Tag: اردو افسانہ

  • غیاث احمد گدی اور جامِ سفال!

    غیاث احمد گدی اور جامِ سفال!

    آزادی کے بعد بھارت میں جو افسانہ نگار سامنے آئے ان میں غیاث احمد گدی بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیدھے سادے اور علامتی و استعاراتی انداز میں بھی افسانے لکھے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ استعاراتی و علامتی انداز بیان کے باوجود ان میں کہانی پن موجود ہے۔ غیاث احمد گدی نے اپنی افسانہ نویسی کی ابتدا خاص قسم کے معاشرتی افسانوں سے کی جن میں معاشرہ کے مختلف پہلوؤں کو مختلف زاویوں سے پیش کیا۔

    اردو کے افسانہ نگار اور ہندوستانی زبانوں کے فکشن کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنے کے لیے پہچان رکھنے والے سلام بن رزاق نے غیاث احمد گدی سے اپنی ایک ملاقات پر تاثراتی تحریر رقم کی تھی جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ان دونوں شخصیات کا تعلق بھارت سے تھا۔ سلام بن رزاق لکھتے ہیں:

    ان(غیاث احمد گدی) سے چوتھی اور آخری بار میں 1978ء میں الہ آباد میں کل ہند افسانہ سیمینار میں ملا۔ اس سیمینار میں بمبئی سے انور قمر بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ سمینار غالباً اردو افسانے پر پہلا بڑا سمینار تھا۔ جس میں ڈاکٹر قمر رئیس، جناب شمس الرحمن فاروقی، جوگیندر پال، رام لال، قاضی عبدالستار، کلام حیدری کے علاوہ کئی ہم عصر اور نوجوان افسانہ نگار اور نقاد بھی شریک تھے۔ دو دنوں تک خوب محفلیں رہیں لوگ ایک دوسرے سے جی کھول کر ملے۔ غیاث احمد گدی کو اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیوں کہ وہ زیادہ وقت ہمارے ساتھ ہی گزارتے تھے۔

    سمینار کے آخری دن منتظمین کی جانب سے ایک ہوٹل میں ڈنر تھا، دو روز کے لگاتار ادبی مباحث اور نکتہ آفرینوں نے سب کو بری طرح تھکا دیا تھا۔ تقریباً سب کا جی چاہتا تھا کہ ڈنر سے پہلے کہیں سے دو گھونٹ مئے اندوہ رُبا کا انتظام ہوجائے تو ذہن و دل کو تراوٹ ملے۔ مگر سب ایک دوسرے کے لحاظ میں خاموش تھے۔ تبھی کسی نے آکر چپکے سے بتایا کہ قریب ہی کہیں ایک دیسی مے خانہ دریافت ہوا ہے جہاں انگلش نہیں دیسی مل جاتی ہے۔ میں انور قمر، شوکت حیات حمید سہروردی اور دو ایک مقامی نوجوان بزرگوں کی نظر بچا کر ڈائننگ ہال سے باہر نکل گئے، جب گدی صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ ڈاکٹر سید محمد عقیل اور کلام حیدری کی نظر بچا کر ہمارے پیچھے پیچھے آگئے۔ سید محمد اشرف بھی ازراہِ سعادت مندی ساتھ تھے۔ جب ہم لوگ اڈے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں شیشہ و ساغر کا دستور نہیں، جامِ سفالین کا چلن ہے۔ آرڈر دیا گیا۔ فوراً مٹی کے کلہڑوں میں مے خانہ ساز آگئی۔ ہم میں سے کوئی بھی عادی بادہ نوش نہیں تھا البتہ کبھی کبھی روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں چکھنے کے سب گناہ گار تھے۔

    مٹی کے کلہڑوں میں پینے کا ہمارا پہلا اتفاق تھا اور دورانِ گردشِ جام، غالب کا یہ شعر سب کو مزید ترغیب دلا رہا تھا۔

    اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
    جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

    گدی صاحب بہت موڈ میں تھے اور خوب چہک رہے تھے۔ اس محفل کو یاد کرتا ہوں تو گدی صاحب کا دمکتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ اس کے بعد گدی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔

  • لاہور کا ایک واقعہ!

    لاہور کا ایک واقعہ!

    یہ بات ۱۹۳۷ء کی ہے۔ میں ان دنوں لاہور میں تھا۔ ایک دن میرے جی میں آئی کہ چلو علّامہ اقبال سے مل آئیں۔ اس زمانے میں میرے پاس ہلکے بادامی سفید (Off White) رنگ کی ایمبسیڈر (Ambassador) تھی۔ میں اسی میں بیٹھ کر علامہ صاحب کی قیام گاہ کو چلا۔

    ان کی کوٹھی کا نمبر اور وہاں تک پہنچنے کا صحیح راستہ مجھے ٹھیک سے نہ معلوم تھا، لیکن میکلوڈ روڈ، جہاں وہ رہتے تھے، اس کی جائے وقوع سے میں اچھی طرح واقف تھا۔ لہٰذا کسی خاص مشکل کے بغیر میں علامہ کے بنگلے تک پہنچ گیا۔

    سڑک کچھ گرد و غبار سے بھری ہوئی لگتی تھی۔ فٹ پاتھ، یا یوں کہیں کہ فٹ پاتھ کی جگہ سڑک کے دونوں طرف کی چوڑی پٹی، خشک اور گردآلود تھی۔ علّامہ کے بنگلے کا پھاٹک اچھا خاصا اونچا، لیکن لکڑی کا تھا۔ اس پر سلیٹی رنگ کی لوہے (یا ٹین) کی چادر تھی، جس کے باعث پھاٹک بہت بھاری اور کسی پراسرار سی عمارت کا پھاٹک معلوم ہوتا تھا۔ پھاٹک کھلا ہوا تھا اور سامنے مختصر سی اندرونی سٹرک (Drive Way) تھوڑا بل کھاتی ہوئی اصل عمارت کی طرف جاتی ہوئی صاف نظر آ رہی تھی۔ عمارت بلند و بالا، لیکن سال خوردہ اور ذرا بوسیدہ معلوم ہوتی تھی۔ جگہ جگہ مرمت اور ایک جگہ تعمیر نہ کے آثار بھی باہر سے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے احسان دانش کی نظم ’’علامہ اقبال کی کوٹھی‘‘ یاد آئی جو ایک دو مہینہ پہلے ’’خیام‘‘ یا ’’عالم گیر‘‘ میں چھپی تھی۔ نظم میں کوٹھی کی خستہ حالی پر افسوس اور رنج کا اظہار تھا۔ آخری شعر تھا:

    سنتا ہوں کہ اب ہو گئی کوٹھی کی مرمت
    احسان اسے دیکھنے جاؤں گا دوبارہ

    میں کچھ دیر اس شش و پنج میں رہا کہ گاڑی اندر تک لیے چلا جاؤں، یا فٹ پاتھ ہی پر چھوڑ دوں۔ پھرمیں نے دل میں کہا، ممکن ہے پورٹیکو میں اور کوئی گاڑی کھڑی ہو اور میں اپنی گاڑی اندرونی سڑک پر کھڑی کر دوں تو شاید کسی کا راستہ رک جائے۔ لہٰذا میں نے گاڑی وہیں سڑک کے کنارے لگا دی اور باہر آ یا۔ تب میں نے دیکھا کہ میرے مقابل فٹ پاتھ پر دو تین گمٹیاں ہیں، جیسی کہ پان سگریٹ والے رکھتے ہیں۔ ان گمٹیوں پر نوجوانوں اور بے فکروں کا مجمع سا تھا۔ کچھ نو عمر لڑکے بھی تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ان کم بختوں کو لکھنے پڑھنے سے مطلب نہیں کہ یہاں پان کی دکان پر وقت ضائع کر رہے ہیں۔

    میں ابھی گاڑی کو تالا لگا ہی رہا تھا کہ اچانک سڑک پار کرکے پانچ سات نو عمر لڑکے میری طرف لپکے۔ ان کے انداز اور ہاتھوں کے اشارے سے مجھے ایسا لگا کہ وہ کچھ مانگ رہے ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ تو اور بھی برا ہے۔ یہ لونڈے پیشہ ور بھاری معلوم ہوتے ہیں۔ یقیناً منظم اور مجرمانہ طور پر بھیک منگوانے والوں کا کوئی گروہ ہوگا جو انہیں اس طرح استعمال کر رہا ہوگا اور ان کی زندگیوں کو بھاڑ میں جھونک رہا ہوگا۔ جب تک میں گاڑی کے دروازے سے چابی نکالوں نکالوں، کوئی چار پانچ لڑکے اورایک دبلا پتلا منحوس صورت شخص، جس کی شکل سے ہی خباثت ٹپک رہی تھی، اچانک میرے پاس پہنچ گئے اور قریب تھا کہ ان کے ہاتھ میرے کوٹ تک پہنچ جائیں۔

    میں یہ دیکھ کر لرز گیا کہ وہ لڑکے نہ محلے کے ان پڑھ بے فکرے آوارہ گرد تھے اور نہ بھیک منگے۔ وہ تو کسی قسم کے پیشہ ور معلوم ہوتے تھے، اپنے جسم کی تجارت کرنے والے۔ میں نے دل میں کہا، معاذاللہ، یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ یہ بھرا پرا شہر، دن کا وقت، شریفوں کا محلہ اور یہ پیشہ ور لونڈے؟

    اب میں نے جانا کہ وہ ہاتھ میرے کوٹ کی جیبوں تک پہنچنا نہیں بلکہ میرے دامن کو تھامنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ مجھ سے کوئی سودا کرنا چاہتے تھے۔ دس دس بارہ بارہ سال کے لونڈے، جن کی آنکھوں میں لڑکپن کی معصومیت کی جگہ عجیب شیطانی چمک تھی، چہروں پر وہ پختگی اور پھیکاپن تھا جو بڑے عمر کے لوگوں کے چہروں پر بھی شاذ ہی نظر آتا ہے۔ میں نے نفرت سے انہیں جھٹک کر ایک طرف ہو جانا چاہا تو وہ میرے پیچھے لپکے۔ توبہ! ایسا تو سنسنی خیز افسانوں میں بھی نہ ہوتا ہوگا۔ یہ واقعہ ہے یا کوئی دیوانہ پن جس میں سے دوچار ہوں، میں نے دل میں کہا۔ پھر تقریباً جست لگاتا ہوا ان کے نرغے سے نکل کر میں علامہ کے پھاٹک میں داخل ہو گیا۔

    خدا کا شکر ہے کہ اندر آنے کی ہمت ان بدمعاشوں کو نہ ہوئی۔ پھاٹک تو کھلا ہی ہوا تھا، لیکن وہ پھاٹک کے کھمبے کے پاس آکر یوں رک گئے جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ میں نفرت سے اپنے ہاتھ اور کپڑے جھاڑتا ہوا دوڑ کر بنگلے کے پورٹیکو میں داخل ہو گیا۔

    اب واللہ اس ملاقات کی تفصیل کچھ یاد نہیں۔ اتنا خیال میں ہے اور وہ بھی دھندلا سا، کہ حضرت علامہ بڑی شفقت سے پیش آئے۔

    میں نے گھنٹی بجائی توا یک بڑے میاں جو وضع سے ملازم اور رشتہ دار کے بین بین لگتے تھے، فوراً برآمد ہوئے۔ میری اطلاع لے کر اندر گئے اور تقریباً الٹے ہی پاؤں واپس آکر مجھ سے کہا کہ علامہ صاحب گول کمرے میں تشریف رکھتے ہیں، آپ آ جائیں۔ کچھ یاد نہیں کہ باتیں کس موضوع پر ہوئیں۔ میں ریلوے کا انجینئر، مجھے شاعری سے ذوق تو تھا (اب بھی ہے) اور مجھے علامہ کا بہت سا کلام زبانی یاد بھی تھا، لیکن اس ذوق کے سوا میرے پاس کچھ نہ تھا جو مجھے علامہ سے ہم کلام ہونے کا اہل بناتا۔ یہ بخوبی یاد ہے کہ علامہ نے مجھے بالکل احساس نہ ہونے دیا کہ میری ملاقات ان کے لیے ایک کار فضول سے زیادہ نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسی بات کہی جس سے مجھے اپنے جہل کا احساس ہوتا۔

    ملاقات کوئی آدھ گھنٹہ رہی۔ پھر میں نے اجازت لے کر سلام کیا۔ علامہ صاحب کمرے سے باہر تک مجھے چھوڑنے آئے۔ ایک بار جی میں آئی ان سے درخواست کروں کہ آپ کے دروازے کے باہر سڑک کی پرلی طرف جو طائفہ شیاطین ہے، اس کا کچھ تدارک کریں۔ لیکن میری ہمت نہ پڑی اور پھر اس معاملے سے ان کا مطلب ہی کیا تھا؟ یہ کام تو پولیس والوں کا تھا۔ علامہ کو شاید خبر بھی نہ رہی ہو کہ سڑک پار کی گمٹیوں پرکس طرح کا ہجوم رہتا ہے۔

    میں پورٹیکو سے باہر آیا تو اندرورنی سڑک (Drive Way) پر سرمئی رنگ کی ایک پرانی آسٹن اے چالیس (Austin-A40) کھڑی تھی۔ علامہ کی تو نہ ہوگی، کیونکہ میں نے کہیں سنا تھا کہ ان کے پاس ان دنوں ایک بڑی سی فورڈ تھی۔ خیر، کوئی ملنے والا آیا ہوگا، میں نے دل میں کہا۔ اچھا ہی ہوا جو میں نے اپنی کار باہر کھڑی کی۔

    میں علامہ صاحب سے ملاقات کی خوشی میں مگن باہر نکلا۔ ایک لمحے کے لیے میں بھول گیا تھا کہ ان لوگوں سے پھر سابقہ پڑ سکتا ہے۔ لیکن باہر سڑک پر آکر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کئی لڑکے میری کار کے پاس کھڑے تھے اور کار کو ڈھکیل ڈھکال کر اس کا رخ مخالف سمت میں کر دیا گیا تھا۔میں کچھ حواس باختہ سا، لیکن ہمت کر کے گاڑی کی طرف بڑھا تو وہ لونڈے مجھ سے تقریباً چمٹ گئے۔ ان کے بدن سے عجیب طرح کی حیوانی اور چکنے تیل کی سی بو آ رہی تھی۔ ابھی میں فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ ان سے کس طرح نپٹوں، کہ ایک لمبا سا دبلا پتلا شخص، جو خاکی مائل ملگجے پیلے رنگ کی لمبی قمیص اور اسی کپڑے کی شلوار پہنے ہوئے تھا، میری طرف لپکا۔ اس کے چہرے پر بداخلاقی اور بےحیائی کے آثار اس قدر نمایا ں تھے کہ میری طبیعت گنگنا گئی، جیسے میں نے کسی بھیگی لجلجی چیز کو چھو لیا ہو۔ اس وقت میں سڑک کی جانب تھا اور وہ میرے دائیں ہاتھ پر فٹ پاتھ کے رخ پر تھا۔

    میں نے پلٹ کر اسے ایک ٹھوکر لگانی چاہی تو اس نے اپنی ٹانگ میری طرف بڑھا کر مجھے روکنا چاہا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میری ٹانگ کچھ اس طرح اس کی ٹانگ سے الجھی کے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور اچل کر چھپاک سے فٹ پاتھ کے نیچے گہری نالی میں جا رہا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر لپکتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا، دل میں دعا کر رہا تھا کہ گاڑی فوراً اسٹارٹ ہو جائے۔ بارے دعا قبول ہوئی۔ چابی لگاتے ہی گاڑی بڑی خوبی سے اسٹارٹ ہو گئی۔ میں نے گاڑی گیئر میں ڈالی اور ایکسیلٹر پر پاؤں پورے زور سے داب دیا۔

    گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔ میرا ارادہ تھاکہ چند ہی لمحے بعد فرسٹ گیئر سے سیکنڈ میں آجاؤں گا، کیونکہ سیکنڈ میں طاقت بہت تو ہوتی ہی ہے، ساتھ ہی اس میں رفتار تیزی سے سڑھانے کابھی امکان رہتا ہے۔ حسب ارادہ میں نے گاڑی سیکنڈ میں ڈالی ہی تھی کہ محسوس ہوا گاڑی چل نہیں پار ہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی طاقت اسے پکڑ کر الٹی طرف کھینچ رہی ہو۔ میں نے پیچھے نگاہ کی تو دیکھا کہ کئی لونڈے کار کے بمپر اور بوٹ سے چپکے ہوئے پورا زور لگاکر گاڑی کو آگے بڑھنے سے روکنے میں مصروف تھے۔ ادھر میں ایکسی لیٹر پر پاؤں پورے زور سے دبائے ہوئے ہوں، ادھر وہ دس بارہ بچے گاڑی کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور اس کامیابی سے کہ گاڑی کی رفتار چیونٹی کی رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔

    میں نے کندھے سکوڑ کر سر کو یوں جھکا لیا گویا خطرہ میرے پیچھے نہیں، بلکہ سامنے ہے اور میں پوری قوت کے ساتھ سامنے کسی چیز سے ٹکرانے والا ہوں۔ سر جھکاکر اور بدن چراکر میں نے اپنی پوری قوت ارادی و جسمانی اس بات پر لگا دی کہ گاڑی کو اتنی ریس دوں کے ان غول بچوں کو جھٹکتا ہوا نکل جاؤں۔ لیکن ان پلیدوں میں خدا معلوم کتنی طاقت آ گئی تھی کہ میرا پندرہ ہارس پاور کا انجن، میری اپنی قوت مدافعت، سب بے کار ثابت ہو رہی تھیں۔ گاڑی بس گھسٹتی ہی رہی اور سو پچاس گز ہی کے اندر مجھے یقین ہو گیا کہ یا تو گاڑی اب بہت جلد بند ہو جائےگی، یا ان لونڈوں کی طاقت اسے آگے بڑھنے سے روک ہی دےگی۔

    میں اب سراسیمہ ہو چلا تھا۔ میرے ذہن میں بس یہ بات گردش کر رہی تھی کہ یہ گاڑی جسے میں اپنی حفاظت و مدافعت کے لیے کافی سمجھ رہا تھا، میرے لیے موت کا پھندا، یا فنا کا جال ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر میں اسی میں بندرہ گیا تو چند ہی منٹ جاتے ہیں کہ یہ غولان شیطانی مجھے آگے بڑھنے سے روک دیں گے، مجھے گاڑی سے کھینچ لیں گے اور پھر خدا جانے میری کیا درگت بنائیں۔ وہ شخص، جسے میں نے نالی میں ڈھکیل دیا تھا، وہ تو شاید میری تکا بوٹی کر کے پھینک دے۔

    اب، کئی سال بعد میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میرا استدلالی، ترقی یافتہ دماغ، جسے اصطلاح میں ’’یمینی دماغ‘‘ یا Right Brain کہتے ہیں، معطل ہو چکا تھا اور میں اپنے ’’یساری دماغ‘‘ یعنی Left Brain کے قبضے میں تھا۔ یساری دماغ، جسے Reptilian Brain بھی کہتے ہیں، انسانوں، رینگنے والے جانوروں اور انڈا دینے والے جانوروں میں مشترک ہے۔

    کہا گیا ہے کہ ارتقائی عمل کے کروڑوں برس نے اس دماغ کو پیدا کیا اور چونکہ یہ دماغ رینگنے والے جانوروں اور پھر انڈا دینے والے جانوروں سے ہو کر انسان تک پہنچا ہے، اس لیے اسے حشراتی دماغ Reptilian Brain بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے بنیادی اور ’سفلی‘ جذبات سب اسی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ شہوت، خوف، بھوک کا احساس، تشدد، تحفظ جان، خطرے سے فرار اختیار کرنا وغیرہ سب جبلتیں اسی دماغ کی دین ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر جرائم پیشہ لوگوں، خاص کر قاتلوں اور زنا بالجبر کے مرتکب لوگوں میں یساری دماغ کو سمینی دماغ سے زیادہ فعال پایا گیا ہے۔ اس کی جگہ چونکہ سر کے بائیں اور نچلے حصے میں ہے، اس لیے اسے ’یساری‘ کہتے ہیں۔ اس کے برخلاف، یمینی یا Right Brain کا ارتقاء اور بھی کئی کروڑ برس میں ہوا۔ استدلال، درون بینی اور تعقل کی صفات اسی یمینی دماغ کی پیداوار ہیں۔

    یساری دماغ کو استدلال اور تعقل اور پچھتاوے سے کوئی علاقہ نہیں۔ جب یہ دماغ حاوی ہو جاتا ہے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ بعض دماغی مریضوں میں بھی یمینی دماغ کی کمزوری اور یساری دماغ کی مضبوطی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

    بہرحال اس وقت مجھے ایک ہی دھن تھی، کہ کسی طرح اس گاڑی سے نکل بھاگوں۔ گاڑی میں جائے قیام نہ تھی تو باہر جائے فرار ضرور ہوگی، یہ میرا استدلال تھا۔ لیکن گاڑی کس طرح چھوڑوں اور کس مقام پر، یہ ابھی سمجھ میں نہ آیا تھا۔

    اچانک میں نے ایک عجیب بات محسوس کی۔سڑک پر کوئی راہ گیر نہ تھا۔ خالی راستہ قطعاً سنسان، بھائیں بھائیں کرتا معلوم ہوتا تھا۔ خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اور میرے ذہن میں کبیر کا مصرع آیا۔ میکلوڈ روڈ پرزیادہ بھیڑ بھاڑ تو کبھی نہ ہوتی تھی، لیکن بالکل سناٹا بھی نہ ہوتا تھا۔ ایک دو موٹریں تو منٹ دو منٹ پر گذر ہی جاتی تھیں۔ علامہ صاحب کے مکان سے ذرا آگے علامہ کے مشہور دوست سرجگندر سنگھ کا عظیم الشان بنگلہ تھا۔ (کیسے پتے کی بات جگندر نے کل کہی۔) ان کے پھاٹک پرا یک دو ملازم بھی ہمیشہ کھڑے نظر آتے تھے۔ سردار صاحب کے بنگلے کے ذرا ہی فاصلے پر بہرام جی خدائی جی کی دکان ایک بنگلہ نما مکان میں تھی۔ یہ لوگ ولایت سے عمدہ قسم کی شرابیں اور سگار منگاتے تھے۔ کوئی ایک دو فرلانگ پر وہائٹ وے، لیڈلا (Whiteway, Laidlaw) کی عالی شان دو منزلہ دکان تھی۔ اس کے سامنے دو چار موٹریں، ایک دو شکر میں، پان سات بگھیاں، تو ہر وقت ہی کھڑی رہتی تھیں۔ آج خدا جانے کیابات تھی کہ نہ وہ کوٹھیاں دکھائی دیتی تھیں، نہ کوئی دکان ہی نظر آئی تھی۔ حتیٰ کہ پولیس کاکوئی سپاہی بھی ٹریفک چوراہے پر نہ تھا۔

    اب جو غور کرتا ہوں تو خیا ل آتا ہے کہ میری رفتار اس قدر دھیمی تھی کہ بس چیونٹی کی چال سمجھیے اور جن عمارتوں، دکانوں کا میں نے اوپر ذکر کیا، وہ مجھ سے چند فرلانگ تو تقریباً دور تھیں، اس وقت کہاں سے دکھائی دے جاتیں؟ لیکن میں نے کہا نا کہ اس وقت میرا انسانی دماغ نہیں، بلکہ حشراتی دماغ مجھ پر حاوی تھا۔ آج مجھے یقین ہے کہ اگر میں ہمت کر کے اس گاڑی کو چلاتا رہتا، اسپیڈ چاہے جو بھی رہتی، تو دس پانچ منٹ میں کسی محفوظ یا آبادی والی جگہ پر ضرور پہنچ سکتا تھا۔ میرا پیچھا کرنے والے مجھ پر ہرگز ہاتھ نہ ڈال سکتے تھے۔ گاڑی کو وہ بالکل روک نہ سکتے تھے اور اگر وہ گاڑی کو چھوڑ کر کھڑکی کی راہ سے مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے تو میں بآسانی اتنی دیر میں گاڑی کی رفتار بڑھاکر ان کے خطرے سے آزاد ہو سکتا تھا۔ لیکن اس وقت تو یہ لگ رہا تھا کہ یہ گاڑی نہیں موت کی کوٹھری Death Cell ہے۔ اگر میں اسی میں بیٹھا رہا تو موت کا شکار ہو جاؤں گا۔

    میں نے دل میں کہا کہ اگر کوئی مضبوط کھمبا، یا دیوار، راستے میں ملے تو گاڑی اس سے ٹکرا دوں۔ دھماکہ ہوگا تو دس پانچ لوگ لامحالہ جمع ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کوئی پولیس والا بھی آ نکلے۔ یا شاید میں زخمی، یا بے ہوش ہی ہو جاؤں۔ تب تو یہ طائفہ بیابانی میرا پیچھا چھوڑے گا۔ اس وقت میرے (حشراتی) دماغ میں یہ بات نہ آئی کہ موٹر کا کوئی واقعی کارگر ایکسیڈنٹ کرنے کے لیے رفتار ضروری ہے۔ بیس بائیس کی رفتار تو ہو اور اس وقت میری رفتار چار پانچ سے متجاوز نہ تھی اور نہ ہی مجھے یہ بات سوجھی تھی کہ زخمی یا بےہوش ہو کر تو میں اور بھی ان کے رحم وکرم پر ہو جاؤں گا۔ وہ مجھے ہسپتال لے جانے کے بہانے اٹھا کر کہیں بھی لے جا سکتے تھے، یا وہیں کا وہیں مجھے مزید گزند پہنچا سکتے تھے۔ اسے میری خوش قسمتی کہیے کہ اس وقت میرے سامنے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس سے ٹکرا کر میں اپنا یہ عقل مندی پر مبنی ’منصوبہ‘ پورا کرتا۔

    اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ وہ پیلی ملگجی قمیص والا گھناؤنا شخص بھی ان لونڈوں کا معاون ہو کر میری گاڑی کو پیچھے سے روکنے میں شامل ہو گیا ہے۔ ’’اس کی بھی طاقت شامل ہو گئی ہے، اب تو میں بچ نہ سکوں گا‘‘ میں نے دل میں کہا۔ ابھی گاڑی کی رفتار میں کوئی خاص فرق نہ آیا تھا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ ملگجی قمیص والا گاڑی کو رکوانے میں جان لڑا دےگا۔

    ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائےگی‘‘، میں نے اپنے آپ سے کہا۔ مجھے اپنے والد مرحوم کا ایک خادم یاد آیا جو ایسے موقعوں کے لیے حسب ذیل شعر پڑھا کرتا تھا:

    کب تک چھپیں گی کیریاں پتوں کی آڑ میں
    آخر کو آم بن کے بکیں گی بزار میں

    عام حالات میں مجھے جب بھی یہ شعر یاد آتا تو ہلکی سی ہنسی بھی آتی۔ لیکن آج رونا آ رہا تھا۔ یہی نہیں، اپنا بچپن بھی اس وقت مجھے بڑی آرزو بھری ارمان انگیز گلابی نارنجی روشنیوں کے سائے میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا تھا، حالانکہ دراصل میرا بچپن خاصا ناخوشی سے بھرا ہوا اور بھلا دینے کے لائق تھا۔

    کہتے ہیں ایک بار بسمل سعیدی نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب آپ کے کلام میں سوزوگداز کی اک ذرا کمی نہ ہوتی تو آپ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔ جوش صاحب نے کہا، ’’ہرگز نہیں، میرے یہاں سوزوگداز کی کمی ہرگز نہیں۔ لو یہ شعر سنو:‘‘

    میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
    عمر کا بہترین حصہ ہے

    بسمل سعیدی نے قہقہہ لگا کر کہا، ’’واللہ جوش صاحب بچپن کے مضمون پر اس سے بہتر شعر میں نے نہیں سنا تھا‘‘۔ خیر، جوش صاحب اور بسمل صاحب کے مخول ایک طرف، لیکن سچ بات یہ ہے کہ میرا بچپن اپنے بڑوں سے پٹتے اور روتے ہی گزرا تھا۔ پھر بھی کاش میں ابھی سات ہی آٹھ برس کا ہوتا، میں نے دل میں تقریباً روتے ہوئے کہا۔ اس صورت میں آج اس موٹر میں تو نہ ہوتا، جہاں میری عزت اور جان دونوں کے لالے پڑے ہیں۔ آخر میں نے کسی کا بگاڑا بھی کیا ہے؟

    مجھے صغر سن کے وہ دن یاد آ گئے جب ذرا ذرا سی بات پر اور اکثر بے وجہ ہی، مجھ پرڈانٹ یا مار پڑتی تھی۔ یا اگر کوئی وجہ ہوتی ہوگی تو میرا ننھا سا ذہن اس کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا۔ کسی بات کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ ان دنوں میرے محدود دماغ کا فیصلہ تھا۔ بعد میں، جب مجھے علت یعنی Cause اور سبب، یعنی Reason کا فرق معلوم ہو ا تو میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ لازماً ایسا نہیں کہ کسی چیز کی علت معلوم ہو جائے تو اس کا سبب بھی معلوم ہو جائے۔ مثلاً کسی شخص کا قتل ہو جائے اور لاش کا معائنہ کرکے ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ وہ پستول کی گولی سے مرا ہے، تو یہ محض علت قتل معلوم ہوئی۔ ا س سے یہ کہاں معلوم ہوا کہ اس کے قتل کا سبب کیا ہے؟

    اس وقت جو میں اپنی جان کے خطر میں ہوں، تو اس کی علت یہ ہے کہ میں کسی مقام پر کسی وقت موجود تھا۔ اگر نہ ہوتا تو یہ بات بھی نہ ہوتی۔ لیکن میرے وہاں موجود رہنے کی کچھ علت تھی اور اس علت کی بھی کچھ علت ہوگی اور پھر اس علت کی بھی۔

    تو کیا ساری دنیا محض علل کی داستان ہے؟ اسباب کہیں نہیں؟ یا شاید ہمارا یہاں آنا کسی سبب سے ہو؟ اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں، میر تقی میر نے چپکے سے میرے کان میں کہا۔ کون سے اسباب؟ ہمیں یہاں کیوں لایا گیا؟ کیا اس لیے کہ میں اپنی موٹر میں بیٹھا ہی بیٹھا جسم فروش لونڈوں اوران کے سرخیل کی ناپاک حرکتوں کاہدف بنوں؟ میں نے تقریباً ہسٹریائی انداز میں اپنے آپ سے کہا۔

    اچانک مجھے کار کے پیچھے اور باہر سڑک پر سے کچھ غلغلہ سنائی دیا۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اوربھی میرے دشمنوں کی امداد کو آ گئے ہیں۔ گاڑی کی رفتار اب مزید پست پڑ گئی تھی۔ یا شاید وہ میرا وہم رہا ہو۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہاں ایک لمحہ بھی رکنا کسی برے انجام کو دعوت دینا ہوگا۔ مجھے خیال آیا کہ میرے شیطان صفت متعاقبوں نے علامہ صاحب کی کوٹھی میں قدم نہ رکھا تھا۔ شاید وہ گھروں کے اندر آنے سے ڈرتے ہوں؟ لہٰذا سب سے اچھا یہ ہوگا کہ میں گاڑی کو کسی مناسب پھاٹک میں اڑا دوں اور خود نکل بھاگوں۔ نکل بھاگوں گا کس طرح، وہ لوگ جھپٹ کر مجھے پکڑ تو نہ لیں گے؟ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سڑک پر میری جانب، یعنی بائیں جانب، ایسی ہی محفوظ سی ایک کوٹھی دکھائی دی۔ ’’وہ مارا‘‘، میں دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔

    میں نے ایک زبردست جھٹکے سے اسٹیئرنگ کو بائیں گھماکرگاڑی کو پھاٹک میں ترچھا ڈال کر پوری طاقت سے بریک لگائی۔ بائیں گھومنے کے جھٹکے اور پھر بریک لگنے کے جھٹکے سے گاڑی پھاٹک کے بیچ میں ترچھی ہو کر بند ہو گئی۔ تعاقب کرنے والے بھی ان جھٹکوں کی مرکز گریز Centrifugal قوت کی تاب نہ لا کر پیچھے ادھر ادھر گر پڑے۔ میں نے مڑ کر نگاہ کی تو میرا نزدیک ترین معاقب مجھ سے کوئی دس بارہ فٹ کے فاصلے پر تھا۔ میں نے کھینچ کر چابی گاڑی میں سے نکال لی اور اندھا دھند دوڑتا ہوا اس کوٹھی، یعنی اپنی پناہ گاہ میں داخل ہو گیا۔

    بڑا سا بنگلہ تھا، لیکن ذرا سنسان سا۔ سامنے کوئی نوکر، مالی یا چوکی دار نہ تھا۔اونچی کرسی کا برآمدہ، جس میں پرانی وضع کی آرام کرسیاں اور مونڈھے تھے۔ دیوار سے لگی ہوئی سنگار میز اور قد آدم آئینہ، اس کے پاس ہی ہیٹ وغیرہ رکھنے کا اسٹینڈ۔ زیادہ دیکھنے کا موقع تھا نہ ہمت۔ میں مکان کی لمبائی میں دوڑتا چلا گیا۔ برآمدے کے اختتام پر ایک کمرہ سا دکھائی دیا۔ اس کا دروازہ کچھ نیم وا، کچھ بھڑا ہوا ساتھا۔ میں نے جھٹ سے اس میں داخل ہوکر اندر سے کنڈی چڑھا لی۔

    کمرے میں فنائل کی ہلکی سی بوتھی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ باتھ روم ہے۔ ٹٹول کر بجلی کا سوئچ تلاش کیا۔ زرد زرد روشنی ہوئی تو دیکھا کہ آٹھ سات فیٹ لمبا، اسی قدر چوڑا باتھ روم اور غسل خانہ ہے۔ کموڈ کی جگہ نئے ڈھنگ کا فلش تھا۔ اوپر لوہے کا ٹینک، اس سے زنجیر لٹکتی ہوئی۔ اس طرح کے فلش اس وقت ہندوستان میں بہت کم تھے۔ میں اس لیے واقف تھا کہ ریلوے کی دو بڑی کمنیاں، جی آئی پی ریلوے G.I.P. Railway اور بی بی اینڈ سی آئی ریلوے B.B.&C.I. Railway اپنے اسٹیشنوں پر فرسٹ کلاس ویٹنگ روموں میں ایسے باتھ روم بنوا رہی تھیں۔ میں خود جی آئی پی ریلوے میں ملازم تھا۔

    مجھے بری طرح پیشاب محسوس ہو رہا تھا۔ خدا معلوم ڈرکی وجہ سے، یا واقعی۔ لیکن ابھی میری پوزیشن بالکل غیرمحفوظ تھی۔ ادھر ایسا لگ رہا تھا کہ پیشاب ضرور کرنا چاہیے، پتا نہیں پھر موقع ملے نہ ملے۔ میرا ہاتھ پتلون کی پیٹی کی طرف گیا ہی تھا کہ دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا۔ پتا نہیں وہ میرے دشمن تھے، یا گھر کا کوئی فرد جسے شک ہو گیا تھا کہ کوئی باہری آدمی باتھ روم میں گھس آیا ہے۔ میں بہرحال خود کواس حالت میں نہ سمجھتا تھا کہ دروازہ کھول کر باہر آؤں۔ لیکن باتھ روم میں خود کو چھپائے رہنے کا امکان کہاں؟ اور نکلوں تو جاؤں کہاں؟ پھر میری نگاہ پر لی طرف کی دیوار پر پڑی تو معلوم ہوا کہ ادھر بھی ایک دروازہ ہے۔ اب وہ جہاں بھی کھلتا ہو، میرے لیے وہی دروازہ نجات کا دروازہ تھا۔

    میں نے آہستہ سے پرلی طرف کی کنڈی کھول لی۔ دل میں خدا کا شکر بجالایا کہ دروازہ دوسری طرف سے بند نہ تھا۔ اول تو دو دو دروازے توڑنے میں ان لوگوں کو وقت لگےگا، دوسری بات یہ کہ جب اتنا شوروغل اور توڑ پھوڑ کا ہنگامہ ہوگا تو گھر میں کوئی تو متوجہ ہوگا۔ اس وقت مجھے یہ یاد نہ رہا تھا کہ میرے اپنے خیال کے مطابق ان شیاطینوں کا طائفہ گھروں میں گھس نہ سکتا تھا۔ لہذا اغلب تھا کہ دروازہ پیٹنے والا (والے) اہل خانہ سے ہی متعلق ہو (ہوں)۔

    دروازے سے باہر آکر میں نے دیکھا کہ وہی برآمدہ اور آگے تک چلا گیا ہے۔ میرے دائیں جانب چار دیواری تھی، لہٰذا برآمدے کی شکل اب راہداری کی سی تھی۔ باتھ روم کے دروازے سے متصل ہی چار دیواری میں ایک دروازہ تھا جو سڑک کی طرف کھلتا ہوگا۔ دروازے کاایک پاٹ کھلا ہوا تھا، ااور اس میں سے تین ملازم صاف دکھائی دیتے تھے۔ وہ دہلیز اور سیڑھی پر بیٹھے ہوئے باتوں میں اس قدر محو تھے کہ انہوں نے میری موجودگی بالکل محسوس نہ کی اور ظاہر ہے کہ میں بھی ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے حق میں نہ تھا۔

    راہداری میں گربہ قدم چلتا میں کوئی دس گز گیا ہوں گا کہ ایک دروازہ نظر آیا جو گھر کے اندر کھلتا تھا۔ ادھر باتھ روم کا باہری دروازہ ٹوٹنے کی سی آواز ہلکی سی میرے کان میں آئی۔ میں نے مزید توقف کیے بغیر گھر کے دروازے میں قدم رکھ دیا۔ وہاں کمرہ نہ تھا، بلکہ ایک وسیع برآمدہ، سہ دری نما، جس میں کسی مصروف گھر کا تاثر صاف محسوس ہوتا تھا۔ ایک چوڑے پلنگ پر دو عورتیں بیٹھی چالیا کتر رہی تھیں۔ ان کی شکلیں اور وضع قطع اب بالکل نہیں یاد رہی۔ لیکن پلنگ کے پاس ایک بڑی سی گدے دار آرام کرسی Frong Chair پر دوہرے، گداز بدن کی ایک ادھیڑ، قبول صورت خاتون تھیں جو ساری میں ملبوس تھیں۔ ان کے سامنے کرسیوں پر دو نسبتاً نوجوان عورتیں سوئیٹر بن رہی تھیں۔ میں نے قیافہ کیاکہ ادھیڑ عمر خاتون ہی ان میں صاحب اقتدار ہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ وہ میرے انداز، لب و لہجہ اور میری حواس باختگی سے یہ تو شاید سمجھ ہی گئیں کہ میں کوئی چور اچکا نہیں ہوں۔ باقی لڑکیوں؍عورتوں میں ضرور ایک طرح کی گھبراہٹ نظر آئی، لیکن کسی نے شور وغیرہ کچھ نہ مچایا۔ ممکن ہے کہ وہ ان خاتون کی وجہ سے خود کو محفوظ سمجھ رہی ہوں۔ خاتون نے میرے سلام کا جواب نہ دیا، بلکہ ذرا درشت لہجہ میں کہا:

    ’’کون ہو تم؟ یہاں کیسے آئے؟ چلو، فوراً چلے جاؤ یہاں سے‘‘۔ وہ خوف زدہ سے زیادہ جھنجھلائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

    ’’خدا کے لیے مجھے پناہ دیجئے، میں بڑے خطرے میں ہوں‘‘۔ میں نے سرگوشی کی سی آواز میں کہا۔

    ’’کیوں؟ کیا پولیس تمہارے پیچھے ہے؟‘‘

    ’’یہ سب بعد میں بتاؤں گا۔ پولیس وغیرہ کا کوئی چکر نہیں۔ میں ایک باعزت انجینئر ہو۔ کچھ بدمعاش میرے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘۔

    ’’بدمعاشوں ہی کے پیچھے تو بدمعاش لگتے ہیں۔ شریفوں کو ایسے لوگوں سے کیا کام؟ چلو نکلو۔ ابھی نکلو۔ نہیں تو میں نوکروں کو بلواتی ہوں‘‘۔

    ’’پھر میرا خون ہو جائے تو آپ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گی؟‘‘ اچانک میرے دل میں بجلی کی طرح یہ خیال کوندا کہ یہ خاتون ہزار باعزت سہی، لیکن خاتون خانہ نہیں ہیں۔ ’’للہ آپ کسی ذمہ دار شخص کے پاس لے چلیں‘‘۔

    میرا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ وہ پہلو بدل کر بولی، ’’ذمہ دار؟ ذمہ دار اور کون ہے یہاں؟ تم بتاؤ، تمہارا معاملہ کیا ہے؟ اس کا لہجہ اب ذرا تیز تر تھا اور زور لفظ ’’تم‘‘ پر تھا۔

    میں نے اٹک اٹک کر اپنا حال بتانا شروع کیا۔ یہ بھی ڈر تھا کہ بات کچھ ایسی عجیب ہے کہ ان لوگوں کو یقین شاید ہی آئےگا۔ اگر ایسا واقعہ کوئی مجھ سے بیان کرتا تو میں اسے مجذوب کی بڑ سے زیادہ وقعت نہ دیتا۔ اس خوف کے باعث میرا لہجہ خود مجھے ہی تیقن سے عاری لگ رہا تھا اور میری روداد بھی ناقابل یقین معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن خیر، وہ لوگ تو توجہ سے سن رہے تھے اور داستان تھی ہی کتنی لمبی؟ چند منٹ سے بھی کم میں تمام ہو جاتی۔ میں نے بولنا شروع کیا اور دل میں دعا کرتا رہا کہ ان لوگوں کو اعتبار آ جائے۔

    وہ دروازہ، جس سے میں داخل ہوا تھا، یوں ہی کھلا ہوا تھا۔ سب کے دھیان میری کہانی کی طرف تھے۔ اچانک پیلی ملگجی قمیص والا شخص بڑے اطمینان سے اسی دروازے سے داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لمبا سا پستول تھا۔

    میں نے دوڑ کر ادھیڑ عمر خاتون کی کرسی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ لیکن اس شخص نے پستول کا رخ انہیں خاتون کی طرف کر دیا اور عجیب نخوت بھرے، سرد، سفاک، حقارت آمیز لہجے میں بولا:

    ’’بول، میر تیرا کون لگتا ہوں؟‘‘

    میرے پور ے جسم میں سنسنی پھیل گئی۔ تو کیا یہ سب لوگ ایک ہی تھے؟ میں نے سراسیمہ ہو کر دل میں کہا۔

    ابھی ہم میں سے کوئی اس حال میں نہ تھا کہ اس نئے خطرے سے دفاع کے لیے کچھ کرتا۔ ان سب عورتوں کے بدن بالکل ساکت تھے، جیسے پتھر کی مورتیں ہوں۔ میں جس جگہ چھپنے کی سعی ناکام کر رہا تھا، اس کے پیچھے ایک دروازہ تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ اس دروازے کے پیچھے بھی کوئی ہے۔

    میں ابھی یہ فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ دروازے کے پیچھے واقعی کوئی ہے بھی کہ نہیں اور وہ میرا دوست ہے کہ دشمن۔ دفعتاً وہی دروازہ دھڑاکے کی آواز کے ساتھ کھلا اور ایک سیاہ سی چیز سائیں سائیں کرتی ہوئی اس میں سے نکلی اور باہر آنگن میں گردباد کی طرح قائم ہو گئی۔

    میں نے دیکھا کہ وہ ساری عورتیں منہ کو دوپٹے سے ڈھانکے بےہوش سی پڑی ہیں۔ پستول والا گھٹنوں کے بل تھا، اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ ہاتھ کچھ اسطرح سینے پر تھے گویا بندگی بجا لا رہا ہو۔ پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ادھیڑ عمر خاتون کے قدموں میں آ رہا تھا۔ لیکن خود انہیں کسی چیز سے مطلب نہ رہ گیا تھا۔ وہ گردن ڈھلکائے، ساری کے پلو میں منہ کو چھپائے آرام کرسی پر کپڑے کی گڑیا کی طرح ڈھیر تھیں۔ میرے پاؤں من من بھرکے ہو رہے تھے۔ دل گویا بیٹھ کرجوتے کے تلے میں آ گیا تھا۔ لیکن دماغ (وہی حشراتی دماغ؟) تھوڑا بہت حاضر تھا۔ میں نے دل میں کہاکہ بھاگ نکلنے کا اس سے بہتر موقع نہ ملےگا۔ ممکن ہے اپنی گاڑی کو بھی اس گھر کے پھاٹک سے نکال لے جا سکوں۔

    میں ڈرتا، چوروں کی طرح قدم رکھتا، بلکہ تقریباً گھسٹتا ہوا، اپنی پناہ گاہ سے باہر آیا۔ یہ پناہ گاہ کی بھی خوب رہی۔ آنگنمیں وہ سیاہ گردباد ابھی بھی اسی طرح قائم تھا۔ سائیں سائیں کی آواز آ رہی تھی۔ لیکن اس وقت وہ آواز کچھ ماتمی سی لگی۔ نہ جانے کیوں مجھے خیال تھا کہ مجھے قطعاً کسی قسم کی آواز نہ کرنی چاہیے۔ بھلا وہ گردباد کیا تھا، کیا کوئی بدروح تھی، یا کوئی خدائی قہر؟ لیکن میرے شور کرنے نہ کرنے سے اس کا کیا تعلق ہو سکتا تھا؟ شاید یہ بھی میرے حشراتی ذہن کا کرشمہ تھا، کہ اکثر رینگنے والے جانور خطرے کے سامنے دم سادھ کر پڑ جاتے ہیں، گویا مردہ ہوں۔

    ملگجی قمیص والے کے پاس سے گزرتے ہوئے میرے جی میں آئی کہ اس کی پسلیوں پراپنے بوٹ سے ایک زوردار ٹھوکر لگاؤں۔ حرام زادہ مر تو چکا ہی تھا۔ لیکن نہ مرا ہو تو؟ اور وہ سیاہ گردباد؟ میں اس ارادے سے باز رہا۔ پھرمیں نے دل میں کہا کہ پستول ہی اٹھا لوں، شاید وہ اخوان الشیاطین ابھی باہر بیٹھے ہوں۔ مگر تھوڑی سی عقل جو واپس آ رہی تھی، اس کا مشورہ تھا کہ تم نہ پستول چلانا جانتے ہو اور نہ اس کا لائسنس ہی تمہارے پاس ہے۔ کیوں خواہ مخواہ ایک اور مصیبت کو دعوت دیتے ہو؟ ایک مشکل سے تو مرمر کے جینے کی نوبت آ رہی ہے، اب اور کوئی حماقت نہ کرو۔ چپکے یہاں سے نکل چلو۔’’مگر وہ عورتیں اور یہ ملگجی قمیص والا، کہیں یہ سب مر نہ گئے ہوں۔ کہیں پولیس میرا پیچھا نہ کرے‘‘۔ میں نے اپنے دل سے کہا۔

    ’’بےوقوف آدمی‘‘، میں نے دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا۔ ’’اب دیر کرو گے تو پولیس نہ آتی ہوگی تو بھی آ جائےگی۔ اگر یہ لوگ مر بھی گئے ہیں توتم سے کیا مطلب؟ ہاں ا گر پولیس نے یہاں تمہیں دیکھ لیا تو البتہ مشکل ہوگی۔بندھے بندھے پھروگے۔ نوکری سے الگ ہاتھ دھونا پڑےگا۔ چلو، یہاں سے فوراً چل نکلو‘‘۔

    میں اس قدر آہستہ آہستہ وہاں سے نکلا گویا انڈوں پر چل رہا ہوں۔ گلیارے کے دروازے پر اندھیرا تھا۔ وہ تینوں نوکر بھی شاید سو گئے تھے، کہ بے ہوش تھے، پتانہیں۔ میں ان کو چپکے سے پھاند کر اس آسیب گھر سے باہر آ گیا۔

    سڑک پر روشنیاں جل اٹھی تھیں، ایک آدھ سواری بھی خراماں خراماں گزر رہی تھی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن کچھ بدلا ہوا سا بھی تھا۔ میری سمجھ میں فوراً یہ بات نہ آئی کہ کیا تبدیلی آ گئی ہے۔

    تھوڑی دیر بعد مجھے اچانک احساس ہوا کہ میکلوڈ روڈ اب صبح کی طرح سنسان نہیں تھی اور یہ بھی کہ جب میں پیچھے کے گھر میں پناہ لینے کے لیے گھسا تھا تو اس وقت دھوپ نکلی ہوئی تھی، دن کے گیارہ کا عمل رہا ہوگا اور میں ہرگز ہرگز اس گھر میں پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ رہا تھا۔ پھر اس وقت یہ شام کیسی؟

    گھبراہٹ اور خوف کے باعث مجھے بڑے زور کی متلی آئی۔ سارا منہ نمکین پانی سے بھر گیا اور جب تک میں خود کو سنبھالوں، مجھے ایک ابکائی، بلکہ بھینسے کی سی ڈکراتی ہوئی آواز کے ساتھ استفراغ ہوا۔ لیکن ایک تلخ، زرد سیاہی مائل گھونٹ کے سوا کچھ نہ نکلا۔ میں نے صبح کئی پیالی چائے کے ساتھ بہت معمولی ناشتہ کیا تھا اور تب سے اب تک تین چار گھنٹے ہو چکے تھے (یا شاید سارا ہی دن گذر چکا تھا)۔ پھر متلی میں نکلتا کیا۔ میں نے گرمی زدہ کتے کی طرح ہانپتے ہوئے اپنا سینہ اور پیٹ سنبھالنا چاہا۔ اس قے کے باوجود میری ابکائیاں کم نہ ہوئی تھیں۔ مجھے ’’توبۃ انصوح‘‘ کے شروع کا بیان یاد آیا کہ نصوح کو بھی بڑے زور کا استفراغ ہوا تھا۔ (جسے کوے کا پر، مجھے بچپن کی پڑھی ہوئی ایک کہانی بھی یاد آئی، استفراغ اتنا سیاہ جیسے کوے کا پر)۔ ’’تو کیا مجھے بھی ہیضہ ہو رہا ہے؟ یا میں نے کہیں سے زہر تو نہیں منہ میں ڈال لیا؟‘‘ میں نے گھبراکر اپنے دل میں کہا۔

    چکر سے بے حال ہوکر میں بےتحاشا پاس کی دیوار سے ٹکرا گیا۔ چوٹ بچانے کی فکر میں ہاتھ جو دیوار پر زور سے مارا تو کوئی چیز بچھو کے ڈنک کی طرح چبھی۔ گھبراکر غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ دیوار میں ایک موٹی کیل نکلی ہوئی تھی اور وہ کوئی آدھ انچ بھر میری ہتھیلی میں اتر گئی ہے۔ ہتھیلی سے خون بری طرح بہہ رہا تھا۔ میری آستین اور پتلون پر بھی جگہ جگہ خون ٹپک گیا تھا۔ خوف اور خلجان کے ساتھ یہ چوٹ مجھے اور بھی بدحال کر گئی۔

    مجبوراً اسی دیوار کو دیکھ بھال کر اور اسی سے ٹیک لگاکر میں ٹھہر گیا۔ رومال سے ہتھیلی پر پٹی کس کے باندھ لی کہ جریان خون کم ہو۔ دیر بعد طبیعت ذرا بحال ہوئی۔ میں نے اپنے دل میں کہا، ’’یہ سب جناتی کارخانہ معلوم ہوتا ہے۔ آیت الکرسی اس وقت ٹھیک سے یاد نہ آئی تو قل ھواللہ احد اور لاحول ولا قوۃ کا ورد شروع کیا۔ کچھ دیر بعد دل ذرا ٹھہرا۔ میرا گلا بالکل خشک ہو رہا تھا۔ لیکن وہاں پانی کہاں۔ میں نے دل سے کہا اب ہمت کرکے سڑک پر نکلو، اپنی گاڑی اٹھاؤ اور بھاگ لو۔ یہ پانی کے لیے ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے اور نہ ہتھیلی کی مرہم پٹی کی فکر اس وقت مناسب ہے۔

    میں بوجھل قدموں سے اس بنگلے کے پھاٹک کی طرف چلا، جہاں میں نے گاڑی چھوڑی تھی۔ کچھ خوف اس بات کا بھی تھا کہ کہیں وہ موذی لونڈے ابھی موجود نہ ہوں۔ لیکن ان کا سرخیل تو وہاں اندر (مرا؟) پڑا تھا۔ وہ ناپاک حرام زادے بھی بھاگ گئے ہوں گے۔ دل میں یہ کہہ کر میں کوٹھی کے پھاٹک کی طرف الٹے پاؤں چلا۔

    جب میں پناہ کے لیے بھاگ رہا تھا اس وقت تو وہ کوٹھی مجھے بہت کشادہ محسوس ہوئی تھی۔ مجھے لگا تھا کہ اس کا باہری برآمدہ اور اندر کی راہداری ملا کر کوئی ڈھائی سو فٹ کی طوالت رہی ہوگی۔ خلاف توقع اب وہ فاصلہ بہت کم نکلا۔ میں چند ہی قدم چلا ہوں گا کہ عمارت کا پھاٹک نظر آ گیا لیکن میری کار وہاں کہیں نہ تھی۔ میں ایک لمحے کو سناٹے میں آ گیا۔ پھر میرے خیال میں آیا کہ چونکہ گاڑی میں نے پھاٹک میں اس طرح اڑاکر کھڑی کی تھی کہ راستہ بند ہو گیا تھا، اس لیے شاید کسی نے اسے ڈھکیل کر کنارے کرو یا ہو۔

    لیکن گاڑی تو وہاں کہیں نہ تھی۔ حتیٰ کہ پھاٹک پر ٹائروں کا نشان، بریکوں کی گھسٹنی، کچھ بھی ایسی علامت نہ تھی کہ کوئی کار یہاں جھٹکا دے کر موڑی اور پھر اسی طرح جھٹکے سے روکی گئی ہے۔ کار وہاں سے اس طرح مفقود تھی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ کوئی چور تو نہیں لے گیا؟ میں نے دل میں سوچا۔ لیکن کاروں کی چوریاں اس زمانے میں قطعاً نہ ہوتی تھیں۔ کار کی چوری کرنے والا اسے بیچتا بھی کس کے پاس؟ اس زمانے میں معدودے چند لوگ کار رکھتے تھے اور وہ زیادہ تر وکیل، ڈاکٹر، یا سرکاری افسر تھے۔ بہرحال، اگر کوئی چور بھی لے گیا تو مجھ میں اتنی ہمت اس وقت نہ تھی کہ اس چوری کی رپورٹ لکھاؤں۔ پولیس والوں کو کیا بتاتا کہ میں اس گھر میں کیا کرنے گیا تھا؟ اور کار کا تو وہاں نشان بھی نہ تھا، صرف چابی تھی جو میری جیب میں تھی۔ میں نے جیب ٹٹولی تو چابی واقعی موجود تھی۔

    ریلوے کے اسسٹنٹ انجینئر کے لیے کار کی چوری کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ مجھے فوراً تفتیش کرانی چاہیے تھی اور یہ تو ظاہر ہے کہ میں دوسری کار بآسانی نہ خرید سکتا تھا، بلکہ شاید اب دوسری کار نصیب ہی نہ ہوتی۔ لیکن اس وقت میرے لیے چارہ ہی کیا تھا۔ پھر یہ بھی خیال میں آیا کہ گاڑی کوئی چھوٹی سی سوئی تو نہیں کہ کھو جائے تو دکھائی نہ دے۔ فی الحال تو یہاں سے چل دینا چاہیے اور بہت جلد۔ انسان کی عقل معمولی چیزوں کو سمجھنے سے اکثر عاری رہتی ہے اور یہ تو یقیناً کوئی مافوق الفطرت معاملہ ہے۔ اس میں زیادہ چھان بین بھی ٹھیک نہیں۔ خدا نے بڑا فضل کیا جو میں محفوظ رہا۔ ورنہ اکثر لوگ تو سنا ہے خوف کے مارے مخبوط الحواس ہو جاتے ہیں، یا جان ہی سے جاتے رہتے ہیں۔ ابھی اپنی فکر کرو، کارکی فکر بعد میں ہوگی۔

    میں اپنے دل کو اس طرح سمجھاکر سڑک کی روشنی میں آیا۔ مجھے اپنے کپڑے خدا معلوم کیوں کچھ زردی مائل لگ رہے تھے۔ شاید میونسپلٹی کی بجلی ایسی ہی چندھیائی سی ہوتی ہے۔ سامنے سے ایک تانگہ آ رہا تھا، میں اسے روک کر سوار ہو گیا۔ میرے کپڑے اب اور بھی پیلے لگ رہے تھے۔ لاحول ولا قوۃ، کیا مجھے یرقان ہو گیا ہے؟ اتنے میں تانگے والے نے مڑکر مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ شاید اس کی نگاہ میرے لباس کے سرخ چھینٹوں پر پڑ گئی تھی۔یا پھر کیا میرے کپڑے سچ مچ پیلے ہو رہے تھے؟ اچانک مجھ پر بخار کا سا لرزہ طاری ہو گیا۔ میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں تانگے والے سے کہا ’’مجھے اسٹیشن لے چلو۔ جلد ی کرو گاڑی پکڑنی ہے‘‘۔ مغل پورہ کا اسٹیشن وہاں سے قریب ہی تھا۔ تانگے نے مجھے منٹوں میں پہنچا دیا۔ اسی وقت پٹھان کوٹ ایکسپریس پلیٹ فارم پر داخل ہو رہی تھی۔ میں پٹھان کوٹ کا ٹکٹ لےکر ایک ڈبے میں دھنس پڑا۔ پٹھانکوٹ میں میرا کوئی نہ تھا تو کیا ہوا، ملگجی قمیص والا اور سیاہ گرد باد بھی تو وہاں نہ تھے۔

    اور میں نے جو کچھ لکھا ہے، اسے میرے ایک دوست نے پڑھ کر کہا:

    ’’یہ کیا فضول بکواس تم نے لکھ ماری ہے؟ تم اپنی خود نوشت لکھ رہے ہو یا خواب میں دیکھے ہوئے اور دل سے گھڑے ہوئے واقعات لکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’تم جانتے ہو میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنی خودنوشت میں ایک حرف بھی جھوٹ نہ لکھوں گا اور اسی لیے ہر صفحہ تم کو پڑھوا دیتا ہوں کہ اگر کوئی غلطی ہو تو اسے ٹھیک کرا دو‘‘۔

    ’’ہوگا۔ لیکن میں ٹھیک کراؤں کیا خاک؟ اس بار تو تم نے حد ہی کر دی۔ تم کہتے ہو ان دنوں تمہارے پاس امبسیڈر کار تھی۔ ابے احمق، یہ کار تو تقسیم ہند کے بعد برلا نے پہلی بار ۱۹۵۷ء میں بنائی تھی۔ انہوں نے انگلینڈ کی Morris Oxford کے نقشے ان کی اجازت سے حاصل کر کے پہلے تو Hindustan 14 نامی کار بنائی۔ دو تین سال بعد مارس کا ماڈل بدلا تو انہوں نے نئے نقشے کے مطابق Landmaster اور پھر چند سال بعد جدید تر ڈیزائن کے مطابق Hindustan Ambassador کار وجود میں آئی۔ ۱۹۳۷ میں امبسیڈر کہاں تھی جس میں بیٹھ کر تم علامہ سے ملنے گئے تھے؟‘‘

    میں نے چڑ چڑاکر کہا ’’کار کا ماڈل بھول گیا ہوں گا۔ تم تو جانتے ہو کہ میرے پاس شروع نوکری ہی سے کار رہی ہے‘‘۔

    ’’بڑے آئے کار کا ماڈل بھولنے والے۔ بھلا اپنی پہلی کار کا ماڈل تم اس قدر بھول گئے کہ عدم کو وجود میں لے آئے؟ اور بیٹے ذرا یہ تو بتاؤ کہ ۱۹۳۷ میں علامہ اقبال صاحب میکلوڈ روڈ پر کہاں رہتے تھے؟ ۱۹۳۶ء کے اکتوبر میں یا اس کے کچھ پہلے حضرت علامہ نے میوروڈ پر جاوید منزل کی تعمیر مکمل کر لی تھی اور فوراً ہی وہ اس میں منتقل ہو گئے تھے۔ تم ۱۹۳۷ میں میکلوڈ روڈ پر ان سے کس جنم میں ملے ہو گے؟‘‘

    ’’سو سکتا ہے میکلوڈ روڈ نہیں، میوروڈ رہی ہو‘‘، میں نے جھنجھلاکر کہا۔ ’’نام میں ذرا ہی سا تو فرق ہے۔ کیا آدمی اتنی چھوٹی چھوٹی بات یاد رکھ سکتا ہے؟ شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے سر جگندر سنگھ کا بنگلہ اور دوکانیں وہاں نہیں مل رہی تھیں‘‘۔

    ’’بے شک آدمی ذرا ذرا سی بات یاد نہیں رکھ سکتا۔ لیکن یہاں تو اہم تفصیلات کا سوال ہے۔۔۔ہاں اگر خود نوشت کے نام پر داستان امیر حمزہ لکھنی ہو تو اور بات ہے‘‘۔

    ’’داستان امیر حمزہ کو کچھ نہ کہو۔ اس سے بڑھ کر تاریخی کتاب ممکن نہیں‘‘۔ میں نے بپھر کر کہا۔

    ’’خیر یہی سہی۔ لیکن عام پبلک کے سامنے ایسی بات نہ کہنا، ورنہ لوگ تمہیں پاگل خانے بھجوادیں گے اور بھائی صاحب، وہ لونڈے جن کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کے بارے میں آپ نے کہیں اخبار میں پڑھا ہوگا۔ وہ لوگ جرائم پیشہ کنجر، یعنی ایک طرح کے خانہ بدوش تھے۔ ایک زمانے میں ان کا ایک قبیلہ لاہور میں کہیں سے آ گیا تھا اور اس کے افراد، خاص کر لڑکے بالے، چھوٹی موٹی چوریوں میں اکثر ماخوذ ہوتے رہتے تھے۔ میکلوڈ روڈ یامیو روڈ تو نہیں، باغبان پورہ والی سڑک پر ضرور انہوں نے اپنے ڈیرے لگا رکھے تھے۔ آپ کبھی وہاں سے گزرے ہوں گے، پھر اسی کے بارے میں آپ نے کوئی خواب دیکھ لیا اور اب زیب داستان کے لیے اسے اپنی خود نوشت میں ڈالے دے رہے ہیں‘‘۔

    ’’اچھا یوں ہی سہی۔ تو یہ لو!‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنی دائیں ہتھیلی اپنے دوست کی ناک کے نیچے اس کی آنکھ کے بالکل پاس تقریباً ٹھونس دی۔ ہتھیلی پراب بھی چوٹ کا داغ بہت گہرا اور صاف تھا۔ ’’حرامزادے، یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا۔ ’’کہو تو پٹھان کوٹ کے اس ڈاکٹر کا نام پتا بتا دوں جس نے اس چوٹ کا علاج کیا تھا‘‘۔

    میرا دوست ایک لمحے کے لیے سن ہو کر رہ گیا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ گڑبڑا گیا ہے۔ مگر وہ بھی مجھ سے کم بےحیا نہیں۔ ذرا رک کر بولا، ’’اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ہتھیلی پر یہ چوٹ تمہیں اسی وقت اور اسی جگہ لگی تھی جس کا ذکر تم نے افسانے۔۔۔میرا مطلب ہے خودنوشت میں کیا ہے؟‘‘

    ’’نہ سہی، لیکن وہ ڈاکٹر اگر ہو گا تو وہ وقت اور زمانے کی تصدیق تو کر دے گا‘‘۔

    ’’پچاس سے اوپر برس ہو رہے ہیں۔ خدا معلوم وہ ڈاکٹر وہاں ہے بھی کہ مرکھپ گیا‘‘۔

    ’’وہم کا علاج تو لقمان کے پاس بھی نہ تھا اور ضد کے علاج سے سقرا ط بھی معذور تھا‘‘۔

    ’’مانا۔ لیکن میں تم سے جرح اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہیں نے کہا تھا، اس کتاب کو دشمن کی نظر سے دیکھو۔ میں نہیں چاہتا کہ اس میں ایک بھی بات غلط راہ پا جائے‘‘۔

    ’’ہاں اور اب تک تمہیں کچھ نہ ملا تو فرضی ہی الزام گڑھنا شروع کر دیے‘‘۔

    ’’سچی بات یہ ہے کہ تمہارے بیانیے میں اور باتیں بھی کھٹکی تھیں، لیکن وہ اتنی نمایاں نہ تھیں۔ اس باب میں تو تم نے واقعے کے نام سے ایک بھی حرف نہ لکھا‘‘۔

    ’’کچھ اور مثلا؟‘‘ میں نے بڑی کوشش سے غصہ ضبط کرکے پوچھا۔

    ’’تم نے علامہ صاحب کی آواز کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ اس وقت تک ان کی آواز بالکل بیٹھ چکی تھی‘‘۔

    ’’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس ملاقات کی تفاصیل نہیں یاد‘‘۔

    ’’مگر اتنی اہم بات۔۔۔‘‘

    ’’چپ رہو جانتے ہو، لفظ ’واقعہ‘ کے معنی حقیقت بھی ہیں اور خواب بھی اور موت بھی‘‘، میں نے بڑے فخر سے کہا، گویا کوئی بڑی دریافت بیان کر رہا ہوں۔

    ’’پھر تو مجھے کچھ کہنا ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ بتاؤ تم نے منیر نیازی کا مصرع کبیر کے سرکیوں مڑھ دیا؟‘‘

    ’’کیا بکتے ہو؟‘‘ میں دہاڑا۔

    ’’یہی کہ ’خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اور‘ منیر نیازی کا مصرع ہے اور یہ بات اس کے مجموعے ’دشمنوں کے درمیان شام‘ مطبوعہ ۱۹۶۸ کے صفحہ ۲۵ پر موجود ہے۔ تم نے ۱۹۳۷ء میں یہ مصرع کبیر کے نام سے کہاں دیکھ لیا؟ چلو اب مان بھی جاؤ کہ تم نے اپنی خودنوشت میں ایک افسانہ بھی ڈال دیا ہے‘‘۔

    ’’سب افسانے سچے ہوتے ہیں! سب افسانے سچے ہوتے ہیں!‘‘ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد میں چیخ کر بولا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

    (ممتاز نقّاد، افسانہ و ناول نگار اور شاعر شمسُ الرّحمٰن فاروقی کا ایک دل چسپ افسانہ)

  • لاٹری

    لاٹری

    جلدی مالدار بن جانے کی ہوس کسے نہیں ہوتی۔ ان دنوں جب فرنچ لاٹری کے ٹکٹ آئے تو میرے عزیز دوست بکرم سنگھ کے والد، چچا، بھائی، ماں سبھی نے ایک ایک ٹکٹ خرید لیا۔ کون جانے کس کی تقدیر زورکرے، روپے رہیں گے تو گھر ہی میں، کسی کام کے نام آئیں۔

    مجھے بھی اپنی تقدیر آزمانے کی سوجھی، اس وقت مجھے زندگی کا تھوڑا بہت تجربہ ہوا تھا، وہ بہت ہمت افزا نہ تھا لیکن بھئی تقدیر کا حال کون جانے، گاہ باشد کہ کودک ناداں۔ ایک بار اپنی تقدیر آزمانے کو دل بیتاب ہو گیا اور بکرم بھی دوسروں کا دست نگر نہ بننا چاہتا تھا۔ جس کےنام روپے آئیں گے۔ وہ خود موج اڑائے گا۔ اسے کون پوچھتا ہے۔ دس پانچ ہزار اس کے حصے میں آ جائیں گے، مگر اس سے کیا ہو گا۔ اس کی زندگی میں بڑے بڑے منصوبے تھے۔ پہلے تو ساری دنیا کی سیاحت کرنی تھی۔ ایک ایک کونے کی۔ عام سیاحوں کی طرح نہیں ہو کہ تین ہفتہ میں ساری دنیا میں آندھی کی طرح اڑ کر گھر آپہنچے۔ وہ ایک خطہ میں کافی عرصہ تک رہ کر وہاں کے باشندوں، معاشرت کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ پیرو برازیل، مڈغاسکر اور اربی سینیا، یہ سبھی دشوار گزار خطّے اس کے پروگرام میں تھے۔ پھر اسے ایک بہت بڑا کتب خانہ تیار کرانا تھا جس میں ساری دنیا کی کتابیں رکھی جائیں۔ اس کے علاوہ لاکھ تک صرف کرنے کو تیار تھا۔ والد یا چچا کے ہاتھ روپے آئے تو شاید دو چار ہزار مل جائیں۔ بڑے بھائی کے نام آئے تو دھیلا بھی نہ ملے گا۔ ہاں اماں کے ہاتھ آئے تو بیس ہزار یقینی ہیں، مگر اس سے کہیں پیاس بجھتی ہے۔

    منصوبے تو اتنے اونچے تھے۔ لیکن روپے نہ اس کے پاس تھے نہ گھر سے روپے ملنے کی اسے امید تھی۔ ممکن تھا بہت ضد کرتا تو مل بھی جاتے مگر وہ اس امر کو پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا۔ میرے پاس بھی روپے تھے، میں اسکول میں ماسٹر تھا، بیس روپے ملتے تھے۔ دس گھر بھیج دیتا، دس میں لشتم پشتم اپنا گزارہ کرتا۔ ایسی حالت میں پانچ روپے کے ٹکٹ خریدنا میرے لئے مشکل ہی نہیں محال تھا۔

    بکرم نے کہا، ’’کہو تو میں اپنی انگوٹھی دوں، کہہ دوں گا انگلی سے پھسل پڑی۔‘‘ میں نے منع کیا،’’ نہیں چوری فوراً کھل جائے گی اور مفت میں شرمندگی ہو گی۔ ایسا کام کیوں کرو کہ بعد میں خفت ہو۔‘‘ یہ تجویز ہوئی کہ ہم دونوں اپنی اپنی پرانی کتابیں کسی سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے دکان دار کے ہاتھ بیچ ڈالیں اور اس روپے سے ٹکٹ خریدیں۔ ہم دونوں کے پاس اسکول کی کتابیں ارتھ میٹک، الجبرا، جیومیٹری، جغرافیہ موجود تھیں۔ میں تو ماسٹر تھا کسی بک سیلر کی دکان پر جاتے جھینپتا تھا۔ قریب قریب سبھی مجھے پہچانتے تھے۔ اس لئے یہ خدمت بکرم کے سپرد ہوئی اور وہ آدھ گھنٹے میں پانچ روپے کا ایک نوٹ لئے آپہنچا۔ کتابیں پچیس سے کم کی نہ تھیں مگر یہ پانچ اس وقت ہمارے لئے پانچ ہزار کے برابرتھے۔ فیصلہ ہوگیا۔ ہم دونوں سانجھے میں ٹکٹ لیں گے آدھا میرا ہوگا آدھا بکرم کا، دس لاکھ میں پانچ لاکھ میرے حصہ میں آئیں گے۔ پانچ لاکھ بکرم کے، ہم اپنے اسی میں خوش تھے۔ ہاں بکرم کواپنی سیاحت والی اسکیم میں کچھ ترمیم کرنا پڑی۔ کتب خانہ کی تجویز میں کسی قسم کی قطع و برید ناممکن تھی۔ یہ بکرم کی زندگی کا مقصدِ دلی تھا۔

    میں نے اعتراض کیا، ’’یہ لازمی نہیں کہ تمہارا کتب خانہ شہر میں سب سے زیادہ شاندار ہو ایک لاکھ بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔‘‘

    بکرم مستقل تھا، ’’ہرگز نہیں، کتب خانہ تو شہر میں لاثانی ہو گا۔ کیوں کہ تم کچھ مدد نہ کروگے؟‘‘

    میں نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا، ’’بھئی میری ضرورتیں مقابلتاً کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

    ’’تمہارے گھرمیں کافی جائیداد موجود ہے۔ والدین بھی زندہ ہیں، کسی قسم کا بار تمہارے اوپر نہیں ہے۔ میرے سر تو ساری گرہستی کا بوجھ ہے۔ دو بہنوں کی شادیاں ہیں، دو بھائیوں کی تعلیم ہے۔ نیا مکان بنوانا ہی پڑے گا۔ میں تو ایسا انتظام کروں گا کہ سارے مصارف سود سے نکل آئیں اور اصل میں داغ نہ لگنے پائے۔ کچھ ایسی قیدیں لگا دوں گا میرے بعد کوئی اصل کو نہ نکال سکے۔‘‘

    ’’تم نے سوچی تو بہت دور کی ہے، لیکن بینکوں کا شرح سود گرا ہوا ہے۔‘‘

    ’’پانچ لاکھ کی رقم بھی تو کم نہیں۔ اگر پانچ فیصدی بھی ہے، پچیس ہزار سالانہ ہوئے، تھوڑے ہیں۔ ہم نے کئی بینکوں کی شرحِ سود دیکھا۔ واقعی بہت کم تھا۔ خیال آیا کیوں نہ لین دین میں کاروبارشروع کر دیا جائے۔ بکرم اور میں دونوں کی مشترکہ کمپنی ہو۔ لین دین میں سود بھی اچھا ملے گا اور اپنا رعب داب رہے گا۔ اچھے اچھے گھٹنے ٹیکیں گے، ہاں جب تک اچھی جائیداد نہ ہو کسی کوروپیہ نہ دیا جائے، کتنا ہی معتبر اسامی ہو، مجبوری معتبروں کو بھی غیر معتبر بنا دیتی ہے، جائیداد کی کفالت پر رہن نامہ لکھا کر روپیہ دینے میں کوئی اندیشہ نہیں رہتا۔ روپے نہ وصول ہوں تو جائیداد تو مل ہی جاتی ہے۔‘‘

    ’’مگر لاٹری کے ٹکٹ پر دو نام نہیں رہ سکتے کس کا نام دیا جائے۔‘‘

    بکرم نے کہا، ’’میرا نام رہے گا۔‘‘

    ’’کیوں میرا کیوں نہ رہے گا؟‘‘

    ’’تمہارا ہی نام سہی، لیکن میری بہت دل شکنی ہوگی، اگر روپے مل گئے تو میں گھروالوں پر گولا چھوڑ دوں گا اور لوگوں کو خوب چڑاؤں گا، بالکل طفلانہ خواہش ہے۔‘‘

    میں مجبور ہوگیا۔ بکرم کے نام سے ٹکٹ لیا گیا۔

    ایک ایک کرکے انتظار کے دن کٹنے لگے۔ صبح ہوتے ہی ہماری نگاہ کیلنڈر پر جاتی میرا مکان بکرم کے مکان سے ملا تھا۔ اسکول جانے سے قبل اور اسکول سے آنے کے بعد ہم دونوں ساتھ بیٹھے اپنے منصوبے باندھا کرتے اور سرگوشیوں میں کہ کوئی سن نہ لے۔

    ایک دن شادی کا تذکرہ چھڑ گیا۔ بکرم نے فلسفیانہ انداز سے کہا، ’’بھئی شادی وادی کا خلجان نہیں چلانا چاہتا خواہ مخواہ کی کوفت اور پریشانی، بیوی کی ناز برداری میں ہی بہت سے روپے اڑ جائیں گے۔ ہم بقائے نسل کے لئے کوئی ٹھیکیدار ہیں؟‘‘

    میں نے شادی کے دوسرے پہلوؤں پر غور کیا، ’’ہاں یہ تو درست ہے مگر جب تک شادی و غم میں کوئی رفیق نہ ہو، دولت کا لطف ہی کیا، تنہا خوری سے انسان کی طبیعت خود نفرت کرتی ہے، میں تو بھئی عیال داری سے اتنا بیزار نہیں، ہاں رفیق ہو اور وہ بیوی کے سوا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔‘‘

    بکرم کی پیشانی پر بل پڑ گئے بولا، ’’خیر اپنا اپنا نقطۂ نظر ہے آپ کو عیال داری مبارک، بندہ تو آزاد رہے گا، اپنے مزے سے جہاں چاہا اڑ گئے اور جب جی چاہا سو گئے۔ یہ نہیں کہ ہر وقت ایک پاسبان آپ کی ہر ایک حرکت پر آنکھیں لگائے بیٹھا رہے۔ ذرا سی دیر ہوئی اور فوراً جواب طلب، آپ کہیں چلے اور فوراً سوال ہوا، کہاں جاتے ہو؟ کیوں کسی کو مجھ سے یہ سوال کرنے کا حق ہو۔‘‘

    ’’میں نہ یہ سوال کسی سے کرنا چاہتا ہوں، اور نہ چاہتا ہوں مجھ سے کوئی سوال کرے۔ نہ بابا آپ کو شادی مبارک، بچے کو ذرا سا زکام ہو اور آپ اڑ ے چلے جارہے ہیں ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس، ذرا عمر کھسکی اور لونڈے منتیں ماننے لگے کہ کب آپ راہی عدم ہوں اور وہ گل چھڑے اڑائیں، نہ نہ اس وبال۔۔۔‘‘ بکرم کی بہن کنتی نے اتنے دھماکے سے دروازہ کھولا کہ ہم دونوں چونک پڑے کوئی تیرہ چودہ سال کی تھی۔ مگربڑی خوش مزاج اور انتہا درجہ کی شوخ۔

    بکرم نے ڈانٹا، ’’تو بڑی شیطان ہے کتنی، میں تو ڈر گیا کس نے تجھے بلایا یہاں۔‘‘

    ’’تم لوگ ہر دم یہاں بیٹھے کیا باتیں کرتے ہو، جب دیکھو یہیں جمے ہو نہ کوئی کام نہ دھندا، کہیں گھومنے بھی نہیں جاتے ایسے اچھے اچھے تماشے آئے اور چلے گئے، تم چلے ہی نہیں، آخر کس کے ساتھ جاؤں۔ کیا کوئی جادو منتر جگا رہے ہو؟‘‘

    بکرم ہنسا، ’’ہاں جادو جگا رہے ہیں۔ جس میں تجھے ایسا دولہا ملے جو گن کر روز پانچ ہنٹر جمائے۔‘‘

    کنتی نے پیٹھ کی طرف سے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بولی، ’’مجھے اپنا بیاہ نہیں کرنا ہے اماں سے پچاس ہزار روپے لے لوں گی اور مزے سے عیش کروں گی کیوں کسی مرد کی غلامی کروں؟ کھلائے تو دو روٹیاں اور حکومت ایسی جتائے گا جیسے اس کی زر خرید لونڈی ہوں، بندی باز آئی ایسی شادی سے، میں روز اماں کے ٹکٹ کے لئے ایشور سے پرارتھنا کرتی ہوں، اماں کہتی ہیں کنواری لڑکیوں کی دعا میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ میرا تو دل کہتا ہے اماں کو ضرور روپے ملیں گے۔‘‘

    مجھے اپنی ننھیال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک بار دیہات میں بارش بالکل نہ ہوئی تھی بھادوں کا مہینہ آگیا اورپانی کی ایک بوند نہیں۔ تب گاؤں والوں نے چندہ کرکے گاؤں کی سب کنواری لڑکیوں کی دعوت کی تھی اور دوسرے دن موسلادھار بارش ہوئی تھی۔ ضرور کنواری لڑکیوں کی دعا میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ میں نے بکرم کی طرف پرمعنی نظروں سے دیکھا۔ نظروں ہی نظروں میں ہم نے فیصلہ کرلیا ایسا شفیع پاکر کیوں چوکتے۔

    بکرم بولا، ’’اچھا کنتی۔ تجھ سے ایک بات کہیں، کسی سے کہے گی تو نہیں اگر کہا تو حلال کردوں گا۔ میں اب کے تجھے خوب دل لگا کر پڑھاؤں گا اور پاس کرا دوں گا۔ ہم دونوں نے بھی لاٹری کا ٹکٹ لیا ہے، ہم لوگوں کے لئے بھی ایشور سے دعا کرو۔ اگر روپے ملے تو تجھے ہیرے جواہرات سے مڑھ دیں گے سچ، مگر خبردار کسی سے کہنا مت۔‘‘

    مگر کنتی کا ہاضمہ مضبوط نہ تھا۔ یہاں تو وہ وعدہ کرگئی، مگر اندر جاتے ہی بھانڈا پھوڑ دیا۔ ایک ہی لمحہ میں سارے گھر میں خبر پھیل گئی۔ اب جسے دیکھئے ہم دونوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ پانچ روپے لے کر پانی میں ڈال دیے، گھر میں چار ٹکٹ تو تھے ہی پانچویں کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ماسٹر اسے خراب کر رہا ہے، نہ کسی سے پوچھا نہ گچھا، لے کے روپے پھینک دیے۔ خود را نصیحت والی کہانی سامنے آئی۔ گھر کے بزرگ چاہے گھر میں آگ لگا دیں، کوئی کچھ نہ کہہ سکتا، بچارے چھوٹے ان کی مرضی کے خلاف آواز بھی نکالیں تو کہرام مچ جاتا ہے۔

    بکرم کے والد ٹھاکر کہلاتے تھے، چچا چھوٹے ٹھاکر، دونوں ہی ملحد تھے، پکے ناستک، دیوتاؤں کے دشمن، پوجا پاٹ کا مذاق اڑانے والے۔ گنگا کو پانی کی دھارا اور تیرتھوں کو سیر کے مقامات سمجھنے والے۔ مگر آج کل دونوں ہی معتقد ہوگئے تھے۔ بڑے ٹھاکر صاحب علی الصبح ننگے پاؤں اشنان کرنے جاتے، اورادھر سے شہر کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہوئے کوئی گیارہ بجے گھر لوٹتے تھے۔ چھوٹے ٹھاکر گھر ہی میں بیٹھے ہوئے روز ایک لاکھ رام نام لکھ کر تب جل پان کرتے۔

    دونوں صاحب شام ہوتے ہی ٹھاکر دوارے میں جا بیٹھتے اور بارہ بجے رات تک بھاگوت کی کتھا سنا کرتے تھے۔ بکرم کے بھائی صاحب کا نام تھا پرکاش، انہیں سادھوسنتوں سے عقیدت ہوگئی تھی، انہیں کی خدمت میں دوڑتے رہتے۔ انہیں یقین ہوگیا تھاکہ جہاں کسی مہاتما نے آشیرواد دیا اور ان کا نام آیا۔ رہیں بکرم کی اماں جی ان میں ایسا کوئی خاص تغیر تو نہ تھا۔ ہاں آج کل خیرات زیادہ کرتی تھیں اور برت بھی زیادہ رکھتی تھیں۔ درگا پاٹ کا بھی انتظام کیا تھا۔ لوگ ناحق کہتے تھے کہ مادہ پرستوں میں اعتقاد نہیں ہوتا۔ میں تو سمجھتا ہوں ہم میں جو اعتقاد اور پرستش اور دین داری ہے وہ ہماری مادہ پرستی کے طفیل، ہمارا دین اور مذہب ہماری دنیا کے بلی پر لٹکا ہوا ہے۔

    ہوس انسان کی رائے اور دماغ میں اتنی روحانیت پیدا کرسکتی ہے یہ میرے لئے نیا تجربہ تھا اور محض روحانیت کا ملمع نہ تھا۔ وہی خلوص، وہی نشہ، وہی انہماک گویا طبیعت ہی بدل گئی ہو۔ رہے ہم دونوں، ساجھے دار تھے۔ ہمارے پاس روپے نہ تھے، نہ اتنا وقت تھا۔ مجھے نوکری بچانی تھی بکرم کو کالج جانا تھا۔ ہم دونوں ہاتھ مل رہے تھے۔ جوتشیوں کی تلاش میں رہتے تھے مگر ان کے لئے ہمارے پاس نیازمندی اور خدمت گزاری کے سوا اور کیا تھا۔

    جوں جوں قتل کی رات قریب آجاتی جاتی تھی ہمارا سکون غائب ہوتاجاتا تھا۔ ہمیشہ اسی طرف دھیان لگا رہتا۔ میرے دل میں خواہ مخواہ یہ شبہ ہونے لگا کہ کہیں بکرم مجھے حصہ دینے سے انکار کر دے تو کیا کروں۔ صاف انکار کر جائے کہ تم نے ٹکٹ میں ساجھا ہی نہیں کیا، نہ کوئی دوسرا ثبوت، سارا دار و مدار بکرم کی نیت پر ہے۔ ایک دن ہم دونوں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ یکایک بکرم نے کہا، ’’ہمارا ٹکٹ نکل آئے، مجھے دل میں یہ افسوس ضرور ہوگا کہ ناحق تم سے ساجھا کیا۔‘‘

    میں نے چونک کر کہا، ’’اچھا مگر اسی طرح کیا مجھے افسوس نہیں ہوسکتا؟‘‘

    ’’لیکن ٹکٹ تو میرے نام کا ہے۔‘‘

    ’’اس سے کیا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’اچھا مان لو، میں کہہ دوں، تم نے ٹکٹ میں ساجھا ہی نہیں کیا۔‘‘

    ’’میرے خون کی حرکت بند ہو گئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔‘‘

    ’’میں تمہیں اتنا بدنیت نہیں سمجھتا۔‘‘

    ’’مگر ہے بہت ممکن، پانچ لاکھ، سوچو۔‘‘

    ’’تو آؤ لکھا پڑھی کر لو، جھگڑا کیوں رہے۔‘‘

    بکرم نے ہنس کر کہا، ’’تم بڑے شکی ہو یار تمہارا امتحان لے رہا تھا۔ بھلا ایسا کہیں ہوسکتا ہے۔ پانچ لاکھ نہیں پانچ کروڑ کا معاملہ ہو تب بھی ایشور چاہے گا تو نیت میں فتور نہ آنے دوں گا۔‘‘

    مگر مجھے ان اعتماد انگیز باتوں سے تشفی نہ ہوئی، دل میں ایک تشویش آگ کی چنگاری کی طرح سلگنے لگی۔ کہیں سچ مچ انکار کر جائے تو کہیں کا نہ رہوں۔

    میں نے کہا، ’’یہ تو میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت میں فتور نہیں آسکتا۔ لیکن تحریر سے پابند ہوجانے میں کیا حرج ہے؟‘‘

    ’’فضول ہے۔‘‘

    ’’فضول ہی سہی۔‘‘

    ’’تو پکے کاغذ پر لکھنا پڑے گا۔ دس لاکھ کی کورٹ فیس ہی دس ہزار ہو جائے گی کس خیال میں ہو آپ۔‘‘

    میں نے تامل کرکے کہا، ’’مجھے سادے کاغذ ہی سے اطمینان ہوجائے گا۔‘‘

    ’’جس معاہدے کی کوئی قانونی اہمیت نہ ہو، اسے لکھ کر کیوں وقت ضائع کریں؟‘‘

    ’’قانونی اہمیت نہ ہو، اخلاقی اہمیت تو ہے۔‘‘

    ’’اچھا لکھ دوں گا، جلدی کیا ہے۔‘‘

    مجھے دال میں کچھ کالا نظر آیا، بگڑ کر بولا، ’’تمہاری نیت تو ابھی سے بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    ’’تو کیا تم ثابت کرنا چاہتے ہو کہ ایسی حالت میں تمہاری نیت فاسد نہ ہو جاتی۔‘‘

    ’’میری نیت اتنی کمزور نہیں ہے۔‘‘

    ’’اجی رہنے بھی دو بڑے نیت والے دیکھے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے اپنے اوپر اعتبار نہیں رہا۔ میں تم سے معاہدہ لکھوا کر چھوڑوں گا چاہے دوستی کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔‘‘

    بڑے نشست خانے میں جہاں دونوں ٹھاکر بیٹھا کرتے تھے، اسی طرح کا مناظرہ چھڑا ہوا تھا۔ جھڑپ کی آواز سن کر ہمارا دھیان ادھر لگا۔ دیکھا تو دونوں بھائیوں میں ہاتھا پائی ہورہی ہے۔ سچ مچ اپنی کرسیوں سے اٹھ کر پینترے بدل رہے تھے۔

    چھوٹے نے کہا، ’’مشترکہ خاندان میں کسی کے نام سے روپیہ آئے، ان پر سب کا مساوی حق ہے۔‘‘

    بڑے ٹھاکر نے بگڑ کر جواب دیا، ’’ہرگز نہیں، جا کر قانون دیکھو اگر میں کوئی جرم کروں تو مجھے سزا ہو گی۔ مشترکہ خاندان کو نہیں، یہ انفرادی معاملہ ہے۔‘‘

    ’’اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔‘‘

    ’’شوق سے عدالت جائیے، اگر میرے لڑکے کی بیوی یا خود میرے نام لاٹری نکلی تو آپ کو اس سے کوئی تعلق نہ ہوگا، جیسے آپ کے نام لاٹری نکلے تو مجھ سے یا میری لڑکی سے یا میری بیوی سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔‘‘

    ’’اگر میں جانتا۔ آپ یہ پہلو اختیار کریں گے تو اپنی بیوی بچوں کے نام سے ٹکٹ لے لیتا۔‘‘

    ’’تو یہ آپ کا تصور ہے۔‘‘

    ’’اسی لئے مجھے خیال تھاکہ آپ میرے حقیقی بھائی ہیں اور ایک جا معاملہ ہے۔‘‘

    ’’یہ جوا ہے، یہ آپ کو سمجھ لینا چاہئے۔‘‘

    بکرم کی ماں نے دونوں بھائیوں کو شمشیر بکف دیکھا تو دوڑی ہوئی باہر آئیں اور دونوں کو سمجھانے لگیں۔

    چھوٹے ٹھاکر صاحب بھرائی ہوئی آواز میں بولے، ’’آپ مجھے کیا سمجھاتی ہیں انہیں سمجھائیے جو بھائی کی گردن پر چھری پھیررہے ہیں۔ آپ کے پاس چار ٹکٹ ہیں میرے پاس صرف ایک، میرے مقابلے میں آپ لوگوں کو روپے ملنے کا چوگنا چانس ہے۔‘‘

    بڑے ٹھاکر سے نہ رہا گیا بولے، ’’ہم نے بیس روپے نہیں دیے ٹھناٹھن۔‘‘

    اماں نے انہیں ملامت کے انداز میں دیکھا، اور چھوٹے ٹھاکر صاحب کو ٹھنڈا کیا بولیں، ’’تم میرے روپے سے آدھے لے لینا۔ میں اپنے بیٹے۔۔۔‘‘

    بڑے ٹھاکر نے زبان پکڑ لی، ’’کیوں واہیات قسم کھا رہی ہو، وہ کیوں آدھا لے لیں گے۔ میں ایک دھیلا بھی نہیں چھونے دوں گا۔ اگر ہم انسانیت سے کام لیں تو بھی انہیں پانچویں حصے سے زائد کسی طرح نہ ملے گا۔ آدھے کا دعوا کس بنا پر ہو سکتا ہے۔‘‘

    چھوٹے ٹھاکر صاحب نے خونی نظروں سے دیکھا، ’’ساری دنیا کا قانون آپ ہی جانتے ہیں۔‘‘

    ’’جانتے ہیں۔ بیس سال تک وکالت نہیں کی ہے؟‘‘

    ’’یہ وکالت نکل جائے گی۔ جب سامنے کلکتہ کا بیرسٹر کھڑا کر دوں گا؟‘‘

    ’’بیرسٹر کی ایسی تیسی۔‘‘

    ’’اچھا زبان سنبھالئے میں نصف لوں گا۔ اسی طرح جیسے گھر کی جائیداد میں میرا نصف ہے۔‘‘

    بڑے ٹھاکر صاحب کوئی توپ چھوڑنے والے ہی تھے کہ مسٹر پرکاش، سر اور ہاتھ میں پٹی باندھے خوش خوش لنگڑاتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔ بڑے ٹھاکر صاحب نے گھبرا کر پوچھا، ’’یہ تمہیں کیا ہو گیا، ارے یہ چوٹ کیسی، یہ کسی سے جھگڑا ہوا۔ کہیں گر پڑے۔ ارے منگوا جاتو ڈاکٹر کو بُلا۔‘‘ اماں جی نے پرکاش کو ایک کرسی پر لٹا دیا اور وفور شک سے کچھ پوچھ نہ سکتیں تھیں۔

    پرکاش نے کراہ کر حسرت ناک لہجے میں کہا، ’’کچھ نہیں، ایسی کچھ چوٹ نہیں لگی۔‘‘ بڑے ٹھاکر صاحب جو غم وغصہ سے کانپ رہے تھے۔ کہا،’’ کیسے کہتے ہو چوٹ نہیں لگی۔ سارا ہاتھ اور سر سوج گیا ہے۔ کہتے ہیں چوٹ نہیں لگی۔ کس سے جھگڑا ہوا، کیا معاملہ ہے۔ بتلاتے کیوں نہیں۔ میں جاکر تھانے میں رپٹ کرتا ہوں۔‘‘

    ’’آپ ناحق گھبراتے ہیں بہت معمولی چوٹ ہے دوچار روز میں اچھی ہوجائے گی۔‘‘ اس کے چہرے پر اب بھی ایک مسرت آمیز امید جھلک رہی تھی۔ ندامت غصہ یا انتقام کی خواہش کا نام تک نہ تھا۔

    اماں نے آواز کو سنبھال کر پوچھا، ’’بھگوان کریں جلد اچھے ہو جاؤ۔ لیکن چوٹ لگی کیسے کسی تانگہ پر سے گر پڑے۔‘‘

    پرکاش نے درد سے ناک سکوڑ کر مسکراتے ہوئے کہا، ‘‘کچھ نہیں، نہ کسی تانگہ سے، نہ کسی سے جھگڑا ہوا۔ ذرا جھگڑا بابا کے پاس چلا گیا تھا۔ یہ انہی کی دعا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں وہ آدمیوں کی صورت سے بھاگتے ہیں اور پتھر مارنے دوڑتے ہیں، جو دوڑ کر بھاگا وہ نامراد رہ جاتا ہے جو پتھر کی چوٹیں کھا کر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا اس کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ بس یہی سمجھ لیجئے چوٹ کھائی اور پاس ہوئے۔ بندہ وہاں قطب مینار کی طرح ڈٹا رہا۔ بس انہوں نے پتھر چلا ہی دیا۔ ادھر گھنٹہ بھر تک مجھ سے اٹھا ہی نہ گیا۔ آخر ہمت باندھ کر اٹھا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا۔ بڑی شدت کا درد ہے مگر مراد پوری ہوگئی اب لاٹری میرے نام آئی رکھی ہے۔ مطلق شبہ نہیں سب سے پہلے جھگڑا بابا کی کٹی بناؤں گا۔ ان کی مار کھا کرآج تک کوئی نامراد نہیں لوٹا۔‘‘

    بڑے ٹھاکر صاحب نے اطمینان کا سانس لیا۔ اماں جی کا اندیشہ بھی دور ہوگیا، سر پھٹا تو کیا ہوا۔ ہاتھ بھی ٹوٹا تو کیاغم ہے، لاٹری تو اپنی ہو گی۔

    شام ہوگئی تھی، بڑے ٹھاکر صاحب مندر کی طرف چلے گئے، بھگوت سننے کا وقت آگیا تھا۔ چھوٹے ٹھاکر صاحب وہیں بیٹھے رہے ان کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ بولے، ’’جھگڑا بابا تو وہیں رہتے ہیں ندی کے کنارے نیچے میں۔‘‘

    پرکاش نے بے اعتنائی سے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’کیا بہت زور سے مارتے ہیں؟‘‘

    پرکاش نے ان کا عندیہ سمجھ لیا۔

    ’’آپ زور سے کہتے ہیں، ارے صاحب ایسا پتھر مارتے ہیں کہ بم کے گولے سا لگتا ہے۔ دیو ساتھ ہے اور شہ زور اتنے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ شیروں کو گھونسے میں مار ڈالتے ہیں۔ اف سر پھٹا جا رہا ہے۔ ان کا نشانہ ایسا بے خطا ہوتا ہے کہ آدمی بچ ہی نہیں سکتا ایک دو پتھر سے زیادہ کھانے کی کسی میں تاب ہی نہیں۔ جب تک گر نہ پڑیں، مگر راز یہی ہے کہ آپ جتنے زیادہ پتھر کھائیں گے اتناہی اپنے مقصد کے قریب پہنچیں گے۔ ایک چوٹ کھاکر جان بچانے کے لئے کوئی بہانہ کرکے گر پڑے تو اس کا پھل بھی اتنا ہی ملتا ہے۔ آدھا یا اس سے کم۔ میں نے تو ٹھان لیا تھا کہ چاہے مر ہی جاؤں لیکن جب تک نہ گر پڑوں پیچھا نہ چھوڑوں گا۔‘‘

    پرکاش نے ایسا ہیبت ناک مرقع کھینچا کہ چھوٹے ٹھاکر صاحب کانپ گئے جھگڑا بابا کی کٹیا میں جانے کی ہمت نہ پڑی۔

    آخر جولائی کی بیسویں تاریخ آئی، سویرے ہی ڈاک خانے کے سامنے کئی ہزار آدمیوں کا مجمع ہوگیا۔ تار کا انتظار ہونے لگا۔

    پرکاش بابو پٹیاں باندھے غریبوں کو غلہ بانٹ رہے تھے۔ اور بار بار فون پرجاکر پوچھتے کیا خبر ہے۔ ہر شخص کے چہرے پر امید و بیم کا رنگ تھا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی زور سے بجی سب کے سب دوڑے، رسیور بکرم کے ہاتھ لگا، ’’کون ہے؟‘‘

    ’’میں ہوں بکرم۔‘‘

    ’’کیا خوشخبری ہے۔‘‘

    ’’اس شہرکا صفایا ہے، شہر ہی کافی نہیں، سارے ہندوستان کا، امریکہ کے ایک آدمی کا نام آیا ہے۔‘‘

    پرکاش بابو زمین پر گر پڑے۔ بڑے ٹھاکر صاحب پر جیسے فالج گر گیا ہو۔ بے حس و حرکت نقش دیوار کی طرح کھڑے رہ گئے۔ چھوٹے ٹھاکر صاحب سر پیٹ کررونے لگے۔

    رہا میں، مجھے مایوسی کے ساتھ ایک حاسدانہ مسرت ہورہی تھی کہ مجھے بکرم کی خوشامد کرنے کی ذلت نہیں اٹھانی پڑی۔ اماں جان باہر نکل آئیں اور کہہ رہی تھیں سبھوں نے بے ایمانی کی، کون وہاں دیکھنے گیا تھا۔

    اس روز رات کو کسی نے کھانا نہیں کھایا۔ بڑے ٹھاکر صاحب نے پجاری جی پر غصہ اتار دیا اور انہیں برخاست کر دیا اسی لئے تمہیں اتنے دنوں سے پال رکھا ہے حرام کا مال کھاتے ہو اور چین کرتے ہو۔

    اتنے میں بکرم رونی صورت لئے آکر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا، ’’اب معاملہ ختم ہوگیا، مگرسچ کہنا، تمہاری نیت فاسد تھی یا نہیں؟‘‘

    بکرم بے غیرتی کے ساتھ مسکرا پڑا، ’’اب کیا کرو گے پوچھ کر، پردہ ڈھکا رہنے دو۔‘‘

    (ممتاز ادیب اور فکشن نگار کرشن چندر کا مشہور افسانہ)

  • شاہدرے کی ایک شام

    شاہدرے کی ایک شام

    بھاٹی دروازے کے باہر میں شاہدرہ جانے والی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کے ایڈیٹر کا خرید کر دیا ہوا بلیک اینڈ وائٹ سگرٹوں کا ڈبہ میرے لمبے کوٹ کی جیب میں تھا اور ایک سگریٹ میرے داہنے ہاتھ کی انگلیوں میں سلگ رہا تھا۔

    میں شاہدرے مچھلیاں پکڑنے یا مقبرے کی دیواروں پر اپنا نام لکھنے نہیں بلکہ نور جہاں پر ایک افسانہ لکھنے جا رہا تھا جسے ’آثار قدیمہ‘ کے پہلے شمارہ میں چھپنا تھا۔ ایڈیٹر نے سگرٹوں کا ڈبہ تھماتے ہوئے تاکید کی تھی کہ افسانہ کافی سنسنی خیز ہونا چاہیے اور میرے اندر سنسنی ڈوڑ گئی تھی۔

    بس کا دور دور تک نشان نہ تھا اور قریب قریب سبھی لوگ انتظار سے تنگ آ چکے تھے۔ چند ایک دیہاتی عورتیں زمین پر بیٹھ گئی تھیں اور پوٹلی میں سے گڑ اور روٹی نکال کر وہیں کھانے لگی تھیں۔ بھرپور جاڑے کا یہ بڑا ہی چمکیلا دن تھا۔ دھوپ ڈھل رہی تھی اور اس کی نارنجی چمک میں بازار میں ہر شے نکھر رہی تھی۔ چوک میں لوگوں کا ہجوم تھا اور ان کے چہرے دھوپ میں روغنی معلوم ہو رہے تھے۔ عجیب عجیب چہرے، میلے میلے اور صاف صاف کپڑوں والے لوگ، تانگوں، سائیکلوں، موٹروں اور چھکڑوں سے بچتے بچاتے منہ اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ سامنے والے سینما گھر کے باہر کافی بھیڑ تھی۔ اور کیوں نہ ہو ماسٹر بھگوان کا تیار کردہ لڑائی مارکٹائی سے بھرپور فلم ’’جادو رتن عرف بھوتنی کا‘‘ چل رہا تھا۔ کوچوان تانگوں میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر موری دروازے، شاہ علی دروازے اور موچی دروازے جانے والی سواریوں کو پکار رہے تھے۔ سپاہی انہیں ایک جگہ رکنے نہ دیتا تھا۔ مگر وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ چوک کا پورا چکر کاٹتے اور پھر اسی جگہ آن کھڑے ہوتے۔

    عورتیں۔۔۔ بوڑھی عورتیں، ادھیڑ عمر کی عورتیں، نوجوان لڑکیاں، کوئی کھلے منہ، کوئی خالی گرم شال لیے اور کوئی برقعہ اوڑھے بھاٹی دروازے میں داخل ہو رہی تھیں اور باہر نکل رہی تھیں۔ اچانک میری نظر ایک لڑکی پر پڑی جو سیاہ برقع اوڑھے ناپ تول کر قدم اٹھاتی دروازے سے باہر نکل رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ چال میری جانی پہچانی ہو۔ جیسے اس لڑکی کو میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔ دبلے پتلے جسم والی وہ لڑکی اب سڑک سے ہٹ کر ٹکسالی دروازے کو جانے والے باغ میں ہولی تھی۔ گھاس کے ہریالے خطوں کے درمیان سرخ روش پر اس کے چھوٹے چھوٹے قدم بڑے ربط اور سلیقے سے اٹھ رہے تھے اور سفید سینڈل پر مرغابیوں کا گمان ہو رہا تھا۔

    مجھے اپنے آپ فہمیدہ یاد آ گئی۔ وہ بھی سفید سینڈل بڑے شوق سے پہنتی ہے، اور ان کا گھر بھی بھاٹی دروازے کے اندر ہے۔ وہ بھی ہلکے نیلے رنگ کا ریشمی برقع اوڑھتی ہے۔ دبلے پتلے سپید جسم کی فہمیدہ۔۔۔ اس لڑکی کی چال فہمیدہ سے کتنی ملتی جلتی تھی۔ کہیں یہ فہمیدہ ہی نہ ہو! میں نے سگریٹ پھینکتے ہوئے باغ میں نگاہ دوڑائی۔ روش پر سفیدے اور کروٹین کے درختوں کا سایہ تھا اور اس لڑکی کا برقع ہلکی سرد ہوا میں لہرا رہا تھا اور چپ چاپ چلی جا رہی تھی۔ کہیں یہ فہمیدہ ہی نہ ہو؟ میں سوچ رہا تھا اور وہ لڑکی میری نگاہوں سے دور ہوئی جا رہی تھی۔ وقت اور زندگی کا ریلا اسے مجھ سے دور۔۔۔ اور دور لیے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا دبلا پتلا جسم کارپوریشن کی گندگی اٹھانے والی موٹر کے عقب میں چھپ گیا اور شاہدرہ جانے والی بس چپکے سے میرے بالکل قریب آن کھڑی ہوئی۔

    ’’عورتیں پہلے، عورتیں پہلے سائبان۔‘‘بس کنڈکٹر چیختا رہا مگر نقارخانے میں طوطی کون سنتا ہے۔ طوطی چلاتی رہی اور ’سائبان‘ سب سے پہلے سوار ہوئے اور عورتیں سب سے آخر میں۔ عورتیں ہر جگہ پیچھے رہتی ہیں۔ میدان جنگ میں مردوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے، انارکلی میں مردوں کے ساتھ چلتے ہوئے اور ڈولی میں بیٹھ کر سسرال جاتے ہوئے۔ انہیں بسوں میں بھی سب سے آخر میں سوار ہونا چاہیے۔ گھرر، گھرر، جیسے موٹر کے انجن نے میری تائید کی اور بس چل پڑی۔ ٹکسالی دروازے کے قریب پہنچ کر میں نے باغ میں اس لڑکی کو دور دور تک دیکھا مگر اس کا کہیں نشان نہ ملا۔ وہ کہیں گم ہو چکی تھی۔ یہ خیال کہ وہ لڑکی فہمیدہ ہی تھی، میرے ذہن میں اپنے پاؤں جما رہا تھا اور جب میں شاہدرہ موڑ پر اتر کر نور جہاں کے مقبرے کی طرف روانہ ہوا تو مجھے پورا یقین ہو چکا تھا کہ وہ لڑکی فہمیدہ ہی تھی۔

    نور جہاں کا مقبرہ اجاڑ اور مرجھائے ہوئے درختوں کے درمیان کسی پرانے اور زنگ آلود آبخورے کی طرح پڑا تھا۔ دیواروں کا سیمنٹ اور چونا اکھڑ چکا تھا اور محرابوں پر گلے سڑے پتوں والی بیلوں کی مردہ شاخیں ہوا میں ہل رہی تھیں۔ مقبرے کے اندر سردی اور تاریکی تھی۔ قبروں کے تعویز منجمد فریا دیں تھیں اور ان لوگوں کی یاد دلا رہے تھے جنہیں وطن سے ہزار میل دور کسی ویرانے میں موت نےآن لیا ہو۔ دیواروں پر بڑے بڑے دردناک شعر لکھے تھے۔ میں نے بھی کوئلے سے ایک سوگوار شعر لکھا اور سگریٹ سلگا کر مقبرہ جہانگیر کی طرف چل پڑا۔ ریلوے لائن عبور کرتے ہی مجھے شاہدرہ چاردیواری کے اندر کھجور، پوکلپٹس اور جامن کے درخت نظر آئے جن کی پھنگیں دھوپ کی مدھم ہوتی کرنوں میں ایک خیال سا معلوم ہو رہی تھیں، اور جن کے عقب میں سردیوں کی شام کا آسمان نکھر کر گہرا نیلا اور بے حد وسیع ہو گیا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا کسی نے میرے ہاتھ سے تارا مارکہ بیڑی لے کر مجھے بلیک اینڈ وائٹ کا سگریٹ تھما دیا ہو۔ بلیک اینڈ وائٹ۔۔۔ مجھے رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کے ایڈیٹر کا خیال آگیا۔

    ’افسانہ سنسنی خیز ہو۔‘ اور میرے جسم میں ایک بار پھر سنسنی دوڑ گئی۔

    اگر پکنک یا کسی خوبصورت لڑکی کے ساتھ سیر کا لطف اٹھانا ہو تو مقبرہ جہانگیر سے بڑھ کر لاہور بھر میں کوئی جگہ اتنی موزوں نہیں۔ لارنس باغ یا شملہ پہاڑی تو کرکٹ میچ دیکھنے یا ٹانگیں توڑوانے کے لیے ہیں۔ لارنس باغ میں سیر کرتے ہوئے آپ کو گھاس کے ہرے بھرے قطعے ضرور ملیں گے مگر ساتھ ہی ہر قطعہ کے باہر گھاس سے بچ کر چلیں، کے بورڈ بھی نظر آئیں گے اور آپ کو محسوس ہوگا آپ اسلحہ تیار کرنے والے کارخانے میں گھوم رہے ہیں، جہاں ذرا سی بے احتیاطی کا مطلب ایک آدھ دھماکہ اور پھر موت ہے۔۔۔ لیکن مقبرہ جہانگیر کی چاردیواری کے اندر صاف ستھری چمکیلی روشیں ہیں، جن کے بیچوں بیچ چھوٹے چھوٹے خوبصورت فواروں کی قطاریں ہیں اور جہاں دو رویہ سرو کے سرسبز درخت کھڑے ہیں۔ جہاں ترشی ہوئی گھاس کے نرم نرم خطوں میں اگے ہوئے سایہ دار درختوں میں رنگین پرندوں کے گھونسلے ہیں۔

    مقبرہ کی نیم تاریک، سنگین اور ٹھنڈی غلام گردشوں کی فضا میں دھیمی دھیمی رومانوی کیفیت رچی رہتی ہے۔ وہاں کئی ایسے مقام ہیں جہاں پہنچ کر آپ اپنی ساتھی لڑکی سے بلاجھجک اظہار عشق کر سکتے ہیں۔ اور اس لڑکی کا مزاج سرد تر ہو تو آپ اس کے ہونٹ بھی چوم سکتے ہیں۔ آپ کو کوئی نہ دیکھ سکے گا۔ لارنس اور شملہ پہاڑی میں یہ بات کہاں۔ شملہ پہاڑی کے پاس ہی ریڈیو اسٹیشن ہے۔ وہاں نہ صرف آپ کو دیکھا جا سکتا ہے بلکہ شہر بھر میں نشر بھی کیا جا سکتا ہے اور لارنس میں آپ کو سائیکل بھی باہر ہی چھوڑنا پڑتی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کچھ عرصہ بعد آپ کو جوتے بھی باہر اتارنے پڑیں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک وقت آئے جب سائیکلوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اسٹینڈ پر تالا لگا کر چھوڑنا پڑے LOCK YOUR CYCLES کے ساتھ ساتھ LOCK YOUR WOMEN کا بورڈ بھی دکھائی دینے لگے۔

    کہاں لارنس باغ اور کہاں شاہدرہ باغ۔۔۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں۔۔۔ مگر یہ گنگو تیلی کی کہانی نہیں ہے۔ یہ اصل میں راجہ بھوج کے باغ ہی کی داستان ہے۔ شاہدرہ باغ جہانگیر کے لیے بنوایا گیا تھا اور میں اس باغ میں ایک حوض کے کنارے کھڑا تھا۔ حوض میں پانی کا رنگ گدلا ہو رہا تھا اور اس کی تہ میں اگی ہوئی کائی کارنگ سیاہ پڑ چکا تھا۔ پاس ہی ایک پتلی سی روش پر، چھوٹی سی ریشمی گلہری بڑی پھرتی سے اِدھر اُھر اچک رہی تھی۔ آس پاس کھجور، املتاس اور جامن کی چھدری چھاؤں۔ گھاس کارنگ گہرا سبز ہو رہا تھا۔ فضا میں مختلف قسم کے پودوں کی خوشبو اور پرسکوں مرطوب خنکی سی پھیل رہی تھی۔ بائیں طرف ذرا ہٹ کر ایک دو گنجان درخت تھے، جن کے سایوں میں سنگین بنچ پڑے تھے۔

    میں مقبرے کی پچھلی طرف آ گیا۔ یہاں نسبتاً زیادہ سکون اور خاموشی تھی۔ سامنے فصیل ہری بھری بیلوں میں چھپی ہوئی تھی اور پرانے کنوئیں کے منڈیر پر بھنگ کی جھاڑیاں اگ رہی تھیں۔ تقریباً نصف گھنٹے تک میں نے مقبرے کا طواف کیا۔ مرمریں برآمدوں کی خنک تاریکی میں ٹہلا، باریک جالی دار جھروکوں سے لگ کر شہنشاہ کے مزار کو دیکھتا رہا۔ ایک آدمی قبر کے سرہانے دوزانو ہوکر بیٹھا تھا اور قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ تلاوت ختم کر کے اس نے دعا مانگی، تعویز کو بڑی عقیدت سے بوسہ دیا اور احتیاط سے جیسے اسے کسی کے جاگ اٹھنے کا احتمال ہو، الٹے پاؤں باہر نکل گیا۔ مجھے خواہ مخواہ گمان ہونے لگا کہ میں جہاں گیر کے مزار پر نہیں بلکہ داتا گنج بخش کے دربار میں کھڑا ہوں۔

    میں مقبرے سے نکل کر پھر باغ میں آ گیا اور ایک جگہ گھاس پر بیٹھ گیا دھوپ۔۔۔ سنہری دھوپ درختوں کے آخری کناروں کو چھو رہی تھی اور سائے لمبے اور گہرے ہو چکے تھے۔ بلیک اینڈ وائٹ کا دسواں یا گیارہواں سگریٹ سلگاتے ہوئے خودبخود نور جہاں پر مضمون لکھنے کا خیال آ گیا۔ نور جہاں پر کیا لکھوں؟ میں دیر تک سوچتا رہا۔ نور جہاں مرزا غیاث بیگ کی لڑکی تھی۔ جنگل میں پیدا ہوئی۔ اکبر کے محل میں آئی۔ شہزادہ سلیم نے کبوتر پکڑائے۔ ایک کبوتر اڑ گیا۔ واپس آکر شہزادے نے حیرانگی سے پوچھا، ’’دوسرا کبوتر کیا ہوا؟‘‘ نور جہاں نے بھولپن سے کہا، ’’اڑ گیا صاحبِ عالم۔‘‘

    ’’وہ کیسے؟‘‘

    ’’یوں صاحبِ عالم۔‘‘ اور نور جہاں نے دوسرا کبوتر بھی چھوڑ دیا۔ اور کبوتروں سے محبت کرنے والے شہزادے کو کنیز کی یہ ادا بھا گئی۔ (جیسا کہ فلم پکار میں بھی دکھایا گیا تھا) وہ اس پر عاشق ہو گیا۔ کیونکہ عام طور پر شہزادے بہت جلد عاشق ہو جایا کرتے تھے۔ پھر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ہندوستان کا شہنشاہ بن کر اسے اپنی ملکہ بنائے گا۔ مگر جب وہ شہنشاہ بنا تو نور جہاں علی قلی خاں۔۔۔ اس کی سپاہ کے بہادر جرنیل کی بیوی بن چکی تھی۔ علی قلی خاں بنگال کی مہم پر گیا اور بدقسمتی سے وہاں باغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے مارا گیا۔ نور جہاں بیوہ ہو گئی اور بعد ازاں ملکہ بن کر جہاں گیر کے حرم میں آ گئی۔ بس یہ ہے نور جہاں کی کہانی۔ اس سے زیادہ اس موضوع پر کیا لکھا جا سکتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا اور سگریٹ کا نیلا دھواں پتلی سی منحنی لکیر کی شکل میں اوپر اٹھ رہا تھا۔ میں نے کئی بار نورجہاں کے متعلق کوئی سنسنی خیز بات سوچنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام رہا۔ در اصل مجھے رہ رہ کر اس لڑکی کا خیال آ رہا تھا جو بھاٹی دروازے سے نکل کر ٹکسالی دروازے کی طرف باغ میں گھوم گئی تھی اور جس کے متعلق مجھے یقین تھا کہ وہ فہمیدہ تھی۔

    میں سوچتا نور جہاں جہاں گیر کی بیوی تھی اور جہاں گیر ہندوستان کا شہنشاہ تھا اور اس کے بعد میرا خیال فہمیدہ کی سمت چلا جاتا۔ فہمیدہ جو کبھی میری محبوبہ تھی اور اب خواجہ غلام نبی کی بیوی ہے اور خواجہ غلام نبی محکمہ انہار کے دفتر میں ہیڈ کلرک ہے۔ میں شہزادہ سلیم کو نور جہاں کی کبوتر چھوڑنے والی ادا پر مسحور ہوتے دیکھتا اور میرے ذہن میں وہ شام گھوم جاتی جب ہمارے گھر کے نچلے کمرے میں فہمیدہ میری آپا کے ساتھ بیٹھی اپنی دادی کے تتلا تتلا کر بولنے کی نقل اتار رہی تھی۔ وہ ایک آنکھ بند کیے، چھوٹا سا منہ کھولے رک رک کر بول رہی تھی اور میں دروازے والی چق کے ساتھ لگا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس کی صورت کتنی مضحکہ خیز مگر کس قدر دل آویز تھی۔ پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور مجھے یوں محسوس ہوا تھا گویا رقاصہ گھنگھرو باندھے بھاگ کر میرے پیچھے سے گزر گئی ہو۔ اس کی ہنسی میں ترنم اور نکھار تھا۔ فہمیدہ کی یہ ادا مجھے بھا گئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ تعلیم ختم کر کے جب میں کلرک بنوں گا، تو اسے اپنی بیوی بنا لوں گا۔

    ایک ہفتہ گزر گیا۔ فہمیدہ ہمارے ہاں نہ آئی۔ اسے دوبارہ دیکھنے اور اس کی مترنم آواز سننے اور اس کی خوبصورت سیاہ آنکھیں دیکھنے کی آرزو ایک پُر بہار پھول کی مانند میرے دل میں خاموشی سے مہک رہی تھی۔ ایک دن اتفاق سے میرے سوا گھر میں کوئی نہ تھا۔ میں نچلے کمرے میں سماوار میں چائے کے لیے کوئلے سلگا رہا تھا۔ میرا سرکھپ گیا تھا مگر کوئلے سلگنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میں آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا۔ دروازہ کھولا تو ڈیوڑھی میں فہمیدہ کھڑی تھی۔ وہی خوبصورت سیاہ چمکیلی آنکھیں، گول ماتھا، نیم وا ہونٹ۔۔۔

    ’’باجی۔ باجی کہاں ہے؟‘‘اس نے قدرے گھبراہٹ میں پوچھا۔

    ’’باجی۔۔۔ باجی اوپر ہے۔ تم بیٹھو میں انہیں بلائے دیتا ہوں۔‘‘ میں نے جلدی سے پنڈلیوں تک چڑھے ہوئے پائنچے ٹھیک کیے اور اوپر چلا آیا۔ اوپر مکان ساں ساں کر رہا تھا۔ اب کیا ہو؟ میں نے گھبرائے ہوئے بلے کی طرح کمروں کا چکر کاٹا اور پھر نیچے اتر آیا۔

    ’’وہ۔۔۔ وہ باجی ذرا نہا رہی ہے۔ کہتی ہے ابھی آتی ہوں۔‘‘ فہمیدہ کچھ بھی نہ بولی۔ وہ نقاب الٹے، میز کے پاس بت بنی بیٹھی تھی۔ میں سماوار کو دروازے کی طرف لے آیا۔

    ’’کوئلے ذرا گیلے ہیں۔ دھواں تو نہیں لگ رہا؟‘‘ بت خاموش رہا۔ اس کے سر کے اوپر دیوار سے لگا کلاک برابر حرکت کر رہا تھا۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔ میں نے کہا، ’’کمرہ ٹھنڈا ہے۔ سماوار قریب لے آؤں؟‘‘ کلاک چلتا رہا۔ بت کچھ نہ بولا۔ میں نے کہا، ’’تم چائے پیو گی؟‘‘ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔

    ’’تم بولتی کیوں نہیں؟‘‘ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔ میں بت کی طرف لپکا۔ بت اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’میں اب جاتی ہوں۔‘‘ میں نے جلدی سے اس کے گول گول شانوں پر ہاتھ رکھ دیے۔

    ’’بیٹھو فہمیدہ۔۔۔ باجی ابھی آ جائے گی۔‘‘ لیکن فہمیدہ میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی اور میری گرفت زیادہ مضبوط ہو گئی۔ اس کا بدن سرد پڑ رہا تھا، یا میرا؟ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے یا اس کے۔۔۔ میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ ایک کپکپی تھی جو بیک وقت ہم دونوں پر طاری تھی۔ ایک گداز اور میٹھا اضطرار تھا جس کی رَو میں ہمارے جسم ہم آہنگ ہوکر لرز رہے تھے۔ فہمیدہ نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کی آواز تھرتھرانے لگی جیسے وہ اپنی دادی کی نقل اتار رہی ہو۔ اس کا دل گویا اس کے حلق میں اٹک گیا ہو اور اس کی آواز رک گئی ہو۔ اور ہم یوں ایک دوسرے سے مل گئے تھے، جیسے دو ٹہنیاں اتفاقاً ایک دوسری سے الجھ گئی ہوں۔ فہمیدہ کا سنہری رنگ اڑ رہا تھا۔ چمکیلی سیاہ آنکھیں ڈر سے سہمی ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ سرد تھے اور ہونٹ کھلے تھے، پنکھڑیوں کی طرح۔۔۔ یہ پنکھڑیاں ان پھولوں کی تھیں جن کی خوشبو اچھوتی تھی اور جن کی تازگی بے داغ اور ان مول تھی اور جن کا بیج قدرت بلند پہاڑیوں کی چوٹیوں پر اپنے ہاتھ سے بکھیرتی ہے اور جن کی خوشبو جنگلوں کو مہکا دیتی ہے۔

    جب فہمیدہ چلی گئی تو سماوار میں کوئلے دہک رہے تھے۔

    اس کے بعد فہمیدہ اکثر ہمارے گھر آنے لگی۔ اسی کمرے، اسی کرسی پر بیٹھ کر اس نے روتے ہوئے، ہنستے ہوئے، مجھ سے وعدے کیے کہ وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گی اور زندگی کے ہر در میں میرا ساتھ دے گی اور میرے شانہ بشانہ ہو کر چلے گی۔ لیکن جب میں تعلیم پانے کے بعد کلرک بنا تو فہمیدہ کسی اور کی ہو چکی تھی۔ ہمارا قافلہ محبت کی شاداب وادیوں کو عبور کر کے جب کارواں سرائے کے قریب پہنچا تو فہمیدہ اسی بھیڑ میں کہیں گم ہو گئی۔ شہزادہ سلیم نے مہرالنسا سے محبت کی اور جب وہ شہنشاہ بنا تو اس نے علی قلی خاں کی بیوہ، نور جہاں سے شادی رچا لی۔ میں نے فہمیدہ سے محبت کی اور اسے زندگی کے بھرے میلے میں کھو بیٹھا۔

    وہ مجھ سے چھین لی گئی۔ اسے ایک علی قلی خاں بیاہ کر لے گیا۔ میں اس علی قلی خاں کو جانتا ہوں۔ اس کا اصلی نام خواجہ غلام نبی ہے اور وہ محکمہ انہار کے دفتر میں ہیڈ کلرک ہے۔ میں تعلیم ختم کرنے کے بعد جہاں گیر نہیں بن سکا۔ کاش میں جہاں گیر ہوتا۔ اور خواجہ غلام نبی اپنے علی قلی خاں کو کسی خوفناک مہم پر بھیج سکتا۔ جہاں سے وہ عمر بھر واپس لوٹ کر نہ آتا۔ اس کی خبر تک نہ ملتی اور میں اس کی چہیتی بیوی، اپنی نور جہاں۔۔۔ اپنی فہمیدہ کو گھر بیاہ لاتا۔

    میں جہانگیر نہیں ہوں مگر خواجہ غلام نبی علی قلی خان ضرور ہے۔ کیونکہ میری نور جہاں اس کے پاس ہے۔ میری فہمیدہ اس کے قبضے میں ہے۔ شاید اب وہ بھی مجھے بھلا بیٹھی ہو۔ شاید اس کے دل سے میری یاد کی آخری لکیر بھی محو ہوگئی ہو لیکن میں اسے نہیں بھلا سکتا۔ میں اس شام کو نہیں بھول سکتا، جب وہ آپا کے پاس نچلے کمرے میں بیٹھی اپنی دادی کی نقل اتار رہی تھی۔ جہاں گیر کو شاید زندگی کے آخری لمحات تک وہ منظر نہ بھولا ہوگا، جب نورجہاں نے معصومیت اور بھولپن سے دوسرا کبوتر بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا تھا۔ اور پھر وہ سنہری لمحات، وہ پھر کبھی واپس نہ آنے والے روشن اور چمکیلے لمحات۔۔۔ جب پہلی بار میں نے جنگلی پھولوں کی مہک سونگھی تھی اور ریشمی پلکوں کی سکون بحش حرارت کو محسوس کیا تھا۔ کہاں کھو گئے وہ لمحات!

    میری نور جہاں اس دنیا میں زندہ ہے۔ لیکن نہیں وہ مر چکی ہے اور اس کا مزار بھاٹی دروازے کے اندر ہے، جس کے باہر کھڑے ہوکر میں نے بس کا انتظار کیا تھا اور جہاں سے ایک دبلے پتلے جسم، ہلکے نیلے برقعے اور سفید سینڈل والی لڑکی ٹکسالی دروازے کی طرف گھوم گئی تھی اور جسے کارپوریشن کے گندگی اٹھانے والے ٹرک نے اپنی اوٹ میں لے لیا تھا۔ وہ ضرور فہمیدہ ہی تھی، نور جہاں ہی تھی!

    مجھے شاہدرہ آنے کی بجائے بھاٹی دروازے کے اندر جانا چاہئے تھا۔ اس نور جہاں کے مزار پر جس کا سلیم جہاں گیر نہ بن سکا۔ ہندوستان کا شہنشاہ نہ بن سکا۔ جہاں گیر کی نور جہاں مرنے کے باوجود زندہ ہے مگر میری نورجہاں زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہے۔ ایک لاش ہے۔۔۔ اور ایسی کتنی ہی لاشوں، کتنی ہی نور جہانوں کے مزار ہیں جو شہر کے اندر، شہر کے باہر تنگ و تاریک گلیوں کے تعفن میں ویران پڑے ہیں، جن کی قبروں پر کوئی چراغ نہیں جل رہا، کوئی پھول نہیں مہک رہا اور جن پر ایک افسانہ کیا ہزاروں ناول لکھے جا سکتے ہیں۔ میں نے غلطی کی جو شاہدرہ آ گیا۔ مجھے شہر کی گلیوں میں گھومنا چاہیے تھا۔

    دن ڈھل چکا تھا۔ شام کے مرطوب سائے مجھے گھیر رہے تھے۔ جامن اور املتاس کے درختوں میں چوڑیوں کی چہکاریں گونج رہی تھیں۔ سردی بڑھ رہی تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا۔ کوٹ کے کالر چڑھائے اور باغ کے بڑے دروازے کی طرف ہو لیا۔ بلیک اینڈ وائٹ کا سگریٹ سلگاتے ہوئے مجھے پھر رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کے ایڈیٹر کا خیال آ گیا، جس نے مجھے یہاں سگریٹوں کا ڈبہ دے کر نور جہاں پر افسانہ لکھنے بھیجا تھا۔ ڈبے میں اب صرف تین چار سگریٹ ہی باقی تھے۔ میں نے سوچا گھر جاکر نور جہاں پر کچھ نہ کچھ ضرور گھسیٹ ڈالنا چاہیے۔

    لیکن جب میں مقبرے کی چاردیواری سے باہر نکلا تو میری نگاہ ریلوے لائن عبور کرتے ہوئے خود بخود نور جہاں کے مزار کی طرف اٹھ گئی اور میں نے ایمان داری سے محسوس کیا کہ میں نورجہاں کے بارے میں کچھ نہ لکھ سکوں گا، چاہے رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کا ایڈیٹر میرے کوٹ کی ساری جیبیں سگریٹوں سے بھر دے۔

    (معاشی ناآسودگی کے باعث محبت میں ناکامی کا المیہ بیان کرتا یہ افسانہ اے حمید کے قلم سے نکلا ہے جو اردو کے مقبول قلم کار تھے)

  • خالد میاں!

    خالد میاں!

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے بیٹے کی موت کے وہم میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی پہلی سالگرہ سے دو دن قبل اس کے باپ کو وہم ستانے لگا کہ بچہ ایک سال کا ہونے سے پہلے ہی مر جائے گا۔ یہ افسانہ سعادت حسن منٹو کی تخلیق ہے۔

    ممتاز نے صبح سویرے اٹھ کر، حسب معمول تینوں کمرے میں جھاڑو دی۔ کونے کھدروں سے سگرٹوں کے ٹکڑے، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اور اسی طرح کی اور چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ جب تینوں کمرے اچھی طرح صاف ہوگئے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔

    اس کی بیوی باہر صحن میں سورہی تھی۔ بچہ پنگوڑے میں تھا۔ ممتاز ہر صبح سویرے اٹھ کر صرف اس لیے خود تینوں کمروں میں جھاڑو دیتا تھا کہ اس کا لڑکا خالد اب چلتا پھرتا تھا اور عام بچوں کے مانند، ہر چیز جو اس کے سامنے آئے، اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا تھا۔

    ممتاز ہر روز تینوں کمرے بڑے احتیاط سے صاف کرتا مگر اس کو حیرت ہوتی جب خالد فرش پر اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کی مدد سے کوئی نہ کوئی چیز اٹھا لیتا۔ فرش کا پلستر کئی جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے چھوٹے چھوٹے ذرے پھنس جاتے تھے۔ ممتاز اپنی طرف سے پوری صفائی کرتا مگر کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا جو اس کا پلوٹھی کا بیٹا خالد جس کی عمر ابھی ایک برس کی نہیں ہوئی تھی، اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتا۔

    ممتاز کو صفائی کا خبط ہوگیا تھا۔ اگر وہ خالد کو کوئی چیز فرش پر سے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتے دیکھتا تو وہ خود کو اس کا ملزم سمجھتا۔ اپنے آپ کو دل ہی دل میں کوستا کہ اس نے کیوں بداحتیاطی کی۔ خالد سے اس کو پیار ہی نہیں عشق تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ جوں جوں خالد کی پہلی سالگرہ کا دن نزدیک آتا تھا اس کا یہ وہم، یقین کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا کہ اس کا بیٹا ایک سال کا ہونے سے پہلے پہلے مر جائے گا۔

    اپنے اس خوف ناک وہم کا ذکر ممتاز اپنی بیوی سے بھی کر چکا تھا۔ ممتاز کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ اوہام کا بالکل قائل نہیں۔ اس کی بیوی نے جب پہلی بار اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو کہا،’’آپ اور ایسے وہم۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا بیٹا سو سال زندہ رہے گا۔۔۔ میں نے اس کی پہلی سالگرہ کے لیے ایسا اہتمام کیا ہے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر ممتاز کے دل کو ایک دھکا سا لگا تھا۔ وہ کب چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ نہ رہے لیکن اس کے وہم کا کیا علاج تھا۔ خالد بڑا تندرست بچہ تھا۔ سردیوں میں جب نوکر ایک دفعہ اس کو باہر سیر کے لیے لے گیا تو واپس آکر اس نے ممتاز کی بیوی سے کہا، ’’بیگم صاحب، آپ خالد میاں کے گالوں پر سرخی نہ لگایا کریں۔ کسی کی نظر لگ جائے گی۔‘‘

    یہ سن کر اس کی بیوی بہت ہنسی تھی، ’’بے وقوف مجھے کیا ضرورت ہے سرخی لگانے کی۔ ماشاء اللہ اس کے گال تو قدرتی لال ہیں۔‘‘

    سردیوں میں خالد کے گال بہت سرخ رہتے تھے مگر اب گرمیوں میں کچھ زردی مائل ہوگئے تھے۔ اس کو پانی کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ جب وہ انگڑائی لے کر اٹھتا اور دودھ کی بوتل پی لیتا تو دفتر جانے سے پہلے ممتاز اس کو پانی کی بالٹی میں کھڑا کردیتا۔ دیر تک وہ پانی کے چھینٹے اڑا اڑا کر کھیلتا رہتا۔ ممتاز اور اس کی بیوی خالد کو دیکھتے اور بہت خوش ہوتے۔ لیکن ممتاز کی خوشی میں غم کا ایک برقی دھکا سا ضرور ہوتا۔

    وہ سوچتا خدا میری بیوی کی زبان مبارک کرے، لیکن یہ کیا ہے کہ مجھے اس کی موت کا کھٹکا رہتا ہے۔ یہ وہم کیوں میرے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ یہ مر جائے گا۔ کیوں مرے گا۔۔۔؟ اچھا بھلا صحت مند ہے۔ اپنی عمر کے بچوں سے کہیں زیادہ صحت مند۔ میں یقیناً پاگل ہوں۔ اس سے میری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت دراصل اس وہم کا باعث ہے۔ لیکن مجھے اس سے اتنی زیادہ محبت کیوں ہے۔۔۔؟ کیا سارے باپ اسی طرح بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ کیا ہر باپ کو اپنی اولاد کی موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔۔۔؟ مجھے آخر ہو کیا گیا ہے؟

    ممتاز نے جب حسب معمول تینوں کمرے اچھی طرح صاف کر دیے تو وہ فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ صبح اٹھ کر، جھاڑو وغیرہ دے کر وہ گرمیوں میں ضرور آدھے گھنٹے کے لیے چٹائی پر لیٹا کرتا تھا۔ بغیر تکیے کے اس طرح اس کو لطف محسوس ہوتا تھا۔

    لیٹ کر وہ سوچنے لگا، ’’پرسوں میرے بچے کی پہلی سالگرہ ہے۔ اگر یہ بخیر و عافیت گزر جائے تو میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ میرا وہم بالکل دور ہو جائے گا۔۔۔ اللہ میاں یہ سب تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

    اس کی آنکھیں بند تھیں۔ دفعتاً اس نے اپنے ننگے سینے پر بوجھ سا محسوس کیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا خالد ہے۔ اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا، ’’ساری رات بے چین سا رہا ہے سوتے میں جیسے ڈر ڈر کے کانپتا رہا ہے۔‘‘

    خالد، ممتاز کے سینے پر زور سے کانپا۔ ممتاز نے اس پر ہاتھ رکھا اور کہا، ’’خدا میرے بیٹے کا محافظ ہو۔‘‘ ممتاز کی بیوی نے خفگی آمیز لہجے میں کہا، ’’توبہ، آپ کو بس وہموں نے گھیر رکھا ہے۔ ہلکا سا بخار ہے، انشاء اللہ دور ہو جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ممتاز کی بیوی کمرے سے چلی گئی۔

    ممتاز نے ہولے ہولے بڑے پیار سے خالد کو تھپکنا شروع کیا جو اس کی چھاتی پر اوندھا لیٹا تھا اور سوتے میں کبھی کبھی کانپ اٹھتا تھا۔ تھپکنے سے وہ جاگ پڑا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور باپ کو دیکھ کر مسکرایا۔ ممتاز نے اس کا منہ چوما۔ ’’کیوں میاں خالد کیا بات ہے۔ آپ کانپتے کیوں تھے؟‘‘

    خالد نے مسکرا کر اپنا اٹھا ہوا سر باپ کی چھاتی پر گرا دیا۔ ممتاز نے پھر اس کو تھپکانا شروع کردیا۔ دل میں وہ دعائیں مانگ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کی عمر دراز ہو۔ اس کی بیوی نے خالد کی پہلی سالگرہ کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا۔ اپنی ساری سہیلیوں سے کہا تھا کہ وہ اس تقریب پر ضرور آئیں۔ درزی سے خاص طور پر اس کی سالگرہ کے کپڑے سلوائے تھے۔ دعوت پر کیا کیا چیز ہوگی، یہ سب سوچ لیا تھا۔ ممتاز کو یہ ٹھاٹ پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سالگرہ گزر جائے۔ خود اس کو بھی پتا نہ چلے اور اس کا بیٹا ایک برس کا ہو جائے۔ اس کو اس بات کا علم صرف اس وقت ہو جب خالد ایک برس اور کچھ دنوں کا ہوگیا ہو۔

    خالد اپنے باپ کی چھاتی پر سے اٹھا۔ ممتاز نے اس سے محبت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا، ’’خالد بیٹا، سلام نہیں کرو گے ابا جی کو۔‘‘

    خالد نے مسکرا کر ہاتھ اٹھایا اور اپنے سر پر رکھ دیا۔ ممتاز نے اس کو دعا دی، ’’جیتے رہو۔‘‘ لیکن یہ کہتے ہی اس کے دل پر اس کے وہم کی ضرب لگی اور وہ غم و فکر کے سمندر میں غرق ہوگیا۔

    خالد سلام کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔ دفتر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔ ممتاز چٹائی پر لیٹا رہا اور اپنے وہم کو دل و دماغ سے محو کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اتنے میں باہر صحن سے اس کی بیوی کی آواز آئی، ’’ممتاز صاحب، ممتاز صاحب۔۔۔ ادھر آئیے۔‘‘ آواز میں شدید گھبراہٹ تھی۔ ممتاز چونک کر اٹھا۔ دوڑ کر باہر گیا۔ دیکھا کہ اس کی بیوی خالد کو غسل خانے کے باہر گود میں لیے کھڑی ہے اور وہ اس کی گود میں بل پہ بل کھا رہا ہے۔ ممتاز نے اس کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور بیوی سے جو کانپ رہی تھی پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

    اس کی بیوی نے خوف زدہ لہجے میں کہا، ’’معلوم نہیں۔۔۔ پانی سے کھیل رہا تھا۔۔۔ میں نے ناک صاف کی تو دہرا ہوگیا۔‘‘

    ممتاز کی بانہوں میں خالد ایسے بل کھا رہا تھا، جیسے کوئی اسے کپڑے کی طرح نچوڑ رہا ہے۔ سامنے چارپائی پڑی تھی۔ ممتاز نے اس کو وہاں لٹا دیا۔ میاں بیوی سخت پریشان تھے۔ وہ پڑا بل پہ بل کھا رہا تھا اور ان دونوں کے اوسان خطا تھے کہ وہ کیا کریں۔ تھپکایا، چوما، پانی کے چھینٹے مارے مگر اس کا تشنج دور نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود بخود دورہ آہستہ آہستہ ختم ہوگیا اور خالد پر بے ہوشی سی طاری ہوگئی۔ ممتاز نے سمجھا، مر گیا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’’ختم ہو گیا۔‘‘

    وہ چلائی، ’’لا حول ولا۔۔۔ کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں۔ کنولشن تھی، ختم ہوگئی۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

    خالد نے اپنی مرجھائی ہوئی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ممتاز کی ساری دنیا زندہ ہوگئی۔ بڑے ہی درد بھرے پیار سے اس نے خالد سے کہا، ’’کیوں خالد بیٹا۔۔۔ یہ کیا ہوا آپ کو؟‘‘

    خالد کے ہونٹوں پر تشنج زدہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ممتاز نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور اندر کمرے میں لے گیا۔ لٹانے ہی والا تھا کہ دوسری کنولشن آئی۔ خالد پھر بل کھانے لگا۔ جس طرح مرگی کا دورہ ہوتا ہے، یہ تشنج بھی اسی قسم کا تھا۔ ممتاز کو ایسا محسوس ہوتا کہ خالد نہیں بلکہ وہ اس اذیت کے شکنجے میں کسا جارہا ہے۔

    دوسرا دورہ ختم ہوا تو خالد اور زیادہ مرجھا گیا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں دھنس گئیں۔ ممتاز اس سے باتیں کرنے لگا، ’’خالد بیٹے، یہ کیا ہوتا ہے آپ کو؟‘‘

    ’’خالد میاں، اٹھو نا۔۔۔ چلو پھرو۔‘‘

    ’’خالدی۔۔۔ مکھن کھائیں گے آپ؟‘‘

    خالد کو مکھن بہت پسند تھا مگر اس نے یہ سن کر اپنا سر ہلا کر ہاں نہ کی، لیکن جب ممتاز نے کہا، ’’بیٹے، گگو کھائیں گے آپ؟‘‘ تو اس نے بڑے نحیف انداز میں نہیں کے طور پر اپنا سر ہلایا۔ ممتاز مسکرایا اور خالد کو اپنے گلے سے لگا لیا، پھر اس کو اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اس سے کہا، ’’تم اس کا دھیان رکھو میں ڈاکٹر لے کر آتا ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر ساتھ لے کر آیا تو ممتاز کی بیوی کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری میں خالد پر تشنج کے تین اور دورے پڑ چکے تھے۔ ان کے باعث وہ بے جان ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور کہا، ’’تَرُدّو کی کوئی بات نہیں۔ ایسی کنولشن بچوں کو عموماً آیا کرتی ہے۔ اس کی وجہ دانت ہیں۔ معدے میں کرم وغیرہ ہوں تو وہ بھی اس کا باعث ہو سکتے ہیں۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں۔ آرام آجائے گا۔ بخار تیز نہیں ہے، آپ کوئی فکر نہ کریں۔‘‘

    ممتاز نے دفتر سے چھٹی لے لی اور سارا دن خالد کے پاس بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اس کو دو مرتبہ اور دورے پڑے۔ اس کے بعد وہ نڈھال لیٹا رہا۔ شام ہوگئی تو ممتاز نے سوچا، ’’شاید اب اللہ کا فضل ہوگیا ہے۔۔۔ اتنے عرصے میں کوئی کنولشن نہیں آئی۔۔۔ خدا کرے رات اسی طرح کٹ جائے۔‘‘

    ممتاز کی بیوی بھی خوش تھی، ’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل میرا خالد دوڑتا پھرے گا۔‘‘

    رات کو چونکہ مقررہ اوقات پر دوا دینی تھی، اس لیے ممتاز چارپائی پر نہ لیٹا کہ شاید سو جائے۔ خالد کے پنگوڑے کے پاس آرام کرسی رکھ کر وہ بیٹھ گیا اور ساری رات جاگتا رہا، کیونکہ خالد بے چین تھا، کانپ کانپ کر بار بار جاگتا تھا، حرارت بھی تیز تھی۔

    صبح سات بجے کے قریب ممتاز نے تھرمامیٹر لگا کے دیکھا تو ایک سو چار ڈگری بخار تھا۔ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے کہا، ’’تَرُدو کی کوئی بات نہیں، برونکائٹس ہے میں نسخہ لکھ دیتا ہوں۔ تین چار روز میں آرام آجائے گا۔‘‘

    ڈاکٹر نسخہ لکھ کر چلا گیا۔ ممتاز دوا بنوا لایا۔ خالد کو ایک خوراک پلائی مگر اس کو تسکین نہ ہوئی۔ دس بجے کے قریب وہ ایک بڑا ڈاکٹر لایا۔ اس نے اچھی طرح خالد کو دیکھا اور تسلی دی، ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ سب ٹھیک نہ ہوا۔ بڑے ڈاکٹر کی دوا نے کوئی اثر نہ کیا۔ بخار تیز ہوتا گیا۔

    ممتاز کے نوکر نے کہا، ’’صاحب، بیماری وغیرہ کوئی نہیں۔ خالد میاں کو نظر لگ گئی ہے، میں ایک تعویذ لکھوا کر لایا ہوں۔ اللہ کے حکم سے یوں چٹکیوں میں اثر کرے گا۔‘‘

    سات کنوؤں کا پانی اکھٹا کیا گیا۔ اس میں یہ تعویذ گھول کر خالد کو پلایا گیا۔ کوئی اثر نہ ہوا۔ ہمسائی آئی، وہ ایک یونانی دوا تجویز کر گئی۔ ممتاز یہ دوا لے آیا مگر اس نے خالد کو نہ دی۔ شام کو ممتاز کا ایک ر شتے دار آیا، ساتھ اس کے ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے خالد کو دیکھا اور کہا، ’’ملیریا ہے۔ اتنا بخار ملیریا ہی میں ہوتا ہے۔ آپ اس پر برف کا پانی ڈالیے، میں کونین کا انجکشن دیتا ہوں۔‘‘

    برف کا پانی ڈالا گیا۔ بخار ایک دم کم ہوگیا۔ درجہ حرارت اٹھانوے ڈگری تک آگیا۔ ممتاز اور اس کی بیوی کی جان میں جان آئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں بخار بہت ہی تیز ہوگیا۔ ممتاز نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا۔ درجۂ حرارت ایک سو چھ تک پہنچ گیا تھا۔

    ہمسائی آئی۔ اس نے خالد کو مایوس نظروں سے دیکھا اور ممتاز کی بیوی سے کہا، ’’بچے کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہے۔‘‘ ممتاز اور اس کی بیوی کے دل بیٹھ گئے۔ ممتاز نے نیچے کارخانے سے اسپتال فون کیا۔ اسپتال والوں نے کہا مریض لے آؤ۔ ممتاز نے فوراً ٹانگہ منگوایا۔ خالد کو گود میں لیا۔ بیوی کو ساتھ بٹھایا اور اسپتال کا رخ کیا۔ سارا دن وہ پانی پیتا رہا تھا۔ مگر پیاس تھی کہ بجھتی ہی نہیں تھی۔ اسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کا حلق بے حد خشک ہوگیا۔ اس نے سوچا اتر کر کسی دکان سے ایک گلاس پانی پی لے، لیکن خدا معلوم کہاں سے یہ وہم ایک دم اس کے دماغ میں آن ٹپکا، دیکھو اگر تم نے پانی پیا تو تمہارا خالد مر جائے گا۔

    ممتاز کا حلق سوکھ کے لکڑی ہوگیا مگر اس نے پانی نہ پیا۔ اسپتال کے قریب ٹانگہ پہنچا تو اس نے سگریٹ سلگایا۔ دو ہی کش لیے تھے تو اس نے ایک دم سگریٹ پھینک دیا۔ اس کے دماغ میں یہ وہم گونجا تھا: ممتاز سگریٹ نہ پیو تمہارا بچہ مر جائے گا۔

    ممتاز نے ٹانگہ ٹھہرایا۔ اس نے سوچا: یہ کیا حماقت ہے۔۔۔ یہ وہم سب فضول ہے۔ سگریٹ پینے سے بچے پر کیا آفت آسکتی ہے۔

    ٹانگے سے اتر کر اس نے سڑک پر سے سگریٹ اٹھایا۔ واپس ٹانگے میں بیٹھ کر جب اس نے کش لینا چاہا تو کسی نامعلوم طاقت نے اس کو روکا: نہیں ممتاز، ایسا نہ کرو۔ خالد مر جائے گا۔

    ممتاز نے سگریٹ زور سے پھینک دیا۔ ٹانگے والے نے گھور کے اس کو دیکھا۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ جیسے اس کو اس کی دماغی کیفیت کا علم ہے اور وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپنی خفت دور کرنے کی خاطر نے ٹانگے والے سے کہا، ’’خراب ہو گیا تھا سگریٹ‘‘ یہ کہہ اس نے جیب سے ایک نیا سگرٹ نکالا۔ سلگانا چاہا مگر ڈر گیا۔ اس کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ گئی۔ ادراک کہتا تھا کہ یہ اوہام سب فضول ہیں مگر کوئی ایسی آواز تھی، کوئی ایسی طاقت تھی جو اس کی منطق، اس کے استدلال، اس کے ادراک پر غالب آجاتی تھی۔

    ٹانگہ اسپتال کے پھاٹک میں داخل ہوا تو اس نے سگریٹ انگلیوں میں مسل کر پھینک دیا۔ اس کو اپنے اوپر بہت ترس آیا کہ وہ اوہام کا غلام بن گیا ہے۔

    اسپتال والوں نے فوراً ہی خالد کو داخل کرلیا۔ ڈاکٹر نے دیکھا اور کہا، ’’برونکو نمونیا ہے، حالت مخدوش ہے۔‘‘ خالد بے ہوش تھا۔ ماں اس کے سرہانے بیٹھی ویران نگاہوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے ساتھ غسل خانہ تھا۔ ممتاز کو سخت پیاس لگ رہی تھی۔ نل کھول کر اوک سے پانی پینے لگا تو پھر وہی وہم اس کے دماغ میں گونجا: ممتاز، یہ کیا کررہے ہو تم۔ مت پانی پیو۔۔۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔

    ممتاز نے دل میں اس وہم کو گالی دی اور انتقاماً اتنا پانی پیا کہ اس کا پیٹ اپھر گیا۔ پانی پی کر غسل خانے سے باہر آیا تو اس کا خالد اسی طرح مرجھایا ہوا بے ہوش اسپتال کے آہنی پلنگ پر پڑا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جائے۔۔۔ اس کے ہوش و حواس غائب ہو جائیں۔۔۔ خالد اچھا ہو جائے اور وہ اس کے بدلے نمونیا میں گرفتار ہو جائے۔

    ممتاز نے محسوس کیا کہ خالد اب پہلے سے زیادہ زرد ہے۔ اس نے سوچا، یہ سب اس کے پانی پی لینے کا باعث ہے۔ اگر وہ پانی نہ پیتا تو ضرور خالد کی حالت بہتر ہو جاتی۔ اس کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے خود کو بہت لعنت ملامت کی مگر پھر اس کو خیال آیا کہ جس نے یہ بات سوچی تھی وہ ممتاز نہیں کوئی اور تھا۔ اور کون تھا۔۔۔؟ کیوں اس کے دماغ میں ایسے وہم پیدا ہوتے تھے۔ پیاس لگتی تھی، پانی پی لیا۔ اس سے خالد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خالد ضرور اچھا ہو جائے گا۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ انشاء اللہ خوب ٹھاٹ سے منائی جائے گی۔

    لیکن فوراً ہی اس کا دل بیٹھ جاتا۔ کوئی آواز اس سے کہتی: خالد ایک برس کا ہونے ہی نہیں پائے گا۔ ممتاز کا جی چاہتا کہ وہ اس آواز کی زبان پکڑ لے اور اسے گدی سے نکال دے مگر یہ آواز تو خود اس کے دماغ میں پیدا ہوتی تھی خدا معلوم کیسے ہوتی تھی۔ کیوں ہوتی تھی۔

    ممتاز اس قدر تنگ آگیا کہ اس نے دل ہی دل میں اپنے اوہام سے گڑگڑا کر کہا: خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔ کیوں تم مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے ہو۔

    شام ہو چکی تھی۔ کئی ڈاکٹر خالد کو دیکھ چکے تھے۔ دوا دی جارہی تھی۔ کئی انجکشن بھی لگ چکے تھے مگر خالد ابھی تک بے ہوش تھا۔ دفعتاً ممتاز کے دماغ میں یہ آواز گونجی: تم یہاں سے چلے جاؤ۔ فوراً چلے جاؤ، ورنہ خالد مر جائے گا۔

    ممتاز کمرے سے باہر چلا گیا۔ اسپتال سے باہر چلا گیا۔ اس کے دماغ میں آوازیں گونجتی رہیں۔ اس نے اپنے آپ کو ان آوازوں کے حوالے کر دیا۔ اپنی ہر جنبش، اپنی ہر حرکت ان کے حکم کے سپرد کر دی۔ یہ اسے ایک ہوٹل میں لے گئیں۔ انھوں نے اس کو شراب پینے کے لیے کہا۔ شراب آئی تو اسے پھینک دینے کا حکم دیا۔ ممتاز نے ہاتھ سے گلاس پھینک دیا تو اور منگوانے کے لیے کہا۔ دوسرا گلاس آیا تو اسے بھی پھینک دینے کے لیے کہا۔

    شراب اور ٹوٹے ہوئے گلاسوں کے بل ادا کر کے ممتاز باہر نکلا۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ صرف اس کا دماغ ہے جہاں شور برپا ہے۔ چلتا چلتا وہ اسپتال پہنچ گیا۔ خالد کے کمرے کا رخ کیا تو اسے حکم ہوا: مت جاؤ ادھر۔۔۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔

    وہ لوٹ آیا۔ گھاس کا میدان تھا۔ وہاں ایک بنچ پڑی تھی، اس پر لیٹ گیا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ میدان میں اندھیرا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ کبھی کبھی کسی موٹر کے ہارن کی آواز اس خاموشی میں خراش پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی۔ سامنے اونچی دیوار میں اسپتال کا روشن کلاک تھا۔ ممتاز، خالد کے متعلق سوچ رہا تھا: کیا وہ بچ جائے گا۔ یہ بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں جنھیں مرنا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کیوں پیدا ہوتی ہے جسے اتنی جلدی موت کے منہ میں جانا ہوتا ہے۔ خالد ضرور۔۔۔

    ایک دم اس کے دماغ میں ایک وہم پھوٹا۔ بنچ پر سے اتر کر وہ سجدے میں گر گیا۔ حکم تھا اسی طرح پڑے رہو جب تک خالد ٹھیک نہ ہو جائے۔ ممتاز سجدے میں پڑا رہا۔ وہ دعا مانگنا چاہتا تھا مگر حکم تھا کہ مت مانگو۔ ممتاز کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ خالد کے لیے نہیں، اپنے لیے دعا مانگنے لگا: خدایا مجھے اس اذیت سے نجات دے۔۔۔ تجھے اگر خالد کو مارنا ہے تو مار دے، یہ میرا کیا حشر کررہا ہے تو۔۔۔

    دفعتاً اسے آوازیں سنائی دیں۔ اس سے کچھ دور دو آدمی کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپس میں باتیں کررہے تھے۔

    ’’بچہ بڑا خوبصورت ہے۔‘‘

    ’’ماں کا حال مجھ سے تو دیکھا نہیں گیا۔‘‘

    ’’بے چاری ہر ڈاکٹر کے پاؤں پڑ رہی تھی۔‘‘

    ’’ہم نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کی۔‘‘

    ’’بچنا محال ہے۔‘‘

    ’’میں نے یہی کہا تھا ماں سے کہ دعا کرو بہن!‘‘

    ایک ڈاکٹر نے ممتاز کی طرف دیکھا جو سجدے میں پڑا تھا۔ اس کو زور سے آواز دی، ’’اے، کیا کررہا ہے تو۔۔۔ اِدھر آ۔۔۔‘‘

    ممتاز اٹھ کر دونوں ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ایک نے اس سے پوچھا، ’’کون ہو تم؟‘‘

    ممتاز نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر جواب دیا، ’’میں ایک مریض۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر نے سختی سے کہا، ’’مریض ہو تو اندر جاؤ۔۔۔ یہاں میدان میں ڈنٹر کیوں پیلتے ہو؟‘‘

    ممتاز نے کہا، ’’جی، میرا بچہ ہے۔۔۔ اُدھر اس وارڈ میں۔‘‘

    ’’وہ تمہارا بچہ ہے جو۔۔۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔ شاید آپ اسی کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔ وہ میرا بچہ ہے۔۔۔ خالد۔‘‘

    ’’آپ اس کے باپ ہیں؟‘‘

    ممتاز نے اپنا غم و اندوہ سے بھرا ہوا سر ہلایا، ’’جی ہاں میں اس کا باپ ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر نے کہا، ’’آپ یہاں بیٹھے ہیں۔ جائیے آپ کی وائف بہت پریشان ہیں۔‘‘

    ’’جی اچھا‘‘ کہہ کر ممتاز وارڈ کی طرف روانہ ہوا۔ سیڑھیاں طے کرکے جب اوپر پہنچا تو کمرے کے باہر اس کا نوکر رو رہا تھا۔ ممتاز کو دیکھ کر اور زیادہ رونے لگا، ’’صاحب، خالد میاں فوت ہوگئے۔‘‘

    ممتاز اندر کمرے میں گیا۔ اس کی بیوی بے ہوش پڑی تھی۔ ایک ڈاکٹر اور نرس اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ممتاز پلنگ کے پاس کھڑا ہوگیا۔ خالد آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سکون تھا۔ ممتاز نے اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرا اور دل چیر دینے والے لہجے میں اس سے پوچھا، ’’خالد میاں۔۔۔ گگو کھائیں گے آپ؟‘‘

    خالد کا سَر نفی میں نہ ہلا۔ ممتاز نے پھر درخواست بھرے لہجے میں کہا، ’’خالد میاں۔۔۔ میرے وہم لے جائیں گے اپنے ساتھ؟‘‘

    ممتاز کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خالد نے سَر ہلا کر ہاں کی ہے۔

  • بالا دست

    بالا دست

    مدت بعد وہ وطن واپس آیا تھا جہاں سے اس کی بہت ساری تلخ و شیریں یادیں وابستہ تھیں۔ جاتے وقت اس نے عہد کیا تھا کہ اَب یہاں لوٹ کر کبھی نہ آئے گا۔ لیکن نہ جانے وطن کی مٹی کی کشش تھی یا اپنوں کی محبت کہ بیس سال بعد وہ پھر یہاں کھڑا تھا۔

    جب وہ اپنے قصبہ کی حدود میں داخل ہوا تو اسے ایسا لگا کہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے۔ وہی کچی پکی سٹرکیں، وہی لہلاتے کھیت، وہی پگڈنڈیاں اور آس پاس چرتی ہوئی گائے بکریاں۔ راستے میں پڑنے والے چھوٹے چھوٹے گانو، جن میں چھوٹے چھوٹے کچے مکان، جن کی دیوار پر اوپلے تھوپے ہوئے۔ گوبر مٹی سے لیپا ہوا صحن جہاں مرغیاں چگ رہی تھیں۔ چھوٹی بڑی بیٹرھیاں، بڑے بڑے پیپل اور برگد کے پیڑ جن کی چھاؤں میں مزدور کندھوں پر انگوچھا رکھے سستا رہے تھے۔ وہ بڑے والہانہ پن سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اسے ان نظاروں سے بڑی انسیت تھی۔

    اس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کا ابتدائی حصہ اسی ماحول میں گزرا تھا۔لیکن جب اس نے حویلی کے احاطہ میں قدم رکھا تو ایک لمحہ کے لیے ٹھٹھک گیا۔ کہیں وہ غلط جگہ پر تو نہیں آ گیا۔ کیا یہ وہی حویلی ہے جو دیکھنے والوں کو دور ہی سے اپنی عظمت اور برتری کا احساس دلاتی تھی۔ جس کی چہار دیواریاں اور ڈیوڑھیاں کس قدر شاندار تھیں اور اب تو یہ تقریباً کھنڈر بن چکی تھیں۔ ستون مٹیالے ہو چکے تھے اور محراب کی جالیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ کر اپنا حسن کھو چکی تھیں۔ وہ چند منٹ کھڑا انتظار کرتا رہا کہ کسی طرف سے کوئی ملازم آئے گا اور اس کا سامان اٹھا کر لے جائے گا۔ لیکن کہیں کوئی ملازم نظر نہ آ رہا تھا۔ البتہ ہر عمر اور ہر قد و قامت کے چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے جو اپنے آپ سے بھی لا تعلق تھے۔ چاک گریباں اور ٹوٹی چپل میں ہی مست تھے۔

    سامنے بر آمدہ اور دالان میں چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں پڑی تھیں۔ وہ انھی میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہونٹوں پر خود بخود یہ شعر آ گیا:

    ہم ا پنے گھر میں آئے ہیں مگر انداز تو دیکھو
    ہم اپنے آپ کو مانندِ مہماں لے کے آئے ہیں

    پھر ماضی کے چند مناظر ذہن کے پردے پر ابھر آئے۔ وہی حویلی ہے، وہی دالان ہے۔ تخت پر فرش لگا ہے۔ چند مصاحب بیٹھے ہیں۔ ملازم حکم کی تعمیل کے لیے کھڑے ہیں۔ ابّا حقے کی نَے منہ میں دبائے خوش گپیوں میں مشغول ہیں۔

    منظر بدل گیا۔

    حویلی کے احاطہ میں ایک ہجوم ہے۔ کوئی مجرم پکڑ کر لایا گیا ہے۔ اس کی سزا ابا کو تجویز کرنی ہے۔ بڑے غور و فکر کے بعد جو سزا سنائی گئی وہ بڑی ہی عجیب و غریب ہے۔ یہ نظارہ بڑا دلخراش اور عبرتناک ہے۔ اسے عجیب سی بے چینی ہونے لگی۔ یہ سزا صر ف غریبوں، بے بسوں اور لاچاروں کے لیے ہی کیوں؟ جب سنگسار کرنے کی وحی نازل ہوئی تھی تو ایسی کوئی تخصیص عاید تو نہیں ہوئی تھی۔

    منظر پھر بدل گیا۔

    ابا شکار کر کے لوٹے ہیں۔ آج انھوں نے ہرن کا شکار کیا ہے۔ وہ اپنی کامیابی پر بے حد خوش ہیں۔ داد دینے والوں کا جمگھٹا ہے۔ اندر باہر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ہرن کی کھال دیوان خانہ کی دیوار پر بطور یادگار سجا دی گئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے کارنامے پر فخر کر سکیں۔

    ابھی وہ اس طلسم میں کھویا ہوا ہی تھا کہ کوئی شخص اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ اس نے نظر یں اٹھا کر دیکھا اور بھیا کہہ کر لپٹ گیا۔ یہ چھوٹے بھیا تھے۔ وہ اسے حویلی کے اندر لے گئے۔ بڑے بھیّا بستر علالت پر پڑے تھے۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے اور چلنے پھر نے سے معذور تھے۔ اس نے حسرت سے چاروں طرف دیکھا۔ حویلی کا ہر حصہ زبان حال سے اپنی کسمپرسی کی داستان بیان کر رہا تھا۔ نہ جانے کس جذبے کے زیر اثر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ یہ آنکھیں بھی عجیب ہیں۔ پل بھر میں سب کچھ عیاں کر دیتی ہیں۔ رات گزارنے کے لیے جو کمرہ اسے ملا تھا وہ امّاں کا کمرہ تھا۔ بالکل ویسا ہی۔ وہی پلنگ، وہی دروازے، وہی کھڑکیاں۔ البتہ یہ سب اپنے مکینوں کی طرح رنگ و روغن کھو چکے تھے۔ جگہ جگہ مکڑی کے جالے لٹک رہے تھے۔ چمگاڈروں نے روشن دان کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ اسی کمرے میں اس نے بارہا اماں کی کراہیں اور سسکیاں سنی تھیں۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ایک دن اس نے پوچھ ہی لیا تھا۔

    ”کیوں رو رہی ہیں اماں، سَر دکھ رہا ہے؟“ انھوں نے نفی میں سَر ہلایا۔

    ”تو پھر ڈر لگ رہا ہے؟“ اس کے معصوم ذہن میں یہی بات آئی۔ اماں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسے قریب کر تے ہوئے سینے سے لگا لیا۔ اماں کے جسم کی حرارت اور ہاتھوں کا لمس اب بھی تازہ تھا۔ اس نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور سر جھٹک کر ماضی میں گم ہو گیا۔

    ابا تو شاذ و نادر ہی اندر آتے تھے۔ ان کے لیے باہر کی دنیا زیادہ پرکشش تھی۔ ساری ساری رات محفلیں جمی رہتیں۔ دوست احباب سایہ کی طرح ساتھ لگے رہتے۔ اور اماں بیچاری عورت ذات تو ازل سے خود کو مظلوم اور مجبور سمجھتی آئی ہے۔ اپنے حق کے لیے اس نے احتجاج کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ اپنے ارمان، اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر سسکیوں اور سمجھوتوں میں بسر کر لیتی ہے۔ اماں بھی انھی میں سے ایک تھیں۔ نہ جانے کس مٹی کی بنی تھیں۔ حرف شکایت زبان پر کبھی نہ لاتیں۔

    جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو قصبہ کے اسکول میں اس کا داخلہ کروا دیا گیا۔ دونوں بڑے بھائیوں کو پڑھنے لکھنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ سارا دن آوارہ گردی میں گزارتے۔ آئے دن نازیبا حرکتیں کر تے رہتے۔ اماں ان کی بدتمیزیاں اور ناروا سلوک درگزر کر دیا کرتیں کہ آخر یہ بھی تو انھی کے بچے ہیں۔ کیا ہوا اگر وہ ان کے سگے نہیں ہیں۔ ایک دن ابا شکار پر گئے تو زندہ واپس نہ آئے ان کی لاش ہی آئی۔ ان کے گزرنے کے بعد دونوں بھائی اور بھی خود سر ہو گئے۔ من مانی کرنے لگے۔ اس کا کوئی کام انھیں گوارا نہ تھا۔ ہر کام میں رخنہ ڈالتے، لیکن اماں ڈھال بن کر ہر وار سے بچا لیتیں۔ ان کی مخالفت کے باوجود اس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ ابھی زیر تعلیم ہی تھا کہ اماں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ان کی بے وقت کی جدائی نے اسے اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹا اور اماں کا خواب پورا کرنے میں لگ گیا۔

    جب سر پر سایہ دار درخت نہ ہو، دھوپ کڑی اور گرم ہوا کے تھپیڑے ہوں تو انسان کیا کرے، کہاں جائے۔ اس نے ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے۔ کہاں رہنا ہے کہ اچانک ایک دن منشی جی اس کے پاس آئے اور کہنے لگے۔

    ”حضورآپ کے ساتھ تو بڑی حق تلفی کی گئی ہے۔ آپ کے بھائیوں نے ساری عمدہ زمینیں اپنے نام کر لی ہیں۔ بنجر اور بیکار آپ کے لیے چھوڑدی ہے۔ حویلی پر بھی دونوں نے اپنا نام چڑھا لیا ہے“۔

    ”تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔ وہ بیزاری سے بولا۔ اب یہ اس کی فطرت کا قصور تھا یا تعلیم کا کہ اسے لڑنا جھگڑنا بالکل پسند نہ تھا۔ اس نے بھائیوں سے کوئی سوال و جواب نہ کیا۔ بہت ہی خاموشی سے گھر چھوڑ دیا۔

    اس واقعہ کو بیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ان بیس سالوں میں اس نے بے شمار دولت حاصل کی مگر گھر والوں کو اس کی خبر نہ تھی۔ وہ تو اسے مرا ہوا سمجھ کر آرام سے بیٹھے تھے اور اب اس کے اچانک آجانے سے حویلی میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ جتنی زبانیں تھیں اتنی ہی بولیاں۔ البتہ وہ اتنا ضرور سمجھ گئے تھے کہ اب وہ خاصا مالدار ہو چکا ہے اور شاید اپنا حصہ وصولنے آیا ہے تاکہ اس کے مال و دولت میں اور اضافہ ہو جائے۔وہ آپس میں باتیں کرتے۔

    ”اتنے دنوں بعد یہ ضرور اپنا حق وصول کرنے آیا ہے۔”

    ”بچا ہی کیا ہے، ساری زمینیں تو گروی پڑی ہیں۔ اگر یہ اپنا حصہ لے لے گا تو ہم کھائیں گے کیا؟“

    ”میری مانو تو بہلا پھسلا کر جلد اسے چلتا کر دو۔“

    سب اپنی اپنی رائے پیش کر رہے تھے اور وہ ان باتوں سے بے خبر ماضی کی بھول بھلیّوں میں گم تھا۔

    دوسری صبح سب اکھٹے بیٹھے تھے۔ چھوٹے بھیّا نے بات شروع کی۔

    ”آج تمھیں یہاں دیکھ کر بتا نہیں سکتا کہ ہمیں کتنی خوشی ہو رہی ہے۔ میری رائے ہے کہ تم یہیں رہ جاؤ۔ حالاں کہ اب یہاں رہنا تمھارے لیے بہت مشکل ہوگا کیوں کہ جس عیش و آرام کے تم عادی ہو چکے ہو وہ یہاں مہیا نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی جہاں تک ہو سکے گا ہم تمھارے آرام کا خیال رکھیں گے اور تمھارا حق بھی تمھیں مل جائے گا۔“

    وہ دھیرے سے مسکرایا اور جیب سے ایک بڑی رقم کا چیک نکال کر بڑھاتے ہوئے بولا۔

    ”آج میں کچھ لینے نہیں دینے آیا ہوں۔”

    (یہ نوشابہ خاتون کا افسانہ ہے جن کا تعلق بھارت سے تھا)

  • آسیب

    آسیب

    شروع میں تو کتنا عرصہ ہمیں یقین ہی نہ آیا کہ یہ جو دن رات کی دوڑ دھوپ کے باوجود ہماری پوری نہیں پڑتی اور آئے روز بیماری، لڑائی جھگڑے اور چھوٹے موٹے حادثات کی صورت، کوئی نہ کوئی آفت ہمیں گھیرے رکھتی ہے، اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ ہم یہی سمجھتے رہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ بلکہ امی ابّا کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔

    حالانکہ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ جب اللہ میاں نے گناہوں کی سزا کے لئے اگلی دنیا میں دوزخ کی آگ بھڑکا رکھی ہے تو یہاں کیوں؟ یہ تو دہری سزا ہو گئی۔ اور یہ جو ہمارے آس پاس کے لوگ مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو کیا انہوں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور ان کی رسی کیوں اتنی دراز ہے۔ اور حالانکہ اس بات کے اشارے کہ نظر نہ آنے والی کوئی مخلوق وہاں پہلے سے رہ رہی ہے مکان کی تعمیر کے وقت ہی سے مل رہے تھے۔ کبھی رنگ کا ڈبہ، کبھی سیمنٹ کی بوری اور کبھی مستریوں کاریگروں کے اوزار گم ہو جاتے۔ کبھی تازہ پلستر پر یوں الٹی سیدھی لکیریں ڈال دی جاتیں جیسے رات بھر بھتنے کٹم کاٹا کھیلتے رہے ہوں۔ بعض اوقات کوئی فضول سا جملہ بھی لکھ دیا جاتا جس کے ہجوں سے پتہ چلتا پرائمری اسکول سے بھاگے ہوئے کسی بچے کی تحریر ہے۔ اس لئے ہم اسے مزدوروں اور ملحقہ کچی بستی کے آوارہ لڑکوں کی کارروائی سمجھتے رہے۔ بلکہ مکان میں منتقل ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد جب گھر کی عورتیں شکایت کرتیں کہ رات کو گلدان میں سجائے گئے پھول اگلی صبح کو پتی پتی ہوئے پڑے ملتے ہیں، ایک کمرے کی چیز دوسرے اور دوسرے کی تیسرے یا کوڑا دان میں ملتی ہے اور بچوں کے کھلونے اور وڈیو گیمز توڑ کر پھینک دی جاتی ہیں تو ہم اسے گھر کے بچوں کی شرارت سمجھتے اور انہیں سرزنش کر کے مطمئن ہوجاتے۔ وہ زیادہ اصرار کرتیں تو ہم، گھر کے مرد، انہیں ضعیفُ العقیدہ اور توہم پرست قرار دیتے اور ان کا مذاق اڑاتے۔

    مگر حیرت ہوتی کہ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کی ڈگری رکھنے والی بھابی بھی ان کی ہمنوا ہو گئیں کہ گھر پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔ چھوٹی بہن روحی نے فلاسفی پڑھی تھی اس نے شروع شروع میں کچھ روز فلسفہ بگھارا پھر وہ بھی چپ ہو گئی۔ بلکہ ہر وقت ڈری ڈری رہنے لگی۔ بعد میں پتہ چلا وہ میرا سویٹر بُن رہی تھی جب آدھا بُن چکی تو ایک صبح وہ سارا ادھڑا ہوا ملا۔ بچّوں کو ڈانٹا ڈپٹا گیا اور اس نے دوبارہ بُننا شروع کیا مگر وہ جتنا ہر روز بُنتی وہ اگلے روز ادھڑا ہوا ملتا۔ اور سرہانے رکھ کر سونے سے اسے ڈر لگتا مبادا وہ غیبی ہاتھ جو سویٹر ادھیڑتا تھا اس کا گلا دبا دے۔ آخرکار اس نے سویٹر بُننا ہی چھوڑ دیا اور میرے لئے بازار سے ریڈی میڈ خرید لائی۔

    قریب ہی کچی آبادی تھی اور اگرچہ بلدیہ نے اس کے گرد چار دیواری تعمیر کر رکھی تھی اور آنے جانے کے راستے مقرر کر دیے تھے مگر یہاں کے کھمبیوں کی طرح اگنے والے بچّے جہاں سے جی چاہتا دیوار پھلانگ کر آس پاس کی کوٹھیوں بنگلوں میں گھس آتے اور جو چیز ہاتھ لگتی اٹھا لے جاتے اور پھل دار درختوں پر تو بیتالوں کی طرح ایک ساتھ کئی کئی لٹکے نظر آتے۔ مگر اس سے محلّے کے لوگوں کو کچھ آسانیاں بھی تھیں۔ گھر کے کام کاج کے لئے لڑکے، لڑکیاں اور عورتیں کم معاوضے پر مل جاتیں اور ان کے مردوں کو آسانی سے بیگار میں پکڑا جا سکتا۔ خود ہمارے ہاں اسی آبادی کی ایک بیوہ عورت کام کرتی تھی۔ شروع میں وہ رات کو اپنے گھر چلی جاتی تھی مگر جب امی کو پتہ چلا وہ اپنے دو بچّوں کے ساتھ زمین کھود کر بنائے گئے غار نما کمرے میں رہتی ہے جس کے بیٹھ جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے انہوں نے سرونٹ روم کو، جو اسٹور کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، خالی کر کے رہائش کے لئے دے دیا۔ ابّا کا خیال تھا ساری خرابی یہیں سے پیدا ہوئی تھی اور یہ ساری حرکتیں ملازمہ کی نو دس سالہ بیٹی کرتی تھی جسے پڑھنے اور کھیلنے کی عمر میں اسکول چھڑوا کر کام پر لگا دیا گیا تھا۔ لیکن وارداتوں کی نوعیت دیکھ کر یقین نہ آتا۔ یہ اتنی چھوٹی بچّی کے بس کی بات نہ تھی، پھر بھی اس کی خوب نگرانی اور باز پرس کی گئی مگر آخر کار اسے بری الذّمہ قرار دے دینا پڑا۔ اس کی بجائے خواتین کو ملازمہ کا چند ماہ کا بچّہ زیادہ پُر اسرار اور منحوس معلوم ہوتا تھا جو پیدا ہوتے ہی اپنے باپ کو کھا گیا تھا ورنہ اس زمانے میں صرف بخار سے بھی کوئی مرتا ہے۔ یوں بھی وہ عام بچّوں کے برعکس بہت کم روتا تھا۔ ماں اسے دودھ پلاتی یا بھوکا رکھتی، وہ گھنٹوں چپ چاپ پڑا انگوٹھا چوستا اور کھیلتا رہتا۔

    میرا اپنا خیال تھا کہ یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی۔ پیدا کرنے والے کو تو پتہ ہی تھا اسے کس مٹی سے بنانا اور اس میں صبر و شکر کی کتنی مقدار ملانی ہے۔ مگر گھر کی عورتوں کو اس سے خوف آتا اور وہ کبھی دبے اور کبھی واشگاف لفظوں میں اس کا اظہار کرتیں۔ مگر ایک کی تنخواہ میں کام کرنے والی دو، انہیں اور کہاں مل سکتی تھیں، ناچار برداشت کرتی رہیں۔

    پھر رفتہ رفتہ پریشان کن واقعات جلدی جلدی اور تواتر سے رونما ہونے لگے۔ چھوٹی چھوٹی اور خاص طور پر خوشبودار چیزیں غائب ہونے لگیں۔ کبھی ہیر آئل کی شیشی، کبھی شیمپو اور کبھی پاؤڈر کا ڈبہ۔ واش ہینڈ بیسن سے صابن کی ٹکیا غائب ہو جاتی اور کسی روشن دان یا الماری کے اوپر جہاں کسی کوتاہ قد یا بچّے کا ہاتھ نہ پہنچ سکتا ہو پڑی ملتی۔ سنگھار میز کی اکثر چیزیں غائب یا خراب کر دی جاتیں۔ لپ اسٹک دیواروں پر اور شو پالش آئینوں پر مل دی جاتی۔ خوشبودار چیزوں کے ساتھ ہی گھر سے مہرومحبت کی خوشبو بھی اٹھ گئی۔ ایک دوسرے پر شک و شبے کا اظہار، الزام تراشیاں اور جھگڑے۔

    گھر میں ابّا جان کے علاوہ بھی کوئی نہ کوئی بیمار رہنے لگا۔ اور سرہانے رکھی دوا کی شیشی یا کیپسولز غائب ہو جاتے۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اکثر چیزیں کہیں دوسری جگہ پڑی مل جاتیں۔ بعض اوقات گندی اور ناکارہ چیزیں پاک صاف جگہوں اور پاک صاف چیزیں غسل خانے یا گٹر سے برآمد ہوتیں۔ لیکن پھر یہی بچگانہ حرکتیں خطرناک صورت اختیار کر گئیں جیسے وہ نامراد اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلانا چاہتے ہوں۔ اب چاقو، بلیڈ اور قینچی وغیرہ کا استعمال ہونے لگا۔ خوبصورت اور نئے سل کر آئے ہوئے کپڑے خاص طور پر نشانہ بنتے۔ شوخ رنگ کی ٹائیاں، کامدار دوپٹے، شادی کے جوڑے اور تکیوں کے پھول دار غلاف کاٹ، کتر دیے جاتے۔ آج اگر مُنّی اپنا فراک چاک ہو جانے پر رو رہی ہے یا روحی اپنے جہیز کے کسی قیمتی جوڑے میں شگاف ڈال دیے جانے پر آنسو بہا رہی ہے تو کل بھابی اپنی کسی ساڑھی یا دوپٹے پر قینچی چل جانے پر واویلا کر رہی ہیں۔ بالآخر گھر کے لوگ ایک دوسرے سے اور دور ہونے لگے۔ شاید ان بد ذاتوں اور بد ذوقوں کا مقصد بھی یہی تھا۔ بھابی نے ایک روز حساب لگایا کہ روحی کے مشترکہ کھاتے کے جہیز کو چھوڑ کر ان کا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے صرف قیمتی اور نئے جوڑوں پر جب کہ ہمارے معمولی اور پرانے کپڑوں پر قینچی چلی۔

    دراصل بھائی کی تنخواہ اور میرا کنبہ بڑا تھا۔ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بے اولاد بیوی سے طلاق کے کئی سال بعد وہ مشکل سے دوسری شادی پر رضامند ہوئے تھے۔ اب ان کے دو بچّے تھے جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں۔ میرے بچّوں کی تعداد ان سے تین گنا تھی۔ دو بڑے اور سمجھدار، چار چھوٹے جو پرائمری اور ہائی اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ بھابی کو مشترکہ کھاتے کے مستقل نقصان کا قلق رہتا تھا۔ بہانہ ہاتھ آ گیا تو گھر کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ والدہ اور روحی ہمارے اور والد صاحب بھائی کے حصّے میں آئے اور کچی آبادی کی ماں بیٹی اسی تنخواہ پر دو گھروں کا کام کرتی رہیں۔

    دل چسپ بات یہ ہوئی کہ بھائی بھابی کے علیحدہ ہو جانے سے اچانک امن اور سکون ہو گیا جس سے ان کے اس شبے کو تقویت ملی کہ میرے بیوی بچّے ان کے قیمتی اور شاندار کپڑوں سے جلتے تھے اور موقع پا کر انہیں خراب کر دیتے تھے۔ ابّا ان کے دسترخوان پر کھاتے تھے، قدرتی طور پر وہ بھی ان کی ہمنوائی کرنے لگے۔ مجھے خود بھی شک ہو گیا اور میں نے اپنے کنبے کے ہر فرد سے باز پرس کی۔ راتوں کو اٹھ اٹھ اور چھپ چھپ کر ان کی جاسوسی کرتا خصوصاً لڑکیوں پر نگاہ رکھتا کہ سائے اور آسیب کی ہر کہانی کا تعلق عام طور پر کسی بالغ یا نابالغ لڑکی یا گھٹن اور ہسٹیریا میں مبتلا عورت ہی سے ہوتا ہے۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بچّوں کو پڑھائی سے فرصت نہیں اسی لئے وہ امتحانوں میں اوّل دوم آتے رہتے ہیں تو میں نے صفائی دینے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ کوئی تیسرا ہے جو بھائیوں میں نفاق ڈال رہا ہے۔ غیر برادری کی بھابی نے سمجھ لیا میرا اشارہ ان کی طرف ہے۔ اس پر گھر میں خوب ہنگامہ ہوا۔ غریب کی تو معافی بھی کوئی قبول نہیں کرتا خواہ وہ سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس دوران ایک اچھی بات یہ ہو گئی کہ میرے بڑے بیٹے کو نتیجہ نکلتے ہی کینیڈا کا ویزا مل گیا۔ اور ہمارے بھی دن پھر گئے۔ ہماری بات میں بھی وزن پیدا ہو گیا۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ گھر میں روپے پیسے کی چوریاں ہونے لگیں۔ تاہم زیورات عام طور پر مل جاتے۔ بھابی کا نیکلس میری بیوی کے ٹرنک اور اس کی بالی بھابی کی الماری سے ملی۔ مگر نقدی غائب ہو جاتی اور اپنے پیچھے لڑائی جھگڑے کا ختم نہ ہونے والا طویل سلسلہ چھوڑ جاتی۔

    دونوں گھروں میں کشیدگی کی فضا تھی اور آنا جانا نہیں تھا اس لئے ادھر کی چیز ادھر کرنے والے یا تو بھوت تھے یا کام کرنے والی ماں بیٹی۔ جن کا دونوں طرف آنا جانا تھا۔ ماں مصیبت زدہ اور جہاں دیدہ تھی اسے روزگار اور پناہ ملی ہوئی تھی وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی۔ اور لڑکی بھی کب، کیوں اور کیسے کر سکتی تھی۔ یوں بھی وہ بہت چھوٹی اور معصوم تھی اور اتنے بہت سے افراد کی مسلسل نگرانی کے بعد کبھی تو پکڑی جاتی۔ شاید یہ واقعی کوئی آسیب تھا۔ لیکن میرا جی نہ مانتا۔

    یہ گھر آسیب زدہ ہے۔ یہ خبر اخبار میں شائع ہوئے بغیر رشتے داروں، دوستوں اور جاننے والوں تک پہنچ گئی تھی اور جواب میں طرح طرح کے افسانے سنائے اور مشورے دیے جاتے۔ ہر شخص کے علم میں ایسے کئے واقعات تھے۔ کہیں راتوں کو میوزک بجتا تھا۔ کہیں پتھروں کی بارش ہوتی تھی۔ کسی گھر میں خود بخود آگ بھڑک اٹھتی اور کسی کی دیواروں پر سیکڑوں چھپکلیاں چپکی نظر آتیں۔ ان سب واقعات میں مشترک بات یہ تھی کہ بالآخر کسی پیر یا عامل کے وظیفے، تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک نے اس مصیبت سے نجات دلائی۔ ناچار ہم نے بھی ایک کے بعد دوسرے عامل، پیر اور پہنچے ہوئے بزرگوں کی تلاش جاری رکھی۔ گھر میں آئے روز عجیب و غریب حلیے کا نیم خواندہ قسم کا کوئی عامل یا پیر نظر آتا۔ طرح طرح کے ٹونے ٹوٹکے اور وظیفے، دھونیاں، اگر بتیاں اور چراغ۔ کلامِ الٰہی کے خوف، وظیفوں کی مار اور عاملوں کی ڈانٹ پھٹکار سے وہ عارضی طور پر چلے بھی جاتے اور کچھ دن چین سے گزر جاتے مگر پھر کسی دن اچانک کوئی نیا اور پہلے سے زیادہ شدید واقعہ رونما ہو جاتا۔

    گھر کی خواتین کو پہلے ہی شک تھا یہ سب بھائی کی مطلقہ بیوی کروا رہی تھی۔ اب عامل لوگوں نے ان کے شک کو یقین میں بدل ڈالا۔ گھر کے کونوں کھدروں سے وقتاً فوقتاً تعویذ دھاگے، بالوں کے گچھے یا کچھ نہ کچھ برآمد ہوتا رہتا۔ جس کے پیچھے اسی کا ہاتھ سمجھا جاتا حالانکہ وہ بیچاری اپنے بھائی کے پاس پیرس چلی گئی تھی اور کہیں بے بی سٹر کی ملازمت کر کے وقت گزار رہی تھی۔ گھر میں صرف ایک میں تھا جو خلافِ عقل باتوں کو نہیں مانتا تھا اور اتنے بہت سے واقعات رونما ہونے کے بعد بھی پوری طرح یقین نہیں کرتا تھا کہ نظر نہ آنے والی مخلوق انسانی زندگی میں یوں دخیل اور اثر انداز ہو سکتی ہے۔ گھر اور باہر اس موضوع پر بحث مباحثے ہوتے رہتے اور میں اکثر ہنستا اور کہتا کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کوئی شریر یا متعصب قسم کا مسلمان یا کافر جن اپنی مرضی سے ہمارا یا پڑوسی ملک کا ایٹم بم بھی اٹھا کر چلا سکتا ہے۔ اس پر ابّا کہتے دیکھ لینا ایک روز ایسا ہی ہو گا۔

    میں ان کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں بحث مباحثہ بھی بہت کرتا تھا۔ چنانچہ ایک رات بد ذاتوں نے مجھے سوتے میں بستر سے نیچے لڑھکا دیا۔ شکر ہے چوٹ زیادہ نہیں آئی۔ میں نے بتی جلا کر دیکھا۔ وہ دوسری طرف منہ کئے سو رہی تھی۔ شرمندگی ذرا کم ہو گئی کہ کسی نے اس حال میں دیکھا نہیں۔ مگر ایک نامعلوم سا شبہ رہا کہ شاید ابھی وہ کروٹ بدل کر مسکرائے گی یا بال کھول کر سرخ آنکھوں سے مجھے گھورے گی اور مردانہ آواز میں قہقہے لگانے لگے گی۔ مگر جب اس نے کروٹ بدلی، نہ قہقہہ لگایا تو میں چپ چاپ بستر پر دراز ہو گیا۔ مگر اس ڈر سے بتی نہیں بجھائی کہ پھر نیچے نہ گرا دیا جاؤں۔ اس کے بعد میں بھی محتاط ہو گیا اور کھلے بندوں انکار اور مذاق کرنا ترک کر دیا۔

    ابّا کے ایک دوست بڑے مستند اور مشہور حکیم تھے۔ وہ بھی بھوت پریت کو نہیں مانتے تھے۔ مذہبی حوالوں کی اپنے طور پر مختلف توجیہات کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر گھر کی کوئی عورت یا بچّہ ہسٹیریا میں مبتلا نہیں تھا تو کسی کو نیند میں چلنے کی عادت ضرور تھی اور وہ اسی عالم میں عجیب و غریب حرکتیں کرتا تھا۔ چنانچہ ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے کی پڑتال کرنے اور جاگنے لگے۔ مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔

    کچھ وقت اسی طرح گزر گیا۔ ہم بھی اچھا کھانے اور پہننے لگے۔ بیٹے نے اب مجھے کمپیوٹر بھیج دیا تھا اور میں نے اس پر کام کرنا بھی سیکھ لیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ای میلز بھیجتے بھیجتے میری ٹائپنگ کی رفتار بھی بہتر ہو گئی تھی۔ لیکن مجھے قطعاً اندازہ نہ تھا کہ جب میں کمپیوٹر کھولتا ہوں۔ کوئی اور بھی میرے پہلو میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور چھیڑ خانی کرتا رہتا ہے۔ شروع میں یہی سمجھتا رہا کہ مجھے کمانڈز کا صحیح پتہ نہیں ہے، اس لئے مجھ سے اکثر غلطیاں سر زد ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن جب اچھی مشق ہو جانے کے بعد بھی کمپیوٹر میری ہدایات کی خلاف ورزیاں کرنے لگتا۔ کوئی دوسرا پروگرام کھول دیتا، جام ہو جاتا یا ہر پروگرام کو غیرقانونی قرار دے کر بند کرنے کی دھمکیاں دینے لگتا۔ تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ بعض اوقات انٹرنیٹ کی کوئی ناپسندیدہ سائٹ کھول دیتا جو ہٹائے نہ ہٹتی۔ ایک بار میں نے بیٹے کی ای میل کھولی جس میں نئے سال کی مبارک باد دی گئی تھی۔ نئے سال کی خوشی میں خوب آتش بازی ہو رہی تھی۔ اسکرین پر انار سے چھوٹ رہے تھے۔ ہم سب اس منظر سے خوب محظوظ ہوئے مگر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس آتش بازی میں سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے گا۔ سارے پروگرامز، میرا قیمتی ڈیٹا، اور ونڈوز۔ میں نے الٹ پلٹ کر دیکھا مگر لگتا تھا کمپیوٹر ایک خالی ڈبے کے سوا کچھ نہیں۔ ابّا نے سنا تو بولے سچ ہے بنی آدم کو شیطان سے کہیں مفر نہیں۔ وہ آسیب اور وائرس کی صورت کمپیوٹر میں بھی چلا آیا ہے اور قیامت تک ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔

    پھر ہمیں تحریری پیغامات آنے لگے۔ میز کی دراز میں یا کسی تکیے کے نیچے عام سی سیاہی میں لکھا ہوا رقعہ ملتا۔ اتنی خیرات کر دو، صدقہ دو، دیگ پکا کر غریبوں کو کھلاؤ، محلّے کے بچّوں میں مٹھائی بانٹو، باقاعدگی سے نماز پڑھو وغیرہ۔ جب تک ایسی معقول ہدایات ملتی رہیں ہم ان پر عمل کرتے رہے۔ مگر ایک روز ایک عجیب قسم کا حکم ملا۔ گھر کے سب لوگ ٹی وی لاؤنج میں جمع ہو کر باری باری فرش پر ناک رگڑیں۔ ورنہ بہت بڑا نقصان ہو گا۔ ظاہر ہے ایسی مضحکہ خیز ہدایت پر عمل کرنا ہمارے لئے ممکن نہ تھا۔ جس پر وہ واقعی خفا ہو گئے اور اگلے روز استری اسٹینڈ پر بند کر کے رکھی ہوئی استری کا سوئچ خود بخود آن ہو گیا اور استری اور اسٹینڈ دونوں بھسم ہو گئے۔ اس سے اگلے روز رسی پر سوکھنے کے لئے لٹکائے گئے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور بھائی کی مُنّی کی نکسیر پھوٹ پڑی۔

    اب ہم قدرتی طور پر ہر بات اور ناخوش گوار واقعے کو غیبی طاقتوں سے جوڑنے لگے۔ بچّوں کے ہوم ورک کے وقت بجلی چلی جاتی۔ نہانے یا کھانا پکانے کے وقت واٹر سپلائی بند ہو جاتی یا گھر کے کسی فرد کو چوٹ لگ جاتی تو ہمیں یقین ہو جاتا کہ سب انہی کا کیا دھرا ہے۔

    اس بار کسی ایسے عامل کی تلاش، جس کے عمل سے مستقل فائدہ ہو، میرے ذمے لگائی گئی۔ میرے لئے یہ ایک مشکل کام تھا، کیوں کہ وہ سب ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے تھے اور ایسی بے سرو پا باتیں کرتے تھے جنہیں عقل سلیم ماننے کے لئے تیار نہ تھی۔ ان کی باتوں سے صاف پتہ چلتا تھا وہ جھوٹ بولتے تھے۔ ان کے دعوے اور داستانیں سنی سنائی اور گھڑی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور فوق الفطرت کے بارے میں ان کا تصور تک درست نہ تھا۔ مجھے ان سے ملتے اور اپنی بپتا سناتے ہوئے شرمندگی سی محسوس ہوتی کہ میں بھی عام پڑھے لکھے لوگوں کی طرح اپنے عقائد اور نظریات پر ڈھلمل یقین رکھتا ہوں۔ میں نے ان کی بے تکی باتوں پر خاموشی اختیار کی کیوں کہ گھر والوں کا اصرار تھا جلدی کسی کو لاؤ۔ کوئی ناقابلِ برداشت نقصان نہ ہو جائے۔

    اور شاید یہ سلسلہ کب تک یوں ہی چلتا رہتا اگر میرا بلیک ریفل والا پارکر بال پوائنٹ گم نہ ہو جاتا۔ یا پھر تیسرے چوتھے روز اسی سے لکھا ہوا بھوت کا رقعہ نہ ملتا۔ اس بار اسے قلم تو اچھا مل گیا تھا مگر کاغذ بہت خراب تھا۔ کسی پرانی رف کاپی سے پھاڑے ہوئے ورق سے کام چلایا گیا تھا۔ میں چونکا کیسا نالائق اور کاہل جن بھوت ہے ہاتھ بڑھا کر چین کے کسی کارخانے سے بہترین کاغذ اور جرمنی کے کسی اسٹور سے نیا شیفرڈ قلم حاصل کرنے کی بجائے اپنے ہی گھر میں چوری کرتا ہے۔ اب جو غور کیا تو عبارت میں دو ایک ہجّوں کی فاش غلطیاں دکھائی دیں۔ گھر کے سب چھوٹے بڑوں کی لکھائی کا آسیب کی اس تحریر سے موازنہ کیا گیا تو عقدہ وا ہو گیا۔ بے حد حیرت ہوئی کہ طبقاتی نفرت اور احساسِ محرومی اتنی کم سِن لڑکی کو بھوت بنا سکتا ہے۔ ہمارا ارادہ نرمی سے پیش آنے کا تھا مگر اس کی ماں اسے لے کر راتوں رات غائب ہو گئی۔

    (معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس منشا یاد کی ایک تخلیق)

  • ادھوری ماں…

    ادھوری ماں…

    کہنے کو تو نادر چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، لیکن گھر میں اُس کا خیال اس طرح رکھا جاتا، جیسے وہ سب سے چھوٹا ہو۔ بہن بھائیوں کے درمیان جب بھی کسی بات پر جھگڑا ہوتا، تو چاہے قصور نادر ہی کا کیوں نہ ہو، امی ابو کی ڈانٹ ڈپٹ ہمیشہ دوسرے بہن بھائیوں کے حصّے میں آیا کرتی۔

    ایک دن سارے بہن بھائی گھر کے چھوٹے سے صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ امجد بولنگ اسٹینڈ پر فاسٹ بولروں کے انداز میں گیند کروانے کی کوشش کر رہا تھا اور نادر گھی کے خالی کنستر کے آگے بلّا تھامے شاٹ کھیلنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اپنی طرف آتی گیند کو اُس نے نظروں ہی نظروں میں تولا اور ایک زور دار شاٹ لگانے کے لیے بلّا گھما دیا۔ گیند سیدھی ایک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھتے شیشہ چکنا چور ہو کر فرش پر بکھر گیا۔ پورے ”میدان“ میں ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔ اُس دن اتوار تھا اور صبح ہی سے بچوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔

    نادر کے والد افتخار حسین اپنے کمرے میں اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے۔ شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنتے ہی وہ اور اُن کی بیوی صغراں دوڑتے ہوئے صحن میں آئے۔ افتخار حسین نے غصّے سے تمام بچوں کی طرف باری باری دیکھا۔ تمام کھلاڑیوں پر سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ نادر کے ہاتھوں میں بلاّ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا تھا کہ شیشہ اسی کے ہاتھوں شہید ہوا ہے۔ افتخار حسین نے ایک سرسری نگاہ نادر اور بلّے پر ڈالنے کے بعد بولنگ اسٹینڈ پر کھڑے امجد کو شعلہ بار نظروں سے گھورا۔

    ”ابّو! شیشہ بھائی…. نے توڑا….ہے۔ میں تو بولنگ کروا رہا تھا۔“ امجد نے فوراً ہکلاتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی۔

    ”امجد سچ کہہ رہا ہے، شیشے پر گیند بھائی نے ماری ہے۔“ ”سلپ“ میں کھڑی ننھی تہمینہ نے فوراً امجد کے حق میں گواہی دی اور دیگر بہن بھائیوں کے سر اُس کی تائید میں ہلنے لگے۔ ”عینی شاہدوں“ کے بیانات نظر انداز کرتے ہوئے افتخار حسین کا ایک بھرپور تھپڑ امجد کے گال پر پڑا اور دوسرا پرویز کی پیٹھ سہلا گیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے ننھی تہمینہ نے پہلے ہی کمرے کی جانب راہِ فرار اختیار کرلی تھی۔

    ”کمینو! تم لوگ مجھے زندہ بھی رہنے دو گے کہ نہیں۔ بیٹھے بٹھائے ڈیڑھ دو سو روپے کا نقصان کرا دیا۔ مار مار کے ادھ مُوا کر دوں گا، اگر آیندہ کسی کو صحن میں کرکٹ کھیلتے دیکھا۔ دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔“ اس سے پہلے کہ افتخار حسین کے غصّے کے مزید سنگین نتائج برآمد ہوتے، صغراں نے خود ہی آگے بڑھ کر امجد اور پرویز کی پیٹھ پر دھپ جمائی اور کوسنے دیتی ہوئی بچوں کو کمرے میں لے گئی۔ اس بار بھی اصل ’مجرم‘ نادر صاف بچ نکلا تھا۔

    کمرے میں پٹے ہوئے کھلاڑی اپنی اپنی چوٹیں سہلانے میں مصروف تھے۔ نادر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب بہن بھائی اُسے کینہ توز نظروں سے گھورنے لگے۔

    ”شیشہ تو بھائی نے توڑا، پھر مار ہمیں کیوں پڑی؟“ امجد نے سرگوشی کے انداز میں ماں سے شکایت کی۔ ”اس لیے کہ یہ تمھارا بڑا بھائی ہے اور بڑوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا کرتے۔“

    آج پہلی بار اپنے بہن بھائیوں کو پٹتے دیکھ کر نادر کو اچھا نہیں لگا۔ اُس کے دل میں ایک گرہ سی پڑ گئی۔ کچھ گھنٹوں بعد گھر کی فضا اعتدال پر آگئی۔ بچے اس ”ہول ناک“ سانحے کو بھول کر پھر سے آپس میں کھیل کود میں مصروف ہوگئے۔ شیشے کی کرچیاں سمیٹ لی گئیں اور افتخار حسین کا پارا بھی نیچے آگیا۔ لیکن نہ جانے کیوں نادر کے ذہن سے اس واقعے کا اثر زائل نہیں ہوا۔ کوئی کرچی سمیٹنے سے رہ گئی تھی، جو نادر کے دل میں مسلسل چبھے جا رہی تھی۔ اُس کا معصوم ضمیر اُسے اندر ہی اندر کچوکے لگا رہا تھا۔ ذہن ایک ہی سوال کی بار بار تکرار کیے جا رہا تھا۔

    ”جب شیشہ میں نے توڑا، تو امجد اور پرویز کو مار کیوں پڑی۔ مجھے تو کسی نے ڈانٹا تک نہیں؟“ اس سوال کے ساتھ ہی اس طرح کے کئی اور واقعات اُس کے ذہن کی اسکرین پر چلنے لگے…..ان سارے سوالات کے جوابات نادر کو سولہ سال کی عمر میں ملنا شروع ہوئے۔ وہ محسوس کرتا کہ اُس کی ظاہری ساخت اپنے دیگر بہن بھائیوں سے مختلف ہے۔ اسے لگتا تھا کہ جنس کے اعتبار سے اس کی بہن تہمینہ ماں کے زیادہ قریب ہے، جب کہ امجد اور پرویز باپ کی شباہت رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ خود کو بیچ دوراہے پر اُس مسافر کی طرح کھڑا پاتا، جو فیصلہ نہیں کرپاتا کہ کون سا راستہ اس کی منزل کی طرف جاتا ہے۔
    نادر کو لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنا اور بات چیت کرنا اچھا لگتا تھا۔ اُس کی ماں اُسے ٹوکتی کہ وہ اپنی بہن اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی بہ جائے اپنے بھائیوں اور محلے کے لڑکوں کے ساتھ گھوما پھرا کرے۔ یہ بات کہنے کے بعد نہ جانے کیوں اُس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ اپنا منہ پھیر کر دوپٹے سے اپنی آنکھیں خشک کرنے لگتی۔ نادر کو لڑکوں کی صحبت سے آہستہ آہستہ کوفت ہونے لگی۔ اسکول اور محلے کے لڑکے اس کا مذاق اُڑایا کرتے اور اس کے بات کرنے اور چلنے کے انداز پر پھبتیاں کستے تھے۔ چناں چہ، اپنے دو بھائیوں کے مقابلے میں اس کا زیادہ تر وقت گھر ہی پر کٹنے لگا۔ وہ محسوس کرتا کہ اُس کے والدین اُسے شادی کی تقریبات میں ساتھ لے جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی کہ وہ اُن کے ساتھ جانے کے بہ جائے گھر پر رہے۔

    ایسے ہی ایک موقعے پر جب سارا گھر محلے کی ایک شادی میں شرکت کرنے گیا ہوا تھا، نادر گھر میں اکیلا بُری طرح بور ہو رہا تھا۔ اُس کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہ تھا۔ چناں چہ، وقت گزاری کے لیے اُس نے ایک فلمی رسالے کی ورق گردانی شروع کر دی۔ رسالے کے پورے ایک صفحے پر اُس کی پسندیدہ ہیروئن جیا پرادا کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ وہ انہماک سے اس تصویر کو دیکھنے لگا۔ اچانک اُس کے دل میں ایک انوکھے خیال نے جنم لیا۔

    ”کیا میں جیا پرادا کی طرح بن سکتا ہوں؟“ اس خیال کے آتے ہی اُس کے قدم مشینی انداز میں کپڑوں کی الماری کی طرف بڑھنے لگے۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اُسے جیا کے لباس جیسا اُس کی ماں کا سبز جوڑا مل گیا۔ وہ کمرے کا دروازہ بند کر کے لباس تبدیل کرنے لگا۔ اس کام میں اس کے ارادے کا کوئی دخل نہ تھا۔ اُس کے اندر کوئی ایسی چیز تھی، جو اسے اس کام کے لیے اُکسا رہی تھی۔ زنانہ لباس زیب تن کرکے وہ الماری کے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اپنا عکس آئینے میں دیکھنے سے نادر کے پورے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا مختلف زاویوں سے اپنے سراپے کا جائزہ لینے لگا۔

    اچانک اس کی نظر سنگھار میز پر رکھے، میک اپ کے سامان پر پڑی، جو تہمینہ جلدی میں کُھلا چھوڑ گئی تھی۔ نادر اسٹول کھینچ کر سنگھار میز کے سامنے بیٹھ گیا اور دل چسپی سے میک اپ کے سامان کا جائزہ لینے لگا۔ بے ساختہ اُس کا ہاتھ ٹالکم پاؤڈر کی جانب بڑھا۔ تھوڑا سا پاؤڈر ہتھیلی پر نکالا اور آہستہ آہستہ چہرے پر ملنے لگا۔ اس کام میں نادر کو مزہ آنے لگا اور وہ مزید پاؤڈر نکال کر اسے دونوں ہاتھوں سے جلدی جلدی اپنے چہرے اور گردن پر اچھی طرح ملنے لگا۔ پھر لپ اسٹک کی باری آئی۔ آنکھوں میں کاجل لگانے سے نادر کی پوری شخصیت ہی تبدیل ہوگئی اور وہ ایک بار پھر آئینے میں اپنا بھرپور جائزہ لینے لگا۔ بے ساختہ اُس کی ہنسی چھوٹ گئی، جو جلد ہی قہقہوں میں تبدیل ہوگئی۔ نادر قہقہے لگاتا ہوا پورے کمرے میں تھرکنے لگا۔ ایسا کرنے میں اُسے بڑا لطف آرہا تھا۔ وہ تھرکنے کے ساتھ ساتھ دونوں بازو پھیلائے گول گول گھومنے بھی لگا۔ کافی دیر تک اس طرح تھرکنے اور گھومنے کے بعد وہ نڈھال ہوکر بستر پر گرگیا۔ تیز سانسوں کی وجہ سے اُس کا سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ نادر کی بند آنکھیں اور ہونٹوں پر پھیلی ہلکی مسکان اس کے ذہن میں چلنے والے خوش کن خیالات کا پتا دے رہی تھی۔ آج معما حل ہوگیا تھا۔ نادر کو اُس کی منزل کی طرف جانے والا راستہ مل گیا تھا اور اُس نے اِس راستے پر پہلا قدم رکھ دیا تھا۔

    کئی برس گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد آج اس زنانہ لباس میں اُس کی شخصیت کی تکمیل ہوگئی تھی۔ ”اب مجھ سے میرا اپنا پن کوئی نہیں چھین سکتا۔“ نہ جانے کتنی دیر تک نادر کا ذہن ان ہی خیالات کی آماج گاہ بنا رہا اور اُسے پتا ہی نہیں چلا کہ رات کے کس پہر اُس کی آنکھ لگ گئی۔

    سکوت کے یہ لمحات دروازے پر ہونے والی تیز دستک کی آواز سے درہم برہم ہوگئے۔ نادر ہڑبڑا کر بستر سے اٹھ بیٹھا۔ دوسری دستک کے ساتھ ہی اُس کے قدم تیزی سے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ نیم غنودگی کے عالم میں اسے لباس تبدیل کرنے کا بھی ہوش نہیں رہا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ زنانہ لباس میں ملبوس اپنے اہل خانہ کے سامنے کھڑا تھا۔ افتخار حسین کو نادر کو اس حالت میں دیکھ کر سانپ سونگھ گیا اور صغراں کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ امجد اور پرویز کے چہروں پر پہلے تو حیرت کے آثار نمودار ہوئے، پھر اُن کی ہنسی چھوٹ گئی۔ تہمینہ فیصلہ نہ کرسکی کہ اُسے اپنے بڑے بھائی کو اس حلیے میں دیکھ کر کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ صغراں کے رونے کی آواز اور افتخار حسین کی شعلہ بار نگاہیں جلد ہی نادر کو غنودگی کی کیفیت سے باہر لے آئیں۔
    ”وہ ابّو، میں….بور….بور ہو رہا تھا، اس لیے سوچا….. امّی….. کے کپڑے پہن کر دیکھوں….کیسا لگتا ہوں۔“ زندگی میں پہلی بار افتخار حسین کا ہاتھ نادر پر اٹھا۔ اُس رات انھوں نے نادر کو ملنے والا خصوصی استثنیٰ واپس لے کر پچھلی ساری کسر ایک ساتھ پوری کر دی۔

    مار پیٹ، قید و بند اور ایذارسانی سے عادتیں تو سدھاری جا سکتی ہیں، لیکن کسی کی فطرت بَھلا کب بدلی ہے، جو نادر کی بدل جاتی۔ گھر والوں کے تشدد اور منت سماجت کے باوجود اُس نے اپنی چال ڈھال نہ بدلی۔ وہ اپنے ہی حال میں مست رہنے لگا۔ کئی مہینوں سے اُس نے حجامت نہیں بنوائی تھی، جس کی وجہ سے اُس کے بال زلفوں میں تبدیل ہونے لگے اور ناخن نیل کٹرکی شکل دیکھنے کو ترس گئے۔ کاجل ہمہ وقت نادر کی آنکھوں کی زینت بنا رہتا، مگر اُس کے ہونٹوں کو اُس واقعے کے بعد لپ اسٹک نصیب نہ ہوسکی۔ افتخار حسین اپنے ہی گھر کے اندر اپنی عمر بھر کی کمائی کو یوں برباد ہوتا دیکھتے اور اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔ نادر کی موجودہ ذہنی کیفیت کے سبب تہمینہ کی سہلیوں نے بھی نادر سے ایک خاص فاصلہ رکھنا شروع کر دیا تھا، جب کہ لڑکوں سے وہ خود فاصلے پر رہنا چاہتا تھا، جواس پر غلیظ جملے کستے اور اُسے چھیڑنے سے باز نہ آتے۔

    کوئی بھی جان دار شے اپنے ہم جنسوں کو کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ سو، نادر نے بھی ایک دن اپنے ہم جنس ڈھونڈ ہی نکالے۔

    خواجہ سراؤں سے اُس کا پہلا باقاعدہ رابطہ طارق روڈ کے ٹریفک سگنل پر ہوا۔ نادر گھر جانے کے لیے بس کے انتظار میں کھڑا تھا اور کافی دیر سے اُن دو خواجہ سراؤں کی جانب دل چسپی سے دیکھ رہا تھا، جو سامنے سگنل پر رُکی گاڑیوں کے مسافروں سے پیسے مانگنے میں مصروف تھے۔ اچانک لال رنگ کی شلوار قمیص پہنے ایک خواجہ سرا کی نظریں نادر کی نظروں سے چار ہوئیں اور فطرت نے اپنا کام شروع کردیا۔ سُرخ پوش خواجہ سرا نے ہرے رنگ کے زنانہ لباس والے دوسرے خواجہ سرا کو آواز دی،
    ”اری او چمکی، ذرا ادھر تو دیکھ، کیسا چیسا لورا (خوب صورت لڑکا) ہے، کچھ اپنا اپنا سا لگتا ہے۔“

    چمکی نے نادر کی طرف غور سے دیکھا، جو اشتیاق بھری نظروں سے پہلے ہی ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ”ہائے میں مر گئی، نی زیبا، واقعی بڑا چیسا ہے۔ اگر یہ تھوڑا تڑاواہ (میک اپ) کر لے تو اپنی ہی برادری کا لگے۔“ یہ کہہ کر دونوں خواجہ سرا ہنسنے لگے۔
    ”چل، اس سے بات کرتے ہیں۔ پتا تو چلے کہ پیدایشی ہے یا صرف زنانہ ہے۔“ زیبا نے اپنے سر پر دوپٹے کو ٹھیک کیا اور چمکی کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرنے لگی۔
    ”سلام علیکم، کیسا ہے رے ہیرو۔“ قریب پہنچ کر زیبا نے نادر کو خواجہ سراؤں کے مخصوص انداز میں سلام کیا۔

    ”ٹھیک ہوں۔“ نادر خواجہ سراؤں کو اپنے قریب پا کر تھوڑا سا نروس ہوگیا۔
    ”اگر بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں۔“ زیبا نے استفسارانہ انداز میں نادر کی آنکھوں میں دیکھا۔

    ”ہا…… ہاں پوچھو، کیا پوچھنا ہے۔“ نادر نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
    ”کیا تم بھی ہماری برادری کے ہو۔“

    ”کیا مطلب، میں کچھ سمجھا نہیں۔“ نادر نے استعجابیہ انداز میں کہا۔

    ”ارے، اس کا مطلب ہے کیا تم بھی ہماری طرح خواجہ سرا ہو۔“ چمکی نے تالی بجا کر لچکتے ہوئے زیبا کے سوال کی وضاحت کی۔ پتا نہیں آپ لوگ کیا پوچھ رہی…. رہے ہیں۔ کیا آپ لڑ…کیاں…. ہیں۔“

    نادر کے اس جملے پر زیبا اور چمکی نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ چمکی پھر لچکنے لگی۔

    ”ہاں ہاں لڑکیاں ہیں، خوب صورت لڑکیاں۔“ جملے کے اختتام پر دونوں مردانہ آواز میں قہقہے لگانے لگے۔

    ”ایسی لڑکیاں تو میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں، جو شیو بھی کرتی ہیں۔“ نادر کو ان دونوں کے ساتھ بات کرنے میں مزہ آنے لگا۔ اُس کی ہچکچاہٹ دور ہوگئی اور وہ دل لگی پر اُتر آیا۔
    ”کیا تجھے بھی میک اپ کرنے کا شوق ہے؟“ زیبا بے تکلفانہ انداز میں نادر کے سراپے کا بھر پور انداز میں جائزہ لینے لگی۔

    ”ہاں ہے۔“ مختصر جواب ملا۔ ”اور زنانیوں جیسے کپڑے پہننے کا؟“ تفتیش جاری رہی۔
    ”ایک بار پہنے تھے، ابّو نے بہت مارا تھا۔“

    ”کیا تو بچپن سے ایسا ہی ہے۔“ پھر سوال پوچھا گیا۔

    ”پتا نہیں، لیکن میں شروع سے اپنے بہن بھائیوں سے الگ ہوں۔ مجھے گھر والے ہر بات پر روکتے ٹوکتے ہیں۔“ نادر نے افسردگی سے کہا۔

    ہمارے ساتھ چل، ہم تجھے اپنے گرو، بالی شاہ سے ملواتے ہیں۔ ہمارے ٹھکانے پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ وہاں تُو اپنے سارے ارمان پورے کرلینا۔“

    وہ دن نادر کی بے سمت زندگی کو ایک سمت دے گیا۔ اس کے پاؤں پھر اپنے گھر پر نہیں ٹکے اور وہ بہانے بہانے سے گھر سے غائب رہنے لگا۔ بالی شاہ کے ٹھکانے پر اپنے ”ہم جنسوں“ سے مل کر اُسے بہت خوشی ہوتی تھی۔ وہ خواجہ سراؤں کے ہم راہ گلی محلوں میں ودھائی (بخشش) لینے بھی جانے لگا تھا۔ افتخار حسین کو جلد ہی اپنے بیٹے کے ان کرتوتوں کا علم ہوگیا اور وہ اس پر اور زیادہ سختیاں کرنے لگے۔

    گھر والوں کی طرف سے لاکھ پہرے بٹھانے کے باوجود نادر نے بالی شاہ کے ٹھکانے پر جانا نہیں چھوڑا۔ وہ بالی شاہ سے ملنا چھوڑ بھی کیسے سکتا تھا۔ اُسے تو بالی شاہ کا ٹھکانا ہی اپنا اصل گھر اور بالی شاہ کے چیلے اپنے اپنے سے لگتے تھے۔ افتخار حسین جب بھی اُسے مارتے تو وہ روتا ہوا بالی شاہ کے ٹھکانے پر جا پہنچتا۔ بالی، نادر کو افسردہ دیکھ کر تڑپ اُٹھتا، فوراً اُسے اپنی بانہوں میں بھر کر اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرنے لگتا اور اس کے رستے زخموں پر مرہم رکھتا۔ نادر کو زنانہ لباس میں دیکھ کر اُس کے بہن بھائی اُس سے نفرت کرتے اور بالی شاہ کے چیلے اُس کی بلائیں لیتے۔ افتخار حسین اور صغراں نادر کو کسی تقریب میں لے جانے اور گھر آئے مہمانوں سے اُس کا تعارف کروانے میں بھی شرمندگی محسوس کرتے، جب کہ بالی شاہ بڑے فخریہ انداز میں لوگوں سے نادر کا تعارف اپنے چیلے کے طور پر کرواتا۔

    قدرت نے نادر کے ساتھ اگر بھیانک مذاق کیا تھا، تو اُس کے گھر والوں نے کون سا اُس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تھا؟ معاشرے نے اسے دھتکار دیا تھا۔ لے دے کر صرف اُس کا اپنا ایک گھر تھا، جو اُسے پناہ کا احساس دلاتا تھا، لیکن جب گھر والے بھی اُس کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کرنے لگے، تو نادر کے پاس بالی شاہ کے پاس جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ افتخار حسین اور صغراں اپنے بیٹے کو عام لڑکوں کی طرح دیکھنا چاہتے تھے، لیکن نادر کی فطرت اُسے ان جیسا بننے نہیں دیتی تھی۔ اگرچہ یہ بات دونوں اچھی طرح سمجھتے بھی تھے، لیکن لوگوں کا تضحیک بھرا رویہ انھیں فطرت کی مخالفت پر اکساتا رہتا تھا۔ وہ اپنے بچے کو بُرا بھلا کہہ کر معاشرے کو مطمئن کرکے لوگوں کے سامنے سُرخ رو ہونا چاہتے تھے۔ چناں چہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے بچے کی فطرت کچلنے اور دبانے کی کوشش کرتے۔ آخر کار نادر نے اپنے گھر والوں کو روز روز کی شرمندگی سے بچانے کے لیے انھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بالی شاہ کے ٹھکانے پر آج شادی کا سا سماں تھا۔ آس پاس کے علاقوں کے خواجہ سرا اس کے ٹھکانے پر جمع تھے۔ شیرمی (چائے) اور چھمک (ناچ گانے) کے دور وقفے وقفے سے چل رہے تھے۔ ایک طرف بالی شاہ خواجہ سراؤں کے دیگر گروؤں کے ساتھ بڑی شان سے بیٹھا ہوا تھا۔ خوشی اس کے چہرے پر سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ آج اُس کے چیلوں میں ایک نئے چیلے کا اضافہ جو ہوا تھا، جس کی خوشی میں اُس نے آس پاس کے خواجہ سراؤں کی دعوت کا انتظام کر رکھا تھا۔ آج کی تقریب کا دولھا یا دلہن، نادر تھا، اس لیے خواجہ سراؤں نے مل کر اُسے خصوصی طور پر تیار کیا۔ سُرخ جوڑے، گہرے میک اپ اور مصنوعی زیورات سے آراستہ نادر آج سب سے الگ نظر آرہا تھا۔ اس تقریب میں نادر کو اپنے گرو بالی شاہ کی طرف سے ایک خصوصی نام ”جَیا“ عطا ہوا۔ آج کے دن نادر اپنے ماضی کی تمام چیزوں کے ساتھ اپنے والدین کا دیا ہوا نام بھی چھوڑ کر ایک نئے نام کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا تھا۔

    خواجہ سراؤں کی اپنی تو کوئی اولاد ہوتی نہیں، اس لیے ممتا کے مارے خواجہ سراؤں نے عمر رسیدہ بالی شاہ (گرو) کو امّی کہہ کر اُس سے ماں اور بچے (چیلا) کا رشتہ قایم کر لیا تھا۔ گُرو کا گُرو، وڈی امّی (دادی، نانی) کہلاتا اور سینیر خواجہ سرا، جونیر خواجہ سراؤں کی باجی بن گیا۔ اس طرح بالی شاہ کا یہ ”خاندان“ وجود میں آیا۔ اس خاندان میں حال ہی میں ایک نئے فرد (جیا) کا اضافہ ہوا تھا۔

    اولاد چاہے گوری ہو یا کالی، لولی ہو یا لنگڑی، والدین کے لیے بہرحال اولاد ہوتی ہے۔ اسی جبر کے تحت نادر کے والدین رات کے اندھیرے میں بالی شاہ کے ٹھکانے پر جاکر نادر سے چوری چھپے ملنے پر مجبور ہوگئے۔ جیا کے نزدیک اپنے والدین کی عزت سب چیزوں سے مقدم تھی، چناں چہ نہ وہ باپ کا آخری دیدار کر سکی، نہ مُردہ ماں کے پیروں سے لپٹ کر اپنی جنت لٹ جانے کا غم منا سکی۔ وہ اپنے کفن میں لپٹے والدین کے جنازے کو لوگوں کے سامنے شرمندہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ جنازے کے ساتھ جانے والے عزت دار معاشرے کے معزز افراد کو یہ پتا ہی نہ چل سکا کہ جنازے کے سب سے پیچھے بال بکھرائے روتا ہوا جو خواجہ سرا چلا آ رہا ہے، وہ کوئی اور نہیں بل کہ مرنے والوں کا اپنا سگا بیٹا ہے۔

    وقت جیسے پر لگا کر اُڑتا رہا اور بیس سال کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ اس دوران جیا نے اپنے بہن بھائیوں کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ایک بار بھی ان کے گھر کا رُخ نہیں کیا۔ اُس کا اصل گھر اب بالی شاہ کا ٹھکانا تھا اور اس کے چیلے اس کے بہن بھائی۔ جیا نے بالی شاہ کی دن

    رات خدمت کر کے اُس کے جانشین کی حیثیت حاصل کر لی۔ اُس کا شمار اب بالی شاہ کے سینیر چیلوں میں ہونے لگا تھا، اور دیگر چیلے اُسے اپنی ماں تصور کرتے تھے۔ جیا بھی انھیں اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتی اور اُن کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔
    معاشی مجبوریاں بسا اوقات ایسے ایسے گُل کھلاتی ہیں، جسے دیکھ کر قدرت بھی حیران رہ جاتی ہے۔ افتخار حسین اور صغراں کی وفات کے بعد جیا کے بہن بھائیوں کو معاشی پریشانیوں نے آن گھیرا۔ امجد ایم اے کرنے کے باوجود کوئی نوکری تلاش کرنے میں ناکام رہا اور پرویز کی کلرکی سے گھر کے اخراجات بہ مشکل پورے ہو رہے تھے۔ معاشی حالات نے انھیں ایک خواجہ سرا کو منہ لگانے پر مجبور کر دیا۔ والدین کی وفات کے بعد اب جیا ہی اُن کی مائی باپ تھی۔ بالی شاہ دیگر خواجہ سراؤں کے مقابلے میں ایک متمول خواجہ سرا تھا، جس نے کئی حج کر رکھے تھے۔ چناں چہ، جیا نے کبھی اپنے بھائیوں کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹایا۔ جیا جیب اور دل دونوں سے غنی تھی اور بالی شاہ کی چہیتی تھی۔
    پھر ایک دن جیا اپنی سب سے بڑی متاع سے خود ہاتھ دھو بیٹھی۔ اُس کی سب سے بڑی دولت موت کے بے رحم ہاتھوں نے لوٹ لی۔ جیا کو اس کی اصل پہچان دینے والا، اُس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اور حقیقی ماں باپ سے زیادہ پیار دینے والا بالی شاہ اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ اس بے رحم معاشرے کے ہر طعنے سے آزاد ہو کر ایک ایسی دنیا کو سدھار گیا، جہاں عزت و ذلت کا معیار جنس نہیں بل کہ اعمال تھے۔

    وقت گزرتا رہا۔ امجد اور پرویز کی شادیاں ہوگئیں اور تہمینہ بھی پیا گھر سدھار گئی۔ اپنے
    بہن بھائیوں کی شادیوں کے تمام تر اخراجات جیا نے خود اُٹھائے اور ایک ماں بن کر اپنی چھوٹی بہن کو رخصت کیا۔ اخراجات اُٹھانے سے جیا کو بہر حال اتنی عزت مل گئی کہ اُس کا اپنے بھائیوں کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ لیکن بالی شاہ کی وفات کے بعد چوں کہ جیا خواجہ سراؤں کی گرو بن چکی تھی، اس لیے ٹھکانے پر اُس کی ذمے داریاں بھی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھیں اور وہ اپنے چیلوں کو چھوڑ کر کسی اور جگہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اُس کے چیلے اُس کی اولاد تھے اور اُسے امیّ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایک سال بعد اوپر والے نے امجد کو چاند سا بیٹا عطا کیا۔ اُس دن جیا اپنے ٹھکانے پر بد مستوں کی طرح کئی گھنٹے تک ناچتی رہی۔ اپنی امّی کو خوش ہوتا دیکھ کر اُس کے تمام چیلے بھی اُس کے ہم رقص بن گئے تھے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امجد اور پرویز کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس دوران تہمینہ بھی دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں بن گئی تھی۔ مشترکہ خاندان میں رہنے کی ایک پرانی خرابی نے امجد اور پرویز کے گھر اپنا ڈیرا جمالیا اور ان کے گھر کے برتن آپس میں ٹکرانے لگے۔ اگرچہ دونوں بھائیوں کی محبت اپنی جگہ برقرار رہی، لیکن اُن کی بیویوں میں جاری سرد جنگ، گرم جنگ میں تبدیل ہوگئی، جس کے باعث دونوں بھائیوں کے تعلقات بھی متاثر ہونے لگے۔ اکثر اوقات بچوں کی لڑائی بڑوں کو آپس میں لڑا دیتی۔ ایسے مواقع پر امجد اور پرویز کو پھر سے جیا کی مدد کی ضرورت پڑتی، جو اُن کی ماں جیسی تھی۔ جیا جب بھی صلح صفائی کے لیے اُن کے گھر آتی، تو اپنے بھائیوں کے بچوں کے لیے کھانے پینے کی ڈھیر ساری چیزیں اور کھلونے لاتی۔ امجد اور پرویز کے بچے بھی جیا سے بہت مانوس تھے۔ جیا کے گھر میں قدم رکھتے ہی وہ دوڑ کر اُس سے لپٹ جاتے اور جیا اُنہیں گود میں اُٹھائے ڈھیر سارا پیار کرتی اور بلائیں لینے لگتی۔ اپنی بھابھیوں کی ایک دوسرے کے خلاف بُرائیاں سنتی اور آخر میں دونوں میں صلح کروا کر اپنے ٹھکانے لوٹ آتی۔

    یوں جیا کی زندگی ایک کچے مگر رنگارنگ دھاگے سے بندھی ہوئی تھی، مگر دھاگا تو ٹھہرا کچا دھاگا، سو ایک دن ٹوٹ گیا۔ اُس دن ایک اخباری رپورٹر کو جیا کا انٹرویو لینے آنا تھا۔ جیا رپورٹر کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی، جس کی اسکرین پر امجد کا نام جگمگا رہا تھا۔ امجد سے گفتگو کرکے اس کے چہرے پر پریشانی نے ڈیرا جمالیا۔ آج پھر دونوں بھائیوں کی بیویوں میں جھگڑا ہوا تھا اور اس بار پرویز نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر امجد سے بد تمیزی کی تھی۔ جیا نے اپنے چیلوں کو اخباری رپورٹر کے بارے میں چند ہدایات دیں اور کچھ دیر میں آنے کا کہہ کر روانہ ہوگئی۔ راستے میں اُس نے حسب معمول بچوں کے لیے کھانے پینے کی چند چیزیں خریدیں اور دس منٹ میں اپنے بھائیوں کے گھر پہنچ گئی۔

    بچّے جیا کو دیکھ کر اُس سے لپٹ گئے۔ جیا نے انہیں باری باری پیار کیا اور پرویز کی چار سالہ بیٹی رخشی کو اپنی گود میں بٹھالیا۔ آج پرویز کی بیوی کا موڈ زیادہ خراب تھا۔ جیا نے دونوں بھابھیوں کی صفائیاں سُنیں اور اُنھیں نرمی سے سمجھانے لگی۔ اس بار پرویز کی بیوی کا قصور زیادہ تھا۔ جیا نے جب اُس کی غلطی کی نشان دہی کرنا چاہی تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئی اور جنونی انداز میں جیا کی طرف ہاتھ اُٹھا کر چلائی، ”جا رے ہیجڑے! تو کیا ہم دونوں میں صلح صفائی کروائے گا، تیری تو کوئی اولاد ہی نہیں ہے۔ تو کیا جانے اولاد کسے کہتے ہیں۔“

    یہ کہتے ہوئے اُس نے جھٹکے سے جیا کی گود میں بیٹھی رخشی کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
    پرویز نے اپنی بیوی کی طرف غصّے سے دیکھتے ہوئے کہا، ”یہ تو کیا بک رہی ہے، پتا ہے تو کس سے بات کر رہی ہے۔“

    ”ہاں ہاں، اچھی طرح جانتی ہوں اسے، یہ ہیجڑا ہے۔ ہیجڑا بن کر رہے تو اچھا ہے، خواہ مخواہ دوسروں کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑایا کرے۔“ پرویز کا زناٹے دار تھپڑ بیوی کے منہ پر پڑا اور وہ غصّے سے پاؤں پٹختی کمرے سے باہر چلی گئی۔

    جیا کے لیے ہیجڑا ہونے کا طعنہ نیا نہیں تھا۔ اُس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، دنیا والوں کے اسی قسم کے طعنے سنتی آرہی تھی۔ لیکن بے اولادی کا طعنہ اُسے آج پہلی بار اپنوں کی طرف سے ملا تھا۔ اس سے پہلے کسی غیر نے بھی اسے اس طرح کا طعنہ نہیں دیا تھا۔ جیا کے اندر کوئی چیز ٹوٹ سی گئی، جسے وہ کوئی معنی نہ دے سکی۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ اپنے گھر کے صحن کو دیکھ کر نہ جانے کیوں تیس سال پرانا منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ امجد اور پرویز اُس سے معذرت کرتے ہوئے اُس کے ساتھ ہی صحن میں چلے آئے، لیکن جیا کے کان میں تو کرکٹ کھیلتے بچوں کے شور کی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔ سلپ میں کھڑی تہمینہ امجد کو چلا کر جلدی گیند کرانے کا کہہ رہی تھی۔ پرویز اور امجد بولنگ کرانے کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے۔ پھر جیا نے خود کو بلّا پکڑے دیکھا۔ نہ جانے جیا کب تک ٹکٹکی باندھے سامنے کی جانب دیکھتی رہی۔ اچانک شیشہ ٹوٹنے کی زور دار آواز اُسے خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں کھینچ لائی۔ جیا نے بے ساختہ دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیے۔ کرچی کی برسوں پرانی چبھن پھر سے تکلیف دینے لگی۔

    وہ نہ جانے کب اور کیسے اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹی۔ کمرے میں قدم رکھا تو اخباری نمایندے اور اُس کے ساتھی فوٹو گرافر کو اپنا منتظر پایا۔ جیا نے سر کو جھٹکا، چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور کمرے میں داخل ہو کر اخباری رپورٹر سے انتظار کرانے پر معذرت کرنے لگی۔ انٹرویو شروع ہوا۔ جیا پرسکون انداز میں ہر سوال کا جواب دیتی رہی۔ اس کے چیلے اس دوران خاموشی اور توجہ کے ساتھ اپنی ماں کو انٹرویو دیتے سنتے رہے۔ کوئی بھی شخص اُس وقت جیا کے دل کی کیفیات کو اُس کے چہرے پر محسوس نہیں کر سکتا تھا۔

    اخباری رپورٹر نے اپنا آخری سوال کیا، ”یہ تاثر عام ہے کہ خواجہ سرا ناچے گائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیا آپ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں خوشی سے ناچتے گاتے ہیں؟“

    نہ جانے کیوں جیا اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ جذباتی سی ہوگئی، ”بھیّا! خوشی سے انسان صرف اپنوں کی شادی میں ناچتا گاتا ہے، بیگانوں کی شادی میں مجبوری میں ناچنا پڑتا ہے۔ پیٹ ہمیں ناچنے پر مجبور کرتا ہے۔ لوگوں کو تو صرف ناچتا ہوا خواجہ سرا دکھائی دیتا ہے، لیکن ناچتے وقت اس کے دل میں جو مناظر طلوع اور غروب ہوتے ہیں، ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ ایک منظر میں اُس کی عمر ڈھل رہی ہوتی ہے۔ وہ ناچتے ہوئے سوچتا ہے کہ جوانی ڈھل گئی تو اُسے کون ناچنے کو کہے گا۔ اگر وہ ناچے گا نہیں تو اُسے پیسے کون دے گا۔ سامنے بیٹھے دُولھا کو دیکھ کر ایک اور منظر پہلے منظر کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس منظر میں وہ خود کو دوُلھا کی جگہ بیٹھا محسوس کرتا ہے۔ دُلہن کو دیکھ کر دُولھا بننے کا منظر دھندلا جاتا ہے اور وہ تصور میں خود کو دُلہن بنے دیکھ رہا ہوتا ہے۔“

    جیا نے اخباری رپورٹر کے مختصر سوال کا طویل جواب دے کر چائے کا آخری گھونٹ بھی اپنے حلق سے نیچے اُتارا اور سگریٹ سُلگا کر سلگتے ہوئے لہجے میں اُلٹا اُس سے سوال کر ڈالا، ”کیا لوگ ہمیں نچوائے بغیر پیسے نہیں دے سکتے۔“ پھر خود کلامی کے انداز میں کہنے لگی، ”ہمیں لوگوں نے انسان ہی کب سمجھا ہے۔ کسی کے لڑائی جھگڑے میں صلح کروانے جاؤ تو یہ طعنہ سُننے کو ملتا ہے، جا رے جا! تُو تو ہیجڑا ہے، تجھے کیا فکر، تیری تو کوئی اولاد ہی نہیں۔“

    اپنی بات کے اختتام پر جیا نے تالی پیٹی اور زور سے قہقہہ لگا کر کمرے میں بیٹھی اپنی اولادوں (چیلوں) کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی، جو اُس کی بات سن کر کچھ افسردہ سی ہوگئی تھیں۔ جیا کے چہرے پر اُس وقت ایک ممتا بھرا تقّدس اُبھرنے لگا، جس کے سامنے ساری دنیا کی ممتا ہیچ محسوس ہو رہی تھی۔

    (افسانہ نگار: شفیع موسیٰ منصوری)

  • گرمیوں کی ایک رات

    منشی برکت علی عشاء کی نماز پڑھ کر چہل قدمی کرتے ہوئے امین آباد پارک تک چلے آئے۔

    گرمیوں کی رات، ہوا بند تھی۔ شربت کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے پاس لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ لونڈے چیخ چیخ کر اخبار بیچ رہے تھے، بیلے کے ہار والے ہر بھلے مانس کے پیچھے ہار لے کر لپکتے۔ چوراہے پر تانگہ اور یکہ والوں کی لگاتار پکار جاری تھی۔

    ’’چوک! ایک سواری چوک! میاں چوک پہنچا دوں!‘‘

    ’’اے حضور کوئی تانگہ وانگہ چاہیے؟‘‘

    ’’ہار بیلے کے! گجرے موتیے کے!‘‘

    ’’کیا ملائی کی برف ہے۔‘‘

    منشی جی نے ایک ہار خریدا، شربت پیا اور پان کھا کر پارک کے اندر داخل ہوئے۔ بنچوں پر بالکل جگہ نہ تھی۔ لوگ نیچے گھاس پر لیٹے ہوئے تھے۔ چند بے سُرے گانے کے شوقین ادھر ادھر شور مچا رہے تھے، بعض آدمی چپ بیٹھے دھوتیاں کھسکا کر بڑے اطمینان سے اپنی ٹانگیں اور رانیں کھجانے میں مشغول تھے۔ اسی دوران میں وہ مچھروں پر بھی جھپٹ جھپٹ کر حملے کرتے جاتے تھے۔

    منشی جی چونکہ پا جامہ پوش آدمی تھے انھیں اس بد تمیزی پر بہت غصہ آیا۔ اپنے جی میں انھوں نے کہا کہ ان کم بختوں کو کبھی تمیز نہ آئے گی، اتنے میں ایک بنچ پر سے کسی نے انھیں پکارا۔

    ’’منشی برکت علی!‘‘

    منشی جی مڑے۔ ’’اخاہ لالہ جی آپ ہیں، کہیے مزاج تو اچھے ہیں!‘‘

    منشی جی جس دفتر میں نوکر تھے لالہ جی اس کے ہیڈ کلرک تھے۔ منشی جی ان کے ماتحت تھے۔ لالہ جی نے جوتے اتار دیے تھے اور بنچ کے بیچوں بیچ پیر اٹھا کر اپنا بھاری بھرکم جسم لیے بیٹھے تھے۔ وہ اپنی توند پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے ساتھیوں سے جو بنچ کے دونوں کونوں پر ادب سے بیٹھے ہوئے تھے چیخ چیخ کر باتیں کر رہے تھے۔ منشی جی کو جاتے دیکھ کر انھوں نے انھیں بھی پکار لیا۔ منشی جی لالہ صاحب کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔

    لالہ جی ہنس کے بولے، ’’کہو منشی برکت علی، یہ ہار وار خریدے ہیں کیا، ارادے کیا ہیں؟‘‘ اور یہ کہہ کر زور سے قہقہہ لگا کر اپنے دونوں ساتھیوں کی طرف داد طلب کرنے کو دیکھا۔ انھوں نے بھی لالہ جی کا منشا دیکھ کر ہنسنا شروع کیا۔

    منشی جی بھی روکھی پھیکی ہنسی ہنسے، ’’جی ارادے کیا ہیں، ہم تو آپ جانیے غریب آدمی ٹھہرے، گرمی کے مارے دم نہیں لیا جاتا، راتوں کی نیند حرام ہو گئی، یہ ہار لے لیا شاید دو گھڑی آنکھ لگ جائے۔‘‘

    لالہ جی نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہنسے، ’’شوقین آدمی ہو منشی‘‘ کیوں نہ ہو!‘‘ اور یہ کہہ کر پھر اپنے ساتھیوں سے گفتگو میں مشغول ہو گئے۔

    منشی جی نے موقع غنیمت جان کر کہا، ’’اچھا لالہ جی چلتے ہیں، آداب عرض ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر آگے بڑھے۔ دل ہی دل میں کہتے تھے کہ دن بھر کی گھس گھس کے بعد یہ لالہ کمبخت سر پڑا۔ پوچھتا ہے ارادے کیا ہیں! ہم کوئی رئیس تعلق دار ہیں کہیں کے کہ رات کو بیٹھ کر مجرا سنیں اور کوٹھوں کی سیر کریں، جیب میں کبھی چونی سے زیادہ ہو بھی سہی، بیوی، بچے، ساٹھ روپیہ مہینہ، اوپر سے آدمی کا کچھ ٹھیک نہیں، آج نہ جانے کیا تھا جو ایک روپیہ مل گیا۔ یہ دیہاتی اہل معاملہ کمبخت روز بروز چالاک ہوتے جاتے ہیں۔ گھنٹوں کی جھک جھک کے بعد جیب سے ٹکا نکالتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ غلام خرید لیا، سیدھے بات نہیں کرتے۔ کمینہ نیچے درجے کے لوگ ان کا سر پھر گیا ہے۔ آفت ہم بیچارے شریف سفید پوشوں کی ہے۔ ایک طرف تو نیچے درجے کے لوگوں کے مزاج نہیں ملتے، دوسری طرف بڑے صاحب اور سرکار کی سختی بڑھتی جاتی ہے۔ ابھی دو مہینے پہلے کا ذکر ہے، بنارس کے ضلع میں دو محرر بیچارے رشوت ستانی کے جرم میں برخواست کر دیے گئے۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے غریب بیچارہ پستا ہے، بڑے افسر کا بہت ہوا تو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ ہو گیا۔

    ’’منشی جی صاحب۔‘‘ کسی نے بازو سے پکارا۔ جمن چپراسی کی آواز۔

    منشی جی نے کہا، ’’اخاہ تم ہو جمن۔‘‘

    مگر منشی جی چلتے رہے رکے نہیں۔ پارک سے مڑ کر نظیر آباد میں پہنچ گئے۔ جمن ساتھ ساتھ ہو لیا۔ دبلے پتلے، پستہ قد، مخمل کی کشتی نما ٹوپی پہنے، ہار ہاتھ میں لیے، آگے آگے منشی جی اور ان سے قدم دو قدم پیچھے چپراسی جمن۔

    منشی جی نے سوچنا شروع کیا کہ آخر اس وقت جمن کا میرے ساتھ ساتھ چلنے میں کیا مقصد کیا ہے۔

    ’’کہو بھئی جمن، کیا حال ہے۔ ابھی پارک میں ہڈ کلارک صاحب سے ملاقات ہوئی تھی وہ بھی گرمی کی شکایت کرتے تھے۔‘‘

    ’’اجی منشی جی کیا عرض کروں، ایک گرمی صرف تھوڑی ہے مارے ڈالتی ہے، ساڑھے چار پانچ بجے دفتر سے چھٹی ملی۔ اس کے بعد سیدھے وہاں سے بڑے صاحب کے ہاں گھر پر حاضری دینی پڑی۔ اب جا کر وہاں سے چھٹکارا ہوا تو گھر جا رہا ہوں، آپ جانیے کہ دس بجے صبح سے رات کے آٹھ بجے تک دوڑ دھوپ رہتی ہے، کچہری کے بعد تین دفعہ دوڑ دوڑ کر بازار جانا پڑا۔ برف، ترکاری، پھل سب خرید کے لاؤ اور اوپر سے ڈانٹ الگ پڑتی ہے، آج داموں میں ٹکا زیادہ کیوں ہے اور یہ پھل سڑے کیوں ہیں۔ آج جو آم خرید کے لے گیا تھا وہ بیگم صاحب کو پسند نہیں آئے، واپسی کا حکم ہوا۔ میں نے کہا حضور! اب رات کو بھلا یہ واپس کیسے ہوں گے، تو جواب ملا ہم کچھ نہیں جانتے کوڑا تھوڑی خریدنا ہے۔ سو حضور یہ روپیہ کے آم گلے پڑے، آم والے کے ہاں گیا تو ایک تُو تُو میں میں کرنی پڑی، روپیہ آم بارہ آنے میں واپس ہوئے، چونی کو چوٹ پڑی مہینہ کا ختم، اور گھر میں حضور قسم لے لیجیے جو سوکھی روٹی بھی کھانے کو ہو۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں اور کون سا منہ لے کر جورو کے سامنے جاؤں۔‘‘

    منشی جی گھرائے آخر جمن کا منشا اس ساری داستان کے بیان کرنے سے کیا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ غریب تکلیف اٹھاتے ہیں اور بھوکے مرتے ہیں۔ مگر منشی جی کا اس میں کیا قصور؟ ان کی زندگی خود کون بہت آرام سے کٹتی ہے، منشی جی کا ہاتھ بے ارادہ اپنی جیب کی طرف گیا۔ وہ روپیہ جو آج انھیں اوپر سے ملا تھا صحیح سلامت جیب میں موجود تھا۔

    ’’ٹھیک کہتے ہو میاں جمن، آج کل کے زمانے میں غریبوں کی مرن جسے دیکھو یہی رونا روتا ہے، کچھ گھر میں کھانے کو نہیں۔ سچ پوچھو تو سارے آثار بتاتے ہیں کہ قیامت قریب ہے۔ دنیا بھر کے جعلیے تو چین سے مزے اڑاتے ہیں اور جو بیچارے اللہ کے نیک بندے ہیں انھیں ہر قسم کی مصیبت اور تکلیف برداشت کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘

    جمن چپ چاپ منشی جی کی باتیں سنتا ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ منشی جی یہ سب کہتے تو جاتے تھے مگر ان کی گھبراہٹ بھی بڑھتی جاتی تھی۔ معلوم نہیں ان کی باتوں کا جمن پر کیا اثر ہو رہا تھا۔

    ’’کل جمعہ کی نماز کے بعد مولانا صاحب نے آثارِ قیامت پر وعظ فرمایا، میاں جمن سچ کہتا ہوں، جس جس نے سنا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بھائی دراصل یہ ہم سب کی سیاہ کاریوں کا نتیجہ ہے، خدا کی طرف سے جو کچھ عذاب ہم پر نازل ہو وہ کم ہے۔ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں؟ اس سے کم قصور پر اللہ نے بنی اسرائیل پر جو جو مصیبیں نازل کیں ان کا خیال کر کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر وہ تو تم جانتے ہی ہوگے۔‘‘

    جمن بولا، ’’ہم غریب آدمی منشی جی، بھلا یہ سب علم کی باتیں کیا جانیں، قیامت کے بارے میں تو میں نے سنا ہے مگر حضور آخر یہ بنی اسرائیل بیچارے کون تھے۔‘‘

    اس سوال کو سن کر منشی جی کو ذرا سکون ہوا۔ خیر غربت اور فاقے سے گزر کر اب قیامت اور بنی اسرائیل تک گفتگو کا سلسلہ پہنچ گیا تھا۔ منشی جی خود کافی طور پر اس قبیلے کی تاریخ سے واقف نہ تھے مگر ان مضمونوں پر گھنٹوں باتیں کر سکتے تھے۔

    ’’ایں! واہ میاں جمن واہ، تم اپنے کو مسلمان کہتے ہو اور یہ نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل کس چڑیا کا نام ہے۔ میاں سارا کلام پاک بنی اسرائیل کے ذکر سے تو بھرا پڑا ہے۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا نام بھی تم نے سنا ہے؟‘‘

    ’’جی کیا فرمایا آپ نے؟ کلیم اللہ؟‘‘

    ’’ارے بھئی حضر ت موسیٰ۔ مو۔۔۔ سا۔‘‘

    ’’موسا۔۔۔ وہی تو نہیں جن پر بجلی گری تھی؟‘‘

    منشی جی زور سے ٹھٹھا مار کر ہنسے۔ اب انھیں بالکل اطمینان ہو گیا۔ چلتے چلتے وہ قیصر باغ کے چوراہے تک بھی آ پہنچے تھے۔ یہاں پر تو ضرور ہی اس بھوکے چپراسی کا ساتھ چھوٹے گا۔ رات کو اطمینان سے جب کوئی کھانا کھا کر نماز پڑھ کر، دم بھر کی دل بستگی کے لیے چہل قدمی کو نکلے، تو ایک غریب بھوکے انسان کا ساتھ ساتھ ہو جانا، جس سے پہلے کی واقفیت بھی ہو، کوئی خوش گوار بات نہیں۔ مگر میاں جی آخر کرتے کیا؟ جمن کو کتّے کی طرح دھتکار تو سکتے نہ تھے کیوں کہ ایک تو کچہری میں روز کا سامنا، دوسرے وہ نیچے درجے کا آدمی ٹھہرا، کیا ٹھیک، کوئی بدتمیزی کر بیٹھے تو سرِ بازار خواہ مخواہ کو اپنی بنی بنائی عزت میں بٹہ لگے۔ بہتر یہی تھا کہ اب اس چوراہے پر پہنچ کر دوسری راہ لی جائے اور یوں اس چھٹکارا ہو۔

    ’’خیر، بنی اسرائیل اور موسیٰ کا ذکر میں تم سے پھر کبھی پوری طرح کروں گا، اس وقت تو ذرا مجھے ادھر کام سے جانا ہے۔ سلام میاں جمن۔‘‘

    یہ کہہ کر منشی جی قیصر باغ کے سینما کی طرف بڑھے۔ منشی جی کو یوں تیز قدم جاتے دیکھ کر پہلے تو جمن ایک لمحہ کے لیے اپنی جگہ پر کھڑا کا کھڑا رہ گیا، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ آخر کرے تو کیا کرے۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اس کی آنکھیں ایک بے معنی طور پر ادھر ادھر مڑیں۔ تیز بجلی کی روشنی، فوّارہ، سینما کے اشتہار، ہوٹل، دکانیں، موڑ، تانگے، یکے اور سب کے اوپر تاریک آسمان اور جھلملاتے ہوئے ستارے غرض خدا کی ساری بستی۔

    دوسرے لمحہ میں جمن منشی جی کی طرف لپکا۔ وہ اب کھڑے سینما کے اشتہار دیکھ رہے تھے اور بے حد خوش تھے کہ جمن سے جان چھوٹی۔

    جمن نے ان کے قریب پہنچ کر کہا، ’’منشی جی!‘‘

    منشی جی کا کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ ساری مذہبی گفتگو، ساری قیامت کی باتیں، سب بیکار گئیں۔ منشی جی نے جمن کو کچھ جواب نہیں دیا۔

    جمن نے کہا، ’’منشی جی اگر آپ اس وقت مجھے ایک روپیہ قرض دے سکتے ہوں تو میں ہمیشہ…‘‘

    منشی جی مڑے، ’’میاں جمن میں جانتا ہوں کہ تم اس وقت تنگی میں ہو مگر تم تو خود جانتے ہو کہ میرا اپنا کیا حال ہے۔ روپیہ تو روپیہ ایک پیسہ تک میں تمہیں نہیں دے سکتا، اگر میرے پاس ہوتا تو بھلا تم سے چھپانا تھوڑا ہی تھا، تمہارے کہنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی پہلے ہی جو کچھ ہوتا تمہیں دے دیتا۔‘‘

    باوجود اس کے جمن نے اصرار شروع کیا، ’’منشی جی! قسم لے لیجیے میں ضرور آپ کو تنخواہ ملتے ہی واپس کر دوں گا، سچ کہتا ہوں حضور اس وقت کوئی میری مدد کرنے والا نہیں۔‘‘

    منشی جی اس جھک جھک سے بہت گھبراتے تھے۔ انکار چاہے وہ سچا ہی کیوں نہ ہو تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے تو وہ شروع سے چاہتے تھے کہ یہاں تک نوبت ہی نہ آئے۔

    اتنے میں سینما ختم ہوا اور تماشائی اندر سے نکلے۔ ’’ارے میاں برکت، بھئی تم کہاں؟‘‘ کسی نے پہلو سے پکارا۔

    منشی جی جمن کی طرف سے ادھر مڑے۔ ایک صاحب موٹے تازے، تیس پینتیس برس کے۔ انگھرکھا اور دوپلی ٹوپی پہنے، پان کھائے، سگریٹ پیتے ہوئے منشی جی کے سامنے کھڑے تھے۔

    منشی جی نے کہا، ’’اخاہ تم ہو! برسوں کے بعد ملاقات ہوئی، تم نے لکھنؤ تو چھوڑ ہی دیا؟ مگر بھائی کیا معلوم آتے بھی ہوگے تو ہم غریبوں سے کیوں ملنے لگے!‘‘

    یہ منشی جی کے پرانے کالج کے ساتھی تھے۔ روپے، پیسے والے رئیس آدمی، وہ بولے،

    ’’خیر یہ سب باتیں تو چھوڑو، میں دو دن کے لیے یہاں آیا ہوں، ذرا لکھنؤ میں تفریح کے لیے چلو، اس وقت میرے ساتھ چلو تمہیں وہ مجرا سنواؤں کہ عمر بھر یاد کرو، میری موٹر موجود ہے، اب زیادہ مت سوچو، بس چلے چلو، سنا ہے تم نے کبھی نور جہاں کا گانا؟ اہا ہا ہا کیا گاتی ہے، کیا بتاتی ہے، کیا ناچتی ہے، وہ ادا، وہ پھبن، اس کی کمر کی لچک، اس کے پاؤں کے گھنگھرو کی جھنکار! میرے مکان پر، کھلے صحن میں، تاروں کی چھاؤں میں، محفل ہوگی۔ بھیروی سن کر جلسہ برخاست ہوگا۔ بس اب زیادہ نہ سوچو، چلے ہی چلو۔ کل اتوار ہے۔ بیوی! بیگم صاحبہ کی جوتیوں کا ڈر ہے، اگر ایسا ہی عورت کی غلامی کرنا تھی تو شادی کیوں کی؟ چلو بھی میاں! لطف رہے گا، روٹھی بیگم کو منانے میں بھی تو مزہ ہے۔‘‘

    پرانا دوست، موٹر کی سواری، گانا ناچ، جنت نگاہ، فردوس گوش منشی جی لپک کر موٹر میں سوار ہو لیے۔ جمن کی طرف ان کا خیال بھی نہ گیا۔ جب موٹر چلنے لگی تو انھوں نے دیکھا کہ وہ وہاں اسی طرح چپ کھڑا ہے۔

    (اس کہانی کے مصنّف ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر نام ور فکشن رائٹر اور افسانہ نگار ہیں، انھوں نے اپنی کہانی میں ہندوستانی سماج کی ناہمواری کی بہت باریکی سے عکاسی کی ہے۔ یہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے دو افراد کی محرومیوں اور بناوٹی زندگی اور دہرے کردار کو سامنے لاتی ہے۔)

  • افسوس! ہم نہ ہوں گے!

    دنیا کی سب محفلیں تغیراتِ زمانہ سے درہم و برہم ہو جاتی ہیں مگر خدا کی مرتب کی ہوئی محفل جس میں انقلاباتِ عالم سے ہر روز ایک نیا لطیف پیدا ہوتا رہتا ہے ہمیشہ آباد رہی اور یونہی قیامت تک جمی رہے گی۔

    یہ وہ محفل ہے جس کی رونق کسی کے مٹانے سے نہیں مٹ سکتی۔ وہ پُرغم واقعات اور وہ حسرت بھرے سانحے جن سے ہماری محفلیں درہم و برہم ہو جایا کرتی ہیں۔ ان سے بزمِ قدرت کی رونق اور دو بالا ہو جاتی ہے۔ ہماری صحبت کا کوئی آشنا حرماں نصیبی میں ہم سے بچھڑ کے مبتلائے دشتِ غربت ہو جاتا ہے۔ تو برسوں ہماری انجمنیں سونی پڑی رہتی ہیں۔ ہمارے عشرت کدوں کا کوئی زندہ دل نذرِ اجل ہو جاتا ہے تو سال ہا سال کے لیے ماتم کدے ہو جاتے ہیں۔ مگر جب ذرا نظر کو وسیع کرو اور خاص صدمات کو خیال چھوڑ کے عالم کو عام نظر سے دیکھو تو اس کی چہل پہل ویسی ہی رہتی ہے بلکہ نئی نسل کے دو چار پر جوش زندہ دل ایسے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ دنیا کی دل چسپیاں ایک درجہ اور ترقی کر جاتی ہیں۔ ایک شاعر کا قول ہے۔

    دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز یہ کم نہ ہوں گے
    چرچے یہی رہیں گے افسوس! ہم نہ ہوں گے

    جس نے کہا ہے بہت خوب کہا ہے۔ بزمِ قدرت ہمیشہ یونہی دل چسپیوں سے آباد رہے گی۔ ہاں ہم نہ ہوں گے اور ہماری جگہ زمانہ ایسے اچھے نعم البدل لا کے بٹھا دے گا کہ ہماری باتیں محفل والوں کو پھیکی اور بے مزہ معلوم ہونے لگیں گی۔
    الغرض یہ محفل کبھی خالی نہیں رہی۔ کوئی نہ کوئی ضرور رہا۔ جو اس بزم کی رونق کو ترقی دیتا رہا۔ اسی مقام سے یہ نازک مسئلہ ثابت کیا جاتا ہے کہ زمانہ کی عام رفتار ترقی ہے۔ ایک قوم آگے بڑھتی اور دوسری پیچھے ہٹتی ہے۔ تنزل پذیر قوم کے لوگ اپنے مقام پر جب اطمینان سے بیٹھتے ہیں۔ زمانہ اور ملک کی شکایتوں کا دفتر کھول دیتے ہیں اور ان کو دعویٰ ہوتا ہے کہ زمانہ تنزل پر ہے۔ مگر اصل پوچھیے تو تنزل صرف ان کی غفلتوں اور راحت طلبیوں کا نتیجہ ہے۔ دنیا اپنی عام رفتار میں ترقی ہی کی طرف جا رہی ہے۔

    اے وہ لوگو! جو شکایتِ زمانہ میں زندگی کی قیمتی گھڑیاں فضول گزار رہے ہو۔ ذرا بزمِ قدرت کو دیکھو تو کس قدر دل کش اور نظر فریب واقع ہوئی ہے۔ تمہارے دل میں وہ مذاق ہی نہیں پیدا کہ ان چیزوں کی قدر کر سکو۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ انسانی جوش کو بڑھاتی ہیں اور طبیعت میں وہ مفید حوصلے پیدا کرتی ہیں جن سے ہمیشہ نتیجے پیدا ہوئے اور پیدا ہوں گے۔ اندھیری رات میں آسمان نے اپنے شب زندہ دار دوستوں کی محفل آراستہ کی ہے۔ تارے کھلے ہوئے ہیں۔ اور اپنی بے ترتیبی اور بے نظمی پر بھی عجب بہار دکھا رہے ہیں۔ دیکھو ان پیارے خوش نما تاروں کی صورت پر کیسی زندہ دلی اور کیسی تری و تازگی پائی جاتی ہے؟

    پھر یکایک مہتاب کا ایسا حسین اور نورانی مہمان مشرق کی طرف سے نمودار ہوا اور یہ گورے گورے تارے اپنی بے فروغی پر افسوس کر کے غائب ہونے لگے۔ ماہتاب آسمان کے نیلگوں اطلسی دامن میں کھیلتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ اگرچہ ہماری طرح دلِ داغ دار لے کے آیا تھا لیکن خوش خوش آیا۔ اور ہمارے غربت کدوں کو روشن کر کے بزم قدرت میں نہایت لطیف اور خوش گوار دل چسپیاں پیدا کر کے خوشی خوشی صحنِ فلک کی سیر کرتا ہوا مغرب کی طرف گیا اور غائب ہو گیا۔
    ابھی آسمان کو اس مہمان کا انتظار تھا۔ جس سے نظام عالم کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔ اور جس کی روشنی ہماری زندگیوں کی جان اور ہماری ترقیوں کا ذریعہ ہے۔ آفتاب بڑی آب و تاب سے ظاہر ہوا۔ رات کا خوب صورت اور ہم صحبت چاند اپنے اترے ہوئے چہرہ کو چھپا کے غائب ہو گیا۔ اور آسمان کا اسٹیج بزمِ قدرت کے دل فریب ایکٹروں سے خالی ہو گیا۔

    خوابِ شب کا مزہ اٹھانے والوں کی آنکھیں کھل کھل کے افق مشرق کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔ آفتاب کی شعاعیں آسمان کے دور پر چڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ مرغانِ سحر کے نغمہ کی آواز کانوں میں آئی ہے۔ اور آنکھیں مل کے دیکھا ہے تو ہماری نظر کی خیرگی نہ تھی۔ شمع حقیقت میں جھلملا رہی ہے۔ یک بیک وفور طرف نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ گھنٹے بجے ہیں۔ چڑیاں چہچہائیں۔ موذنوں نے اذانیں دیں۔ اور تمام جانوروں کی مختلف آوازوں نے مل کر ایک ایسا ہمہما پیدا کر دیا ہے کہ نیچر کی رفتار میں بھی تیزی پیدا ہو گئی۔ باغ نیچر کے چابک دست کاری گر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ نسیم سحر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آئی اور ضابط و متین غنچوں کے پہلو گدگدانے لگی۔ الغرض قدرت نے اپنی پوری بہار کا نمونہ آشکارا کر دیا۔

    (انشائیہ از قلم مولوی عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی)