملک و قوم کی بقاء کے دفاع کے لیے جدو جہد میں گذرے اُس دور سے متاثر ہوئے اور شہرہ آفاق افسانوی مجموعہ  ’’سوزِ وطن‘‘ تخلیق کیا جس نے قوم میں حریت و ہمیت کی نئی روح پھونک دی یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج کو اس مجموعہ پر پابندی لگانی پڑی۔
    ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو 1958ء کے بعد سرسید اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔

    آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہا ہے اور پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصورفن کو تباہ کر دیتا ہے۔

    جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔

    منشی پریم چند ۔۔۔ نقادوں کی نظر میں

    بقول ڈاکٹر مسعود حسین خان : ’’اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
    بقول شمیم حنفی: ’’پریم چند کہانی کی اوپری سطح پر ہی حقیقت کا التباس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ‘‘
    بقول سید وقار عظیم: ’’وہ اپنی قوم اور ملک کی ہر اس چیز کو پرستانہ نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ ‘‘

    ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘

    بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔

    تاریخ وفات 

    دس افسانوی مجموعوں کے تخلیق کار اور ناول نگاری میں سے ڈارمہ نگاری کے رموز تراشنے والے اردو ادب کے پہلے معروف ناول نگار،افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار منشی پریم چند  8 اکتوبر 1936ء کو 56 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنی تحریروں میں وہ آج بھی زندہ ہیں اور علم و ادب کے پیاسوں کو دیراب کر رہے ہیں۔

    (اس مضمون کی تیاری میں محترم خالد محمود صاحب کی تحقیق اور تصنیف سے اُن کے شکریے کے ساتھ فائدہ اُٹھایا گیا ہے)

     

  • اردو ادب کے شہنشاہ اسد اللہ خان غالب کا آج217 واں یوم پیدائش

    اردو ادب کے شہنشاہ اسد اللہ خان غالب کا آج217 واں یوم پیدائش

    اردو ادب کے شہنشاہ اسد اللہ خان غالب کا آج دو سو سترواں یوم پیدائش ہے ۔

    ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

    عالم تمام حلقہ دام خٰیال ہے دام خیال سے

    اردوشاعری میں تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکو جلا بخشنے والے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج دو سو ستراہواں یوم پیدائش ہے، بر صغیر کے معروف قد آور شاعر ہیں، غالب کی آفاقی شاعری اردو شاعری کے لئے لازم وملزوم قرار پائی۔

    عالم کو بیدار کرنے والے مرزا غالب ستائیس دسمبر سترہ سو ستانوے کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ بیگ خان تھا۔ مرزا غالب اردو زبان کے ایک عظیم شاعر اور رجحان ساز نثر نگار ہونے کے علاوہ ایک آفاقی شاعر تھے۔

    مرزا کی شاعری میں جدت، بانکپن اور جدید تشبیہات و تراکیب نے ان کے طرزِ سخن کو ایک ایسی دائمی تازگی بخشی، جس میں آج بھی شگفتگی کا احساس مؤجزن نظر آتا ہے، غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا، مہ، جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    غالب نے اردو کے علاوہ فارسی اور ترکی میں بھی شاعری کی تاہم انکی وجہ شہرت اردو شاعری بنی، غالب اردو شاعری کے وہ کردار ہیں جن پر بے شمار تحریریں لکھی گئیں، سینکڑوں فلمیں ڈرامے اور اسٹیج شوز تیار ہوئے جبکہ پر اثر شاعری کی بدولت بے شمار فلموں کو عوامی پذیرائی ملی۔

    ہیں دنیا میں اور بھی سخن ور بہت اچھے

    کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِبیاں اور

    انہوں نے متعدد مقامات پر انتہائی سنجیدہ مضامین کو بڑے بے تکلف انداز میں چھیڑا، غالب کو اپنی فارسی پر بڑا ناز تھا، تاہم ان کی شہرت ودوام اور مقبولیت کا اصل سبب ان کا اردو دیوان “دیوان غالب” اور”خطوط غالب” ہیں۔

    غالب خوشحالی کے ساتھ تنگ دست زندگی سے نبرد آزما رہنے کے بعد پندرہ فروری اٹھارہ سو انہتر کو اکہتر سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئے لیکن اد ب کی دنیا میں غالب اپنی لازوال شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے رہیں گے

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا