Tag: اردو افسانہ

  • پمپیائی کا کتّا

    پمپیائی کا کتّا

    آج سے دو ہزار سال پہلے پمپیائی سلطنت روم کا ایک نہایت خوبصورت شہر تھا۔ اس شہر کے باہر ایک آتش فشاں پہاڑ تھا جسے ویسوَیس کہتے تھے۔ پمپیائی کے باشندے بڑے عیّاش اور بد کار لوگ تھے۔ اُن میں نیکی اور خدا ترسی نام کو یہ تھی۔ طاقت ور کم زوروں کو بے گناہ مار ڈالتے۔ ساہوکار اور مال دار غریبوں کا خون چوستے اور اس طرح اُنہوں نے اپنے گھروں میں بے شمار سونا چاندی جمع کر لیا تھا۔

    آخر جب ان لوگوں کے گناہ حد سے زیادہ ہو گئے تو اُن پر خدا کا عذاب نازل ہوا۔ ایک روز آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا اور اُس میں سے پگھلتا ہوا سرخ لاوا پانی کی طرح بہہ نکلا۔ پمپیائی پر آگ کے شعلوں کی بارش ہوئی اور سارا شہر ایک خوف ناک زلزلے سے تھوڑی ہی دیر میں خاک کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ یہ کہانی جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں اِسی پمپیائی سے تعلّق رکھتی ہے۔

    ٹیٹو اور اُس کا کُتّا بمبو، شہر کی فصیل کے باہر رہا کرتے تھے۔ قریب ہی بڑا دروازہ تھا، جس کے راستے باہر کے لوگ شہر میں جاتے تھے۔ ٹیٹو اور بمبو یہاں سونے کے لیے آتے تھے۔ اُن کا یہاں گھر نہ تھا۔۔۔ اُن کا گھر تو کہیں بھی نہ تھا۔ وہ جہاں چاہتے، چلے جاتے اور جس جگہ جی چاہتا سو جاتے۔ شہر میں ہر وقت دھماچوکڑی مچی رہتی تھی۔ میدانوں میں مختلف کھیل تماشے ہوتے رہتے۔ اسٹیڈیم میں جنگی کھیل دکھائے جاتے۔ غلاموں کی آپس میں لڑائیاں کرائی جاتیں اور کبھی کبھی بھُوکے شیروں سے بھی لڑوایا جاتا۔

    سال میں ایک مرتبہ روم کا بادشاہ پمپیائی آیا کرتا تھا۔ اس کی آمد پر شہر میں کئی روز تک خوشیاں منائی جاتیں اور خوب جشن ہوتے لیکن بے چارہ ٹیٹو ان کھیل تماشوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا وہ اندھا تھا۔ شہر کے کسی باسی کو معلوم نہ تھا کہ اُس کے ماں باپ کون تھے؟ اس کی عمر کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس بھری دنیا میں اُس کا ہمدرد اور غم خوار صرف بمبو تھا اور وہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ لیکن دن میں تین مرتبہ ایسا ہوتا کہ وہ اپنے دوست کو کسی محفوظ جگہ چھوڑ کر چلا جاتا اور تھوڑی دیر بعد منہ میں روٹی یا گوشت کا ٹکڑا دبائے واپس آ جاتا۔ پھر دونوں مِل بانٹ کر کھا لیتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔

    کُتّے کی بدولت ٹیٹو کو دِن میں تین وقت کھانا مِل جایا کرتا تھا اور کبھی فاقے کی نوبت نہیں آئی تھی لیکن اِس کے باوجود وہ ہر وقت اُداس سا رہتا تھا۔ وہ پمپیائی کی گلیوں میں بچّوں کو بھاگتے دوڑتے ہوئے سُنتا، کبھی وہ آنکھ مچولی کھیلتے اور کبھی چور اور بادشاہ کا کھیل۔ اُن کے اچھلنے کودنے کی آوازیں ٹیٹو کے کانوں میں پہنچتیں تو اُس کا دل چاہتا کہ وہ بھی اُن کے ساتھ کھیلے لیکن وہ ایسا نہ کر سکتا تھا۔ وہ تو ایک بے سہارا، غریب اور اندھا لڑکا تھا اور سوائے ایک کتّے کے اُس کا کوئی دوست نہ تھا۔ خدا نے اگرچہ اُسے آنکھوں کی روشنی سے محروم کر دیا تھا لیکن سننے، سونگھنے اور چُھو کر محسوس کرنے کی قوّتیں دگنی دے دی تھیں۔ وہ انہی قوّتوں کی بدولت ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی واقف ہو جاتا جو دوسرے لوگ آنکھیں رکھنے کے باوجود معلوم نہ کر سکتے تھے۔

    جب دونوں دوست شہر کی سیر کے لیے نکلتے تو ٹیٹو ارد گرد کی آوازیں سن کر صحیح اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔

    پمپیائی کی اکثر عمارتیں بالکل نئی تھیں کیونکہ بارہ سال پہلے یہاں ایک زلزلہ آیا تھا جس سے بہت سی عمارتیں گِر گئی تھیں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد لوگوں نے سارا شہر گِرا کر اُسے دوبارہ تعمیر کیا جو پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت شہر بن گیا اور نیپلز اور روم جیسے عالی شان شہروں کا مقابلہ کرنے لگا۔

    پمپیائی کے کسی باشندے کو معلوم نہ تھا کہ زلزلہ کیوں آتا ہے۔ ملّاح کہا کرتے تھے کہ زلزلہ آنے کا سبب یہ ہے کہ شہر کے لوگ ملّاحوں کی عزّت نہیں کرتے۔ ملّاح سمندر پار سے اُن کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لاتے ہیں اور سمندری ڈاکوؤں سے بھی اُن کو محفوظ رکھتے ہیں۔ مندروں کے پُجاری کہا کرتے تھے کہ زلزلہ آنے کی وجہ آسمانی دیوتاؤں کی ناراضگی ہے کیونکہ لوگوں نے عیش و عشرت میں پڑ کر عبادت کرنی چھوڑ دی ہے اور وہ دیوتاؤں کے لیے قربانیاں بھی نہیں کرتے۔

    شہر کے تاجر کہتے تھے کہ باہر سے آنے والے تاجروں کی بے ایمانیوں نے شہر کی زمین کو ناپاک کر دیا ہے اور اِسی لعنت کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے۔ غرض، جتنے مُنہ، اتنی باتیں۔ ہر شخص اپنی بات زور زور سے کہتا اور اُسے منوانے کی بھی کوشش کرتا۔

    اُس روز بھی دوپہر کو جب ٹیٹو اور بمبو بڑے چوک میں سے گزر رہے تھے، شہر کے لوگ اِسی قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ چوک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور کان پڑی آواز سُنائی نہ دیتی تھی۔ لیکن ٹیٹو کے کان بڑے تیز تھے۔ ایک جگہ وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ دو آدمی آپس میں بحث کر رہے تھے اور اُن کے گرد بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ اُن میں سے ایک کی آواز بھاری تھی اور دوسرے کی ہلکی مگر تیز۔ بھاری آواز والا کہہ رہا تھا ’’میں کہتا ہوں اب یہاں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔ تُم نے سُنا نہیں کہ آسمانی بجلی کی طرح زلزلہ بھی جہاں ایک بار آ جائے، دوبارہ نہیں آیا کرتا۔‘‘

    ’’تمہارا خیال غلط ہے۔‘‘ ہلکی آواز والے نے کہا۔ ’’تمہیں معلوم نہیں کہ پندرہ برس کے اندر سسلی میں دو مرتبہ زلزلہ آیا تھا؟ بھلا بتاؤ تو ویسوَیس پہاڑ دھواں کیوں اُگلتا رہتا ہے؟ کیا اس کا کوئی مطلب نہیں؟‘‘

    یہ سُن کر بھاری آواز والا آدمی قہقہہ مار کر ہنس پڑا اور بولا۔ ’’ارے بھائی! یہ دھواں تو ہمیشہ سے نکلتا ہے اور سچ پُوچھو تو یہ دھواں ہمارے لیے ہے بھی بڑا مفید۔ ہم اس سے موسم اور ہوا کا رُخ پہچان لیتے ہیں۔ اگر دھواں سیدھا آسمان کی طرف جائے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ موسم صاف رہے گا اور جب اِدھر اُدھر پھیلنے لگے تو اِس مطلب ہوتا ہے کہ آج کُہر پڑے گی۔ اگر دھواں مشرق کی طرف۔۔۔‘‘

    ’’اچھّا۔ اچھّا۔ بس کرو۔ میں سمجھ گیا جو تم کہنا چاہتے ہو۔‘‘ ہلکی آواز والے نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’ہمارے یہاں ایک کہاوت مشہور ہے کہ جو لوگ انسان کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے انہیں دیوتا سبق دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن میں تمہیں ایک تنبیہ ضرور کرتا ہوں کہ جب آتش فشاں پہاڑ کا دھواں آسمان پر گھنے درخت کی صورت اختیار کر لے تو اُس وقت تم لوگ اپنی جان بچانے کی فکر کرنا! یہ کہہ کر وُہ چلا گیا۔

    ٹیٹو اُن کی یہ گفتگو سُن کر بُہت حیران ہوا۔ بمبو کتّے کا بھی یہی حال تھا۔ وہ اپنی گردن، ایک طرف جھکائے کچھ سوچ رہا تھا۔ لیکن رات ہوتے ہوتے لوگ یہ باتیں بھول بھال گئے اور اس جشن میں شامل ہو گئے جو روم کے بادشاہ سیزر کی سالگرہ کی خوشی میں منایا جا رہا تھا۔

    دوسرے دِن صبح کو بمبو ایک بیکری سے دو میٹھے کیک چرا کر لایا۔ ٹیٹو ابھی تک سو رہا تھا۔ بمبو نے زور زور سے بھونک کر اسے جگایا۔ ٹیٹو نے ناشتا کیا اور پھر سو گیا، کیونکہ رات کو بہت دیر سے سویا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد بمبو نے اُسے پھر اٹھا دیا۔ ٹیٹو نے اٹھ کر جمائی لی تو ایسا لگا جیسے فضا بہت گرم ہے۔ اسے ایک گہری دھند چاروں طرف پھیلتی ہوئی محسوس ہوئی جو سانس کے ذریعے اُس کے پھیپھڑوں میں جا رہی تھی۔ وہ کھانسنے لگا اور سمندر کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے کے لیے وہاں سے اٹھا لیکن تھوڑی ہی دور جا کر اسے محسوس ہوا کہ ہوا بے حد گرم اور زہریلی ہے۔ اُس کی ناک میں عجیب سی بُو آ رہی تھی۔ بمبو اُس کی قمیص پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اُسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ لیکن کہاں؟ ٹیٹو یہ نہ سمجھ سکا۔ گرم ہَوا کے جھونکے بار بار اُس کے چہرے سے ٹکراتے تھے۔ اُس نے محسوس کیا کہ یہ ہوا نہیں بلکہ گرم راکھ ہے جو بارش کی طرح چاروں طرف برس رہی ہے۔ یہ راکھ اتنی گرم تھی کہ ٹیٹو کے بدن کی کھال جلی جا رہی تھی۔

    اچانک اُس کے کانوں میں عجیب طرح کی ڈراؤنی آوازیں آنے لگیں۔ جیسے ہزار ہا وحشی درندے زمین کے نیچے دبے ہوئے چلّا رہے ہوں۔ پھر بہت سے لوگوں کے رونے اور چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ اب زمین درخت کے پتّے کی طرح کانپ رہی تھی اور گرج دار آوازوں سے کلیجا بیٹھا جاتا تھا۔ وہ دونوں بے تحاشا ایک طرف کو بھاگنے لگے۔

    شہر کی طرف سے آنے والی آوازیں اور ڈراؤنی ہو گئی تھیں۔ پہاڑ گرج رہا تھا، زمین ہل رہی تھی، عمارتیں دھڑا دھڑ گِر رہی تھیں اور لوگ پتّھروں کے تلے دبے چیخیں مار رہے تھے۔ جو بچ گئے تھے وہ بے تحاشا سمندر کی طرف بھاگ رہے تھے تا کہ کشتیوں میں بیٹھ کر کِسی محفوظ مقام پر پہنچ جائیں۔

    ٹیٹو اور بمبو بھی ایک طرف کو بھاگے جا رہے تھے۔ ٹیٹو زخموں سے نڈھال ہو چکا تھا۔ آگ کے شعلوں اور راکھ سے اُس کا سارا بدن جھلس گیا تھا۔ بمبو نے منہ میں اُس کی قمیص کا دامن پکڑ رکھا تھا اور اُسے اپنے ساتھ گھسٹتے لیے جا رہا تھا۔ آخر وہ اُسے لوگوں کے ہجوم سے بچاتا ایک محفوظ جگہ پر لے گیا اور یہاں وہ دونوں پتھروں کی آڑ میں بیٹھ گئے۔

    دوپہر ہو گئی۔ تکلیف، بھوک اور پیاس کے مارے ٹیٹو کا بہت بُرا حال تھا۔ اس نے بمبو کو پُکارا: ’’بمبو۔۔۔ بمبو۔۔۔!‘‘ لیکن بمبو وہاں نہیں تھا۔ اتنے میں ایک آدمی بھاگتا ہوا ٹیٹو کے پاس سے گزرا۔ اُس نے اندھے لڑکے کو اِس حال میں دیکھا تو اُسے جھپٹ کر گود میں اُٹھا لیا اور ایک کشتی میں جا کر بٹھا دیا۔ ملّاحوں نے پوری قوّت سے چپّو چلانے شروع کر دیے۔ ٹیٹو برابر اپنے کّتے کو آوازیں دیے جا رہا تھا۔ ’’بمبو!۔۔۔ بمبو!۔۔۔ میرے دوست! تم کہاں ہو؟‘‘ آخر روتے روتے اُس کی ہچکی بندھ گئی اور وہ نڈھال ہو کر کشتی میں لیٹ گیا۔

    اٹھارہ سو سال بعد۔۔۔ سائنس دانوں کی ایک جماعت پمپیائی کا سراغ لگانے کے لیے اس جگہ پہنچی جہاں صدیوں سے یہ شہر مٹّی کے نیچے دبا ہوا تھا۔ مزدوروں نے زمین کھودی تو اُس کے نیچے سے کھنڈر نکلے۔ سارا شہر برباد ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے محل اور عالی شان عمارتیں خاک کا ڈھیر ہو چکی تھیں۔ بازاروں میں قیمتی چیزیں اور سونے چاندی کے زیورات بھرے پڑے تھے۔ انسانوں کے ہزاروں ڈھانچے بھی نظر آئے۔ ایک روز کھدائی کے دوران ایک عجیب چیز بر آمد ہوئی۔ یہ ایک کتّے کا ڈھانچا تھا۔

    ایک شخص حیرت سے بولا۔ ’’ارے! اس کتّے کے منہ میں کیا چیز ہے؟‘‘ اور پھر غور سے دیکھا گیا تو وہ ایک روٹی کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا۔

    سائنس دانوں نے کہا۔ ’’یہاں ایک نانبائی کی دکان تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کُتا زلزلے کے وقت روٹی چرانے نکلا تھا مگر بے چارہ دب کر مر گیا۔‘‘

    کاش انہیں معلوم ہوتا کہ بے چارہ بمبو کس کے لیے روٹی چرانے گیا تھا!

    (از مقبول جہانگیر)

  • اہرام کا میر محاسب

    اہرام کا میر محاسب

    ممتاز افسانہ نگار نیّر مسعود افسانہ اور رمز سے بھری ہوئی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی یہ کہانی ایک صاحبِ اقتدار شخص کی طاقت اور غرور کے انجام کو بیان کرتی ہے جو قدیم دور کے اہرام کو ایک چیلنج سمجھ کر توڑنے کے لیے مزدور اکٹھا کرتا ہے، مگر ناکام ہونے کے بعد اپنا شہر چھوڑ کر اسی ویرانے میں چلا جاتا ہے جہاں وہ اہرام موجود ہے۔

    بڑے اہرام کی دیواروں پر فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہیں۔

    اس سے یہ بدیہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عمارت کو فرعون نے بنوایا ہے۔ لیکن اس سے ایک بدیہی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہونے سے پہلے اہرام کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ مگر کتنے پہلے؟ چند ماہ؟ یا چند سال؟ یا چند صدیاں؟ یا چند ہزار سال؟ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ اہرام کی عمارت فرعون سے بیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی تو اس دعوے کی تردید اس کے سوا کوئی دلیل نہ ہوگی کہ اہرام پر فرعون کا نام کندہ ہے، لیکن یہی دلیل اس کا ثبوت ہوگی کہ نام کندہ ہوتے وقت یہ عمارت بنی ہوئی موجود تھی۔

    کب سے بنی ہوئی موجود تھی؟ اس سوال کا جواب دینے سے مؤرخ بھی قاصر ہیں اور تعمیرات کے ماہر بھی۔ مؤرخ اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی تعمیر کی دستاویزیں نہیں ہیں، اور ماہر اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی عمر کا پتا لگانے والے آلات نہیں ہیں۔ ان کے ترقی یافتہ آلات نہ یہ بتا سکے ہیں کہ اہرام اپنی کتنی عمر گزار چکا ہے اور نہ یہ بتا سکے ہیں کہ ابھی اہرام کی کتنی عمر باقی ہے۔ البتہ یہ آلات ماضی اور مستقبل دونوں سمتوں میں اہرام کے بہت طویل سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    تعمیرات کے ماہروں نے یہ تخمینہ ضرور لگا لیا ہے کہ اہرام کے اطراف کی زمینوں اور خود اہرام کی عمارت کے رقبے کے لحاظ سے اس کے بنانے میں زیادہ سے زیادہ کتنے آدمی ایک ساتھ لگ سکتے تھے، اور زیادہ سے زیادہ آدمی کم سے کم کتنی مدت میں اہرام کو مکمل کر سکتے تھے، اور یہ کم سے کم مدت کئی سو سال کو پہنچتی ہے۔ لیکن خلیفہ کے وقت میں اہرام کی ایک سل پر یہ عبارت کندہ پائی گئی۔

    ’’ہم نے اسے چھ مہینے میں بنایا ہے، کوئی اسے چھ مہینے میں توڑ کر تو دکھا دے۔‘‘

    خلیفہ کو غصہ آنا ہی تھا۔ مزدور بھرتی ہوئے اوراہرام پر ایک طرف سے کدالیں چلنا شروع ہوئیں۔ مگر ہوا صرف یہ کہ کدالوں کی نوکیں ٹوٹ گئیں اورپتھروں سے چنگاریاں سی اڑ کر رہ گئیں۔ خلیفہ کو اورغصہ آیا۔ اس نے اہرام کے پتھروں کو آگے سے گرم کرایا۔ جب پتھرخوب تپنے لگے تو ان پر ٹھنڈا ٹھنڈا سرکہ پھینکا گیا۔ چٹ چٹ کی آواز اور پتھروں میں پتلی پتلی لکیریں کھل گئیں۔ ان لکیروں پر نئی کدالیں پڑنا شروع ہوئیں اور پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے الگ ہونے لگے۔ خلیفہ کو تسلّی ہوئی اوروہ دارُالخلافہ کو لوٹ گیا۔ اس کے پیچھے یہ حکم رہ گیا کہ چھ مہینے تک دن رات میں کسی بھی وقت کام روکا نہ جائے۔

    چھٹا مہینہ ختم ہوتے ہوتے خلیفہ پھر اپنے امیروں کے ساتھ اہرام کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اتنے دن میں اہرام سے صرف ایک چھوٹی دیوار بھر پتھر الگ کئے جا سکے تھے۔ ان پتھروں کے پیچھے ایک طاق نمودار ہوا تھا جس میں پتھر کا تراشا ہوا ایک مرتبان رکھا تھا۔ مرتبان خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور خلیفہ نے اسے خالی کرایا تو اس میں سے پرانی وضعوں کے سونے کے زیور اور قیمتی پتھر نکلے۔ پھر دیکھا گیا کہ پتھر کے مرتبان پر بھی ایک عبارت کندہ ہے اور خلیفہ کے حکم سے یہ عبارت پڑھی گئی:

    ’’تو تم اسے نہیں توڑ سکے۔ اپنے کام کی اجرت لو اور واپس جاؤ۔‘‘

    اس وقت خلیفہ طاق کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے پیچھے اہرام کا مخروطی سایہ بیابان میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ خلیفہ مڑا اورآہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا جہاں اہرام کا سایہ ختم ہو رہا تھا۔ خلیفہ تھوڑا اور آگے بڑھ کر رکا۔ اب زمین پر اس کا بھی سایہ نظر آنے لگا۔ بیابان کی دھوپ میں صرف سائے کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خلیفہ اہرام کی چوٹی پر کھڑا ہے۔ لیکن اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں تھا۔ خلیفہ واپس آ کر پھر طاق کے سامنے کھڑا ہوا اور اب اس نے حکم لکھوایا کہ چھ مہینے کی اس مہم کے اخراجات کا مکمل حساب پیش کیا جائے۔ اس نے ایک اور حکم لکھوایا کہ مرتبان سے نکلنے والے خزانے کی قیمت کا صحیح تخمینہ لگایا جائے۔

    مشہور ہے کہ خزانے کی قیمت ٹھیک اس رقم کے برابر نکلی جو اہرام کا طاق کھولنے کی مہم پر لگی تھی اور اس میں ایسی بات مشہور ہو جانے میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس پر بھی تعجب نہ ہونا چاہئے کہ یہ بات حسابات مکمل ہونے سے پہلے ہی مشہور ہوگئی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں وہ میر محاسب فراموش کر دیا گیا جس کے ذمے یہ دونوں حساب کتاب تھے۔

    اس کے بارے میں مشہور تھا کہ خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں تک کا شمار رکھتا ہے۔ حساب کی فردوں کے پلندے اس کے آگے رکھے جاتے اور وہ ایک نظر میں ان کے میزان کا اندازہ کر لیتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جمع تفریق کی غلطیاں اپنے آپ کاغذ پر اچھل کر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگ خلیفہ سے زیادہ اس کے میر محاسب سے خوف زدہ رہتے تھے۔ دارُالخلافہ کے لوگ ایک دوسرے کو کبھی ہنسانے کے لئے، کبھی ڈرانے کے لئے بتاتے تھے کہ میر محاسب کے دل میں جذبوں کی جگہ اور اس کے دماغ میں خیالوں کی جگہ اعداد بھرے ہوئے ہیں۔ اور یہ بات بلکہ وہ بات جس کی طرف یہ بات اشارہ کرتی ہے، کچھ بہت غلط بھی نہیں تھی، کم سے کم اس حساب کی رات تک۔

    اس رات اس کے سامنے دونوں حسابوں کی فردیں کھلی رکھی تھیں اور اس نے ایک نظر میں اندازہ کر لیا تھا کہ دونوں حساب قریب قریب برابر ہیں۔ تاہم اس نے ضروری سمجھا کہ دونوں فردوں کی ایک ایک مد کو غور سے دیکھ لے۔ اس کے مستعد ماتحتوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اندراجات کئے تھے۔ کسی بھی مد کی رقم میں کوئی کمی بیشی نہیں تھی۔ حاصل جمع نکالنے کے لئے اس نے مرتبان والے خزانے کی فرد پہلے اٹھائی۔ لیکن جب وہ حاصل جمع لکھنے لگا تو اس کا قلم رکا اور اسے محسوس ہوا کہ اس نے جوڑنے میں کہیں غلطی کر دی ہے۔ اس نے پھر حساب جوڑا اور دیکھا کہ اب حاصل جمع کچھ اور ہے، لیکن اس کو پھر غلطی کر جانے کا احساس ہوا اور اس نے پھر حساب جوڑا اور حاصل جمع کو کچھ اور ہی پایا۔ آخر اس فرد کو ایک طر ف رکھ کر اس نے طاق کھولنے کی مہم والی فرد اٹھائی، مگر یوں جیسے اپنے کسی شبہے کی تصدیق چاہتا ہو، اور واقعی اس فرد کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اس کے سامنے دو فردیں اورچھ سات یا اورزیادہ حاصل جمع تھے۔ الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ فردوں کو یوں ہی چھوڑ کر وہ باہر نکل آیا۔ کوئی سوال اس کو پریشان کررہا تھا۔ کوئی سوال اس تک پہنچنا چاہتا تھا لیکن اعداد کے ہجوم میں اسے راستہ نہیں مل رہا تھا۔

    باہر چاندنی میں کھڑے کھڑے جب اس کے پاؤں شل ہونے لگے اورہتھیلیوں میں خون اتر آیا تب اسے احساس ہوا کہ اعداد کا ہجوم اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دور ہوتے ہوئے اعداد اسے انسانوں کی ٹولیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ دو اور دو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جا رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کا حاصل جمع ہے، جسے وہ پہچان نہیں پایا کہ چار ہے یا کچھ اور۔ اس آخری ٹولی کے گزر جانے کے بعد وہ اندر واپس آیا۔ اس نے دونوں فردوں کو تلے اوپر رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ ان کا حاصل جمع ایک نکلے گا یا الگ الگ؟ پھر سوچنے لگا کہ خود وہ دونوں کو ایک چاہتا ہے یا الگ الگ؟ اور پھر یہ کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے؟ تب اچانک اس کو پتا چلا کہ یہی وہ سوال ہے جو اعداد کے ہجوم میں راستہ ڈھونڈ رہا تھا، خلیفہ کیا چاہتا ہے؟

    باقی ماندہ رات اس نے یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے۔ صبح ہوتے اسے نیند آگئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ خلیفہ اور فرعون ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اہرام کی پرچھائیں کے سرے کی طرف جارہے ہیں اور اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں ہے۔ اس نے سوتے ہی میں سمجھ لیا کہ خواب دیکھ رہا ہے، اور اپنی آنکھ کھل جانے دی۔

    دن ڈھل رہا تھا جب اس نے دونوں فردوں کو جلا کر راکھ کیا، اپنے ایک غلام کا خچر کسا، غلام ہی کی پوشاک پہنی اور باہر نکلا۔ بازاروں میں بے فکر ے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ٹولیاں بنائےگشت کر رہے تھے۔ اس دن شہر میں گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا، سب ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ طاق کھولنے کی مہم پر صرف ہونے والی رقم اور مرتبان کے خزانے کی قیمت میں ایک جو کا فرق بھی نہیں نکلا ہے اور یہ کہ یہ حساب میر محاسب کا نکالا ہوا ہے جو خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں کا شمار رکھتا ہے۔

    وہ واپس لوٹنے کے لئے گھر سے نہیں نکلا تھا۔ اس نے خچر کو ایڑ لگائی، بازاروں کو پیچھے چھوڑا اور خود کو اس بیابان میں گم کر دیا جہاں ہوا میں ریت کے ذرّے چنگاریوں کی طرح اڑتے ہیں اور زمین پر اہرام اپنا مخروطی سایہ ڈالتا ہے۔

  • آتش فشاں پر بنا گھر

    آتش فشاں پر بنا گھر

    اس نے جوں ہی دراز کو ہاتھ لگایا، یکایک دادی کی غصہ بھری آواز نے پیچھے سے جکڑ لیا۔

    ’کیا پریشانی ہے تجھے؟‘ وہ گھبرا کر پلٹی۔ موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے دادی کی آنکھیں انگارے بنی دہک رہی تھیں۔ ’تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ ان درازوں کو ہاتھ مت لگایا کر۔ تجھے سمجھ میں نہیں آتا کیا؟‘

    وہ سہم گئی۔ ماں جیسا نازک بدن کپکپانے لگا۔ وہ دادی کو اکثر غصے میں دیکھتی، مگر اس لمحے یوں لگا کہ جیسے وہ مار ہی ڈالیں گی۔ چند دنوں سے یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ وہ جوں جوں بڑی ہورہی تھی، دادی کی روح میں کسی بت کی طرح سر اٹھائے کھڑا اضطراب اپنا قد بڑھاتا جا رہا تھا۔ وہ جب بھی سامنے آتی، دادی کی آنکھوں میں بے چینی مچلنے لگتی۔ اسے گھر میں ہر طرف آنے جانے کی آزادی تھی۔ وہ اپنے کھلونوں سے کھیلے یا انہیں توڑے۔ اپنی کتابوں میں بنی تصویروں میں رنگ بھرے یا بد رنگ کرے۔ اسے ہر بات کی آزادی تھی۔ مگر جب کبھی دادی کے کمرے میں بنی الماری کی طرف ہاتھ بڑھاتی، چاروں سمت پھرتی شاطر آنکھیں اس کی گردن دبوچ لیتیں اور وہ سہم جاتی۔ ایسے میں نہ جانے کیوں ماں یاد آتی، جو برسوں پہلے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اسے دادی نے یہی بتایا تھا، بلکہ اکثر دادی یہ سبق اسے حفظ کروانے کی حد تک دہراتی رہتی تھیں۔ وہ کہتیں۔

    ’تیری ماں کو تجھ سے محبت نہیں تھی۔ ورنہ مائیں اپنی اولاد کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتیں۔ بہت ظالم تھی تیری ماں اور اس سے ظالم تیرا نانا تھا۔ سور کا بچہ۔۔۔‘

    نانا کا ذکر آتے ہی دادی کے چہرے پر وحشت برسنے لگتی۔ نفرت کی شدید تمازت بوڑھے چہرے پر پھیلی جھریوں کو اور گہرا کر دیتی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو ذہن سوالوں، الجھنوں سے بے نیاز تھا، مگر جوں جوں وہ بڑی ہو رہی تھی، الجھے سوالوں کا ڈھیر بھی اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ ہر گزرتے لمحے سلجھے جوابوں کی خواہش شدید ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں سے اس نے اپنے ذہن کے نہاں خانے میں پوشیدہ شفاف ورق پر سوال لکھنا شروع کر رکھے تھے۔

    ماں کیوں چھوڑ کر چلی گئی؟ نانا اتنے برے آدمی کیوں ہیں؟ دادی میرا چہرہ دیکھ کر چھوٹی اور بڑی تائی امی سے کیا کھسر پھسر کرتی ہیں؟ اس الماری کی درازوں میں کیا ہے جسے دادی مجھ سے چھپارہی ہیں؟ میرے امی بابا، کا رشتہ ناکام ہونے میں غلطی کس کی تھی، یا کس کس کی تھی؟ نانا نے مجھے نہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا میں ان پر بوجھ بن جاتی؟

    اس کا معصوم ذہن کہتا کہ دادی اور گھر کے تمام لوگ سارے جواب جانتے ہیں۔ اسے لگتا کہ سچ وہ نہیں ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔ شاید اصل حقیقت دادی کے چہرے کی دبیز جھریوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ یا تائی امی کے چہرے پر پھیلے تمسخر سے کہیں دور پوشیدہ ہے۔ ممکن ہے بابا کی جھکی ہوئی گردن میں کہیں اٹکا ہوا ہو۔ یا پھر خود ساختہ احساسِ تفاخر کے اونچے مگر کمزور تخت پر بیٹھے ہوے دادا کے ادھورے اور ناکام فیصلوں تلے دھنسا ہوا کراہ رہا ہے۔

    ایک دن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے کانوں سے دادی کی آواز ٹکرائی۔ ’شکل و صورت میں بالکل اپنی ماں جیسی بنتی جا رہی ہے۔‘

    تب وہ دیر تک آئینے میں اپنے چہرے کے خط و خال کو گھورتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ دادی اس کی ماں سے نفرت کرتی ہیں۔ ایسے میں اس کے چہرے میں ماں کی شباہت اتر آنا دادی کو تکلیف دیتا ہے۔ تب اس نے بے دھیانی میں ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچ ڈالا۔ جب وہ اپنی ہی سسکیوں کے بوجھ تلے دبنے لگی تو چیخ نکل گئی۔ آواز سن کر اس کے بابا نے اسے پکڑا اور چیخ کر بولے۔

    ’یہ کیا کر رہی ہو؟‘

    ’میرے چہرے میں دادی کو امی نظر آتی ہیں۔ میں انہیں کھرچ رہی ہوں‘۔ اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

    باب نے پیار سے اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔ باپ کے سپاٹ چہرے پر بے چارگی ابھرنے لگی۔ وہ جان ہی نہ سکی کہ بے چارگی کا یہ بد رنگ احساس اس کی ذہنی سوچ اور صحیح یا غلط کے درمیان فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کو نچلے درجے کی حد تک کمزور سے کمزور تر کیے ہوئے ہے۔

    وہ جب گردن جھکا کے پلٹنے لگا تو اس نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’بابا آپ دادی کو نہیں بتائیں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا۔‘‘

    ’ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گا۔‘ اس کے باپ نے وعدہ کیا۔ مگر جب وہ کچھ دیر بعد لاؤنج میں گئی تو دادی نے تڑاخ سے کہا۔

    ’تیری ماں سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان ہوتا تو میں نہ کھرچ دیتی تیرے چہرے سے۔‘

    یہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔ لمحہ بھر کو اسے بابا پر بہت غصہ آیا۔ اسے یاد آیا کہ پہلے بھی کئی بار اس نے کمرے میں ہونے والی گفتگو دادی کو بتانے سے منع کیا تھا۔ مگر ہر بار اس کے بابا دادی کو جا کر سب بتا دیتے ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ سوچنے لگی۔

    مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ بابا کی ایسی بہت سی حماقتوں کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے دور ہوئی تھی۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال کا اضافہ کر لیا۔ جوں جوں الجھے سوال بڑھ رہے تھے، اس کا اضطراب بھی دو چند ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن وہ ٹیرس میں لٹکے جھولے میں جھولتے ہوئے بے دھیانی میں گیت گنگنا رہی تھی۔

    اماں میرے نانا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔ اچانک اس کے نزدیک اس کا تایا زاد بھائی آیا اور بولا۔

    ’میری مما کہتی ہیں کہ جس دن میری تمہاری شادی ہو گی، تم اپنی ماں اور نانا کو ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ گی۔‘ یہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دادی سے جا لپٹتی۔ وہ بولیں۔

    ’اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ یہ تو بچپن ہی میں طے ہو گیا تھا۔ تیری اماں کو اس رشتے پر بہت اعتراض تھا، مگر اب تیری اماں تو یہاں نہیں ہے۔ اب فیصلہ تو ہم کریں گے۔‘

    ’مگر بچپن میں رشتہ طے کرنا تو بہت ظلم ہے۔‘ اس نے تجربے کی بھٹی میں پکا اینٹ سا جواب دے مارا۔

    ’چپ کر۔‘ دادی نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’بالکل اپنی ماں کی طرح سوچتی ہے۔‘

    وہ ایک جھٹکے سے دادی سے دور ہوتے ہوئے بولی۔ ’اس میں غلط کیا ہے؟ بچپن میں جوڑے ہوئے رشتوں کا خراب نتیجہ پہلے سے آپ اس گھر میں بھگت تو رہی ہیں۔‘

    اس کے واضح اشارے کو محسوس کرتے ہی دادی کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے۔ انہوں نے غصے میں چیختے ہوئے کہا۔

    ’بہت زبان چل گئی ہے تیری۔ کاٹ کر پھینک دوں گی۔‘

    وہ اپنے بڑے بیٹے، جسے انہوں نے اپنے تصور میں بہت اونچے سنگھاسن پر بٹھا رکھا تھا، کے بارے میں سچ سننے کو تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے لرزتی جھریوں کے ساتھ غراتے ہوئے کہا۔

    ’تو اس گھر کا کھاتی ہے اور اسی کے بارے میں ایسے گھناؤنے انداز سے سوچتی ہے۔‘ وہ ایک لمحے کو رکیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔’ ایک بات کان کھول کر سن لے، اپنے نانا اور اماں کے انداز میں سوچنا بند کر، ورنہ ان چھوٹے لوگوں کی طرح ہی ہو جائے گی۔‘

    اس نے حیرت سے دادی کو دیکھا۔ نانا کے بارے میں یہ لفظ اس نے پہلے بھی دادا دادی سے سنا تھا۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال درج کرنے کے بارے میں سوچا۔ اس اثنا میں اس کی چھوٹی تائی امی کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں۔

    ’کل اس کے لیے تعویذ بنوا کر لاؤں گی، تاکہ اس کا دماغ درست رہے۔‘

    ’میں کوئی تعویذ واویذ نہیں پہنوں گی۔‘ اس نے فوراً کہا۔

    ’چپ رہ! یہ جو تیرے اندر چار کتابیں پڑھ کر اپنے آپ کو طرم خان سمجھنے والا نانا بولنے لگا ہے، اسے چپ کرنا بہت ضروری ہے۔ کمبخت نہ جانے کیسی سخت مٹی کا بنا ہوا ہے۔ اتنے تعویذ جادو گنڈے کیے، کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ سور کا بچہ۔۔۔ نہ اندھا ہوا اور نہ مر کے دیا۔‘

    دادی نے آخری جملہ بہت دھیرے سے کہا تھا، مگر پھر بھی اس نے سن لیا۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ اکثر تائی امی کو کھانوں پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے، دوسروں کو پڑھی ہوئی شکر والی چائے پلاتے، دادی کے پیروں کے درد اور دادا کے فشار خون کو معتدل کرنے والے تعویذ باندھتے ہوے دیکھا کرتی تھی، مگر وہ حیران تھی کہ برسوں سے نہ دادی کے پیروں کا درد دور ہوا اور نہ دادا کا بلڈ پریشر اعتدال پر آیا۔ البتہ دن بہ دن گھر پر چھوٹی تائی امی کا قبضہ مضبوط ہوتے ہوئے وہ ضرور دیکھ رہی تھی۔

    گھر میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے تجسّس کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔ اکثر اس کا دھیان دادا دادی کے کمرے میں موجود الماری کی درازوں کی طرف چلا جاتا، جنہیں کھولنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ یقیناً وہاں کچھ ایسا ہے جو میری زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ اکثر سوچتی۔ کچھ دنوں سے وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے دادی کے کمرے کی طرف زیادہ جانے لگی تھی، مگر وہاں اکثر دادا ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے یا پھر قوی الجثہ ریسلرز کے طے شدہ اور ڈیزائن کردہ اسکرپٹ والے مقابلے دیکھتے ہوئے پاتی۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان میں ماورائیت سے دلچسپی اور سپر ہیومن نیچر سے لگاؤ کمزور ارادوں کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دادا منصوبے تو بڑے بڑے بناتے ہیں اور اکثر دوسروں کو سناتے بھی بہت ہیں، مگر عملاً کچھ نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہوا آج کے کاموں کو کل پر ٹالنے والا ریٹائر سرکاری افسر کاغذوں پر منصوبے بنا کر اور تصور میں ایورسٹ کی چوٹی سر کرتا رہتا ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے دادا اس سے آنکھیں ملاتے ہوے جھجھکتے ہیں۔ ایک دن اس نے دادی کی غیر موجودگی میں ڈرتے ڈرتے دادا سے سوال کر ڈالا۔

    ’دادا! ایک بات پوچھوں؟‘ ’ہوں۔۔۔انہوں نے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔

    ’اس الماری میں کیا ہے؟ اس نے الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’دادی سے پوچھو۔‘ وہ بولے۔

    ’وہ نہیں بتاتیں۔۔۔‘ اس نے مایوس لہجے میں جواب دیا۔

    ’انہی سے پوچھو۔‘ دادا نے پھر دہرایا۔ ’ویسے تم اس قدر کھوج میں کیوں رہتی ہو؟‘

    ’اگر آپ مجھے ڈانٹیں نہیں تو میں ایک بات کہوں؟‘ اس نے سہمے ہوے لہجے میں کہا۔

    ’کہو‘۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ٹی وی کا ریموٹ بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

    ’دادا مجھے اپنے حوالے سے گھر کی فضا میں جھوٹ تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘ اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہمت کو یکجا کرتے ہوئے کہا۔

    ’تم ابھی بہت چھوٹی ہو‘۔ داد نے اپنے مخصوص انداز میں گردن ہلائی اور ماتھے پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے مزید کہا۔ ’تمہیں معلوم نہیں کہ یہ گھر کتنی محنت سے بنا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بات لڑکیوں کو بتائی جائے۔‘

    وہ مایوس ہو گئی۔ دبیز کارپٹ میں پیر کا انگوٹھا رگڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پلٹ کر جانے لگی۔ یکایک دادا پیچھے سے بولے۔ ان کے لہجے میں حقارت نمایاں تھی۔

    ’سنو۔۔۔اس الماری میں تمہاری ماں کے ہاتھ کا لکھا ہوا خلع نامہ ہے اور اس سے بڑھ کر تمہارے نانا کا وہ خط ہے جس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔‘ وہ چند ساعتوں کے لیے خاموش ہوئے اور پھر بولے۔ ’ہم اس سے بڑے تھے، اسے ہمارا احترام کرنا چاہیے تھا۔‘

    ’جہاں تک مجھے معلوم ہے انہوں نے آپ اور دادی کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی۔ دادا یہ ضروری تو نہیں کہ جو آپ کی عزت کرتے ہیں وہ آپ کی نالائق اولاد کو بھی سر پر بٹھائیں۔‘ اس نے دادا کی طرف دیکھتے ہوئے ایک سچ اگل دیا۔ دادا کے بوڑھے چہرے پر نخوت بھری دبیز جھریاں لرزنے لگیں۔ وہ بولے۔

    ’وہ میرا بیٹا ہے۔ آنے والے کل میں وہ اس خاندان کا سربراہ بنے گا۔ کوئی اس سے آگے نکلے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔

    ’دادا آپ کے اس غرور اور گھمنڈ نے مجھے تنہا کر دیا۔‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ کپکپاتے ہونٹوں پر فریاد لیے پلٹ کر جانے لگی۔ اس کی پشت پر پتھر جیسے لفظ ٹکرائے۔

    ’خلع نامے اور خط میں کیا لکھا ہوا، اس کے مندرجات پر جانے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔ آئندہ اس حوالے سے کوئی بات نہ کرنا۔‘

    وہ گردن جھکائے دروازے کی طرف بڑھی، مگر جوں ہی ادھ کھلے دروازے کی دہلیز پار کرنے کی کوشش کی تو کاٹن کا کُرتا ہینڈل میں اٹک کر چِرتا چلا گیا۔ اس نے بے بسی سے پھٹے ہوئے کُرتے کو دیکھا۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو چھلک پڑے کہ اس گھر کی دہلیز پار کرنا کتنا مشکل ہے۔

    (محمد امین الدّین کا ایک افسانہ)ٰ

  • دو بیٹے

    دو بیٹے

    جنوری 1945ء میں جب ہٹلر کی جنگ اپنے اختتام کے نزدیک آرہی تھی، تھورنگیا میں ایک دہقان کی بیوی نے خواب دیکھا کہ اس کا بیٹا فرنٹ پر اسے پکار رہا ہے۔

    اور نیند کے خمار کی حالت میں صحن میں جانے پر اس نے یوں خیال کیا کہ وہ پمپ پر پانی پینے کھڑا ہے۔ جب اُس نے اس سے بات کی، وہ جان گئی کہ وہ ان نوجوان جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی ہے جو کھیت پر بیگار میں کام کر رہے تھے۔ چند دن بعد اس کے ساتھ ایک عجیب واردات ہوئی۔

    وہ ایک قریب کے جھنڈ میں قیدیوں کے لیے ان کا کھانا لے کر گئی جہاں وہ درختوں کے ٹھنٹھ اکھاڑ رہے تھے۔ لوٹتے وقت اس نے گردن پھیر کر دیکھا تو اُس کی نظر پھر اسی جنگی قیدی پر پڑی (مریض سا جوان لڑکا) جو ایک مایوس کیفیت سے اپنے چہرے کو ایک کھانے کے ڈبے کی طرف موڑے تھا، جسے کوئی اس کے ہاتھ میں دے رہا تھا….. اور یکبارگی اس قیدی کی شکل اس کے بیٹے کی شکل ہو گئی۔ پھر اگلے چند دنوں کے دوران وہ متعدد بار اس نوجوان کے چہرے کو اپنے بیٹے کے چہرے میں بدلنے اور فوراً اپنی اصلی شکل پر آجانے کے تجربے سے دوچار ہوئی۔

    پھر یہ قیدی بیمار پڑگیا اور باڑے میں بغیر دیکھ بھال کے پڑا رہا۔ دہقان کی بیوی کے جی میں خواہش اُبھری کہ وہ بیمار لڑکے کے لیے کچھ قوت بخش غذا لے کر جائے لیکن اسے اس کے بھائی نے روک دیا جو جنگ میں معذور ہوجانے کے بعد کھیت کا انتظام چلاتا تھا۔ اور خاص طور پر اُن دنوں جب کہ ہر ایک چیز ٹوٹ پھوٹ رہی تھی اور گاؤں والے قیدیوں سے خائف ہونے لگے تھے، قیدیوں سے وحشیانہ برتاؤ کررہے تھے، دہقان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے دلائل کے آگے اپنے کان بند نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ ان نیچ انسانوں کی مدد کرنا درست نہیں سمجھتی تھی جن کے بارے میں اس نے خوفناک باتیں سنی تھیں۔

    اسے ہروقت اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ خدا جانے دشمن اس کے بیٹے سے کیا سلوک کریں جو مشرقی فرنٹ پر لڑ رہا تھا۔ اس طرح وہ اس مصیبت زدہ جوان قیدی کی مدد کرنے کے اپنے ڈگمگاتے ارادے کو عملی جامہ پہنا نہ پائی تھی۔

    ایک شام وہ اتفاقاً قیدیوں کی ایک ٹولی کے پاس سے گزری۔ وہ برف سے ڈھکے باغیچے میں سرگرمِ گفتگو میں محو تھے اور اس میں کوئی شک نہ تھاکہ وہ وہاں اسے خفیہ رکھنے کی خاطر سردی میں اکٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان قیدی بھی ان میں بخار سے تھرتھراتا موجود تھا اور اپنی غایت درجہ کمزوری کی حالت کی وجہ سے وہی اس کے اچانک آجانے پر سب سے زیادہ چونکا۔ دہشت سے اس کا چہرہ پھر اسی عجیب تبدیلی کا مظہر ہوگیا اور عورت کو یوں لگا کہ وہ اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھ رہی ہے اور وہ بڑا خوف زدہ ہے۔ اس پر اس کا بڑا اثر ہوا اور گو اُس نے کارِ فرض جان کر اس گفتگو کے ہونے کا حال اپنے بھائی کو جا بتایا، اس نے اپنے دل میں ٹھانی کہ اپنے منصوبے کے مطابق وہ چوری چھپے جوان قیدی کو گوشت کا قتلہ پہنچا آئے گی۔

    ہٹلر کی "تیسری رائش” کے دور میں بہت سے نیک کاموں کی طرح یہ کام بھی انتہائی مشکل اور پُر ظفر ثابت ہوا۔ یہ ایک ایسی دلیری کا کام تھا جس میں اس کا اپنا بھائی اس کا دشمن تھا اور وہ قیدیوں پر بھی اعتبار نہیں کرسکتی تھی۔ بایں ہمہ وہ اس میں کام یاب ہوگئی۔ ہاں، اس سے یہ پتا چل گیا کہ قیدی حقیقتاً فرار ہونے کی فکر میں نہیں، کیونکہ ہر روز سرخ فوجوں کی پیش قدمی سے قیدیوں کا یہ خدشہ بڑھ گیا تھا کہ ان کو مغرب کی سمت کو منتقل کر دیا جائے گا یا ختم کر دیا جائے گا۔

    دہقان کی بیوی ان التجاؤں پر دھیان دیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی جو نوجوان قیدی (جس سے وہ اپنے عجیب تجربے کی وجہ سے بندھی ہوئی تھی) ہاتھ کے اشاروں اور جرمن زبان کے ٹوٹے لفظوں سے اس سے کرتا تھا اور اس طرح وہ آپ ہی آپ قیدیوں کے فرار کے منصوبے میں الجھتی چلی گئی۔ اس نے جوان قیدی کو ایک جیکٹ اور ایک بڑی قینچی مہیا کی۔ عجیب طور سے اس کے بعد سے وہ "تبدیلی” پھر نہ ہوئی۔ وہ اب محض ایک جوان اجنبی کی مدد کررہی تھی۔ سو اس کے لیے یہ اچھا خاصا جھٹکا تھا جب فروری کے آخری دنوں میں ایک صبح کسی نے کھڑکی پر دستک دی اور شیشے میں سے جھٹپٹے میں اس نے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا۔ اور اس دفعہ وہ واقعی اس کا بیٹا تھا۔ وہ وافن ایس ایس کی پھٹی ہوئی وردی پہنے تھا۔ اس کے یونٹ کی تکا بوٹی ہوگئی تھی اور اس نے مضطرب لہجے میں بتایا کہ روسی اب گاؤں سے چند ہی کلو میٹر دور رہ گئے ہیں۔ اس کی گھر واپسی کو سربستہ راز رہنا چاہیے۔

    ایک نوع کی جنگی مشاورت میں، جو اوپر کی کوٹھری کے گوشے میں دہقان کی بیوی، اس کے بھائی اور اس کے بیٹے کے مابین ہوئی، یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے انھیں قیدیوں سے جان چھڑانی چاہیے کیونکہ اس کا امکان تھا کہ انھوں نے ایس ایس والے آدمی (دہقان کی بیوی کے بیٹے) کو دیکھ لیا ہو اور بہرحال وہ اپنی فوج کے سامنے بدسلوکی کا رونا روئیں گے۔ قریب میں ہی ایک کان تھی۔ ایس ایس والا بیٹا بضد ہوا کہ راتوں رات وہ ایک ایک کرکے قیدیوں کو ورغلا کر باڑے سے باہر لے جائے گا اور مار ڈالے گا۔ اس نے کہا کہ لاشوں کو پھر کان میں ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے انھیں الکحل کا کچھ راشن دینا ہوگا۔ بھائی کا خیال تھا کہ یہ بات قیدیوں کو زیادہ عجیب یا خلافِ معمول نہیں لگے گی کیونکہ چند دنوں سے وہ اور کھیت کے دوسرے ملازم روسیوں سے نہایت دوستانہ برتاؤ کرتے رہے تھے تاکہ وہ آخری وقت بھی منسئی سے ان کے دام میں آجائیں اور کوئی گل نہ کھلائیں۔

    جب نوجوان ایس ایس والا بیٹا اپنی تجویز کی وضاحت کررہا تھا، اس نے اچانک اپنی ماں کو کپکپاتے دیکھا۔ مردوں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں اسے پھر باڑے کے قریب نہ جانے دیا جائے۔ اس طرح خوف سے سرد، وہ رات پڑنے کا انتظار کرتی رہی۔ روسیوں نے بظاہر برانڈی کے راشن کو شکریے سے قبول کرلیا اور دہقان کی بیوی نے انھیں بدمستی کے عالم میں اپنے غمناک گیت گاتے سنا۔ لیکن جب رات کو گیارہ بجے کے لگ بھگ اس کا بیٹا باڑے میں گیا تو قیدی جا چکے تھے۔ انھوں نے بدمست ہونے کا مکر کیا تھا۔ کھیت کے لوگوں کے انوکھے، غیر قدرتی مہربانی کے سلوک سے وہ حقیقتِ حال کو بھانپ گئے کہ سرخ فوج بہت قریب آچکی ہوگی۔ روسی رات کے پچھلے پہر کے دوران آپہنچے۔ بیٹا اوپر کی کوٹھری میں نشے میں دھت لیٹا ہوا تھا اور دہقان کی بیوی نے دہشت زدہ ہو کر اس کی ایس ایس والی وردی جلا دینے کی کوشش کی۔ اس کا بھائی بھی غین ہوا پڑا تھا۔ عورت کو ہی روسی سپاہیوں کا استقبال کرنا اور انھیں کھانا کھلانا پڑا۔ اس نے یہ سب کچھ ایک پتھر کے چہرے کے ساتھ کیا۔ روسی صبح سویرے چلے گئے۔

    روسی فوج نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ بیٹے نے، جو بے خوابی سے بد حال ہورہا تھا ، مزید برانڈی مانگی۔ اس نے اپنے پختہ ارادے کا علان کیا کہ وہ لڑتے رہنے کی خاطر پسپا ہوتی جرمن فوج کے یونٹوں تک پہنچنے کے لیے جا رہا ہے۔ دہقان کی بیوی نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ اب لڑتے چلے جانا موت اور مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ بے خوفی سے وہ اس کا رستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور اس نے جسمانی طاقت کو بروئے کار لا کر اسے باز رکھنے کی کوشش کی۔ بیٹے نے اسے پیچھے بھوسے پر دے پٹکا۔ جب وہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا کھنجا آگیا ہے اور اُس نے کھنجے کے بھرپور وار سے جنون زدہ آدمی کو زمین پر گرا دیا۔

    اسی صبح ایک دہقان کی بیوی پڑوس کی بستی میں روسی ہیڈ کوارٹر پر ایک چھکڑا ہنکا کر لائی اور ا س نے اپنے بیٹے کو، جو بیل باندھنے کی رسیوں میں جکڑا تھا، ایک جنگی قیدی کے طور پر روسیوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ (جیسا کہ اس نے ایک ترجمان کو سمجھانے کی کوشش کی) جیتا رہ جائے۔

    (کہانی: برتولت بریخت (جرمنی)، مترجم: محمد خالد اختر)

  • جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچّوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔

    ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ایئر کنڈیشن ڈبّے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

    منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحائف دیے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لیے بَر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزّت لوگوں میں ہوتا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لیے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

    کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دوبھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے۔ دیکھیے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

    ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا! ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

    ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں۔ ‘میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔’

    ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھے برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سَر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اوّل آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالبِ علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

    اڑتے اڑتے یہ خبر سَر سیّد کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انّیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچر ہو گئے۔

    سَر سیّد کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

    پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

    اس حرکت پر سر سیّد کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا بجھایا، ڈرایا دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

    ‘کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟’ سر سیّد نے کڑک کر پوچھا۔

    ‘جی ہاں۔’ عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔ یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سیّد آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔

    عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چنانچہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہوگئے۔

    (‘ماں جی’ سے اقتباس، از قلم قدرت اللّہ شہاب)

  • ایک درخت کا قتل

    ایک درخت کا قتل

    دنیا بھر میں‌ انسانی آبادی میں‌ اضافہ اور شہر، قصبات بسانے کی غرض سے سبزہ پامال اور پیڑ پودے جڑ سے اکھاڑ دینا عام بات ہے۔

    یہ افسانہ بھی اسی موضوع پر ہے اور ایک درخت کے کٹنے کی روداد ہے، لیکن درخت اور اسے کاٹنے کی انسانی کوشش کو مصنّف نے پرانی روایات اور قدروں کے مٹنے سے جوڑ کر بتایا ہے کہ نئی نسل بھی اب بے پروا اور بے نیاز ہوچکی ہے اور وہ اپنی روایات کے مٹ جانے کا کچھ احساس نہیں‌ رکھتی۔ یہ اختر اورینوی کا پُراثر افسانہ ہے جو انھوں‌ نے ایک درخت کا قتل کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ وہ ایک تنقید نگار، محقق، فکشن رائٹر اور شاعر تھے۔ آئیے افسانہ پڑھتے ہیں۔

    ایک کوارٹر کے پہلو میں ایک بہت ہی اونچا، مضبوط، گھنیرا اور خوب صورت درخت تھا۔ شہر کے مشہور باغ کو بڑی بدسلیقگی سے کاٹ کاٹ کر بے ربط، بد وضع کوارٹر کھڑے کر دیے گئے تھے۔ بے ہنگم، نہ ناک درست نہ نقشہ۔

    صرف ایک کوارٹر اسی چھتنار اور بلند و بالا درخت کی وجہ سے بہت بھلا لگتا تھا۔ ہرا بھرا، سایہ دار، ماحول کے بے کیف سپاٹ پن اور بد آہنگی کو دور کرنے والا۔ گہری جڑیں، سڈول، بھاری بھرکم، اونچا تنا، پھلی ہوئی صحت مند شاخیں، سر سبز کو نپلیں، سندر، ہرے بولتے ہوئے پتے۔

    اس پیڑ کی سر بلندی کو دیکھ کر جی خوش ہو جاتا تھا اور آسمان کی طرف نظر یں اٹھ جاتی تھیں۔ دل میں بڑا اعتماد اور حوصلہ پیدا ہوتا تھا۔ جس مٹی سے ایسا وشال درخت اگے وہ مقدس محسوس ہوتی تھی۔ اس پرانے باغ کے نہ جانے کتنے خوب صورت اور پھل دار درخت کاٹ کر پھینک دیے گئے ہوں گے۔ آم، لیچی، جامن، امرود اور شریفے کے پیڑ۔ افتادہ زمینوں اور بنجر قطعوں کی کمی نہ تھی لیکن نہ جانے کس جبلت کی تسکین کے لئے یہی حسین باغ قتل گاہ بنایا گیا۔

    اس برباد باغ کی ایک تاریخ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شاہی وقت کا باغ تھا۔ ایک فراخ دل نواب نے اپنے جگری دوست ایک مہاراجہ کو تحفتاً یہ باغ پیش کیا تھا۔ انھیں دنوں ایک کامل فقیر باغ کے ایک گوشے میں دھونی رما بیٹھا۔ مہاراجہ نے کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ اسے نیک شگون سمجھا اور پہلو میں ایک قطعہ اراضی بھی شاہ صاحب کو دے دیا۔ آج بھی اس احاطے میں قبر میں موجود ہیں۔ خدا رسیدہ فقیر کا سالانہ عرس ہندو مسلمان سب دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ جس عظیم الشان درخت کا ذکر ہے، شاہ صاحب کی قبر پر سایہ کئے ہوئے تھا، جیسے چتر لگانے کی سعادت حاصل کر رہا ہو۔ لوگوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ درخت بھی متبرک ہے اور اس خطے کی خاک پاک ہے۔ جب انگریزوں کا راج ہوا تو لیفٹیننٹ گورنر بہار نے سخت دباؤ ڈال کر یہ باغ مہاراجہ سے اونے پونے خرید لیا۔ یہیں سرکار بہادرکی کوٹھی بنی مگر باغ کا بڑا حصہ قائم رہا اور وقت پر پھل دیتا رہا۔ قبریں رفتہ رفتہ مہندم ہو گئیں اور ان کے نشانات بھی مٹتے گئے لیکن پیر صاحب کی قبر جیسی تھی ویسی ہی رہی۔

    1857ء کے ناکام ہندوستانی انقلاب کے بعد اسی باغ میں کئی مجاہدوں کو سولی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔ انگریزی راج محل خون اور گوشت کے گارے سے تعمیر ہوا۔ اس وشال پیڑ نے یہ خونی ڈرامہ دیکھا تھا۔ خلقت کہتی ہے کہ اس عجیب درخت کی خونِ شہداء سے آبیاری ہوتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر درخت کے پتے یا شاخیں کوئی توڑتا تو ان سے سرخ خون ٹپکنے لگتا تھا۔ اسی وجہ سے جب نئے کوارٹر باغ کے درختوں کو کاٹ کاٹ کر بنائے جانے لگے تو کسی بڑھئی کی یہ جرأت نہ ہو سکی کہ اس متبرک زندہ جاوید درخت پر آرا چلائے۔

    یہ درخت عجوبۂ روزگار تھا۔ اس کا نام کوئی صحیح طورپر نہیں جانتا تھا۔ کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ۔ نہ پھول نہ پھل مگر ہریالی، شادابی، نین سکھ اور سکونِ دل و جان۔ یہ بھی مشہور تھا کہ انقلاب 1857ء کے پہلے پھول لگتے تھے، پھل لگتے تھے۔ اس بات کی شہرت بھی تھی کہ فرنگیوں کی حکومت کے بعد تین چار بڑے خوشبو دار پھول کھلے اور لال لال پھل آئے اور فرنگیوں کو بڑا تعجب ہوا۔ ادھر سالوں سے کسی نے پھول دیکھے نہ پھل کھائے۔ شہر بھر میں ایسا کوئی پیڑ نہ تھا۔ ریاست اور ملک بھر میں لافانی اور فرد ہو تو عجب نہیں۔ مجھے اس درخت کے وقار سے بڑی تسکین ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آندھیوں اور طوفان کو آڑ لے گا۔ وہ ہماری سپر تھا، سہارا تھا، مربی تھا، ہم سایہ تھا، ساتھی تھا، دوست اور غم گسار تھا۔

    وہ قطب نما تھا۔ ایک عظیم و رفیع علامت تھا۔ پورے احاطے کی انفرادیت اس سے قائم تھی۔ میں پہروں اسے دیکھتا رہتا تھا۔ ہر موسم میں اس کی الگ بہار تھی۔ صبح، دوپہر، شام جب بھی دیکھئے وہ دل کش تھا۔ چاندنی راتوں میں اس کا حسن دیدنی تھا۔ اندھیری راتوں میں وہ ایک بلند و بالا، قوی اور جاگتا ہوا سنتری دکھائی دیتا تھا اور اس کی حفاظت میں ہم سب لوگ سکھ کی نیند سوتے تھے۔ اس کی خاموش ہم کلامی میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ کبھی تو میں یہ محسوس کرتا کہ اس درخت کا بیچ میرے دل میں ہے۔ کبھی نہ کبھی وہ آنکرائے گا اور ایک عظیم و سرفراز شجر بن جائے گا۔

    اس شاداب درخت کو کاٹ کر گرانے کی برسوں سے کوششیں ہو رہی تھیں لیکن اس کی تقدیس جاننے والے بڑھئی اور مزدور اسے کاٹنے سے ڈرتے تھے۔ درخت کی رگوں میں لال لال لہو تیرتا تھا اور اس کا سایہ پیر صاحب کی خدمت گزاری کرتا تھا۔ وہ قبر کے کنارے جیتے جاگتے پاسبان کی طرح چوکس کھڑا رہتا تھا۔ کبھی کوئی ٹھیکہ دار دور کے شہر سے مزدور لا کر اس پاک پیڑ کو کاٹ کے اس کی لکڑیاں بیچ کر نفع کمانا چاہتا تھا لیکن یہ دیکھا گیا کہ درخت کے کسی تنے یا شاخ پر تبر چلاتے ہی سرخ عرق ٹپکنے لگتا اور کارندوں پر دہشت طاری ہو جاتی اور کام رک جاتا۔

    ایک بار کوئی کلہاڑا چلانے والا درخت کی کسی اونچی شاخ سے گر کر مر گیا۔ کبھی کوئی مزدور خطرناک طور پر بیمار پڑ جاتا۔ غرض یہ کہ حیات اور رحمت کا علم بردار درخت فضا کی رفعتوں پر لہلہاتا رہا اور اس کا ماحول اس کا گہوارہ بنا رہا۔ اسے دیکھ کر شکتی اور شانتی کا احساس ہوتا تھا۔

    پچھلی گرمیوں میں نہ جانے کہاں سے ایک سخت دل اور بے باک ٹھیکہ دار کو انجان اور ڈھیٹ کارندے مل گئے اور ایک نئی ترکیب سے اس شان د ار پیڑ کا قتل شروع ہوا۔ بڑے بڑے، لانبے اور موٹے رسوں سے اس درخت پر پھانسیاں بنائی گئیں۔ بالائی پتلی پتلی شاخوں کو کاٹ کاٹ کر پھانسی پر چڑھایا جانے لگا۔ پھر بڑے تنوں کی باری آئی اور انھیں آرے سے کاٹ کاٹ کر پھانسی پر لٹکایا گیا۔ کئی مزدور کٹے ہوئے تنوں کو آہستہ آہستہ جھلاتے ہوئے زمین پر لے آتے۔ یہ اہتمام اس لئے تھا کہ کوارٹروں کو نقصان نہ پہنچے۔ یہ پیڑ جڑ کے پاس سے گرایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس کا وقار و جلال لرزہ پیدا کرتا تھا۔ اس میں زمین کا جاں بخش رس تھا، بلند آسمان کی کرنوں کی روشنی اور دھڑکتی ہوئی زندگی کی شادابی تھی۔

    پندرہ دنوں تک اس درخت کو پھانسی دی جاتی رہی۔ عضو بہ عضو لال لال عرق بہتا رہا۔ پھر وہ تھوڑی دیر کے بعد خون کے چکتوں کی طرح جم جاتا۔ اس کے عرق کا رنگ ببول کے گوند کی طرح پیلا نہ تھا۔ کوارٹروں کی نالیوں میں لال لال لوتھرے کیچڑ کے ساتھ مل کر بہہ رہے تھے۔ اچانک کئی مزدور بیمار پڑ گئے اور کئی موٹے موٹے رسے پارہ پارہ ہو گئے۔ پندرہ دنوں کے لئے کام رک گیا۔ لانبے لانبے بالوں اور چڑھی ہوئی آنکھوں والے ٹھیکہ دار کو بڑی تشویش ہوئی۔ محلے کے لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور پیر صاحب کی کرامات کے چر چے ہونے لگے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو چاہتے تھے کہ یہ اونچا جھماٹ درخت کٹے تو وہ اپنے کوارٹروں کے چھوٹے احاطوں میں مولی، گوبھی، آلو اور چقندر اگا کر کچھ پیسے حاصل کر لیں۔ اس عظیم درخت کی قلمرو میں مولی اور چقندر کہاں اگ سکتے تھے۔ ہاں امن، سکون، طمانیت، راحت اور حسن کی نشوو نما ہوتی رہتی تھی اور چین کی برکھا برستی تھی۔

    کام پھر شروع ہو گیا۔ درخت کے بڑے بڑے موٹے تنے کٹنے لگے۔ کئی تنوں سے جہازی رسے کئی سمتوں میں باندھے جاتے تھے اور ان کے سرے درجنوں مزدور زمین پر کھڑے تن کر پکڑے رہتے تھے۔ درخت کے تنوں پر کلہاڑے اور آرے سے تیز دست مزدور اس کے جوڑ بند کاٹتے جاتے تھے اور مضبوط رسوں سے باندھ کر انھیں آہستہ آہستہ جھلا جھلا زمین پر کوارٹروں سے بچا بچا کر گرایا جاتا تھا۔ دور سے ایسا لگتا تھا جیسے گٹھیلے بدن کے پہلوانوں کو پھانسی دی جا رہی ہے اور ان کی جسیم لاشیں زمین پر پڑی ہیں۔ روزانہ دو ہی تین تنے کاٹے جا سکتے تھے اور انھیں نیچے لانا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ رسے کئی پہلوؤں سے باندھے جاتے اور کئی سمتوں سے کھینچے جاتے تھے اور مرکزی رسے کو دھیرے دھیرے ڈھیل دے کر اس حساب سے دیوقامت تنوں کے ٹکڑوں کو کوارٹروں کی چھتوں اور دیواروں سے بچا بچا کر زمین پر گرایا جاتا تھا کہ ان پر ضرب نہ پڑے۔ پھر بھی زور کا دھماکا ہوتا تھا اور درد دیوار لرز جاتے تھے۔

    چند دنوں میں جیتے جاگتے، شاداب و مسرت بار درخت کا عضو عضو کاٹ ڈالا گیا، جیسے پہلے لوگوں کو صلیب پر چڑھانے کے بعد ان کی ہڈیاں توڑ دیتے تھے۔ میرا ذہن مہینے بھر تک سولی پر چڑھتا رہا اور میرے دل کو صلیب دی جاتی رہی۔

    اب ایک محیط، رعب دار جڑیلا تنا اور اس سے نکلے ہوئے دو ثانوی تنوں کے ٹکڑے بے برگ و بار، بے دم ہو کر ہ گئے۔ اوپر کے دونوں تنوں سے بندھے رسے جھول رہے تھے۔ ایک صبح میں اپنے احاطہ میں ٹہل رہا تھا۔ میری نظر اس ٹھنٹھ درخت پر پڑی۔ زمین پر تنوں کی لاشیں بے سدھ بکھری پڑی تھیں۔ بہت سے تنے اور شاخیں ٹھیکہ دار بیل گاڑیوں میں لے جا چکا تھا۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سامنے ایک دیو قامت غلیل ہے۔ اس کا عظیم دو شاخہ آسمان تک بلند ہو جانا چاہتا ہے اور مہیب دستہ دھرتی کے ہاتھوں میں ہے اور اب شکتی شالی دھرتی کٹے ہوئے تنے کے چھوٹے چھوٹے ٹونوں کو چموٹی پر جما کر شست باندھے گی اور قاتلوں پر بھرپور نشانہ لگائے گی۔

    ایک روز دو شاخہ بھی کاٹ دیا گیا مگر گرتے گرتے دو شاخہ کے ایک بازو نے ایک کوارٹر کی دیوار سے ٹکرا کر اسے شق کر دیا اور دوسرے بازو نے دوسرے کوارٹر کی گیراج کی چھت کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ نہ جانے کیوں مہینوں قتل و غارت کا کام ٹھیکے دار نے روک دیا اور وسطی جڑیلا تنا دیوار سے اٹکی ہوئی لاش کی طرح کھڑا رہا۔ ہفتوں یہ درد ناک تنا مقتول امن و شادابی کی علامت بن کر میرے دل میں تیر نیم کش کی طرح پیو ست رہا اور دو شاخے کے دونوں بازو کسی عظیم ٹوٹی ہوئی بیساکھی کے بالائی حصوں کی مانند اس سر و تن بریدہ درخت کی لاش کے سامنے زمین پر پڑے رہے۔

    بیساکھ اور جیٹھ کے مہینے ختم ہوگئے اور اساڑھ آ گیا۔ وقفے وقفے سے بادل کے ٹکڑے آئے اور کچھ چھڑکاؤ ہوتا رہا۔ ایک صبح روح پرور معجزہ رونما ہوا، اسے دیکھ کر ہم سب خوشی سے لہلہا اٹھے۔ چند ہی دنوں بعد ٹھیکہ دار پھر نمودار ہوا۔ درخت کے وسطی تنے پر مزدوروں کو آرا چلانے کے لئے آمادہ کیا۔ پہلے کلہاڑیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ ہم چوکنا ہو گئے اور بھاگتے ہوئے مقتول درخت کی طرف دوڑ پڑے۔ دیکھا کہ درخت کو جڑ سے کاٹا جا رہا ہے۔ ہم لوگوں نے ٹھیکہ دار اور عملوں سے پُر زور احتجاج کیا اور انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ جڑ والا تنا ہرگز نہیں کٹے گا۔ جو زمین پر تنوں کے گرے ہوئے ٹکڑے ہیں، چاہو تو اٹھا کر لے جاؤ۔ جڑ میں اب ہرگز ہاتھ لگانے نہیں دیا جائے گا۔ تند و تیز مجادلے کے بعد ٹھیکہ دار اور اس کی ذریت دفع ہوئی اور دوسرے دن وہ لوگ تنوں کے افتادہ ٹکڑے لاد کر لے گئے۔

    مجروح، جڑیلا تنا صبر، استقلال، اطمینان اور امید کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے بالائی پہلو میں سر سبز نئی کو نپلیں پھوٹ رہی تھیں اور کوارٹروں کی چھتوں سے اونچی چند نئی ہری بھری شاخیں ہوا میں لہرا رہی تھیں۔ وہ رحمت نشاں درخت مَر کر بھی جی اٹھا تھا۔

  • میلہ گھومنی

    میلہ گھومنی

    کانوں کی سنی نہیں کہتا آنکھوں کی دیکھی کہتا ہوں۔ کسی بدیسی واقعے کا بیان نہیں اپنے ہی دیس کی داستان ہے۔ گاؤں گھر کی بات ہے۔ جھوٹ سچ کا الزام جس کے سر پر چاہے رکھیے۔ مجھے کہانی کہنا ہے اور آپ کو سننا۔

    دو بھائی تھے چنو اور منو نام۔ کہلاتے تھے پٹھان۔ مگر نانہال جولاہے ٹولی میں تھا اور دادیہال سید واڑے میں۔ ماں پرجا کی طرح میر صاحب کے ہاں کام کرنے آئی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی صاحب نے اس سے کچھ اور کام بھی لئے اور نتیجے میں ہاتھ آئے چنو منو۔ وہ تو یادگاریں چھوڑ کر جنت سدھارے اور خمیازہ بھگتا بڑے میر صاحب نے۔ انھوں نے بی جولاہن کو ایک کچا مکان عطا کیا اور چنو منو کی پرورش کے لئے کچھ روپے دیے۔ وہ دونوں پلے اور بڑے اچھے ہاتھ پاؤں نکالے۔ چنو ذرا سنجیدہ تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی میر صاحب کے کارندوں میں ملازم ہوا اور ہم سن میر صاحبان کا مصاحب بنا۔ منو لاابالی تھا۔ اہیروں کے ساتھ اکھاڑوں میں کشتی لڑا کرتا اور نام کے لئے کھیتی باڑی کرنے لگا۔

    لیکن دونوں جوان ہوتے ہی اعصاب کا شکار ہوئے۔ خون کی گرمیاں وراثت اور ماحول سے ملی تھیں۔ دونوں جنسیات کے میدان میں بڑے بڑے معرکے سر کرنے لگے۔ شدہ شدہ میر صاحب کے کانوں تک ان کے کارناموں کی داستانیں پہنچیں۔ انھوں نے چنو کو اسی طرح کی ایک لڑکی سے بیاہ کر کے باندھ دیا۔ مگر منو چھٹے سانڈ کی طرح مختلف کھیت چرتا رہا۔ اس کی ہنگامہ آرائیوں کا غلغلہ دور تک پہنچا۔ بالآخر میر صاحب کے پاس اہیر ٹولی، چمار ٹولی، جولاہے ٹولی اور ہر سمت اور ہر محلے سے فریاد کی صدائیں پہنچنے لگیں۔ انھوں نے عاجز آکر ایک دن اس کی ماں کو بلوا بھیجا۔ جب وہ گھونگھٹ لگائے لجاتی، سہمتی، ان کی بیوی کے پلنگ کے پاس زمین پر آکر بیٹھی تو میر صاحب نے منو کی شکایت کی اور کہا، ’’اس لڑکے کو روکو۔ ورنہ ہاتھ پاؤں ٹوٹیں گے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا، ’’تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ آپ ہی چنو کی طرح اسے بھی کسی ناند سے لگا دیجئے۔‘‘

    میر صاحب بڑی سوچ میں پڑ گئے۔ یہ نئی قسم کا قلمی پودا کسی مناسب ہی تھالے میں لگایا جا سکتا تھا۔ ہر زمین تو اس کو قبول نہیں کر سکتی اور وہاں اس کے کارناموں کی شہرت نے ہر جگہ شوریت پیدا کر دی تھی۔ وہ زنان خانے سے باہر سوچتے ہوئے چلے آئے اور برابر سوچتے ہی رہے۔ اتفاق سے انھیں دنوں دوری کے میلے سے واپس ہونے والوں کے ساتھ ایک نا معلوم قبیلے کی عورت گاؤں میں آئی۔ اور ایک دن میر صاحب کے ہاں نوکری کی تلاش کے بہانے پہنچی۔ سیدانی بی نے صورت شکل دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ وہ ان کے گھر میں ملازمہ کی حیثیت سے رہنے والی عورت نہیں۔ پوچھنے گچھنے سے یہ بھی معلوم کر لیا کہ وہ گاؤں کے درزی کے ساتھ میلے سے آئی ہے اور اس کے ہاں ٹکی بھی ہے۔ سیدانی بی اس درزی کی حرکات سن چکی تھیں۔ جب سے اس کی درزن سدھاری تھی اس نے میلے سے نئی نئی عورتوں کا لانا اور گاؤں کی نسوانی آبادی میں اضافہ کرنا اپنا وتیرہ بنا لیا تھا۔ پھر بھی سیدانی بی کے سادہ مزاج نے صاف صاف انکار کی اجازت نہ دی۔ انھوں نے کہا، ’’اچھا گھر میں رہو اور کام کرو، دو چار دن میں تمہارے لئے کوئی بند و بست کروں گی۔‘‘

    ادھر مردانے میں میر صاحب کو ان کے ہم جلیسوں نے نو وارد کی خبر دی۔ ایک صاحب نے جو ذرا ظریف طبیعت بھی تھے، اس کی تعریف یوں بیان کی، ’’راویان صادق کا قول ہے کہ اصل اس کی بنجارن ہے۔ وہ بنجارن سے ٹھکرائن بنی، ٹھکرائن سے پٹھاننی، پٹھاننی سے کبڑن، کبڑن سے درزن اور اب درزن سے سیدانی بننے کے ارادے رکھتی ہے۔‘‘ ایک صاحب نے پوچھا، ’’اور اس کے بعد؟‘‘ وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر بولے، ’’خدا جانے! شاید اس کے بعد فرشتوں سے آنکھ لڑائے گی۔‘‘

    میر صاحب جب گھر آئے تو بیوی نے ان محترمہ کی خبر دی۔ بہت جزبز ہوئے۔ اس سیرت کی عورت اور شرفاء کے گھر میں! وہ نیک قدم خود بھی کسی کام کے سلسلے میں سامنے آئیں۔ میر صاحب بل کھانے لگے۔ نوکری کرنے آئی تھی۔ اگر انکار کرتے اور گھر سے نکال دیتے ہیں تو اسے معصیت کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ پیٹ کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ اگر اپنے ہاں بار دیتے ہیں تو گھر میں ماشاء اللہ کئی چھوٹے میر صاحبان ہیں، کہیں چنو منو کی نسل اور نہ بڑھے۔ ان ناموں کی یاد سے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا اور وہ مسکرا کر بیوی سے سر گوشی کرنے لگے۔ پھر منو کی ماں کو بلوا کر انھوں نے اسے نادر شاہی حکم دیا، ’’ہم نے منو کی نسبت طے کر دی، اس سے کہہ دو کل اس کا عقد ہو گا۔‘‘

    بیچاری جولاہن کو چوں و چرا کی مجال نہ تھی۔ وہ ’بہت اچھا‘ کہہ کے ہونے والی بہو پر ایک نظر ڈالنے چلی گئی۔ وہ بھی رشتے سے بالکل بے خبر تھی، اس لئے بہت کھل کے باتیں ہوئیں۔ جولاہن اس کے طور طریقے سے زیادہ مطمئن تو نہ ہوئی لیکن جانتی تھی میر صاحب کی خوشی اسی میں ہے، اختلاف کا یارا نہیں۔ رہنے کا ٹھکانا انھیں کا دیا ہوا ہے، چنو کی نوکری انھیں کی عطا کردہ ہے اور منو کی جوت میں کھیت بھی خود انھیں کے ہیں۔ پھر لالچ بھی تھا۔ اپنی خوشی سے شادی کریں گے تو سارا خرچ بھی خود ہی اٹھائیں گے۔ غرض گھر آئی اور رات ہی میں منو کو میر صاحب کا فیصلہ سنا دیا۔ وہ اسے درزی ہی کے گھر بھاوج کی حیثیت سے دیکھ کر پسند کر چکا تھا۔ جلدی سے راضی ہو گیا۔

    دوسرے دن مولوی صاحب بلائے گئے۔ منو کو نئی دھوتی، نیا کرتا میر صاحب نے پہنوایا۔ دلہن کو شاہانہ جوڑا اور چند چاندی کے زیورات ان کی بیوی نے پہنائے اور عقد ہو گیا۔ پھر میر صاحب اور ان کی بیوی نے رونمائی کے نام سے دس روپے منو کی ماں کو دئے اور دلہن کو اس کے ہاں رخصت کر دیا۔

    دن بیتتے گئے، دن بیتتے گئے۔ مہینے ہوئے، ایک سال ہونے کو آیا مگر منو اور اس کی دلہن کی کوئی شکایت سننے میں نہ آئی۔ میر صاحب کو اطمینان سا ہو چلا کہ نسخہ کار گر ہوا اور اعصاب کے دو بیمار ایک ہی چٹکلے میں اچھے ہو گئے، کہ دفعتاً ایک دن بی جولاہن روتی بسورتی پہنچیں۔ معلوم ہوا منو نے مارا ہے۔ پوچھ گچھ سے کھلا کہ چھ مہینے سے اسے نشے کا شوق ہوا، اور جس طرح وہ نشہ بیوی پر اتارتا ہے اسی طرح غصہ ماں پر۔ کل رات میں تو اس نے مارا ہی نہیں بلکہ اسے ایک کوٹھری میں بے آب و دانہ بند رکھا۔ اب چھوٹی ہے تو فریاد لے کر آئی ہے۔ میر صاحب کے اس سوال پر کہ پہلے ہی کیوں نہ بتایا کہ فوری تدارک سے شاید بری عادت نہ پڑنے پاتی۔ جولاہن سوائے ’’مامتا‘‘ کے اور کیا جواب دے سکتی تھی۔ انھوں نے حکم دیا، ’’آج سے یہیں رہو، گھر جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

    مگر میر صاحب کو منو کی فکر ہو گئی۔ خون گندی نالی میں بہہ کر نہ تو بدل جاتا ہے اور نہ پھٹ کر سپید ہو جاتا ہے، اس لئے اسے بلا بھیجا اور حد سے زیادہ خفا ہوئے۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر پھر سنا کہ تو نے تاڑی پی تو درخت سے بندھوا کر اتنا پٹواؤں گا کہ چمڑا ادھڑ جائے گا!‘‘ ساتھ ہی پارسی کے پاس مخصوص کا رندہ بھیج کر کہلا بھیجا کہ اب اگر منو کو ایک قطرہ بھی پینے کو ملا تو تاڑی خانہ اٹھوا پھینکوں گا۔‘‘ غرض منو کی پورے طور پر بندش کر دی گئی اور تاڑی بند ہو گئی۔ نشے کا انجکشن ممنوع قرار دے دیا گیا۔

    مگر جونک اپنا کام کرتی رہی اور تاڑی بند ہونے کے چھ ماہ بعد وہ آنکھیں مانگنے لگا۔ بالکل زرد، سوکھا آم بن گیا اور کھانسی بخار کا شکار ہوا۔ جب میر صاحب کو خبر ملی کہ عیادت کے بہانے یاروں کی نشستیں ہونے لگیں اور بہو نے نینوں کے بان چلانا شروع کر دیے تو انھوں نے بی جولاہن کو کچھ روپے دے کر گھر بھیجا اور بیٹے کے علاج اور بہو کی نگرانی کی تاکید کی۔ لیکن یہ نگرانی وہاں اسی طرح ناگوار گزری جس طرح چوروں کو پولیس کی نگرانی کھٹکتی ہے۔ دو چار ہی دن انگیز کرنے بعد زبان کی چھری تیز ہونے لگی۔ ساس بھلا کس سے کم تھیں۔ انھوں نے کلہ بہ کلہ جواب دینا شروع کر دیا۔ ایک دن تو ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی۔ جوانی اور بڑھاپے کا مقابلہ کیا تھا۔ بہو ساس کے سینے پر سوار ہوگئی۔ منو پلنگ سے جھپٹ کر اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا ماں کو بچانے پہنچا۔ بیوی نے سینے پر وہ لات دی کہ ہائے کر کے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ دونوں لڑنا بھول کر اس کی تیمارداری میں مشغول رہیں لیکن بلغم کے ساتھ تھوڑا تھوڑا خون بھی آنے لگا اور وہ ایک ہفتہ بعد گھر سے اٹھ کر قبر میں چلا گیا۔

    اب رونا دھونا شروع ہوا۔ بین ہونے لگی اور ساس بہو میں اسی پر مقابلہ ٹھنا کہ دیکھیں سوگ کون زیادہ مناتا ہے۔ پانچ روز تو اسی طوفان میں طغیانی رہی کہ میر صاحب کو خود آ کر سمجھانا پڑا۔ لیکن آہستہ آہستہ سیلاب غم گھٹنا شروع ہوا، ساس بہو کو ایک دوسرے سے چھٹکارا پانے اور رشتہ قرابت ٹوٹ جانے کی غیر شعوری طور پر خوشی ہونے لگی کہ دفعتاً چنو کی بیوی قبل از وقت مرا ہوا بچہ جن کر دیور کے پاس چلی گئی۔ بی جولاہن کو چار چھوٹے چھوٹے پوتے پوتیوں کو سنبھالنا پڑا اور منو کی بیوہ کو عدت کے احکام بھول جانے کے مواقع ملنے لگے۔

    ایسے ہی ایک موقع سے چنو غم بھلانے اور جی بہلانے دیورانی کے پاس آ بیٹھا۔ خاطر تواضع ہوئی اور باتوں کا سلسلہ چھڑ گیا۔ درد دل بیان ہوئے، تنہائیوں کا ذکر چھڑ گیا اور اس کے دور کرنے کے ذرائع پر غور ہوا۔ بالآخر ایک شب امتحان کی قرار پائی۔ جب اس کی صبح سرخروئی سے ہوئی تو چنو نے ماں سے اصرار کیا کہ اس رشتے کو عقد کے ذریعہ مستحکم بنا دے۔ وہ بیٹے کو لے کر مولوی صاحب کے پاس پہنچی۔ وہ دیہات میں رہنے کی وجہ سے شرع کی کتابیں اب تک نہ بھولے تھے۔ انھوں نے امتحان اورا س کے نتائج سے واقف ہوتے ہی کان پر ہاتھ رکھا اور نکاح کے ممنوع ہونے کا فتویٰ فوراً صادر فرما دیا۔ بڑی بی دیر تک ایک وکیل کی طرح بحثتی رہیں۔ پر جب مولوی صاحب اپنے فیصلے سے نہ ٹلے تو جل کر بیٹے سے بولیں، ’’چل بے گھر چل! مانگ میں میرے سامنے سیندور بھر دینا۔ وہ اب تیری بیوی ہے، میں خوش میرا خدا خوش۔‘‘ چنو نے ماں کا کہنا کیا۔ مانگ میں سیندور کی چٹکی ڈال دیا اور اپنے چاروں بچوں سمیت اسی گھر میں منتقل ہو گیا۔

    ایک مہینہ بیتا، دو بیتے، تین مہینے بیتے، مگر چوتھے مہینے چنو کی کمر اچک گئی۔ اکڑنا، بررنا، تن کے چلنا، سب چھوٹ گیا۔ وہ اب ذرا جھک کے چلنے لگا۔ ہم سن میر صاحبان میں سے ایک صاحب طبیب تھے، ان کو دکھایا۔ انھوں نے معجونیں اور گولیاں کھلانا شروع کیں۔ دواؤں کے زور پر کچھ دنوں اور چلا۔ بدقسمتی سے حکیم صاحب ایک ریاست میں ملازم ہو کر چلے گئے۔ بس چنو کی کمر کچی لکڑی کی طرح بوجھ پڑنے سے جھک گئی۔ ساتھیوں نے افیون کی صلاح دی۔ شروع میں تو کافی سرور آیا مگر افیون کی خشکی نے دبوچا۔ بی چنیا بیگم مانگتی ہیں دودھ، مکھن، گھی، ملائی اور یہ چیزیں چار روپے میں کہاں نصیب۔ وہ لگا کھیسے نکال کے ہاتھ پھیلانے اور پیسے مانگنے۔ مگر اس پر جو کچھ ملتا بھاویں نہ سماتا اور افیون کی لت پڑ ہی چکی تھی وہ چھوٹتی نہیں۔ اس نے آہستہ آہستہ دل و جگر کو چھلنی کیا اور چنو خاں کو اختلاج کے دورے پڑنے لگے اور سوکھی کھانسی آنے لگی۔

    ایک دن جنوری کے مہینے میں جب بوندا باندی ہو رہی تھی اور اولے پڑنے والے تھے کہ چنو کو اختلاج شروع ہو گیا۔ ڈیوڑھی پر کسی کام کے سلسلے میں حاضر تھا۔ فوراً اٹھ کر گھر کی طرف بھاگا۔ راستے ہی میں کوندا لپکا اور جان پڑا اسی کے سر پر پڑا۔ اسی کے سر پر بجلی گری، منہ کے بل زمین پر آرہا۔ سنبھل کر اٹھا مگر دل کا یہ حال تھا کہ منہ سے نکلا پڑتا تھا بے ساختہ ’’ارے ماں، ارے ماں‘‘ چیختا ہوا دوڑا۔ راستہ سجھائی نہ دیتا تھا۔ دم گھٹا جا رہا تھا مگر پاؤں پہیے کی طرح لڑھک رہے تھے۔ گھر کی دہلیز میں قدم رکھا ہی تھا دوسرا کڑکا ہوا۔ وہ ٹھوکر کھاتا، سنبھلتا، لڑکھڑاتا دالان والے پلنگ پر جا کر بہری کے پنجے سے چھوٹے ہوئے کبوتر کی طرح بھد سے گر پڑا اور اسی طرح اس کا ہر عضو پھڑکنے لگا۔ بیوی ’’ارے کیا ہوگیا لوگو‘‘ کہتی ہوئی دوڑی۔ چنو نے بایاں پہلو دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے کہا، ’’اب میرے بعد تم کو کون خوش رکھے گا؟‘‘ اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔

    چنو کی فاتحہ کے تیسرے دن اس کی خوش نہ ہونے والی بیوہ، گاؤں کے ایک جوان کسان کے ساتھ کمبھ کا میلہ گھومنے الہ آباد چلی گئی۔

    (افسانہ نگار:‌علی عباس حسینی)

  • پانی کا درخت

    پانی کا درخت

    جہاں ہمارا گاؤں ہے اس کے دونوں طرف پہاڑوں کے روکھے سوکھے سنگلاخی سلسلے ہیں۔ مشرقی پہاڑوں کا سلسلہ بالکل بے ریش و برودت ہے۔ اس کے اندر نمک کی کانیں ہیں۔ مغربی پہاڑی سلسلے کے چہرے پر جنڈ، بہیکڑ، املتاس اور کیکر کے درخت اگے ہوئے ہیں۔ اس کی چٹانیں سیاہ ہیں لیکن ان سیاہ چٹانوں کے اندر میٹھے پانی کے دو بڑے قیمتی چشمے ہیں، اور ان دو پہاڑی سلسلوں کے بیچ میں ایک چھوٹی سی تلہٹی پر ہمارا گاؤں آباد ہے۔

    ہمارے گاؤں میں پانی بہت کم ہے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے اپنے گاؤں کے آسمان کو تپے ہوئے پایا ہے، یہاں کی زمین کو ہانپتے ہوئے دیکھا ہے اور گاؤں والوں کے محنت کرنے والے ہاتھوں اور چہروں پر ایک ایسی ترسی ہوئی بھوری چمک دیکھی ہے جو صدیوں کی ناآسودہ پیاس سے پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے گاؤں کے مکان اور آس پاس کی زمین بالکل بھوری اور خشک نظر آتی ہے۔ زمین میں باجرے کی فصل جو ہوتی ہے اس کا رنگ بھی بھورا بلکہ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ یہی حال ہمارے گاؤں کے کسانوں اور ان کے کپڑوں کا ہے۔ صرف ہمارے گاؤں کی عورتوں کا رنگ سنہری ہے کیونکہ وہ چشمے سے پانی لاتی ہیں۔

    بچپن ہی سے میری یادیں پانی کی یادیں ہیں۔ پانی کا درد اور اس کا تبسم، اس کا ملنا اور کھو جانا۔ یہ سینہ اس کے فراق کی تمہید اور اس کے وصال کی تاخیر سے گودا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں بہت چھوٹا سا تھا دادی اماں کے ساتھ گاؤں کی تلہٹی کے نیچے بہتی ہوئی رویل ندی کے کنارے کپڑے دھونے کے لیے جایا کرتا تھا۔ دادی اماں کپڑے دھوتی تھیں میں انہیں سکھانے کے لیے ندی کے کنارے چمکتی ہوئی بھوری ریت پر ڈال دیا کرتا تھا۔ اس ندی میں پانی بہت کم تھا۔ یہ بڑی دبلی پتلی ندی تھی۔ چھریری اور آہستہ خرام جیسے ہمارے سردار پیندا خان کی لڑکی بانو۔

    مجھے اس ندی کے ساتھ کھیلنے میں اتنا ہی لطف آتا تھا جتنا بانو کے ساتھ کھیلنے میں۔ دونوں کی مسکراہٹ میٹھی تھی اور مٹھاس کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جو میری طرح نمک کی کان میں کام کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ہماری رویل ندی سال میں صرف چھ مہینے بہتی تھی، چھ مہینے کے لیے سوکھ جاتی۔ جب چیت کا مہینہ جانے لگتا تو ندی سوکھنا شروع ہو جاتی اور جب بیساکھ ختم ہونے لگتا تو بالکل سوکھ جاتی، اور پھر اس کی تہ پر کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے نیلے پتھر رہ جاتے یا نرم نرم کیچڑ جس میں چلنے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ریشم کے دبیز غالیچے پر گھوم رہے ہوں۔ چند دنوں میں ہی ندی کا کیچڑ بھی سوکھ جاتا اور اس کے چہرے پر باریک درزوں اور جھریوں کا جال پھیل جاتا۔

    مجھے یاد ہے پہلی بار جب میں نے ندی کو اس طرح سوکھتے ہوئے پایا تھا تو بے کل، بے چین اور پریشان ہو گیا تھا اور رات سو بھی نہ سکا تھا۔ اس رات دادی اماں مجھے بہت دیر تک گود میں لے کر عجیب عجیب کہانیاں سناتی رہیں اور ساری رات دادی اماں کی گود میں لیٹے لیٹے مجھے رویل ندی کی بہت سی پیاری باتیں یاد آنے لگیں۔ اس کا ہولے ہولے پتھروں سے ٹھمکتے ہوئے چلنا، اور پتھروں کے درمیان سے اس کا ذرا تیز ہونا اور کترا کر چلنا، جیسے کبھی کبھی بانو غصے میں گلی کے موڑ پر سے تیزی سے نکل جاتی ہے اور جہاں دو پتھر ایک دوسرے کے بہت قریب ہوئے تھے وہاں میں اور بانو باجرے کی ڈنڈیوں کی بنی ہوئی پن چکی لٹکا دیتے تھے اور گیلا آٹا پساتے تھے۔ پن چکی ندی کی آہستہ خرامی کے باوجود کیسے تیز تیز چکر لگا کر گھومتی تھی اور اب یہ ندی سوکھ گئی۔

    ان سب باتوں کو یاد کر کے میں نے دادی اماں سے پوچھا:
    ’’دادی اماں یہ ہماری ندی کہاں چلی گئی؟‘‘
    زمین کے اندر چھپ گئی۔‘‘
    ’’کیوں؟‘‘
    ’’سورج کے ڈر سے۔‘‘
    ’’کیوں؟ یہ سورج سے کیوں ڈرتی ہے؟ سورج تو بہت اچھا ہے۔

    ’’سورج ایک نہیں بیٹا، دو سورج ہیں۔ ایک تو سردیوں کا سورج ہے۔ وہ بہت اچھا اور مہربان ہوتا ہے۔ دوسرا سورج گرمیوں کا ہے۔ یہ بڑا تیز چمکیلا اور غصے والا ہوتا ہے، اور یہ دونوں باری باری ہر سال ہمارے گاؤں میں آتے ہیں۔ جب تک تو سردیوں کا سورج رہتا ہے ہماری ندی اس سے بہت خوش رہتی ہے، لیکن جب گرمیوں کا ظالم سورج آتا ہے تو ہماری ندی کے جسم سے اس کا لباس اتار نا شروع کرتا ہے۔ ہر روز کپڑے کی ایک تہ اترتی چلی جاتی ہے اور جب بیساکھی کا آخری دن آتا ہے تو ندی کے جسم پر پانی کی ایک پتلی سی چادر رہ جاتی ہے۔ اس رات کو ہماری ندی شرم کے مارے زمین پر چھپ جاتی ہے اور انتظار کرتی ہے سردیوں کے سورج کا جو اس کے لیے اگلے سال پانی کی نئی پوشاک لائے گا۔‘‘

    میں نے آنکھ جھپکتے ہوئے کہا:’’سچ مچ گرمیوں کا سورج تو بہت برا ہے۔‘‘

    ’’لو اب سو جاؤ بیٹا۔‘‘ مگر مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ اس لیے میں نے ایک اور سوال پوچھا؟

    ’’دادی یہ ہمارے نمک کے پہاڑ کا پانی کیوں کڑوا ہے۔‘‘ ہمارے گاؤں میں بچّے پانی کے لیے بہت سوال کرتے تھے۔ پانی ان کے تخیل کو ہمیشہ اکساتا رہتا ہے۔ دوسرے گاؤں میں، جہاں پانی بہت ہوتا ہے، وہاں کے لڑکے شاید سونے کے جزیرے ڈھونڈتے ہوں گے یا پرستان کا راستہ تلاش کرتے ہوں گے لیکن ہمارے گاؤں کے بچّے ہوش سنبھالتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اور تلہٹی پر اور پہاڑی پر اور دور دور تک پانی کو ڈھونڈنے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ میں نے بھی اپنے بچپن میں پانی کو ڈھونڈا تھا اور نمک کے پہاڑ پر پانی کے دو تین نئے چشمے دریافت کیے تھے۔

    مجھے آج تک یاد ہے میں نے کتنے چاؤ اور خوشی سے پانی کا پہلا چشمہ ڈھونڈا تھا، کس طرح کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میں نے چٹانوں کے درمیان سے جھجھکتے ہوئے پانی کو اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں کا سہارا دے کر باہر بلایا تھا اور جب پہلی بار اسے اوک میں لیا تو پانی میرے ہاتھ میں یوں کانپ رہا تھا جیسے کوئی گرفتار چڑیا بچّے کے ہاتھوں میں کانپتی ہے۔ پھر جب میں اسے اوک میں بھر کر اپنی زبان تک لے گیا تو مجھے یاد ہے میری کانپتی ہوئی خوشی کیسے تلخ بچھو میں تبدیل ہو گئی تھی۔ پانی نے زبان پر جاتے ہی بچھو کی طرح ڈنک مارا اور اس کے زہر نے میری روح کو کڑوا کر دیا۔ میں نے پانی تھوک دیا اور پھر کسی نئے چشمے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، لیکن نمک کے پہاڑ پر مجھے آج تک میٹھا چشمہ نہ ملا۔ اس لیے جب ندی سوکھنے لگی تو میٹھے چشمے کی یاد نے مجھے بے چین کر دیا۔ اور میں نے دادی اماں سے پوچھا: ’’دادی ماں یہ نمک کے پہاڑ کا پانی کڑوا کیوں ہے؟‘‘
    دادی اماں نے کہا۔’’یہ تو ایک دوسری کہانی ہے۔‘‘
    ’’تو سناؤ۔‘‘
    ’’نہیں اب سو جاؤ۔‘‘
    میں چیخا:’’نہیں سناؤ۔‘‘
    ’’اچھا بابا سناتی ہوں، مگر تم اب چیخو گے نہیں۔‘‘
    ’’نہیں‘‘
    ’’اور نہ ہی بیچ بیچ میں ٹوکو گے۔‘‘
    ’’نہیں‘‘
    ’’اچھا تو سنو۔ یہ تم اس طرف نمک کی پہاڑی جو دیکھتے ہو یہ پرانے زمانے میں ایک عورت تھی جو اس پہاڑ کی بیوی تھی، جہاں آج کل میٹھے پانی کا چشمہ ہے۔‘‘
    ’’پھر‘‘
    ’’پھر ایک روز دیوؤں میں بڑی جنگ چھڑی اور یہ سامنے پہاڑ بھی جو اس عورت کا خاوند تھا، جنگ میں بھرتی ہو گیا اور بیوی کو پیچھے چھوڑ گیا اور سے کہہ گیا کہ وہ اس کے آنے تک کہیں نہ جائے، نہ کسی سے بات کرے، صرف اپنے گھر کا خیال کرے۔‘‘
    ’’اچھا!‘‘
    ’’ہاں۔ پھر کئی سال تک بیوی اپنے دیو خاوند کا انتظار کرتی رہی لیکن اس کا خاوند جنگ سے نہ لوٹا۔ آخر ایک دن اس کے گھر میں ایک سفید دیو آیا اور اس پر عاشق ہو گیا۔‘‘
    ’’عاشق کیا ہوتا ہے۔‘‘
    دادی اماں رک گئیں، بولیں: تو نے پھر ٹوکا۔’’میں نے دل میں سوچا: دادی اماں اگر خفا ہو گئیں تو باقی کہانی سننے کو نہیں ملے گی اور کہانی اب دل چسپ ہوتی جا رہی ہے اس لیے چپکے سے سن لینا چاہیے، عاشق کا مطلب بعد میں پوچھ لیں گے۔ اس لیے میں نے جلدی سے سوچ کر دادی ماں سے کہا۔’’اچھا اچھا، دادی اماں آگے سناؤ، اب نہیں ٹوکوں گا۔‘‘

    دادی اماں رکھائی سے اس طرح خفا ہو کے بولیں جیسے انہیں کہانی کا آگے آنے والا حصہ پسند نہیں ہے۔ کہنے لگیں:’’ہونا کیا تھا، مغربی پہاڑی کی بیوی بے وفا نکلی۔ جب اسے سفید دیو نے جھوٹ موٹ یقین دلا دیا کہ اس کا پہلا خاوند دیوؤں کی جنگ میں مارا گیا ہے تو اس نے سفید دیو سے شادی کر لی۔‘‘

    ’’دیوؤں کی جنگ کیوں ہوتی تھی؟’’میرے منہ سے بے اختیا ر نکل گیا۔‘‘
    ’’تو نے پھر ٹوکا۔‘‘دادی اماں بہت خفا ہو کے بولیں،’’چل اب آگے نہیں سناؤں گی۔‘‘ نہیں دادی اماں میری اچھی دادی اماں اچھا اب بالکل نہیں ٹوکوں گا۔‘‘میں نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا۔
    ’’پھر؟‘‘
    ’’پھر ایک دن بہت سالوں کے بعد ایک بوڑھا دیو اس وادی میں آیا۔ یہ اسی عورت کا پہلا خاوند تھا۔ جب اس نے اپنی بیوی کو سفید دیو کے ساتھ دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا اور اس نے کلہاڑا لے کر سفید دیو اور اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ جب سے ان دونوں دیوؤں کو بڑے پیر کی بد دعا ملی ہے اور یہ لوگ سل پتھر ہو گئے۔ سامنے والے پہاڑ کا پانی اس لیے میٹھا ہے کیونکہ اسے اپنی بیوی سے سچی محبت تھی۔ اس کے مقابل پہاڑ کا پانی کھارا ہے اور اس میں نمک ہے کیونکہ وہ عورت ہے اور اپنی بے وفائی پر ہر وقت روتی رہتی ہے۔ اور جب اس کے آنسو خشک ہوجاتے ہیں تو نمک کے ڈلے بن جاتے ہیں، جنہیں ہر روز تمہارا باپ پہاڑ کے اندر کھود کے نکالتا ہے۔‘‘
    ’’پھر؟‘‘
    ’’پھر کہانی ختم۔‘‘

    کہانی ختم ہو گئی اور میں بھول گیا کہ میں نے کیا سوال کیا تھا۔ مجھے کیا جواب ملا۔ میں نے کہانی سن لی، اطمینان کا سانس لیا اور پلک جھپکتے ہی سو گیا۔ سوتے سوتے میری آنکھوں کے سامنے نمک کی کان کا منظر آیا، جہاں میرے ابا کام کرتے تھے، جہاں جوان ہو کر مجھے کام کرنا پڑا اور جہاں پہلی بار میں اپنی اماں کے ساتھ اپنے ابا کا کھانا لے کر گیا تھا۔ افوہ!کتنی بڑی کان تھی وہ چاروں طرف نمک کے پہاڑ نمک کے ستون، نمک کے آئینے نمک کی دیواروں میں لگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ نمک کی آبی جھیل تھی جس کے چاروں طرف نیلگوں دیواریں تھیں اور چھت بھی نمک کی تھی جس سے قطرہ قطرہ کر کے نمک کا پانی رستا تھا اور نیچے گر کر جھیل بن گیا تھا اور یکایک مجھے خیال آیا یہ اس عورت کے آنسو ہیں جو بڑے پیر کی بد دعا سے نمک کا پہاڑ بن چکی ہے۔

    میرے ابا اس جھیل کو دیکھ کر بولے:’’یہاں اس قدر پانی ہے پھر بھی پانی کہیں نہیں ملتا۔ دن بھر نمک کی کان میں کام کرتے کرتے سارے جسم پر نمک کی پتلی سی جھلی چڑھ جاتی ہے جسے کھرچو تو نمک چورا چورا ہو کر گرنے لگتا ہے۔ اس وقت کس قدر وحشت ہوتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہیں میٹھے پانی کی جھیل ہو اور آدمی اس میں غوطے لگاتا جائے۔‘‘
    ’’پانی !پانی!
    پانی سارے گاؤں میں کہیں نہیں تھا۔ پانی نمک کے پہاڑ پر بھی نہیں تھا۔ پانی تھا تو سامنے پہاڑ پر جس نے محبت میں بے وفائی نہیں کی تھی۔ یا پانی پھر رویل ندی میں تھا۔ لیکن یہ ندی بھی چھ مہینے غائب رہتی تھی اور پھر آخر ایک دن یہ بالکل غائب ہو گئی اور آج تک اس کے نیلے پتھر اور سوکھی ریت اور اس کے کنارے کنارے چلنے والی عورتوں کے نااُمید قدم اس کی راہ تکتے ہیں۔ لیکن یہ میرے بچپن کی کہانی نہیں ہے، یہ میرے لڑکپن کی کہانی ہے۔ جب ہمارے گاؤں سے بہت دور ان پہاڑی سلسلوں کے دوسری طرف سیکڑوں میل لمبی جاگیر کے مالک راجہ اکبر علی خان نے ہمارے دیہات والوں کی مرضی کے خلاف رویل ندی کا بہاؤ موڑ کر اپنی جاگیر کی طرف کرلیا اور ہماری تلہٹی کو اور آس پاس کے بہت سارے علاقے کو سوکھا، بنجر اور ویران کر دیا۔ اس وقت ندی کے کنارے ہمارا گاؤں اور اس وادی کے اور دوسرے بہت سے گاؤں پریشان ہو گئے۔ اس طرح ہمارے لئے رویل ندی مر گئی اور اس کا پانی بھی مر گیا اور ہمارے لئے ایک تلخ یاد چھوڑ گیا۔

    مجھے یاد ہے اس وقت گاؤں والوں نے دوسرے گاؤں والوں سے مل کر سرکار سے اپنی کھوئی ہوئی ندی مانگی تھی کیونکہ ندی تو گھر کی عورت کی طرح ہے۔ وہ گھر میں پانی دیتی ہے، کھیتوں میں کام کرتی ہے، ہمارے کپڑے دھوتی ہے، جسم کو صاف رکھتی ہے۔ ندی کے گیت اس کے بچے ہیں جنہیں وہ لوری دیتے ہوئے، تھپکتے ہوئے مغرب کے جھولے کی طرف لے جاتی ہے۔ پانی کے بغیر ہمارا گاؤں بالکل ایسا ہے جیسے گھر عورت کے بغیر گاؤں والوں کو بالکل ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے ان کے گھر سے ان کی لڑکی اغوا کر لی ہو۔ وہی غم، وہی غصہ تھا، وہی تیور تھے، وہی مرنے مارنے کے انداز تھے۔ لیکن راجہ اکبرعلی خاں چکوال کے علاقے کا سب سے بڑا زمیندار تھا۔ حکومت کے افسروں کے ساتھ اس کا گہرا اثر و رسوخ تھا۔ نمک کی کان کا ٹھیکہ بھی اس کے پاس تھا۔

    نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں والوں کو ان کی ندی واپس نہ ملی، الٹا ہمارے بہت سے گاؤں والے، جو نمک کی کان میں کام کرتے تھے، باہر نکال دیے گئے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے اپنے گاؤں کے اغوا شدہ پانی کو واپس بلانے کی جرآت کی تھی۔ مجھے یاد ہے اس روز ابا کانپتے کانپتے گھر آئے تھے۔ ان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا اور بار بار اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتے: توبہ توبہ! کیسی غلطی ہوئی۔ وہ تو اللہ کا کام تھا کہ میں بچ گیا ورنہ راجہ صاحب مجھے نکال دیتے، میں تو اب کبھی راجہ کے خلاف عرضی نہ دوں، چاہے وہ پانی کیا میری لڑکی ہی کیوں نہ اغوا کر کے لے جائیں۔ توبہ توبہ!

    اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے گاؤں میں پانی کی عزت لڑکی کی طرح بیش قیمت ہے۔ پانی جو زندگی دیتا ہے۔ پانی جو رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ پانی، جو منہ دھونے کو نہیں ملتا۔ پانی، جس کے نہ ہونے سے ہمارے کپڑے بھورے اور میلے رہتے ہیں، سر میں جوئیں، جسم پر پسینے کی دھاریاں اور روح پر نمک جما رہتا ہے۔ یہ پانی تو سونے سے زیادہ قیمتی ہے اور لڑکی سے زیادہ حسین۔ اس کی قدر اور قیمت ہمارے گاؤں والوں سے پوچھیے جن کی زندگی پانی کے لیے لڑتے جھگڑتے گزرتی ہے۔ ایک دفعہ سامنے کے پہاڑ کے میٹھے چشمے سے پانی لانے کے لیے سرور خاں کی بیوی سیداں اور ایوب خاں کی بیوی عائشاں دونوں آپس میں لڑ پڑی تھیں حالانکہ دونوں اتنی گہری سہیلیاں تھیں کہ ہر وقت اکٹھی رہتیں، گھر بھی ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ چشمے پر بھی پانی اکٹھے ہی لینے جاتی تھیں۔پہلے ایک پھر دوسری پانی بھرتی۔ باری باری وہ دونوں ایک دوسرے کا گھڑا اٹھا کے سر پر رکھتیں اور پھر باتیں کرتی ہوئی واپس چل پڑتیں۔ لیکن آج نہ جانے کیا ہوا، آج جانے دونوں کو کیا جلدی تھی۔ ایک کہتی پہلے پانی میں بھروں گی، دوسری کہنے لگی نہیں میں بھروں گی۔ شاید انہیں غصہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں تھا۔ شاید غصہ انہیں اس لیے تھا کہ یہاں میٹھے پانی کا ایک ہی چشمہ تھا جہاں ندی کے سوکھ جانے کے بعد دور سے دوسرے لوگ پانی لینے کے لیے آتے تھے۔ منہ اندھیرے ہی عورتیں گھڑا لے کے چل پڑتیں۔ جب یہاں پہنچتیں تو لمبی لائن پہلے سے موجود ہوتی یا چشمے کے منہ سے ایک ایسی پتلی سی دھار کو نکلتے دیکھتیں جو آدھے گھنٹے میں مشکل سے ایک گھڑا بھرتی تھی۔ اور تین کوس کا آنا جانا قیامت سے کم نہ تھا۔ لڑائی کی وجہ کچھ بھی ہو اصلی لڑائی پانی کی تھی۔ دونوں عورتوں نے دیکھتے دیکھتے ایک دوسرے کے چہرے نوچ لیے، گھڑے توڑ دیے، کپڑے پھاڑ ڈالے اور پھر روتی ہوئی اپنے اپنے گھروں کو گئیں۔ تب سیداں نے سرور خاں کو بھڑکایا اور عائشاں نے ایوب خاں کو۔ دونو ں خاوند غصے سے بیتاب ہو کے کلہاڑیاں لے کے باہر نکل پڑے اور پیشتر اس کے کہ لوگ آکے بیچ بچاؤ کریں دونوں نے کلہاڑیوں سے ایک دوسرے کو ختم کر دیا۔ شام ہوتے ہوتے دونوں ہمسایوں کا جنازہ نکل گیا۔

    ہمارے گاؤں کے قبرستان کی بہت سی قبریں پانی نے بنائی ہیں۔ میرے لڑکپن کے زمانے میں جب دو قتل ہوئے اس وقت سامنے کے پہاڑ پر ایک ہی میٹھے پانی کا چشمہ تھا لیکن بعد میں جب میں اور بڑا ہوا تو یہاں ایک اور چشمہ بھی نکل آیا۔ اس نئے چشمے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ہمارے پوٹھوہار میں سخت کال پڑا تھا اور گرمی کی وجہ سے علاقے کے سارے ندی نالے اور کنویں سوکھ گئے تھے۔ صرف کہیں کہیں ان چشموں میں پانی رہ گیا تھا۔ ان دنوں ہمارے گھروں میں عورتیں رات کے دو بجے ہی اٹھ کے چل دیتیں اور چشمے کے نیچے ہمیشہ گھڑوں کی ایک لمبی قطار جس میں سے پیاس سے بلکتے ہوئے بچوں کی صدا آتی تھی۔

    اس زمانے میں بڑے بڑے لوگ نیکی اور خدائی سے منحرف ہو گئے اور ان لوگوں میں سب سے برا کام ذیلدار ملک خاں نے کیا۔ اس نے تھانیدار فضل علی سے مل کے اس چشمے پر پولیس کا پہرہ لگا دیا اور پھر تحصیل دار غلام نبی سے مل کے چشمے کے ارد گرد کی ساری زمین خرید کر راتوں رات اس پر ایک چاردیواری باندھ دی اور چار دیواری کے باہر تالا لگا دیا۔ اب اس چشمے سے کوئی آدمی بلا اجازت پانی نہ لے سکتا تھا کیونکہ اب یہ چشمہ ذیلدارکی ملکیت تھا اور اس نے چشمے سے پانی لے جانے والے گھڑوں پر اپنا ٹیکس رکھ دیا۔ ایک گھڑے پر ایک آنہ، دو گھڑوں پر دو آنے۔ تب سارے گاؤں میں ظلم کے خلاف شور مچ گیا۔ لیکن پولیس سردار ذیلدار ملک خاں کی حمایت میں تھی، قانون بھی اس کی طرف تھا اور جدھر قانون تھا پانی بھی ادھر تھا۔ اس لیے گاؤں کے سارے جوان اور بڈھے اور بچّے جمع ہو کے میرے ابا کے پاس آئے اور بولے؟’’چچا خدا بخش اب تم ہی ہمیں اس مصیبت سے نجات دلوا سکتے ہو۔‘‘

    ’’وہ کیسے ؟‘‘ میرے ابا نے حیران ہو کے سوال پوچھا۔ سفید ریش بڈھے حاکم خاں نے کہا ’’یاد ہے یہ میٹھے پانی کا چشمہ، جواب ذیلدار ملک خاں کا ہو گیا، یہ چشمہ بھی تم نے دریافت کیا تھا۔ کیا تم دوسرا چشمہ نہیں ڈھونڈ سکتے؟ آخر اس پہاڑ کے اندر، اس کے سینے میں اور بھی تو کہیں میٹھا پانی ہو گا جو انسان کو آب حیات بخش سکتا ہے۔ خدا بخش تم ہم سب سے قابل ہو۔ اپنی عقل دوڑاؤ ہم تمہارے ساتھ مرنے مارنے کو تیار ہیں۔ ہمارے گاؤں میں پانی نہیں ہے اور اب پانی چاہیے۔‘‘

    میرا باپ چارپائی پر اکڑوں بیٹھا تھا۔ اسی وقت اللہ کا نام لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ سارا گاؤں اس کے ساتھ تھا۔ پہاڑ پر چڑھائی تھی اور تلاش پانی کی تھی۔

    ایسے ہرجائی کی تلاش کے لیے ایک تیشہ نہیں ایک آئینہ چاہیے جس کے سامنے پہاڑ کا دل اس طرح ہو جیسے ایک کھلی کتاب۔ آخر میرے گاؤں والوں نے کچھ سمجھ کر میرے باپ کو اس کام کے لیے چنا تھا۔ اس روز ہم دن بھر اس بلند و بالا پہاڑ کی خاک چھانتے رہے۔ ہم نے کہاں کہاں اس پانی کو تلاش نہیں کیا: بیریوں کی گھنی جھاڑیوں میں، چٹانوں کی گہری درزوں میں، سیاہ ڈراؤنی کھوؤں میں، جنگلی جانوروں کے بھٹ میں۔ پانی کی تلاش میں ہم نے سارے پرانے چشمے کھدوائے لیکن ان کا کھودنا ایسے ہی تھا جیسے آدمی زندگی کی تلاش میں قبریں کھود ڈالے۔ پانی کہیں نہیں ملا۔ ایک چور کی طرح اس نے جگہ جگہ اپنے چھوٹے سراغ چھوڑے لیکن آخر کو وہ ہمیشہ ہمیں جل دے کر کہیں غائب ہو جاتا تھا۔ جانے فطرت کے کس کونے میں بیٹھا اپنے چاہنے والوں پر ہنس رہا تھا۔ لیکن گاؤں والوں نے آس نہیں چھوڑی۔ وہ سارا دن میرے بابا کے پیچھے پیچھے پانی کی کھوج کرتے رہے۔ آخر جب شام ہونے لگی تو میرے ابا نے پسینہ پونچھ کر ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کے ادھر نظر دوڑائی جدھر سورج غروب ہو رہا تھا۔ یکایک انہیں غروب ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں چٹانوں کی ایک گہری درز میں فرن کا سبز ہ نظر آیا اور کہتے ہیں جہاں فرن کا سبزہ ہوتا ہے وہاں پانی ضرور ہوتا ہے۔ فرن پانی کا جھنڈا ہے اور پانی ایک گھومنے والی قوم ہے۔ پانی جہاں جاتا ہے اپنا جھنڈا ساتھ لے جاتا ہے۔
    ایک چیخ مار کر جلدی سے میرے ابا اس طرف لپکے جہاں فرن کا سبزہ اگا تھا۔ گاؤں والے ان کے پیچھے پیچھے بھاگے۔ جلدی جلدی میرے ابا نے اپنے ناخنوں ہی سے زمین کو کریدنا شروع کر دیا۔ زمین، جو اوپر سے سخت تھی، نیچے سے نرم ہوتی گئی گیلی ہوتی گئی۔ آخر میں زور سے پانی کی ایک دھار اوپر آئی اور سیکڑوں سوکھے ہوئے گلوں سے مسرت کی آواز نکلی:
    ’’پانی! پانی۔‘‘
    ابا نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اوک میں پانی بھرا۔ ساری نگاہیں ابا کے چہرے پر تھیں، سیکڑوں دل دھڑک رہے تھے۔: یااللہ پانی میٹھا ہو، یااللہ پانی میٹھا ہو، یااللہ پانی میٹھا ہو۔؎

    ابا نے پانی چکھا۔’’پانی میٹھا ہے۔‘‘ابا نے خوشی سے کہا۔ گاؤں والے زور سے چلائے :’’پانی میٹھا ہے!‘‘ساری وادی میں آوازیں گونج اٹھیں:’’میٹھا پانی مل گیا، پانی میٹھا ہے!‘‘

    ساری وادی میں ڈھول بجنے لگے۔ عورتیں گانے لگیں، جوان ناچنے لگے، بچے شور مچانے لگے۔ گاؤں والوں نے جلدی سے چشمے کو کھود کر اپنے گھیرے میں لے لیا۔ اب چشمہ ان کے بیچ میں تھا اور وہ اس کے چاروں طرف تھے اور وہ اسے مڑ مڑ کر اس طرح محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے جیسے ماں اپنے نوزائیدہ بچے کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ وہ رات مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔ اس رات کوئی آدمی گاؤں میں واپس نہیں گیا۔ اس رات سارے گاؤں نے چشمے کے کنارے جشن منایا۔ اس رات تاروں کی گود میں بھوری بیریوں کے سائے میں ماؤں نے چولہے سلگائے، بچوں کو تھپک تھپک کے سلایا، اس رات کنواریوں نے لہک لہک کر گیت گائے۔ ایسے گیت جو پانی کی طرح نرمل اور سندر تھے، جن میں جنگلی جھرنوں کا سا حسن اور آبشاروں کی سی روانی تھی۔ اس رات ساری عورتیں خوشی سے بے قرار تھیں، سارے بیج تخلیق سے بے قرار ہو کر پھوٹ پڑے تھے۔

    ایسی رات ہمارے گاؤں میں کب آئی تھی جب ابا خدا بخش نے پانی ڈھونڈ نکالا تھا۔ پانی جو انسان کے ہاتھوں کی محنت تھا،اس کے دل کی محبت تھا۔آج پانی ہمارے ہاں اس طرح آیا تھا جیسے بارات ڈولی لے کر آ تی ہے۔ وہ نیا چشمہ ہمارے درمیان آج اس طرح ہولے ہولے شرمیلے انداز میں چل رہا تھا جیسے نئی دلہن جھجک جھجک کر اجنبی آنگن میں پاؤں رکھتی ہے، اس رات میرے ایک ہاتھ میں پانی تھا، دوسرے ہاتھ میں بانو کا ہاتھ تھا اور آسماں پر ستارے تھے۔ اس نئے چشمے کے ساتھ میری جوانی کی بہترین یادیں وابستہ ہیں۔ اس چشمے کے کنارے میں نے بانو سے محبت کی۔ بانو جس کا حسن پانی کی طرح نایاب تھا، جسے دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آتا تھا کہ جانے اس زمین کی گود میں کتنے ہی میٹھے چشمے نہاں ہیں، کتنی حسین یادیں منجمد ہیں، موسم گرما کے کتنے ہی شوخ چمکتے ہوئے پھول، خزاؤں کے سنہری پتے، زمستان کی پاکیزہ برف، بانو کی محبت بھی کتنی خاموش اور چپ چاپ تھی، زمین کے نیچے بہنے والے پانی کی طرح۔

    وہ رات کے اندھیرے میں یا فجر سے بہت پہلے اس چشمے کے کنارے آتی تھی، جب یہاں اور کوئی نہ ہوتا میرے سوا۔ وہ گھڑے کو چشمے کی دھار کے نیچے رکھ دیتی۔ پانی گھڑے سے باتیں کرنے لگتا اور میں بانو سے۔ مجھے وہ دن یاد آتا جب میں نے دادی اماں سے پوچھا تھا:’’دادی اماں عاشق کس کو کہتے ہیں؟‘‘

    اور پھر اس چشمے کے کنارے مجھے وہ رات بھی یاد ہے جب میں کان میں کام کرتا تھا اور دن بھر تھک کے گھر لوٹتا تھا اور اس تھکن سے چور ہو کر سو جاتا تھا، صبح ہی آنکھ کھلتی تھی۔ کئی دنوں سے میں بانو سے چشمے پر ملنے نہ گیا تھا مگر کوئی بے قراری نہ تھی۔ وہ ساتھ کے گھر میں تو رہتی تھی۔ انہی دنوں میں اس کے چچا کا لڑکا غضنفر بھی آیا اور چلا بھی گیا لیکن مجھے اس سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملی کیونکہ کان میں نیا نیا ملازم ہوا تھا، کام سیکھنے کا بہت شوق تھا اور یہ تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ نمک کی کان میں جا کے ہر شخص نمک ہو جاتا ہے۔
    ایک رات بانو نے مجھے کہا کہ رات کے دو بجے چشمے پر اس سے ملوں۔ میں نے کہا:’’میں بہت تھکا ہوا ہوں۔‘‘
    وہ بولی :’’نہیں ضروری کام ہے، آنا ہو گا۔‘‘چنانچہ میں گیا۔
    دو بجے کے وقت آدھی رات میں چشمے پر کوئی نہیں تھا، ہم دونوں کے سوا۔ میں نے اس سے پوچھا:’’کیا بات ہے؟‘‘
    وہ بولی،’’میں گاؤں چھوڑ کے جا رہی ہوں۔‘‘
    میرا دل دھک سے رہ گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے چشمہ چلتا چلتا رک گیا۔ میرے گلے سے آواز نکلی:’’کیوں؟‘‘
    ’’میری شادی طے ہو گئی ہے۔‘‘
    کس سے؟ چاچا کے لڑکے کے ساتھ۔ وہ چکوال میں ہے۔ صوبیدار ہے۔

    اور تم جا رہی ہو! میں نے تلخی سے پوچھا۔ ہاں وہ چپ ہوگئی۔ میں بھی چپ ہو گیا۔ سوچ رہا تھا اسے ابھی جان سے نہ مار دوں یا شادی کی رات قتل کروں۔ تھوڑی دیر رک کے بانو پھر بولی:’’سنا ہے چکوال میں پانی بہت ہوتا ہے، سنا ہے وہاں بڑے بڑے نل ہوتے ہیں جن سے جب چاہو ٹوٹی گھما کے پانی نکال لو۔ اس کی آواز خوشی کے مارے کانپ رہی تھی۔ وہ شاید اور بھی کچھ کہتی لیکن شاید میری آزردگی کا خیال کر کے چپ ہو گئی۔

    میں نے اس کے بالکل قریب آکر اسے دونوں شانوں سے پکڑ لیا اور غور سے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس نے ایک لمحہ میری طرف دیکھ کر آنکھیں جھکا لیں۔ اس کی نگاہوں میں میری محبت سے انکار نہیں تھا بلکہ پانی کا اقرار تھا۔ میں نے آہستہ سے اس کے شانے چھوڑ دیے اور الگ ہو کے کھڑا ہو گیا۔ یکایک مجھے محسوس ہوا کہ محبت سچائی خلوص اور جذبے کی گہرائی کے ساتھ ساتھ تھوڑا پانی بھی مانگتی ہے۔ بانو کی جھکی ہوئی نگاہوں میں اک ایسے جانگسل شکایت کا گریز تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو: جانتے ہو ہمارے گاؤں میں کہیں پانی نہیں ملتا۔ یہاں میں دو دو مہینے نہا نہیں سکتی۔ مجھے اپنے آپ سے اپنے جسم سے نفرت ہوگئی ہے۔ بانو چپ چپ زمین پر چشمے کے کنارے بیٹھ گئی۔ میں اس تاریکی میں بھی اس کی آنکھوں کے اندر اس کی محبت کے خواب کو دیکھ سکتا تھا جو گندے بدبو دار جسموں پسوؤں، جوؤں اور کھٹملوں کی ماری غلیظ چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی محبت نہ تھی۔ اس محبت سے نہائے ہوئے جسموں، دھلے ہوئے کپڑوں اور نئے لباس کی مہک آتی تھی۔ میں بالکل مجبور اور بے بس ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ رات کے دو بجے۔ بانو اور میں۔ دونوں چپ چاپ کبھی ایسا سناٹا جیسے ساری دنیا کالی ہے، کبھی ایسی خاموشی جیسے سارے آنسو سو گئے ہیں۔ چشمے کے کنارے بیٹھی ہوئی بانو آہستہ آہستہ گھڑے میں پانی بھرتی رہی۔ آہستہ آہستہ پانی گھڑے میں گرتا ہوا بانو سے باتیں کرتا رہا۔ اس سے کچھ کہتا رہا، مجھ سے کچھ کہتا رہا۔ پانی کی باتیں انسان کی بہترین باتیں ہیں۔

    بانو چلی گئی۔ جب بانو چلی گئی تو میرے ذہن میں بچپن کی وہ کہانی آئی جب محبت روئی تھی اور آنسو نمک کے ڈلے بن گئے تھے۔ اس وقت میری آنکھ میں آنسو بھی نہ تھا لیکن میرے دل کے اندر نمک کے کتنے بڑے ڈلے اکٹھے ہوگئے تھے! میرے دل کے اندر نمک کی ایک پوری کان موجود تھی۔ نمک کی دیواریں، ستون، غار اور کھارے پانی کی ایک پوری جھیل۔ میرے دل اور دماغ اور احساسات پر نمک کی ایک پتلی سی جھلی چڑھ گئی تھی اور مجھے یقین ہوچلا تھا کہ اگر میں اپنے جسم کو کہیں سے بھی کھرچوں گا تو آنسو ڈھلک کر بہہ نکلیں گے، اس لیے میں چپ چاپ بیٹھا رہا اور جب وہ میری طرف دیکھ کر ڈھلوان پر مڑ گئی اس وقت بھی میں چپ چپ بیٹھا رہا کیونکہ میرے پاس پانی نہیں تھا۔ اور بانو پانی کے پاس جارہی تھی۔

    جس رات بانو کا بیاہ غضنفر سے ہوا اس رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ہماری کھوئی ہوئی ندی ہمیں واپس مل گئی ہے اور نمک کے پہاڑ پر میٹھے پانی کے چشمے ابل رہے ہیں اور ہمارے گاؤں کے مرکز میں ایک بہت بڑا درخت کھڑا ہے۔ یہ درخت سارے کا سارا پانی کا ہے، اس کی جڑیں، شاخیں، پھل، پھول، پتیاں سب پانی کی ہیں اور اس درخت کی شاخوں سے، پتوں سے پانی بہہ رہا ہے اور یہ پانی ہمارے گاؤں کی بنجر زمین کو سیراب کر رہا ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ کسان ہل جوت رہے ہیں، عورتیں کپڑے دھو رہی ہیں، کان کن نہا رہے ہیں اور بچے پھولوں کے ہار لیے پانی کے درخت کے گرد ناچ رہے ہیں اور بانو صاف ستھرے کپڑے پہنے میرے کندھے سے لگی مجھ سے کہہ رہی ہے: اب ہمارے گاؤں میں پانی کا درخت اُگ آیا ہے۔ اب میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ یہ بڑا عجیب خواب تھا لیکن میں نے جب اپنے باپ کو سنایا تو وہ مارے ڈر کے کانپنے لگے اور بولے: ’’تم نے یہ خواب میرے سوا کسی دوسرے کو تو نہیں سنایا‘‘میں نے کہا :’’نہیں ابا، مگر آپ ڈر کیوں گئے ہیں۔ یہ تو ایک خواب تھا۔

    وہ بولے:’’ارے خواب تو ہے مگر یہ ایک سرخ خواب ہے۔‘‘میں نے ہنس کر کہا:’’نہیں ابا جو درخت میں نے خواب میں دیکھا وہ سرخ نہیں تھا۔ اس کا رنگ تو بالکل جیسے پانی کا ہوتا ہے۔ وہ پانی کا درخت تھا۔ اس کا تنا، شاخیں، پتے سب پانی کے تھے۔ ہاں اس درخت پر پھلوں کی جگہ کٹ گلاس کی چمکتی ہوئی صراحیاں لٹکی تھیں اور ان میں پانی بچوں کی ہنسی کی طرح چمکتا تھا اور فواروں کی طرح اونچا جا کے گرتا تھا۔‘‘ وہ بولے۔’’کچھ بھی ہو یہ بڑا خطرناک سپنا ہے۔ اگر پولیس نے کہیں سن لیا یا تم نے کسی سے اس کا ذکر کر دیا تو وہ تمہیں اس طرح پکڑکے لے جائیں گے جس طرح وہاں مزدوروں کو پکڑ کے لے گئے تھے جنہوں نے ہمارے گاؤں کی ندی کو واپس لانا چاہا تھا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم اس خواب کا ذکر کسی سے نہ کرو۔ اسے بھول جاؤ کیونکہ اس خواب کا چرچا کر کے اس سے کچھ نہ ہو گا، سوکھی ندی ہمیشہ سوکھی رہے گی اور پیاسے سدا پیاسے رہیں گے۔‘‘مجھے اپنے اباکے لہجے کی حسرت آج تک یاد ہے۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ شروع شروع میں اس کا ذکر میں نے کسی سے نہیں کیا لیکن جب چند مزدور ساتھیوں سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو وہ میرا خواب دیکھ کر ڈرنے کی بجائے ہنسنے لگے اور جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے تو انہوں نے کہا:’’بھلا اس میں ڈرانے کی کیا بات ہے۔ یہ خواب تو بہت اچھا ہے اور یہ ان کی کان میں ہر ایک دیکھ چکا ہے۔‘‘
    ’’کیا سچ کہتے ہو! وہی پانی کا درخت؟‘‘
    ’’ہاں ہاں۔ وہی پانی کا درخت گاؤں میں، ایک ٹھنڈا میٹھا پانی کا چشمہ ہر نمک کی کان میں!‘‘
    ’’گھبراؤ نہیں، ایک دن یہ خواب ضرور پورا ہوگا۔‘‘
    پہلے مجھے ان کی باتوں کا یقین نہیں آیا۔ لیکن اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام کرتے کرتے اب مجھے یقین ہو چلا ہے کہ ہمارا خواب ضرور پورا ہوگا۔ایک دن ہمارے گاؤں میں پانی کا درخت ضرور اگے گا۔ اور جو جام خالی ہیں وہ بھر جائیں گے اور جو کپڑے میلے ہیں وہ دھل جائیں گے اور جو دل ترسے ہوئے ہیں وہ کھل جائیں گے اور ساری زمینیں اور ساری محبتیں اور سارے ویرانے اور سارے صحرا شاداب ہو جائیں گے۔

    (کرشن چندر کا افسانہ)

  • چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    "یہاں اس جزیرے پر ہم جڑی بوٹیوں کی دکان کہاں ڈھونڈیں گے، یہ تو سیاحوں کا جزیرہ ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں کا کیا کام؟” دانیال بولا۔ "یہاں تو نقشے، پینسل اور شیشے کے گلوب ہی ملیں گے۔ وہ اس وقت ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نیچے قصبے کی طرف دیکھ رہے تھے: "اور تب کیا ہوگا جب نکولس سے ہمارا سامنا ہوگا؟”

    "دانی پلیز، اتنی مایوسی کی باتیں نہ کرو۔” فیونا جلدی سے بولی: "پہلے ہم دیکھ تو لیں۔ یہاں ضرور کوئی ایسی دکان ہوگی جہاں جڑی بوٹیاں فروخت ہوں گی۔ یونانی اپنے کھانوں میں جڑی بوٹیوں کا بہت استعمال کرتے ہیں اور یہاں صرف سیاح ہی نہیں مقامی لوگ بھی ہیں جو یہیں پر رہتے ہیں۔”

    وہ ساحل پر دکانوں کی پھیلی ہوئی لمبی قطار کو دیکھنے لگے۔ وہ جہاں کھڑے تھے، وہاں پتھریلی سیڑھیاں نیچے کو جا رہی تھیں۔ یہ اتنی ڈھلواں تھیں کہ ان پر نیچے اترنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انھیں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔

    "یہاں کئی جگہ اس قسم کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، پتا نہیں یہ کس نے اور کب بنائی ہیں؟” دانیال نے تبصرہ کیا۔

    ‘کیا یہاں پتھر لا کر سیڑھیاں بنائی گئیں یا پہاڑ ہی میں تراشی گئی ہیں!” جبران حیرت سے سیڑھیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے بیٹھ کر سیڑھیوں پر انگلیاں پھیریں اور پھر بولا: "کچھ پتا نہیں، تاہم ان پر سخت محنت ہوئی ہے۔”

    نیچے اترنے کے بعد ان کی جان میں جان آ گئی۔ "اف میری ٹانگیں تو جیلی کی طرح کانپنے لگی ہیں۔ میں تو دوبارہ یہ مشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔” فیونا اپنی ٹانگوں کو جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگی۔

    "ہمیں نکولس کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔” جبران بولا۔ "چلو ان بغلی گلیوں میں چلتے ہیں۔ اگر چہ دیر لگے گی لیکن ہم بے خطر وہاں پہنچ جائیں گے۔”

    چند منٹ بعد وہ دکانوں کی ایک قطار تک پہنچ گئے۔ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم نکال کر دی اور کہا: "ہم الگ الگ دکانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کو بھی جڑی بوٹی ملی، وہ خرید کر واپس اسی جگہ آئے۔” وہ تینوں الگ الگ دکانوں کی طرف چل پڑے۔

    ایک گھنٹے بعد وہ سیڑھیوں کے پاس جمع ہو گئے۔ "میں نے وہاں نکولس کو دیکھا لیکن اچھا ہوا کہ مجھ پر اس کی نظر نہیں پڑ سکی۔ وہ اب بھی بہت غصے میں نظر آ رہا تھا۔ میں سر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگا۔” دانیال نے انھیں بتایا۔

    "کیا تمھیں جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان بھی ملی یا نہیں؟” فیونا نے پوچھا۔ دانیال نے جواب دیا: "نہیں، میں جن دکانوں میں گیا وہاں صرف شرٹس اور برساتیاں ہی فروخت ہو رہی تھیں۔”

    "میں جن دکانوں میں گیا وہاں مجسمے، جھنڈے اور اسی قسم کی چیزیں تھیں۔” جبران نے کہا۔ فیونا نے بھی مایوسی سے سَر ہلاتے ہوئے کہا: "مجھے بھی جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان نہیں ملی۔ اب مجبوراً ہمیں یہاں کے لوگوں سے پوچھنا پڑے گا، شاید کوئی ایسا شخص ملے جس نے اپنے باغیچے میں وہ بوٹی اگائی ہو۔ لیکن پہلے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یونانی زبان میں لیڈی مینٹل کو کیا کہتے ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا: "کیا تم جانتے ہو؟”

    "کیوں، میں کیوں جانوں گا بھلا؟” جبران نے ماتھے پر بل ڈا ل دیے۔ فیونا مسکرائی: "اس لیے کہ تمھیں یونان کے متعلق بہت ساری معلومات ہیں۔”

    جبران نے کہا : "صرف اسے دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔”

    "تو ٹھیک ہے، ہم ایک بار پھر مختلف سمتوں میں جا کر یہاں ادھر ادھر اُگے پودوں سے پتے توڑ کر ایک گھنٹے بعد پھر یہاں ملیں گے۔ اور یہاں جبران انھیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرے گا۔” فیونا نے کہا اور ایک طرف چل پڑی۔ باقی دونوں بھی مختلف اطراف میں روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ تینوں سیڑھیوں کے پاس پھر اکھٹے ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے پودوں کے پتے تھے۔ جبران کے ہاتھ خالی تھے۔ اس نے فیونا اور دانیال کے لائے ہوئے پتے دیکھ اور سونگھ کر کہا: ” ان میں سے کوئی بھی لیڈی مینٹل نہیں ہے۔”

    ان کے چہرے پھر اتر گئے۔ فیونا حتمی لہجے میں بولی: "تب پھر ہمیں بچھوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ سوچنا ہوگا۔ چلو واپس خانقاہ چلتے ہیں اور پھر سے اس پر سوچتے ہیں۔”

    تینوں سیڑھیوں کی طرف منھ کر کے اوپر دیکھنے لگے۔ "میں تو ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھنا چاہتی، بس یہ آخری مرتبہ ہے۔” فیونا منھ بنا کر بولی۔

    "رک جاؤ چورو! ” اچانک ان کی سماعتوں سے چیخنے کی آواز ٹکرائی۔ "وہ رہے آفیسرز، انھوں نے میرا گدھا چوری کیا تھا۔”

    یہ آواز ان کی سماعتوں پر بم کی طرح لگی تھی۔ وہ سناٹے میں آ گئے تھے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیلی وردی میں ملبوس تین سپاہیوں کے ساتھ ان کی طرف بھاگتا آ رہا تھا۔

    "بھاگو…!” فیونا چلائی۔

    وہ سیڑھیوں سے چھلانگیں مار کر اترے۔ "اگر ہم الگ ہوئے تو خانقاہ میں ملیں گے۔” فیونا بولی اور تیر کی طرح پہاڑ کے دامن میں بنے گھروں کی طرف دوڑی۔ دانیال بھاگ کر کچھ فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اچھی طرح چھپ گیا ہے تو اس کی نظریں عین سامنے اُگے پودے پر پڑیں۔ وہ چونک اٹھا۔ اس کے پتے خاکی مائل سبز تھے۔ اس میں چھوٹے زرد رنگ کے پھول بھی کھلے تھے۔ "ارے یہی پہچان ہی تو بتائی تھی جبران نے۔” مسرت سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جلدی سے کئی شاخیں توڑیں اور پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیں۔ پھر وہ احتیاط سے جھاڑیوں سے سر باہر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دبے قدموں چلنے لگا۔ یکایک اسے نکولس کی آواز سنائی دی۔

    (جاری ہے)

  • ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    آپ لوگوں کی بڑی مہربانی کہ آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ ہر سنیچر کی رات میری باتیں سننے میرے غریب خانے پر تشریف لاتے ہیں، حالاں کہ لاکھ بار کہا کہ میں آپ ہی کی طرح کا عام آدمی ہوں۔ بس تھوڑا بہت مطالعہ کر لیتا ہوں اور اخبار بینی کا شوق ہے، ورنہ میں کوئی مفکر تو ہوں نہیں، اور ویسے بھی دو شادیاں کرنے والا بھلا مفکر ہو بھی کیسے سکتا ہے، آپ خود سوچیں!

    آپ حضرات اب مجھ سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ میں نے دو شادیاں کیوں کر رکھی ہیں؟

    ارے بھئی، سیدھی سی بات ہے، اولادِ نرینہ کے لیے اور کس لیے! میری پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیٹی کی پیدایش کے وقت کوئی طبّی پیچیدگی ہوگئی، جس کی وجہ سے مجبوراً پیدایش کا سلسلہ مستقل طور پر بند کرنا پڑا۔ اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ کیا مجھے اپنی نسل اور نام آگے بڑھانے کا کوئی حق نہیں تھا؟

    آپ اسلم صاحب کو تو جانتے ہی ہوں گے، ارے وہی اسلم صاحب، جن کا چند روز پہلے انتقال ہوا ہے۔ ان کے کوئی بیٹا نہیں تھا، صرف ایک بیٹی ہے، جسے رخصت کرنے کے بعد وہ اور اُن کی بیوی گھر میں تنہا رہ گئے تھے۔ پھر بیوی کے انتقال کے بعد تو وہ بالکل ہی اکیلے ہوگئے۔ جب بھی بیمار پڑتے، ان کی بیٹی کو ان کی خبر گیری کے لیے سسرال سے میکے آنا پڑتا۔ ان کی وفات سے ایک ہفتے پہلے اُن کی بیٹی نے اپنا بوریا بستر اُٹھا کر اُن کے گھر میں ڈال دیا۔ سُسرال جو بے چاری کا اتنا دور تھا، روز روز آنے جانے میں اُسے تکلیف ہوتی تھی، پھر آخری دنوں میں اسلم صاحب کی طبیعت بھی ایسی نہ تھی کہ انھیں ایک پل کے لیے بھی تنہا چھوڑا جا سکتا۔

    بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں، اُن کا اصل گھر میکا نہیں، سُسرال ہوتا ہے۔ اگر اسلم صاحب کے کوئی بیٹا ہوتا تو کیا بیٹی کو اس طرح باپ کے پیچھے خوار ہونا پڑتا؟

    جی! کیا کہا آپ نے؟ پھر توصیف صاحب اور ان کی بیوی کو اپنے دو شادی شدہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ایدھی اولڈ ہوم میں کیوں رہنا پڑ رہا ہے؟

    آپ نے مجھ پر خوب چوٹ کی ہے، لیکن یہ تو سوچیں کہ اس طرح کے معاملات کسی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں، ورنہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بیٹا ہی باپ کا سہارا بنتا ہے۔

    ہاں ہاں، مجھے پتا ہے، ابھی آپ اکرام صاحب کی مثال دیں کر کہیں گے کہ اُن کا بیٹا بڑھاپے کا سہارا بننے کی بہ جائے الٹا بوجھ بن گیا ہے اور اکرام صاحب کو اس عمر میں بھی اپنے تیس سالہ جوان بیٹے کو پالنا پڑ رہا ہے۔ ہیروئن کا نشہ جو کرنے لگا ہے!

    ارے بھئی، یہ بھی ایک استثنائی معاملہ ہے، ہمارے محلے یا شہر میں بھلا کتنے لوگ ہیں، جو ہیروئن کا نشہ کرتے ہوں گے؟

    میں پھر اپنی بات پر زور دوں گا کہ بیٹا ہی باپ کی نسل اور نام کو آگے بڑھاتا ہے۔

    اچھا ایک بات بتائیں، اگر میں مر گیا تو میری قبر کا خیال کون رکھے گا۔ اسلام میں تو عورت کا قبرستان جانا منع ہے۔

    بس صاحبو! اسی لیے میں دوسری شادی پر مجبور ہوا اور اوپر والے کے فضل و کرم اور آپ بھائیوں کی دعاؤں سے میری دوسری بیوی سے ایک بیٹا ہوا ہے۔ میں نے زندگی میں ہی اپنی قبر کی حفاظت کا سامان کر لیا ہے۔

    کیا کہا تم نے برخوردار، عورت بھی قبرستان جا سکتی ہے، اسلام اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

    دیکھو میاں، ابھی تم بچے ہو، اور تمھیں نیا نیا کتابیں پڑھنے کا شوق چڑھا ہے۔ دین کی باریکیاں سمجھنے میں ابھی تمھیں وقت لگے گا۔ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور ہمیں اس میں پڑنا نہیں چاہیے۔ پھر یہ بھی تو دیکھو کہ ویران قبرستان میں اکیلی عورت کیسے جائے گی۔ ایک مرد کو لازماً اس کے ساتھ جانا پڑے گا۔ میرے ہونے والے دامادوں کو اتنی فرصت کہاں ہوگی کہ وہ میری بیٹیوں کو قبرستان میں لیے پھریں۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کا احسان لیا ہے، جو مرنے کے بعد لوں گا؟ ویسے بھی بیٹے اور داماد میں فرق ہوتا ہے۔

    آپ لوگوں کو پتا ہے کہ اکہتر کی جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم کے درمیان شملہ میں جو بند کمرے میں مذاکرات ہوئے تھے تو پاکستانی وفد نے اپنے لیے ایک کوڈ (اشارہ) وضع کر لیا تھا، یعنی اگر مذاکرات کام یاب ہوئے تو ہم کہیں گے بیٹا پیدا ہوا ہے اور اگر ناکام ہوگئے تو کہیں گے بیٹی پیدا ہوئی ہے۔
    واہ! واہ! واہ! سبحان اللہ کیا مردانہ شاونزم ہے، واہ بھئی واہ مزا آگیا۔

    سیاست دانوں کے اور میرے خیالات کتنے ملتے جلتے ہیں۔ بھئی سیدھی سی بات ہے، اُس وفد میں شامل لوگ بھی میری طرح حقیقت پسند رہے ہوں گے۔ اس لیے میں بار بار آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ حقیقت کا سامنا کرنا سیکھیں، ہم کب تک کتابی باتیں دہراتے رہیں گے۔ منافقت یہی تو ہے کہ دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ اور۔

    دیکھیں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ بُرا نہ مانیے گا، ہمارے محلے کے نکڑ پر جو اشرف صاحب رہتے ہیں، اللہ نے جب انھیں بیٹی کی صورت میں پہلی اولاد سے نوازا تو انھوں نے محلے میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔

    ٹھہریں ٹھہریں، میں اپنے موقف کی خود نفی نہیں کر رہا، میری بات تو مکمل ہونے دیں۔ پھر جب ان کے ہاں بیٹا ہوا تو انھوں نے مٹھائی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ پورے محلے کی شان دار دعوت کر ڈالی۔

    آپ لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا اور اپنے سر کو کیوں جھکا رکھا ہے۔ دیکھیں، مسئلہ شرمندہ ہونے کا نہیں، بلکہ تسلیم کرنے کا ہے۔ میں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے دوسری شادی بیٹے کی خواہش کے لیے کی ہے۔ آپ لوگ بھی میری طرح سوچتے ہیں، لیکن تسلیم نہیں کرتے۔ اگر تسلیم کرتے تو میری اس بات کی بھی تائید کرتے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنی بیٹیوں کو گلی محلوں میں قایم معمولی فیس والے اسکولوں میں بھیجتے ہیں اور ہمارے بیٹے منہگے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

    لو بھئی چائے آگئی، آپ حضرات بلا تکلف نوش فرمائیں، باتوں کے ساتھ چائے کا دور بھی چلتے رہنا چاہیے، ویسے بھی دسمبر کے آخری دن چل رہے ہیں اور گیارہ بجے کے بعد سردی کو ہمارے مزاجوں کی فکر ستانے لگتی ہے۔

    اچھا ایک اور بات مجھے کہنے دیں، کہیں چائے کے چکر میں بھول نہ جاؤں۔ بعض لوگ شادی کارڈ پر اپنے بیٹے کا نام فخر سے لکھواتے ہیں، لیکن بیٹی کا نام گول کر جاتے ہیں اور اپنے نام کے حوالے کو کافی جانتے ہیں۔

    ”اختر حسین کی ’بیٹی‘ کی شادی شیخ رمضان کے بیٹے ’معین‘ سے ہونا قرار پائی ہے۔“ اس رویے کو آپ کیا نام دیں گے؟

    شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنے سے انھیں شاید اس بات کا دھڑکا رہتا ہوگا کہ کہیں لوگ اس نام سے جنسی لذت حاصل نہ کرنے لگیں۔ بے پردگی کا احتمال بھی اُن کے پیشِ نظر رہتا ہوگا۔ اگر بات اتنی سی ہوتی تو ٹھیک تھا، ہر شخص کو حق ہے کہ وہ شادی کارڈ پر اپنی بیٹی کا نام لکھوائے یا نہ لکھوائے، میں اور آپ اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ لیکن دوستو! پھر سیکڑوں باراتیوں کی موجودگی میں نکاح پڑھاتے وقت مولوی کو دلہن کا نام پکارنے سے روکا کیوں نہیں جاتا۔ اُس وقت تو سب خاموشی سے ”نامحرم“ کا نام سُن رہے ہوتے ہیں۔ کیا لڑکی کا نام سُننا جائز اور لکھنا ناجائز ہے؟

    ارے چھوڑیں، میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا، یہ جائز اور ناجائز کے فتوے ملاؤں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

    ہاں تو دوستو! یہ تو ہوا شادی کے موقع پر ہمارا عام رویہ۔ اب ذرا جنازے کا ماجرا بھی سُن لیجیے۔

    ابھی چند ماہ پہلے عقیل بھائی کا اٹھارہ سالہ بیٹا فوت ہوگیا۔ اُس کے جنازے میں ایک صاحب نے ان سے اس طرح تعزیت کی، ”اللہ آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔ ایک تو جوان موت، اوپر سے بیٹا!“

    آپ حضرات کی خاموشی سے لگتا ہے کہ آپ میری دلیل سے متفق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے دل کے کسی کونے کھدرے میں بیٹا اور بیٹی کے فرق کا احساس جاگزیں ہے، جس کی گواہی اکثر مواقع پر ہماری زبانیں دے بیٹھتی ہیں۔ میری طرح کے لوگ اسے فوراً تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن آپ لوگ کنّی کاٹ جاتے ہیں۔

    لیکن بھائیو! میری ان تمام باتوں کے باوجود میرے ساتھ ایک ایسا عجیب واقعہ پیش آیا، جس کی میں کوئی توجیہ نہیں پیش کر سکا، کوئی پھانس سی ہے، جو مسلسل میرے دل میں چبھے جا رہی ہے اور کسی طرح نکلنے کا نام نہیں لیتی۔

    ٹھہریے ٹھہریے، صبر کریں، بتاتا ہوں….. آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پچھلے ماہ ایک لٹیرے نے ٹی ٹی دکھا کر میرا موبائل فون چھین لیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل میں نے کسی کو نہیں بتائی۔ لیکن آج میں آپ کو بتا ہی دیتا ہوں۔

    ہُوا یہ کہ جب اُس لٹیرے نے پستول دکھا کر مجھ سے میرا موبائل فون مانگا تو میرے دل میں مزاحمت کا خیال آیا۔ جسے ہی اُس لٹیرے کی نظر چوکی، میں نے اس کے اسلحہ بردار ہاتھ پر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ ہم دونوں میں کشمکش ہونے لگی۔ میں اُس لٹیرے پر غالب آنے ہی والا تھا کہ شو مئی قسمت، اس کا دوسرا ساتھی جو قریب کے ایک درخت کی آڑ میں کھڑا تھا، اس کی مدد کو لپکا اور میں دوسرے ہی لمحے بے بسی کے عالم میں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ میری مزاحمت نے پہلے والے لٹیرے کو غضب ناک کر دیا تھا، اُس نے میرے اوپر پستول تانی اور ٹریگر پر انگلی کا دباؤ بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے کہ اس کی گولی مجھے آپ کو یہ قصّہ سنانے کے قابل نہ چھوڑتی، بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

    ”مجھے مت مارنا، میری چھوٹی چھوٹی دو معصوم بچیاں ہیں۔“

    جی! آپ نے کیا فرمایا، اس میں ایسی کیا بات ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہے، کوئی بھی شخص خدا اور اپنی اولاد کا واسطہ دے کر ڈاکو اور پولیس والوں سے رحم کی بھیک مانگ سکتا ہے۔

    آپ ٹھیک کہتے ہیں، لیکن یہ تو سوچیں کہ میرا ایک بیٹا بھی ہے، پھر میں نے خاص کر اپنی بچیوں کا ہی حوالہ کیوں دیا۔ یہ کیوں نہ کہا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یہ گتھی اب تک مجھ سے نہیں سلجھ رہی۔ اگر آپ حضرات کے پاس اس سوال کا جواب ہو تو مجھے ضرور مطلع فرمائیے گا۔

    اب آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں، رات کافی بیت گئی ہے، میرا بیٹا گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہا ہوگا، لیکن میری بچیاں میرے انتظار میں جاگ رہی ہوں گی۔ جب تک میں انھیں پیار نہ کر لوں، کم بخت سوتی ہی نہیں ہیں!

    (پیشِ نظر افسانے کے خالق شفیع موسیٰ منصوری ہیں جنھیں‌ پرنٹ میڈیا میں علمی و تحقیقی صحافت کے لیے پہچانا جاتا ہے، وہ ایک مؤقر روزنامے کے لیے فیچر نگاری کے علاوہ کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں)