Tag: اردو افسانہ نگار

  • اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    آج اردو زبان کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات ہے۔ خدیجہ مستور کا شمار اردو کی اُن ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی وفور اور شعور سے افسانہ اور ناول نگاری کے میدان میں نام و مقام بنایا اور ان اصنافِ ادب کا وقار بڑھایا۔ وہ 26 جولائی 1982ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔

    خدیجہ مستور 11 دسمبر 1927ء کو بریلی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942ء میں کیا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور آ بسا تھا۔ یہاں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور تین افسانوی مجموعے چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی کے نام سے شایع ہوئے۔ اسی عرصے میں ان کے دو ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ کے نام سے بھی منظرِ عام پر آئے جنھیں بہت پسند کیا گیا، خاص طور پر آنگن کو بہترین ناول مانا گیا جس پر 1962ء میں خدیجہ مستور کو آدم جی انعام بھی دیا گیا تھا۔

    خدیجہ مستور کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ واقعات کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان سے متعلق سیاسی اور معاشرتی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان کی کہانیاں عموما متوسط طبقہ کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے موضوعات وسیع اور سماجی اقدار پر مبنی ہیں جن کا پس منظر سیاسی اور اخلاقی ہے۔

    خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور بھی اردو کی صف اوّل کی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جب کہ ان کے بھائی خالد احمد کا نام جدید شاعری کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔

    خدیجہ مستور کو لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا ہوتا ہے اور ہوتی بھی ہے۔ یعنی ایکسٹرا مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔

    فلم میں جب کسی گلی محلے یا بازار کا سین دکھایا جاتا ہے تو اس میں چلنے پھرنے والے لوگوں کی اکثریت ایکسٹرا ہوتی ہے۔ وہ پان بیچنے والا ایکسٹرا ہے اور وہ جو دکان پر کھڑا ہو کر "ایک پونا کالا کانڈی” پان کی فرمائش کر رہا ہے وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    بادشاہ کے درباری ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ وہ دربان جو لال رنگ کا چوغا پہنے سنہرے رنگ کی موٹھ والی چھتری ہاتھ میں لیے بادشاہ کے آگے چل رہا ہے اور بلند بانگ لہجے میں چلا رہا ہے: "باادب باملاحظہ ہوشیار” وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    کبھی کبھی بادشاہ بھی ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ جیسے وہ آج کل اکثر ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی سنہری وردی پہنے تخت پر بیٹھے ہیں۔ مگر مجال نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے جوتے کا تسمہ بھی کھول سکیں۔

    مجھے آج کل کے بادشاہوں اور فلم کے ایکسٹرا لوگوں کو دیکھ کر بڑی ہم دردی ہوتی ہے مگر دراصل یہ لوگ کسی ہم دردی کے محتاج نہیں ہیں۔

    فلم کے ایکسٹرا فلمی دنیا میں سب سے کم کماتے ہیں۔ مہینے میں کسی کو پانچ دن تو کسی کو دس دن کام ملتا ہے۔ باقی دن یہ مانگے تانگے سے کس طرح چلاتے ہیں، بھگوان ہی بہتر جانتا ہے مگر پھر بھی یہ فلمی دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے۔ کسی قیمت پر الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی فلمی ایکسٹرا کو جو مہینے میں بڑی مشکل سے پچیس روپے کماتا ہے، پچاس روپے کی دربانی پیش کر کے دیکھ لیجیے۔ وہ ٹھوکر مار دے گا۔ کام کو بھی اور آپ کو بھی۔

    اسے فلمی دنیا میں پانچ دن کام کر کے باقی پچیس دن بھوکا مرنا منظور ہے، مگر وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔

    دراصل یہ ایکسٹرا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ہیرو یا ہیروئین بننے کی خواہش میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن، خاوند، بیوی بچے سب چھوڑ کر بمبئی چلے آتے ہیں اور بھیڑوں کی طرح ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر دھکیلے جاتے ہیں۔

    ان میں سے ہر مرد یا عورت کی آنکھوں میں ایک خواب بستا ہے۔ کبھی وہ ہیرو یا ہیروئین بن جائیں گے۔ اور بدقسمتی سے فلمی دنیا میں چند ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی ایک ایکسٹرا دو سال تک ایکسٹرا رہا پھر اچانک ہیرو بن گیا۔ ایک لڑکی جو پانچ سال تک ایکسٹرا رہی اچانک ہیروئین بن گئی۔ اور امپالا میں بیٹھ گئی۔ اس لیے یہ خواب کسی ایکسٹرا کی آنکھوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

    (ممتاز ادیب اور افسانہ نگار کرشن چندر کے مضمون الف سے ایکٹر، ایکٹریس، اشتہار: فلمی قاعدہ سے انتخاب)