Tag: اردو ادب

  • لومڑی کا صبر

    لومڑی کا صبر

    ایک سوداگر جو ایک قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا، اس کا پیشہ پوستین دوزی تھا۔ وہ گاؤں کے قصّابوں سے بھیڑ، گائے کی کھالیں خریدتا۔ انھیں رنگتا اور پھر پوستینیں بناتا اور بیچتا۔

    ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بھوکی لومڑی قلعے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑ کی کھال کی بُو اس کی ناک میں دَر آئی اور وہ خوراک کے لالچ میں قلعے کے نزدیک کی ایک بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوگئی، بُو سونگھتی سونگھتی پوستین دوز کی دکان تک جا پہنچی اور کھالوں کے سراغ میں مصروف ہوگئی۔ وہ کھالوں کی بُو سے سرشار اور خوش ہو گئی تھی۔

    اس نے چند کھالوں پر اپنے دانت صاف کیے اور ان سے کُچھ تکّے نوچ کھائے، بعض کھالوں کو جگہ جگہ سے پھاڑ ڈالا اور جب دیکھا کہ یہ تو صرف کھالیں ہیں اور ان میں گوشت نام کو نہیں تو جس راستے سے آئی تھی، اسی سے لوٹ گئی اور صحرا کی طرف بھاگ نکلی۔

    اگلی کئی راتوں تک اس کا یہی وتیرہ رہا۔ کھالوں کی بُو اور گوشت کے لالچ میں وہ بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی، سوداگر کی دکان کے اندر جاتی اور اُسی طرح کھالوں کو چیرتی پھاڑتی اور پھر لوٹ آتی۔

    بیچارہ سوداگر لومڑی کے پاؤں اور پنجوں کے نشان دیکھ کر حقیقتِ حال کو جان گیا تھا۔ لومڑی کے ہاتھوں اس کا ناک میں دَم آگیا تھا۔ اُس نے اپنے آپ سے کہا: بہتر ہے کہ میں کچھ راتیں بے خوابی میں گزاروں اور چالاک لومڑی کو اس کے کیے کا مزہ چکھاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    اسے معلوم تھا کہ قلعے کی دیواریں بہت بلند ہیں اور اس کے دروازے بھی رات کو بند ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کتّوں کے ڈر سے لومڑی دن کے وقت قلعے میں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر وہ یہ راز پا گیا کہ لومڑی بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی ہے۔

    ایک رات سوداگر نے اپنے اوپر نیند کو حرام کیا۔ وہ بدر رو کے سوراخ کے قریب گھات میں بیٹھ گیا۔ بیٹھا رہا، بیٹھا رہا حتّٰی کہ صبح ہونے سے کچھ پہلے لومڑی حسبِ معمول بدر رو کے رستے اندر آئی اور اس نے کھالوں کے ذخیرے کی جانب رخ کیا۔ سوداگر نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی اور اس تختے سے، جسے وہ ساتھ لیتا آیا تھا، بدر رو کا رستہ بند کردیا اور اس کے ساتھ مٹی کا پشتہ لگا کر اسے خوب مضبوط کر دیا۔ پھر اس نے لاٹھی ہاتھ میں لی اور لومڑی کے کھوج میں چل پڑا۔

    جب وہ اپنی دکان کے قریب پہنچا، لومڑی اپنے کام سے فارغ ہوکر واپس جارہی تھی۔
    جونہی لومڑی کی نگاہ اس شخص پر پڑی جو ہاتھ میں لاٹھی تھامے اس کے درپے تھا، اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ سوداگر بھی اس کے پیچھے تیزی سے دوڑا۔

    جب لومڑی بدر رو کے سوراخ کے نزدیک پہنچی تو اُسے بند پایا۔ اس نے چاہا کہ دروازے کے رستے بھاگ لے، مگر قلعے کا دروازہ بھی بند تھا۔ اسے خیال آیا کہ گلی کوچوں میں داخل ہوکر بھاگ نکلے، مگر کتّوں کی عَو عَو نے اسے خوف میں مبتلا کر دیا۔ ناچار اس نے سوچا کہ سوداگر کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس پر حملہ کرے۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتی، سوداگر نے لاٹھی سے اس کے سَر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ درد سے بے حال ہوکر زمین پر گر پڑی۔

    لومڑی نے بھانپ لیا تھا کہ اس کے فرار کے سارے رستے بند ہوچکے ہیں۔ اب اگر وہ زیادہ دوڑ دھوپ کرتی ہے تو یا تو وہ لاٹھیاں کھا کر ماری جائے گی یا اس شور غوغے سے کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور معاملہ اور بگڑ جائے گا، لہٰذا اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ یونہی بے حس و حرکت پڑی رہے، گویا مرچکی ہے۔

    جب سوداگر کو اندازہ ہوا کہ اس کی پہلی ضرب ہی کاری ثابت ہوئی اور اس نے لومڑی کو ادھ موا کردیا تو اس کے دل میں رحم آیا اور وہ خود سے کہنے لگا: بس کافی ہے۔ اگر وہ مرنے کے لائق تھی تو قریبِ مرگ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بھی وہ بہرحال تائب ہو جائے گی اور دوبارہ اس قلعے کے نزدیک نہیں پھٹکے گی۔

    جاتے جاتے اس نے اُسے پاؤں سے ایک ٹھوکر بھی لگائی، مگر اسے بے حس و حرکت پاکر اپنے گھر لوٹ آیا۔ اسی اثناء میں اندھیرا چھٹنے لگا تھا اور لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر آنا جانا شروع ہوگئے تھے۔

    بدفطرت لومڑی جس وقت زمین پر پڑی خود کو جھوٹ موٹ مردہ ظاہر کررہی تھی، اسے خیال آیا کہ قلعے کا دروازہ اور بدر رو کا رستہ تو بند ہے، اب اگر میں حرکت کرتی ہوں اور کوئی مجھے دیکھ لے تو داد فریاد شروع ہو جائے گی، کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور وہ میری تِکّہ بوٹی کر ڈالیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ میں اسی طرح مچلی بنی پڑی رہوں تاکہ دھوپ نکل آئے، قلعے کا دروازہ کھُل جائے اور میں فوراً اٹھوں اور فرار کر جاؤں۔

    آہستہ آہستہ فضا زیادہ روشن ہوتی گئی۔ لوگ آنے جانے لگے اور ان کی نگاہیں لومڑی پر پڑنے لگیں۔ ان میں سے ایک قریب آیا اور اسے مردہ سمجھ، ٹھوکر مار کر آگے بڑھ گیا۔ ایک اور شخص نے اسے دیکھا، بُرا بھلا کہا اور چل دیا۔ اُدھر سے کچھ بچّوں کا بھی گزر ہوا۔ انھوں نے لومڑی کی دُم پکڑ کر ادھر اُدھر کھینچنا شروع کر دی، بڑی عمر کے لوگوں نے ان کی سرزنش کی۔

    لومڑی یونہی چپکی پڑی رہی اور اس نے کسی قسم کا ردِّعمل ظاہر نہ کیا اور یہی سوچتی رہی کہ جب تک کتّے قلعے کے اندر ہیں اور جب تک دروازہ بند ہے، راہِ فرار کی کوئی صورت نہیں۔ سو صبر کرنا چاہیے کیوں کہ صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    رفتہ رفتہ کچھ بیکار اور آوارہ منش لوگ لومڑی کے گرد آن اکٹھے ہوئے اور لگے اس کے بارے میں باتیں کرنے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ کہاں سے آٹپکی اور یہاں موت سے کیسے دوچار ہوئی۔

    ایک بولا: اسے یقیناً کتّوں نے مارا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا: نہیں اگر کتّوں کی نگاہ اس پر پڑی ہوتی تو وہ اتنی آسانی سے اُسے چھوڑ نہ دیتے۔ اتنے میں ایک بوڑھا، جو دراصل قلعے کا دروازہ کھولنے پر مامور تھا، موقع پر آن پہنچا اور گویا ہوا: میں نے ایک فال گیر سے سنا ہے کہ اگر لومڑی کے بال آگ میں جلائے جائیں تو جادو ٹونے کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور لومڑی کے جسم سے تھوڑی سی پشم کاٹ کر کاغذ میں رکھ، جیب میں اُڑس لی اور قلعے کا دروازہ کھولنے چل دیا۔

    ایک اور شخص جو وہاں کھڑا تھا بولا: یہ فضول باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جادو ٹونا جھوٹ ہے اور اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ لومڑی کے بالوں کا سحر اور جادو سے کیا تعلق؟

    لومڑی کہ اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں سن رہی تھی، اپنے دل میں کہنے لگی: یہ جو کہتے ہیں کہتے رہیں، پروا نہ کر۔ بہتر ہے صبر کر اور جب بھیڑ چَھٹ جائے، فرار ہو جا۔ وہ بوڑھا جو میرے جسم کی تھوڑی سی پشم کاٹ لے گیا، توجہ کے قابل نہیں۔ اِس وقت صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اتنے میں ایک بڑھیا بھی موقعے پر آپہنچی۔ اس نے لوگوں کے ہجوم کو چیر کر اپنا راستہ بنایا اور کہنے لگی: میں نے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ لومڑی کا کان چشمِ بد سے محفوظ رہنے کے لیے اچھا ہے۔ اس نے بھی آگے بڑھ کر لومڑی کے کان کا ذرا سا حصہ کاٹا اور ساتھ لیے چل پڑی۔ لومڑی کو کان کے کٹنے سے بڑی تکلیف پہنچی اور اس کا دل چاہا کہ روئے پیٹے، مگر لوگوں کے ہجوم سے ڈر کر اس نے چُپ سادھے رکھی اور خود سے کہنے لگی: کان کے ذرا سے حصّے کے کٹ جانے کا کیا مضائقہ۔ جانے دے، بڑھیا بھی اس سے خوش ہوئی ہوگی۔ میرے لیے صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اس موقع پر ایک اور شخص وہاں آدھمکا۔ لومڑی کو دیکھا اور کہا: واہ واہ! میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس لومڑی کا دانت ہو تو کتّا اس پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ یہ کہا اور ایک پتھر سے لومڑی کا ایک دانت توڑا اور اپنے ساتھ لے کر چلتا بنا۔

    اب لومڑی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: کیسے احمق لوگ ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر میرے ایک دانت سے یہ معجزہ ممکن ہے تو پھر میں خود، جو منہ میں سولہ دانت رکھتی ہوں، کتّوں سے کیوں خوف کھاتی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں ایک دانت کے چلے جانے کا کیا غم۔ جلد بازی میں حرکت کرنا خطرناک ہے اور جب تک چھری میری ہڈیوں تک نہیں جاپہنچتی، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اسی اثنا میں قلعے سے باہر کا کوئی شخص گھومتا گھامتا وہاں آپہنچا۔ لومڑی کو دیکھا اور گویا ہوا: تعجب ہے، کیا یہ لومڑی مرچکی ہے؟ کتنا اچھا ہوا کہ میں یہاں چلا آیا۔ میرے شہر میں لوگ لومڑی کی دُم خریدتے ہیں اور اسے اپنے لباس پر مڑھ لیتے ہیں۔ بہت خوب، میں اس لومڑی کی دُم لے جاتا ہوں۔ یہ کہا اور چھری جیب سے نکالی کہ اس کی دُم کاٹ لے۔

    لومڑی نے دل میں کہا: میں کس مصیبت میں آن پھنسی ہوں۔ یہ لوگ جب تک میرے جسم کی بوٹی بوٹی نہ کرلیں گے، ٹلیں گے نہیں۔ جب تک معاملہ میری پشم تک تھا، میں نے پروا نہ کی، جب بات میرے کان کی ہورہی تھی، میں نے پروا نہ کی اور سست اور ساکت پڑی رہی، جب میرا دانت لے اُڑنے کے لیے سوچا جارہا تھا، میں نے جی کڑا کر کے صبر سے کام لیا مگر اب جب چھری میری ہڈیوں تک پہنچنے کو ہے، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بدتر ہے۔

    مجھے چاہیے کہ اٹھوں اور خود کو نجات دلاؤں۔ اگر میں اب بھی یہاں پھنسی رہی تو میرے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔ سو جونہی مذکورہ شخص چھری ہاتھ میں لیے نزدیک آیا، اچانک لومڑی نے جست لگائی اور لوگوں کے ٹانگوں اور پاؤں کے بیچ سے، جو اس کے اچانک حرکت کرنے سے وحشت زدہ ہوگئے تھے، نکلی اور قلعے سے فرار ہوگئی۔

    (فارسی ادب سے کہانی جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے کیا ہے)

  • احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    قمر رئیس نے اپنے مضمون ”افسانہ نگار ندیم“ میں لکھا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ (ندیم) گڑیا، آنندی، موذیل یا لاجونتی کے مرتبے کی کوئی کہانی نہیں لکھ سکا….“ (عالمی اردوادب 1996)

    مجھے نہیں معلوم کہ اس دعوے کا شافی جواب دیا گیا ہے یا نہیں تاہم اس نے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ قمر رئیس نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کی مختلف جہات کی طرف تاحال کسی بھی نقّاد نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی۔

    رئیس خانہ، کنجری، الحمدُللہ، پرمیشر سنگھ وغیرہ قاسمی صاحب کے وہ افسانے ہیں جو ان کے ادبی رجیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ادب کے حوالے سے ان کا یہ نقطہ نظر بالکل سامنے تھا کہ یہ اپنی داخلی جمالیات پر استوار ہوتا ہے۔ مصنّف کی فکری وابستگی کی حیثیت ثانوی ہے۔ ترقی پسند ہونے کے ناطے یہ ان کی فنی و فکری زندگی کا بڑا تضاد رہا ہے، تاہم جس طرح وہ اپنی سماجی زندگی میں دھیمے مزاج اور انسانوں کو اپنے آپ میں جذب کرنے والے رویّے کے حامل تھے، اسی طرح ادبی زندگی میں بھی وہ فکری شدت پسندی کی طرف مائل نہ ہوسکے۔

    اس حد تک تو ٹھیک تھا لیکن جب وہ ترقی پسند فکر کی نمائندگی کرنے آئے تو یہاں ان کے مزاج اور معروضی حقیقت کے درمیان موجود تضاد کے مابین صلح کرتے ہوئے وہ ادبی رجیم کے اْس سرے کو نہ تھام سکے، جو اعلا ترین فن پاروں کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قاسمی صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

    ”آپ کو میرے نظریۂ فن کی ایک ہی بنیاد نظر آئے گی اور وہ انسان دوستی، انسان کا احترام اور انسان کا وقار اور اس کی عظمت ہے۔“

    اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی سماجی زندگی میں انسان دوست شخصیت رہے ہیں اور ان کے ہاں انسان دوستی کا فلسفہ مغرب سے درآمد شدہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے اندر اپنی ثقافت سے گہری جڑت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ انسان دوستی کے اس جذبے کو انھوں نے فنی سطح پر برتنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ترقی پسند دوستوں سے ایک سطح پر خود کو ممتاز دیکھتے رہے۔ یہ ان کی زندگی کا بھی رومان تھا جو دیگر ترقی پسندوں سے مختلف تھا اور یہی رومان ان کے افسانوں میں بھی فنی سطح پر منتقل ہوتا رہا۔

    ان کے افسانے رومانیت پسندی اور سماجی حقیقت نگاری کے امتزاج سے ایسے فن پاروں میں منقلب ہوتے رہے جو پنجاب کی منفرد، بھرپور اور دل کش معاشرت کے اظہار کے ساتھ نمایاں تو تھے لیکن اپنے بنیادی موضوع میں منفرد اور متحرک آئیڈیا سے محرومی کا شکار ہوئے۔

    محمد حمید شاہد اپنے مضمون ”احمد ندیم قاسمی کا افسانہ: تخلیقی بنیادیں“ میں لکھتے ہیں: ”اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہوگا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔“

    قاسمی صاحب کے افسانوں کی ڈی کنسٹرکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان متون میں طبقاتی تضاد کا قضیہ ایک ایسے حاشیے کی صورت ملتا ہے جس کی ابھی پہچان ہی نہیں کرائی گئی ہے۔ وہ جب پنجاب کی دیہی معاشرت کو فسانوی رنگ دیتے ہیں تو ان کے سامنے صرف ادبی جمالیات کا بنیادی قضیہ ہوتا ہے جسے رو بہ عمل لانا وہ اسی طرح ضروری سمجھتے تھے جس طرح مارکسیوں کی سنگت میں وہ خدا اور رسول سے جڑت ضروری سمجھتے تھے۔ اس تضاد کی وجہ سے ادب میں وہ اس انتہا پر چلے گئے جہاں کہانی میں فکر کا سرا انھیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔

    ادب میں فکر سے عدم جڑت کی وجہ سے ان کے افسانے اسٹرائکنگ آئیڈیاز سے خالی رہ گئے۔ ”لارنس آف تھلیبیا“ میں دیہی زندگی کا بھرپور رومانس ملتا ہے جہاں زمیں داروں کا ظلم سہنا بھی رومانس سے خالی نہیں ہوتا۔ مزارع کی جوان لڑکی کی عزت لٹنا اور اس پر اس کا عجیب رد عمل سب کا سب ایک دیہی رومانس میں لپٹا ملتا ہے۔ قاسمی صاحب کے افسانوی کردار جب بطور فرد اپنی شناخت بناتے ہیں تو پس منظر میں تاریخی سماجی عمل نہیں بلکہ خالصتاً رومانیت پسندی کا اکھوا ملتا ہے۔

    ”رئیس خانہ“ کے، طبقاتی تضاد کے شکار کرداروں کے ساتھ ہونے والے عظیم فریب کو قاسمی صاحب کے افسانے میں دیکھتے ہوئے لطف آتا ہے۔ اسے طبقاتی تضاد کا اظہار کہنے کے لیے بھی اعلا قسم کی بے حسی چاہیے جسے فنی طور پر برتتے ہوئے ایسی لطافت سے ہم کنار کیا گیا ہے کہ اختتام پر من چلوں کا لطیفہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔

    افسانہ ”الحمدللہ“ کے مولوی اور چوہدری کے تعلق پر نگاہ دوڑائیں۔ مولوی ایک غیر پیداواری انسان ہے اور چوہدری انسانی جذبے اور عقیدت کے احساس سے لبریز۔ طرفہ تماشا یہ کہ غیر پیداواری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سماج پر دھڑا دھڑ بچوں کا بوجھ بھی لادتا جارہا ہے۔ اس افسانے کا جنم بھی کسی طبقاتی تضاد کے تصور سے نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک روایتی سماج کے روایتی کرداروں کا رومانوی سطح پر فنی اظہار ہے جس میں بلاشبہ کشش ہے۔

    کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور غلام عباس…احمد ندیم قاسمی کے ہم عصر تھے، لیکن بطور افسانہ نگار انھیں ان جیسی حیثیت نہیں ملی۔ کچھ لوگ اس کا اظہار بطور شکوہ کرتے ہیں اور کچھ بطور حیرت۔

    ہم سیاسی، ثقافتی اور ادبی طور پر مابعد جدید دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں ہماری حیثیت کیا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ جغرافیائی سطح پر مابعد نو گیارہ کا دور ہمارے لیے دراصل اسی مابعد جدیدیت کی متعین کردہ صورت حال ہے جو بذاتِ خود فلسفیانہ سطح پر ہر قسم کے تعینات کو مسترد کرتی ہے۔ مابعد نو گیارہ کی مشرقی دنیا میں ہمارے لیے بھی یہ واضح راہ نمائی سامنے آئی ہے کہ ہیرو ازم اور شخصیات کے پیچھے اصل سیاسی متون کو درست سمت میں سمجھنے کے بعد ہی اپنے لیے کوئی مفید اور درست لائحہ عمل ترتیب دیا جانا ممکن ہے۔ بہ صورت دیگر سماجی و ثقافتی متون کی، اندر سے شکستگی کے عمل کو روکا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ادبی متون کو بھی درست سمت میں سمجھنے کے لیے متن کو توجہ کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے۔

    قاسمی صاحب کے حوالے سے مندرجہ بالا شکوے یا حیرت نما سوال کا جواب ڈھونڈنا اس تناظر میں زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔

    ایک ایسے دور میں جب اردو افسانہ پوری طاقت کے ساتھ سماجی سطح پر مکالمہ کررہا تھا، ادب کی جمالیات اس مکالمے کی زیریں سطحوں میں روبہ عمل تھی، انسانی ثقافتوں کے گہرے متون کو پیرایہ اظہار بنایا جارہا تھا، احمد ندیم قاسمی نے اپنے لیے دیہی معاشرت کے حسن کو پیرایۂ اظہار کے طور پر منتخب کیا۔ بطور انسان انھیں اپنی اس دیہی معاشرت سے بہت پیار تھا اس لیے بطور مصنف بھی انھوں نے اس معاشرت کی بدصورتی کو قبول نہیں کیا اور اسے حسن کے ایک درجے پر استوار کرلیا۔

    اپنی بنیاد ہی میں انھوں نے زندگی کی جدلیاتی سطح ہموار کرکے رکھ دی اور طبقاتی تضاد کے کسی تصور کے ابھرنے کا راستہ ہی بند کردیا۔ ادب اگر فکر کی بنیاد پر نہ بھی لکھا جائے تب بھی اگر وہ کسی اوریجنل فکر کے عنصر سے پاک رہ جائے تو معاشرے میں اس کے سرایت کرنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

    قاسمی صاحب کے افسانے کا المیہ یہی ہے کہ یہ رومانیت پسند رجحان کے تعاقب میں اپنی اصل سے بچھڑ گیا۔ بقول انتظار حسین ”کرشن چندر نے اپنی حقیقت نگاری میں رومانیت کا چھینٹا دیا ہوا تھا“ لیکن وہ اپنی اصل سے جدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ سب ادب کے جمالیاتی پہلو کی اچھی سمجھ اور پرکھ رکھنے والے لوگ تھے۔

    حقیقت نگاری جب افسانے کی صورت میں ہوتی ہے تو یہ دل کشی سے خالی نہیں ہوتی۔ نہ ہی رومانیت کا چھینٹا لگنے سے حقیقت نگاری کی دل کشی ماند پڑتی ہے۔ قاسمی صاحب کے ہاں رومانیت پسندی کا رجحان اتنا غالب ہوگیا ہے کہ ان کا افسانہ نہ صرف فکر سے کٹ کر رہ گیا ہے بلکہ بنیادی خیال بھی اپنی طاقت سے محروم ہوا ہے۔

    مرکزی خیال کا کرشمہ دیکھیں۔ منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی لڑکی ہجرت کے وقت باپ سے بچھڑکر بلوائیوں اور مسلمان رضاکاروں کے ہاتھوں پامال ہوتے ہوتے اسپتال پہنچتی ہے تو وہاں اس کا کلائمکس ہوتا ہے۔ اس پر جو قیامتیں گزرتی ہیں، ان کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن ان قیامتوں نے اس کے معصوم دماغ پر ”کھول دو“ کے جو الفاظ مرتسم کردیے ہیں، اس کا نتیجہ دوسروں کے لیے قیامت خیز نکلتا ہے۔ منٹو اگر رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت اس افسانے کو لکھتے تو جلتے روم کے مناظر میں ہزار دل کشی پیدا کردیتے۔ لیکن مرکزی خیال کی یہ قیامت خیزی ان کے ہاتھوں سے لازماً چھوٹ جاتی۔

    اب قاسمی صاحب کا افسانہ ”الحمدُ للہ“ دیکھیں۔ مولوی ابل اپنی جوان ہوتی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے اس حد تک پریشان ہے کہ زبانی توکل تو اللہ پر کرتا ہے لیکن دل و دماغ میں چوہدری پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ بڑی بیٹی کی شادی کا اتنا بھاری بوجھ سر پر ہے کہ اٹھائے نہیں اٹھ رہا، اللہ پر حقیقی توکل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ لیکن قیامت جتنے اس بڑے امتحان سے وہ نہایت آسانی سے نکل آتا ہے اور پھر نواسے کی پیدایش پر کپڑے کھلونے وغیرہ لے جانے کی معمولی رسم اس کے لیے اتنی بڑی قیامت بن جاتی ہے کہ جوانی کی دہلیز پر پاؤں دھرتی دوسری بیٹیاں بھی ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور چوہدری جیسے واحد آسرے کی موت پر چند روپے ملنے کا یقین اسے ناقابلِ یقین حد تک کچھ دیر کے لیے خوشی سے دیوانہ کردیتا ہے۔

    قاسمی صاحب نے اس افسانے میں دیہی زندگی کی جزیات کو نہایت دل چسپ انداز میں بیان کیے ہیں لیکن مرکزی خیال کو زیب داستاں بناتے بناتے پلاٹ کمزور تعمیر کرلیا۔ افسانہ پڑھتے ہوئے بار بار محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بہت بڑا المیہ رونما ہونے والا ہے‘ لیکن قاسمی صاحب نے حقیقی زندگی کے حقیقی المیے رقم کرنا کبھی پسند نہیں کیا۔ وہ اگر کسی افسانے میں کسی حد تک المیہ رقم کرسکے ہیں تو وہ ہے ”کنجری۔“

    قاسمی صاحب کے بعض افسانوں کے مرکزی خیال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے یا تو اپنے دور کے آس پاس لکھے گئے موضوعات کو اپنے مخصوص ماحول اور انداز میں لکھا ہے جیسا کہ ”الحمد للہ“، اس خیال پر مبنی ایک ایرانی افسانہ لیل و نہار میں چھپا تھا۔ ”فقیر سائیں کی کرامات“ ایک دیہی حکایت پر مبنی ہے۔

    ”لارنس آف تھلیبیا“ کا موضوع بھی اسی دور کا مرغوب موضوع ہے، یعنی مزارع کے گھر کی عزت بھی جاگیردار کی ملکیت میں شامل ہوتی ہے۔ رئیس خانہ اپنے مرکزی خیال میں من چلوں کا لطیفہ بن گیا ہے کہ ایک افسر ایک غریب عورت کی عزت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کئی عورتوں کے ساتھ رات گزار کر اپنی پارسائی کا ڈھونگ رچاتا ہے اور آخر کار اس عورت کو اپنی خلوت گاہ تک لے آتا ہے۔ ”ہٰذا من فضل ربّی“ کا مرکزی خیال متمول مرد و خواتین کا بہ یک وقت کئی کئی پارٹنرز کے ساتھ گلچھرے الڑانے پر مبنی ہے لیکن اس میں بھی قاسمی صاحب کا مخصوص دل چسپ انداز ملتا ہے اور اختتام پر افسانہ ایک لطیفے جیسا لطف دیتا ہے۔

    ”کنجری“ میں پیشہ کرنے والی عورت کی بیٹی کا المیہ رقم ہے جو اس دور میں بھی کوئی نیا چونکادینے والا خیال نہیں تھا۔ اس موضوع پر بہت اور اچھا لکھا جارہا تھا۔ قاسمی صاحب نے اس کے المیاتی اختتام کو تحلیل تو نہیں کیا ہے۔ تاہم باقی سارا فسانہ انھوں نے رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت بُنا ہے حتیٰ کہ اختتام پر باپ کے مکروہ کردار کی کراہت بھی زائل کردی ہے۔

    ”گنڈاسا“ میں مرکزی کردار اپنے دشمن کو اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس کو پسند آنے والی لڑکی کا منگیتر ہے۔ بین میں مزار پر شاہ جی کے ہاتھوں عزت سے جانے والی کنواری لڑکی کا فسانہ ہے جو خود کلامی کے انداز میں لکھا گیا ہے اور ممکن ہے یہ اس وقت کا ایک اچھا تجربہ رہا ہو۔

    ”پرمیشر سنگھ“ تقسیم کے موضوع پر ان کا بہت مشہور افسانہ ہے۔ اس میں بھی انھوں نے المیے کو المیہ نہیں رہنے دیا ہے بلکہ رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت انسان دوستی کے احساس کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سکھ جس سے اس کا بیٹا کھو گیا ہے، کے ہاتھ ایک مسلمان لڑکا لگتا ہے۔ وہ اسے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا ہے۔ لیکن پھر اسے پاکستانی سرحد پر چھوڑنے آتا ہے اور فوجی کی گولی سے زخمی ہوجاتا ہے۔

    معلوم یہی ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب نے آئیڈیاز کی شدت کو رومانیت پسندی کی تہہ چڑھا کر ہمیشہ کم کیا ہے جس کے سبب ان کے افسانے اس زمانے میں لکھے جانے والے افسانوں کی سطح کو کبھی چھو نہیں پائے، نہ ہی انھیں ویسی مقبولیت ملی۔ منٹو جب تقسیم کے المیے پر انسانی جذبے کو موضوع بناتا ہے تو ”موذیل“ جیسا شاہ کار جنم لیتا ہے۔ غلام عباس جب پیشہ ور عورتوں کو موضوع بناتا ہے تو ”آنندی“ جیسا لازوال افسانہ جنم لیتا ہے۔ تقسیم ہی کے المیے پر بیدی ”لاجونتی“ جیسے آئیڈیا کو افسانوی کینوس پر لاتا ہے تو یادگار بن جاتا ہے۔ یہ آئیڈیاز اور آئیڈیاز کے بطن میں موجود یہ شدت قاسمی صاحب کے ہاں مفقود ہے۔

  • نوعمر ترقّی پسندوں کے چار مشغلے

    نوعمر ترقّی پسندوں کے چار مشغلے

    جب میں 1938ء میں دہلی سے لکھنؤ آیا تو مجاز وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ان کے والد نے ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد لکھنؤ میں گھر بنایا تھا، مجاز کے چھوٹے بھائی انصار ہاروانی جو اب پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، نیشنل ہیرالڈ میں کام کرتے تھے، وہاں کئی اور بھی احباب تھے، انور جمال قدوائی، سبط حسن، فرحت اللہ انصاری، علی جواد زیدی وغیرہ۔ حیات اللہ انصاری ہفتہ وار ہندوستان کے ایڈیٹر تھے۔ یش پال ہندی اور اردو میں الگ الگ اپنا رسالہ وپلو شائع کرتے تھے۔

    روز بروز ترقی پسندوں کا حلقہ وسیع ہوتا جاتا تھا۔ ڈاکٹر علیم اور احمد علی لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ڈاکٹر رشید جہاں جنہیں ہم سب پیار سے رشید آپا کہتے تھے، ڈاکٹری کرتی تھیں، افسانے لکھتی تھیں، اور تمام نوعمر ادیبوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتی تھیں۔

    کبھی کبھی الٰہ آباد سے سجاد ظہیر، ڈاکٹر اشرف اور ڈاکٹر احمد آ جاتے تھے، جو پنڈت نہرو کی سرپرستی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے آفس میں کام کر رہے تھے۔ کان پور میں دو ایک انگریز ترقی پسند پروفیسر تھے۔ وہ بھی لکھنؤ کے چکّر لگاتے رہتے تھے۔
    اسی سال ڈاکٹر ملک راج آنند ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے (جس کا افتتاح ٹیگور نے کیا) انگلستان سے آئے تھے، ان کی زبان پر اسپین کا ذکر تھا، جس کے انقلابی کارنامے پہلے ہی ہم تک پہنچ چکے تھے۔

    لاپشناریا اور لور کے نام فضاؤں میں گونج رہے تھے، ایک سال بعد 1939ء میں جذبی بھی لکھنؤ آئے اور جوش ملیح آبادی بھی۔ ان کا رسالہ ’’کلیم‘‘ اب نیا ادب میں ضم ہو گیا اور وہ ایک طرح سے ہمارے ادبی سرپرست بن گئے۔ (اسی زمانے میں سکندر علی وجد بھی لکھنؤ آ گئے۔ وہ نظام سرکار کا سول سروس کا امتحان دے کر ٹریننگ لینے لکھنؤ آئے تھے۔ اس لیے آوارہ گردوں اور چاک گریبانوں میں شامل ہوئے، ویسے جذباتی طور سے وہ بھی ہمارے قریب تھے۔)

    نوعمر ترقّی پسندوں کی ٹولی عجیب و غریب زندگی بسر کر رہی تھی۔ کچھ تو ابھی تک کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے لیکن سارے ہندوستان میں مشہور ہو چکے تھے، کچھ ابھی ابھی تعلیم سے فارغ ہوئے تھے۔ ہمارے چار مشغلے تھے۔ تعلیم، ادب، سیاست اور آوارہ گردی۔ اس اعتبار سے ہم مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر پائے جاتے تھے۔

    ایک سرے پر فرنگی محل تھا، جس کے روشن خیال اور خوش اخلاق علما کے ساتھ نہایت ادب سے انتہائی بے باک بحثیں کی جاتی تھیں، اور دوسرے سرے پر ریڈیو کی مشہور گانے والی گوہر سلطان کا وہ گھر تھا جسے ہم خرابات کہتے تھے۔

    ان دونوں سروں کے درمیان نیشنل ہیرالڈ، پانیر، ہندوستان، وپلو اور نیا ادب کے دفاتر، یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ حبیب اللہ صاحب کا گھر، پروفیسر ڈی پی مکھر جی کا کتب خانہ، وائی، ڈبلو، سی، اے کا خوب صورت ہال جہاں مایا سرکار شمعِ محفل ہوا کرتی تھیں۔ یونیورسٹی کی لڑکیوں کا کیلاش ہاسٹل جہاں ہرسال ہولی کھیلنے پر جرمانہ ہوتا تھا اور نہ جانے کتنے کافی ہاؤس، ریستوراں اور مے خانے تھے اور یہ ساری گزرگاہیں کوچہ پار سے ہوتی ہوئی زندانوں کی طرف جارہی تھیں، جن کی دیواروں کے پیچھے آزادی کی خوب صورت صبح کا اجالا دھندلا دھندلا نظر آ رہا تھا اور اس کی دل فریبی ہماری نگاہوں کو دعوتِ نظّارہ دے رہی تھی۔

    (ہندوستان پر انگریز راج سے بیزار، آزادی اور انقلاب کا خواب دیکھنے والے ہم مجلس نوجوان ادبا اور شعرا کے بارے میں ترقی پسند شاعر اور نقّاد علی سردار جعفری کے مضمون ” لکھنؤ کی پانچ راتیں” سے اقتباس)

  • مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    22 مارچ 1982ء کو اردو کے نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسانیات احسان دانش وفات پاگئے تھے۔ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں کو جھیلتے، کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے احسان دانش نے شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ نام و مرتبہ پایا جو بہت کم شعرا کو نصیب ہوتا ہے۔

    قاضی احسان الحق نام اور احسان تخلص تھا۔ وہ 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش میں لاہور آگئے تھے اور یہیں عمر تمام کی۔ انھوں نے ہر قسم کی نوکری اور وہ کام کیا جس سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے۔ وہ کسی دفتر میں چپڑاسی رہے، اور کہیں‌ مالی کا کام سنبھالا تو کبھی بوجھ ڈھو کر اجرت پائی۔ اسی محنت اور مشقّت کے ساتھ شاعری کا سفر بھی جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ مزدور شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    احسان دانش شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی کئی غزلیں، نظمیں مشہور ہیں جو ان کے کمالِ فن اور تخلیقی شعور کا نتیجہ ہیں۔ احسان دانش کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

    لسانیات کا موضوع بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور زبان و بیان پر ان کے عبور کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں علمی اور ادبی خدمات انجام دینے پر ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں

    آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
    عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

    احسان دانش کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
    اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

  • موٹر سائیکل والا….

    موٹر سائیکل والا….

    ایک آدھ دفعہ خیال آیا کہ بسوں میں دھکے کھانے اور اسٹرپ ٹیز کروانے سے تو بہتر ہے کہ آدمی موٹر سائیکل خرید لے۔ موٹر سائیکل رکشا کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے کہ تین پہیوں پر خود کشی کا یہ سہل اور شرطیہ طریقہ ابھی رائج نہیں ہوا تھا۔

    اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔

    علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق، تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی۔ جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو کو ملتے تھے۔

    چناں چہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔

    موٹر سائیکل میں بشارت کو سب سے بڑی قباحت یہ نظر آئی کہ موٹر سائیکل والا سڑک کے کسی بھی حصے پر موٹر سائیکل چلائے، محسوس یہی ہو گا کہ وہ غلط جا رہا ہے۔ ٹریفک کے حادثات کے اعداد و شمار پر ریسرچ کرنے کے بعد ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل چلانے والے کا نارمل مقام ٹرک اور منی بس کے نیچے ہے۔

    دوسری مصیبت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو پانچ سال سے کراچی میں موٹر سائیکل چلا رہا ہو اور کسی حادثے میں ہڈی پسلی نہ تڑوا چکا ہو۔ مگر ٹھہریے۔ خوب یاد آیا۔ ایک شخص بے شک ایسا ملا جو سات سال سے کراچی میں بغیر ایکسیڈنٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ مگر وہ صرف موت کے کنویں ( Well Of Death) میں چلاتا تھا۔

    تیسری قباحت اُنہیں یہ نظر آئی کہ مین ہول بناتے وقت کراچی میونسپل کارپوریشن دو باتوں کا ضرور لحاظ رکھتی ہے۔ اوّل یہ کہ وہ ہمیشہ کھلے رہیں تاکہ ڈھکنا دیکھ کر چوروں اور اُچکوں کو خواہ مخواہ یہ تجّس نہ ہو کہ نہ جانے اندر کیا ہے۔ دوم، دہانہ اتنا چوڑا ہو کہ موٹر سائیکل چلانے والا اس میں اندر تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلا جائے۔ آسانی کے ساتھ۔ تیز رفتاری کے ساتھ۔ پیچھے بیٹھی سواری کے ساتھ۔

    (ممتاز ادیب اور نام وَر مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • انور چاچا کی وفاداری

    انور چاچا کی وفاداری

    یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزی کپڑوں اور انگریزی زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اس زمانے میں ہر ایسا آدمی جو حکومت سے کچھ فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا، اپنے لباس اور بول چال میں انگریزوں جیسا بننے کی کوشش کرتا۔

    بہت سے لوگ ایسے تھے، جن کے پاس کھیتی باڑی کے لیے بڑی بڑی زمینیں تھیں۔ بہت سے آدمیوں کی شہروں میں جائیدادیں تھیں۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی تو کوئی فکر ہوتی نہیں تھی کہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے روپیہ کہاں سے کمائیں۔ ان کے پاس تو جائیداد کا کرایہ آ جاتا یا پھر کھیتوں سے پیسہ اور اناج گھر پہنچ جاتا۔ ایسے بڑے آدمی آرام سے زندگی گزارتے تھے۔ انھی میں سے کچھ ایسے تھے، جنھوں نے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ یہ لوگ خود کو انگریزوں کا وفادار ثابت کرنے کے لیے بالکل ہی انگریزوں کی نقل کرنے لگتے۔

    انگریزوں کے دورِ حکومت میں جہاں بہت سے ایسے زمین دار موجود تھے، جو انگریزوں سے وفاداری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے، وہیں ایسے بھی بہت سے لوگ تھے جو انگریزوں سے نفرت کرتے تھے۔

    وفادار قسم کے زمین دار بالکل انگریزوں ہی کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے انگریزوں سے نفرت کرنے والوں کو برا بھلا کہتے رہتے، ان لوگوں کی یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ انگریز ان کی وفاداری کے بدلے انھیں کوئی خطاب دے دیں۔ ایسے بہت سے آدمیوں کی یہ خواہش پوری بھی ہو گئی۔ ان میں سے کوئی خان صاحب ہو گیا، کوئی خان بہادر اور کوئی رائے صاحب بن گیا۔

    انور چاچا بھی دراصل ایسے ہی لوگوں میں سے تھے، جن کے سر پر انگریزوں سے وفاداری کا بھوت سوار تھا۔ اتفاق سے انور چاچا نے تھوڑی بہت تعلیم بھی حاصل کر لی تھی۔ تھوڑی بہت تعلیم سے یہ مقصد تھا کہ میٹرک کے امتحان میں پانچ چھے بار شرکت کر چکے تھے۔

    انور چاچا کے والد چوں کہ بہت بڑے زمیں دار تھے اور انور چاچا ان کے اکلوتے بیٹے تھے، اس لیے لاڈلے ہونے کی وجہ سے امتحان میں کام یاب ہونے کی تکلیف ان سے برداشت نہ ہو سکی۔ ممتحن کی اس نالائقی پر انور چاچا کو اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے مزید پڑھنے لکھنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور اپنی زمین کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ اب ان کا کام ہر چھوٹے بڑے کو گھرکنا اور نصیحتیں کرنا رہ گیا تھا۔ شاید اسی کی وجہ سے سارا شہر انھیں انور چاچا پکارنے لگا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور تھی کہ جب لوگ انھیں چاچا کہہ کر پکارتے تو ان کی گردن کچھ اور اکڑ جاتی۔

    ابھی انور چاچا کو اپنی زمینوں پر پہنچے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ پہلی جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ ہندوستان میں بھی فوجیوں کے لیے بھرتی شروع ہوئی۔ ہندوستان کے بڑے زمیں داروں اور جاگیرداروں نے دل کھول کر انگریزوں کی مدد کی اور اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کے والد بھی تو آخر زمیں دار ہی تھے، انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کا فوج میں عہدہ کیا تھا اور فوج کی ملازمت انھوں نے کس طرح حاصل کی، اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ البتہ انور چاچا کے والد اپنے بیٹے کو ہمیشہ کپتان ہی کہتے تھے۔ یہ دوسری بات تھی کہ شہر والوں کو اس پر یقین کبھی نہیں آیا۔

    جنگ ختم ہوئی تو انور چاچا بھی واپس آ گئے، لیکن اتنے دن فوج میں رہنے کی وجہ سے بالکل ہی بدل چکے تھے۔ داڑھی مونچھیں بالکل صاف تھیں۔ فوج سے واپسی کے بعد شہر کے کسی آدمی نے انور چاچا کو کبھی پاجامے اور کرتے میں نہیں دیکھا، کیوں کہ انور چاچا ہر وقت سوٹ پہنے رہتے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چاچا کو انگریزی کپڑوں کا اتنا شوق ہے کہ سوتے وقت بھی ٹائی باندھ کر سوتے ہوں گے۔ بہرحال فوج سے واپسی کے کچھ ہی دن بعد انور چاچا کی شادی بھی ہو گئی۔ انھوں نے اپنی بیوی یعنی چاچی کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا۔

    اسی طرح کچھ دن گزر گئے۔ انور چاچا کے والد بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ اب تو انور چاچا کے عیش تھے۔ کھیتوں پر کاشت کار کھیتی باڑی کرتے اور چاچا اپنے گھر پر آرام کرتے۔ البتہ ان کے ہاں آئے دن انگریز افسروں کی دعوتیں ضرور ہوتی رہتیں۔

    انور چاچا کا گھر خاصا بڑا تھا۔ کئی کمرے خالی پڑے رہتے تھے۔ گھر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان بھی تھا۔ یہ زمین بھی انور چاچا ہی کی تھی۔ کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے اکثر انگریز افسر چھٹیاں گزارنے ان کے گھر چلے آتے، ان کے گھر میں جو بے شمار کمرے خالی پڑے رہتے تھے، ان میں انگریز افسروں کی رہائش کا انتظام بھی آسانی سے ہو جاتا تھا۔ پھر چاچا کی طرف سے مدارات کا جو سلسلہ شروع ہوتا تو آخری دن تک جاری رہتا۔ اس طرح انگریز افسروں کے چھٹیوں کے زمانے میں پیسے بھی بچ جاتے۔ اس کے علاوہ جس شہر میں انور چاچا کا مکان تھا، اس کی آب و ہوا بھی بہت اچھی تھی۔

    ایک مرتبہ ایک انگریز افسر چاچا کا مہمان تھا۔ اس افسر نے چاچا کے مکان کے سامنے بہت بڑا میدان جو دیکھا تو ایک دن کھانے کے بعد اس نے چاچا کو مشورہ دیا کہ اس میدان میں ایک چھوٹا سا خوب صورت باغ لگوا دیا جائے۔ اس نے چاچا کو یہ بھی بتایا کہ خود اسے باغ بانی کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق ایسا ہے جو ہر بڑے آدمی کو ہوتا ہے۔ اس انگریز افسر کو غالباً باغ بانی سے بہت زیادہ دل چسپی تھی، اس لیے اس نے بہت سے بڑے بڑے انگریزوں کی مثالیں بھی دیں، جنھیں باغ بانی کا شوق تھا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس آدمی کو باغ بانی کا شوق نہ ہو اسے تو بڑا آدمی کہا ہی نہیں جا سکتا۔

    انگریز افسر کی بات انور چاچا کے دل میں اتر گئی اور انھوں نے فوراً ہی بڑا آدمی بننے کا فیصلہ کر لیا، بس پھر کیا تھا، دوسرے ہی دن میدان کے چاروں طرف احاطے کی دیوار بننا شروع ہو گئی، یہ چہار دیواری اس طرح بنائی گئی کہ پورا میدان انور چاچا کے مکان کا احاطہ بن گیا، لیکن اب باغ لگانے کا مسئلہ پیدا ہوا۔

    انور چاچا نے تو زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ وہ بھلا باغ بانی جیسا سخت کام کیسے کرتے؟ بہرحال یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو گیا۔ چاچا نے قریب کے شہر سے ایک تربیت یافتہ مالی کو بلا لیا۔ وہ مالی تو بے چارہ دیہات کا رہنے والا تھا، لیکن انور چاچا نے اسے بھی زبردستی پتلون پہنا دی۔ دیہاتی زبان میں بات چیت کرنے والا غریب مالی جب انور چاچا کی دلائی ہوئی پتلون پہن کر اپنی دیہاتی زبان میں بات چیت کرتا تو بڑا عجیب سا لگتا، لیکن چاچا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور اکثر کہا کرتے: "میں نے تو اپنے مالی کو بھی انگریز بنا کر رکھا ہے۔”

    مالی نے باغ لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پودا ضرور لگاتا، نئی کیاریاں بناتا، پرانی کیاریوں کی صفائی کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاچا کے باغ میں پھولوں کے بہت سے پودے نظر آنے لگے۔ ان میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے۔ بعض پھلوں کے پودے بھی تھے، لیکن ان میں ابھی پھل نہیں آئے تھے۔ چاچا بھی اپنا زیادہ وقت اپنے باغ ہی میں گزارتے تھے، لیکن ان کا کام صرف یہ تھا کہ کبھی کسی پودے کے پاس کھڑے ہو جائیں، کبھی کسی پھول کو ہاتھ میں لے کر دیکھیں۔ کبھی کوئی پھول مرجھاتا ہوا دکھائی دیتا تو فوراً مالی کو آواز دیتے: "آگسٹس! آگسٹس!”

    اصل میں مالی کا نام گھسیٹا خان تھا، لیکن چاچا نے مالی کو انگریز بنانے کی خاطر اس کا نام گھسیٹا خان کے بجائے آگسٹس خین رکھ دیا تھا۔

    چاچا کا باغ لگ گیا تو ان کے یہاں دعوتوں کا سلسلہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ دعوت پر آنے والے انگریز افسروں کی تعداد بڑھ گی۔ کچھ ایسے انگریز افسروں نے جو چاچا کے زیادہ گہرے دوست بن گئے تھے، ایک آدھ بار خود بھی کیاریوں کی صفائی وغیرہ کی تو چاچا کو خیال آیا کہ صرف مالی رکھ کر باغ لگوانا ہی بڑا آدمی بننے کے لیے کافی نہیں۔ مجھے خود بھی باغ بانی کرنی چاہیے۔

    اس خیال کے آتے ہی انھوں نے باغ بانی کے لیے خاص قسم کے جوتے خریدے، تاکہ ان کی پتلون کے پائنچے مٹی میں خراب نہ ہونے پائیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ زمین کس طرح بنائی جاتی ہے اور بیج کس طرح لگائے جاتے ہیں۔ یہ تو چاچا کو معلوم ہی نہیں تھا، اس لیے اکثر یہ ہوتا کہ چاچا کہیں بیج بوتے وہاں کوئی پودا نہ اگتا۔ کبھی کبھی چاچا گھسیٹا خاں عرف آگسٹس خین کی بنائی ہوئی کیاری تباہ کر دیتے۔ بیچارہ دیہاتی گھسیٹا خان انگریزی کپڑے پہن کر آگسٹس خین بنے رہنے سے یوں بھی اکتایا ہوا تھا، اس لیے چاچا سے چڑچڑانے لگتا، لیکن آدمی محنتی تھا، اس لیے چاچا اس کے چڑچڑے پن کو برداشت کر لیتے کہ کہیں آگسٹس خین ناراض ہو کر نوکری نہ چھوڑ دیں اور ان کا باغ ویران نہ ہو جائے۔

    ایک دن چاچا کو خیال آیا کہ اتنے سارے انگریز افسر ان کے دوست ہیں، لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک برطانیہ کی حکومت نے کوئی خطاب نہیں دیا، حالاں کہ وہ فوج میں بھی رہ چکے ہیں اور انگریز حکومت کے وفادار بھی ہیں۔ آخر انہوں نے اس سلسلے میں اپنے انگریز افسر دوستوں سے بھی مشورہ کیا۔ ان میں سے ایک افسر نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے باغ میں کوئی ایسا پھل پیدا کریں جو اپنی مثال آپ ہو یا ایسا پھل ہو جو اس شہر میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں افسروں اور وائسرائے کے نمائندے کے سامنے پیش کریں تو انھیں بھی خطاب مل جائے گا۔

    یہ مشورہ انور چاچا کو پسند آیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان میں انگریز حکومت کی طرف سے وائسرائے ہی سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے۔ اگر اس کے نمائندے کو میرے باغ کا پھل پسند آ گیا تو مجھے ضرور خطاب مل جائے گا۔

    انور چاچا جس شہر میں رہتے تھے، اس کی آب و ہوا میں یوں تو بہت سے پھل پیدا ہو سکتے تھے، لیکن خربوزہ بالکل پیدا نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے باغ میں خربوزہ ہی پیدا کرنا چاہیے۔ انھوں نے آگسٹس پر اپنا یہ خیال ظاہر کیا تو اس نے خربوزے پر محنت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس شہر میں خربوزہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا، لیکن چاچا کے سر میں تو خربوزے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ آگسٹس راضی نہیں ہوتا تو کیا ہوا۔ میں خود ہی خربوزہ اگانے کی کوشش کروں گا۔ چناں چہ انھوں نے پہلے تو دہلی خط لکھ کر ایک کتاب منگوائی، جس میں خربوزے پیدا کرنے کے طریقے اور اس کی کاشت کے ضروری قاعدے لکھے ہوئے تھے۔ اس کتاب میں ایک ترکیب ایسی تھی، جس پر عمل کر کے خربوزے پیدا کرنے کے لیے کھلی جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ مکان کے اندر بھی گملے میں خربوزہ اگایا جا سکتا تھا۔

    چاچا نے اسی ترکیب پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر کے اندر ہی ایک گملے میں کتاب دیکھ دیکھ کر خربوزے کے بیج لگائے۔ پھر وہ ہر روز صبح اٹھ کر کتاب میں لکھی ہوئی ترکیب کے مطابق اس میں پانی ڈالتے اور ہر پندرہ دن کے بعد کھاد بھی ڈالتے۔

    خربوزے کے ننھے سے پودے کی خدمت کرتے ہوئے انھیں کافی دن ہو گئے۔ اب یہ خربوزے کا ننھا سا پودا بڑھ کر بیل کی شکل اختیار کر گیا۔ چاچا نے اب اس کی دیکھ بھال میں بھی اضافہ کر دیا۔ گھر میں تو انھیں پہلے بھی کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اب تو انھوں نے خود کو بالکل ہی خربوزے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ کچھ دن بعد اس بیل میں ایک ننھا منا سا خربوزہ نظر آیا۔ اب تو چاچا کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ چاچا نے اب پندرہ دن کے بجائے ہر ہفتے خربوزے کی بیل میں کھاد ڈالنا شروع کر دیا۔ اسی طرح چھے مہینے گزر گئے۔

    اب خربوزہ بہت بڑا ہو چکا تھا۔ جو بھی یہ خربوزہ دیکھتا حیرت میں رہ جاتا، کیوں کہ وہ عام خربوزوں سے کئی گنا بڑا تھا۔ بالکل ایک چھوٹی میز کے برابر۔ ابھی اس کا رنگ بالکل ہرا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ابھی اور بڑھے گا۔ خربوزہ دیکھ کر لوگ یہ سوچتے کہ یہ خربوزہ نجانے پکنے کے بعد کتنا بڑا ہوگا۔

    جب چاچا انھیں بتاتے کہ وہ یہ خربوزہ سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں رکھیں گے تو لوگ سوچنے لگے کہ اس وقت تک تو یہ خربوزہ بہت ہی بڑا ہو چکا ہوگا، کیوں کہ ابھی نمائش میں پورے چھ مہینے باقی تھے۔

    دن اسی طرح گزرتے رہے اور خربوزہ بڑا ہوتا رہا۔ اتنا بڑا کہ اب اسے ایک یا دو آدمی بھی مل کر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ پھر جب نمائش کا وقت آیا تھا یہ خربوزہ ایک چھوٹے کمرے کے برابر ہو چکا تھا۔ اونچا بھی اتنا ہی تھا کہ خربوزے کے اوپر کا حصہ دیکھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت پیش آتی۔

    خدا خدا کر کے نمائش کا دن آیا تو چاچا نے سیڑھی لگا کر خربوزے کو بیل سے کاٹ کر الگ کیا پھر ایک بڑی بیل گاڑی کا انتظام کیا، جس میں خربوزے کو نمائش تک پہنچایا گیا۔ نمائش شروع ہوئی تو ہر طرف چاچا کے خربوزے کا ہی ذکر تھا۔

    بہت سے انگریز افسر نمائش دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ چاچا ایک عمدہ سی سوٹ پہنے اپنے خربوزے کے پاس کھڑے تھے۔ نمائش میں ہمیشہ کی طرح وائسرائے کے نمائندے نے بھی شرکت کی تھی۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نمائش دیکھنے آیا تھا۔

    نمائش دیکھتے دیکھتے جب وہ چاچا کے خربوزے کے پاس پہونچا تو چاچا نے فوراً سیڑھی لگائی اور قصائی والے ایک چھرے سے خربوزے کی بڑی سی قاش کاٹی۔ یہ قاش اتنی بڑی تھی کہ چاچا کو اسے دونوں ہاتھوں سے سنبھالنا پڑا۔ وائسرائے کا نمائندہ اس قاش کو بڑی حیرت سے دیکھتا رہا۔ بہرحال اس نے وائسرائے سے چاچا کی باغ بانی اور خربوزے کاشت کرنے میں چاچا کی مہارت کی بڑی تعریف کی، جس کے نتیجے میں کچھ دن کے بعد چاچا کو انگریز حکومت نے ایک خطاب اور خربوزے اگانے کے متعلق ایک سند بھی دی۔

    مصنّف: نامعلوم

  • جمالیات: فطرت کے جلال و جمال، فلسفے اور فنونِ لطیفہ تک

    جمالیات: فطرت کے جلال و جمال، فلسفے اور فنونِ لطیفہ تک

    جمالیات کی ایک بڑی تاریخ ہے۔ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے جانے کتنے تصوّرات پیدا ہوئے ہیں، تصورات تبدیل ہوئے ہیں، مختلف تصوّرات میں مفاہیم کی نئی جہتیں پیدا ہوئی ہیں، خود جمالیات نے جانے کتنی اصطلاحوں کو خلق کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    جب ایسی صورت ہے تو ظاہر ہے جمالیات کے اندر سے پھوٹے ہوئے سوالات میں بھی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیات کی کوئی ایک تعریف نہیں ہو سکتی، اس کی مختلف تشریحوں سے اس کے ایک سے زیادہ پہلوؤں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ معنیٰ خیز ادبی اور فنی اصطلاحوں کا حسن تو یہی ہے۔ بعض ادبی اور فنی اصطلاحیں غالبؔ کی اصطلاح میں ’چراغاں‘ کی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں اور جانے کتنے مناظر کے ساتھ ’تماشا‘ بن جاتی ہیں۔

    یونانی فلسفیوں خصوصاً فیثا غورث وغیرہ نے جمالیات کو فلسفے کا ایک پہلو قرار دیا تھا۔ ارسطو نے اسے حسن، حسن کی فطرت و ماہیت اور فنونِ لطیفہ سے قریب تر کیا اور فن کارانہ تجربے کو جمالیاتی تجربہ سمجھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس منزل سے جمالیات کے باطن سے ایسے سوالات پھوٹنے اور ابھرنے لگے کہ جن کا تعلق حسن، حسن کی ماہیت اور تخلیقی عمل اور فنونِ لطیفہ کے جوہر سے تھا، حالاں کہ اس سے قبل سقراط نے اسے صرف اخلاقیات سے وابستہ کر رکھا تھا اور افلاطون نے اپنی ’ری پبلک‘ کے اچھے شہریوں کے لیے اسے علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا تھا۔

    لیونارڈ نے فطرت کے جلال و جمال اور فنون کے رشتوں کو سمجھنے کے لیے جمالیات کا سہارا لیا، بوآئیلو (Boileau) نے تخلیقی فن کے معیار کے لیے ’جمالیت‘ کو عزیز جانا، بام گارٹن (Baumgarten) نے آرٹ کے ذریعہ دنیا کے حسن کو پانے اور فن کار اور حیات و کائنات کے حسی رشتوں کو سمجھنے میں اس کی مدد لی۔

    ہیگل نے اسے زندگی اور آرٹ کے حسن کو سمجھنے کا ذریعہ جانا اور کائنات کی روح کے عمل اور تخلیقی آرٹ کی جگہ تلاش کرتے ہوئے جمالیات کو بڑا ذریعہ سمجھا۔ نووالس (Novalis) نے رومانیت کی قدرو قیمت کا اندازہ کرتے ہوئے فن کار کے منفرد جمالیاتی رویے کو اہمیت دی۔

    چرنی شوسکی (Chernyshoiski) نے انسان اور وجود کے رشتے کو سمجھنے کے لیے تمام جمالیاتی کیفیتوں اور رشتوں کو غیر معمولی اہمیت دی۔ بلنسکی (Belinsky) نے جمالیات کو ’فنی صداقت‘ اور حقیقت کو سمجھنے کا ایک بڑا ذریعہ بنایا۔

    کسی نے کہا کہ سماجی تبدیلیوں اور انسانی زندگی کی تبدیلی سے جمالیاتی قدریں تبدیل ہو جاتی ہیں، لہٰذا حسن کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔ کسی نے یہ بتایا کہ حسن قدر نہیں جبلت ہے اور جبلت تبدیل نہیں ہوتی۔ قدروں کی تبدیلی سے حسن کو دیکھنے، اسے محسوس کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا انداز بظاہر جتنا بھی بدل جائے بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ایک دبستان اس طرح سوچتا ہے کہ جمالیات فرد کے باطن کا معاملہ ہے۔ تخلیقی عمل میں باطنی جمالیاتی تجربے یقیناً اہم ہیں، لیکن وہ تجربے خارجی جمالیاتی قدروں کی دین ہے۔

    ظاہر ہے ایسی صورت میں ’جمالیات‘ کی تعریف ممکن نہیں ہے۔ جمالیات کے تعلق سے یہ تشریحیں، تعبیریں اور تفسیریں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان تصورات کے علاوہ دوسرے جانے کتنے تصورات موجود ہیں کہ جن کی اہمیت ہے۔ یہ سب جمالیات کی مختلف جہتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ ہر خیال اور ہر تصور میں کوئی نہ کوئی سچائی موجود ہے۔

    ایسے سیکڑوں تصورات سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ جمالیات کی اصطلاح ایک انتہائی معنی خیز معمولی اصطلاح ہے اور فنونِ لطیفہ میں اس کی معنویت اپنی تہ داری کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ فنونِ لطیفہ جمالیات کی دین ہے۔ جمالیات ہی تجربہ کو فنی تجربہ بناتی ہے۔ جمالیاتی فکر و نظر ہی سے تخلیق ہوتی ہے، جمالیات سے ہی فن کار کے وژن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے، اس سے فنونِ لطیفہ میں جلال و جمال کا ایک نظام قائم ہوتا ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ‌ تعلیم پروفیسر شکیل الرّحمٰن کے مضمون ‘ادب اور جمالیات’ سے اقتباس)

  • جب ایک مشہور شاعر شدید بارش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے

    جب ایک مشہور شاعر شدید بارش میں گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے

    اردو ادب میں اخترُ الایمان کو ان کی نظم گوئی اور اس صنفِ سخن کو تازگی اور جدّت کے ساتھ نئے اور منفرد تجربات سے سجانے اور نکھارنے والے شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھیں‌ ایک انسان دوست شخص بھی کہا جاتا ہے جس نے ذاتی زندگی میں بہت مشکلات اور کڑے وقت کا سامنا کیا، لیکن دوسروں کے مددگار اور معاون رہے۔ ان کی اسی خوبی سے متعلق ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے۔

    "اخترُ الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیقُ القلب اور ہم درد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔

    میں اخترُ الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اخترُ الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے، مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔

    اخترُ الایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب و لہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے باز گشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔

    ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے، سوائے ایک نظم…’’ایک لڑکا‘‘ کے۔”

    (ترقّی پسند تحریک سے وابستہ اردو کے معروف شاعر رفعت سروش کے قلم سے)

  • نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 19 مارچ 1999ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند کی اوّلین خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ علم و ادب کی رسیا اور فنونِ لطیفہ کی شائق حجاب امتیاز علی نے دنیائے ادب کو متعدد خوب صورت افسانے اور کہانیاں‌ دیں جنھیں‌‌ قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    وہ 4 نومبر 1908ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نام ور اہلِ قلم تھیں۔ حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور پھر افسانے لکھنے کا آغاز کیا جو مختلف ادبی رسالوں میں شایع ہوئے۔ حجاب اسماعیل کے نام سے ان کی تحریریں اس زمانے کے مقبول ترین رسالے تہذیبِ نسواں میں شایع ہوتی تھیں جس کے مدیر مشہور ڈراما و ناول نگار امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا اور 1934ء میں یہ دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

    حجاب اسماعیل نے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے متعدد افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے جن میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغماتِ موت، ظالم محبّت، وہ بہاریں یہ خزائیں شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی نے تہذیب نسواں کی ادارت بھی کی۔

    ہوا بازی کا شوق رکھنے والی حجاب امتیاز علی نے ایک فلائنگ کلب کی رکنیت اختیار کرکے برصغیر پاک و ہند کی پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وفات کے بعد انھیں لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الٰہ ابادی اردو کے بڑے شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کی شاعری ان کے عہد کی اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی اور روایت و جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر تھے۔

    انھیں خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی تھی۔ کہتے ہیں اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی خبر لی ہے، اور کسی سے مرعوب ہوئے نہ کہیں اپنی بات کہنے سے ڈرے۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچّ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘