Tag: اردو ادب

  • معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    پاکستان میں‌ ترقّی پسند فکر اور ادب تخلیق کرنے والوں میں سید سبطِ حسن ایک بڑا نام ہیں‌ جو 20 اپریل 1986ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے سبطِ‌ حسن نے ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلابِ ایران، کارل مارکس اور نویدِ فکر جیسی تصانیف سے علمی و ادبی حلقوں اور اہلِ دانش کو متاثر کیا۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 31 جولائی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلیم مکمل کی۔ وہاں انھیں ترقّی پسند دانش وروں، ادبا اور شعرا کا ساتھ نصیب ہوا جن میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری و دیگر شامل تھے۔ یہ وہ نام تھے جنھوں نے سیّد سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقّی پسند تحریک کا آغاز کیا جو مقبول اور ہمہ گیر ثابت ہوئی۔

    سید سبط حسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے پہلے لاہور اور بعد میں کراچی کو اپنایا تھا۔ سید سبطِ حسن نے خالص علمی اور فکری موضوعات پر کام کیا اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔

    ان کا انتقال بھارت کے شہر دہلی میں ہوا جہاں وہ ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ سبطِ حسن کو کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • ‘وہ کون تھی؟’ بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا تذکرہ

    ‘وہ کون تھی؟’ بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کا تذکرہ

    نام وَر ادیب بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری 20 اپریل 2009ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ ان کے والد ظفر عمر اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں جب کہ شوہر اختر حسین رائے پوری اردو کے نام ور نقّاد، محقق اور ادیب تھے۔

    بیگم حمیدہ حسین رائے پوری نے گھر کے علمی و ادبی ماحول میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا اور پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئیں تو اعلیٰ اور معیاری رسائل و جرائد اور مختلف موضوعات پر کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بھی لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ تاہم انھوں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد باقاعدہ لکھنا شروع کیا تھا۔

    22 نومبر 1918ء کو ہردوئی میں پیدا ہونے والی بیگم حمیدہ اختر حسین نے اپنے بے ساختہ اور سادہ اسلوبِ بیان سے سبھی کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک خودنوشت سوانح عمری ہم سفر کے نام سے لکھی جسے بہت پسند کیا گیا۔ ان کے تحریر کردہ خاکوں کے دو مجموعے نایاب ہیں ہم اور چہرے مہرے بھی شایع ہوئے۔

    بیگم حمیدہ اختر حسین نے بچّوں کے لیے بھی کہانیاں تخلیق کیں اور ایک مجموعہ سدا بہار بھی شایع کروایا جب کہ کھانے پکانے کی تراکیب کا مجموعہ پکائو اور کھلائو بھی منظرِ عام پر آیا، ان کا ایک ناول وہ کون تھی کے نام سے شایع ہوا۔ وہ کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار اور حساس سماجی و سیاسی موضوعات پر اپنی کہانیوں کے ذریعے اردو ادب میں نام اور پہچان بنانے والے مشرف عالم ذوقی 58 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

    مشرف عالم ذوقی ایسے زود نویس تھے جن کا قلم بامقصد اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہوئے۔ بھارت کے سماجی اور سیاسی حالات پر خصوصا چند برسوں کے دوران بھارت میں افراتفری، عدم برداشت اور انتشار کو انھوں نے اپنی بعض کہانیوں کا موضوع بنایا اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگِ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ کو پاک و ہند میں بھی پڑھا اور سراہا گیا۔ انھوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی تحریر کیے جب کہ دیگر اصنافِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور متعدد کتابیں لکھیں۔

    مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔ ان کے دیگر مقبول ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘ آتشِ رفتہ کا سراغ’ شامل ہیں۔

    مشرف عالم ذوقی کا شمار ایسے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے متنوع موضوعات کے سبب اردو ادب میں الگ پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اقلیتوں کے مسائل سے لے کر ہر طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کا قلم سماجی گھٹن، سیاسی بنیاد پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک رہا۔

    چند دنوں سے مشرف عالم ذوقی علالت کے سبب دلی میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں 19 اپریل کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • دو دوست، دو دشمن

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔

    بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا خاندان بھی یہاں سیکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو مَیں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، ’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوّت کا پتا چلے۔‘‘

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

    دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔ دلدل اب بھی موجود ہے۔

    (اس مختصر اور سبق آموز کہانی کے مترجم اردو کے معروف ادیب اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    آج معروف ماہرِ تعلیم، ادیب اور متعدد علمی و تحقیقی اداروں‌ کے سربراہ پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 16 اپریل 2009ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔ تعلیم کے شعبے میں بے مثال خدمات انجام دینے والے پری شان خٹک نے اپنے علمی و تحقیقی کام اور ادبی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے۔ ان کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ 10 دسمبر 1932ء کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولنے والے غمی جان نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کیا اور پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔

    پری شان خٹک پشاور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • انسانی کنبہ

    انسانی کنبہ

    جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں، لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پَر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔

    اچھا، اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سَر رکھے آنے جانے والوں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لیے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔

    یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتّھر سے ٹھوکر لگی، اور ٹھوکر لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔

    اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں۔ وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔

    لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا، مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔

    میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھرّوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!

    (حجاب امتیاز علی کا شمار اردو کی اوّلین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوں اور رومانی انداز کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ بچّوں کے لیے لکھی گئی اپنی اس مختصر کہانی کے ذریعے انھوں نے دنیا بھر کے لیے امن اور سلامتی کا درس اور ایک آفاقی پیغام دیا ہے)

  • درختوں میں بھی جان ہوتی ہے!

    درختوں میں بھی جان ہوتی ہے!

    درخت کاٹنے والے نے کلہاڑے کو دونوں ہاتھوں سے سر سے اوپر لے جا کر پورے زور سے درخت کے تنے پر چوٹ کرنا چاہی، مگر درخت کی شاخیں کلہاڑے سے وہیں الجھ گئیں۔

    اور درخت کاٹنے والے نے کلہاڑے کو وہاں سے نکالنا چاہا تو وہ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر اس کے پیروں پر آ گرا اور وہ درد سے بلبلاتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔

    ’’ہائے!‘‘ شاخیں بے اختیار اس کے پیروں پر جھک آئیں۔

    ’’کتنی گہری چوٹ آئی ہے!‘‘

    (نام ور فکشن رائٹر جوگندر پال کا ایک پُراثر افسانچہ)

  • فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں!

    فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں!

    پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے، لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

    میں ایک بدمعاش اور پاجی آدمی سے باتیں یا بے تکلّفی کرتے ہوئے جھپکتا ہوں اور آپ بھی میرے اس فعل کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن میں اس سے زیادہ تر بُری اور پاجی کتاب پڑھتا ہوں، نہ آپ کو ناگوار گزرتا ہے اور نہ مجھے ہی کچھ ایسی شرم آتی ہے بلکہ اس کی بات شربت کے گھونٹ کی طرح حلق سے اُترتی چلی جاتی ہے۔

    پاجی آدمی کی شاید کوئی حرکت ناگوار ہوتی اور میں اس سے بیزار ہو جاتا مگر یہ چپکے چپکے دِل میں گھر کر رہی ہے اور اس کی ہر بات دلربا معلوم ہوتی ہے۔

    اگر میں کسی روز بازار جاؤں اور چوک میں سے کسی محض اجنبی شخص کو ساتھ لے آؤں اور اس سے بے تکلّفی اور دوستی کی باتیں شروع کر دوں اور پہلے ہی روز اس طرح اعتبار کرنے لگوں جیسے کسی پرانے دوست پر، تو آپ کیا کہیں گے؟ لیکن ریل اگر کسی اسٹیشن پر ٹھہرے اور میں اپنی گاڑی سے اُتر کر سیدھا بک اسٹال (کتب فروش کی الماری) پر پہنچوں اور پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگے وہ خرید لاؤں اور کھول کر شوق سے پڑھنے لگوں تو شاید آپ کچھ نہ کہیں گے۔ حالاں کہ یہ فعل پہلے فعل سے زیادہ مجنونانہ ہے۔

    میں ایک بڑے شہر یا مجمع میں جاتا ہوں۔ کبھی ایک طرف نکل جاتا ہوں اور کبھی دوسری طرف جا پہنچتا ہوں اور بغیر کسی مقصد کے اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہوں۔ افسوس کہ باوجود آدمیوں کی کثرت کے میں وہاں اپنے تئیں اکیلا اور تنہا پاتا ہوں اور اس ہجوم میں تنہائی کا بار اور بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ میرے کتب خانے میں بیسوں الماریاں کتابوں کی ہیں، میں کبھی ایک الماری کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں اور کوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں۔ میں اس طرح سیکڑوں کتابیں پڑھ جاتا ہوں، لیکن اگر میں غور کروں تو دیکھوں گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔

    اس وقت میری آوارہ خوانی مجھے ستائے گی اور جس طرح ایک بھرے پُرے شہر میں میری تنہائی میرے لیے وبال ہوگی۔ اسی طرح اس مجمع شرفا و علما ادبا شعرا میں یکہ و تنہا و حیران ہوں گا۔

    بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنیٰ مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔

    ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔

    لوگ کیوں فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں پڑھتے ہیں، کچھ تو اس لیے کہ ان میں نیا پن ہے، کچھ اس خیال سے کہ ایسا کرنا داخلِ فیشن ہے اور کچھ اس غرض سے کہ اس سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

    پہلی دو وجہیں تو طفلانہ ہیں، تیسری وجہ بظاہر معقول ہے، لیکن اس کے یہ معنٰی ہوں گے کہ ہم معمولی، ذلیل اور ادنیٰ معلومات کو اپنے دماغ میں بھرتے ہیں تاکہ اعلیٰ معلومات کی گنجائش باقی نہ رہے۔

    اگر ہم اپنے مطالعہ کا ایک سیاہہ تیار کریں اور اس میں صبح و شام تک جو کچھ پڑھتے ہیں لکھ لیا کریں اور ایک مدّت کے بعد اسے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم کیا کیا کر گزرے۔ اس میں ہم بہت سی ایسی تحریریں پائیں گے جن کا ہمیں مطلق خیال نہیں۔

    بہت سے ایسے ناول ہوں گے جس کے ہیروؤں تک کے نام یاد نہیں۔ بہت سے ایسی کتابیں ہیں کہ جن کی نسبت اگر ہم سے کوئی کہتا کہ یہ ہم پڑھ چکے ہیں تو ہمیں کبھی یقین نہ آتا۔ بہت سی ایسی تاریخیں، سفر نامے، رسالے وغیرہ ہوں گے جنھیں پڑھ کر خوش تو کیا ہوتے پچھتائے ہی ہوں گے۔

    اگر ہم علی گڑھ کے کالج کے طالب علموں کے نام، ان کے حلیے، ان کے وطن، ان کے محلّے، ان کی کتب، نصابِ تعلیم اور ان کے شجرے یاد کرنے شروع کر دیں اور اسے معلومات کے نام سے موسوم کریں تو لوگ کیا کہیں گے؟

    غرض ایسا ہی کچھ حال اس سیاہہ کا ہوگا۔ اس کا اکثر حصّہ خرافات کی ایک عجیب فہرست اور ہماری ورق گردانی اور تضیعِ وقت و دماغ کی ایک عمدہ یادگار ہوتی ہے۔

    ملٹن نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’عمدہ کتاب، حیات ہی نہیں بلکہ وہ ایک لافانی چیز ہے۔‘‘ اس قول میں مطلق مبالغہ نہیں۔

    (بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ایک تحریر)

  • گلاب کی وہ ‘خامیاں’‌ جو آپ نے کبھی نہیں‌ سنی ہوں گی

    گلاب کی وہ ‘خامیاں’‌ جو آپ نے کبھی نہیں‌ سنی ہوں گی

    ان سب شاعروں کو سامنے سے ہٹاؤ جو گلاب کے پھول پر مرتے ہیں۔ سیکڑوں برس سے ایک ہی چہرے کے طلب گار ہیں۔ یہ سب لکیر کے فقیر ہیں، مقلد ہیں، سنی سنائی تقلیدی باتوں پر جان دیتے ہیں۔ میں کچھ اور دیکھتا ہوں۔

    سب نے گلاب کے پھول کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ کوئی اس کی بھینی بھینی بُو پر فدا ہے۔ کوئی اس کی نازک نازک پتیوں پر نثار ہے۔ کسی کو اس کے رنگ سے رخسارِ محبوب کی یاد پیدا ہوتی ہے۔ کسی کا دل اس کے کھلنے اور مر جانے کے انقلاب میں اسیر ہے۔ بعض ہیں جو گلاب کے خار سے خار کھائے بیٹھے ہیں۔ خیر یہ جتنی باتیں ہیں، ان میں تو شکایت کا کوئی موقع نہیں ہے۔

    کہنا یہ ہے انہوں نے خدا کی بے شمار مخلوقات کی حق تلفی کی۔ ایک ہی دروازے پر ڈیرے ڈال دیے۔ ایک ہی آئینہ کی دید میں مدہوش ہو کر رہ گئے اور ان بے شمار جلوؤں کو نہ دیکھا جو ان کے لیے صفحۂ ہستی پر نمودار کیے گئے تھے۔ یہ انہوں نے بہت بڑا گناہ کیا۔ اس میں ان سے ایسی خطا سرزد ہوئی ہے جس کی سزا نہایت ہولناک ہونی چاہیے۔

    گلاب کی الفت میں باغ لگائے، چمن بنائے، مالی محافظ بسائے، پانی کھنچوائے اور زمین کے تختوں کو سیراب کیا۔ پھولوں کی ٹہنیوں کے سامنے اپنے تخیل کے ذوق کو سجدے کرائے مگر اپنے تصور کو اتنی آزادی نہ دی کہ وہ اس کائنات کے ہر پھول تک جاتا۔ ان لوگوں کو یہ نصیب نہ ہوا کہ جنگل میں نکل جاتے۔ خود رو پھولوں کو دیکھتے جن کا مالی خدا ہے۔ جن کا چمن صحرا ہے، جن کی سیرابی قدرتی سیرابی سے ہے۔ ان میں ایک کیکر تھا۔

    کیا چپ چاپ تھا۔ کیا مضبوط و توانا تھا۔ اس کی شاخیں دیکھی ہوتیں، اس کی پتّیوں پر غور کیا ہوتا۔ گلاب کی ٹہنی میں کیا رکھا ہے۔ ایک کم زور، لچکنے اور ٹوٹ جانے والی شاخ ہے جس کو آج کل کے شہ زور زمانہ میں بقول ڈراون رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ وقت ان کی زندگی کا ہے جو حوادثِ ایّام کا مقابلہ کر سکتے ہیں، جن کے اعضاء دوسروں کے کام آتے ہیں۔

    کیکر کی چھال مفید، جس سے کپڑے رنگے جاتے ہیں اور مختلف رنگ تیّار ہوتے ہیں۔ کیکر کی لکڑیاں جلنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں۔ کیکر کی پتّیاں بکریاں کھاتی ہیں اور آدمی کو دودھ دیتی ہیں۔ کیکر کی پھلیاں بھی چارہ اور رنگ بنانے میں کام آتی ہیں۔

    یہ میاں گلاب کس مرض کی دوا ہیں۔ پیٹ میں درد ہو تو گل قند کھلاؤ۔ ہیضہ ہو تو گلاب پلاؤ۔ مر جاؤ قبر پر چڑھاؤ اور بھی کوئی کام اس منحوس وجود سے نکلتا ہے۔ گلاب کے کانٹوں کو دیکھو کیسے دھوکہ باز ہیں۔ دکھائی نہیں دیتے۔ ہاتھ لگاتے ہی چبھ جاتے ہیں۔

    کیکر کے کانٹے دور سے نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کہ بے خبری میں کسی کو ستائیں۔
    گلاب کے کانٹے سوکھ جائیں تو پھینک دینے کے قابل۔ کیکر کے کانٹے سوکھ کر گھروں اور کھیتوں کی حفاظت کریں۔ اس پر طرّہ یہ کہ کیکر کا کانٹا کیسا سیدھا سادہ اور نکیلا ہوتا ہے۔ رنگ دیکھو تو وہ بھی انوکھا نرالا۔ شاعروں کے گلاب کو یہ بات کہاں میسر؟

    گلاب کے درخت میں پتّے بالکل بدشکل اور بیکار۔ کیکر کی پتّیوں کے کیا کہنے۔ کیسی چھوٹی چھوٹی اور ننّھی ننّھی پتیاں ہیں کہ بے اختیار پیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کیکر کا پھول گلاب کے پھول سے لاکھ درجہ اچھا ہے۔ گلاب کا پھول ایک دن کی تیز دھوپ میں کملا اور مرجھا جاتا ہے اور کیکر کا پھول ہفتوں سورج کا مقابلہ کرتا ہے اور آج کل تعریف اسی کی ہے جو دشمن کے مقابلہ میں زندہ سلامت رہے۔

    گلاب کا پھول سرخ یا سرخی مائل اور ایسا کچّا کہ مالیوں کی استادی سے رنگ بدل دیتا ہے۔ مالی جس کو چاہیں سرخ رکھیں، جس کو چاہیں سفید بنا دیں۔

    کیکر کا پھول اپنے رنگ میں پختہ۔ سارے جہاں میں ایک ہی زرد رنگ۔ کیا مجال جو کوئی شخص اس کے رنگ کو بگاڑ سکے۔

    شاعر کہتے ہیں گلاب کے پھول سے معشوق یاد آتا ہے۔ میں کہتا ہوں کیکر کے پھول سے عشق یاد آتا ہے جس سے انسان کی رنگت زرد ہو جاتی ہے۔

    اب بتاؤ عشق اچھا یا معشوق۔ عشق نہ ہوتا تو نہ عاشق کو کوئی پوچھتا نہ معشوق کی کوئی وقعت ہوتی۔ یہ عشق ہی کی بدولت سب بستیاں آباد ہیں۔

    ارے نادان تجھے شاعروں سے کیا کام۔ پہلے اپنے وجود کے تخیلات کو درست کر۔ ان میں فطرت شناسی کا ملکہ نمودار ہونے دے۔ آج گلاب کو چھوڑ کر کیکر کے آگے جھومتا ہے۔ کل اس کو بھی چھوڑیو۔ کسی اور پیکر کے جلوہ میں دھیان جمائیو۔ ساری دنیا میں کانٹے پھیلے ہوئے ہیں، کس کس جگہ جھاڑو دے گا۔ خود جوتی پہن لے اور راستہ چلنے لگ۔ ہاں تُو حق پر ہے۔ ہاں یہی صراطِ مستقیم ہے۔ یہی وہ راہ ہے جو منزلِ جاناں تک جاتی ہے۔ من و تو کا حجاب اٹھا۔ اس کے بعد خود اپنی خودی کا پردہ کھول کر اندر گھس جا۔

    پھر یہ آواز نہ آئے گی کہ ‘گلاب تمہارا اور کیکر ہمارا’

    (اردو کے ممتاز ادیب، صحافی اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کی ایک خوب صورت تحریر)

  • ہمیں جیل ہوجائے!

    ہمیں جیل ہوجائے!

    کہتے ہیں ڈھونڈے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ ضرور مل جاتا ہے، لیکن لاکھ لاکھ تلاش کے باوجود مکان نہیں ملتا۔

    اسی چکّر میں یہ طے کر کے نکلے کہ یا مکان تلاش کر لیں گے ورنہ خود ہی لاپتا ہوجائیں گے! لیکن ہوا یہ کہ نہ مکان مل سکا اور نہ خود جیتے جی لامکاں ہوسکے! لیکن ہر مکان کو خالی سمجھ کر اس پر لپکنے کے چکّر میں کئی بار پولیس کے ہتھے چڑھتے چڑھتے ضرور بچے!

    جب سارے شہر میں ایک بھی’’ٹولٹ‘‘ کا بورڈ نہ ملا اور نہ کسی نے بتایا کہ کسی کا کوئی مکان کہیں خالی ہے تو ہم نے اخباروں اور رسالوں میں ’’مکان چاہیے، مکان!‘‘ کے اشتہار نکلوائے۔ احباب کو دھمکی دی کہ اگر مکان نہ ملا تو مع سامان کے تمہارے یہاں دھرنا دیں گے، لیکن اس طرح مکان یا اس کا اتا پتا تو نہ ملا البتہ دوستوں کی بھیڑ ضرور چھٹ گئی۔

    جب ہم کسی خالی مکان میں تالا لگا دیکھتے تو اس خیال کے تحت اس کے چکّر لگانے لگتے کہ یہ ضرور خالی ہوگا۔ جس سے پاس پڑوس والوں کو شک ہونے لگتا کہ کہیں ان کا ارادہ قفل شکنی کا تو نہیں؟ لیکن یہاں قفل شکنی تو کُجا کسی کی دل شکنی بھی نہیں کرسکتے اور اسی مروّت کے مارے آج مکان کی تلاش میں زمین کا گز بنے ہوئے ہیں۔

    ہوا یہ کہ جس مکان میں ہم رہتے تھے اس کے مالک نے ہمیں بڑے سبز باغ دکھائے کہ ’’اگر ہم کچھ دن کے لیے کہیں اور چلے جائیں تو وہ اس ٹوٹے ہوئے مکان کو توڑ کر نئی بلڈنگ کھڑی کردیں گے، جس میں ہمیں بجلی اور پانی کے پائپ وغیرہ کی خاص سہولتیں بالکل مفت حاصل ہوں گی۔‘‘ ہم نے ان کی باتوں میں آکر اپنے دوست خاں صاحب کے یہاں ڈیرا جمایا۔

    مالک مکان نے مکان بنوانے کی بجائے اسی کھنڈر کا پیشگی کرایہ اور پگڑی لے کر ایک نیا کرایہ دار بسالیا جبھی سے ہم مکان ڈھونڈتے اور خاں صاحب سے آنکھیں چراتے پھرتے ہیں۔

    ہمارے ایک دوست جو مکان تلاش کرنے میں ہماری کافی مدد کررہے تھے، سخت بیمار پڑگئے۔ ہم نے بہت جی لگا کر ان کی تیمار داری کی تاکہ وہ جلد از جلد اچّھے ہوکر ہمارے لیے مکان ڈھونڈ سکیں، لیکن جوں جوں ان کا علاج کیا، حالت بگڑتی گئی۔ یہاں تک کہ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے اپنے دوست کا کفن دفن اور تیجا، چالیسواں اس خیال سے کر دیا کہ پگڑی اور پیشگی کرایہ نہیں دیا، مرحوم کی آخری رسوم ادا کر دیں اور ہم مرحوم کے مکان منتقل ہوگئے، لیکن ابھی ہم نے اچھی طرح سامان بھی نہ جمایا تھا کہ پولیس نے ہمیں نکال باہر کیا، کیوں کہ مرحوم کے پس ماندگان نے مکان اپنے نام الاٹ کرا لیا تھا۔

    اس بار خاں صاحب نے بھی ہمیں پناہ نہ دی۔ مجبوراً ہم نے سامان اسٹیشن کے لگج روم میں جمع کروایا اور پلیٹ فارم پر رات کو سونے کے ساتھ ساتھ دن کو مکان کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تلاش کے باوجود کچھ دنوں میں گھر تو نہ ملا، لیکن ایک عدد گھر والی ضرور مل گئی۔ جس کی وجہ سے رات بسر کرنے کے لیے کرایہ پر رات میں ’’رین بسیرے‘‘ میں جگہ مل جاتی، لیکن مکان کے بارے میں ہماری مایوسی یہاں تک بڑھ گئی کہ ہم سوچنے لگے، کیوں نہ ہم دونوں کوئی ایسا جرم کر ڈالیں کہ ہمیں جیل ہوجائے اور اس طرح رہنے کا سہارا ہوجائے۔

    (معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی تحریر سے چند شگفتہ پارے)