Tag: اردو افسانہ

  • مہمان داری

    مہمان داری

    پاکستان کی نام ور افسانہ و ناول نگار حجاب امتیاز علی تاج کی رومانی تحریریں بہت مقبول ہوئیں۔ ان کا نام اردو کی ایسی فکشن نگار کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی کہانیوں کو دل کش انداز سے لفظوں کا جامہ پہنایا اور بہت شہرت پائی۔

    حجاب، اردو کے مشہور ڈرامہ نگار سید امتیاز علی تاج کی اہلیہ تھیں۔ دکن میں پیدا ہونے والی حجاب امتیاز علی تاج اپنے دور کی ایک روشن خیال اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ حجاب کی یہ کہانی حیرت انگیز اور تجسس آمیز ہے جس میں انھوں نے دو لڑکیوں اور ایک پروفیسر کو کردار بناتے ہوئے ایک طویل سفر طے کر کے دوسرے شہر میں قدیم مقام پر جاتے ہوئے پیش کیا ہے۔ اس شہر میں ان کا قیام ایک ایسی عورت کے گھر ہوتا ہے جس کا دس روز قبل انتقال ہوا ہے مگر اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد وہی عورت ان کا استقبال کرتی ہے۔ کہانی پڑھیے!

    مجھے ایک مدت سے سمرد کے کھنڈر دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ اتفاق سے ایک دن باتوں باتوں میں میں نے اپنے شوق کا ذکر بوڑھے ڈاکٹر گار سے کیا۔ وہ سنتے ہی بولے، ’’اتنا اشتیاق ہے تو بیٹی وہاں کی سیر کو جاتی کیوں نہیں؟ تمہارے قیام کا انتظام میں کیے دیتا ہوں۔ مادام حمرہ دلی خوشی سے تمہیں اپنا مہمان بنائیں گی۔ کہو تو آج ہی انہیں خط لکھ دوں؟‘‘

    ’’مادام حمرہ کون ہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ بوڑھے ڈاکٹر گار نے نسوار کی ڈبیہ پتلون کی جیب سے نکالی اور اس پر انگلی مارتے ہوئے بولا،‘‘ تم مادام حمرہ کو نہیں جانتیں روحی؟ دو سال ہوئے یہ خاتون سمرد سے کوئی چالیس میل کے فاصلے پر کار کے حادثہ میں بری طرح زخمی ہوگئی تھیں۔ اتفاق کی بات اسی زمانہ میں ہماری پارٹی شکار کی غرض سے نکلی ہوئی تھی۔ خیمے قریب ہی لگے۔ رات کا وقت تھا۔ شہر دور تھا۔ ایک میں ہی وہاں ڈاکٹر تھا۔ اللہ نے وقت پر مجھے توفیق دی اور میں اس بچاری خاتون کو اپنے خیمے میں اٹھا لایا۔ چوٹیں سخت آئی تھیں مگر چار دن کی تیمار داری اور علاج نے خطرے سے باہر کردیا اور میں نے انہیں اپنی کار میں بٹھا کر ان کے گھر پہنچا دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، ہمیشہ ان کا اصرار رہا کہ میں کچھ دن کو ان کے ہاں جاؤں اور ان کا مہمان رہوں مگر باوجود اس بچاری کی شدید اصرار کے میں ادھر اب تک نہ جا سکا۔ نہ کھنڈروں کی سیر کے لیے وقت نکال سکا۔ بیماری کی خدمت سے جو وقت بچتا ہے وہ مطالعہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ اب یہ موقع اچھا پیدا ہوگیا۔ اپنی بجائے میں تمہیں بھیج دوں گا۔ انہیں خوشی ہوگی تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔‘‘

    یہ سن کر میں بولی، ’’واقعی موقع تو اچھا ہے مگر ڈاکٹر اکیلی میں نہیں جاتی۔ بخدا مجھے لطف نہ آئے گا تم بھی ساتھ چلو۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنے قدیم انداز میں صاف انکار کردیا ، ’’نہ بیٹی میرا جی نہیں چاہتا کون سوٹ کیس بھرے اور سفر کی زحمت اٹھائے۔‘‘ جسوتی برآمدے کے سر ے پر بیٹھی میوہ کھارہی تھی۔ یہ سن کر وہیں سے بولی، ’’سوٹ کیس میں بھر دوں گی پیارے گاری۔ آپ ضرور چلیں۔‘‘ جسوتی بچپن سے بوڑھے ڈاکٹر کو گاری گاری کہنے کی عادی ہے۔

    ڈاکٹر گار نے تھوڑی دیر کے غور کے بعد اپنی عادت کے مطابق ارادہ بدل ڈالا، بولا، ’’تم لوگوں کی فرمائش ٹالتے ہوئے بھی طبیعت آزردہ ہوتی ہے تو پھر جسوتی! میرے سوٹ کیس تم کو بھرنے ہوں گے اور میری نسوارکی پڑیوں کی دیکھ بھال روحی تم کرو۔‘‘

    بوڑھے ڈاکٹر کی اسی ایک گندی عادت سے مجھے نفرت ہے۔ مجھے نسوار کو چھونے سے بھی گھن آتی ہے مگر کیا کرتی اس وقت مطلب اپنا تھا۔ ناچار وعدہ کرلیا کہ نسوار کی پڑیوں کا اہتمام میں کر لوں گی۔ ڈاکٹر گار نے اسی وقت مادام حمرہ کو خط لکھ دیا کہ ہفتہ عشرہ میں ہم لوگوں سمیت وہاں پہنچ رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر کے پاس بعض ایسے اہم کیس آتے رہے کہ خط لکھنے کے پندرہ دن بعد ہم اپنی سفر شروع کرسکے۔

    اس روز میری محبوب اکلوتی سہیلی جسوتی اور ڈاکٹر گار ہم تینوں ڈاکٹر کی چھوٹی سی سفری کار میں چل پڑے۔ دن کی گرمی سے بچنے کے لیے رات کا کھانا کھا کر سفر شروع کیا گیا۔ پروگرام یہ بنا کہ سمرد کے راستے میں رات مادام حمرہ کے ہاں بسر کر کے ان کی خوشی پوری کریں اور دوسری صبح سمرد کے کھنڈروں میں پہنچ جائیں۔ یہ خبر نہ تھی کہ یہ رات زندگی کی نہایت خوفناک راتوں میں سے ایک ہوگی۔۔۔مالک کی پناہ!

    ماہ مئی کی تپتی ہوئی چاندنی رات تھی۔ ہماری ننھی سی ’’ہیمنٹ لے‘‘ ویران سڑک پر کسی تیز رفتار کیڑے کی طرح چلی جارہی تھی۔ نو بج چکے تھے، خیال تھا کہ بارہ ساڑھے بارہ بجے تک ہم مادام حمرہ کے ہاں پہنچ جائیں گے۔ سڑک پر کوئی راہ گیر نہ تھا۔ زرد چاند موسم گرما کے شفاف آسمان پر دم بخود تھا۔ تاڑ کے فلک بوس چھتری نما درخت رات کی فسوں کاری سے مبہوت کھڑے تھے۔

    جسوتی کار چلا رہی تھی۔ میں اس کے پہلو میں بیٹھی ٹافی کھا رہی تھی۔ بوڑھا ڈاکٹر بجھا ہوا سگار منہ میں دبائے غنودگی کے عالم میں پچھلی سیٹ پر پڑا تھا۔ غنودی سے چونکتا تو مزے میں آکر عمر خیام کی کوئی شوخ رباعی اپنی موٹی غیر شاعرانہ آواز میں گا دیتا۔ یہ اس کی مخصوص عادتوں میں سے ایک عادت تھی۔

    دل فریب چاندنی تھی اور خوابناک سماں۔ دفعتاً جسوتی نے کار کھڑی کردی۔ ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ میں نے چاکو لیٹ کا ایک ٹکڑا نگلتے ہوئے پوچھا۔ وہ بولی، ’’کوئی خرابی روحی!‘‘ اور پھر سیٹ سے اترکر انجن کھول کر دیکھنے لگی۔ میں نے کہا، ’’ناممکن۔۔۔ اچھا ٹھہرو میں دیکھتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنا دستی بٹوہ ڈاکٹر گار کی گود میں پھینک دیا اور خود انجن کو دیکھنے لگی۔ آدھے گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد ہم نے مایوس ہوکر ایک دوسرے کو تکا۔ ’’اب کیا ہوگا روحی؟‘‘ جسوتی نے کھسیانے لہجہ میں پوچھا۔

    اسی وقت تاڑ کے دیو قد درخت پر تہذیب و تمدن سے نا آشنا صحرائی الو نے ایک وحشیانہ چیخ ماری۔ بھلا جسوتی کے کان جو ستار کی موسیقی اور محبت کی شیریں سرگوشیوں کے عادی تھے الو کی اس زیادہ کی تاب کب لاسکتے تھے وہ مارے خوف کے مجھ سے چمٹ گئی لیکن میں تو غیر ہموار زمینوں اور مہا ذری جیسے دشوار گزار پہاڑیوں کی سیاحت کی عادی ہوں۔ اس کی بزدلی پر اس کو ہمت دلائی۔ اتنے میں بوڑھا ڈاکٹر گار حافظ کا ایک عشقیہ شعر پڑھتا ہوا اٹھ بیٹھا اور پوچھنے لگا، ’’کیا ہم پہنچ گئے؟‘‘

    کچھ دیر بعد پریشانی کے عالم میں ہم تینوں کار سے نیچے اتر آئے اور سراسمیگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ رات زیادہ گہری ہوتی چلی جاتی تھی۔ چاند کی زرد روشنی میں رات کا کوئی پرند اپنے بڑے بڑے بازو پھیلائے کسی سمت اڑتا تو ہم کسی راہ گیر یا گاڑی بان کے دھوکے میں اسی سمت تکنے لگتے۔ بہت دیر بعد دور سے بغیر چھت کے دیہاتی وضع کی ایک مضحکہ انگیز گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔ جسوتی نے اسے دیکھ کر غمگین لہجہ میں کہا، ’’اگر ہم دیر میں پہنچے تو وہ سوچکی ہوں گی۔ اس لیے اس گاڑی میں چلے چلو۔’’

    گاڑی سڑک کے کنارے بے فکری سے چہل قدمی کرتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ ڈاکٹر گار نے دور سے آواز دی، ’’بڑے میاں! ایوب محلہ میں عشرت خانہ نامی کوٹھی تک ہمیں پہنچا دو گے؟‘‘ گاڑی بان نے بغیر ہماری طرف دیکھے دیہاتیوں کے سے اکھڑ لہجہ میں جواب دیا، ’’نہیں بارہ بج گئے ہیں۔ دیر ہوگئی ہے۔‘‘

    یہ بد تہذیب اور ٹکا سا جواب سن کر بہت ہی غصہ آیا۔ ضبط کر کے میں اور جسوتی اس کے پاس گئیں۔ وہ ہمارے بیش قیمت زریں لباس اور باوقار چہرے کو دیکھ کر گاڑی سے نیچے اُتر آیا۔ ’’یہ لو۔۔۔‘‘ میں نے جاتے ہی چاندی کا ایک چمکدار سکہ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا اور بولی، ’’اب ہمیں جلدی سے عشرت خانہ تک پہنچا دو۔‘‘ وہ مرعوب ہوگیا اور مؤدب لہجہ میں بولا، ’’سوار ہوجائیے حضور دو گھنٹوں میں پہنچا دوں گا۔‘‘

    گاڑی کے پائیدان پر قدم رکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ گاڑی سر پر آرہے گی۔ اس لیے فوراً میں نے اس کی چھت تھام لی۔ جسوتی نے اس کے پہیے کو مضبوطی سے پکڑ کر گاڑی پر قدم رکھا۔ غرض ہم تینوں چڑھ کر بیٹھ گیے۔ اب گاڑی چلی جارہی تھی۔ آہستہ آہستہ جیسے کسی جاں بلب مریض کا سانس چل رہا ہو۔ چاند زرد پڑ گیا تھا۔ ہواؤں میں خوفناک سرسراہٹ پیدا ہوگئی تھی۔

    بوڑھا ڈاکٹر گار گاڑی کے ہچکولوں سے ناخوش اور چڑا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ہم دونوں گرمی سے نڈھال ہاتھوں میں خس کی زریں پنکھیاں لیے جن کی ڈنڈیاں خوشبودار صندل کی لکڑی کی تھیں، بار بار بے کلی سے پہلو بدل رہی تھیں۔ آہ! اللہ وہ گرم اور ویران چاندنی رات! سانس آگ کے شعلوں کی طرح ناک سے نکلتا تھا۔ زبان سوکھے پتوں کی طرح خشک تھی۔ جسوتی رہ رہ کر اپنی پری کی وضع کی چھوٹی سی نقرئی صراحی سے پانی انڈیل انڈیل کر پی رہی تھی۔ مشرقی ممالک کی یہ وہی گرم رات تھی جس کے متعلق ہمارے ان ایشیائی ممالک میں مشہور ہے کہ سبز چشم پریاں بھی اپنی آبی دنیا سے باہر نکل آتی ہیں۔

    دور سے ایک سفید شاندار عمارت نظر آنے لگی۔ پھر یک لخت بوڑھا ڈاکٹر گار گاڑی بان پر اور میں جسوتی پر جا پڑی اور اس طرح ہماری مضحکہ خیز گاڑی ایک جھٹکے ساتھ عشرت خانہ کے شاندار پھاٹک میں مڑگئی۔ میں نے رونے کے لہجہ میں کہا، ’’ایسی بھدی گاڑی میں اپنے میزبان کے سامنے جاتے ہوئے میں تو زمین میں گڑ جاؤں گی۔‘‘ اس پر بوڑھے ڈاکٹر گار نے کہا، ’’مگر روحی! اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ وہ کیا سمجھ نہ جائیں گی کہ مجبوری کو اس گاڑی میں سوار ہونا پڑا ہوگا۔‘‘ جسوتی نے کہا، ’’نہ نہ جتنی جلدی ہوسکے اس کو واپس کردو۔‘‘

    چاندنی کی سفید دھاریاں خوش قطعے اور تنگ روشوں پر پڑی ہوئی تھیں۔ ہماری گاڑی صدر دروازے پر جاکر لگ گئی۔ ہم نے فوراً اسے واپس کردیا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا ، ’’یہاں کی دنیا تو خواب میں ملفوف نظر آتی ہے۔ چوکیدار کا بھی پتہ نہیں۔‘‘ جسوتی نے کہا، ’’کہ کون جانے مادام حمرہ یہاں ہیں یا نہیں۔‘‘ ڈاکٹر کہنے لگا، ’’ہوں گی کیوں نہیں؟ انہوں نے میرے خط کا جواب دیا تھا کہ میں دلی اشتیاق سے آپ سب کی آمد کی منتظر رہوں گی۔‘‘

    ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پہلے احتیاط سے آہستہ آہستہ پھر کچھ دیر بعد زور زور سے۔ مکان کا طواف کیا۔ نوکروں کو پکارا۔ چوکیدار کو آوازیں دیں۔ غرض جتنی کوششیں ہوسکتی تھیں کرلیں مگر زرد چاندنی میں سفید مرمریں محرابوں والا عالی شان محل ساکت کھڑا رہا۔ وسیع برآمدوں میں لمبے لمبے ستونوں کا عکس چاندنی میں ترچھا پڑ رہا تھا۔ چنبیلی کی بیل میں جھینگر اپنا نغمۂ تنہائی الاپ رہا تھا۔

    جب مایوس ہوکر ہم لوگ زینے سے اترنے لگے تو اچانک اندر کسی کمرے سے ایک ایسی آواز آئی جیسے کسی نے دیا سلائی جلائی ہو۔ ڈاکٹر گار نے چونک کر کہا، ’’ٹھہرو۔ میرا خیال ہے کہ کوئی جاگ اٹھا۔‘‘ ہم تینوں پھر زینے طے کر کے دروازے کے پاس اس امید میں جا کھڑے ہوئے کہ اب کھلتا ہے اور اب کھلتا ہے۔ اندر سے کبھی کبھی کوئی خفیف سی آواز آجاتی تھی۔ پانچ منٹ اسی حالت میں گزر گئے۔ ہم بند دروازے پر نظریں گاڑے کھڑے رہے۔

    آخر ڈاکٹر نے حیران ہوکر کہا، ’’یہ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے شیشوں میں سے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ وہاں سوائے تاریکی کے کچھ نہ تھا۔ ڈاکٹر بیزار ہو کر چلایا ، ’’ارے بھئی یہاں کوئی ہے بھی؟‘‘ اس کے چلانے کا اثر یہ ہوا کہ اندر پھر کچھ گڑبڑی سی ہونے لگی۔ دو لمحہ بعد دروازہ یکایک اس زور سے کھلا کہ ہماری تو آنکھیں بند ہوگئیں۔ اس کا کھلنا تھا کہ تیز و تند ہوا کا ایک سرد جھونکا اچانک ہمارے گرم چہروں سے یوں آکر لگا جیسے کسی نے تھپڑ مارا ہو۔ میری تو آنکھیں بند ہوگئیں اور ساتھ ہی ہم تینوں کھڑے کھڑے کانپ سے گئے لیکن دروازہ کے سامنے جو موجود کوئی نہ تھا۔ ڈاکٹر گار حیران اور پریشان ہوکر بولا، ’’یہ دروازہ کھولا کس نے؟‘‘

    اندر کی ویران تاریکی میں داخل ہونے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ ڈاکٹر نے ایک قدم اندر رکھا تھا کہ جسوتی نے اسے روک دیا۔ بیزار ہو کر ہم نے پھر باغ کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ یک لخت پھر اندر کے کسی دروازے کے پٹ سے کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی سرد اور تند ہوا کا جھونکا ایک بار پھر ہم تک پہنچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تاریکی میں ایک ہلکی سی روشنی نظر آنے لگی جو بتدریج موم بتی میں تبدیل ہوگئی۔ ہم نے نگاہ موم بتّی سے ذرا اوپر اٹھائی تو اٹھائیس انتیس سالہ ایک حسین اور دلفریب خاتون نظر آئی جس نے نہایت سادہ اور سفید لمبے لمبے لرزاں دامنوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ موم بتی اس کے ہاتھ میں تھی۔ ڈاکٹر گار کو دیکھ کر وہ مسکرائی اور سر جھکایا۔ ’’مزاج شریف مادام حمرہ۔۔۔ یہ دونوں لڑکیاں میری ہیں، انہیں کا ذکر میں نے خط میں کیا تھا۔‘‘ خاتون حمرہ نے نہایت دلکش انداز میں ہماری طرف دیکھ کر خیر مقدم کے طور پر سر جھکایا۔

    پھر ایک لمحہ بعد بغیر کوئی بات کیے انہوں نے اشارے سے ہمیں اپنے پیچھے بلایا اور روشنی دکھاتے ہوئے خود سامنے چلنے لگیں۔ ایک بل کھائے ہوئے ناگ کے پھن پر موم بتی جل رہی تھی۔ ہوا سے ان کے لمبے لمبے دامن ان کے پیچھے دو ردور تک لہرا رہے تھے۔ چال ایسی تھی جیسے کوئی پری ہوا میں تیر رہی ہو۔ سیاہ بال سفید ریشمی چادر کے نیچے ہوا کی شوخیوں سے لہرا رہے تھے۔ چہرے پر حوروں کی سی مسکراہٹ تھی۔

    اسی وقت جسوتی نے سرگوشی کی، ’’روحی! یہاں کیسی خنک ہوا چل رہی ہے، باہر تو سڑکوں پر لو کی تکلیف دہ لپٹوں سے ہمارے چہرے گرم ہورہے تھے۔‘‘ جسوتی کا فقرہ ختم ہوا ہی تھا کہ ہم ایک عالی شان محل میں پہنچے جہاں ایک سیاہ لمبی اعلیٰ پالش شدہ چمکدار میز پر انواع اقسام کے پھل برگ نما نقرئی طشتوں میں سجے ہوئے تھے۔ دل کی شکل کی ننھی کٹوریوں میں شربت رکھا ہوا تھا۔ میز کے اوپر چھت میں کنول کے پھولوں کی وضع کے فانوس آویزاں تھے۔ دروازوں پر ارغوانی رنگ کے زریں پردے لگے ہوئے تھے۔ دیواروں پر کسی قدیم جنگ چین کے مناظر لٹک رہے تھے۔

    مادام حمرہ نے اپنی سانپ کی شکل کا شمع دان میز پر رکھ دیا اور خود سرے والی میز پر بیٹھ گئیں۔ ’’لیکن!‘‘ ڈاکٹر گار نے کہا، ’’میری پیاری مادام۔۔۔ رات کے دو بجے ایسی لذیذ میز سے کوئی کس طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے؟ اس وقت تو ایک نرم آرام دہ بستر عنایت ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘

    یہ سنتے ہی مادام حمرہ بغیر کسی قسم کا کوئی لفظ منہ سے نکالے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کھانے کے لیے مطلق اصرار نہ کیا۔ اپنا وہی ناگ کی وضع کا شمع دان اٹھا لیا اور مسکرا کر گردن کے اشارے سے ہمیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا۔ ایک پرتکلف خواب گاہ میں جہاں مدھم روشنیوں کے نیچے نفیس اور رنگین ریشمی بستر بچھے ہوئے تھے لے گئیں۔ یہاں پہنچ کر سر کے اشارے سے ہمیں شب بخیر کہا اور چپ چاپ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی اسی طرح باہر چلی گئیں۔

    میں ایک کمزور دل کی وہمی عورت ہوں۔ اپنی میزبان کی ان حرکات نے میرا خون خشک کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کے کمرے سے باہر جاتے ہی میں نے ڈاکٹر گار کا ہاتھ تھام لیا اور بولی، ’’یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟‘‘ گار بولا، ’’میں خود حیران ہوں نہ جانے کیا معاملہ ہے؟‘‘

    ’’یہاں سے بھاگ چلو ڈاکٹر۔‘‘ میں نے بیزار لہجہ میں کہا۔ جسوتی بولی، ’’ان کی کیسی میٹھی شکل ہے۔ پر کہیں گونگی تو نہیں؟‘‘ ڈاکٹر گار نے کہا ’’نہیں بیٹی! نہیں! وہ بے حد باتونی ہیں۔‘‘ میں سوچتے ہوئے بولی، ’’باوجود ان کے حسن کے انہیں دیکھ کر مجھے دہشت سی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

    ڈاکٹر گار اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جسوتی اور میں اس راز کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہوئی کوئی تین بجے کے قریب اپنی اپنی چارپائیوں پر لیٹ گئیں۔ صبح کی عبادت کے وقت عادتاً میری آنکھ کھل گئی۔ پروگرام کے مطابق آٹھ بجے ہمیں سمرد کے کھنڈروں کی طرف روانہ ہوجانا تھا اس لیے میں نے جسوتی کو بھی جگا دیا۔ ہم دونوں نے نماز پڑھی۔ صبح گرم اور خوشگوار تھی۔ نماز کے بعد سامنے چنبیلی کی بیلوں میں بیٹھ کر بہت دیر تک چائے کا انتظار کیا۔ مگر جب مایوسی ہوئی تو میں ڈاکٹر گار کے کمرے میں گئی اور بولی، ’’ڈاکٹر! ابھی تک سورہے ہو؟‘‘ وہ بولے، ’’چائے کے انتظار میں پڑا ہوں روحی۔ چائے آجائے تو اٹھوں۔ ذرا وہ نسوار کی ڈبیا پکڑا دینا۔ شکریہ۔‘‘ نوبج گئے اور کسی نے خبر نہ کی تو میں نے کہا، ’’چلیے ڈاکٹر ذرا باہر نکل کر دیکھیں۔ چائے یا کوئی خادمہ کیوں نہیں آتی؟‘‘

    ڈاکٹر گار نے جلدی جلدی کپڑے پہن لیے۔ ہم تینوں وسیع برآمدے سے گزر کر بڑے ہال میں آئے۔ تمام دروازے بند تھے۔ ہر طرف سناٹا اور ویرانی تھی۔ بیش قیمت فرنیچر پر گرد تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوٹھی کئی روز سے بند پڑی ہے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے کھنکھار کر آہٹ کر کے ایک ایک کمرے کو کھولا لیکن ہر کمرہ خالی تھا۔ ہر کمرے کے سامان کی یہ حالت تھی جیسے برتا نہیں جاتا۔ سنگو کر رکھ دیا گیا ہے۔ ساری کوٹھی دیکھ ڈالی۔ اس میں کہیں کوئی متنفس نہ تھا۔ ہمارے دلوں پر دہشت ایک بوجھ کی طر ح بیٹھنے لگی۔ پریشان ہوکر باہر باغ میں نکل آئے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ راتوں رات کیا ہوگیا۔۔۔ نوکر کدھر ہیں؟ مادام حمرہ کہاں غائب ہوگئیں۔

    دس بجنے آگئے۔ ہم پریشانی کے عالم میں اس ویران گھر کے زینے پر کھڑے سوچ رہے تھے کہ کیا کریں؟ اتنے میں دیکھا کہ بوڑھا ملازم باغ سے ہوکر اندر آیا اور چپ چاپ ایک کمرے میں داخل ہوگیا پھر اس نے فرنیچر نکال کر باہر رکھنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ زور زور سے روتا بھی جارہا تھا۔ ہم لوگ تیزی سے اس کی طرف گئے۔ وہ ہمیں دیکھ کر ٹھٹک سا گیا اور پھر حیران ہوکر ہمارا منہ تکنے لگا۔ ڈاکٹر گار نے پوچھا، ’’مادام حمرہ کہاں ہیں؟‘‘

    بوڑھا متعجب ہوکر دیوانوں کی طرح ڈاکٹر کا منہ تکنے لگا۔ ڈاکٹر گار نے پھر کہا ’’ہم ان کے مہمان ہیں۔ مادام حمرہ کہاں گئیں؟‘‘ بوڑھے نے حیران ہوکر کہا، ’’مادام حمرہ۔۔۔؟ آہ حضور بیگم صاحبہ کو تو سانپ نے ڈس لیا۔ ان کے انتقال کو آج پورے دس دن ہوگئے۔ آج گھر کا سامان نیلام ہونے والا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے جسم میں ایک پھریری سی محسوس کی۔ رات کا وہ پراسرار سرد ہوا کا جھونکا پھر ایک دفعہ مجھے قریب محسوس ہونے لگا اور میں بید مجنوں کی طرح کانپنے لگی۔ اس کے بعد مجھے مطلق یاد نہیں کہ کیا ہوا تھا؟

  • دوست کا خط

    دوست کا خط

    یہ افسانہ اردو زبان میں ’’خیالستان‘‘ کے نام سے سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں کے مجموعہ سے لیا گیا ہے۔ یلدرم نے طبع زاد کہانیوں کے ساتھ تراجم بھی کیے اور اس کتاب میں روسی اور انگریزی افسانوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔ یلدرمؔ تقسیمِ ہند سے قبل وفات پاگئے تھے۔ وہ رومانوی تحریک کے زیرِ اثر لکھنے والے اہم افسانہ نگار تھے۔

    یلدرم کا یہ افسانہ ایک ایسے آدمی کو سامنے لاتا ہے، جسے اپنے دوست کا ایک خط موصول ہوتا ہے۔ وہ اس خط کو بہت محبت سے اپنے سینے سے لگاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس خط کو کتنے نمبر دے؟ مگر وہ جب بھی نمبر دیتا ہے، ہر بار سو سے زیادہ نمبر دے دیتا ہے۔ یہ افسانہ پیشِ خدمت ہے۔

    تُو پیارے دوست کا پیارا خط ہے! تجھ میں وہ کونسی برقی شے بھری ہے جو میرے دل کو دھڑکاتی ہے! تجھے کھولتے وقت ہاتھ کیوں کانپنے لگتے ہیں؟ آخر تجھ میں اور کاغذوں سے کیا برتری ہے؟ تو بھی کاغذ کا ٹکڑا وہ بھی کاغذ کے ٹکڑے، بلکہ وہ تجھ سے زیادہ بڑے ہیں۔ ہاں باعث تفاخر و تفوق یہی ہے نا کہ دوست نے تجھے لکھا، لب پان خوردہ سے اف، لب پان خوردہ سے لفافہ بند کیا؟ بیشک، بیشک، یہ بہت بڑا تفوق ہے۔ اچھا میں تیرا امتحان لیتا ہوں، تجھے نمبر دیتا ہوں۔ سو میں دیکھوں تجھے کتنے نمبر ملتے ہیں۔

    ان کے ہاتھوں سے چھوئے جانے کے۔۔۔ چالیس

    اس بات کے کہ دستۂ کاغذ میں سے تجھے ہی منتخب کیا۔۔۔ پچاس

    ان لبوں نے لفافہ کو بند کیا۔۔۔ ستّر

    ہیں! تُو نے سو سے زیادہ نمبر پائے۔ نہیں، یہ امتحان ٹھیک نہیں ہوا، دوسرے طریقے سے شمار ہونا چاہیے۔

    اس بات کے کہ تجھے میرے لیے منتخب کیا اور کسی دوسرے کے لیے نہیں منتخب کیا۔۔ ساٹھ

    اس بات کے کہ ان کے قلم کی تحریر تجھ پر ہے۔۔۔ چالیس

    اس بات کے کہ ان کے چہرے کا عکس تجھ پر پڑا کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ خط رات کو لکھا ہے۔۔۔ پانچ سو

    کیا! پھر سو سے زیادہ ہو گئے؟ یہ ٹھیک نہیں، اچھا تیسری بار پھر امتحان۔

    اس بات کے کہ تو ان کے مژدہ صحت و خوشنودی مزاج کی خبر لایا۔۔۔ اسی

    اس بات کے کہ تجھے چاک کر دیے جانے کا حکم ہے۔۔۔ دس ہزار

    یہ کیا؟ نمبر تو سو سے پھر بڑھ گئے۔

    نہیں نہیں! میں بے فائدہ کوشش نہیں کرنے کا، تُو امتحان سے بالا، موازنہ سے اعلیٰ، قید مقابلہ مقائسہ سے آزاد، پیارے دوست کا پیارا پیارا، ہائے میں کیسے ظاہر کروں کتنا پیارا خط ہے، تُو سینہ سے لگایا جائے گا۔ تُو نظرِ اغیار سے بچایا جائے گا، مگر (حاشا) تو چاک نہیں کیا جائے گا۔ تُو میرے پاس محفوظ رہے گا اور میں ہزاروں مرتبہ تجھے تنہا گوشوں میں پڑھوں گا۔

  • سب سے چھوٹا غم…

    سب سے چھوٹا غم…

    یہ ایک دکھی اور پریشاں حال عورت کی کہانی ہے جو کئی سال پہلے شیخ الہند حضرت سلیم چشتی کی درگاہ پر اپنے محبوب کے ساتھ جا کر اپنی مراد پوری ہونے کے لیے دھاگا باندھ کر آتی ہے اور آج وہ درگاہ پر اسی دھاگے کو ڈھونڈنے آئی ہے۔ مزار پر کئی پریشان حال مرد اور عورتیں حاضری دینے آرہے ہیں جن کو دیکھ کر اس عورت کو اپنا دکھ بہت چھوٹا معلوم ہو رہا ہے۔

    عابد سہیل معروف صحافی اور افسانہ نگار ہیں جن کی خودنوشت ‘جو یاد رہا’ بہت مشہور ہے یہ انہی کا افسانہ ہے جس کا عنوان سب سے چھوٹا غم ہے۔

    اس نے تینوں طرف کی جالیوں میں بندھے ہوئے ہزاروں بلکہ لاکھوں دھاگوں کو دیکھا اور ان میں دس سوا دس سال قبل اپنے باندھے ہوئے دھاگے کو تلاش کرنے لگی۔ بائیں طرف والی جالی پر جس کے باہر گیندے کے پیلے پیلے پھول اور ہار ڈھیر تھے اور بہت سے دیے جل رہے تھے، اس نے اپنے دھاگے کو پہچاننے کی کوشش کی۔

    اسے خوب اچھی طرح یاد تھا کہ اس طرف جالی کے بالکل کونے میں اس نے دھاگے میں ایک گرہ لگائی تھی اور پھر دوسری گرہ جاوید نے۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ ابھی اس کی انگلیاں پوری طرح گرہ لگا بھی نہ پائی تھیں کہ جاوید کی انگلیاں وہاں پہنچ گئی تھیں اور انگلیوں کے اس لمس کے بعد جاوید اس کی آنکھوں میں جھانک کر مسکرانے لگا تھا اور وہ شرما کر نیچے دیکھنے لگی تھی۔ لیکن ان کا باندھا ہوا دھاگا کون سا تھا؟ اس لمحہ اسے خیال آیا کہ اُس وقت اِس جگہ شاید بہت زیادہ بھیڑ تھی اور جاوید نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا تھا اور وہ سامنے والی جالی پر چلی گئی تھی۔ یہ سوچ کر اس نے درمیان والی جالی کا رخ کیا لیکن قدم آگے بڑھانے سے قبل اس نے ایک بار پھر اس جالی پر نظر ڈالی جیسے وہ اپنا باندھا ہوا دھاگا پہچان ہی تو لے گی۔

    دوسری جالی پر پہنچتے پہنچتے اسے ایسا لگا جیسے پہلی جالی پر جا کر اس نے غلطی کی تھی اور اسے اس کی یادداشت نے دھوکا دیا تھا۔ دھاگا تو اس نے یہیں باندھا تھا، بالکل کونے میں۔ لیکن یہاں بھی لاکھوں دھاگے بندھے تھے۔ کسی میں ایک گرہ تھی، کسی میں دو۔ ان میں اس کا اپنا کون سا تھا؟ اس نے کونے کے دھاگوں پر ہاتھ پھیرا، آہستہ آہستہ، جیسے جاوید کے ہاتھوں کے لمس سے وہ اپنے دھاگے کو پہچان ہی تو لے گی۔ لیکن کہیں خواہشوں کی گرمی تھی، کہیں آرزوؤں کی نرمی اور کہیں مایوسیوں کی تاریکی اور مصائب کی سختی۔ اس نے دوسری بار اسی کونے کے دھاگوں پر ہاتھ پھیرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک دبلی پتلی، گوری چٹی لمبی سی عورت وہاں آ گئی۔ وہ کچھ دیر تو خاموش کھڑی جالی کو ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اس نے دائیں طرف کی جالی میں لال دھاگا باندھا، مڑ کر عقیدت سے مزار کی طرف دیکھا اور آنسو پونچھتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    وہ عورت جوں ہی باہر نکلی، اس نے اس کے باندھے ہوئے دھاگے پر انگلی رکھ دی۔ اکتوبر کی ان ابتدائی تاریخوں میں جب دھوپ چھاؤں کے موسم کے باوجود مزار کے باہر وسیع و عریض آنگن کا ایک ایک پتھر تپ رہا تھا، ایک سرد لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ دھاگا سمٹا، پھر پھیلا اور دو آنکھیں بن گیا۔ رحم کی بھیک مانگتی ہوئی آنکھیں۔ دو لب بن گیا، خواہشوں کو گویائی عطا کرتے ہوئے لب ’’اے شیخ تو نے بادشاہوں کی جھولیاں مرادوں سے بھر دی ہیں۔ میری جھولی میں بھی ایک گلاب ڈال دے۔‘‘

    وہ اسی جگہ کھڑے کھڑے کانپ گئی۔ جیسے نیند سے اچانک کوئی کسی کو جگا دے یا کوئی بے حد بھیانک خواب سے جاگ پڑے۔ اس نے اپنے دونوں طرف مسہری پر سوتے ہوئے دونوں بچوں کو ٹٹولنے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن اس کا بایاں ہاتھ محراب سے اور دایاں نہایت خوبصورت کپڑوں میں ملبوس ایک عورت سے ٹکرا گیا۔ کمر میں سونے کی کردھنی، کانوں میں سونے کے بندے جن میں ہیرے چمک رہے تھے، گویا خواب سے جاگنے کے بعد حقیقت سے اس کا پہلا ٹکراؤ تھا۔ کھلتا ہوا گندمی بلکہ شاید گورا رنگ جس کو خوشحالی، خوشیوں بھری زندگی نے اور بھی حسین بنا دیا تھا، بلکہ چمکا دیا تھا۔

    اس عورت کو بھی بھلا کوئی غم ہو سکتا ہے؟ اس نے بالائی کی رنگت والے ملائم اور گداز ہاتھوں کو دیکھا۔ نظریں جھکا کر دونوں چھوٹے چھوٹے پیروں کو دیکھا، ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت پیر جیسے انھیں بچپن میں لوہے کے جوتے پہنا کر رکھا گیا ہو۔ پھر سر اٹھا کر کنکھیوں سے ان بڑی بڑی آنکھوں کی طرف دیکھا جو تھوڑی دیر قبل اس کو ایسی لگی تھیں جیسے کسی نے گلاب کے کٹورے بھر دیے ہوں۔ لیکن اب یہ گلاب کے کٹورے چھلکنے ہی کو تھے اور آنسوؤں کے دو قطرے دونوں کٹوروں کے کونوں سے ٹپک پڑنے کے لیے پر تول رہے تھے۔

    اس عورت کو بھی بھلا کیا غم ہو سکتا ہے؟ اس نے سوچا۔ غربت اور مفلسی تو اس نے دیکھی ہی نہیں۔ اولادیں یقیناً ہیں ورنہ اس قدر خوش بھلا رہ سکتی تھی۔ مانگ کا سیندور اور چوڑیاں اور بندے۔ چھی چھی کیا برا خیال آیا تھا اس کے دل میں۔ خدا اسے سدا سہاگن رکھے اور اس کے پتی کی عمر دراز کرے۔ لیکن کوئی زخم تو ضرور تھا۔ جسے نہ دولت، نہ شوہر، نہ آل، نہ اولاد، نہ خوبصورت کپڑے، نہ قیمتی زیور، غرض کوئی نہ بھر پایا تھا اور وہ یہاں چلی آئی تھی۔ اس نے ساڑی جس طرح باندھ رکھی تھی، اسی طرح ساڑی باندھنا جاوید کو بھی پسند تھا لیکن وہ اس طرح ساڑی باندھ ہی نہ پاتی تھی۔ اسے اس بات سے ایک اور بات یاد آگئی اور اس کی اداس اور غمگین آنکھوں میں بھی ہنسی کی ایک چمک پیدا ہو گئی۔

    جاوید نے جب تاج محل میں ایک خوبصورت لڑکی کو بار بار پلٹ کر دیکھا تھا تو وہ اداس ہو گئی تھی۔ شادی کو ابھی چند ہی دن تو ہوئے تھے اور خلوتوں میں پیار و محبت لٹانے والا جاوید جلوت میں اور وہ بھی اس کی موجودگی میں اس طرح ہرجائی ہوا جا رہا تھا۔ ویسے اس نے خود کو سمجھایا بھی تھا کہ ہر پرکشش اور خوبصورت چیز کی طرف نظریں خود بخود اٹھ جاتی ہیں لیکن بار بار مڑ مڑ کر دیکھنا بلا ارادہ تو نہیں ہو سکتا۔ اس نے کئی بار پلٹ پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تھا اور تاج محل کی پشت پر، جمنا کے کنارے، جب وہ عورت مسجد کی طرف کھڑی تھی تو دریا کے اس پار قلعہ کی طرف دیکھتے ہوئے بھی اس نے نظریں چرا کر اس عورت کی طرف دیکھ لیا تھا۔

    لیکن جاوید کی گفتگو کے انداز، برتاؤ، مسکراہٹ، ہنسی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد تاج کے حسن کے کسی پہلو کی طرف اس کی توجہ دلاتے ہوئے اس کے ہاتھ دھیرے سے چھو دینے کی اس کی عادت میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ پھر یہ بات تو اسے ایک دن خود بخود سمجھ میں آ گئی تھی کہ اس دن جاوید اس عورت کو نہیں بلکہ اس ساڑی کو دیکھ رہا تھا جو وہ عورت ایک خاص طریقہ سے باندھے ہوئے تھی۔

    کہیں اس عورت کو ایسا ہی کوئی وہم، کوئی بے نام غم تو نہیں؟ بے نام غموں کے تو ہم عورتوں کے پاس خزانے ہوتے ہیں جنھیں ہم لٹاتے نہیں بٹور بٹور کر رکھتے ہیں۔ خوشیوں کے لمحوں کو بوجھل بنانے کے لیے، بے محابہ، بے ساختہ قہقہوں کو شائستہ بنانے کے لیے، انتہاؤں کو زندگی کے آداب سکھانے کے لیے۔ لیکن ایسے بے نام غموں کے لیے کوئی اتنی دور تو نہیں چلا آتا۔

    وہ عورت جالی پر دھاگا باندھنے لگی تو اس نے کنکھیوں سے اس کے چہرہ کا ایک بار پھر جائزہ لیا۔ اداسی کا ایک پردہ تو ضرور تھا، آنکھیں اب بھی بھیگی ہوئی تھیں لیکن چہرہ کا میک اپ اسی طرح قائم تھا جیسے بیوٹی سیلون سے نکل کر سیدھے یہیں چلی آئی ہو۔ گرد و غبار کا ایک بھی نشان نہ تھا، ساڑی پر ایک بھی شکن نہ تھی۔ اس عورت نے دھاگے میں گرہ لگائی تو اس کی نظریں قدرتی رنگ میں رنگے ہوئے اس کے لمبے لمبے ناخنوں پر پڑیں جن کا یہ حسن، یہ چمک، دیکھ ریکھ اور گھر داری کے کاموں سے بے نیازی کے بغیر ممکن نہ تھا۔

    دھاگے میں گرہ لگانے کے بعد اس نے ذرا سا جھک کر دونوں ہاتھ باندھ کر جیسے جالی ہی کو پرنام کیا۔ پھر مڑی اور مزار کے قریب جا کر کھڑے ہی کھڑے تقریباً دہری ہو گئی اور ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ سارے بندھ ٹوٹ گئے بلکہ بہہ گئے۔ لیکن ان آنسوؤں نے اسے اور بھی خوبصورت اور بھی معصوم بنا دیا تھا۔ جب وہ باہر نکلی تو وہ بھی تجسس کے مارے مزار کے سرہانے تک آ گئی۔ اس نے پرس کھولا، دو بڑے بڑے نوٹ نکالے، پھر اور نوٹ نکالے اور درگاہ کے چندے کے بکس میں ڈال دیے اور الائچی دانے لینے کے لیے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ اسی طرح پھیلائے پھیلائے ہاتھ اوپر اٹھائے اور اپنا سر ہاتھوں پر ٹکا دیا۔ پھر دھیرے دھیرے سر اٹھایا، الائچی دانے پہلے ساڑی کے پلو میں ڈال کر پرس میں احتیاط سے رکھ لیے اور چلی گئی۔ چند قدم بعد اس نے پلٹ کر مزار کی طرف ایک بار پھر دیکھا اور سر جھکائے بلند دروازہ کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔

    اب وہ اسی جالی کے پاس آ گئی جہاں تھوڑی دیر قبل اس عورت نے دھاگا باندھا تھا، لیکن رنگ برنگے دھاگوں کے جنگل میں وہ اس کا دھاگا پہچان نہ سکی، اس کے غم کے راز تک نہ پہنچ سکی۔ اسی درمیان سیاحوں کا ایک ریلا درگاہ میں داخل ہوا تو گائیڈ نے رٹے رٹائے جملے دہرائے، ’’شیخ سلیم چشتی کی دعا سے اکبر کو جہانگیر نصیب ہوا۔ یہاں لوگ آتے ہیں اور دامنِ مراد بھر لے جاتے ہیں۔‘‘

    مزار کے باہر کی جالی پر ایک سیاح نے ہاتھ رکھا تو گائیڈ نے نہایت آہستگی سے وہ ہاتھ ہٹا دیا اور کہا، ’’اس مزار کی جالی دنیا کے سارے مزاروں کی جالیوں سے خوبصورت ہے۔ کچھوے کی ہڈی پر سیپ کے کام کی یہ دنیا میں اپنی آپ مثال ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دیا سلائی جلائی تو مزار کی بیرونی دیوار کا وہ حصہ جس پر روشنی پڑ رہی تھی چمک اٹھا، جھلمل کرنے لگا۔

    سیاحوں کا ریلا چلا گیا تو وہ پھر تقریباً تنہا رہ گئی، ایک بار پھر اس نے مزار کے قدموں کے سامنے کی جالی پر بندھے ہوئے دھاگوں پر ہاتھ پھیرا تو جاوید دروازہ کھول کر کمرہ کے اندر داخل ہو گیا۔ نشہ میں دھت، ٹائی کی گرہ ڈھیلی، بال بکھرے ہوئے، سوٹ شکن آلود، آنکھیں سرخ اور دہاڑتا ہوا، ’’میں کہتا ہوں یہ میرا گھر ہے یا کسی اور کا۔ دو دو گھنٹہ چلّاؤ تب کہیں جا کر دروازہ کھلتا ہے۔ نہ آیا کروں کہیں اور سو رہا کروں؟‘‘

    ’’ذرا آنکھ لگ گئی تھی، تھوڑی دیر پہلے تک تو جاگ رہی تھی۔‘‘ اس نے دھیمے لہجہ میں کہا اور ٹائی کی گرہ کھولنے لگی۔

    ’’ہونہہ جاگ رہی تھیں تھوڑی دیر پہلے تک، تو پھر مر کیوں گئی تھیں میرے آنے پر۔‘‘

    لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کوٹ نرم نرم ہاتھوں سے اتار دیا اور ہاتھ کا سہارا دے کر اسے بستر پر لٹا دیا۔ پھر جوتوں کی ڈوری کھولی، جوتے اتارے، موزے اتارے اور بستر پر اس کی ٹانگیں پھیلا دیں۔

    اب یہ بات ہر رات کا معمول بن گئی تھی۔ ویسے اسے دن میں سب کچھ حاصل ہوتا۔ عزت، دولت، کار، ملازم، اولادیں لیکن یہ سب کچھ ایک باریک دھاگے سے لٹکا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ یہ دھاگا کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ اگر اس کے خدشات صحیح ثابت ہوئے تو وہ کیا کرے گی۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود دس بارہ برس تک اس طرح کی زندگی گزارنے کے بعد کیا وہ نئے سرے سے بالکل دوسری طرح کی زندگی شروع کر سکے گی۔

    سوالیہ نشان پھیلا اور پھیلتا ہی گیا کہ ایک بوڑھی سی عورت نے دوسری عورت کی گود سے ایک بالکل چھوٹا سا بچہ لے کر مزار کے قدموں میں ڈال دیا۔ دونوں عورتوں نے جن کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے اسی جگہ بیٹھ کر سر کو اتنا جھکایا، اتنا جھکایا کہ سجدے کا گمان ہونے لگا۔ بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے جالی کے پاس جا کر ایک دھاگے کی گرہ کھول دی۔ بچہ کو گود میں اٹھا لیا، دونوں نے ایک بار پھر عقیدت سے مزار کی طرف گردنیں جھکائیں اور مزار سے باہر نکل گئیں۔ اسی لمحہ اس کی نظر ماں کی گود میں مسکراتے ہوئے بچہ پر پڑی اور وہ خود بھی مسکرا دی۔

    لیکن اس کی یہ مسکراہٹ عارضی تھی۔ ساری جالیوں پر محرومیوں، تمناؤں، ناکامیوں کے آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے لاکھوں لاکھ دھاگوں کے درمیان ایک پھول کب تک اپنی شادابی برقرار رکھ سکتا تھا۔ اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی کھولی تو سرخ دھاگا پسینہ میں بھیگ چکا تھا۔ اب وہ جالی کے کسی ایسے کونے کو تلاش کرنے لگی جہاں اس سے قبل کسی نے دھاگا نہ باندھا ہو۔ لیکن ایسی کوئی جگہ نہ تھی۔ ہر جگہ ایک دو نہیں درجنوں دھاگے بندھے ہوئے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے آنسو بہا رہے تھے۔ آنسوؤں کے اس سیلاب میں اس کے ایک قطرہ کی بھلا کیا اہمیت۔ گہرے زخم، غم و اندوہ کے پہاڑ، اور مصائب کے طوفان خیز دھارے جن کی یہ دھاگے علامت تھے، اسے اپنے غم کے مقابلے میں بے حد بڑے اور عظیم معلوم ہوئے۔

    اس نے ایک بڑا دھاگا لیا اور جالی کے چاروں کونوں پر باندھ دیا۔ پوری جالی کو گھیر کر، سارے غموں، دکھوں اور تمناؤں کا احاطہ کیے ہوئے۔ اب وہ رو پڑی۔ اس کی آنکھیں سمندر بن گئیں۔ اس نے آنسو پونچھنے کی کوشش کی اور رندھے ہوئے گلے سے بولی، ’’شیخ، ان سب کی مرادیں بر آئیں تو میرا غم بھی ہلکا ہو جائے گا۔ اتنے بہت سے دکھوں کے بیچ میں کیسے خوش رہ سکوں گی۔‘‘

    باہر صحن کے پتھر اب بھی اتنے ہی گرم تھے، سورج اب بھی آگ برسا رہا تھا لیکن ان کا احساس کیے بغیر، خاموش، گردن جھکائے وہ اس طرح باہر نکل آئی جیسے اس کے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔

  • تیسری تکبیر

    تیسری تکبیر

    بازار کی طرف دروازہ کھول کر میں بیٹھک میں اخبار پڑھ رہا تھا۔ پروفیسر اسد کی بیوی آئی اور مجھے سلام کر کے بڑی تیزی سے اندر چلی گئی۔

    تھوڑی دیر بعد میری بیوی نے آکر مجھے بتایا کہ پروفیسر اسد کے ہاں اس کے بیٹے مجی کو پکڑنے کے لیے پولیس آئی ہے۔ اس نے اس سے وجہ پوچھی تو میری گھبرائی ہوئی بیوی نے کہا کہ مجی کی ماں نے اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا اور وہ لوگ مجھے بلا رہے ہیں۔

    معاملہ محلے داری کا تھا اس لیے میرا جانا بہت ضروری تھا۔ میں نے فوراً اخبار بند کر دیا اور پروفیسر اسد کے ہاں چلا گیا۔ اس کے گھر کے سامنے محلے کے چیدہ چیدہ آدمی جمع تھے۔ سب انسپکٹر اور دو سپاہی چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ سپاہی پروفیسر اسد کا حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ میاں امین سب انسپکٹر کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور پروفیسر اسد محلے داروں سے مصروف گفتگو تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ میری طرف لپکا۔

    ’’یار غضب ہو گیا، یہ لڑکا بہت بدمعاش ہے، کم بخت نے آج یہ دن بھی مجھے دکھا دیا۔‘‘

    پروفیسر اسد سے کچھ پوچھنے کی بجائے میں نے سب انسپکٹر کو اپنا نام و نسب بتا کر اس ہنگامے کی وجہ پوچھی۔ اس نے خدا معلوم کس کو گالیوں سے نوازتے ہوئے پرچہ میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔۔ مجیب اسد ولد پروفیسر اسد علی سکنہ ہاشمی محلہ، ہمارے ہمسائے مسٹر اکمل کو سیٹیاں مارنے کے الزام میں ماخوذ تھا۔

    بات بڑی دلچسپ تھی کیونکہ مسٹر اکمل پچاس برس کا آدمی تھا۔ لیکن مجی سے اس بچپنے کی امید نہ کی جا سکتی تھی۔ وہ خاصا سلجھا ہوا انسان تھا، جانے کس ترنگ میں آکر اس نے یہ حرکت کی تھی۔

    میں نے ایس۔ آئی سے کہا، ’’جناب یہ کوئی قابل مواخذہ بات نہیں۔ اس میں کیا تُک ہے کہ سیٹی بجانے پر کسی کو گرفتار کر جائے۔ بالفرض اگر اس نے مسٹر اکمل کی طرف دیکھ کر سیٹی بجائی بھی تھی تو کونسی آفت آگئی۔ میں بھی دو بچوں کا باپ ہوں، میرے سر کے بال قریب قریب سفید ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی مجھے سیٹی مارے تو بخدا تھانے میں رپورٹ لکھوانے کے بجائے کسی رقص گاہ میں جاکر ناچوں گا کہ میں ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔‘‘

    ’’آپ نے یہ تو پڑھا نہیں۔‘‘ یہ دوسری رپورٹ تھی۔ مجی، مسٹر اکمل کا لیٹربکس کھول کر خط نکالنے کے الزام میں بھی ماخوذ تھا۔ اس سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔۔۔ بہرحال اگر اس نے کسی وجہ سے خط نکالے تھے تو یہ قضیہ بھی آپس میں طے ہو سکتا تھا۔

    مسٹر اکمل اور پروفیسر اسد محلّے کے شریف ترین آدمیوں میں شمار ہوتے تھے۔ جانے مسٹر اکمل نے کس وجہ سے پروفیسر کی عزت گندی نالیوں میں بہائی۔ میری سمجھ میں ابھی تک کچھ نہ آیا تھا۔ مجی کو اس کے لواحقین نے کہیں روپوش کر دیا تھا اور اب سب انسپکٹر اس کو ساتھ لے جانے پر مصر تھا۔

    مسٹر اکمل ابھی تک نہیں آیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے مکان کی طرف دیکھا، اس کی بیوی دروازے کی چق اٹھائے دیکھ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے میاں امین کو مسٹر اکمل کے گھر بھیجا کہ اس کو بلا لائے اور خود معاملہ رفع دفع کرانے کے لیے سب انسپکٹر کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔

    مسز اکمل نے میاں امین سے کہلوا بھیجا کہ آدھا گھنٹہ ہوا وہ دفتر گئے ہیں۔ مسٹر اکمل کا اتنی جلد دفتر جانا غیرمعمولی بات تھی۔ میں نے اس کے دفتر ٹیلیفون کرکے پوچھا تو چپراسی نے بتایا کہ ابھی چپراسیوں کے سوا کوئی نہیں آیا۔

    میں نے سب انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معنی خیز انداز میں اس کا کندھا دبایا اور اسے تھوڑی دور تک اپنے ساتھ لے گیا۔ چند ایک منٹوں کے بعد جب ہم لوٹے تو اس نے سپاہیوں سے کہا، ’’اب یہاں کون اتنی دیر تک مغزماری کرے اور کام بھی تو کرنے ہیں۔۔۔ کل آئیں گے۔‘‘

    پھر اس نے پروفیسر اسد کو تاکید کی کہ مجرم کل یہاں موجود ہونا چاہیے۔ سپاہیوں نے ہتھکڑی اٹھائی۔ حقے کے لمبے لمبے کش لیے اور چلے گئے۔

    محلے کے لوگوں میں طے پایا کہ شام کے وقت میاں امین کے گھر میں مسٹر اکمل اور دیگر احباب کو بلا کر سمجھوتا کرا دیا جائے۔

    مسٹر اکمل کی حالت بہت قابل رحم تھی کیونکہ وہ اپنی بیوی کے سامنے یوں ہو جاتا جیسے لومڑی کے سامنے خرگوش، وہ زن مرید تو نہ تھا لیکن کوئی نہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی، اس کے ساتھ بالکل سوتیلے بچوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ جب وہ نئے نئے اس محلے میں آکر بسے تھے تو محلے کی عورتوں کا خیال تھا کہ مسز اکمل ایسی اچھی اور نیک دل خاتون شاید ہی کوئی ہو۔ وہ اس کے سلیقے اور خوش نما لباس سے زیادہ اس کے برتاؤ سے متاثر تھیں۔ مسٹر اکمل بڑا فرماں بردار قسم کا خاوند تھا اور سب عورتوں کا خیال تھا کہ سب بیویوں کے خاوند ایسے ہی ہونے چاہئیں۔

    اس کی تینوں جوان بیٹیاں سردیوں کے دنوں میں بالکنی میں بیٹھ کر دھوپ سینکا کرتیں۔ گرمیوآں‌ کی شامیں بھی وہ اسی بے پردہ جگہ میں گزارتیں اور باہر آنے جانے والے کو دعوت نگاہ دیتیں۔ جب وہ بن سج کے کسی غرض سے باہر نکلتیں تو محلے کے نوجوانوں کی آنکھیں مجبور ہو جاتیں کہ وہ کچھ نہیں تو کم از کم ایک نگاہ اٹھاکر ہی دیکھ لیں۔ یوں اور بھی کئی نوجوان بڑی دور سے سونگھتے ہوئے آتے اور سارا دن بالکنی کی طرف نظریں گاڑے، بلوں کے مانند، بالکنی میں بیٹھی ان چڑیوں کی طرف بھوکی نگاہوں سے دیکھتے۔ مسٹر اکمل کی چڑیاں ان آوارہ بلّوں سے بہت لطف اندوز ہوتیں۔

    جب محلے میں ان بلّوں کی آمد و رفت زیادہ ہو گئی اور ان کی نگاہیں دوسرے مکانوں کی طرف اٹھنے لگیں تو لوگ دبی دبی زبان میں اعتراض کرنے لگے۔ مسٹر اکمل اپنی بیوی سے بازپرس کیے بغیر جس طرح بھی ممکن ہوتا ان لوگوں کو مطمئن کر دیتا۔ شاید اس لیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرنے کی اس میں جرأت نہیں تھی۔ لیکن جب مسٹر اکمل کی غیر حاضری میں ان کے دروازے کے سامنے ہر روز نئی چمکیلی کاریں آنے لگیں تو محلے کی بڑی بوڑھیوں نے مسز اکمل کی شرافت، سلیقے اور برتاؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے صاف طور پر اس سے کہہ دیا کہ بہن! اپنی بیٹیوں کے چلن ٹھیک کرو۔ ان کے باعث محلے کے شرفا کی عزت کو گھن لگ رہا ہے۔

    مسز اکمل یہ سن کر مصنوعی سناٹے میں آ گئی۔ ’’آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ میری بیٹیاں اور ایسی ہوں۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر میری بچیاں میک اپ کرکے باہر جاتی ہیں تو کوئی حرج نہیں، آج کل سب لڑکیاں بناؤ سنگار کرتی ہیں۔۔۔ کون ہے جو اپنے کو سنوارنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ماشاء اللہ میری لڑکیاں خوبصورت ہیں اسی لیے آپ لوگ جلتی ہیں۔ اس محلے میں کوئی بھینگی، کوئی لنگڑی۔۔۔ کسی کا سر بڑا ہے تو کسی کا رنگ توے کے مانند۔۔۔ جبھی تو لوگ میری بیٹیوں کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘

    جب ان چمکیلی کاروں کا حوالہ دیا گیا تو مسز اکمل نے انہیں بتایا کہ ان کاروں میں اس کے وہ رشتہ دار آتے ہیں جن کے ساتھ بعض خاندانی جھگڑوں کے باعث تعلقات بگڑ چکے تھے۔ لیکن بفضل خدا اب تعلقات سنور چکے ہیں۔۔۔ اور کھاتے پیتے آدمی ہیں۔

    مسز اکمل نے ہر طرح انہیں قائل کرنا چاہا، لیکن بڑی بوڑھیاں مطمئن نہ ہوئیں۔ بلکہ شام کے وقت محلے کے معززین مسٹر اکمل سے ملے اور اس کی شکایت کی۔ اس نے بہت نادم ہوکر کہا۔ ’’میں اپنی بیوی سے دریافت کروں گا۔‘‘

    مسٹر اکمل نے بڑی ہمت کرکے اپنی بیوی سے پوچھا، تو وہ برس پڑی، ’’میں نے تم سے کئی مرتبہ کہا کہ میرے معاملات میں دخل نہ دیا کرو۔‘‘

    ’’بیگم، عزت کا سوال ہے۔‘‘

    بھاڑ میں جائے تمہاری عزت۔۔۔ گھر میں جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں، ان کا خیال نہیں؟ ساڑھے تین سوروپیہ ماہوار میں کس کس کی شادی کرو گے۔۔۔؟ اپنی عزت کے ساتھ بیاہو گے کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’تمہارے اسی قسم کے دلائل نے مجھے پہلا محلہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب یہاں کی بنی بنائی عزت کو تو تباہ نہ کرو۔‘‘

    ’’شادی پیسے کے ساتھ ہوتی ہے عزت کے ساتھ نہیں۔ لوگ پیسہ دیکھتے ہیں۔ میرے والدین نے تمہارے پاس رقم دیکھ کر کی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ تم چند ہی سالوں میں کنگلے ہو جاؤ گے۔۔۔ ورنہ میں تم سے کبھی شادی نہ کرتی۔‘‘

    اور حقیقت بھی یہی تھی۔ اگر مسز اکمل کو علم ہوتا کہ اس کی تیسری بیٹی کی پیدائش تک مسٹر اکمل کی ساری جائیداد بک جائے گی اور نوکری کرنا پڑے گی تو وہ کبھی اس کے ساتھ شادی نہ کرتی۔ اس میں مسٹر اکمل کا کوئی قصور نہ تھا۔ کیونکہ اس کی مسز نے اس کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کھول کر فضول خرچی کی اور اپنی سب عادتیں چھوڑ کر ریس کھیلنے کی عادت کو برقرار رکھا۔ پھر اس کی پہلی دو بیٹیوں کے باعث اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔ اس زمانے میں فراوانی تھی اس لیے ہر چیز پر کھلا خرچ ہوتا تھا لیکن جب تیسری لڑکی پیدا ہوئی تو مسٹر اکمل قریب قریب دیوالیہ ہو چکا تھا۔ اس لیے اپنے آبائی شہر میں جائیداد کا آخری مکان بیچا اور یہاں چلا آیا۔ مہینہ دو مہینہ بے کار رہنے کے بعد اسے پرائیوٹ فرم میں نوکر مل گئی۔

    مسز اکمل کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا حساب تھا۔ وہ اپنے میکے اس لیے نہ جا سکتی تھی کیونکہ وہاں طبلے کی تھاپ پر جوانی بکتی تھی اور اس کی جوانی کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔ مسٹر اکمل کی ساڑھے تین سو کی آمدن میں گزارہ مشکل تھا۔ وہ ہر روز اپنے خاوند کو جلی کٹی سناتی، طعنے دیتی۔ وہ خاموش رہتا اور پھر کئی کئی دن تک ان کی آپس میں گفتگو نہ ہوتی۔

    اب مسز اکمل کی صرف ایک خواہش تھی کہ اس کی بیٹیاں پریوں کا روپ دھار لیں۔ وہ سارا روپیہ اپنی بیٹیوں کو خوبصورت بنانے میں صرف کرتی، جس سے اس کو دماغی سکون حاصل ہوتا اور وہ یوں محسوس کوتی گویا اپنے چہرے پر ماضی کا غازہ تھوپ رہی ہے۔ اپنی تیسری بیٹی کے جوان ہونے پر مسز اکمل نے بہترین لباس پہننا شروع کر دیا۔ مسٹر اکمل کی غیر حاضری میں اس کی پہلی بیٹی کے تین چار دوست اس سے ملنے کے لیے آنے لگے۔ آخر کب تک….. محلے والے سب کچھ جان گئے اور پھر مجبوراً انہیں وہ محلہ چھوڑنا پڑا۔

    مسٹر اکمل اپنے محلے والوں کی طرح جانتا تھا کہ ساڑھے تین سو روپے میں اتنے اچھے لباس اور میک اپ کا قیمتی سامان کیوں کر آ سکتا ہے اور اس کی بیوی ریس کورس کیوں کر جا سکتی ہے؟ خدا معلوم انہوں نے اپنی بیوی کو ڈانٹنے کی بجائے خاموشی مناسب کیوں سمجھی؟

    مسز اکمل نے دوسرے محلے میں آتے ہی اپنی شرافت کی دھاک بٹھاکر مختلف گھروں میں جھانکا کہ ایسا گھر مل جائے جس پر وہ اپنے دانت تیز کر سکے لیکن اس کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ محلے میں کوئی اتنا دولت مند نہیں تھا جس کے بیٹے اس کی بیٹیوں کو شاپنگ کرا سکتے اور اسے ریس کورس لے جا سکتے اور یہی وجہ تھی کہ اس کو ان لوگوں پر کوئی اعتراض نہ تھا جو اس کی بیٹیوں کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں گھر تک چھوڑنے آتے تھے۔۔۔ مبادا کسی کے ساتھ کوئی سلسلہ ہو جائے۔ مسٹر اکمل کو اپنی مسز کے مشاغل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنی غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ دینے کو تو وہ طلاق بھی دے سکتا تھا، لیکن اسے اپنی تینوں بیٹیوں کا خیال آ جاتا تھا اور اس رات اس نے پہلی مرتبہ اپنی بیوی سے اس سلسلے میں دریافت کیا تھا تو اس نے بیٹیوں کی شادی کے مسئلے کو ڈھال بناکر سامنے رکھ دیا تھا جس پر مسٹر اکمل کے وار بے اثر تھے۔

    اگلے دن مسٹر اکمل محلے داروں کو کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ان لوگوں نے اس سے تعلقات قریب قریب منقطع کر لیے اور مسٹر اکمل کی حیثیت محلے میں بالکل ایسی ہو گئی جیسے حقے میں سڑے پانی کی۔

    محلے کے نوجوانوں کی ہر محفل میں کسی نہ کسی بہانے مسز اکمل کی ان تکبیروں کا ذکر ضرور ہوتا لیکن مجی ہمیشہ خاموش رہتا۔ اس کے دوست اسے مذاق کرتے، پھبتیاں کستے اور وہ یہی کہتا، ’’مجھے ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے اسے بڑا دکھ سا ہوتا، کیونکہ اس کے ذہن میں ہر وقت یہ سوال گونجتا رہتا تھا کہ یہ لڑکیاں ایسی کیوں ہیں؟ پھر بھی وہ اپنے دل کے دکھ کو اپنے دوستوں کے سامنے اس جواب کی صورت میں زبان پر لاکر خود کو بہت ہلکا سا محسوس کرتا۔ پھر وہ سوچتا، اس میں ان بیچاری لڑکیوں کا کیا قصور ہے؟ مسز اکمل نے ان کی لچکیلی۔ ہڈیاں جس شکل میں موڑ دیں، مڑگئیں۔ پھر اس کے ذہن میں ایک اور سوال ابھرتا۔ اگر کوئی چاہے تو کیا ان ہڈیوں کو اپنی اصلی صورت میں نہیں لا سکتا؟

    جب بھی وہ مسز اکمل کے گھر کے سامنے سے گزرتا تو اس کی آخری تکبیر کی گنگناہٹ اس کا تعاقب کیا کرتی، لیکن وہ ہمیشہ یہی سمجھتا کہ یہ تکبیر بھی ایک عام دعوتی رقعہ ہے۔ اس کے پاس کئی مرتبہ کلثوم کی نگاہوں کے پریس میں چھپے ہوئے رقعے آئے، جانے کس وجہ سے وہ ان کے پروف تک نہ پڑھ سکا۔

    ایک دن محلے کے تمام گھروں میں مسٹر اور مسز اکمل کی طرف سے ان کی دو بڑی بیٹیوں کی شادی کے دعوت نامے موصول ہوئے۔ دونوں کی شادی میں ایک ہفتے کا وقفہ تھا۔
    محلے کی اکثریت کی طرح مجی کا ارادہ بھی شادی میں جانے کا نہیں تھا۔

    پہلی لڑکی شادی سے ایک روز پہلے وہ اس کے گھر کے سامنے اور میاں امین کے گھر کے نیچے گامے کی دوکان سے سگریٹ خرید کر واپس آ رہا تھا کہ مسٹر اکمل کے نوکر نے اس کو ایک کاغذ دیا۔ مجی کے استفسار پر لڑکے نے مسٹر اکمل کے مکان کی طرف دیکھا اور جواب دیے بغیر بھاگ گیا۔ مجی نے اس مکان کی طرف نظریں اٹھائیں، بالکنی میں کلثوم کھڑی تھی۔ مجی نے فوراً رقعہ پڑھا، لکھا تھا ’’آپ کل شادی میں ضرور آئیں۔‘‘ اس نے دوبارہ کلثوم کی طرف دیکھا۔۔۔ کلثوم کی نگاہیں مجی کے دل میں اترنے لگیں۔
    ’’آپ ضرور آئیں، آپ کو آنا چاہیے۔‘‘

    اس نے کاغذ جیب میں رکھا اور چلا آیا۔ وہ سوچتا رہا کہ اسے جانا چاہیے یا نہیں۔ جب اس کے دل میں التجا سے بھری دو آنکھیں اترنے لگتیں تو وہ اپنے دل کو ٹٹولتا اور فیصلہ کر لیتا کہ ضرور جائے گا۔ لیکن جب اس کی ماں اور چمکیلی کاروں کا تصور ذہن میں آتا تو وہ کہتا، ’’یہ سب بکواس ہے، فراڈ ہے۔ کلثوم میرے لیے نہیں، وہ خالصتاً اپنی ماں کی جائیداد ہے جس کو میں خرید نہیں سکتا اور اس کی ماں کے نزدیک محبت کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘

    صبح تک اس کا ارادہ جانے کا نہیں تھا۔ مگر جانے پھر کس خیال سے اس نے وہ سوٹ نکال کر پہنا جو اس نے نوکری کے انٹرویو کے لیے پہنا تھا اور مسٹر اکمل کے ہاں چلا گیا۔
    وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مسٹر اکمل نے پروفیسر اسد کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ طبیعت خراب ہونے کے باعث نہیں آسکے۔ مسٹر اکمل سمجھ گیا کہ مجی جھوٹ بول رہا ہے۔

    شادی کا اتنظام بہت اچھا تھا۔ مسز اکمل بہت خوش تھی اور اس کی خوشی نواب زادہ اکبر علی کے ساتھ آئے ہوئے بینڈ کی صورت میں چیخ رہی تھی اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی اپنی روح حجلۂ عروسی بن گئی ہے۔ اس کی سالہا سال کی محبت کا پھل، اس کا پانی پہلی تکبیر کی آواز کے رس کی صورت میں ٹپک رہا تھا۔

    باراتی کھانا کھا رہے تھے، شہنائیاں چیخ رہی تھیں، کلثوم نے نوکر کے ذریعے مجی کو بلایا اور اوپر اپنے کمرے میں لے گئی۔ اس کی ماں نچلی منزل میں مہمانوں کے پاس تھی۔

    مجی نے کہا، ’’فرمائیے۔‘‘

    ’’آپ کو ہمارے ہاں آکر خفت تو محسوس نہیں ہوئی۔‘‘

    مجی خاموش تھا۔ کلثوم نے کہا، ’’مجھے اپنی امی پسند نہیں، مجھے اپنے گھر سے نفرت ہے، میں یہاں سے کہیں چلی جانا چاہتی ہوں۔۔۔ اب امی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھنے کی میری باری ہے۔۔۔ مجھے شوکت سے نفرت ہے۔‘‘

    پھر کلثوم نے مجی کو بتایا کہ اس کو اس سے بہت محبت ہے اور وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

    اس دن مجی کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ کلثوم کی نگاہوں کے پیغام صرف اس کے لیے تھے۔ وہ اپنی بہنوں سے مختلف ہے، وہ اپنی ماں کی ضد ہے، وہ اس کو غلط سمجھتا رہا ہے۔۔۔ آذر کے ہاں اب بھی ابراہیم پیدا ہو سکتے ہیں، مسز اکمل ایسی عورتوں کے ہاں کلثوم ایسی لڑکیاں پیدا ہو سکتی ہیں، مریم کی طرح پاک اور میرا بائی کی طرح مقدس۔۔۔ کلثوم کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

    ایک ہفتے کے بعد دوسری تکبیر بھی بڑی دھوم دھام سے پڑھ دی گئی۔

    مسز اکمل کی موجودگی میں ان دونوں کا آپس میں ملنا قریباً ناممکن تھا۔ اس لیے یہ ایک دوسرے کو طویل خط لکھ کر اپنے ذہنوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ پھر مجی نے اس سے کہا کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے ملنے کے بہانے اس سے ملنے آ جایا کرے۔ کلثوم کی کوئی سہیلی نہ تھی، شوکت بی۔ اے کے امتحان میں مصروفیت کے باعث صرف دوپہر کے وقت کھانے پر ملنے کے لیے آتا تھا۔ کلثوم نے کہا کہ وہ شام کے وقت شوکت سے ملنے کے لیے اس کے ہوسٹل جایا کرے گی۔ اس کی ماں نے اس کو اجازت دے دی۔

    وہ شوکت سے ملنے کے بہانے مجی کے ساتھ سیر کرنے کے لیے جاتی رہی۔ مسز اکمل اپنی بیٹی کی طرف سے مطمئن تھی کیونکہ آخر وہ اپنی بری بہنوں کی طرح مسز اکمل ہی کی بیٹی تھی۔ اس لیے اس نے شوکت سے اس کی شاموں کے بارے میں کچھ نہ پوچھا۔۔۔ اور شوکت کو ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی تھی کہ وہ شام کے بارے میں امتحان کے دنوں میں سوچتا۔

    پھر اس کے امتحان ختم ہو گئے اور وہ دوسرے ہی دن دوپہر کے علاوہ شام کو بھی آیا۔ مسز اکمل نے حیرانی سے کہا، ’’وہ تو آپ ہی سے ملنے گئی ہے۔‘‘ شوکت نے لاعلمی کا اظہار کیا تو مسز اکمل نے متفکر ہوکے پوچھا، ’’تو کیا وہ کل بھی آپ کے ہوسٹل نہیں آئی۔۔۔؟‘‘
    اس نے نفی میں سر ہلا دیا اور مسز اکمل کا تجربہ کار ذہن معاملے کی تہ تک پہنچ گیا۔ اس رات کلثوم لوٹی تو اس کی ماں نے اسے خوب پیٹا۔ جب اس کے جسم پر نیلے نشان پڑ گئے تو اس نے بتایا کہ وہ مجی کے ساتھ جاتی رہی ہے۔ مسز اکمل نے اس کے دودھیا جسم پر اور نیلے داغ ڈالے تو اس نے مجی کے لکھے ہوئے تمام خطوط اس کے حوالے کردیے۔ مسٹر اکمل دوسرے کمرے میں اپنے دفتر کا کام کرتے ہوئے سب کچھ سن رہا تھا۔

    اس نے کہا، ’’بچی کو ختم کر کے دم لو گی کیا۔۔۔؟‘‘

    مسز اکمل چیخی، ’’تم اپنے کام سے کام رکھو جی۔۔۔ بکواس نہ کرو۔‘‘

    اور مسٹر اکمل مزید بکواس کیے بغیر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کلثوم اس دن کے بعد پھر کبھی مجی سے ملنے نہ آئی۔ کیونکہ مسز اکمل کبھی اس کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی تھی۔ مجی نے دو ایک مرتبہ نوکر کے ذریعے اس کو خط بھیجے لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ پھر جب شوکت کی نیلی اولڈس موبیل کنور ٹیبل ہر وقت مسز اکمل کے ہاں رہنے لگی اور دونوں ماں اور بیٹی اس کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے جانے لگیں تو مجی کو ایسا محسوس ہوا جیسے کلثوم کے وعدے اور محبت اس کے اصل کردار پر میک اپ تھے جس کو شوکت کے سرمائے نے دھو دیا ہے۔

    مسز اکمل اپنے اس امام کے ذریعہ سے جلد از جلد تیسری تکبیر پڑھنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کو ان خطوں کا فکر کھائے جا رہا تھا جو کلثوم نے مجی کو لکھے تھے۔ مبادا مجی ان خطوں کی آڑ میں کلثوم کو اس کے سسرال میں بدنام کرنے کی کوشش کرے اور شادی کے بعد ردِّعمل کے طور پر اس کی زندگی اجیرن کر دے۔۔۔ وہ دن رات اس سے خط حاصل کرنے کی ترکیبیں سوچتی رہتی۔ مگر اس کا تجربہ کار ذہن اس عقدے کو حل کرنے سے قاصر تھا۔

    ایک دن مجی اپنے کمرے میں بیٹھا ماضی کے دھندلکے میں یادوں کے دیے جلا رہا تھا کہ کلثوم کے نوکر نے آکر ایک خط دیا۔ خط بہت مختصر تھا۔ وہ فوراً اس کے گھر گیا۔ اس کے آتے ہی کلثوم نے بڑی درشتی سے کہا، ’’مجیب صاحب میرے خط لوٹا دیجیے۔‘‘ لیکن اس کی آنکھوں میں وہی پیار اور وحدت تھی جو مجی کے لیے مخصوص تھی اور جسے مجی بہت دور سے محسوس کر لیا کرتا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔۔۔ ’’لیکن کلثوم۔۔۔‘‘

    ’’میں کچھ اور سننا نہیں چاہتی۔۔۔ بس آپ میرے خط واپس کر دیجیے۔‘‘ اس نے آنکھوں کے پیار کو حدت میں جلانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

    جب مجی کسی طرح نہ مانا تو اس نے بڑی التجا سے کہا، ’’میرے مستقبل کو تباہ نہ کیجیے۔۔۔ اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے تو میرے خط لوٹا دیجیے۔۔۔‘‘

    ’’تمہارے خط میری زندگی کا سرمایہ ہیں، میری زندگی ہیں۔۔۔ کلثوم! میں مجبور ہوں۔‘‘ پھر اس نے کہا، ’’بس، اس لیے بلایا تھا۔‘‘

    کلثوم کی آنکھوں میں پیار حدت کی شدت سے پگھل کر بہہ نکلا۔ جب اس نے نظریں اٹھائیں تو مجی جا چکا تھا اور اس کی ماں دروازے کا پردہ اٹھا کر کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’تم نے خود ہی اپنا مستقبل تباہ کیا ہے۔۔۔ نہ اس حرامی سے یارانہ رکھتیں نہ آج یہ دن دیکھنا پڑتا۔ اب میں اس سے زیادہ اور کیا کر سکتی ہوں کہ اس سنپولیے کو تمہارے لیے میں نے خود بلایا تھا۔‘‘ مسز اکمل نے کچھ اس انداز سے کہا، جس انداز سے وہ مسز اکمل بننے سے پہلے گفتگو کیا کرتی تھی۔

    اس کے بعد اس نے مجی کو مختلف لوگوں کے ذریعے بدنام کرنا شروع کر دیا کہ شاید مجی اس سے متاثر ہوکر خط واپس کردے۔ پروفیسر اسد کے پاس نت نئی شکایتیں آنے لگیں۔ جس کے باعث وہ اپنے بیٹے سے بہت تنگ آ گیا۔ وہ اپنے بیٹے سے ان شکایات کی صداقت کے بارے میں دریافت کرتا، مگر مجی خاموش رہتا۔ جب وہ اپنے باپ کے سوالوں سے اکتا گیا تو اس نے کہا، ’’اگر آپ کوان باتوں پر یقین ہے تو ٹھیک ہے۔‘‘

    پروفیسر اسد کو مجی سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اپنے شریف باپ کی عزت کو اس طرح داغے گا۔ محلے کے نوجوان جب بھی اس سے ملتے تو کہتے، ’’یار تم بڑے چھپے رستم نکلے، خوب عیش کرتے ہو اور سناؤ تمہاری ساس کا کیا حال ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    مجی یہ سب کچھ سن کر مسکرا دیتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کلثوم اس کو کیوں بدنام کر رہی ہے اور اس کے محلہ داروں کا انداز طنزیہ کیوں ہے۔ وہ دل ہی دل میں کہتا، ’’کچھ بھی ہو کلثوم۔۔۔! خطوں کو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا، تمہارے خط میری روح ہیں۔‘‘

    جب مسز اکمل کی مجی سے خط حاصل کرنے کی ساری ترکیبیں بالکل اسی طرح اکارت گئیں جیسے کلثوم کے دل سے مجی کا نقش مٹانے کی تو پولیس میں رپورٹ درج کرا کے اپنا آخری حربہ استعمال کیا۔ مسٹر اکمل اپنی بیوی کے احکام اس طرح بجا لایا جیسے وہ کوئی غیر مرئی ہستی تھی۔ وہ اسی وقت گیا اور جو کچھ اس کی بیوی نے اس کو سکھایا تھا اس نے طوطے کے مانند رٹا ہوا سبق تھانے میں دھرا دیا اور مسز اکمل نے ادھر مجی کو پیغام بھیج دیا کہ اگر وہ خطوط لوٹا دے تو رپورٹ واپس لی جاسکتی ہے۔ مجی کے سر پر ضد کا بھوت سوار تھا۔ وہ روپوش ہوگیا اور اب پولیس اسے ڈھونڈ رہی تھی۔

    سہ پہر کے وقت معززین میاں امین کے گھر جمع ہوئے چونکہ مسٹر اکمل اپنی بیوی کے منع کرنے کے باعث نہ آیا تھا اس لیے کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تھا۔

    دن ڈھلے مجی گھر آیا، پروفیسر اس کو دیکھتے ہی ڈانٹنے لگا۔ وہ خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ پروفیسر کے سامنے دلائل پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

    پروفیسر اسد نے آخر میں کہا، ’’آخر تم اس بازاری عورت کی بازاری لڑکی کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو۔۔۔ تمہاری وجہ سے میں اتنا بدنام ہوا ہوں۔ اگر تم اس لڑکی کو نہیں چھوڑ سکتے تو تم ایسے ناہنجار کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘ وہ خاموش تھا۔

    ’’تم جو چاہو اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔‘‘ پروفیسر اسد نے خدا معلوم غصے میں کہا تھا یا سنجیدگی سے، بہرحال مجی اٹھا۔ اس نے اپنی الماری کھول کر کلثوم کے خطوط لیے اور اپنے باپ سے کچھ کہے بغیر مکان سے باہر آگیا۔ وہ خود اس قبرستان میں نہیں رہنا چاہتا تھا جہاں اس کو ہروقت اپنی محبت کی قبر پرجلتی ہوئی اگربتیوں کی خوشبو آتی رہتی تھی۔

    کلثوم کے خط اس کے سینے کی جیب میں دھڑک رہے تھے، وہ آخری بار اس سے ملنا چاہتا تھا، آخری بار۔۔۔ پھر شاید زندگی میں اس سے کبھی نہ مل سکے۔۔۔ وہ اس کو صرف بتانا چاہتا تھا کہ دیکھ کلثوم۔۔۔! تمہارے لیے اپنے گھر سے بھی نکال دیا گیا ہوں اور تم۔۔۔ آخر تم لڑکی ہو، قلوپطرہ اور ہیلن آف ٹرائے کی جنس سے۔۔۔ جو کسی کی بھی نہ ہو سکیں۔

    پھر آدھی دنیا کو آسمان سے ابلتے ہوئے اندھیروں نے لپیٹ لیا اور وہ اس کے گھر کے سامنے کھڑا ہو کر اس سے ملنے کے پیچیدہ مسئلے کا حل سوچنے لگا۔ اس نے کلثوم کے نوکر کو دیکھا جو ہاتھ میں کٹورا پکڑے دودھ دہی کی دکان سے آ رہا تھا۔ اس نے کاغذ پر کچھ لکھا اور اس کے نوکر کو بلاکر دے دیا۔

    قریباً پانچ منٹ بعد نوکر نے آکر کہا، ’’گیارہ بجے احاطے میں۔‘‘ گیارہ بجے مکان کی پچھلی طرف احاطے میں کلثوم آئی۔ مجی لمحہ بھر کے لیے اپنی نگاہوں سے اس کے دل کو ٹٹولتا رہا۔ پھر جانے اس کو کیا سوجھی کہ اپنی جیب سے تمام خط نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم نے بھی اپنے آپ کو اپنی بہنوں کی طرح شو کیس میں بکنے کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میں قیمت ادا نہ کر سکا۔‘‘

    ’’مجی۔۔۔! مجھے دنیا کی سب سے عزیز چیز کی قسم، مجھے تمہاری قسم میں بے قصور ہوں۔‘‘

    ’’اپنی ماں سے کہو کہ تمہارے خط فریم کرا کے ڈرائنگ روم میں لٹکا دے، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ اس کی بیٹی محبت کرنے میں کتنی ماہر ہے۔‘‘

    ’’مجی۔۔۔‘‘

    ’’میں جا رہا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’مجھے علم نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑا۔

    کلثوم نے اس کا بازو تھام کر کہا، ’’میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘ دوسری صبح جب مسز اکمل کو معلوم ہوا کہ تیسری تکبیر کوئی دوسرا امام پڑھ گیا ہے تو اس کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے گنبدوں میں تریڑیں آ گئی ہیں۔

    مسٹر اکمل اسی روز اپنے تباہ شدہ معبد کو لے کر کسی دوسرے محلے میں چلے گئے۔

    (اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور ادیب ڈاکٹر انور سجاد کی تحریر کردہ ایک کہانی)

  • فوکس سے باہر زندگی

    فوکس سے باہر زندگی

    وہ اکثر اِسی طرح دیکھتی رہتی ہے۔ آنکھوں میں پانی بھر آتا ہے اور پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بہت ہوا تو چنری کے پلو سے آنکھیں پونچھ کر ٹھنڈا سانس بھرتی ہے، اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتی۔

    آنگن سے آگے برآمدے میں پلنگ پر لیٹا ہوا پپو اور اس کے قریب تپائی پر شیشیاں، گلاس اور پیالیاں۔ یہ سب اسے پاورچی خانے سے نظر آ رہا ہے۔ جب دوسرے بچے کھا پی کر اسکول چلے جاتے ہیں اور وہ اکیلی بیٹھی ہوتی ہے تو زینو کے نہ ہونے کا احساس اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ اُس وقت ان گنت سوچیں گدھوں کی طرح اس کے دماغ کے ارد گرد چکر لگا لگا کر شور مچاتی رہتی ہیں۔ اور اسے لگتا ہے کہ کہیں وہ پاگل نہ ہو جائے۔

    ابھی پرسوں جب اسے پتہ چلا کہ پپو نے محلے کے ایک گھر سے پیسے چرائے ہیں تو دل کی عجیب کیفیت ہو گئی تھی۔ نہ اسے پپو پر غصہ آیا، نہ محلے والوں سے شکایت کرنے گئی۔ بس سر پکڑ کر بیٹھی رہ گئی تھی۔ چپ چاپ۔

    اور جب آج صبح اُسے معلوم ہوا کہ انو کل کلاس سے بھاگ کر فلم دیکھنے چلا گیا تھا تو اس کی پھر وہی حالت ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے آنکھوں میں پپو کا چہرہ چھایا ہوا تھا کہ پھر محلے کے منو کا چہرہ ابھر آیا۔

    ’’دیکھو ماسی، میں تو صرف اس لیے کہتا ہوں کہ کہیں اسے عادت پڑ جائے، بس ۔ ورنہ کہتا بھی نہیں۔ اور دیکھو زیادہ غم نہ کرنا۔ اس عمر میں یہی ہوتا ہے‘‘۔

    اس کے اپنائیت بھرے لہجے کی چبھن اسے اپنے اندر محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے منو کے سامنے خود کو روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی…

    ’’نہیں بیٹے! ہم یہی سب بھوگنے کے لیے تو ہیں۔ ہمیں تو یہ سہنا ہی پڑے گا… ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے‘‘۔

    منو ہکا بکا رہ گیا۔ پھر کہنے لگا ’’اچھا ماسی، میں چلتا ہوں۔ کالج کو دیر ہو رہی ہے۔ پھر آؤں گا‘‘۔

    اس کے جانے کے بعد ایک دم گھٹن اور خاموشی چھا گئی، بالکل ویسی کاٹ کھانے والی خاموشی جیسی کھٹکے کے بعد چھا جاتی ہے۔ اس وقت وہ اسی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اسے رہ رہ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سارا گھر اس کے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے، یا ہو چکا ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی، کچھ بھی نہیں۔ زینو، انو، پپو، نازو۔ اور ان سب کے بیچ میں وہ۔

    اس کے باوجود وہ اس بارے میں اپنے شوہر سے بہت کم بات کرتی ہے۔ یہ سب کچھ خود سہنے کی کوشش میں لگتا ہے کہ وہ ہانپنے لگی ہے۔

    لیکن وہ کہے بھی کیونکر؟ اسے معلوم ہے کہ وہ نو بجے سے بھی پہلے گھر سے نکلتا ہے اور کہیں شام کو چھ بجے اس کی صورت نظر آتی ہے، تب مہینے میں کہیں ساڑھے چار سو روپے ملتے ہیں۔ اگر اوور ٹائم نہ کرے تو بیس دن بھی نہ نکلیں۔ اس کا ذہن ویسے ہی تھکن اور الجھن میں ہوتا ہے۔ اگر وہ یہ سب رونا رونے بیٹھ جائے تو شاید وہ اس سے بھی پہلے پاگل ہو جائے۔ پھر اسے لڑائی جھگڑے کی بالکل سہار نہیں۔ کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے تو ایک دم آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ پچھلے ہفتے انو کو کتنا مارا تھا۔ وہ تو نہ جانے کس طرح خود ہی رحم آ گیا اور اس کے بعد پشیمانی میں کتنے ہی دن بولنا چھوڑ دیا تھا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتا رہتا تھا۔

    وہ ابھی کھانا کھا کر سوچوں میں گم تھی کہ پپو نے پانی مانگا، تب وہ چونکی۔ پھر اُٹھ کر ہاتھ دھوئے اور پپو کے پاس آکر اسے پانی پلایا اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستہ آہستہ سہلانے لگی۔ پپو نے آنکھیں موند لیں۔

    آنگن میں آکر اس نے کپڑوں کا ڈھیر دیکھا تو سستی چھانے لگی۔ آرام کرنے کی خواہش نے سر اُبھارا۔ لیکن ابھی تو بہت کام پڑا ہے۔ برتن مانجھنے ہیں، کپڑے دھونے ہیں، پپو کو مسمی کا رس پلانا ہے، تب کہیں سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ نل کے آگے برتن اکھٹے کرکے دھیرے دھیرے انہیں دھونا شروع کرتی ہے۔ اچانک اسے وہ بڑھیا یاد آتی ہے جو کئی سال پہلے برتن مانجھنے آیا کرتی تھی۔ صرف پانچ روپے اور روٹی۔ اور برتنوں کا ڈھیر! اب تو کوئی پچاس سے کم بات بھی نہیں کرتا، ایسی باتیں سوچ کر اسے اپنی تنگدستی پر بڑی بے چینی ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ تھکی ہوتی ہو۔ لیکن اسے پتہ ہے کہ اور کوئی راستہ بھی تو نہیں۔ اس لیے سوچنا بیکار ہی لگتا ہے۔

    برتن مانجھنے کے بعد وہ ایک گہرا سانس لیتی ہے جیسے کہہ رہی ہو، چلو کچھ تو بوجھ کم ہوا۔ پھر سستی چھانے لگتی ہے تو پھر دل کو سمجھاتی ہے ’’بس کپڑے ہی تو رہ گئے ہیں۔ دھو لوں تو پھر آرام سے لیٹ جاؤں گی‘‘۔

    وہ بالٹی لا کر پانی بھرتی ہے اور سانس روک کر اٹھتی ہے۔ اسے کچھ تعجب ہوتا ہے، اس عمر میں ایسی تھکن، پینتیس برس بھی کوئی عمر ہے۔ لیکن کچھ بھی کرنے کو اس کا دل نہیں چاہتا۔ پتہ نہیں کس بل پر مشین کی طرح سب کچھ کرتی جاتی ہے … کرتی رہتی ہے۔ لیکن وہ مشین تو نہیں ہو سکتی۔

    کپڑوں میں زینو کی قمیض بھی آ گئی دھلنے کو۔ کپڑے دھوتے دھوتے جب زینو کی قمیض ہاتھ میں آئی تو آنکھیں بھر آئیں۔ گھر سے چلے جانے سے پہلے اس نے یہی قمیض پہنی ہوتی تھی۔ اس پر اس نے اپنی آنکھیں پھوڑ کر کڑھائی کی تھی۔ جب زینو نے اسے پہنا تو سب محلے والے دیکھتے رہ گئے۔’’قمیض کیسی سج رہی ہے۔ جیسی بیٹی ہے ویسی ہی پیاری قمیض بنائی ہے تم نے‘‘۔ بس نظر لگ گئی۔ گیلی قمیض دونوں ہاتھوں سے بھینچ کر چھاتی سے لگاتی ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ بند آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈنے لگتا ہے اور گیلی قمیض سے پانی، وہ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہتی ہے۔ اس کے کانوں میں زینو کے الفاظ گونجتے ہیں۔ جب وہ کپڑا لے کر آئی تھی تو زینو نے کہا ’’ اماں رنگ تو نہیں چھوٹے گا؟ کچا ہے‘‘ پھر وہ قمیض پر پانی ڈال کر اسے دھونے لگتی ہے۔ اس کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ نکھر آتا ہے۔

    سوچ کی کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے۔ عید قریب آ رہی ہے۔ انو، پپو اور نازو کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ وہ کہتا تھا، بڑی مشکل سے پچاس ساٹھ روپے بچے ہیں، احتیاط سے خرچ کرنا۔ سوچتی ہے کہ وہ تو پیسے دے کر آزاد ہو گیا۔ مصیبت میں میں پڑ گئی۔ اب میں کیسے کروں؟۔

    کپڑے پھیلا کر پپو کے پلنگ کے پاس بیٹھ کر مسمی کا رس نکالنے لگتی ہے۔ پپو کے زرد چہرے اور کمزور جسم پر نگاہ پڑتی ہے تو دل ڈوبنے لگتا ہے اور اسے گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔

    ’’پپو تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ، تو پھر عید پر اچھی اچھی مٹھائیاں…‘‘ پھر اچانک اپنی غلطی محسوس کرکے وہ چپ ہو جاتی ہے۔

    ’’سویاں بھی پکیں گی نا اماں؟ مجھے بھی ملیں گی نا؟‘‘ اس کی آواز کا لگاؤ اس کا دل چھو لیتا ہے۔ بیماری میں سب بچے ایسا ہی کہتے ہیں، وہ سوچتی ہے۔

    ’’ہاں ہاں، اپنے بیٹے کو کیوں نہیں دوں گی‘‘۔

    پیالی سے رس پلا کروہ اس کا بستر ٹھیک کرنے لگتی ہے۔ پھر قریب ہی کھڑا دوسرا پلنگ بچھا کر بغیر بستر کے لیٹ جاتی ہے اور ٹھنڈا سانس لیتی ہے۔ اس کی آنکھیں سامنے فریم کئے ہوئے گروپ فوٹو پر جم جاتی ہیں۔ یہ فوٹو زینو نے پچھلے سال میٹرک کے امتحان سے پہلے اسکول سے رخصت پر فیرویل کے موقع پر کھنچوایا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب زینو یہ فوٹو فریم کرا کے گھر لائی تھی تو اس نے کہا تھا:’’ اماں جب میں تمہارے پاس نہیں ہوں گی تو یہ فوٹو تمہیں اور سب کو میری یاد دلائے گا۔ گروپ فوٹو میں زینو مسکرا رہی تھی اور اس کی ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

    زینو جب میٹرک میں پاس ہوئی تو محلے والوں سے لے کر رشتہ داروں تک سب کو حیرت ہوئی تھی کہ وہ کس طرح پاس ہو گئی۔ اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں! اس کا سر اونچا ہو گیا تھا۔ مگر اب کے تو اس نے ناک ہی کٹوا دی۔ کسی کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ پھر وہ سوچتی ہے کہ اس میں اس کا کیا قصور؟ اسے وہ راتیں یاد آتی ہیں جب زینو کرسی پر بیٹھی پڑھتے پڑھتے صبح کر دیتی تھی۔ رات کو جب اس کی آنکھ کھلتی تو اسے بتی کی روشنی میں کتابوں پر سر جھکائے پڑھنے میں محو دیکھتی تھی۔ وہ کہا کرتی: ’’بیٹی زینو، اب سو جا، رات بہت ہو گئی ہے، کہیں طبیعت …‘‘ مگر وہ جواب دیتی’’ بس اماں، تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ ابھی سوتی ہوں‘‘ وہ کروٹ بدل کر سو جاتی تھی۔

    اب وہ کرسی خالی پڑی ہے۔ جیسے ابھی زینو آئے گی اور اس پر بیٹھ کر پڑھنے لگے گی۔ کتاب اس کے سامنے کھلی ہو گی۔ زینو کی تلاش میں اس کی نظریں اس کے پلنگ کی طرف جاتی ہیں لیکن وہ بھی خالی پڑا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ابھی زینو اس پر آکر سوئے گی۔ وہ آنکھ جھپکتی ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ جاگ رہی ہے۔ وہ سوچنے لگتی ہے کہ ان باتوں میں کیا رکھا ہے؟ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ کسی کا کسی پر کیا بس چلتا ہے۔ حالات آزاد ہیں۔ میرا تو کسی پر کوئی بس نہیں۔ میرا حالات پر بھی بس نہیں۔ اپنے آپ پر بھی نہیں رہا شاید! وہ سوچ کر اسے تسکین سی ہوتی ہے۔ گھڑی پر نگاہ پڑتی ہے تو اس کا سانس آہستہ آہستہ کھنچنے لگتا ہے ’’دو بجے ہیں‘‘۔ کچھ دیر میں بچوں کے آنے کا وقت ہو جائے گا۔

    وہ آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرتی ہے لیکن نیند اس سے کوسوں دور ہے۔ سوچوں کے ہجوم اور یادوں سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ماضی اور مستقبل کے دروازوں پر زنجیر لگانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ یہ دروازے کھڑکھڑاتے رہیں گے۔ وہ تنہائی سے بچنے کی خاطر پرانے اخبار کے صفحے الٹنے لگتی ہے لیکن نظر نہیں جمتی۔ اسے لگتا ہے جسے زندگی اس سے ہاتھ چھڑا کر چلی گئی ہو اور وہ زندگی کے فوکس سے باہر رہ گئی ہو۔

    (افسانہ نگار اور شاعر ولی رام ولبھ کی کہانی جس کا سندھی سے اردو زبان میں ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے)

  • جنرل نالج سے باہر کا سوال

    جنرل نالج سے باہر کا سوال

    گول چبوترے پر کھڑے ہو کر چاروں راستے صاف نظر آتے ہیں، جن پر راہ گیر سواریاں اور خوانچے والے چلتے رہتے ہیں۔

    چبوترے پر جو بوڑھا آدمی لیٹا ہے، اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہیں۔ کہیں کہیں پیوند بھی لگے ہیں۔ اس کی داڑھی بے ترتیب ہے اور چہرے پر لا تعداد شکنیں ہیں۔ آنکھوں کی روشنی مدھم ہو چکی ہے۔ وہ راستے پر چلنے والے ہر فرد کو بہت حسرت سے دیکھتا ہے۔ جب کوئی خوش خوش اس کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ دور تک اور دیر تک اسے دیکھتا رہتا ہے۔

    کسی طرف سے ایک دس گیارہ برس کی بچی آئی۔ وہ اسکول کی پوشاک پہنے ہوئے ہے، بستہ کندھے پر لٹکا ہے۔ ناشتہ کا ڈبہ ہاتھ میں دبا ہے۔ لڑکی کے بال سنہری ہیں۔ چہرہ گلابی ہے، اور آنکھوں میں ایک سادہ سی چمک ہے۔ بے فکری، خوشحالی اور بچپن جب ایک جگہ جمع ہو جائیں تو آنکھوں میں ایسی ہی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔

    اسے آتے دیکھ کر بوڑھے کی آنکھو ں میں کچھ چمکا۔ جب وہ پاس سے گزری تو بوڑھے نے ہاتھ بڑھا کر اس کے پیر چھوئے۔ بچی جھجک کر کھڑی ہو گئی۔ ایک لمحہ تک بوڑھے کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں خوف چمکا۔ گھر کی نصیحتیں ذہن میں کلبلائیں، لیکن بوڑھے کے چہرے پر اس نے جانے کیا دیکھا کہ آنکھوں کا خوف مدھم پڑ گیا اور بھولا بھالا چہرہ درد مندی کے جذبے سے سرشار ہوگیا۔ اس نے بہت اپنائیت سے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے بابا۔ بھوک لگی ہے؟‘‘

    بوڑھا دھیمے سے مسکرایا۔’’ہاں۔ لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘

    لڑکی کی آنکھوں میں حیرت جاگی، اس نے بوڑھے کا ہاتھ اپنے پیروں پر سے آہستگی کے ساتھ ہٹایا اور چبوترے پر اس کے پاس بیٹھ کر پوچھا، ’’میرے پاس پچاس کا سکّہ ہے۔ تم لو گے؟ تمہیں ضرورت ہے؟‘‘

    ’’ہاں ضرورت ہے، لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘

    لڑکی کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ’’پھر تم نے مجھے کاہے کو روکا بابا؟‘‘

    بوڑھے نے بہت نحیف آواز میں اس سے کہا، ’’منی! بڑا احسان ہوگا اگر تم میرا ایک کام کر دو۔‘‘

    بچی نے اپنا بستہ اتار کر چبوترے پر رکھا اور بوڑھے کے قریب کھسک کر بہت اپنے پن کے ساتھ کہا، ’’بتاؤ کیا کام ہے تمہارا۔ میرے کرنے کا ہوگا تو میں کر دوں گی۔ نہیں تو پاپا سے کہہ کر کرا دوں گی۔ وہ بہت اچھے ہیں۔ سب کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس دفعہ سردیوں میں انہوں نے پڑوس کے گھر میں دو کمبل دیے تھے۔ جمیلہ کی اماں اور اس کے بھائی کو بہت سردی لگتی تھی۔‘‘ بوڑھے نے یہ سب باتیں بہت لاتعلقی سے سنیں اور کہا، ’’تم میرا ایک کام کر دو۔ مجھے ایک بات بتا دو۔‘‘

    ’’کیا بات ہے۔ پوچھو۔ معلوم ہے جنرل نالج میں سب سے زیادہ نمبر میرے آئے ہیں کلاس میں۔‘‘

    ’’کس چیز میں منی ؟‘‘

    ’’یہ۔۔۔ یہ ایک چیز ہوتی ہے۔ مطلب ایک سجبیکٹ ہوتا ہے۔ اس میں ساری باتیں آجاتی ہیں۔ جیسے کون سا پہاڑ سب سے اونچا ہے؟ کون سی ندی سب سے بڑی ہے اور بہت ساری باتیں۔ تم مجھ سے کوئی بھی سوال پوچھ کر دیکھ لو مگر جلدی سے پوچھ لو۔ دیر ہو جائے گی تو ممی ڈانٹیں گی اور تمہارے پاس بیٹھا دیکھ لیا تو پاپا تو پٹائی ہی کر دیں گے۔ اب جلدی سے پوچھ لو۔‘‘

    ’’منی۔‘‘ بوڑھے نے نیم دراز ہو کر بہت راز داری کے لہجے میں قریب آکر، اتنے قریب کہ بچی نے اس کے چہرے کی ساری شکنیں گن لیں، کہا، ’’مجھے یہ بتا دو کہ میری عمر کتنی ہے اور میں کب مروں گا؟‘‘

    بچی کا ہاتھ بستہ پر جہاں رکھا تھا وہیں رکھا رہ گیا۔ اس کی نگاہیں بوڑھے کے چہرے پر جم کر رہ گئیں۔ پھر اچانک وہ کھلکھلا کر ہنسی، ’’واہ، یہ ہمیں کیا معلوم۔ یہ تو تمہارے ابّا کو معلوم ہو گا کہ تمہاری کتنی عمر ہے۔ اور تم کب مرو گے یہ اللہ میاں کو معلوم ہے۔‘‘

    اس عرصہ میں کئی راہ گیر ان کے پاس آکر جمع ہوگئے۔ بوڑھے نے ان کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’کوئی مجھے بتا دے کہ میری عمر کتنی ہے اور میں کب مروں گا۔ یہ بچی نہیں بتا پا رہی۔ تم بتا دو بیٹے۔‘‘ اس نے ایک نو عمر لڑکے سے کہا جس کے ہاتھوں میں کرکٹ کا بلا تھا۔ وہ لڑکا آگے بڑھا، اس کے چہرے پر ذہانت جگ مگ جگ مگ کر رہی تھی۔

    ’’بابا۔ جب آپ پیدا ہوئے۔۔۔ نہیں نہیں۔ جب آپ چھوٹے تھے، تب کی کوئی بات یاد ہے؟ کوئی بہت ہی خاص بات اگر آپ بتا دیں تو ہم آپ کی عمر بتا دیں گے۔‘‘

    ’’ہاں مجھے یاد ہے۔ اس وقت سب لوگ لڑ رہے تھے۔ کچھ لوگ ہار گئے تھے۔‘‘ بوڑھے نے سوچ کر کہا۔

    ’’تو آپ پہلی جنگ عظیم کے وقت پیدا ہوئے ہوں گے۔ مگر آپ کی عمر تو سو سال سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ آپ شاید کسی اور جنگ کی بات کر رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے حساب سے تو آپ ساٹھ پینسٹھ سال کے ہوں گے صرف۔‘‘ لڑکے نے اپنا بلّا چبوترے پر رکھ دیا اور وہیں بیٹھ گیا۔

    ’’نہیں بیٹے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’پہلی جنگ عظیم تو کل کی بات ہے۔‘‘

    بھیڑ میں سے ایک جوان شخص آگے نکلا اور حساب لگا کر بتایا، ’’آپ کی عمر تقریباً ایک سو پچیس سال ہے، 1857ء کے واقعہ کو لگ بھگ اتنا ہی وقت بیت چکا ہے۔‘‘

    بوڑھے کے مٹیالے سے ہونٹ آہستہ سے کھلے۔ اس سے کچھ بولا نہیں گیا۔ پھر اس نے بہت دقت کے ساتھ کہا۔

    ’’1857ء کی جنگ تو ابھی کا واقعہ ہے۔‘‘ بھیڑ میں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ لیکن بوڑھے کے چہرے پر پھیلی ہوئی سنجیدگی نے سب کو مجبور کیا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اتنے میں بچی نے تاریخ کی کتاب کا ایک سبق یاد کیا اور اچھل کر بولی۔

    ’’تم پورے 223 سال کے ہو۔ پانی پت کی تیسری لڑائی 1761 میں ہوئی تھی۔‘‘ بوڑھے نے اپنا سر انکار میں ہلایا۔ بھیڑ میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ شام بڑھ رہی تھی اور سائے پھیلنے لگے تھے۔ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سب نے اپنی اپنی معلومات کو کھنگالا۔ ایک 35، 40 برس کے آدمی نے بڑھ کر کہا، ’’بابا آپ کی عمر 428 برس ہے۔ اکبر نے ہیمو کو پانی پت کی دوسری جنگ میں 1556 میں ہرایا تھا۔‘‘

    بوڑھے نے بہت مایوسی کے ساتھ اپنا سر نفی میں ہلایا۔ لوگ جنگوں کو یاد کرتے رہے اور حساب لگاتے رہے اور بوڑھے کو اس کی عمر بتاتے رہے۔ اور وہ اپنا سر نفی میں ہلاتا رہا۔ اتنے میں بھیڑ کو چیرتا ہوا بچی کو ڈھونڈتا ہوا اس کا باپ آگیا۔ اس نے بچی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔ بچی خوف زدہ نظر آ رہی تھی، لیکن ہمت کر کے اس نے اپنے باپ سے کہا ’’پاپا ، ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ان کے سوال کا جواب دیں گے ورنہ اپنے پاپا سے کہیں گے۔ اب آپ آگئے ہیں۔ آپ ہی بتا دیجیے کہ ان کی عمر کیا ہوگی اور یہ کب مریں گے؟‘‘

    بچی کے شفیق باپ نے بچی کا ہاتھ چھوڑا۔ اب تک جو بیتا تھا، وہ لوگوں سے سنا اور بوڑھے بابا کو غور سے دیکھ کر کچھ سوچا اور پھر بوڑھے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ تب بوڑھے نے پیوند لگے لبادے سے اپنے گھٹنے چھپائے۔ اتنے میں بھیڑ کے اندر سے ایک شخص نہایت اعتماد کے ساتھ باہر نکلا اور بولا،’’ہو نہ ہو یہ آدمی سکندر اعظم کے وقت میں پیدا ہوا تھا۔‘‘

    اس دفعہ بوڑھے سے پہلے بچی کے باپ نے نفی میں سر ہلایا اور دو زانو ہو کر بوڑھے کے پاس بیٹھ گیا۔ اوپر سے نیچے تک بوڑھے کو دیر تک دیکھا اور پھر سر آگے کر کے اعتماد کے ساتھ آہستگی کے لہجے میں بوڑھے سے مخاطب ہو کر کہا، ’’بابا میں تمہاری عمر بتا دوں اور یہ بتا دوں کہ تم کب مرو گے؟‘‘

    بھیڑ میں سب کے چہرے چمکنے لگے۔ بچی کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ سب بہت اشتیاق کے ساتھ بچی کے باپ کو دیکھنے لگے۔ بچی کے باپ نے بہت محبت سے بوڑھے کے گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کپڑوں پر نہیں بوڑھے کے ننگے گھٹنوں پر ہیں۔ تب اس نے بھیڑ کے افراد کو فرداً فرداً دیکھا، چوراہے کو دیکھا، چاروں سمتوں میں جاتے ہوئے راستوں کو دیکھا، ہر طرف پھیلی ہوئی آبادی کو دیکھا اور سفاک آسمان کو دیکھا۔

    ’’بابا۔‘‘ بچی کے باپ نے بہت واضح الفاظ میں کہنا شروع کیا، ’’بابا! تم ہمیشہ سے ہو اوراس دنیا میں کبھی نہیں مر پاؤ گے۔‘‘

    ننھی بچی، نو عمر لڑکا، جوان آدمی اور بھیڑ کا ہر فرد حیران ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اس بار بوڑھے کا سر اثبات میں ہلا تھا۔

    (سید محمد اشرف کا ایک افسانہ جو اردو زبان کے جدید افسانہ نگاروں میں شامل ہیں اور ماضی کو نئے انداز سے پیش کرنے کے لیے مشہور ہیں)

  • لختِ جگر

    لختِ جگر

    بچے کے بِلکنے سے بوریا کی نیند اچٹ گئی۔ آنکھیں بند کیے بیوی کو پکارا۔ گولڈا اس کو چپ کرائیو۔ رو رہا ہے۔

    گولڈا کی طرف سے کوئی جواب نہ سنا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ معلوم ہوا کہ گھر میں نہیں ہے۔ پہلے تو کچھ حیرت ہوئی، پھر سوچا نہانے کو گئی ہو گی۔ پاس ہی ایک دھجی پڑی تھی۔ اُٹھا کر بچے کے منہ میں ٹھونس دی کہ روئے نہیں۔ پھر کپڑے پہننے کو اُٹھ کھڑا ہوا۔

    کپڑے پہنتے پہنتے یکایک خیال آیا کہ زوبلنز کے گھر سے جو چاندی کے شمع دان اُڑا لایا تھا، ان کے بدلے کتنی زمین ملے گی۔ یہ خیال دل پر کچھ ایسا چھاگیا کہ اسی وقت بالا خانے پر چل دیا کہ چرائے ہوئے مال کا اندازہ لگائے، لیکن جاکر دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ گھر کا کونا کونا چھان مارا۔ بے سود۔

    پھرتی سے نیچے اُتر آیا اور اس طرف گیا جہاں اس کی بیوی نے اپنی چیزیں لٹکا رکھی تھیں۔ پردے کو نوچ ڈالا۔ دیکھا تو وہ بھی غائب۔ اب کھلا کہ بس بھاگ گئی ہے۔

    ہونہہ ہونہہ۔ ”بلا سے بھاگ گئی تو بھاگ جائے۔ لعنت ہو یہاں پروا ہی کسے ہے۔“ جبراً بے پروائی ظاہر کرتے اور دیواروں پر تھوکتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ اٹھا۔

    ”بھئی کیا کہنا! خوب کارستانی ہے۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔“

    پھر بچے کی طرف دیکھا۔ ”لیکن اس کم بخت کا کیا ہوگا؟“ فکرمند سا ہوگیا۔ ”اگر اتنا ہی معلوم ہوجائے کہ نامراد کہاں گم ہے تو خدا کی قسم! میں اسے ابھی لے جا کر اس کے دروازے پر رکھ دوں اور کہوں لے اسے بھی ساتھ لیتی جا۔۔۔ یہ تیرا ہی ہے۔“

    یکایک ایک خیال اس کے دماغ میں آیا۔ جس سے اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور وہ اپنا اوپر کا ہونٹ دانتوں سے کاٹنے لگا۔ ہاتھ لرزنے لگے۔ بچے کے پاس آیا، جو ننگا پڑا ہوا تھا۔ اوپر کا میلا کچیلا چیتھڑا اس نے اپنی ننھی نازک ٹانگیں چلا چلا کر پرے پھینک دیا تھا۔ ہاتھ منہ میں ٹھونسے ہوئے تھے۔ ہلکے ہلکے مسکرا رہا تھا۔ دونوں گالوں پر ننھے ننھے گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ چہرے کے خدوخال نے اسے شبہ میں ڈال دیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ بچے کے پاس سے ہٹ گیا۔ ٹوپی پہنی اور جلدی سے دروازے میں قفل لگا کر باہر نکل آیا۔

    بلا مقصد چلا جا رہا تھا۔ مگر دل کا سکون کھو بیٹھا تھا۔ بچے کی چیخیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ جیسے اسے بلارہی ہوں۔ خیال ہی خیال میں نظر آیا جیسے اس کے سامنے پڑا اپنی ننھی ننھی ٹانگیں چلا رہا ہے۔ بے تحاشا دوڑ رہا ہے۔ نہیں مجھے پلٹ جانا چاہیے۔ یہ ظلم ہے۔

    پھر اپنے آپ سے کہنے لگا: ”خدا کی قسم! اگر وہ کمبخت ہاتھ لگ جائے تو میں گلے سے پکڑ لوں اور اس زور سے گھونٹوں، اس زور سے گھونٹوں کہ زبان نکل کر باہر آپڑے۔“
    نانبائی کی دکان میں داخل ہوا۔ ایک ڈبل روٹی خریدی اور گھر واپس لوٹ آیا۔ بچہ پہلے کی طرح ننگا پڑا ہوا تھا۔ مگر مسکرا رہا تھا۔

    ”لو مردود کیا مزے سے پڑا ہنس رہا ہے۔“ ۔۔۔۔ اور پھر گھر سے نکل گیا۔ مگر ایک ایک قدم اُٹھانا دوبھر تھا۔ راستہ بھر رہ رہ کر محسوس ہوتا تھا جیسے بچے کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں آئی ہے۔ دل میں جیسے کوئی نشتر سا اُترا جا رہا تھا۔

    زور سے مٹھیاں بند کیں اور پھر گھر لوٹ آیا۔ اب کے بچہ لگاتار چلّائے جا رہا تھا۔۔۔ ماما۔۔۔ ماما۔۔۔“

    ”کیوں بے ماما کے بچے۔۔۔ جا کے اپنی پیاری اماں کو ڈھونڈ کیوں نہیں لاتا؟ الٰہی! ہیضہ آجائے۔“

    بچے کو گود میں اُٹھا لیا۔ بچہ سینے سے لگتے ہی چمٹ گیا اور اپنے پتلے پتلے ہونٹوں سے بے تابانہ کچھ تلاش کرنے لگا۔

    ”الٰہی اس پر بجلی گرپڑے۔ ناگ ڈس جائے۔“ وہ کوستا جاتا اور پیار سے ننھے کے گالوں پر تھپکی دیتا جاتا تھا۔

    ”رو مت۔۔۔ شلوئے میل۔۔۔ بس چپ ہو جاؤ۔۔۔ چپ کرو۔۔۔ شاباش شاباش۔۔۔“ بچہ اپنے نازک منہ سے تلاش میں مصروف رہا۔ اِدھر اُدھر ہاتھ گھماتا۔ کبھی سر ہلاتا۔ جیسے کچھ کہنے کو ہے۔ مگر کہہ نہیں سکتا۔ اشاروں سے مطلب سمجھ کر بوریا نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ چولھے پر ایک کٹورا رکھا ہوا تھا۔ جس میں تھوڑا سا دودھ تھا۔ ذرا سی ڈبل روٹی توڑکر دودھ میں بھگوئی اور چمچے کے ساتھ بچے کو کھلانے لگا۔ چمکارتا بھی جاتا تھا۔

    ”کھا لے بیٹا کھا لے۔۔۔ تیری اماں، شیطان لے جائے۔ تجھے چھوڑ کر بھاگ گئی ہے۔۔۔ کتیا بھی تو اپنے بچے کو یوں نہیں چھوڑتی۔۔۔ وہ اس سے بھی بدتر ہے۔۔۔ رو مت۔۔۔ نہیں میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ اپنے پاس سے کبھی الگ نہیں کروں گا۔۔۔“ جب بچہ چپکا ہوگیا تو اسے ایک کپڑے میں لپیٹ لیا اور بازار کو لے چلا۔ منڈی میں اس کے آنے سے ہلچل سی پڑگئی۔ ہائیں بوریا کولک اور بچہ!“

    اپنی گدی پر سے کریڈنگ نے آواز دی: ”اے کولکؔ! یہ بچہ کہاں سے لیا؟“ کریڈنگ کی بیوی بے تابی سے اُٹھی اور اپنی بانہیں کھولے بچے کی طرف لپکی۔ خوشی سے باچھیں کھلی جاتی تھیں۔ کئی بار اپنے چہرے کو دامن سے پوچھا اور بچے کے پھول سے گالوں پر ہلکے ہلکے طمانچے مارے۔

    ”کولک یہ تیرا ہے؟۔۔۔ اس کی پیاری پیاری آنکھوں کو تو دیکھ۔ ہیں نا بالکل مرینہؔ کی سی۔۔۔ اسی کی ناک ہوبہو۔۔۔ خدا کی قسم بچہ تو لعل ہے لعل۔۔۔ لا مجھے دے دے۔“

    اس نے بوریاؔ سے بچہ لے لیا اور اسے اُچھالنے لگی۔ ”ارے چل شریر۔۔۔ ہُت ترے شریر کی۔“
    بوڑھا کریڈنگ چوروں کا سردار آہستہ سے اُٹھا اور بچے کے پاس آکر اسے اچھی طرح دیکھا بھالا۔ پھر کولک کی پیٹھ تھپتھپا کر کہنے لگا: ”واہ بیٹا! کولک بچہ تو خوب حسین ہے۔ لے ذرا اسے بڑا ہوجانے دے۔ پھر دیکھیو کیسی آسانی سے دیواروں کو پھاندا کرے گا۔۔۔ ہاں تو اس کی ماں کون ہے؟“

    ”خدا کرے آگ میں جل جائے مُردار۔۔۔ چاندی کے شمع دان لے کر چمپت ہوگئی۔“

    ”اور بچہ چھوڑ گئی؟“

    ”ہاں“

    ”تو بُرا ہوا۔۔۔ بہت بُرا۔۔۔“

    بوڑھے کریڈنگ نے اپنا سر کھجایا۔ اتنے میں اس کا بیٹا بھی آدھمکا۔ اور کولک پر آوازے کسنے لگا۔ ”بہت اچھا ہوا۔۔۔ میں جانوں اب تم اپنا پیشہ چھوڑ دو گے اور دایہ گری کا کام شروع کر دو گے۔۔۔ کیوں‌ بے کیسا چکمہ دے گئی ہے نا؟“

    کولک نے جھنجھلا کر کہا: ”جا میاں اپنی راہ الگ۔ خدا رزق رساں ہے اور کولک، کولک ہی رہے گا۔“

    اس نے بچہ گود میں لے لیا اور گاؤں کے بیچوں بیچ چل دیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگ اس پر انگلیاں اُٹھارہے ہیں۔ ہنس رہے ہیں۔

    جب گاؤں سے دور نکل کر جنگل میں پہنچ گیا تو ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ آس پاس کسی آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ درختوں کی ٹہنیاں اپنے زرد زرد پتے بہا بہا کر آہیں بھر رہی تھیں۔ دور سے ایک ندی کی مدھم سی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جو پتھروں سے ٹکرائی، اُچھلتی، کودتی بہی جارہی تھی۔

    اس نے بچے کو پاس ہی زمین پر رکھ دیا اور اسے ترچھی نظروں سے گھورنے لگا۔ بچہ انگوٹھا چوس رہا تھا اور چپکے چپکے باپ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی سوچ میں کھویا ہوا ہے۔ بوریاؔ کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ بچے کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے جی میں آئی کہ اسے یہیں جنگل میں چھوڑ کر چل دے۔ مگر فوراً ہی اس ننھی سی جان، اپنے ہی گوشت، اپنے ہی خون کی بے بسی پر دل بھر آیا۔ اس نے پھر گود میں اُٹھا لیا اور محبت سے اس کے نازک جسم کو بھینچا۔ پھر غور سے اس کے چہرے کی طرف جو دیکھا تو اسے اپنے ہی خط و خال جھلکتے ہوئے نظر آئے اور اس کے تمام جسم میں خوشی کی گرمی دوڑ گئی۔

    ”ننھے کولک“ محبت بھری آواز میں کہنے لگا۔ ”ہاں تو ننھا کولک ہی ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ تو بڑا ہوکر نہایت عجیب وغریب نکلے گا۔ تو مکانوں میں کھڑکیوں اور ہوا دانوں اور چھجوں سے داخل ہوجایا کرے گا۔۔۔ اور قفل توڑ کر بھیڑوں کی کھالیں چرا لایا کرے گا۔۔۔ پھر تیرے بچے بھی ہوں گے۔۔۔ اور ان کی ماں انہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔۔۔ پھر کیا تو اپنے بچوں کو لیے در بدر بھیک مانگتا پھرے گا؟۔۔۔ تو کون ہے؟۔۔۔ کولک۔۔۔ تو بھی میری طرح۔۔۔ تو ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔“

    اس نے بچے کو ندی کے کنارے کے پاس ہی بٹھا دیا اور آپ ایک درخت کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا کہ دیکھوں کیا کرتا ہے۔ بچہ اِدھر اُدھر لڑھکنے لگا۔ ہاتھوں کو چُوستا اور کہتا: ”ماما۔۔۔ ماما۔۔۔“

    وہ اس درخت سے آگے بڑھ کر ایک اور درخت کے پیچھے چھپ گیا، لیکن ابھی بچے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ وہ اسی طرح اس درخت سے اُس درخت کے پیچھے چھپتا ہوا دور ہی دور ہٹنے لگا۔ یہاں تک کہ اب اسے کچھ سنائی اور دکھائی نہ دیا۔ پھر وہ سرپٹ بھاگا۔ مگر بھاگتے ہوئے بھی ننھے کی چیخیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ یکایک خیال آیا ”کہیں لڑھکتا لڑھکتا دریا میں نہ گر پڑا ہو۔۔۔ اس کا سر درد کرنے لگا۔۔۔ زور زور سے دکھنے لگا۔ ہوش و حواس غائب ہوگئے۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا سا معلوم ہونے لگا اور دل کو جیسے کوئی چرکے لگارہا ہو۔۔۔ مگر وہ بھاگتا ہی رہا۔۔۔

    یک لخت تھم گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور پوری تیزی سے اُلٹے پاؤں سے لوٹا۔ بچے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ زور زور سے رورہا ہے۔ اس نے گود میں لے لیا اور وہاں سے چلا آیا۔ جنگل کے سرے پر کچھ جھونپڑیاں سی بنی ہوئی تھیں۔۔۔ ایک ایک گھر سے گزرتا ہوا ٹوٹی ہوئی آواز میں بھیک مانگ رہا تھا: ”یتیم بچے کو تھوڑا سا دودھ دو۔ بے ماں کے بچے کو تھوڑا سا دودھ دو۔۔۔“

    (شولم آش کے اس افسانے کے مترجم غلام عباس ہیں)

  • اپنی نگریا

    اپنی نگریا

    یہ ایک ایسے جوڑے کی داستان ہے جسے ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ یہ میاں بیوی ایک معیاری ادبی پرچہ نکالتے ہیں اور بہت محنت کر کے اسے منفرد اور بے مثل تخلیقات سے سجاتے ہیں۔ لیکن پھر انھیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے کام کی قدر اور پذیرائی نہیں ہو رہی اور اس کام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

    یہ افسانہ خاص طور پر اُن لوگوں کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرے گا جو ادب اور ادبی تخلیقات کی نشر و اشاعت سے منسلک ہیں، لیکن عام قارئین بھی زندگی کی حقیقت اور معاش کے لیے تگ و دو کرتے ایک جوڑے کی خواہشات اور ان کو درپیش مشکلات پر مبنی اس کہانی کے ان پاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

    یہ افسانہ اپنی نگریا کے عنوان سے ممتاز شیریں نے لکھا تھا، جنھیں ہم ایک نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو وفات پاگئی تھیں۔ افسانہ نگار ممتاز شیریں نے زندگی کی صداقتوں کو اپنے خوب صورت اسلوب میں ڈھال کر قارئین تک پہنچایا جس کی ایک مثال یہ کہانی بھی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    شاہد نے قفل کھولا اور وہ دونوں آفس روم میں داخل ہوئے۔ ایک چھوٹی سا ایڈیٹر کا آفس اور ایڈیٹر فیروزی دھاری دار شرٹ اور سرمئی اُونی پتلون پہنے کتنا سجیلا لگ رہا تھا۔ دفتر گھر پر ہی تھا۔ لیکن آفس روم میں جانے سے پہلے وہ ہمیشہ ڈریس کر لیا کرتا تھا۔ ’’کیا ہوا اگر دفتر گھر ہی پر ہے۔ میں آفس ہی کو تو جا رہا ہوں۔‘‘، وہ ساکس چڑھاتے ہوئے ہنس کر کہتا، ’’ڈریس کر لوں تو ایک طرح کی پھرتی آ جاتی ہے اور میں اچھی طرح کام کر سکتا ہوں۔‘‘
    وہ پتلون کی جیب میں ہاتھ رکھے ایک پاؤں پر بوجھ ڈالے کھڑا باہر دیکھ رہا تھا۔ کھڑکی سے باہر کا منظر اچھی طرح دکھائی دیتا تھا۔ کھلا میدان اور سڑک کے کنارے شوخ سرخ پھولوں سے لدے گل مہر کے درختوں میں آگ سی لگی تھی۔ شفاف نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید بدلیوں کے ٹکڑے تیر رہے تھے۔ بڑی روشن صبح تھی۔ کھڑکی کے دودھیا شیشوں میں سے چھنتی ہوئی ہلکی روشنی میں اس کی سبز آنکھیں نیلی جھلک مار رہی تھیں۔ فیروزی دھاری دار شرٹ اور فیروزی آنکھیں جیسے وہ نیلی دھاریاں ان خوبصورت نیلی آنکھوں سے میچ کرنے کے لیے ڈالی گئی ہوں۔ وہ ایک جذبۂ پرستش کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔

    وہ جب بالکل بچی تھی۔ دس گیارہ سال کی اور انہیں دنوں اسے کافی شعور آ گیا تھا۔ وہ ان دنوں ’پھول‘، ’غنچہ‘ نہیں پڑھا کرتی تھی۔ بلکہ ’نیرنگ خیال‘، ’ساقی‘ اور ’ہمایوں ‘، ’مدینہ‘ اور ’انقلاب‘ نصر اللہ خاں عزیز کے سرراہے اور سالک کے ’افکار و حوادث‘ سے اسے بڑی دلچسپی تھی۔ ان دنوں وہ کس شدت کے ساتھ محسوس کرتی تھی کہ ایڈیٹر ہونا بھی کتنی بڑی بات ہے۔ اسے ایڈیٹر سے، کسی شخصیت سے نہیں، ایک طرح کی عقیدت سی ہو گئی تھی۔ ایک عجیب طرح کا ایڈمریشن! اور وہ سوچتی تھی۔ جب بڑی ہوگی تو۔۔۔ لیکن کیا اس کے پاس اتنے روپے ہوں گے کہ وہ خود رسالہ نکال سکے؟ یا لیکن یہاں اچھے رسائل ہیں کہاں کہ وہ ان کے دفتر میں کام کر سکے؟ لیکن کبھی کبھی دلی تمنائیں کیسے، عجیب، انجانے طور پر، بر آتی ہیں! وہ اب ایک خوبصورت معیاری رسالے کی آفس میں کھڑی تھی۔

    یہ لڑکی ناز نسرین نہ ٹائپسٹ یا اسٹینوگرافر تھی نہ ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، نہ سکریٹری بلکہ وہ ان کی بیوی تھی۔ وہ میز پر انگلیاں بجانے لگا اور شریر چمکیلی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا، ’’میناکا!‘‘ نسرین نے مصنوعی غصہ سے منہ پھلا لیا۔ ’’ہاں، میں صرف میناکا کی طرح ٹمپٹ (Tempt) کرتی ہوں نا۔ تمھاری ذرا بھی مدد نہیں کرتی۔‘‘

    ’’کرتی ہو نا، نازی، سچ، تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو مجھے کتنی دشواری ہوتی، پھر وہ پیار میں ڈوبی آواز میں کہنے لگے، ’’تم صحیح معنوں میں جیون ساتھی ہو، میری نازی، میری ہم ذوق، میرے ارادوں میں، میرے کام میں ساتھ دینے والی!‘‘ ایک نشیلی کیفیت کے زیر اثر وہ بادامی پپوٹے جھک آئے لانبی گھنی پلکیں جھیل کے پانیوں کی سی سبز پتلیوں کو چومنے لگیں۔ ان خوبصورت بھیگی ہوئی آنکھوں کی مقناطیسی چمک سے کھنچی، میں کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر میز کے اس طرف آکر شوخی سے خطوں کا پلندہ ان کی طرف پھینکتی ہوئی بولی، ’’ابھی تو کہہ رہے تھے کام بہت کرنے ہیں۔‘‘

    ’’افوہ کتنے خطوط کے جواب دینے ہیں ابھی!‘‘ وہ چونک پڑے۔ ’’ایک دو روز خط نہ لکھیں تو کتنے جمع ہو جاتے ہیں۔‘‘ وہ خطوں کو سرسری طور پر دیکھنے لگے۔ ’’اس ایجنسی کو مزید پرچے بھجوا دیے تم نے؟‘‘ انہوں نے ایک خط بتاکر پوچھا۔ ’’بھجوا دیے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ وہ پھر خطوط دیکھنے لگے۔

    شاہد کو کام کا احساس دلاکر وہ خود کسی تصویر میں کھو گئی۔ ’’تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو۔۔۔‘‘ شاہد کے ایک خط کے الفاظ اسے یاد آنے لگے۔ ان دنوں وہ اپنے میکے میں تھی اور خط آیا تھا۔ ’’نیا دور‘‘ کا تازہ نمبر نکل گیا ہے اور تم جانتی ہو ان دنوں کتنا کام ہوتا ہے۔ ڈھیروں کام سامنے پڑا ہے اور تم یہاں نہیں ہو، یہ کہنے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ میں تم سے بھی کام لینا چاہتا تھا۔ لیکن میری نازی میری اپنی نازی، تم یوں ہی میرے سامنے بیٹھی رہو۔ تو میں دگنا تگنا کام کر سکتا ہوں۔ صرف تمہاری موجودگی مجھ میں گویا ایک بجلی سی بھر دیتی ہے۔ میں خوشی میں سرشار رہتا ہو ں اور کام ہلکا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اب میرا من اداس ہے، دل پر ایک بوجھ سا رہتا ہے، کام بہت بھاری معلوم ہوتا ہے۔۔۔‘‘ لیکن وہ یوں ہی نہیں بیٹھی رہتی تھی۔ وہ بھی اس کے ساتھ کام کیا کرتی۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ کام کرتے۔ کبھی خطوط لکھ رہے ہوتے، مضامین پڑھ کر انتخاب کر رہے ہوتے۔ ٹائیٹل پیج کے لیے ڈیزائن تجویز کر رہے ہوتے۔ رنگوں کی آمیزش پر بحث کر رہے ہوتے، پروف دیکھ رہے ہوتے، اعزازی پرچے بھیج رہے ہوتے۔ خریداروں اور ایجنسیوں کو پرچے پیک کراکے بھجواتے، آمد و خرچ کا اندراج اور پھر حساب پھر خطوط خطوط ہر روز بیسیوں خطوط! وہ چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑی دلچسپی سے آپ ہی کیا کرتی۔ رسیدوں کی پرانی کتاب بھر گئی تھی۔ وہ چپکے سے انڈین لسنر کی کاپیاں اٹھالائی، اندر کے پونے پونے صفحے کاٹ ڈالے اور ان کاپیوں میں منی آرڈر، وی پی اور رجسٹریوں کی رسیدیں چپکا رہی تھی۔ شاہد چپکے سے اس کے بالکل پیچھے آ کھڑا ہوا۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں ہی مسکراتی رہی۔ ’’ارے، یہ سب تم کیوں کرتی ہو، جانی، تھک جاؤ گی، دوسرے کام ہی کیا کم ہیں تمہارے لیے۔‘‘ ’’مجھے پسند ہیں یہ کام‘‘ ’’سچ؟‘‘ ’’ہاں‘‘ شاید عورتیں میکانیکل کام بھی دلچسپی سے کر سکتی ہیں۔ اسی لیے شاید، اسٹینو گرافرز اور سکریٹری زیادہ تر لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ میں کبھی بڑا آدمی ہو جاؤں، تو تمہیں کو سکریٹری بناؤں گا، بنو گی؟‘‘ شاہد نے ہلکے سے اس کے بالوں کو تھپکتے ہوئے کہا۔ وہ خوشی سے معمور آواز میں بولی، ’’ایم این رائے کی بیوی۔ ملین رائے کی طرح میں شارٹ ہینڈ سیکھوں گی۔ ٹائپ کرنا سیکھوں گی اور پھر۔۔۔‘‘ ’’اور میری ناز سی، نازی‘‘ شاہد نے اسے گھما دیا۔ پھر یک دم سے اسے چھوڑ کر کرسی پر جا بیٹھا اور بے تحاشا ہنسنے لگا۔ ’’آخر کیوں؟‘‘ نسرین نے پوچھا، ’’تم تو ایسے یقین سے کہہ رہی ہو جیسے میں سچ مچ بڑا آدمی بن جاؤں گا۔ میں تو یوں ہی مذاقاً کہہ رہا تھا۔ اچھا اب آؤ، دیکھو مختلف رنگوں میں پرنٹ کرا کے چند کور پیج لے آیا ہوں، دیکھو کون سی انک (Ink) ٹھیک بیٹھتی ہے۔‘‘

    وہ یونہی ہنستے کھیلتے کام کیا کرتے۔ لیکن کبھی کبھی اتنا کام رہتا کہ وہ بالکل تھک جاتے۔ خصوصاً پرچہ نکلنے سے چند دن پہلے اور چند دن بعد تو بہت ہی زیادہ کام رہتا، وہ چھوٹے سے ایڈیٹر تھے۔ پرچہ ابھی ابھی نکلا تھا۔ ان کے دفتر میں نوکر اور کلرک اور منیجر اور ایڈیٹر نہیں تھے۔ بعض سرمایہ دار ’’ایڈیٹر‘‘ تو ایڈٹ بھی دوسروں سے کرواتے ہیں، مگر بہت سارا کام وہ خود ہی کیا کرتے۔ شاہد اور وہ۔ ’’نیا دور‘‘ کو انہوں نے محنت سے پالا پوسا، پروان چڑھایا، شاید اسی لیے انہیں ’’نیا دور‘‘ سے اس قدر محبت تھی!

    آج کل، آج کل کے وعدوں سے پریشان کر کے کاتب آخرکار کتابت ختم کرتے۔ طباعت کے لیے پھر وہی وعدے۔ آخر تنگ آکر وہ ان دنوں کورٹ جانا بھی چھوڑ دیتا اور دن بھر دونوں پریس کا چکر کاٹتا رہتا۔ کور پیج کی پرنٹنگ ایک پریس میں ہوتی تھی اور فارموں کی کتابت اور طباعت دوسرے پریس میں۔ ایک سٹی میں تھا تو دوسرا چھاؤنی میں۔ میلوں دور۔ ’’کور پیج چھپ گئے؟‘‘ ’’نہیں‘‘ ’’کور کارڈ اور بلاک اور اشتہارات کے مضمون تو ہفتوں پہلے آپ کو دیے گئے تھے!‘‘ ’’کورس کاٹ دیے گئے۔‘‘ ’’صرف کاٹ رکھے ہیں؟ بلاک نہیں چھپے؟‘‘ ’’نہیں‘‘ اور ’’اشتہار؟‘‘ ’’اشتہار بھی نہیں‘‘ اور وہ سر پکڑ وہیں بیٹھ جاتا، جب تک پورے کور تیار نہ ہوجائیں وہ وہیں بیٹھا رہے گا۔ سب کچھ بڑے انہماک سے آپ ہی انتخاب کر کے چھپواتا تھا، پھر سائیکل تیزی سے چلاتا وہ چھاؤنی جا پہنچتا۔

    ’’بڑی مشکل سے ایک فارم چھپوا کے آیا ہوں، نازی۔‘‘ وہ آتے ہی صوفے پر گر پڑا اور مایوسانہ لہجہ میں کہا۔ دن بھر کی سائکلنگ سے تھک کر چور، پسینہ میں شرابور تھکا ہوا جسم اور تھکا ہوا دماغ لیے! ’ابھی آدھا کام بھی نہیں ہوا، پھر کل جانا ہوگا۔ یہ پریس والے بھی کتنا دق کرتے ہیں۔‘‘ ’’بستر لگا دوں گی، چل کر کچھ دیر سو رہو، بہت تھک گئے ہو۔‘‘ ’’نہیں بستر پر سوؤں گا تو بہت دیر سو جاؤں گا۔ یہیں چند منٹ آنکھیں بند کرے پڑے رہوں گا، نیند لگ جائے تو اٹھا دینا۔ آخری دو فارم لے آیا ہوں۔ پروف دیکھنا ہے، اٹھا دو گی نا؟ کل نہ لوٹا دوں تو چھاپنے میں اور دیر کر دیں گے۔ کتنا شدید درد ہو رہا ہے سر میں۔‘‘ وہ اسے نہیں اٹھائے گی، وہ سوچتی اور آہستہ آہستہ اس کا سر دبانے لگتی۔ شاہد کو نیند سی آ جاتی۔ پھر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا۔ ’’میں بہت دیر سو تو نہیں گیا۔‘‘

    ’’ارے دس منٹ ہی تو ہوئے ہیں۔ تم سو جاؤ، میں کسی سے پڑھوا کر تصحیح کر دوں گی۔‘‘

    ’’نہیں نازی، جانے وہ کس طرح پڑھیں گے۔ کاما، ڈاٹس، حرف کے نقطے اور بہت ساری چیزیں مثلاً مسودے میں کتنی جگہ چھوڑ کر دوسراحصہ شروع کیا گیا ہے، یہ سب کچھ دیکھنا چاہیے۔ تم پڑھو تو میں تصحیح کر دوں گا۔ بیگ میں سے فارم نکال لو، مسودے بھی وہیں ہیں۔‘‘

    اب انہیں رومان کے لیے پہلے کی طرح وقت نہ ملتا تھا۔ لیکن ان کی محبت اب روحانی طور پر اتنی گہری ہو گئی تھی کہ دفتر میں بیٹھے کام کرتے ہوئے بھی ہر لمحہ اس محبت کا شدید احساس ہوتا۔ وہ مقابل کی کرسیوں پر بیٹھے ہوتے، ان کی درمیان ایک لانبی سی میز پڑی ہوتی، ہاتھ کام کر رہے ہیں، نگاہیں کاغذوں پر لگی ہیں۔ لیکن پھر بھی ایسے محسوس ہوتا جیسے اس میز کے اوپر سے ان کے دلوں کے درمیان، محبت کی دھارا بہہ رہی ہے۔ وہ سر اٹھا کر دیکھتی۔ شاہد کے چہرے پر پسینے کی بوندیں آ جمی ہیں۔ اس کے بال پریشان ہوکر پیشانی پر آ پڑے ہیں۔ وہ تھکا ہوا ہے، وہ چپکے سے اٹھ کر اندر چلی جاتی اور چائے لے آتی۔ اس کے بال ہٹا کر ایک مادرانہ شفقت سے اس کی پیشانی چوم کر کہتی، ’’چائے پی لو، بہت تھک گئے ہو۔‘‘ وہ چپکے سے اس کا ہاتھ اٹھا کر آنکھوں سے لگا لیتا۔ چائے پی کر وہ تازہ دم ہو جاتے اور پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے۔ نسرین کو یہ زندگی بہت پسند تھی۔
    ’’خط ایسے کوئی ضروری تو نہیں۔‘‘ شاہد نے خطوں کو پرے رکھتے ہوئے کہا، ’’آئندہ پرچے کی ترتیب دے دیں گے۔‘‘ ’’ابھی سے؟‘‘

    ’’ہاں، پچھلا پرچہ نکل کر کتنے دن ہو گئے۔ آج اتوار ہے کل پھر مجھے کورٹ جانا ہوگا اور کاتب کو ان دنوں فرصت بھی ہے، ورنہ درسی کتابوں کا کام شروع ہو جائے تو بڑی مشکل ہوگی۔ اب بھی کافی دیر ہو گئی ہے۔ آئندہ سے ہمیں ایک پرچہ نکلنے کے پہلے ہی دوسرا مرتب کرکے کتابت کے لیے دے دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا۔

    ’’اچھا وہ مضامین والی فائل نکال دو، میں آئے ہوئے مضامین کی فہرست بناؤں گی۔‘‘ انہوں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے یوں ہی ذرا سا پیچھے کو جھک کر الماری میں سے ایک فیروزی فائل نکال لی، میں نے ہاتھ بڑھا کر فائل لے لی اور فہرست بنانے لگی۔ وہ مضامین جو انتخاب میں لے لیے گئے تھے۔ پھر وہ مضامین جو زیر غور تھے۔ ناقابل اشاعت مضامین تو پہلے ہی سے الگ کرکے دوسری فائل میں ڈالے جا چکے تھے۔ فہرست تیار کرکے میں نے ان کے ہاتھ میں دے کر کہا، ’’وہ خطوط ادھر بڑھا دو۔ میں ان کے جواب لکھ دوں۔‘‘

    ’’خطوط کی ایسی کیا جلدی ہے۔ تم کل بھی لکھ سکتی ہو، آج مجھے چھٹی ہے، ترتیب دے دیں گے، مضامین کی فائل ادھر بڑھا دو۔ میں پہلے یہ اندازہ لگا لوں، مضمون کتنے کتنے صفحوں میں آئیں گے اب تو ہمیں پیپر کنٹرول آڈر کے تحت ۱۶۰ صفحوں سے بڑھنے کی اجازت نہیں۔‘‘ میں نے فائل دے دی۔

    شاہد مضامین نکال کر صفحات گننے لگا۔ تب تک وہ بیٹھی کیا کرے؟ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا میز پر کوئی کتاب رکھی ہو تو لے کر پڑھے۔ میز کے آخری کونے پر ننھا سا ایک روالونگ شلف رکھا تھا، دیکھیں اس میں نئی کام کی کتاب نکل آئے۔ وہ پیچھے کے شیلفوں میں سے کوئی کتاب لانے کے لیے اٹھی تو بید کے ٹرے کی اوٹ میں میز پر تازہ ساؤنڈ، پڑا دکھائی دیا، ٹائیٹل پیج پر دیاز لنگ نیو فائنڈ بیگم پارہ کی تصویر تھی۔ اس نے ساؤنڈ اٹھا لیا اور یونہی ورق الٹ پلٹ کر تصویریں دیکھنے لگی۔

    ’’تصویریں کیا دیکھ رہی ہو، نازی، عباس کا آرٹیکل پڑھو۔‘‘ جانے انہوں نے کیسے دیکھ لیا، مجھے تصویریں دیکھتے۔

    شاہد احمد عباس کے مضامین کو اتنا پسند کرتا تھا۔ ’’فارفنٹی پیس آف سلور‘‘ طرح کی چیزیں کون نہیں پسند کرے گا۔ وہ خود بھی ساؤنڈ میں احمد عباس کے مضامین بڑے شوق سے پڑھا کرتی تھی۔ لیکن ساؤنڈ ملتے ہی اسے تصویریں دیکھنے کی بڑی بیتابی رہتی۔ ’’فلم انڈیا بھی کیوں نہ خریدیں؟‘‘ ’’فلم انڈیا اب یوں ہی سا پرچہ ہوکر رہ گیا ہے۔ کبھی اس میں بھی بڑے اچھے مضامین ہوا کرتے تھے‘‘ لیکن اس میں بہت سے آرٹ پلیٹ ہوتے ہیں اور بڑی بڑی تصویریں۔‘‘

    ’’تصویریں؟ او نازی تم تو ابھی بچی ہو!‘‘ تصویروں سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ وہ یہ بھی غور کیے بغیر کہ ٹائٹیل پیج پر کس کی تصویر ہے، عباس کے آرٹیکل پر ٹوٹ پڑتا اور صبا کے۔ ’’میں کہتا ہوں یہ صبا بھی عباس ہی ہوں گے، نازی، دیکھو تو اسٹائل کتنا ملتا ہے اور Saba یوں ہی Abbas کا الٹا ہے۔‘‘ ’’واقعی کیا لکھتے ہیں عباس!‘‘ وہ ہمیشہ بمبئی کرانیکل کا آخری صفحہ اس کے سامنے پکڑ کر کہتا۔ نسرین عباس کا مضمون پڑھ چکی تھی۔ تصویریں دیکھ کر اس نے ساؤنڈ میز پر رکھ دیا۔ میز پر چیزیں بے ترتیبی سے بکھری پڑی تھیں۔ اس نے بید کے ٹرے میں تازہ خطوط رکھے اور دوسری چیزیں بھی قرینے سے رکھنے لگی۔

    ’’مجھے بھی چند مضامین دو۔‘‘ میں نے سب چیزیں اپنی اپنی جگہ رکھ کے پوچھا۔

    ’’نہیں تم اندازہ نہیں لگا سکو گی۔‘‘

    ’’تو پھر میں کیا کروں؟‘‘

    ’’چپ بیٹھی رہو رانی۔‘‘ انہوں نے بڑی ہی میٹھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پیار سے کہا اور ان بلوریں نینوں میں رس بھر آیا۔ جگمگاتی سبز پتلیوں پر جھکی ہوئی وہ گھنی پلکیں! میں سفید و سبز و سیاہ کے اس خوبصورت سنگم کو دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔ پھر وہ ریشمیں پلکیں جھپک گئیں اور سبز کانچ کی سی پتلیاں بادام کے سے پپوٹوں میں چھپ گئیں اور نسرین کی نگاہیں ان پر سے ہٹ کر ادھر ادھر کمرے میں بھٹکنے لگیں۔

    ’’دیکھو نازی میرا خیال ہے اس دفعہ نظم سے پہل نہ کی جائے چھوٹے ہی احمد علی کا مضمون دے دیا جائے کیوں؟‘‘

    اوہ! انہوں نے ترتیب شروع کر دی۔ میں نے چونک کر کہا، ’’ہاں مضمون ہی سے شروع ہو تو اچھا ہے۔‘‘

    ’’پھر، ٹھہرو تمہیں کیسے معلوم ہو، فہرست کی ایک اور کاپی تمہارے لیے بنا دیتا ہوں۔‘‘
    اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے یاد ہیں سب مضامین کے نام۔ میرے خیال میں اس کے بعد فیض احمد فیض یا اختر انصاری کی نظم۔۔۔‘‘

    ’’نہیں اختر انصاری کی یہ نظم تو ان پر مضمون کے ساتھ آئے گی اور ان کی سب نظمیں ایک ساتھ آئیں تو اچھا ہے۔ ایک یہاں، ایک وہاں ڈالی جائے تو ترتیب میں بڑی بے سلیقگی نظر آئے گی، فیض کی نظم ٹھیک رہے گی۔ پھر؟‘‘

    ’’کرشن چندر کا۔۔۔‘‘ انہوں نے میری بات کاٹ دی۔ ’’اوہ نازی! تو سب بڑے بڑے ناموں کو شروع میں رکھنا چاہتی ہو، ترتیب میں ناموں کو کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، مشہور لکھنے والوں کے مضامین تو سب پڑھتے ہی ہیں، خواہ وہ شروع میں چھپے ہوں یا درمیان میں یا آخر میں۔ ترتیب میں محض ناموں کاخیال نہیں رکھنا چاہیے، ٹھہرو میں پہلے ایک رف سا خاکہ بنا لیتا ہوں۔ پر ترمیم کرنا ہو تو غور کریں گے۔‘‘

    شاہد محض یوں ہی ترتیب نہیں دیتا تھا۔ کتنا سلیقہ ہوتا تھا اس کی ترتیب میں! مشہور اہل قلم بھی اس کے سلیقہ اور حسن ترتیب کی دل کھول کر داد دیتے تھے۔ ’’کیا کہوں آپ کو پرچہ مرتب کرنے کا ایسا سلیقہ ہے۔‘‘ ’’نیا دور‘‘ کے مضامین تو بلند پایہ ہوتے ہی ہیں لیکن آپ اس میں اندازِ ترتیب سے نئی جان، نئی بیداری، نیا حسن پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘ ہاں شاہد کے انداز ترتیب میں ایک خاص ذوق جھلکتا تھا۔ وہ کہیں ایسے مضامین ایک کے بعد دیگر رکھتا تھا جن میں بالکل تضاد ہو۔

    میں جانتی تھی اب وہ پھر بڑے انہماک سے نظمیں وغیرہ ہے پڑھ کر بڑی سوچ بچار کے بعد خاکہ تیار کریں گے۔ اتنی دیر تک پھر خاموش بیٹھنا ہوگا؟ میں اندر اٹھ کر جانے والی تھی کہ انہوں نے پوچھا۔

    اس دفعہ ہم نے دوسری زبانوں کی کہانیوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے نا؟ مالتی کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے کیا؟

    ’’مکمل تو کیا، آدھا بھی نہیں کیا، اتنا طویل ہے وہ افسانہ میں نے اکتا کر چھوڑ دیا، آئندہ نمبر کے لیے ضرور کردوں گی۔‘‘

    تو پھر اس دفعہ کون سی کہانیاں شامل کی جائیں؟ میں نے یہیں کے دو تین آدمیوں سے چند ترجمے کروائے ہیں۔ لیکن ترجمے خراب ہوئے ہیں۔ تم دیکھ کر تصحیح کر دو تو میں شامل کر لوں گا۔

    ’’میں نہیں کروں گی تصحیح، میں نے پڑھا ہے انہیں‘‘ میں جھنجھلا گئی، جملہ جملہ بدلنا پڑے گا۔ ازسرنو ترجمہ کرنا ہوگا، اس سے تو بہتر ہے اوریجنل دیکھ کر میں خود ہی ترجمہ کر دوں۔‘‘

    ’’لیکن، نازی، وہ نارویجین کہانی کا ترجمہ کر دیا ہوتا۔ چھوٹی سی ہے نا!‘‘

    ’’کونسی نارویجین کہانی؟‘‘

    ’’Knut Hamsun کی دی کال آف لائف۔‘‘

    ’’ہاں وہ ضرور کر دوں گی، کنوٹ ہامزون کو نوبل پرائز ملا تھا؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اور سنو کوئی اور بہت اچھی کہانیاں ہیں۔ تمہاری نظر میں جن کا ترجمہ ہو سکے؟‘‘
    ’’ترجمے کے لیے میں نے چند کہانیوں کا انتخاب کر رکھا ہے۔

    میں نے غور ہی نہیں کیا وہ کیسی تحسین آفرین نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ ہونٹ بھینچے۔ میں شرما گئی اور بات ٹال کر پوچھا۔ ’’اچھا تو کس کا ترجمہ کروں میں اس نمبر کے لیے؟‘‘

    ’’میں نہیں چاہتا، تم اتنا وقت ترجموں میں صرف کرو۔ تم میں تخلیقی صلاحیت ہے۔ ترجموں میں تمہارا بہت سا وقت بیکار جا رہا ہے۔ تم افسانے تو بالکل نہیں لکھ رہی ہو آج کل؟‘‘

    ’’لیکن لکھوں کس پر، میرا مشاہدہ تو اتنا محدود ہے، بچپن ہی سے اتنے سخت پردے میں رکھا تھا، ہر پھرا کے ذرا آٹوبیاگرافک افسانے ہی تو لکھ سکتی ہوں۔‘‘

    ’’تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے اس طرح کے افسانے لکھنا کمتری کا باعث ہے۔ دنیا کے لٹریچر میں کئی بہترین چیزیں آٹوبیاگرافک ہی تو ہیں، واقعات کی سچائی اور جذبات و احساسات کی مہین باریکیوں کی صحیح عکاسی اس میں آسانی سے ہو سکتی ہے۔‘‘

    ’’ہاں ٹھیک ہے لیکن میدان ہی کچھ محدود ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’ایک حد تک۔ لیکن ہم توجہ دیں تو بہت سارے موضوع مل سکتے ہیں، کیوں کیا ایک فرد کی زندگی میں اتنا مواد نہیں کہ بیسیوں افسانے بن سکیں؟‘‘

    ’’اور اگر واقعات ایسے چنے جائیں جن میں بہتوں کی زندگی کا عکس ہو یا اس کے اندر سے کوئی Basic Human element جھلکتا نظر آئے تو خواہ پس منظر ایک ہی فرد کی زندگی کا کیوں نہ ہو افسانہ میں اجتماعی رنگ آ جاتا ہے۔‘‘

    ’’ارے تم نے میرے منہ سے بات چھین لی، میں اب بالکل یہی کہنے والا تھا، جب ہم بحث کر رہے ہوتے ہیں تم کبھی کبھی کیسے وہی بات کہہ دیتی ہو جو میں کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، یہ ایک ’’ترقی پسند‘‘ صورت ہے۔‘‘ ہم دونوں پر بری طرح ہنسی کا دورہ پڑا۔

    دونوں ترجموں کا نام فہرست کے نیچے لکھ کر پھر کاغذوں پر جھک گئے اور نسرین خطوط میں سے جو زیادہ ضروری تھے، انہیں نکال کر جواب لکھنے لگی۔ میں نے چھٹاواں خط لکھ کر ان کی طرف بڑھایا۔ ’’ذرا دستخط کر دو اس پر۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘……….’’تمہاری طرف سے لکھا ہے وہی پبلشر کے خط کا جواب۔‘‘ دستخط کر کے انہوں نے میرے ہاتھ میں خط دیتے ہوئے کہا، ’’میں نے خاکہ بنا لیا ہے پڑھ کر سناؤں؟‘‘

    ’’ارے اتنا جلد۔‘‘ میں متعجب ہوگئی۔ ’’تمہاری ترتیب تو۔۔۔‘‘ ’’دھارے کی طرح بہتی ہے، پھلجھڑی کی طرح بکھر جاتی ہے، فوارے کی طرح چھوٹتی ہے، قوس و قزح کے رنگوں میں بٹ جاتی ہے، کیسے کیسے شاعرانہ نام دے رکھے ہیں تم نے۔ لیکن اس دفعہ مضامین ہی کچھ ایسے ہیں کہ کسی خاص سلیقہ سے ترتیب دینا ممکن نہیں۔ میں نے یوں ہی ترتیب دے دی ہے سنو گی؟‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ ……….’’تمہارے کہنے کے مطابق میں نے پہلے احمد علی کا مضمون رکھا ہے، پھر فیض احمد فیض کی نظم پھر کرشن چندر کا افسانہ۔۔۔‘‘ وہ پڑھتے گئے۔

    میں غور سے سن رہی تھی۔ ایک نظم کا نام سن کر میں نے چونک کر پوچھا، ’’یہ نظم؟ مجھے ایسے یاد پڑتا ہے۔ یہ معمولی تھی ادھر لاؤ پھر پڑھ کے دیکھوں۔۔۔‘‘

    ’’معمولی ہے؟‘‘

    ’’پھر بھی اتنی ساری معمولی نظمیں جو موصول ہوئیں ہیں، ان میں غنیمت ہے۔‘‘

    ’’غنیمت؟ کیا ’نیا دور‘ کا معیار غنیمت پر اتر آیا ہے؟‘‘

    ’’لیکن نازی، اس دفعہ اچھی نظمیں بہت کم موصول ہوئی ہیں۔‘‘

    ’’کم ہیں تو شائع شدہ نظموں میں سے بہت اچھی چن کے ڈالیں جیسے پہلے نمبروں میں کیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن مطبوعہ چیزیں حتی الامکان کم۔۔۔ اس دفعہ دونوں ترجمے بھی تو مطبوعہ ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے فہرست پڑھنی شروع کی۔ ’’پھر یہ نظم۔‘‘

    ’’ارے یہ بھی معمولی ہے۔ ایک سے دو معمولی چیزیں شامل ہوں تو مجموعی اثر بھی خراب ہو جائے گا۔‘‘ پر وہ بہت دیت تک خاموش رہے۔ ’’آگے پڑھو نا، کیوں خفا ہو گئے کیا؟‘‘
    ’’خفا کیوں ہوں گا، میری نازی، تم تو وہی کہہ رہی ہو جو میں نے بھی محسوس کیا لیکن مجبوری ہے۔‘‘

    ’’پھر کیا ہے اس کے بعد؟‘‘

    ’’کہوں تو تم اور بھی متعجب ہوگی۔ یہ افسانہ بھی دوسرے درجہ کی چیز ہے لیکن اس مصنف کی بہت ساری چیزوں سے بہتر ہے۔‘‘

    ’’دوسرے درجہ کا افسانہ؟ یہ تو اور بھی بری بات ہے، ایک دوسرے درجہ کے افسانے کو ’’نیا دور‘‘ میں جانے دیں؟‘‘

    ’’اگر یہ نکال دیں تو اس نمبر میں اردو کے صرف دو ہی افسانے رہ جائیں گے، وہ بھی چھوٹے۔‘‘

    ’’دو ہی کیوں۔ ہم نے تو اردو کے بہت اچھے افسانوں کی اتنی لمبی فہرست بنا رکھی ہے۔ ’’نیا دور‘‘ میں شائع کرنے کے لیے؟‘‘

    ’’لیکن حتی الامکان غیر مطبوعہ۔۔۔‘‘

    ’’غیر مطبوعہ، غیر مطبوعہ، آخر کیوں؟ ہم نے شائع شدہ چیزوں کے شائع کرنے کی سب ایڈیٹروں اور پبلشروں سے اجازت لے لی ہے نا اور اعلان بھی کر دیا ہے کہ ’’نیا دور‘‘ پنگون نیو رائٹنگ کی طرز پر نکالا جا رہا ہے۔

    ’’لیکن انگریزی میں اس طرح کی چیزیں کس قدر مقبول ہوتی ہیں۔ پینگون نیو رائٹنگ میں تو خیر تین چار چیزیں غیرمطبوعہ ہوتی ہیں لیکن آرگوسی اور ریڈرز ڈائجسٹ میں تو سب انتخاب ہی ہوتا ہے، پھر بھی ان کی کتنی قدر ہوتی ہے، ہمارا ’’نیا دور‘‘ کیوں؟

    ’’تم بھول رہی ہو نازی، یہ ہندوستان ہے۔‘‘ انہوں نے ہنس کر کہا۔ کتنی تلخی تھی۔ اس ہنسی میں!

    ’’تو ہم پرچے کم چھپوائیں گے۔ ’’نیا دور‘‘ صرف بہت اچھے ذوق والوں کے ہاتھوں میں پہنچے۔‘‘

    ’’کم چھپوائیں تو خرچ کیسے نکل سکے گا؟‘‘

    ’’پرچوں کی تعداد خواہ کتنی بھی کم ہو کتابت اور طباعت اور کور پیج کی پرنٹنگ کا وہی خرچ ہوگا۔ طباعت اور کتابت کے لیے روپے فارم کے حساب سے دیے جاتے ہیں اور کور پیج کے لیے کتنے رنگ کی پرنٹنگ ہے اس حساب سے۔‘‘

    ’’ہم نے پرچہ مالی فائدہ کی غرض سے تو نکالا نہیں۔ لیکن خرچ بھی نہ نکلے تو؟ تم جانتی ہو کتنا خرچ آتا ہے ہمیں ’’نیا دور‘‘ پر۔ چھتیس روپے ریم سے کم کا کاغذ ہمیں کبھی ملا ہی نہیں اور آئندہ نمبر کے لیے تو پچاس روپے ریم والا چکنا، بتیس پونڈ کا کاغذ خرید کر پریس میں رکھ آیا ہوں۔‘‘

    ’’افوہ! کیوں خریدا اتنا مہنگا کاغذ؟ پچاس روپیہ ریم!‘‘

    ’’سفید کاغذ بالکل ناپید ہے ان دنوں! جو ملتا ہے وہی خریدنا پڑتا ہے، یہاں اتنی قیمت پر بھی کافی نہیں ملتا۔‘‘

    ’’لیکن ہم اخباری کاغذ کیوں نہ استعمال کریں؟ تم کہہ رہے تھے اس کی قیمت صرف بارہ روپیہ ہے۔‘‘

    ’’اخباری کاغذ استعمال کرنے کی ہمیں اجازت نہیں۔ صرف ان پرچوں کے لیے جو ۱۹۴۲ء سے پہلے نکلتے تھے اخباری کاغذ کا کوٹا منظور ہوا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر کیا کریں؟ ’’نیا دور‘‘ کی نوعیت کو بدلنا ہوگا؟‘‘

    ’’ہاں‘‘، انہوں نے دبی آواز میں جواب دیا اور فہرست کی کاپیاں بنانے لگے۔

    ’’لڑکے کو آواز دو، نازی، ابھی کاتب کے پاس فہرست اور مسودے بھجوا دوں۔‘‘ میں لڑکے کو بلا لائی۔ وہ غور سے فہرست دیکھ رہے تھے۔ ان کی خوبصورت پیشانی پر بل پڑتے تھے اور چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی، میں جانتی تھی۔ کیوں اداس تھے میرے شاہد! وہ اتنا اچھا ذوق رکھ کر بھی اپنے ذوق کے مطابق پرچہ مرتب نہ کر سکے تھے!

    انہوں نے لڑکے کے ہاتھ میں مسودوں کا لفافہ دیتے ہوئے کہا، ’’اس دفعہ پرچہ واقعی کمزور ہوگا، اچھے ادیبوں کے مضامین اور افسانے بھی اتنے اچھے نہیں ہیں اس میں! لیکن گھبراؤ نہیں، نازی، یہ ایک ہی پرچہ ایسا ہوگا۔ آگے چل کر سب اچھے ادیب ہمیں مضامین بھیجتے رہیں گے۔‘‘

    ’’لیکن کتنے ہی ذوق والے ’’نیا دور‘‘ کا فائل رکھ رہے ہیں، ایک پرچہ بھی کمزور ہونا ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔‘‘

    وہ لڑکے کو گیٹ سے باہر نکل کر مڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ لڑکا سائیکل پر سوار ہو کر آن کی آن میں دور نکل گیا۔

    انہوں نے دروازے کی طرف سے نظریں پھیر کر مجھے دیکھا اور دبی آواز میں اداسی سے جواب دیا۔ ’’ٹھیک کہتی ہو۔‘‘

    اب وہ سبز پتلیاں کتنی اداس اور پھیکی تھیں۔
    خطوط

  • پریم چند کا تذکرہ جن کی ہنسی کبھی دھیمی یا پھیکی نہیں پڑی!

    پریم چند کا تذکرہ جن کی ہنسی کبھی دھیمی یا پھیکی نہیں پڑی!

    پریم چند کی کچھ باتیں کرنے میں آج آپ کے سامنے ہوں۔ اس بات پر جی میں کچھ بے چینی ہوتی ہے۔ آج وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ اور کبھی وہ دن تھے کہ ہم لوگ پاس بیٹھ کر چرچا کیا کرتے تھے اور ان کی ہنسی کا قہقہہ کسی وقت بھی سُنا جاسکتا تھا۔ پر اس بات پر آج اٹک کر بھی تو نہیں رہا جاسکتا ہے۔ دنیا میں کون سدا بیٹھا رہتا ہے۔ اور کون بیٹھا رہے گا۔ آدمی آتے ہیں اور جو ان کے ذمہ کام ہوتا ہے کرتے ہوئے پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔

    پر پریم چند اس انجان پردے کے پیچھے ہوکر آنکھوں سےاوجھل ہوگئے ہیں۔ یاد سے دُور کرلینا انھیں ممکن نہیں ہے۔ زندگی ان کی اوسط سے زیادہ نہیں رہی۔ کل چھپن (۵۶) برس اس دنیا میں جیے۔ کہیں یہ برس روشنی کے برس تھے۔ اور ان کی زندگی سچی محنت ایمانداری اور سادگی کی زندگی تھی۔

    یہ تو آپ اور ہم جانتے ہی ہیں کہ ہندستان میں ہندی اور اردو بھاشائیں جب تک ہیں پریم چند کا نام مٹ نہیں سکتا۔ وہ دُھندلا بھی نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ دونوں زبانوں کو پاس لانے میں اور ان دونوں کو گھڑنے میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ ان کے خیالات ہندوستان کی زندگی میں کھل مل گئے ہیں۔ اور وہ ہماری تاریخ کا جزو بن گئے ہیں۔ ان کی کہانیاں گھر گھر پھیلی ہیں ان کی کتابوں کے ورق لوگوں کے دلوں میں بس گئے ہیں۔

    لیکن اس سچائی کا بانی کون تھا۔ یہ بہت لوگوں کو معلوم ہوگا۔ کیا چیز تھی جو پریم چند کی تحریروں کو اس قدر عمدہ بنا دیتی تھی یہ جاننے کے لیے ذرا پیچھے جاکر دیکھنا چاہیے۔ ان کی ہنسی تو مشہور ہی ہے۔ زندگی میں، میں نے کھلے گلے کا ویسا قہقہہ اور کہیں نہیں سنا۔ گویا جس من سے ہنسی کا وہ فوارہ نکلتا تھا اس میں کسی طرح کا کینہ اور میل تو رہ ہی نہیں سکتا۔

    ان پر چوٹیں بھی کم نہیں پڑیں۔ سب ہی طرح کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں۔ پھر بھی ان کی ہنسی دھیمی یا پھیکی نہیں ہوئی۔ یا تو وہ سب باتوں میں ایک طرح کی علیحدگی کے بہاؤ سےالگ کرکے دیکھ سکتے تھے۔ اس خوبی کی قیمت سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے بچپن کے زمانہ کو بھی کچھ دیکھنا چاہیے۔

    چھٹپن کی بات ہے کہ ماں گزر چکی تھی پتا کا بھی پندرھویں برس انتقال ہوگیا تھا۔ گھر میں دوسری ماں تھی اور بھائی تھے اور بہن تھی۔ گھر میں کئی تن پالنے کو تھے۔ پر آمدنی پیسے کی نہ تھی۔ ادھر بالک پریم چند کے من میں ایم-اے پاس کرکے وکیل بننے کا ارمان تھا۔ بیاہ بھی چھٹپن میں ہوگیا تھا۔ وہی لکھتے ہیں پاؤں میں جوتے نہ تھے۔ بدن پر ثابت کپڑے نہ تھے۔ گرانی الگ، دس سیر کے جوتھے۔ اسکول سے ساڑھے تین بجے چھٹی ملتی تھی۔ کوئنز کالج بنارس میں پڑھتا تھا۔ فیس معاف ہوگئی تھی۔ امتحان سرپر اور میں بانس کے پھاٹک ایک لڑکے کو پڑھانے جایا کرتا تھا۔ جاڑے کاموسم تھا۔ چار بجے شام کو پہنچ جاتا۔ چھ بجے چھٹی پاتا۔ وہاں سےمیرا گھر پانچ میل کے فاصلہ پر تھا۔ تیز چلنے پر بھی آٹھ بجے رات سے پہلےگھر نہ پہنچتا۔

    اپنی آپ بیتی کہانی جو انہوں نے لکھی ہے اس سے ان کے شروع کے جیون کے دن آنکھوں کے آگے آجاتے ہیں۔ ماں کم عمری میں ہی انھیں چھوڑ کر چل بسیں۔ پندرہ سال کی عمر میں پتا بھی چھوڑ گئے۔ شادی چھٹپن ہی میں ہوچکی تھی گھر میں کئی آدمی تھے۔ گاؤں سے روزانہ دس میل چل کر پڑھنے پہنچتے۔ گذارے کے لیے تین اور پانچ روپے کی ٹیوشن پائے۔ میٹرک جوں توں پاس ہوا اب آگے کے لیے کوششیں کیں۔ سفارش بھی پہنچائی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ داخلہ ہوگیا تو حساب انہیں لے ڈوبتا رہا۔ سالہا سال ریاضی کے مضمون کی وجہ سے وہ فیل ہوتے رہے۔ آخر دس بارہ سال بعد جب ریاضی اختیاری مضمون ہوا تب بڑی آسانی سے انہوں نے وہ امتحان پاس کرلیا۔ پڑھائی کے دنوں میں کتنے دن انہیں بھنے چنوں پر رہنا پڑا اور کتنے دن ایک دم بن کھائے گزارے، اس کا شمار ہی نہیں۔ آخر ایک دن پاس کھانے کو کوڑی نہ بچی تھی تب دو برس سے بڑے پیار کے ساتھ سنبھال کر رکھی ہوئی ایک کتاب دوکان پر بیچنے پہنچے۔ دوروپے کی کتاب کا ایک میں سودا ہوا۔ روپیہ لے کر دوکان سے اتر رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا ‘‘کیا پڑھتے ہو؟’’ ‘‘نہیں مگر پڑھنے کو دل چاہتا ہے’’۔ ‘‘میٹرک پاس ہو؟’’، ‘‘جی ہاں’’۔ ‘‘نوکری تو نہیں چاہتے؟’’، ‘‘نوکری کہیں ملتی ہی نہیں۔’’ انہی بھلی مانس نے انہیں ملازمت دی تو شروع میں اٹھارہ روپے تنخواہ ہوئی۔ یہیں سے ان کی زندگی کا شروع سمجھنا چاہیے۔

    (جے نندر کمار کے مضمون سے اقتباسات)

  • عزیز احمد: افسانہ نگار اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کا تذکرہ

    عزیز احمد: افسانہ نگار اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کا تذکرہ

    افسانہ نگار، بہترین مترجم اور عالمی سطح پر اسلامی تاریخ و ثقافت کے استاد کی حیثیت سے عزیز احمد کا نام ان کی مختلف اصنافِ ادب میں عمدہ تصانیف کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ آج عزیز احمد کا یومِ وفات ہے۔

    عزیز احمد نے جہانِ ادب کے لیے اردو اور انگریزی زبانوں میں علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا۔ ایک نہایت قابل استاد اور ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے عزیز احمد نے کئی سال تدریس اور ادب کے شعبہ کو دیے اور 16 دسمبر 1978ء کو وفات پائی۔ حیدر آباد دکن کے ضلع تلنگانہ میں 11 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولنے والے عزیز احمد کی ابتدائی تعلیم اور بعد کے درجات کی تعلیم اس دور کی عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ میں مکمل ہوئی۔ عزیز احمد کے اساتذہ میں مولوی عبدالحق، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولوی وحید الدین سلیم، ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور پروفیسر عبدالقادر سروری جیسے ممتاز ادبا شامل تھے۔ عزیز احمد ادب کا ذوق اپنی خاندانی فضا سے لے کر آئے تھے اور ان اساتذہ نے انہیں کندن بنا دیا۔ حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے عزیز احمد کو نظامِ دکن نے مولوی عبدالحق کی سفارش پر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجا۔ عزیز احمد نے وہاں تعلیم مکمل کرنے کے دوران چند بڑے ادیبوں اور دانش وروں کے درمیان رہ کر ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ای، ایم، فورسٹر ان میں سے ایک ہیں۔ انگریزی اور فارسی میں ”آنرز“ کر کے عزیز احمد دکن واپس آئے تو جامعہ عثمانیہ میں ان کو انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ 1940ء میں ان کی شادی ہوگئی اور اسی دور میں اپنی قابلیت اور لیاقت کی بنیاد پر 1942 میں وہ نظام حیدرآباد کی بہو شہزادی در شہوار کے اتالیق مقرر ہوئے۔ عزیز احمد چار سال تک اس خانوادے سے منسلک رہے۔ اس خدمت کے بعد عزیز احمد نے 1946 میں دوبارہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر 1949میں ہجرت کرکے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی آگئے۔ یہاں عزیز احمد نے محکمہ اطلاعات 1957 تک خدمات انجام دیں۔ 1958ء میں انھوں نے لندن میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا جہاں وہ اپنی وفات تک مقیم رہے۔ پروفیسر عزیز احمد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔ وہ ایک محقّق اور نقّاد بھی تھے اور اسلامی علوم و ثقافت پر ان کی انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی سے متعلق گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ عزیز احمد کی انگریزی زبان میں‌ تحریر کردہ ان کتابوں کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ انور سدید لکھتے ہیں کہ عزیز احمد اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی زبان کے علمی اور ادبی سرمائے میں اضافے کے لئے دوسری زبانوں کی ممتاز کتابوں کا ترجمہ ضروری ہے۔ انہوں نے نظریاتی تنقید کی قدیم ترین کتاب ارسطو کی ”بوطیقا“ کا ترجمہ سلیس اردو میں کیا۔ ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی اور شیکسپئر کے ڈرامے رومیو جیولیٹ کے علاوہ ابسن کے ایک ڈرامے کا ترجمہ معمار اعظم کے عنوان سے کیا۔ عزیز احمد کو شاعری پر بھی تخلیقی دسترس حاصل تھی۔