Tag: اردو ادب

  • ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    حالی کے دوست بے شمار تھے، لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی غیر مذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔

    حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سیّد سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سر سیّد کی سوانح حیاتِ جاوید کی تصنیف تھی۔ ہماری اس تحریر میں چند پردہ نشین مردوں کے نام بھی آئیں گے جو ظاہراً دوستی کا دَم بھرتے تھے، لیکن ان کے دل حالی سے صاف نہ تھے۔ بقول میر انیس ”میں نے تو ایک دل بھی نہ دیکھا جو صاف ہو۔“

    حالی کی مخالفت ادیبوں اور شاعروں کا مرغوب مشغلہ تھا۔ اگرچہ سر سیّد، شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیر احمد اور علّامہ اقبال کی طرح حالی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیا، مگر حالی کی شخصیت اور فن کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔

    مذہبی لوگ حالی کو سر سیّد کی بانسری اور نیچری کہتے تھے۔ حالی نے جو اُردو شاعری کی پاکیزگی کی مہم کو اپنا شعار بنایا تھا وہ بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو کھلتا تھا کیوں کہ وہ حالی کو اہلِ دلّی اور لکھنؤ نہیں مانتے تھے، وہ حالی کو پانی پت کا ایک معمولی شاعر جانتے تھے۔

    ”دلّی دلّی کیسی دلّی، پانی پت کی بھیگی بلی“

    حالی کی مخالفت ان کی موضوعاتی نظموں سے شروع ہو چکی تھی۔ مسدسِ حالی کی عوام میں پذیرائی ان کے مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس ہو رہی تھی جو فن برائے فن وہ بھی بطور تفنّن کے قائل تھے۔ حالی ایسی شاعری کو عفونت میں سنڈاس سے بدتر بتا رہے تھے اور ایسے شاعروں کی موجودگی یا غیر موجودگی سے متاثر نہ تھے جیسا کہ انھوں نے مسدس میں اعلانیہ کہا تھا:

    یہ ہجرت جو کر جائیں شاعر ہمارے
    کہیں مِل کے خس کم جہاں پاک سارے

    مقدمہ شعر و شاعری میں چوما چاٹی کی شاعری پر شدید رد عمل نے لکھنؤ اور دلّی کے رومانی شعرا کو حالی کے مقابل کر دیا۔ درجنوں حالی کو دشنام اور نازیبا خطوط ملنے لگے۔ مختلف روزنامے اور رسالے مستقل طور پر حالی کے خلاف صف آرا ہو گئے جن میں حسرت موہانی کا اردوئے معلّیٰ اور سجاد حسین لکھنوی کا اودھ پنج پیش پیش تھے۔ حالی کے خلاف سوقیانہ ہجو لکھی جانے لگیں۔ اودھ پنج کے سرورق پر کئی سال تک یہ شعر چھپتا رہے:

    ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
    میدانِ پانی پت کی طرح پائمال ہے

    حالی کو خالی، جعلی، مالی، خیالی اور ڈفالی جیسے ناموں سے یا د کیا جانے لگا۔ لکھنؤ اور دلّی کے اہلِ زبان کہتے تھے، یہ پانی پتی شخص کس جرأت سے اہلِ زبان کے ہم زبان ہی نہیں بلکہ مسیحائے زبان ہونے کی کوششیں کررہا ہے۔ حالی ان تمام حملات کا خاموشی سے جواب دے رہے تھے اور ہمہ تن دن رات چمنستانِ شعر کی پاکیزگی میں مصروف تھے۔

    اردو دنیا اور دنیائے ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معاصرین پر تخریبی تنقید نظر آتی ہے جیسے والٹیر کا حملہ شیکسپیئر پر، سودا کا حملہ میر پر، شیفتہ کا حملہ نظیر پر رجب علی بیگ کا حملہ میر امن پر وغیرہ۔ چنانچہ ہر ادب اور ہر دور میں تخریبی تنقید نظر آتی ہے۔

    یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:

    ”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔

    ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سیّد صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلّیٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔ حسرت اور اُن کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے، مگر زینُ العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کر کے حسرت اور اُردوئے معلّیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے، کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے، حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے۔

    اتنے میں سیّد صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:

    ”ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔

    فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکرا کر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا، اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کردیتی تھی۔

    سچ تویہ ہے کہ لعن و طعن، گالی و شنام، طنز و اعتراضات کے طوفان کو حالی نے ایک نرالے طریقے سے زیر کیا۔

    کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چُپ
    سب کچھ کہا اُنھوں پر ہم نے دَم نہ مارا

    (سید تقی عابدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی اردو کے معروف شاعر تھے جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا انتقال 27 اپریل 1925ء کو ہوا تھا۔ شوق قدوائی کا اصل نام شیخ احمد علی قدوائی تھا اور شوق تخلّص۔ وہ اپنی ملازمت اور سرکاری منصب کی وجہ سے منشی احمد علی کے نام سے بھی مشہور تھے۔

    شوق قدوائی ضلع لکھنؤ کے قصبہ جگور میں 1852ء میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق اور رائج زبانیں‌ سیکھیں‌۔ وہ فارسی اور عربی جانتے تھے اور انگریزی بھی پڑھی تھی۔

    شوق قدوائی نے مظفر علی اسیر کی شاگردی اختیار کی جو رشتے میں ان کے دادا تھے۔ کچھ مدّت فیض آباد میں تحصیل دار کے فرائض انجام دیے۔ بعد میں ملازمت ترک کرکے صحافت شروع کی۔ انھوں نے لکھنؤ سے اخبار ’’آزاد‘‘ جاری کیا۔ شوق نے ریاست بھوپال میں بھی مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی تھیں اور وہیں سے پنشن بھی پاتے تھے۔

    آخر عمر میں رام پور چلے گئے تھے جہاں کتب خانہ سرکاری سے وابستہ رہے۔ انھوں نے غزل کے علاوہ مثنویاں لکھیں‌ اور انھیں شایع کروایا۔ شوق قدوائی کا دیوان ’’فیضانِ شوق‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے گونڈہ میں وفات پائی۔

  • ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات

    آغا حشر کاشمیری ہندوستان کے نام وَر ڈراما نویس اور مترجم تھے جنھوں نے تھیٹر کے لیے طبع زاد کھیل اور عمدہ تراجم پیش کرکے ہندوستان بھر میں اس میڈیم کی مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ ان کی کہانیاں شان دار اور مکالمے اتنے جان دار ہوتے تھے کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ آج آغا حشر کاشمیری کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا حشر کو ایک ایسے تخلیق کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو ایک سے زائد مرتبہ پردے پر دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں شائقین تھیٹر کا رخ کرتے۔ اس زمانے میں تھیٹر اور اسٹیج ہر خاص و عام کی تفریح کا ذریعہ تھا اور اس کی مقبولیت کی ایک وجہ معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری تھی۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر کے شائقین نے بے حد سراہا۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ڈراما نویسی اور تھیٹر کے حوالے سے مشہور آغا حشر کاشمیری ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    آغا حشر کاشمیری نے یکم اپریل 1879 کو اس دنیا میں آنکھ کھولی، ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ آغا حشر کو نوعمری میں تھیٹر اور ڈرامے دیکھنے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ چند ابتدائی کہانیوں کے بعد انھوں نے بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے ڈراما نویسی شروع کردی۔ 1910 میں انھوں نے اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کی اور اپنے ڈراموں کے لیے ہدایات بھی دینے لگے۔

    آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کی تاریخ میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں‌ اردو ڈراما نویسی، تراجم اور تھیٹر کی تاریخ پر بات کی جائے گی تو آغا حشر کاشمیری کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آغا حشر لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    تاریخ و سیرت، سفر نامے، احوال و تذکرۂ اقوام، واقعات اور قصائص عام طور پر سبھی کی دل چسپی اور توجہ کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نے زیادہ تر قدیم حکایات اور داستانیں فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہیں اور ’’جوامعُ الحکایات و لوامع الرّوایات‘‘ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جس کے مصنّف محمد عوفی ہیں۔ یہ فارسی زبان میں ان کی تحریر کردہ حکایات کی نادر اور مقبول کتاب ہے جس کی منتخب حکایات کا ترجمہ اختر شیرانی نے کیا تھا۔

    اختر شیرانی کا یہ ترجمہ 1943ء میں انجمنِ ترقی اردو سے شایع ہوا تھا۔ اختر شیرانی نے محمد عوفی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے مفصّل حالات کسی کتاب اور تذکرے میں نہیں ملتے، یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا سنِ پیدائش کیا ہے اور انھوں نے کب وفات پائی۔ ان کا نام محمد اور لقب سدید الدین ہے۔ وہ مشہور صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی اولاد میں سے تھے اور اسی نسبت سے عوفی کہلائے۔

    محمد عوفی کا وطن بخارا تھا جہاں انھوں نے تعلیم و تربیت پائی۔ ایک زمانہ تھا جب بخارا علم و فنون اور نابغہ روزگار شخصیات کا وطن تھا۔ اختر شیرانی لکھتے ہیں، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بخارا کا تعلیمی دور ختم ہونے پر عوفی نے علمی، تعلیمی اور ادبی مذاق کی نشوونما کی خاطر، نیز کسی معقول ذریعہ معاش کی جستجو میں ماوراءُ النہر اور خراسان کے مختلف دیار و احصار مثلاً سمر قند، آموسی، خوارزم، نیشا پور، ہرات، سجتان اور فرہ کا سفر کیا اور ہر زمین کے علما، آئمہ، فضلا، مشائخ اور خاص کر شعرا کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ آئمہ سے روایتِ حدیث کی اجازت حاصل کی اور شعرا سے ان کا کلام سنا۔ ان سیّاحتوں کے دوران وعظ و تذکرہ کا مشغلہ جاری رہا۔ اسی مشغلے کے ذریعے امرا و سلاطین کی خدمت میں رسائی حاصل ہوتی رہی اور انعام و اکرام ملتا رہا۔ ‘‘

    اختر شیرانی لکھتے ہیں کہ خراسان سے عوفی سندھ اور ملتان کے حکم راں، ناصر الدین قباچہ کے دربار میں چلے گئے۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ عوفی کب سندھ پہنچے لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ 617 ہجری (1220ء) سے پہلے یہاں آگئے تھے۔ وہ چند سال قباچہ کے ساتھ رہے۔ انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’’لبابُ الالباب‘‘ لکھی اور دوسری ’’جوامع الحکایات‘‘ کی تالیف اور ترتیب بھی شروع کر دی۔

    یہ کتاب تاریخی، مذہبی اور اخلاقی روایتوں اور فارسی لطائف کا مجموعہ ہے۔ خصوصاً اس میں ساتویں صدی ہجری کے واقعات و روایتیں بکثرت موجود ہیں۔ نیز معاصر دنیائے اسلام، بالخصوص ایران کے تاریخی و تمدنی حالات کا بھی ذکر ہے۔ انہی خصوصیات نے اسے بعد کے مصنفین کا مقبول ماخذ بنایا۔ فارسی میں محمد عوفی کی کتاب کی چار جلدیں ہیں جو ایک سو ابواب پر منقسم اور دو ہزار ایک سو تیرہ حکایاتوں پر مشتمل ہیں۔

    محمد عوفی اور ان کی اس مشہور کتاب کے مختصر تعارف کے ساتھ یہاں ہم اسی کتاب سے ایک ایسا واقعہ نقل کررہے ہیں جسے حکایت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

    اس حکایت کا عنوان ہے، ’’قصائی یا رعایا‘‘

    مصنف نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ سمر قند کے سلطان طمغاج خان کی خدمت میں ایک مرتبہ شہر کے قصائیوں نے درخواست کی کہ گوشت کے موجودہ نرخوں میں ہمیں زیادہ فائدہ نہیں ہوتا، کام زیادہ ہے۔ محنت کے مقابلے میں آمدنی بہت کم ہے، اگر بادشاہ گوشت مہنگا کرنے کی اجازت دیں تو ہم نذر کے طور پر ایک ہزار دینار خزانے میں پہنچا سکتے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ خزانے میں رقم پہنچائی جائے اور گوشت کے نرخ میں اضافہ کر دیا جائے۔

    جب قصائی ایک ہزار دینار شاہی خزانے میں داخل کر کے گوشت کا نرخ بڑھا چکے تو بادشاہ نے شہر میں منادی کرائی کہ جو شخص قصائیوں سے گوشت خریدے گا اسے سزا دی جائے گی چناں چہ لوگوں نے گوشت خریدنا بند کر دیا اور چار چار، چھے چھے آدمی مل کر بکرا خریدنے اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قصائیوں کی آمدن کا دروازہ بند ہو گیا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے۔

    آخر تھک ہار کر انھوں نے ایک رقم اور خزانے میں داخل کی اور اسی پچھلے نرخ پر گوشت فروخت کرنے کی ہامی بھری تب بادشاہ نے اپنا حکم واپس لیا اور قصائیوں کی جان اس مصیبت سے چھوٹی۔ کسی نے پوچھا تو طمغاج نے کہا،’’یہ اچھی بات نہ تھی کہ میں اپنی رعایا کو ایک ہزار دینار میں قصائیوں کے ہاتھ بیچ دیتا۔‘‘

  • قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    احمد حسین مائل حیدرآباد دکن کے ایک قادرُ الکلام شاعر تھے جو سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں شاعری کے لیے مشہور ہیں‌۔ وہ عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور سائنسی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ طبِ یونانی جانتے تھے اور برطانوی دور میں طبابت کا امتحان پاس کیا تھا۔

    ان کے بارے میں مشہور محقق، نقّاد اور تذکرہ نویس ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے لکھا ہے، ’’کلامِ مائل کی دوسری خصوصیت نہایت ہی سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں طبع آزمائی ہے۔ شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ کے بعد اردو زبان کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر پیدا ہوا ہو جو اس خصوصیت میں مائل کی ہم سَری کرسکے۔‘‘ یہاں ہم مائل کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں، وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
    زمیں پہ بھی اضطراب میں ہوں، فلک پہ بھی اضطراب میں ہوں

    نہ میں ہَوا میں، نہ خاک میں ہوں، نہ آگ میں ہوں، نہ آب میں ہوں
    شمار میرا نہیں کسی میں اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں

    سُلایا کس نے گلے لگا کر کہ صور بھی تھک گیا جگا کر
    بپا ہے عالم میں شورِ محشر، مجھے جو دیکھو تو خواب میں ہوں

    ہوئی ہے دونوں کی ایک حالت، نہ چین اس کو نہ چین مجھ کو
    ادھر وہ ہے محو شوخیوں میں، اُدھر جو میں اضطراب میں ہوں

    الٰہی مجھ پر کرم ہو تیرا نہ کھول اعمال نامہ میرا
    پکارتا ہے یہ خطِ قسمت کہ میں بھی فردِ حساب میں ہوں

    مٹا اگرچہ مزار میرا، چھٹا نہ وہ شہسوار میرا
    پکارتا ہے غبار میرا کہ میں بھی حاضر رکاب میں ہوں

    کرم کی مائلؔ پہ بھی نظر ہو، نظر میں پھر چلبلا اثر ہو
    ازل سے امیدوار میں بھی الٰہی تیری جناب میں ہوں

  • ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    اردو، فارسی اور پنجابی زبان و ادب کے نام وَر محقق، ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد باقر 25 اپریل 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور علمی و ادبی موضوعات پر کئی کتابیں‌ یادگار چھوڑیں۔ ڈاکٹر محمد باقر پاکستان میں ایک اسکالر اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔

    4 اپریل 1910ء کو لاہور بنگلہ، لائل پور میں پیدا ہونے والے محمد باقر نے 1939ء میں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1950ء سے 1970ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں صدارت کے منصب پر رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔

    1965ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے۔ پاکستان کے ان دونوں اہم تعلیمی اداروں میں انھوں نے تعلیم و تدریس کے حوالے سے اپنے وسیع تجربے، گہرے مشاہدے اور مختلف نظام ہائے تدریس کے مطالعے کی بدولت نمایاں خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر محمد باقر کی تصانیف میں Lahore Past and Present، اردوئے قدیم دکن اور پنجاب میں، لندن سے لاہور تک، لندنی دوست کے نام خطوط، لندن سے خطوط،
    خدا کی لاٹھی، سیاہ کار اور دوسرے افسانے، شعرائے پنجاب، تہذیبِ عمل، شرحِ بانگِ درا، احوال و آثارِ اقبال شامل ہیں جنھیں علمی و ادبی حلقوں میں‌ بڑی اہمیت دی گئی اور یہ کتب ڈاکٹر محمد باقر کا ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں۔

  • شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    شاعر، ادیب اور مترجم تاج سعید کا یومِ وفات

    23 اپریل 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر، مصنّف اور صحافی تاج سعید کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تاج سعید کا اصل نام تاج محمد تھا۔ وہ 16 ستمبر 1933ء کو پشاور میں‌ پیدا ہوئے۔ علم و ادب سے وابستگی کے دوران جہاں‌ انھوں نے غزل اور نظم جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں پشتو ادب اور دیگر موضوعات پر علمی اور ادبی کام بھی کتابی شکل میں‌ پیش کیا۔

    تاج سعید کے شعری مجموعوں میں سوچ سمندر، رتوں کی صلیب، لیکھ اور شہرِ ہفت رنگ اور ان کی مرتب کردہ نثری کتب میں کرشن نگر، جہانِ فراق، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، بنجارے کے خواب، احمد فراز: فن اور شخصیت، خوش حال شناسی، شکیل بدایونی: فن و شخصیت اور پشتو کے اردو تراجم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انھوں‌ نے علاقائی ادب سے متعدد تخلیقات کا اردو ترجمہ کیا تھا۔

    تاج سعید اردو کے کئی اہم جریدوں کے مدیراعلیٰ رہے۔ ان میں ’’قند‘‘ مردان، ’’ارژنگ‘‘ پشاور اور ’’جریدہ‘‘ پشاور شامل ہیں۔

    تاج سعید کی اہلیہ زیتون بانو بھی اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    اردو کے اس ادیب اور شاعر کو وفات کے بعد پشاور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقّاد اور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار جدید لب و لہجے اور جداگانہ اسلوب کے حامل شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    عزیز حامد مدنی 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم، ادیب اور مصنف کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔

    عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔ علم و ادب کے شائق و شیدا عزیز حامد مدنی نے تخلیقی ادب میں شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور تنقید کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    انھیں اردو کا جدید اور منفرد اسلوب کا حامل شاعر مانا جاتا ہے جن کے موضوعات میں تنوع اور انفرادیت تھی۔ عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے عزیز حامد مدنی کو لیاقت آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

  • دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    ہندوستان کے بٹوارے اور تقسیم کے کئی سال بعد بھی بھارت میں متعصب اور انتہا پسند حلقوں کی جانب سے اردو کی مخالفت میں باقاعدہ مہم چلائی گئی اور ہر سطح پر اردو بولنے اور لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔

    اس زمانے میں اردو بولنا اور لکھنا جیسے جرم تھا اور یہ سوچ مذہبی شخصیات اور عوام ہی تک محدود نہیں‌ تھی بلکہ علم و دانش اور ادب سے وابستہ افراد نے بھی اس حوالے سے تنگ نظری اور پستی کا ثبوت دیا، لیکن بعض عالی دماغ اور روشن نظریات و خیالات رکھنے والی شخصیات نے اسے علم دشمنی اور صدیوں پرانی تہذیب اور ثقافت کا قتل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔

    معروف ہندوستانی ادیب رتن سنگھ نے اسی حوالے سے بیسویں صدی کے نام وَر شاعر، ادیب اور نقّاد فراق گورکھپوری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو ہم یہاں اپنے باذوق قارئین اور علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘فراق صاحب ریڈیو کے پروڈیوسر ایمریٹس تھے، اُن دنوں یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی ریکارڈنگ کے لیے اُنہیں فیس کا چیک دیا جائے۔ ایسی صورت میں فراق صاحب کو یہ سمجھانا ایک ٹیڑھی کھیر تھی۔

    اس معاملے کے حل کے لیے میں نے ایک صورت یہ نکال لی کہ الٰہ آباد سے لکھنؤ آنے کا کرایہ اور ڈی اے وغیرہ دے دیا جائے۔ میں یہی کرتا تھا۔

    فراق صاحب اسی پر ہی ریکارڈنگ کے لیے راضی ہوجاتے تھے، لیکن ایک بار ایک نئی قسم کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔

    فراق صاحب کو اُردو زبان اور اس کے مستقبل کے بارے میں بولنا تھا۔ اس کے بارے میں باتیں کرتے کرتے وہ اتنی کڑوی باتیں بھی کر گئے کہ اگر اُنہیں نشر کردیتا تو واویلا کھڑا ہوجاتا۔

    ہزاری پرساد دیویدی اور نہ جانے کس کس کو اُردو کے حق سے محروم رکھنے کی شکایت کرتے ہوئے اُنہوں نے صاف صاف کہا کہ اے ہندوﺅ! میری مراد آر ایس ایس والے ہندوﺅں سے ہے، اور میں اُنہی کے لب و لہجے میں کہہ رہا ہوں کہ اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، پاکستان دشمن ہو رہا ہے۔ اگر دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، اپنے ملک میں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں۔ اُن کی زبان نہیں سمجھوگے تو بھی مشکل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح کی باتیں کرکے فراق صاحب چلے گئے۔

    پھر الٰہ آباد سے مجھے لکھا کہ بھائی جو کچھ میں نے کہا ہے، اس کو براڈ کاسٹ کرنے کی ذمے داری تمہاری ہے۔ دیکھ لینا غور سے۔’

  • ہل اسٹیشن…

    ہل اسٹیشن…

    ان دنوں مرزا کے اعصاب پر ہل اسٹیشن بری طرح سوار تھا، لیکن ہمارا حال ان سے بھی زیادہ خستہ تھا۔ اس لیے کہ ہم پر مرزا اپنے متاثرہ اعصاب اور ہل اسٹیشن سمیت سوار تھے۔ جان ضیق میں تھی۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کا ذکر، اسی کا ورد۔

    ہُوا یہ کہ وہ سرکاری خرچ پر دو دن کے لیے کوئٹہ ہو آئے تھے اور اب اس پر مچلے تھے کہ ہم بلا تنخواہ رخصت پر ان کے ساتھ دو مہینے وہاں گزار آئیں جیسا کہ گرمیوں میں شرفا و عمائدینِ کراچی کا دستور ہے۔ ہم نے کہا سچ پوچھو تو ہم اسی لیے وہاں نہیں جانا چاہتے کہ جن لوگوں کے سائے سے ہم کراچی میں سال بھر بچتے پھرتے ہیں وہ سب مئی جون میں وہاں جمع ہو جاتے ہیں۔

    بولے ٹھیک کہتے ہو، مگر بندہ خدا اپنی صحت تو دیکھو۔ تمہیں اپنے بال بچوں پر ترس نہیں آتا؟ کب تک حکیم ڈاکٹروں کا پیٹ پالتے رہو گے؟ وہاں پہنچتے ہی بغیر دوا کے چاق و چوبند ہو جاؤ گے۔ پانی میں دوا کی تاثیر ہے اور (مسکراتے ہوئے) کسی کسی دن مزہ بھی ویسا ہی۔ یوں بھی جو وقت پہاڑ پر گزرے، عمر سے منہا نہیں کیا جاتا۔ مکھی مچھر کا نام نہیں۔ کیچڑ ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اس لیے کہ پانی کی سخت قلت ہے۔ لوگوں کی تن درستی کا حال تمہیں کیا بتاؤں، جسے دیکھو گالوں سے گلابی رنگ ٹپکا پڑ رہا ہے۔

    ابھی پچھلے سال وہاں ایک وزیر نے اسپتال کا افتتاح کیا تو تین دن پہلے ایک مریض کو کراچی سے بلوانا پڑا اور اس کی نگرانی پر چار بڑے ڈاکٹر تعینات کیے گئے کہ کہیں وہ رسمِ افتتاح سے پہلے ہی صحت یاب نہ ہو جائے۔

    ہم نے کہا آب و ہوا اپنی جگہ مرہم دوا کے بغیر اپنے تئیں نارمل محسوس نہیں کرتے۔ بولے، اس کی فکر نہ کرو۔ کوئٹہ میں آنکھ بند کر کے کسی بھی بازار میں نکل جاؤ، ہر تیسری دکان دواؤں کی ملے گی اور ہر دوسری دکان تنوری روٹیوں کی۔

    پوچھا اور پہلی دکان….؟ بولے، اس میں ان دکانوں کے لیے سائن بورڈ تیار کیے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا، لیکن کراچی کی طرح وہاں قدم قدم پر ڈاکٹر کہاں؟ آج کل تو بغیر ڈاکٹر کی مدد کے آدمی مر بھی نہیں سکتا۔ کہنے لگے چھوڑو بھی! فرضی بیماریوں کے لیے تو یونانی دوائیں تیر بہ ہدف ہوتی ہیں۔

    ہمارے بے جا شکوک اور غلط فہمیوں کا اس مدلل طریقے سے ازالہ کرنے کے بعد انہوں نے اپنا وکیلوں کا سا لب و لہجہ چھوڑا اور بڑی گرم جوشی سے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر، ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں‘‘ والے انداز میں کہا، ’’بھئی! اب تمہارا شمار بھی حیثیت داروں میں ہونے لگا، جبھی تو بنک کو پانچ ہزار قرض دینے میں ذرا پس و پیش نہ ہوا۔ واللہ! میں حسد نہیں کرتا۔ خدا جلد تمہاری حیثیت میں اتنی ترقی دے کہ پچاس ہزار تک مقروض ہو سکو۔ میں اپنی جگہ صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اب تمہیں اپنے مساوی آمدنی والوں کی طرح گرمیاں گزارنے ہل اسٹیشن جانا چاہیے۔ یہ نہیں تو کم از کم چُھٹی لے کر گھر ہی بیٹھ جایا کرو۔ تمہارا یوں کھلے عام سڑکوں پر پھرنا کسی طرح مناسب نہیں۔

    میری سنو 1956 کی بات ہے، گرمیوں میں کچھ یہی دن تھے۔ میری بڑی بچّی اسکول سے لوٹی تو بہت روہانسی تھی۔ کریدنے پر پتہ چلا کہ اس کی ایک سہیلی جو وادیِ سوات جار ہی تھی، طعنہ دیا کہ کیا تم لوگ نادار ہو، جو سال بھر اپنے ہی گھر میں رہتے ہو۔ صاحب! وہ دن ہے اور آج کا دن، میں تو ہر سال مئی جون میں چھٹی لے کر مع اہل و عیال ’’انڈر گراؤنڈ ‘‘ ہو جاتا ہوں۔

    پھر انہوں نے کراچی کے اور بھی بہت سے ‘زمین دوز’ شرفا کے نام بتائے جو انہی کی طرح سال کے سال اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اپنا یہ وار کارگر ہوتا دیکھا تو ’’ناک آؤٹ‘‘ ضرب لگائی۔ فرمایا، ’’تم جو ادھر دس سال سے رخصت پر نہیں گئے تو لوگوں کو خیال ہو چلا ہے کہ تم اس ڈر کے مارے نہیں کھسکتے کہ دفتر والوں کو کہیں یہ پتہ نہ چل جائے کہ تمہارے بغیر بھی بخوبی کام چل سکتا ہے۔‘‘

    (نام وَر ادیب اور طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون سے اقتباس)