Tag: اردو ادب

  • ایکٹنگ

    ایکٹنگ

    ایکٹنگ یا کردار نگاری اس فن کا نام ہے، جس کے ذریعے سے مختلف انسانوں کے جذبات و محسوسات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

    مصوّری، سنگ تراشی، شاعری، افسانہ نویسی اور موسیقی کی طرح کردار نگاری کو بھی فنونِ لطیفہ میں شمار کیا جاتا ہے، گو بعض منکر اس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام لوگ جو روس کے مشہور معلّمِ اخلاق مصنّف ٹالسٹائی کے مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اسٹیج اور اسکرین کو آرٹ کی شاخ تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہوں گے۔ فنونِ لطیفہ کے متعلق ٹالسٹائی کا نظریہ قریب قریب ہر مفکر کے نظریے سے جداگانہ ہے۔

    وہ غایت درجہ حقیقت پسند تھا اور چوں کہ اسٹیج اور اسکرین پر حقیقت بہت کم نظر آتی ہے، اسی لیے اس کے نظریے کے مطابق فلم اور اسٹیج پر کھیلے ہوئے ناٹک آرٹ سے بہت دور ہیں۔ اپنا اپنا خیال ہے۔

    کردار نگاری کا فنِ افسانہ گوئی کی طرح ہبوطِ آدم سے چلا آ رہا ہے۔ دوسرے کے دل پر بیتے ہوئے واقعات بیان کرنا اور کسی دوسرے قلب کی گہرائیوں کا اظہار کرنا کردار نگاری ہے۔

    جب آپ کا چھوٹا بھائی یا کمسن بچّہ رات کو سوتے وقت آپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اس کی دادی امّاں چوہے سے ڈر کر غسل خانے میں چھپ گئیں اور مارے خوف کے ان کا سارا جسم کانپنے لگا تو اس وقت دراصل وہ ایک ایکٹر کے فرائض ادا کر رہا تھا، اگر اس بچّے کی قوتِ بیان کم زور نہیں اور وہ آپ پر اپنی دادی اماں پر بیتے ہوئے واقعات کو اس طرح بیان کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے سامنے ایک تصویر سی دیکھنے لگتے ہیں اور آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی آپ کی آنکھوں کے سامنے بچّے کی دادی اماں فرطِ خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بچّہ ایک کام یاب ایکٹر ہے اور اس کے اظہار میں تعدیہ بدرجہ اتم موجود ہے۔

    فلموں میں یہی چیز بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں آپ کے چھوٹے بھائی یا کمسن بچّے نے صرف اپنے دل کی خواہش کی بنا پر اپنی دادی اماں کی کیفیت بیان کی تھی اور یہاں کئی بچّے، جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد جمع ہو کر ایک کہانی سن کر کسی کے کہنے پر آپ لوگوں کو سنا دیتے ہیں۔

    یہ فرق بظاہر معمولی ہے، مگر چوں کہ آپ کو بہت سی اندرونی باتیں معلوم نہیں، ا س لیے آپ نہیں جانتے کہ جب آپ کا بچّہ یا بھائی اپنی دادی اماں کی داستان سنا رہا تھا تو اس کو اس امر کے لیے کسی اور شخص نے اکسایا نہیں تھا۔ یہ اکساہٹ خودبخود اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔

    اس کے برعکس فلم بنانے سے پہلے ہر ایکٹر کے ہاتھ میں اس کا پارٹ دے دیا جاتا ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کو بطریقِ احسن نبھائے گا۔


    (معروف ادیب اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون ‘ہندوستانی صنعتِ فلم سازی پر ایک نظر’ سے اقتباس)

  • عرب کی شاعری میں‌ حیوانات اور نباتات کا تذکرہ

    عرب کی شاعری میں‌ حیوانات اور نباتات کا تذکرہ

    ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’الشعرُ دیوان العرب۔‘‘ یعنی عرب کی شاعری عرب کا دفتر ہے۔ دفتر کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ اس میں عرب کا جغرافیہ، عرب کی تاریخ، عرب کا تمدن، عرب کا طریقہ معاشرت، عرب کے خیالات و توہمات، عرب کی ملکی اور قومی خصوصیات سب کچھ ہے۔ اگر کوئی شخص عرب کی شاعری کا مطالعہ کرے تو کوئی بات عرب اور اہلِ عرب کے متعلق ایسی نہیں ہے جو اس میں نہ مل سکے۔

    حیوانات میں عرب کے اونٹ اور گھوڑے خاص کر مشہور ہیں۔ ان کی سیکڑوں نسلیں تھیں۔ ان دو جانوروں کا ذکر عرب کی شاعری میں کثرت سے آیا ہے۔ ان کے علاوہ جن جانوروں کے نام لیے گئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

    کتّا جس سے پہرے اور شکار کا کام لیا جاتا تھا۔ کبوتر، فاختہ، قمری، ان کا ذکر عاشقانہ شاعری میں بہت آتا ہے۔ شیر، بھیڑیا، گورخر، لومڑی، نیل گائے، شتر مرغ، بکری، چیتا، گرگٹ، کفتار، عقاب، بازاتو، گد، شکرا، لوا، ہد ہد، شہد کی مکھی، ٹڈی، چمگادڑ، مینڈک، مچھلی، چیونٹیاں، چوہا، بلّی وغیرہ۔

    ایک چھوٹے سے جانور کا ذکر بھی آتا ہے جس کو جد جد کہتے تھے اور جو چمڑا کاٹ کر کھاتا تھا۔ نباتات میں سب سے زیادہ کھجور کا ذکر آتا ہے۔ اس کے علاوہ جن جنگلی درختوں کا نام لیا گیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہے:

    ببول، جھاؤ پیلو، تھور، جانڈ آکھی، ارنڈ، کھمبی، اندراین وغیرہ۔ کنبھل، بشام، طلح، سیال، عرفنج، اصحل خاص عرب کے درخت ہیں۔ شیزی ایک آبنوس جیسے درخت کی لکڑی تھی، جس کے بڑے بڑے پیالے بنائے جاتے تھے۔ مرار ایک نہایت کڑوی گھاس کا نام تھا۔ بنعہ ایک درخت تھا، جس کی لکڑی کمانوں کے لیے موزوں تھی۔ حرم بھی ایک ایسے ہی درخت کا نام تھا۔ درختِ تنوم پر سانپ لپٹے رہتے تھے، پھولوں میں گلاب، سنبل، اعرار خیری، بابونہ، چمبیلی اور بنفشہ کا ذکر اکثر آیا ہے۔

    اند اور بان دو نازک درخت ہیں، جن کا نام عاشقانہ شاعری میں بار بار لیا جاتا ہے۔ ورس ایک گھانس کا نام ہے جو رنگنے کے کام میں آتی تھی۔ مہندی کا بھی نام لیا گیا ہے۔ کالی مرچیں شراب میں ڈالی جاتی تھیں تاکہ نشہ تیز ہو۔ میوؤں میں انگور اور انار کا بھی ذکر آیا ہے۔

    (معروف مضمون نگار، مترجم اور مدیر سیّد وحید الدّین سلیم کے قلم سے)

  • مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    زخمی ہونے کے باوجود اُس نے فون سے 999 ملا لیا تھا۔

    "نئی ایمرجنسی ہیلپ لائن میں خوش آمدید” آواز آئی۔

    "ایمبولینس کے لیے ایک دبائیں
    آگ لگنے کی صورت میں دو دبائیں
    پولیس سے رابطے کے لیے تین
    سمندر میں حادثے کی صورت میں مدد کے لیے چار دبائیں
    اگر آپ کو ایمرجنسی مدد نہیں چاہیے تو پانچ دبائیے یا یہ ساری تفصیلات دوبارہ سننے کے لیے چھ دبائیں۔”

    پیٹ میں لگے چاقو کی وجہ سے خون ہر طرف پھیل چکا تھا۔ اُس نے لاشعوری طور پر ہمّت کرکے نمبر ایک دبا دیا۔

    ” پستول سے لگی گولی کے لیے ایک دبائیں، روڈ ایکسیڈنٹ کے لیے دو، تین، چار۔۔۔۔۔”

    لیکن اِس سے آگے وہ نہ سُن سکی!

    مصنّف: گورڈن لاری (Gordon Lawrie)
    مترجم: محمد جمیل اختر

  • مرزا جی کی وفات پر حافظ صاحب نے بچّوں کو گجک کیوں کھلائی؟

    مرزا جی کی وفات پر حافظ صاحب نے بچّوں کو گجک کیوں کھلائی؟

    بلبلی خانے کی اسی انار والی مسجد کے ساتھ ہی ایک مرزا صاحب کی حویلی تھی۔ مرزا صاحب حافظ جی ہی کی عمر کے تھے، بڑے سرخ و سفید۔ تنہا رہتے تھے، اس لیے دن کا زیادہ تر وقت حویلی کے جھروکے میں گزارتے تھے جس سے ان کا وقت بھی گزر جاتا اور دل بھی بہلتا تھا۔

    حافظ جی اور مرزا صاحب کی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ مرزا صاحب کی اس حویلی کے آدھے حصّے میں لڑکیوں کا سرکاری مڈل اسکول چلتا تھا جو آج بھی قائم ہے اور بلبلی خانہ اسکول کہلاتا ہے۔

    پھر ایسا ہوا کہ مرزا صاحب بیمار پڑگئے۔ عمر کی جس منزل میں مرزا صاحب تھے، ان کی یہ بیماری اللہ میاں کے ہاں سے ان کے بلاوے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی یہاں تک کہ مرزا صاحب عالمِ نزع میں پہنچ گئے۔

    اب یہ وہ زمانہ تھا جب زیادہ تر لوگ خصوصاً عمر دراز اور ضعیف لوگ سفرِ آخرت پر روانہ ہونے سے پہلے مقامِ نزع پر کچھ عرصہ ٹھیکی ضرور لیتے تھے۔ نزع کا یہ عرصہ دو چار گھنٹے سے لے کر کبھی کبھی دو چار دن تک ہوجاتا تھا، یہاں تک کہ عزیز و اقربا انھیں جاں کنی کے عالم میں دیکھ، ان کی مشکل آسان ہونے کی دعا مانگنے لگتے تھے۔

    تو جب مرزا صاحب پر بھی عالمِ نزع طاری ہوا تو حافظ جی نے فوراً شاہ ولی اللہ کے مہندیان کے قبرستان میں ان کی قبر کا بندوبست کردیا۔ مرزا صاحب پر جب نزع طاری ہوئے تیسرا دن لگا تو حافظ جی نے قرآن پڑھنے والے اپنے معصوم بچوں سے یہ کہہ کر ان کے مرنے کی دعا کروائی کہ دیکھو میں نے مرزا جی کے لیے پیسے خرچ کرکے قبر کا بندوبست کردیا اور مرزا صاحب ہیں کہ اب مر کر ہی نہیں دے رہے۔ اب اللہ میاں سے اپنی معصومیت کی دہائی دے کے دعا کرو، وہ انھیں اٹھا لیں تاکہ میرے پیسے بھی ٹھکانے لگیں اور تمھاری دعا بھی کارگر ہو۔ اگر ایسا ہوگیا تو میں تم سب کو کانڑی کے ہاں سے گجک (گزک) منگوا کے کھلواﺅں گا۔

    بچّوں نے اللہ میاں سے مرزا صاحب کے جاں بحق ہونے کی خوب دعائیں کیں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ ان کے حافظ جی کی قبر پر لگائی ہوئی رقم نہ ڈوبے۔ لیجے خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے، شام ہوتے ہوتے مرزا صاحب جاں بحق تسلیم۔

    تدفین سے فارغ ہونے کے اگلے روز حافظ جی نے وعدے کے مطابق کانڑی کے ہاں سے گجک منگوا کے لڑکوں میں تقسیم کی اور جو لڑکا گجک لینے گیا تھا اسے خاص طور پر یہ تاکید کردی کہ آج چنوں کی خریدوفروخت والی کوئی شرارت کانڑی کے ساتھ نہ کرنا۔ تو مرزا جی کی وفات پر حافظ جی کا یہ ‘شیکسپیئرین’ حزنیہ طربیہ کبھی کبھی آج بھی یاد آجاتا ہے۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معلّم اور ادیب اسلم پرویز کی آپ بیتی ‘میری دلّی’ سے اقتباس)

  • کیوی کے پَر کیسے گم ہوئے

    کیوی کے پَر کیسے گم ہوئے

    اس کہانی میں صرف نیوزی لینڈ کے ان مقامی پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ ہے جیسے ‘پوکے کو’ جو نیلے رنگ کا لمبی ٹانگوں والا مرغی کی قامت کا پرندہ ہے۔ ‘ٹوئی’ جو مینا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ‘پیپی وارو۔ روا’ یعنی سنہرے اور سبز پروں والی بلبل جیسا پرندہ اور ‘کیوی’ جس کی لمبی چونچ ہوتی ہے اور یہ وہاں کا قومی پرندہ ہے۔ اس کہانی کا آغاز کرنے سے پہلے انھوں نے بچّوں سے یوں خطاب کیا ہے:

    بچّوں کے لیے یہ کہانی سلمیٰ جیلانی نے تخلیق کی ہے جو کئی سال سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں، وہ افسانہ نگار، شاعرہ اور مترجم ہیں۔

    پیارے بچّو! آج میں آپ کو اپنے موجودہ دیس نیوزی لینڈ کی ایک لوک کہانی سناتی ہوں جو یہاں کے قومی پرندے کیوی سے متعلق ہے۔ آپ نے یا آپ کے امّی ابّو نے وہ اشتہار شاید سنا ہو جس میں سوال کیا جاتا ہے۔

    ’’پیارے بچّو کیوی کیا ہے؟‘‘ اور پھر جواب دیا جاتا ہے کہ ’’کیوی ایک پرندہ ہے جو پالش کی ڈبیا پر رہتا ہے۔‘‘

    نہیں بھئی، کیوی ہے تو پرندہ، مگر پالش کی ڈبیا پر نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے جنگلوں میں رہتا ہے۔ یہ جانوروں کی سب سے قدیم نسل سے تعلق رکھتا ہے اور یہ واحد پرندہ ہے جو اُڑ نہیں سکتا کیوں کہ اس کے پَر ہی نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود پرندہ کہلاتا ہے۔

    اس کے علاوہ اس کی کئی اور باتیں عام پرندوں سے مختلف ہیں یعنی یہ رات کے وقت کھانا پینا تلاش کرنے نکلتا ہے۔ اکثر قومی شاہراہ پر بھی نکل آتا ہے اور تیز رفتار کاروں کا نشانہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل اور بھی تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انڈا اس کے قد کی مناسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے اور اکثر انڈے دیتے ہوئے بھی مادہ کی جان چلی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ تعداد میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں اور اگر ان کی دیکھ بھال نہ کی گئی تو اگلی نسل ان کو دیکھ بھی نہیں سکے گی۔

    خیر یہ تو تھا کیوی کا مختصر تعارف اب آتے ہیں، اس لوک کہانی کی طرف جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔

    ایک دن ’تنی مہوٹہ‘ یعنی جنگل کا دیوتا درخت (یہ یہاں کے سب سے قدیم درخت کاوری کو بھی کہتے ہیں جو ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں) جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بچّے یعنی درخت جو آسمانوں کو چھوتے تھے کچھ بیمار لگ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کیڑے انہیں کھا رہے ہوں، اس نے اپنے بھائی ’تنی ہوکا ہوکا‘ یعنی آسمانوں کے بادشاہ سے کہا کہ وہ اپنے بچّوں کو بلائے چناں چہ اس نے فضاؤں کے تمام پرندوں کو ایک جگہ پر جمع کیا۔

    ’تنی مہوٹہ‘ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ” کوئی چیز میرے بچّوں یعنی درختوں کو کھا رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ایک آسمانوں کی چھت سے نیچے اتر آئے اور زمین کے فرش پر اپنا گھر بنائے تاکہ درخت اس تکلیف سے نجات پائیں، اور تمہارا گھر بھی محفوظ رہے۔ ہاں تو بتاؤ تم سے کون ایسا کرنے کو تیار ہے؟‘‘

    ان میں سے کوئی پرندہ بھی نہیں بولا سب کے سب ایک دم خاموش رہے۔

    ’تنی ہوکا ہوکا‘ مینا کی طرح کے پرندے ’ٹوئی‘ کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

    ’’ٹوئی! کیا تم زمین کے فرش پر جا کر رہنا پسند کرو گے؟‘‘

    ٹوئی نے درختوں کے اوپر کی طرف نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتوں سے چھن کر نیچے جا رہی تھی، پھر نیچے جنگل کے فرش کی طرف دیکھا، جو بہت ٹھنڈا اور سیلا معلوم ہو رہا تھا اور وہاں بہت اندھیراتھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین کپکپا رہی ہو۔

    ٹوئی نے ڈرتے ہوئے کہا’’محترم تنی ہوکا ہوکا، نیچے تو بہت اندھیرا ہے اور مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں نیچے نہیں جا سکتا۔‘‘

    پھر ’تنی ہوکا ہوکا‘ نیلے رنگ کے لمبی ٹانگوں والے پرندے ’پوکے کو‘ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور اپنا سوال دہرایا۔

    ’’پوکے کو! کیا تم نیچے جا کر رہنا چاہو گے؟‘‘

    ’پوکے کو‘ نے نیچے کی طرف دیکھا۔ اسے بھی زمین نم آلود اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوئی۔ اس نے ادب سے جواب دیا، ’’جناب ’تنی ہوکا ہوکا۔‘ زمین کا فرش تو بہت ہی گیلا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرے خوب صورت پاؤں گیلے ہو جائیں۔

    اس کے بعد تنی ہوکا ہوکا ’پیپی وارو۔ روا‘ یعنی سنہری بلبل کی طرح کے پرندے سے مخاطب ہوا۔

    ’’تو’پیپی وارو۔ روا‘! تمہارا کیا جواب ہے، کیا تم درختوں کی جان بچانے کے لیے جنگل کی چھت سے نیچے اترو گے؟‘‘

    سنہری پرندے نے جنگل کی چھت سے چھنتی ہوئی سورج کی روشنی کی طرف دیکھا، پھر دوسرے پرندوں کی طرف نظر دوڑائی اور لا پروائی سے بولا۔

    ’’جناب محترم فی الحال تو میں اپنا گھونسلا بنانے میں بے حد مصروف ہوں، میں نیچے جا کر نہیں رہ سکتا۔‘‘

    باقی سب پرندے خاموشی سے ان کی باتیں سن رہے تھے، اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔

    ایک گہری اداسی’ تنی ہوکا ہوکا‘ کے دل میں اتر گئی، جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے بچّوں میں سے کوئی بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنے کو تیار نہیں، اس طرح نہ صرف اس کا بھائی اپنے بچّوں یعنی درختوں کو کھو دے گا بلکہ کسی پرندے کا گھر بھی باقی نہیں بچے گا۔ ’تنی ہوکا ہوکا‘ اس مرتبہ کیوی کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

    ’’اے کیوی! کیا تم جنگل کی چھت سے نیچے اترنا پسند کرو گے؟‘‘

    کیوی نے درختوں پر نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتّوں سے چھن چھن کر ایک خوب صورت منظر پیش کر رہی تھی، اس نے اپنے اطراف دیکھا جہاں اسے اپنا خاندان دکھائی دیا، پھر اس نے زمین کے فرش کی جانب نظر کی، ٹھنڈی اور نم آلود زمین، اس کے بعد اپنے اطراف دیکھتے ہوئے’تنی ہوکا ہوکا‘ کی طرف گھوما اور بولا:

    ’’ہاں میں نیچے جاؤں گا۔‘‘ یہ سن کر ’تنی مہوٹا‘ اور تنی ہوکا ہوکا کے دل خوشی سے اچھل پڑے۔ اس ننھے پرندے کی بات انہیں امید کی کرن دکھا رہی تھی، لیکن تنی مہوٹا نے سوچا۔ کیوی کو ان خطرات سے آگاہ کر دیا جائے جن کا سامنا زمین پر جا کر رہنے سے اسے ہونے والا تھا۔

    ’’اے کیوی! جب تم زمین پر جا کر رہو گے تو تم موٹے ہو جاؤ گے، لیکن تمہاری ٹانگیں اتنی مضبوط ہو جائیں گی جو ایک جھٹکے سے لکڑی کو توڑ ڈالیں گی، تم اپنے خوب صورت چمکیلے پر کھو دو گے یہاں تک کہ اڑ کر دوبارہ جنگل کی چھت تک بھی نہیں پہنچ سکو گے اور تم دن کی روشنی بھی دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکو گے، کیا تمہیں یہ سب منظور ہے؟ کیا تم پھر بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنا چاہو گے؟‘‘

    تمام پرندے خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے، کیوی نے اداسی سے درختوں کی شاخوں سے چھن کر آتی ہوئی، سورج کی روشنی کی طرف ایک الوداعی نظر ڈالی، پھر دوسرے پرندوں کی جانب دیکھا، ان کے خوب صورت اور رنگین پَروں اور اڑان بھرنے والے بازوؤں کو خاموش الوداع کہی، ایک بار پھر اپنے اطراف دیکھا اور’ تنی ہوکا ہوکا‘ سے مخاطب ہوا۔

    ’’ہاں، میں پھر بھی جاؤں گا۔‘‘ تنی ہوکا ہوکا نے اس کی بات سنی اور پھر دوسرے پرندوں کی طرف متوجہ ہوا۔

    ’’اے ٹوئی! چوں کہ تم جنگل کی چھت سے اترنے سے بہت خوف زدہ ہو، اس لیے آج سے تمہیں دو سفید پر دیے جاتے ہیں، جو تمہارے بزدل ہونے کی نشانی کے طور پرتمہاری گردن پہ ہمیشہ ثبت رہیں گے۔

    اور ہاں’ پوکے کو‘! تم نیچے جا کر اس لیے رہنا نہیں چاہتے کہ تمہارے پاؤں گیلے نہ ہو جائیں تو آج سے تم ہمیشہ دلدلوں اور گندے پانی کے جوہڑوں میں رہا کرو گے اور تمہارے خوب صورت پاؤں کیچڑ میں لتھڑے رہیں گے۔

    ’پیپی وارو۔ روا‘! چوں کہ تم اپنا گھونسلا بنانے میں اتنے مصروف ہو کہ نیچے اتر کر رہنا تو کیا میری بات تک سننے کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں تو آج سے تمہاری سزا یہ ہے کہ تم کبھی اپنا گھونسلا نہیں بنا سکو گے بلکہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں انڈے دیا کرو گے۔

    لیکن پیارے کیوی! اپنی اس بے مثال قربانی کی وجہ سے تم تمام پرندوں میں سب سے زیادہ مشہور پرندے ہو گے اور تمہیں لوگ سب سے زیادہ پیار کریں گے۔‘‘

    بچّو، اس دن سے آج تک کیوی ایک مختلف پرندہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے نیوزی لینڈ کا قومی پرندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

  • ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    میری عمر چودہ برس۔ صوفی صاحب نئے نئے ریٹائر ہو کر اس علاقے میں بسے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں نئے نئے منتقل ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے والے مکان کی ڈیوڑھی پر پان والا بیٹھتا تھا۔ ہر دو گھنٹے بعد ایک خوش لباس شخص آتا، پان بنواتا، کھاتا، ٹہلتا ٹہلتا چلا جاتا۔ کبھی کُرتا شلوار اور کبھی کرتا اور چوڑی کنی کی خوب صورت دھوتی پہنے۔ کبھی پینٹ بشرٹ اور کبھی قمیص اور پینٹ پہنے۔

    ہماری امّاں کہ جن کا پان دان ہمیشہ شاداب رہتا، اس شخص سے بہت نالاں تھیں۔ اگر پان کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ شخص گھر میں پان دان کیوں نہیں رکھتا! امّاں کی بھی ہر دفعہ نظر صوفی صاحب پر ہی پڑتی اور وہ بھی پان وہیں کھڑے ہو کر کھاتے۔

    غائبانہ لڑائی کا یہ سلسلہ امّاں کی طرف سے باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔ اس پر سونے پر سہاگا ہو گیا۔

    ایک دِن صوفی صاحب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے۔ ہاتھ میں کٹورا تھا۔ پوچھا کیا کیا پکا ہے؟ امّاں نے کہا، ”ثابت مسور۔“

    بولے، ”اس پیالے میں ڈال دو۔“ امّاں نے ڈال دی۔ وہ راستے میں چاٹتے ہوئے کھاتے چلے۔ امّاں کو سڑک پر یُوں چاٹنے والی بات اور بھی بُری لگی۔

    مگر صوفی صاحب کو سیڑھیوں تک کون لایا؟ یہ میں تھی…. میری صوفی صاحب سے ملاقات اسلامیہ کالج کے شمعِ تاثیر کے مشاعرے میں ہوئی (یادش بخیر، کہ اب تو اس نام کا مشاعرہ ہوتا ہی نہیں، بلکہ اسلامیہ کالج میں سرے سے کوئی مشاعرہ ہی نہیں ہوتا)۔ میں نے جب ان کے بے تکلّف پان کھانے کی شکایت امّاں کی طرف سے کی تو انہوں نے فوراً کہا کہ تمہارے گھر کھا لیا کروں گا، اور یوں میرے اور اپنے خاندان کے درمیان راہ و رسم کی پہلی سیڑھی خود صوفی صاحب نے چڑھی۔

    پہل کرنا صوفی صاحب کی عادت تھی۔ صلح میں، دعوت میں، بے تکلّفی میں، ادا دِکھانے میں، ناراضگی میں، شعر سنانے، سمجھانے اور بتانے میں۔ آپ ہی روٹھ کر آپ ہی مان جانا، ان کی ادا تھی۔

    نازک بدنی ان پر ختم تھی۔ صبح کی سیر ان کی جان تھی۔ دہی کھانا ان کی ضرورت تھی۔ صاف دسترخوان ان کی بھوک تھی، مگر جسم و جان کی تازگی صرف اور صرف شعر میں تلاش کرتے تھے۔

    حقّے کی گُڑگڑاہٹ، کلچے کی مہک، کشمیری چائے کی چُسکی، ٹوپی اُتار کر سر کھجانا اور پھر قلم پکڑ کر کاغذ پر اتنا خوب صورت لکھنا کہ کتابت کرانے کو جی نہ چاہے۔ سید بابر علی نے ان کی خوش تحریری کو دیکھ کر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ایک ہزار ایک اشعار شائع کیے تھے۔

    امرتسر ان کے حافظے میں زندہ تھا، ذیلدار روڈ تہذیبی لاہور کا آئینہ۔ گورنمنٹ کالج ان کے فخر کا سرنوشت اور سمن آباد اپنے گھر میں ملنے والے سکون سے لے کر اس بے سکونی کا آئینہ تھا کہ جہاں گھروں کی دیواروں پر یہ لکھنا عام ہو گیا تھا ”فحاشی بند کرو۔“

    جب عمل مفقود اور نعرے حاوی ہو جائیں، وہ کھوکھلا پن صوفی صاحب کی زندگی کا حصّہ نہ تھا۔ وہ ایسے ظاہری پن سے نالاں ہو گئے تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شعری سفر میں بھی بہت سے پڑاؤ ان کے دھیان میں تھے، مگر جسمانی سفر میں وہ احساس کے دوغلے پن سے نالاں تھے۔

    ہم جھوٹے ہیں۔ ہم مسلسل دوغلے پن کے عمل کو مسکراہٹوں کی کریز میں لپٹائے ہوئے رکھتے ہیں۔ وہ سچّے تھے، رہائی پا گئے۔

    ایک مجموعہ بعنوان ”انجمن“ اور دوسری وہ انجمن کہ جس کے دھوئیں کی شکل میں ہم لوگ ہیں، چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ مجموعہ ”انجمن“ 1954ء ہی سے مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ اور میری شادی کے بعد شائع ہوا۔ اس لیے میں 1954ء سے لے کر اب تک صوفی صاحب کی رفاقت کی داستان کے صرف چند لمحوں میں آپ کو شریک بنا سکی ہوں۔

    بھلا انسان بارش کے قطروں کو کبھی گِن سکا ہے؟ صوفی صاحب بھی بارش تھے: علم کی، محبّت کی اور شفقت کی بارش۔ میں کیسے حساب دوں اُن لمحوں کا جو مجھ پر ساون کی جھڑی کی طرح مسلسل 25 برس کرم فرما رہے۔

    (نام وَر شاعر، مدیر اور مترجم صوفی تبسّم کے بارے میں شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کی ایک تحریر)

  • معروف مترجم، مدیر اور متعدد معلوماتی کتب کے مؤلف سیّد قاسم محمود کی برسی

    معروف مترجم، مدیر اور متعدد معلوماتی کتب کے مؤلف سیّد قاسم محمود کی برسی

    آج اردو کے ممتاز مترجم، صحافی، افسانہ نگار اور متعدد معلوماتی اور حوالہ جاتی کتب کے مؤلف سیّد قاسم محمود کا یومِ‌ وفات ہے۔ ان کی زندگی کا سفر 31 مارچ 2010ء کو تمام ہوا تھا۔ سیّد قاسم محمود جوہر ٹائون، لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    وہ 17 نومبر 1928ء کو کھرکھودہ، ضلع روہتک میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1951ء میں پنجاب میں مجلسِ زبانِ دفتری سے بطور مترجم منسلک ہوئے۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے لیل و نہار، صحیفہ، کتاب، سیّارہ ڈائجسٹ، ادبِ لطیف اور قافلہ جیسے جریدوں کی ادارت کی۔

    1970ء میں لاہور سے انسائیکلو پیڈیا کا اجرا کیا اور 1975ء میں شاہ کار جریدی کتب شایع کرنا شروع کیں۔ 1980ء میں وہ کراچی چلے گئے اور وہاں 1998ء تک مقیم رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے ماہ نامہ افسانہ ڈائجسٹ، طالبِ علم اور سائنس میگزین کے نام سے مختلف جرائد جاری کیے اور اسلامی انسائیکلو پیڈیا، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا ایجادات اور انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا شایع کیے جو ان کا بڑا کارنامہ ہیں۔

    وہ ایک اچّھے افسانہ نگاراور مترجم بھی تھے۔ تاہم ان کی علمی کاوشوں اور تالیف کردہ کتب کو زیادہ پذیرائی ملی۔ سید قاسم محمود کے افسانوں کے مجموعے دیوار پتھر کی، قاسم کی مہندی اور وصیت نامہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔

  • معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    30 مارچ 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ مشہور ماہ نامہ افکار کے مدیر تھے۔

    لکھنؤ ان کا آبائی وطن تھا۔ تاہم صہبا لکھنوی نے بھوپال میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ بعد میں لکھنؤ اور بمبئی کے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی۔ 25 دسمبر 1919ء کو پیدا ہونے والے صہبا لکھنوی کا اصل نام سیّد شرافت علی تھا۔

    انھوں نے 1945ء میں ماہ نامہ افکار کا اجرا بھوپال سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں 1951ء میں دوبارہ ماہ نامہ افکار جاری کیا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی وفات تک جاری رہی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شایع کیا۔

    صہبا لکھنوی کے شعری مجموعے ماہ پارے اور زیرِ آسماں کے نام اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کی نثری کتب میں میرے خوابوں کی سرزمین (سفرنامہ مشرقی پاکستان)، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس امروہوی، فن و شخصیت اور منٹو ایک کتاب شامل ہیں۔

    صہبا لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کتنے دیپ بجھتے ہیں، کتنے دیپ جلتے ہیں
    عزمِ زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں

    کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
    منزلیں نہیں یارو، راستے بدلتے ہیں

    موج موج طوفاں ہے، موج موج ساحل ہے
    کتنے ڈوب جاتے ہیں، کتنے بچ نکلتے ہیں

    اک بہار آتی ہے، اک بہار جاتی ہے
    غنچے مسکراتے ہیں، پھول ہاتھ ملتے ہیں

  • دلّی والوں کا دستر خوان

    دلّی والوں کا دستر خوان

    1947ء سے پہلے تک دلّی والوں کا دستر خوان بڑا سادہ ہوتا تھا۔ جیسا بھی کچھ زور تھا وہ بس دو وقت کے کھانے پر تھا، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

    ناشتے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ شدید گرمی کے موسم میں تانبے کی درمیانی سائز کی قلعی دار بالٹی میں کبھی برف ڈال کر تخمِ ریحاں کا شربت بن گیا، جسے بول چال کی زبان میں تخمراں کا شربت کہتے تھے اور بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تخمراں اصل میں کس لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

    کسی دن ستّو بن گئے، ستّوﺅں میں مٹھاس کے لیے گڑ کی شکر پڑتی تھی، کسی دن اور زیادہ عیش کا موڈ آیا تو بازار سے دہی منگوا کے دہی کی لسّی بنالی۔ سب نے ایک ایک گلاس اس مشروب کا پیا اور بس ناشتہ ہوگیا۔

    شدید گرمی کے علاوہ باقی موسم میں ناشتے کے نام پر صرف چائے بنتی تھی جس کے لیے تانبے کی قلعی دار پتیلی چولھے پر چڑھتی تھی، جو پانی چائے بنانے کو ابالنے کے چڑھایا جاتا تھا اس میں تھوڑی سی کنکریاں نمک کی ضرور ڈالی جاتی تھیں، پانی میں اُبال آنے کے بعد اس میں چائے کی پتّی ڈالی جاتی تھی اور اسے اس وقت تک اونٹایا جاتا تھا جب تک کہ چائے کی پتّی خوب پانی پی کر پتیلی کی تہ میں نہ بیٹھ جائے۔

    اب اس میں چینی اور بھینس کا جوش کیا ہوا بالکل خالص دودھ ملایا جاتا تھا، اس کے بعد چند منٹ تک چائے چلانے کے لیے ایک خاص قسم کے چمچے سے جسے گھَنٹی کہتے تھے، چائے بھر بھر کے کئی بار نکالی اور انڈیلی جاتی تھی جیسے دودھ کی دکان پر دودھ والے کڑھاﺅ میں سے لُٹیا میں دودھ نکال کر اونچائی پر لے جاکر واپس کڑھاﺅ میں ڈالتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ چائے کا درجہ حرارت اس مقام پر قائم رہے جہاں اس کے ابلنے کا احتمال نہ ہو، اب گویا چائے تیار۔

    ایک دوسری قلعی دار پتیلی میں یہ چائے چھان کر پلٹ لی جاتی اور پھر اس گھنٹی سے نکال نکال کر سب کو دی جاتی تھی۔ چائے یا چینی کے تیز یا ہلکا ہونے کا کوئی مذاق اس وقت تک نہیں پیدا ہوا تھا، سب کو ایک ہی برانڈ کی چائے ملتی تھی۔

    بعض بچّے یہ چائے، چائے کے کپ میں پینے کے بجائے چینی کے پیالے میں لیتے تھے اور اس میں رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھگو کر چمچے سے سڑپ سڑپ کر کے کھاتے تھے۔ بچّوں کو چائے دن بھر میں صرف ایک بار صبح ناشتے پر ملتی تھی، باقی ناشتے کی بچی ہوئی چائے قدرے چھوٹی پتیلی میں منتقل کر کے گنجینے (توشہ خانے) میں رکھ دی جاتی تھی، شام تک ایک دو دور اس چائے کے بڑوں کے چلتے تھے۔

    جب موسم ذرا گلابی ہوجاتا تو پھر بچّوں کو ناشتے میں چھوٹی سی روغنی ٹکیہ اور انڈے کا چھوٹا آملیٹ ملتا تھا، اس طرح کہ ایک انڈے کو پھینٹ کر اس میں سے کم از کم چار چھوٹی چھوٹی ٹکیاں انڈے کی تل کر بچوں کو روغنی ٹکیہ کے اوپر رکھ کر دی جاتی تھی، کبھی کبھی زیادہ عیش کا موڈ ہوا تو بازار سے حلوہ پوری یا نہاری آگئی۔

    (پروفیسر اسلم پرویز (مرحوم) کی آپ بیتی ‘‘میری دلّی‘‘ سے انتخاب)

  • پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت میں متعدد اداکارائوں کو ”پری چہرہ‘‘ کا خطاب دیا گیا اور انھوں نے اپنے فنِ اداکاری ہی نہیں حسن و جمال کے سبب بھی لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ نسیم بانو بھی ایک ایسی ہی اداکارہ تھیں جنھوں نے فلم پکار میں ملکہ نور جہاں کا کردار نبھایا تھا۔

    نسیم بانو اپنے وقت کی معروف اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ اور لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی ساس تھیں۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نسیم بانو سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ان دنوں ایکٹرسوں میں ایک ایکٹرس نسیم بانو خاصی مشہور تھی۔ اس کی خوب صورتی کا بہت چرچا تھا۔ اشتہاروں میں اسے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہی اخبار میں اس کے کئی فوٹو دیکھے تھے۔ خوش شکل تھی، جوان تھی، خاص طور پر آنکھیں بڑی پُرکشش تھیں اور جب آنکھیں پرکشش ہوں تو سارا چہرہ پُرکشش بن جاتا ہے۔

    نسیم کے غالباً دو فلم تیار ہو چکے تھے جو سہراب مودی نے بنائے تھے، اور عوام میں کافی مقبول ہوئے تھے۔ یہ فلم میں نہیں دیکھ سکا، معلوم نہیں کیوں؟ عرصہ گزر گیا۔ اب منروا مودی ٹون کی طرف سے اس کے شان دار تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہورہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جارہی تھی اور سہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے تھے۔

    فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’’اسٹل‘‘ شائع ہوئے بڑے شان دار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُروقار دکھائی دیتی تھی۔

    ’’پکار‘‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو غیر فطری اور تھیٹری تھے، لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چوں کہ ایسا فلم اس سے پہلے نہیں بنا تھا، اس لیے سہراب مودی کا ’’پکار‘‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوا۔

    نسیم کی اداکاری کم زور تھی، لیکن اس کم زوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا، اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا، خیال ہے کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم غالباً دو تین فلموں میں پیش ہوئی، مگر یہ فلم کام یابی کے لحاظ سے’’پکار‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکے۔

    اس دوران میں نسیم کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ کبھی یہ سننے میں آتا تھا کہ سہراب مودی، نسیم بانو سے شادی کرنے والا ہے۔ کبھی اخباروں میں یہ خبر شائع ہوتی تھی کہ نظام حیدر آباد کے صاحب زادے معظم جاہ صاحب نسیم بانو پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے۔

    میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔

    اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔

    کہانی معمولی تھی، موسیقی کم زور تھی، ڈائریکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چناں چہ یہ فلم کام یاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا مگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔

    ایک دن ہم نے سنا کہ پری چہرہ نسیم نے مسٹر احسان سے دلّی میں شادی کرلی ہے اور یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کرے گی۔

    نسیم بانو کے پرستاروں کے لیے یہ خبر بڑی افسوس ناک تھی۔ اس کے حسن کا جلوہ کیوں کہ صرف ایک آدمی کے لیے وقف ہوگیا تھا۔

    نسیم بانو کو تین چار مرتبہ میک اپ کے بغیر دیکھا تو میں نے سوچا، آرائشِ محفل کے لیے اس سے بہتر عورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ جگہ، وہ کونا جہاں وہ بیٹھتی یا کھڑی ہوتی ایک دم سج جاتا۔

    لباس کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہے اور رنگ چننے کے معاملے میں جو سلیقہ اور قرینہ میں نے اس کے یہاں دیکھا ہے اور کہیں نہیں دیکھا۔ زرد رنگ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ زرد رنگ کے کپڑے آدمی کو اکثر زرد مریض بنا دیتے ہیں، مگر نسیم کچھ اس بے تکلفی سے یہ رنگ استعمال کرتی تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ نسیم کا محبوب لباس ساڑی ہے، غرارہ بھی پہنتی ہے، مگر گاہے گاہے۔

    نسیم کو میں نے بہت محنتی پایا۔ بڑی نازک سی عورت ہے، مگر سیٹ پر برابر ڈٹی رہتی تھی۔ ‘