Tag: اردو افسانہ

  • نابینا لڑکی

    نابینا لڑکی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو یہ حقیقت جاننے کے بعد بھی کہ وہ لڑکی نابینا ہے اس سے شادی کرتا ہے جو اس کے باپ کے دوست کی بیٹی ہے۔

    اس لڑکی کی پہلی بارات آئی تھی تو لڑکے والوں کی جانب سے لڑکی پر بہتان لگاتے ہوئے اسے لوٹا دیا گیا تھا۔ اس شخص نے بھی ان باتوں کو سچ جانا تھا اور نابینا لڑکی کے باپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ مگر ایک رات اس نے سرگوشی کی وہ آواز سنی جس پر وہ اس نابینا اور بہتان لگائی گئی لڑکی سے شادی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ کہانی پڑھیے۔

    میرے گھر کے برابر دیوار بیچ، ایک قاضی صاحب کا مکان تھا۔

    بیچارے ایک زمانے میں بڑے متمول آدمی تھے، مگر ریاست کی زندگی خصوصاً ملازمت انقلاب کی تصویر ہوا کرتی ہے۔ ذرا راجہ صاحب کے کان بھرے اور بے قصور پر آفت برپا ہوگئی۔ اسی طرح ان شریف قاضی صاحب کے تموّل نے افلاس کا پہلو بدلا، اور فقط پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کی قلیل رقم بہ ہزار دقت بچ بچا کر رہ گئی۔ اسی پر صبر شکر کے ساتھ قانع تھے اور اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتے تھے۔

    عربی اور فارسی کی قابلیت کے لحاظ سے دور دور تک ان کا شہرہ تھا، اور باہر سے اکثر اشخاص مشکل سے مشکل مسئلے حل کرانے آتے تھے۔

    قاضی صاحب کی صاحب زادی کی شادی کی تقریب جب ہوئی تو نکاح میں مجھے بھی مدعو کیا گیا مگر چند دو چند ضروریات کی وجہ سے میں شامل نہ ہو سکا۔ مگر ہمسایہ تھا، واقعات کی خبر برابر مل گئی۔ معلوم ہوا کہ دولھا کو پہلے سے اس لڑکی کی نسبت جس سے اب اس کی قسمت وابستہ ہونے والی تھی کچھ بھی معلوم نہ تھا، اور عین نکاح کے وقت نامعلوم کس بات کے علم پر اس نئی روشنی کے شیدا نے شادی سے قطعی انکار کر دیا۔ طرفین کی بڑی بدنامی ہوئی۔ اور آخر کار بارات واپس آگئی۔

    اس کے بعد خود دولھا سے میری راہ و رسم ہو گئی اور اس کی وجہ اس نے غریب لڑکی کی بدچلنی بیان کی۔ یہ سن کر میرے خیالات بھی قاضی صاحب کی طرف سے خراب ہونے لگے، اور میں نے ان سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ راستہ میں بھی ان سے کترا کر نکل جاتا۔ وہ دراصل مجھ سے محبت کرتے اور میرے والد بزرگوار کے بڑے سچّے دوست تھے۔

    اسی طرح چھ مہینے گزر گئے، اب گرمی کا موسم آ پہنچا۔ میری والدہ ضعیفہ تو صحن میں سویا کرتی تھیں۔ مگر میں اکیلا چھت پر لیٹا کرتا تھا۔ ایک دفعہ مجھے خوب یاد ہے جمعہ کا دن تھا۔ چلچلاتی گرمی تھی۔ پہر بھر دن سے ہوا بند تھی، دونوں وقت ملتے ہی مارا مارا کرکے میں نے کھانا کھایا اور سیدھا کوٹھے پر جا پڑا۔ چاروں طرف اجلی چاندنی چٹکی ہوئی تھی اور تارے اکا دکا نظر آتے تھے۔ دو تین گھنٹے یوں ہی کروٹیں بدلتے اور ہاتھ پاؤں مارتے کٹے۔ خداخدا کر کے 11 بجے ہوا ذرا سرسرائی اور کچھ جان میں جان آئی۔

    نیند کی غنودگی میں یکایک مجھے یہ معلوم ہوا کہ کوئی میرے سرہانے بول رہا ہے۔ میں فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھا۔ مگر آدمی تو آدمی پرچھائیں تک دکھائی نہ دی۔ اتنے میں ہوا کے جھونکے کے ساتھ ایک درد بھری آواز قاضی صاحب کی چھت سے آئی۔

    ’’خدا جانے کیونکر بدنامی ہوتی ہے۔ مگر خیر ربُّ العالمین خوب جانتا ہے، مجھے کسی سے غرض ہی کیا! پاک پروردگار!! میں نہیں چاہتی کہ میری شادی ہو۔ مجھ دکھیاری اندھی کو کون قبول کرے گا؟ مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ میں پاک ہوں اور باعصمت ہوں۔ آپ سے میں یہ چاہتی ہوں کہ میری بدنامی نہ ہو، اور برا کہنے والوں کا منہ تو بند کر دے۔‘‘ ان درد بھرے جملوں کے بعد پھر کوئی آواز قطعی نہ آئی۔

    یہ الفاظ میرے چوٹ کھائے ہوئے دل کے ساتھ نمک کا کام کررہے تھے، اور میری ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ صبح ہوتے ہی میں جناب والد صاحب کی اجازت پر ایک دوست کے ذریعے سے پیغام بھیجا اور قاضی صاحب کی غلامی میں اپنے آپ کو دینا چاہا۔ مگر ان سچّے اور پاک باز انسان نے اس کے جواب میں آب دیدہ ہو کر کہا کہ ’’ان سے کہہ دینا، ابھی صاحب زادہ ہو، نا تجربہ کار ہو۔ کیوں اپنی زندگی تلخ کرتے ہو۔ وہ بدنصیب لڑکی اندھی ہے۔ میں تمہارے والد کا نیاز مند ہوں۔ قیامت کے دن انھیں کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘

    بمشکل تمام میں نے قاضی صاحب کو کئی دنوں میں مجبور کر لیا، اور اس مصیبت زدہ نابینا لڑکی سے چپ چپاتے شادی کر لی۔ اب وہ میرے گھر میں آئی اور میری بیوی بن کر رہنے لگی۔ اس کی خصائل کی نسبت میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ صبر، قناعت، سچائی، ہمدردی، محبت اور پاک بازی کی مجسم تصویر تھی۔ اکثر اوقات پچھلی رات کبھی میری آنکھ کھل جاتی۔ تو میں ایک عجیب مؤثر نظارہ دیکھتا۔ وہ پلنگ پر لیٹے لیٹے نہایت عاجزی کے ساتھ دعا میں مشغول ہوتی اور ہزار ہزار طرح سے پہروں میری ترقّی، آرام اور آسائش کے لیے دعائیں مانگتی حتّٰی الامکان میں اس کی خوشی کا خیال از حد رکھتا۔ جب تک میری والدہ ضعیفہ زندہ تھیں۔ میری نابینا بیوی کو میرے حاضر و غائب میں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچی، مگر انھوں نے بھی ایک دن اس دارِ فانی کو الوداع کہا اور ان کے صدمے نے میری ہمت پست کردی۔

    اب گھر میں صرف ایک خادمہ تھی اور ڈیوڑھی پر ایک نوکر۔ والدہ صاحبہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی خادمہ نے اسے تکلیف پہنچانی شروع کی، مگرمیں سچ عرض کرتا ہوں، کبھی بھول کر بھی اس نے خادمہ کی شکایت مجھ سے نہیں کی، اور مجھے قطعی اس بات کی اطلاع نہیں ہوئی۔

    ایک روز اتفاقیہ خلافِ معمول دوپہر کو گھر میں واپس آیا۔ جب کہ میری بیوی کھانا کھا رہی تھی اور خادمہ دسترخوان کے پاس بیٹھی تھی۔ سالن وغیرہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا، اور اس ماما کو برا بھلا کہنے لگا کیوں کہ پورے خرچ پر بھی کھانا بہت خراب تھا، اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھے اچھا کھلاتی تھی اور میری غریب نابینا بیوی کے سامنے روکھی سوکھی روٹیاں اور بچا کھچا سالن رکھ دیتی تھی اور باقی سب اچھا اچھا تیر کر جاتی تھی۔

    اسی دن سے میں صبح کو جب تک میری قابلِ رحم بیوی ضروریات اور نماز سے فارغ نہ ہو لیتی تھی، باہر نہ جاتا، اور دوپہر سے پہلے واپس آکر کھانا اسی کے ساتھ کھاتا۔ پھر شام سے ہی گھر میں آپڑتا اور تمام رات کہیں نہ نکلتا۔ اس کی سچّی محبت اور راست بازی نے اس قدر میرے دل میں گھرکر لیا تھا کہ اکثر ماما کے نہ ہونے پر میں خود کام کرتا۔ اس کے لیے وضو وغیرہ کے لیے پانی لانے میں مجھے عار نہ تھا۔ اس طرح گھر میں گھسے رہنے کی وجہ دوست احباب مجھ پر فقرے کسنے لگے اور میرے ہم عمر میرا مذاق اڑانے لگے۔ مگر میں نے پروا نہ کی اور میرے معمول میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔

    اسی اثنا میں ان نئی روشنی کے نوجوان کی جس نے میری نابینا بیوی پر جھوٹا الزام لگایا تھا، بڑی دھوم دھام سے شادی ایک متمول لڑکی سے ہو گئی۔ مشکل سے ایک برس گزارا ہوگا کہ شکر رنجی ہوئی اور بڑھتے بڑھتے خانہ جنگیوں کی نوبت آئی۔ تمام شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ان کی بیوی آوارہ ہے۔ انھوں نے اس کو نکال دیا۔ اس نے میکے پہنچتے ہی نان نفقہ اور مہر کی نالش ٹھوک دی، اور نئی روشنی کے نوجوان کو چھٹی کا کھایا ہوا یاد آگیا۔ غرض خوب عرضی پرچہ ہوتا رہا۔ ان پر بیوی کی ڈگری ہوگئی۔ اب انھوں نے خاندان کے بزرگوں کے سامنے منت سماجت کی اور صلح ہو گئی۔ ان کی بیوی گھر میں آگئی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد پھر وہی تکا فضیحتی شروع ہوگئی۔ بہرحال ڈگری کے خوف سے وہ غصہ دباتے اور بیوی کی جوتیاں کھاتے رہتے۔

    اس دارِ ناپا ئیدار کے قانون کے موافق مجھ بدنصیب پر ایک اور مصیبت آئی۔ میری نابینا بیوی کو بخار آنے لگا، میں نے ڈاکٹر، حکیم، ملاّ، سیانے، دوا، ٹھنڈائی، گنڈا غرض کچھ نہ چھوڑا۔ مگر بخار میں کمی نہ ہونی تھی نہ ہوئی۔

    میں نے بالکل ہر جگہ کا آنا جانا چھوڑ دیا۔ وہ برابر چھ مہینے تک بیمار رہی۔ میں نے ہر قسم کی خدمت کی۔ یہاں تک کہ چوکی پر لے جانا۔ دوائی پلانا وغیرہ میرا روزانہ معمول تھا۔ کئی بار میرے اگال دان اٹھاتے ہی ابکائی آئی، اور جونہی میں نے اگال دان سامنے کیا اس نے ڈالنا شروع کیا جس سے میرے ہاتھ بھی بھر گئے۔ اگرچہ میں شہر میں نازک مزاج مشہور ہوں۔ لیکن بخدا کبھی مجھے ایسی کراہت نہیں آئی کہ محبت پر غالب آتی۔

    ایک دن اس نے متواتر بارہ گھنٹے آنکھ نہ کھولی اور مجھے از حد تشویش ہوئی۔ رات کے تقریباً نو بجے جب کہ اس کا سر میرے زانو پر تھا۔ اسے ہوش آیا۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔ ’’تم اس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے اور مجھے شرمندہ کیے جاتے ہو؟ میں اس شرمندگی سے مر جاؤں تو اچھا ہے۔ تمہیں ماما پر اعتبار نہ ہو تو اپنی شادی کسی سے کرلو۔ وہ گھر کا انتظام خود کرے گی، اور تمہیں اس قدر درد سری نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ نہ سمجھنا کہ مجھے سوکن کا خیال ہوگا۔ تمہارا یہی ایک احسان کہ تم نے میرا سرتاج بننا منظور کیا، ایسا ہے جس کا میں کسی طرح بدلہ نہیں دے سکتی۔ تم نے میرے ساتھ شادی کر کے واقعی اپنے اوپر بڑا ظلم کیا۔

    کچھ نہ پوچھیے کہ ان الفاظ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے خون میں چکر آیا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا۔ حالت روز بروز خراب ہوتی گئی۔ قاضی صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اس لیے اس نے اپنی والدہ کو بلایا اور درد بھرے الفاظ کے ساتھ مہر معاف کر دیا، اور میں روتے روتے بے ہوش ہوگیا۔ اسی دن سے ہچکی لگ گئی۔ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ’’اگر تم کو تکلیف ہوئی تو میری روح کو صدمہ ہوگا۔‘‘

  • پھول والے دادا جی…

    پھول والے دادا جی…

    کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتّا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔

    ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا بھی اسے ہٹانے کی کوشش کرتا پوچی اتنے ہی زور سے بھوں بھوں کرتے ہوئے پھر زمین کریدنے لگتا۔ آخر بوڑھے نے پھاوڑا اٹھا کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ کھودنے پر وہاں سے ہیرے اور موتیوں سے بھرا ہوا گھڑا نکلا جسے پاکر بوڑھا بہت خوش ہوا اور سارا خزانہ لے کر اپنے گھر آگیا۔

    بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بے حد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادہ۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔

    اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لیے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتّے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچرا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔

    جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی۔ نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکّوں میں بدلنے لگا۔

    پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصّے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہوگئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔

    اسی وقت وہاں سے بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ بادشاہ نے پھولوں سے لدے پیڑوں کو دیکھا۔ اس کا دل خوش ہوگیا اور اس نے بوڑھے کو اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔

    حاسد پڑوسی نے یہ دیکھا تو بچی ہوئی راکھ اٹھالی اور بادشاہ کے راستے میں جاکر ایک سوکھے پیڑ پر راکھ ڈالی۔ پیڑ ویسا ہی ٹھنٹ بنا رہا پر راکھ اڑ کر بادشاہ کی آنکھوں میں جا پڑی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب پیٹا۔

    بوڑھا آس پڑوس میں پھول والے دادا جی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    (اس کہانی کے خالق اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد افسر میرٹھی ہیں۔ وہ بامقصد اور تعمیری ادب کے قائل تھے اور اسی خیال کے تحت انھوں نے بچّوں کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں)

  • سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    ایران کے ایک قدیم شہر کا نام شاید آپ نے بھی سنا ہو، جو خراساں کے صوبے کا صدر مقام رہا ہے۔ یہ شہر ہے نیشا پور۔ اس شہر کے ایک سوداگر کی یہ کہانی سبق آموز ہی نہیں، دل چسپ بھی ہے۔

    نیشا پور میں ایک سوداگر رہتا تھا جو خود کو نہایت عقل مند سمجھتا تھا۔ وہ شہروں شہروں گھوم پھر کر اپنا مالِ تجارت فروخت کرتا اور جو رقم حاصل ہوتی اسے لے کر گھر لوٹ جاتا۔ کبھی وہ قریبی شہروں اور مضافات کا چکر لگاتا اور کبھی کئی دنوں کا سفر کرکے دور کے علاقوں‌ تک بھی چلا جاتا۔ قسمت سے وہ اچھا کمانے لگ گیا تھا۔ اسے تجارت میں‌ زبردست نفع ہوا جس نے اس کا دماغ خراب کردیا۔ وہ خود کو نہایت دانا اور عاقل سمجھنے لگا تھا اور دوسرے لوگوں کو کم عقل۔ اسی زعم میں اس نے خود کو عاقل مشہور کردیا۔ لوگ اسی نام سے اسے جاننے اور پکارنے لگے تھے۔ اس ’’عاقل‘‘ کا اصل نام نصیر الدّین تھا۔

    وہ جس شہر میں نادر و نایاب اشیاء کے بارے میں سنتا، اور مشہور ہنرمندوں یا دست کاروں کے مال کی بات اس کے کانوں میں پڑتی، کوشش کرتا کسی طرح اس تک پہنچ کر مال کا سودا کرلے اور اسے منافع کے ساتھ فروخت کرے۔ واقعی، وہ ایسی اشیاء لے کر آتا کہ دیکھنے والے فوراً متوجہ ہوتے اور منہ مانگے دام دینے کو بھی تیّار ہوجاتے تھے۔

    ایک دن وہ بازار میں بیٹھا اپنے دوست سے باتیں کررہا تھا۔ ایک چڑی مار اس کے قریب سے گزرا جو گا رہا تھا۔

    سونے کی چڑیا
    جادو کی پڑیا
    بجتا ہے گھنٹہ
    دیتی ہے انڈا

    اس نے جو یہ سنا تو اپنے دوست سے رخصت لی اور چڑی مار کے پیچھے چل دیا۔ چڑی مار کے پاس سب پنجرے خالی تھے۔ بس ایک پنجرے میں خاکی رنگ کی چڑیا اپنے پر پھڑپھڑا رہی تھی۔ سوداگر چلتے چلتے سوچنے لگا کہ سونے کی چڑیا مجھے خرید لینی چاہیے۔ اگر یہ واقعی سونے کا انڈا دیتی ہے تو پھر مجھے اتنی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘ اسے اچانک خیال آیا بچپن میں اس کی دادی اس کی ماں کو میکے جانے پر کہا کرتی تھیں۔

    ’’تم کیا سونے کی چڑیا ہو جو میکے چلی گئیں، تو میرا بیٹا غریب ہوجائے گا۔‘‘

    تو گویا سونے کی چڑیا ہوتی ہے۔ بس اس کی یہ خواہش تھی کاش اس کے پاس وہ چڑیا واقعی ہو۔ ایک مقام پر پہنچ کر سوداگر نے چڑی مار کو روکتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی کیا یہ واقعی سونے کی چڑیا ہے، یہ تو عام سی چڑیا لگ رہی ہے۔‘‘

    چڑی مار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور جان گیا کہ کوئی بے وقوف شخص ہے جو امیر ہونا چاہتا ہے۔ اس نے نہایت پُراعتماد لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی چڑیا نہیں جادو کی پڑیا ہے۔‘‘

    چودھویں رات کو جب دور کہیں گجر بجتا ہے، یہ سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اس چڑیا نے مجھے امیر کردیا ہے۔ میرے گھر میں اب تک دس انڈے دے چکی ہے۔ میرے ملک چلو وہاں میرے بڑے شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہیں۔ میں اسے نہیں بیچتا، مگر یہ اپنے مالک کو صرف دس انڈے دیتی ہے اس کے بعد اگر کوئی اسے خرید لے۔ پھر اس کے پاس مزید دس انڈے اور اسی طرح دوسرے مالک کو پھر دس انڈے دے گی۔‘‘

    سوداگر چڑی مار کی باتوں میں آگیا اور چڑیا خرید لی۔ اس کے بدلے میں‌ اس نے اپنا سب سامانِ تجارت اور گھر بار کا سارا سامان تک چڑی مار کو دے دیا۔ چڑی مار اگلے روز بازار میں پھر کسی کو نظر نہ آیا۔

    سوداگر سارا مال و دولت، گھر بار ایک چڑیا کے عوض چڑی مار کو فروخت کر کے، ایک جھونپڑی میں چڑیا کا پنجرہ رکھ کر رہنے لگا۔ وہ امیر ترین شخص بننے کا خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اسے کچھ پُرخلوص احباب نے سمجھایا کہ ’’اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے اور دھوکہ کھایا ہے۔‘‘ مگر سوداگر کا کہنا تھا،’’ وہ بہت سمجھ دار ہے، وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، تم دیکھنا مجھے کتنا فائدہ ہوگا۔

    سوداگر کو بس چودھویں رات کا انتظار تھا۔ آخر وہ رات آگئی۔ سوداگر بہت خوش تھا کہ اس کی چڑیا آج سونے کا انڈا دے گی۔ پوری رات جاگتا رہا۔ چڑیا پنجرے میں کبھی سوتی اور کبھی پر پھڑپھڑاتی رہی۔ آخر صبح ہونے لگی گجر بجا اور سوداگر سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی اور وہ پنجرے کے پاس گیا تو پنجرے میں انڈا نہیں تھا۔ چڑیا اسے بہت عام سا پرندہ لگی۔ وہ اسی طرح پنجرے میں ادھر سے ادھر اڑتی اور پھدکتی پھر رہی تھی۔ آج جانے کیوں سوداگر کو اس میں‌ کچھ بھی خاص نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بہت پچھتایا اور جان گیا کہ چڑی مار نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔

    سوداگر نے سبق سیکھا کہ غرور و تکبر اور دوسروں سے مشورہ نہ کرنے اور کسی کو خاطر میں‌ نہ لانے سے نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ کسی بڑے کام کو کرنے سے پہلے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنے احباب سے مشورہ کرنا چاہیے۔

    (قصّوں اور قدیم حکایات سے انتخاب)

  • مندر والی گلی…

    مندر والی گلی…

    دیوندر ستیارتھی ایک افسانہ نگار تھے اور سعادت حسن منٹو کے ہم عصر میں سے ایک تھے۔ ان کا جو افسانہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں‌ وہ ایک ایسے شخص کی کہانی جو بنارس گھومنے جاتا ہے۔ وہاں وہ ایک بیوپاری کے گھر رکتا ہے۔ شہر گھومتے ہوئے اسے مندر والی گلی بہت زیادہ پسند آتی ہے۔ اس گلی سے اس کا لگاؤ دیکھ کر بیوپاری اس کے رہنے کا انتظام مندر والی گلی میں ہی کرتا ہے، مگر وہ انکار کر دیتا ہے۔ پچیس سال بعد وہ پھر بنارس لوٹتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس بیوپاری کی نئی نسل اسی مندر والی گلی میں بس گئی ہے۔ افسانہ پڑھیے۔

    رائے صاحب کا گھر مندر والی گلی میں نہیں بلکہ گنگا کے کنارے تھا۔

    وہ گھر گنگا کے کنارے نہ ہوتا تو مجھے کمرے کی کھڑکیوں سے گنگا کے درشن کیسے ہوتے۔ اب آپ پوچھیں گے یہ کب کی بات ہے؟ آرام سے بیٹھ کر سنیے۔

    بہت خوش حالی کا زمانہ تھا۔ ایک پیسے میں تین سودے آجاتے تھے۔ آٹھ دن، نو میلے والی بات سمجھیے۔ ایک روپے کے پندرہ سیر باسمتی آجاتی تھی۔ دو روپے کا سولہ سیر دودھ۔ روپے کی چھ من لکڑی۔ روپے کا ایک من کوئلہ۔ چھ آنے گز لٹھّ۔ سات پیسے گز بڑھیا ململ اور یقین کیجیے دس روپے میں بہت بڑھیا ریشمیں ساڑی مل جاتی تھی۔ چناں چہ رائے صاحب بولے، ’’مزے سے رہیے۔ جب تک آپ کا دل بھر نہ جائے۔‘‘

    گھر کے سامنے ایک پیپل کا درخت کھڑا تھا۔ جس نے سیکڑوں باہیں پھیلا رکھی تھیں۔ مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوتا تھا کہ گنگا نے اس پیپل سے وہی بات کہہ رکھی تھی۔ جو رائے صاحب نے اپنے مہمان سے۔

    رائے صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ اسے ان کے پڑ دادا نے یہاں لگایا تھا۔ واقعی یہ پیپل بہت بوڑھا تھا اور اس کے تنے پر اس کی عمر کا حساب لکھا ہوا تھا۔

    رائے صاحب کی عمر اس وقت تیس پینتیس کے بیچ میں ہوگی۔ ذرا سی بات پر وہ دانت نکال کر ہنس پڑتے اور زور دے کر کہتے، ’’آدمی کا من بھی تو ہر وقت پیپل کے پتّے کی طرح ڈولتا رہتا ہے۔‘‘ کبھی وہ یہ شکایت کرتے، ’’موسلادھار برکھا سے تو پیپل کی کھال اترنے لگتی ہے۔‘‘ کبھی کہتے، ’’یہی تو سنسار کی لیلا ہے۔ رات بھر کی شبنم کو سورج کی پہلی کرنیں آکر پی جاتی ہیں۔‘‘

    میں اکثر مندر والی گلی میں گھومنے نکل جاتا، اور واپس آکر کبھی رائے صاحب سے اس کی تعریف کرتا تو وہ کہتے وہاں کیا رکھا ہے؟ آنے جانے والوں کے دھکّے تو ہمیں ناپسند ہیں۔ اور وہ بھی بھانت بھانت کے پنچھی ملتے ہیں۔ بھانت بھانت کے چہرے بھانت بھانت کے لباس۔‘‘

    ’’اب دور دور کے یاتری اپنا لباس کہاں چھوڑ آئیں، رائے صاحب؟‘‘ میں سنجیدہ ہوکر جواب دیتا، ’’اور ان بے چاروں کے چہرے مہرے جیسے ہیں ویسے ہی تو رہیں گے۔‘‘

    وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتے۔ کسی نے بھان متی کا کنبہ دیکھنا ہو تو مندر والی گلی کا ایک چکر لگا آئے۔ وہاں جگہ جگہ کے لوگوں کو ایک ساتھ گھومتے دیکھ کر مجھے تو یہ شک ہونے لگتا ہے کہ یہ ایک ہی دیس کے لوگ ہیں۔‘‘

    ’’یہ تو ٹھیک ہے رائے صاحب!‘‘ میں بحث میں الجھ جاتا، ’’بنگالی، مہاراشٹری، گجراتی اور مدراسی الگ الگ ہیں تو الگ الگ ہی تو نظر آئیں گے۔ اپنا اپنا روپ اور رنگ ڈھنگ گھر میں چھوڑ کر تو تیرتھ یاترا پر آنے سے رہے۔‘‘

    رائے صاحب کے ساتھ باتیں کرنے سے زیادہ لطف مجھے مندر والی گلی کے چھ سات چکّر لگانے میں آتا تھا۔ میرا تو یقین تھا کہ بنارس کی رونق مندر والی گلی سے ہے۔ اس میں میرا ذہن ماضی کی بھول بھلیاں میں گھومنے لگتا اور میرے ذہن کی پرانی سنسکرت کہاوت گدگدانے لگتی، ’’جسے کہیں بھی ٹھور ٹھکانا نہ ہو اس کے لیے کاشی ہی آخری ٹھکانا ہے۔‘‘

    مندر والی گلی میں پوجا کے سامان اور عورتوں کے سنگھار میں کام آنے والی چیزوں کی دکانیں ہی زیادہ تھیں، ’’سویرے سے چاول کا دانہ بھی منھ میں نہیں گیا۔ ’’بابو!‘‘ کہنے والے بھکاری قدم قدم پر یاتریوں کا دھیان کھینچتے تھے۔ وہاں ہر قسم کے یاتری چلتے پھرتے نظر آتے اور ہر عمر کے بھکاری رسیلی آنکھیں اور خوب صورت ہونٹ اور ٹھوڑی پر تل روپ کی یہ جھلک یاتریوں اور بھکاریوں میں یکساں تعداد میں تلاش کی جاسکتی تھی۔

    ایک پیسہ بابو!‘‘ کہہ کر بھیک مانگنے والی جانتی تھی کہ ایک پیسہ میں تین سودے آجاتے ہیں۔ اور بھکارن کا یہ تجربہ بھی جیسے مندر والی گلی کا ایک اہم تجربہ ہو۔ گپیں ہانکنے میں یاتری اور بھکاری برابر تھے۔ پوجا کے پھول اور ہاتھی دانت کی کنگھیاں بیچنے والے دکاندار گاہک سے ایک دو پیسے زیادہ وصول کرنے کے ڈھنگ سوچتے رہتے۔ یوں معلوم ہوتا کہ مندر والی گلی کی آنکھوں میں تشکّر بھی ہے۔ اور لاپروائی بھی۔

    یاتریوں کے کسی کنبے کی کوئی نوجوان لڑکی اپنی دو چوٹیوں میں سے ایک کو آگے لے آتی یا جسم سکیڑ کر چلتی یا انگڑائی کے انداز میں محراب سی بنا ڈالتی۔ تو یہ منظر دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا کہ مندر والی گلی کی آپ بیتی میں یہ تفصیل بھی بڑے خوب صورت انداز میں درج ہوگئی۔ اسی طرح کوئی بھکارن نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر کسی بھاگوان یاتری عورت کا سنگھار دیکھتی رہ جاتی اور پھر اپنی میلی کچیلی ساڑی کے باوجود سینہ تان کر کسی دکان کے آئینہ میں اپنا روپ دیکھ کر مسکرا اٹھتی تو یہ بات بھی مندر والی گلی کی داستان میں قلم بند ہو جاتی۔

    یہ سب باتیں میں رائے صاحب کو سناتا اور وہ کہتے، ’’چوکھٹا مندر والی گلی کا ہے اور تصویر آپ کے من کی۔ ہم کیا بول سکتے ہیں؟ یہ تو کیمرے کی آنکھ نے نہیں، آپ کے دماغ کی آنکھ نے دیکھا۔‘‘

    رائے صاحب کی بہت جائیداد تھی۔ سیاہ پتھر کے کھرل میں وہ ہاضمے کی گولیاں بنانے کی دوا بڑا شوق سے بیٹھے گھونٹتے رہے۔ اس دوا کا نسخہ ان کے پڑ دادا چھوڑ گئے تھے اور تاکید کر گئے تھے کہ ان کی طرف سے ہاضمے کی گولیاں مندر والی گلی میں یاتریوں کو مفت تقسیم کی جایا کریں۔

    ان کے پڑ دادا نے یہ وصیت بھی کر رکھی تھی کہ کھرل میں دوا گھونٹنے کا کام نوکروں سے ہرگز نہ کرایا جائے۔ اس میں شدھ گنگا جل پڑتا تھا اور گنگا گھاٹ کی کائی بھی ایک خاص مقدار میں ڈالتے تھے۔

    یہ کام کرتے وقت رائے صاحب سیاہ پتھر کے اس کھرل کی کہانی سنانے لگتے۔ اسے ان کے پڑ دادا جگن ناتھ پوری سے لائے تھے۔‘‘ جس کاری گر نے یہ کھرل بنایا تھا، اس نے چار دھام کی یاترا کر رکھی تھی۔ اور رائے صاحب کے پڑ دادا سے اس کی پہلی ملاقات بنارس کی اس مندر والی گلی میں ہی ہوئی تھی۔

    شادی شدہ زندگی کے سات برس گزارنے کے بعد رائے صاحب کے ایک بیٹا ہوا۔ اس کا نام انھوں نے روپم رکھا۔

    پنجوں کے بل چلنے والا روپم میرے ساتھ خوب ہل مل گیا۔ وہ مجھے دور سے ہی پہچان لیتا۔ واقعی روپم بہت ہنس مکھ تھا۔ میں اسے اٹھا لیتا اور اس کے ہاتھ میری عینک کی طرف اٹھ جاتے۔ رائے صاحب کہتے، ’’بیٹا! ان کی عینک ٹوٹ گئی تو پیسے ہمیں ہی بھرنے پڑیں گے۔‘‘

    مجھے محسوس ہوتا کہ پیپل کے درخت نے رائے صاحب کا یہ مذاق بھی اسی طرح نوٹ کرلیا جیسے مندر والی گلی یاتریوں، دکان داروں اور بھکاریوں کی داستان قلم بند کرتی رہتی تھی۔

    رائے صاحب ہنس کر کہتے، ’’روپم کو بھی اسی طرح اپنے ہاتھ سے سیاہ پتھر کے اس کھرل میں ہاضمہ کی گولیوں کی یہ دوا گھوٹنی پڑا کرے گی۔ بڑوں کی ریت کو وہ چھوڑ تھوڑی دے گا۔‘‘ اور وہ ہاتھ اٹھا کر پیپل کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے دل ہی دل میں کسی منتر کا جاپ کرنے لگتے۔ جیسے پیپل سے کہہ رہے ہوں۔ تم تو تب بھی ہو گے پیپل دیوتا جب ہم نہیں ہوں گے، دیکھنا ہمارے روپم کو سمجھاتے رہنا کہ خاندان کی ریت کو چھوڑے نہیں۔

    کبھی کبھی دوا گھونٹتے ہوئے رائے صاحب یہ بول الاپتے۔

    ایک ماس میں گرہن جو دوئی
    تو ہی انّ مہنگو ہوئی

    میں ہنس کر کہتا، ’’آپ کو کیا پروا ہے، رائے صاحب! بھلے ہی ایک مہینے میں دو گرہن لگنے سے انّ مہنگا ہو جائے۔ آپ کے بزرگ جو جائیداد چھوڑ گئے اس پر چار روز کی مہنگائی بھلا کیا اثر کرے گی؟‘‘

    ’’بات تو ساری دنیا کی ہے۔ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کا قصّہ تھوڑی ہی ہے۔‘‘ رائے صاحب کی آنکھیں چمک اٹھتیں۔ اور وہ دونوں بازو کھرل سے اٹھا کر پیپل کی طرف دیکھنے لگتے، جیسے اسے بھی اپنے جذبات میں شریک کرنا چاہتے ہوں۔

    کبھی وہ سونا اگلنے والی زمین کا قصّہ لے بیٹھتے تو کبھی کیسر کستوری کا بکھان کرنے لگتے، جن کی سگندھ انھیں بے حد اچھی لگتی تھی۔ زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا ہی انھیں زیادہ پسند تھا۔ دھوپ میں چمکتا ہوا گنگا جل ان کے تخیل کو ہمالہ کی طرف موڑ دیتا۔ جہاں سے گنگا نکلتی تھی، وہ گنگا کی تعریف کرتے۔ جو بنارس پر خاص طور پر مہربان تھی۔ گنگا کے پکّے سیڑھیوں والے گھاٹ نہ جانے کتنے پرانے تھے، کیا مجال گنگا انھیں بہا کر لے جائے۔ حالاں کہ وہ چاہتی تو اس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا۔ گنگا کو غصّہ آجاتا تو وہ سارے بنارس کو زندہ نگل سکتی تھی۔

    یہ سب گنگا میّا کی دیا درشٹی ہے کہ وہ ہمیں کچھ نہیں کہتی۔‘‘ رائے صاحب کھرل میں دوا گھونٹتے ہوئے پرانا بول سناتے،

    رانڈ، سانڈ، سیڑھی، سنیاسی
    ان سے بچے تو سو دے کاشی

    پھر رائے صاحب کی نظر میری طرف سے ہٹ کر جیسے پیپل کے پتّے گننے لگتیں۔

    میں کہتا، ’’نہ پیپل کے پتّے گنے جاسکتے ہیں رائے صاحب نہ گنگا کی لہریں!‘‘

    ’’ماں کا دودھ پیتے وقت روپم کا منہ سیپی سا بن جاتا ہے۔‘‘ رائے صاحب موضوع بدل کر کہتے، ’’دیکھیے روپم اتنا لاڈلا کیسے نہ ہو۔ جب وہ سات برس کے انتظار کے بعد پیدا ہوا۔ میں اکثر اپنی شریمتی سے کہتا ہوں۔ دیکھو بھئی۔ روپم کو جلد اپنا دودھ چھڑانے کا جتن نہ کرنا!‘‘ اور پھر تو وہ گویا ماں کے دودھ پر ویاکھیان شروع کردیتے اور نہ جانے کس کس شاستر سے حوالے ڈھونڈ کر لاتے۔

    روپم کی جنم پتری کی بات چھڑنے پر رائے صاحب کہتے، ’’سب ٹھیک ٹھاک رہا۔ اس سمے۔ نہ آندھی آئی۔ نہ گرہن لگا۔ سمے آنے پر وہ دنیا میں اپنا لوہا منواکے رہے گا۔‘‘ کہتے کہتے وہ ایک دم جذباتی ہوجاتے۔‘‘ بڑا ہونے پر روپم کو میں ایک ہی نصیحت کروں گا کہ جس ہانڈی میں کھائے اسی میں چھید نہ کرے۔‘‘

    میں کہتا، ’’چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رائے صاحب!‘‘

    رائے صاحب بیٹھے بیٹھے کسی راگ کا الاپ شروع کردیتے اور پھر بتاتے ’’راگ کوئی بھی برا نہیں ہوتا، ہر راگ کی اپنی خوبیاں ہیں۔ گانے والے کا کمال اس میں ہے کہ وہ فضا پیدا کردے۔‘‘

    اب یہ میرا کمال تھا کہ میں جب چاہتا بات کا رخ مندر والی گلی کی طرف موڑ کر مندر کی فضا پیدا کردیتا۔ کبھی میں کہتا، ’’ایک بات ہے۔ رائے صاحب مندر والی گلی میں جب میں کسی کو ٹانگیں اکڑا چلتے دیکھتا ہوں تو میرا دماغ اس شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کیے بنا نہیں رہتا کہ وہ بے سوچ اور سخت شخصیت کا مالک ہے۔‘‘ کبھی میں کہتا، ’’رائے صاحب، مندر والی گلی کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب وہاں کوئی عورت ایڑی پر زور دے کر پانو گھسیٹ کر چلتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ اسے تغیر بالکل ناپسند ہے اور موقعوں سے لابھ اٹھانے کی بات سوچتے ہوئے اسے ہمیشہ ایک جھجک سی رہتی ہے۔‘‘

    رائے صاحب کہتے، ’’اب یہ بات تو اور جگہ بھی سچ ہوگی، ایک مندر والی گلی میں ہی تو نہیں۔‘‘

    میں اپنی ہی دھن میں کہتا، ’’مندر والی گلی میں چکّر کاٹتے ہوئے میرے مطالعے میں یہ بات بھی آئی ہے رائے صاحب کسی کی لڑکھڑاتی چال صاف پتہ دیتی ہے کہ اس بیچارے میں قوّتِ ارادی کی ایک دم کمی ہے۔‘‘

    میں بار بار رٹ لگاتا، ’’مندر والی گلی نے ہی مجھے سکھایا کہ ایک کھلی ہوئی مسکراہٹ کے پیچھے قوت اور خلوص کا ہاتھ رہتا ہے، اور رائے صاحب مندر والی گلی میں پوجا یا سنگھار کا سامان خریدنے والوں کے بیچ جب بھی میں نے کسی ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ قسم کے شخص کو دوسروں کی گفتگو میں بیکار کی دخل اندازی کرنے کا عادی پایا تو میں اسی نتیجہ پر پہنچا کہ اس شخص کو اپنے اوپر بالکل بھروسہ نہیں ہے۔‘‘

    رائے صاحب شہرت کے بھوکے تھے نہ دولت کے۔ بڑی تیزی سے بات کرتے تھے اور اپنے نظریے پر ڈٹے رہتے۔ گنگا کی عظمت کے وہ قائل تھے اور بنارس کی تاریخ میں سب سے زیادہ گنگا کا ہاتھ دیکھتے تھے، گنگا کی تعریف میں رائے صاحب شلوک پر شلوک سنانے لگتے، جیسے کوئی درزی دوپٹے پر گوٹے کی مغزی لگا رہا ہو۔

    رائے صاحب کے گھر مہمان بنے مجھے تین ہفتے سے اوپر ہوگئے تھے۔ میرے لیے یہ بات کچھ کم اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ میں رائے صاحب کا مہمان ہوں۔ کیونکہ ہر ایراغیرا نتھو خیرا تو ان کا مہمان نہیں ہوسکتا تھا، واقعی رائے صاحب کی مہمان نوازی کے قدم زندگی کے خلوص میں گڑے ہوئے تھے۔

    ایک روز جب مجھے رائے صاحب کے یہاں رہتے ہوئے سوا مہینہ ہوگیا تھا، رائے صاحب سویرے سویرے میرے کمرے میں آئے۔

    میں نے دیکھا۔ ان کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ ’’کیا بات ہے۔ رائے صاحب!‘‘ میں نے پوچھا۔

    رائے صاحب نے آج پہلی بار میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’بات ایسی ہے کہ بولنا بھی مشکل ہورہا ہے۔‘‘

    ’’پھر بھی بتانا تو ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔ آپ یہیں رہیے۔ اپنے مہمان سے بھلا میں یہ بات کہہ سکتا ہوں؟‘‘

    ’’میں سمجھ گیا، رائے صاحب! مجھے یہاں رہتے سوا مہینہ ہوگیا۔ یہ بہت ہے۔ اب واقعی مجھے چلا جانا چاہیے۔‘‘

    رائے صاحب میرے سامنے کھڑے کھڑے کبوتر کی طرح پھڑپھڑائے۔ ان کی آنکھوں میں بے حد ہم دردی تھی۔ لیکن ان کے چہرے پر بے بسی کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔

    مجھے یاد آیا کہ اس سے پہلے دن دوپہر کے وقت جب میں روپم سے کھیل رہا تھا۔ روپم کی ماں نے نوکرانی کو بھیج کر روپم کو منگوا بھیجا تھا۔

    میں نے صاف صاف کہہ دیا، ’’روپم کے ماتا جی کو میرے یہاں رہنے سے کشٹ ہوتا ہے تو مجھے واقعی یہاں سے چلا جانا چاہیے۔‘‘

    نہیں نہیں۔ ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے۔ یہ میرا دھرم نہیں۔ کہ مہمان چلا جائے۔ اپنا کام پورا کیے بنا۔ ویسے اگر آپ کچھ دن کے لیے ہمارے مندر والی گلی کے مکان میں چلے جاتے تو ٹھیک تھا۔

    ’’میرا تو کوئی خاص کام نہیں۔ مندر والی گلی کو بھی بہت دیکھ لیا۔ اب واقعی مجھے یہاں سے چلے ہی جانا چاہیے۔‘‘

    ’’ہم آپ کے رہنے کا انتظام کل سے مندر والی گلی میں کردیتے ہیں، کل سے، آپ مان جائیے۔ وہاں بھی ہمارا اپنا مکان ہے اور اس کی تیسری منزل پر ایک کمرہ آپ کے لیے خالی کرایا جا چکا ہے۔‘‘

    ’’نہیں میں وہاں جاکر نہیں رہوں گا۔ آپ یقین کیجیے۔ میری طبیعت تو بنارس سے بھر گئی ہے، اب تو میں ایک دن بھی نہیں رک سکتا۔‘‘

    ’’نہیں آپ کو رکنا پڑے گا۔‘‘

    رائے صاحب بار بار ہونٹوں پر زبان پھیر کر ان کی خشکی کو چاٹنے لگتے۔ وہ بولے، ’’آپ چلے گئے تو ہمیں گنگا میّا کا شراپ لگے گا۔‘‘

    ’’گنگا میّا کے شراپ کی تو اس میں کوئی بات نہیں رائے صاحب! یہ تو ہماری آپ کی بات ہے۔‘‘

    رائے صاحب ہنس کر بولے، ’’معاف کیجیے! شاید آپ مجھے دبّو ٹائپ کا پتی دیو سمجھ رہے ہوں گے۔ جسے انگریزی محاورے میں مرغی زدہ خاوند کہتے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے یہ بات ذرا بھی بری نہیں لگی۔ رائے صاحب! میرے اوپر آپ کا احسان ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر چیز اتنی سستی ہے کہ ایک پیسے کے تین سودے آجاتے ہیں۔‘‘

    ہاں تو آرام سے بیٹھ کر سنیے۔ پورے پچیس برس بعد مجھے دوبارہ بنارس جانے کا موقع ملا اور اب بہت مہنگائی کا زمانہ تھا۔ کہاں ایک روپے کی پندرہ سیر باسمتی اور کہاں سوا روپے سیر۔ کہاں دو روپے من گیہوں اور کہاں سولہ روپے من۔ روپے کی پانچ سیر چینی کی بجائے پندرہ آنے سیر۔ روپے کا سولہ سیر دودھ کی بجائے بارہ آنے سیر۔ کہاں روپے کی چھ من لکڑی۔ کہاں ساڑھے تین روپے من۔ کہاں روپے کا ایک من کوئلہ۔ کہاں آٹھ روپے من۔ کہاں چھ آنے گز لٹھ۔ کہاں ڈیڑھ روپے گز۔ کہاں سات پیسے گز بڑھیا ململ۔ کہاں دو روپے گز۔ کہاں دس پندرہ روپے کی بڑھیا ریشمیں ساڑھی۔ کہاں سو سوا سو روپے کی۔ یہ مہنگائی جیسے آزادی کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ آج میں ایک ادبی بلاوے پر بنارس گیا تھا۔ پہلا گھر مجھے یاد تھا۔ جہاں میں پچیس برس پہلے ٹھہرا تھا۔

    میں پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچا۔ تو دیکھا کہ وہاں نہ وہ گھر ہے نہ وہ پیپل کا پیڑ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ گھر اور پیپل تو بہت برس پہلے گنگا میں بہہ گئے۔

    میرے دل و دماغ میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ رائے صاحب اب دوسری جگہ چلے گئے تھے۔ ان کے پرانے پڑوسی سے ان کا پتہ چلتے دیر نہ لگی۔ میں وہاں پہنچا تو رائے صاحب بہت تپاک سے ملے۔

    پتہ چلا کہ روپم کا بیاہ ہوئے ساڑھے تین برس ہونے کو آئے۔ اب تو روپم کا دو برس کا بیٹا ہے، ’’دیکھیے ہم پوتے والے ہوگئے۔‘‘ رائے صاحب ہنس کر بولے۔

    رائے صاحب مجھے کھانا کھلائے بغیر نہ مانے۔ ان کے چہرہ پر انسانیت کا جوہر صاف دکھائی دے رہا تھا۔

    پرانے گھر کی بات چلی تو رائے صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’اسے تو گنگا میّا لے گئی۔ اور ہمارے پڑ دادا کا لگایا ہوا پیپل بھی گنگا میں بہہ گیا۔‘‘

    میں اٹھنے لگا۔ تو رائے صاحب بولے، ’’اب تو پچیس برس پرانی یاد ایسے ہے جیسے کسی کھنڈر کی دیوار، جس کا پورے کا پورا پلستر جھڑ گیا ہو۔‘‘

    ’’مجھے تو آپ کی مہمان نوازی میں ابھی تک نئے پن کی خوشبو آرہی ہے۔ رائے صاحب!‘‘

    ’’ارے بھئی چھوڑو۔ موسم کی طرح حالات بھی بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ رائے صاحب نے ترش آواز میں کہا۔

    میں نے کہا، ’’یاد ہے نا رائے صاحب۔ ان دنوں ایک پیسے کے تین سودے آجاتے تھے۔‘‘

    جب میں چلا تو رائے صاحب نے روپم کا پتہ لکھوا دیا۔ جو ان دنوں مندر والی گلی میں رہتا تھا۔ ’’لیجیے روپم کے نام چٹھی لکھ کر سارا حال بتا دوں اسے۔ نہیں تو وہ کیسے جانے گا کہ وہ آپ کی گود میں کھیل چکا ہے۔‘‘ رائے صاحب نے سنجیدگی سے کہا، ’’دیکھیے! میں نے چودہ سطروں میں ساری بات لکھ ڈالی۔‘‘

    میں مندر والی گلی میں پہنچا۔ تو یوں محسوس ہوا کہ مہنگائی کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا۔ اور وہ سنسکرت کہاوت پھر سے میرے ذہن کو گدگدانے لگی ’’جسے کہیں بھی ٹھکانا نہ ملے اسے کاشی ہی آخر ٹھورے!‘‘

    روپم رائے صاحب کی چٹھی پڑھ کر اپنی بیوی کو بلا لایا اور ماں کی گود سے نکل کر ننھا شِوم جھٹ میرے پاس چلا آیا۔

    روپم بولا، آپ تو مندر والی گلی کے پرانے پریمی ہیں نا۔ دیکھیے! ’’یہی وہ کمرہ ہے، جہاں پچیس برس پہلے پتا جی آپ کو ٹھہرانا چاہتے تھے۔ پتا جی نے لکھا ہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوگئی تھی کہ ماتا جی آپ کو ہمارے گنگا گھاٹ والے گھر میں رکھ کر خوش نہیں ہیں۔ انھوں نے تو آپ کا مندر والی گلی کے ساتھ گہرا پریم دیکھ کر ہی یہ چاہا تھا کہ آپ کچھ دن اس گلی میں آکر بھی رہ جائیں۔‘‘

    چھوڑو وہ پرانی بات ہے۔ ’’میں نے مسکرا کر بات ٹال دی۔ اس سے بھی کہیں زیادہ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ تب مجھے ننھا روپم ملا تھا اب ننھا شِوم۔‘‘

    شِوم کے ہاتھ میں وشوناتھ مندر کا لکڑی کا چھوٹا سا ماڈل تھا جسے وہ ہوا میں اچھال رہا تھا۔

    گھر کی بالکونی میں کھڑے کھڑے میں ذرا پیچھے ہٹ گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں شِوم اپنا لکڑی کا کھلونا نیچے مندر والی گلی میں نہ گرا دے۔ ننھے شِوم کی ماں نے جلدی جلدی اپنے سسر کا خط پڑھا اور سر پر بنارسی ساڑھی ٹھیک کرتے ہوئے وہ بولی، ’’اب دیکھیے! ہم آپ کو یہاں سے جلدی جانے نہیں دیں گے جو غلط فہمی آپ کو روپم کے ماتا جی کے بارے میں ہوئی وہ شِوم کے ماتا جی کے بارے میں تو نہیں ہوسکتی۔‘‘

    مندر والی گلی میں ایسے ہی اتّر، دکھّن اور پورب، پچھم کا سنگم ہورہا تھا۔ جیسے مندر والی گلی بھی کسی گنگا میّا کی طرح پکار رہی ہو۔ آؤ یاتری! میری نئی پرانی لہرو میں اترو!‘‘

  • یتیم شہزادے کی عید

    یتیم شہزادے کی عید

    اسی 1332 ہجری (1913 عیسوی) کی عیدُالفطر کا ذکر ہے۔ دہلی میں 29 کا چاند نظر نہ آیا۔ درزی خوش تھے کہ ان کو ایک دن کام کرنے کی مہلت مل گئی۔ جوتے والوں کو بھی خوشی تھی کہ ایک روز کی بکری بڑھ گئی، مگر مسلمانوں کے ایک غریب محلہ میں تیموریہ خاندان کا ایک گھرانا اس دن بہت غمگین تھا۔

    یہ لوگ عصر سے پہلے اپنے گھر کے وارث میرزا دلدار شاہ کو دفن کر کے آئے تھے۔ دلدار شاہ دس دن سے بیمار تھے۔ ان کو پانچ روپیہ ماہوار پنشن ملتی تھی۔ گھر میں ان کی بیوی اور یہ خود کناری بُنتے تھے جس میں ان کو اتنی معقول آمدنی تھے کہ خوب آرام سے بسر اوقات کرتے تھے۔ ان کے چار بچے تھے۔ تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔

    دو لڑکیوں کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ ایک ڈیڑھ سال کی لڑکی گود میں تھی اور ایک لڑکا دس برس کا تھا۔ دلدار شاہ اس لڑکے کو بہت چاہتے تھے۔ بیگم نے بہت چاہا کہ لڑکا مکتب میں جائے مگر دلدار شاہ کو بچہ اس قدر لاڈلا تھا کہ انہوں نے ایک دن اس کو مکتب نہ بھیجا۔ لڑکا سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتا تھا۔ زبان پر گالیاں اس قدر چڑھ گئی تھیں کہ بات بات میں مغلظات بکتا تھا اور باوا جان اس کی بھولی بھولی باتوں سے خوش ہوتے تھے۔

    میرزا دلدار شاہ بہادر شاہ بادشاہ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مرتے وقت ان کی عمر 65 برس کی ہوگی کیوں کہ جب یہ لڑکا ان کے ہاں پیدا ہوا تو ان کی عمر 55 بر س کی تھی۔ بڑھاپے کی اولاد سب کو پیاری ہوتی ہے، خاص کر بیٹا۔ میرزا دلدار جتنی محبت کرتے، تھوڑی تھی۔

    ایک دن ان کے ایک دوست نے کہا، ’’صاحب عالم! بچّے کے لکھنے پڑھنے کی یہی عمر ہے۔ اب نہ پڑھے گا تو کب پڑھے گا۔ لاڈ پیار بھی ایک حد تک اچھا ہوتا ہے۔ آپ اس کے حق میں کانٹے بوتے ہیں۔ خدا آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک دن سب کو مرنا ہے۔ خدا نخواستہ آپ کی آنکھیں بند ہوگئیں تو اس معصوم کا کہیں ٹھکانا نہیں رہے گا۔ لکھ پڑھ لے گا تو دو روٹیاں کما کھائے گا۔ اس زمانہ میں شریفوں کی گذران بڑی دشوار ہوگئی ہے۔ کچھ آئندہ کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کو غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے اور بزرگوں کی ناک کٹے۔‘‘

    میرزا دلدار شاہ اس ہم دردی سے بگڑ گئے اور بولے، ’’آپ میرے مرنے کی بد شگونی کرتے ہیں۔ ابھی میری کون سی ایسی عمر ہوگئی ہے۔ لوگ تو سو برس تک زندہ رہتے ہیں۔ رہا بچے کا پڑھانا، سو میرے نزدیک تو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ بڑے بڑے بی اے، ایم اے پاس مارے مارے پھرتے ہیں اور دو کوڑی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ میرا بچہ پہلے ہی دھان پان ہے۔ آئے دن کا مرضین ہے۔

    میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ ظالم استادوں کے حوالے کر کے اس کی نازک ہڈیوں کو قمچیوں کا نشانہ بناؤں۔ جب تک میرے دَم میں دَم میں دَم ہے، عیش کراؤں گا۔ میں نہ رہوں گا تو خدا رازق ہے۔ وہ چیونٹی تک کو کھانا دیتا ہے۔ پتّھر کے کیڑے کو رزق پہنچاتا ہے۔ آدمی کے بچّہ کو کہیں بھوکا مارے گا؟ میاں ہم نے زمانہ کا بڑا گرم و سرد رنگ دیکھا ہے۔ ہمارے ماں باپ نے بھی ہم کو نہ پڑھایا تو کیا ہم بھوکے مرتے ہیں۔‘‘

    نصیحت کرنے والے بچارے یہ جواب سن کر چپ ہوگئے اور دل ہی دل میں پچھتائے کہ میں نے ناحق ان سے درد مندی کی بات کہی، لیکن انہیں خیال آیا کہ حق بات کہنے سے چپکا رہنا گناہ ہے۔ ‘الساکت عن الحق شیطان اخرس’ یعنی سچّی بات کہنے سے خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے۔

    اس لیے انہوں نے پھر کہا کہ ’’جناب! آپ ناراض نہ ہوں، میں خدانخواستہ آپ کا مرنا نہیں چاہتا۔ میں نے تو ایک دور اندیشی کی بات کہی تھی۔ آپ کو ناگوار گزری تو معاف فرمائیے، مگر یہ تو خیال فرما لیجیے کہ آپ کے بچپن میں اور حالت تھی اور آج کل اور زمانہ ہے۔ اس وقت قلعہ آباد تھا۔ جہاں پناہ ظلِّ سبحانی بہادر شاہ حضرت کا سایہ سَر پر تھا۔ ہر بات سے بے فکری تھی، لیکن آج تو کچھ بھی نہیں۔ نہ بادشاہی ہے نہ امیری ہے۔ ہر مسلمان کے گھر میں گدائی اور فقیری ہے۔ اب تو جو جو ہنر مندی سیکھے گا اور اپنی روٹی اپنے بازو سے کمائے گا، وہی لالوں کا لال بنے گا، ورنہ ذلّت و خواری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔‘‘

    دلدار شاہ نے کہا، ’’ہاں یہ سچ ہے۔ میں اس کو سمجھتا ہوں، مگر آخر ہماری بھی تو اتنی عمر اسی بربادی کے زمانے میں بسر ہوگئی۔ سرکار نے پانچ روپیہ کی جو پنشن مقرر کی ہے۔ تم جانتے ہو کہ اس میں ہمارے کَے وقت نکلتے ہوں گے۔ آٹھ آنے روز تو بچّے کا خرچ ہے۔ ہم دونوں میاں بیوی روپیہ ڈیڑھ روپیہ کی روز کناری بنتے ہیں اور مزے سے گزر اوقات کرتے ہیں۔‘‘

    یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک دوسرے صاحب تشریف لائے اور انہوں نے کہا، ’’آسٹریا کے بادشاہ کا ولی عہد مارا گیا۔ جب بادشاہ کو اس کی خبر پہنچی تو وہ بے قرار ہو گیا اور ہائے کا نعرہ مار کر کہا، ظالموں نے سب کچھ لوٹ لیا، میرے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ میرزا دلدار شاہ یہ سن کر ہنسنے لگے اور بولے، ’’بھئی یہ اچھی بہادری ہے۔ بیٹے کے ناگہانی مرنے سے ایسا گھبرا گئے۔ میاں! جب بہادر شاہ حضرت کے صاحب زادے میرزا ابو بکر وغیرہ گولی سے مارے گئے اور ان کے سر کاٹ کر سامنے لائے تو بادشاہ نے خوان میں کٹا ہوا سر دیکھ کر نہایت بے پروائی سے فرمایا، الحمدُ للہ! سرخ رو ہو کر سامنے آیا۔ مرد لوگ اسی دن کے لیے بچّے پالتے ہیں۔‘‘

    جو صاحب خبر لائے تھے، وہ بولے، ’’کیوں جناب! غدر میں آپ کی عمر کیا ہوگی؟‘‘ میرزا دلدار شاہ نے کہا، ’’کوئی چودہ پندرہ برس کی۔ مجھے سب واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔ باوا جان ہم کو لے کر غازی آباد جا رہے تھے کہ ہینڈن ندی پر ہم کو فوج نے پکڑ لیا۔ والدہ اور میری چھوٹی بہنیں چیخیں مار کر رونے لگیں۔ والد نے ان کو منع کیا اور آنکھ بچا کر ایک سپاہی کی تلوار اٹھا لی۔ تلوار ہاتھ میں لینی تھی کہ سپاہی چاروں طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے دو چار کو زخمی کیا مگر سنگینوں اور تلواروں کے اتنے وار ان پر ہوئے کہ بچارے قیمہ قیمہ ہو کر گر پڑے اور شہید ہو گئے۔

    ان کی شہادت کے بعد سپاہیوں نے میری بہن اور ماں کے کانوں کو نوچ لیا اور جو کچھ ان کے پاس تھا، چھین کر چلتے ہوئے۔ مجھ کو انہوں نے قید کر کے ساتھ لے لیا۔ جس وقت میں والدہ سے جدا ہوا ہوں، ان کی آہ و زاری سے آسمان ہلا جاتا تھا۔ وہ کلیجہ کو تھامے ہوئے چیختی تھیں اور کہتی تھیں، ارے میرے لال کو چھوڑ دو، تم نے میرے سرتاج کو خاک میں سلا دیا، اس یتیم پر تو رحم کرو۔ میں کس کے سہارے رنڈاپا کاٹوں گی۔ یا اللہ میرا کلیجہ پھٹا جاتا ہے، میرا دلدار کہاں جاتا ہے۔ کوئی اکبر و شاہجہاں کو قبر سے بلائے۔ ان کے گھرانے کی دکھیا کی بپتا سنائے۔ دیکھو میرے دل کے ٹکڑے کو مٹھی میں مسلے دیتے ہیں۔ ارے کوئی آؤ، میری گودیوں کا پالا مجھ کو دلواؤ۔

    چھوٹی بہن آکا بھائی، آکا بھائی کہتی ہوئی میری طرف دوڑی، مگر سپاہی گھوڑوں پر سوار ہو کر چل دیے اور مجھ کو باگ ڈور سے باندھ لیا۔ گھوڑے دوڑتے تھے تو میں بھی دوڑتا تھا، ٹھوکریں کھاتا تھا، پاؤں لہولہان ہو گئے تھے۔ دل دھڑکتا تھا۔ دَم اکھڑا جاتا تھا۔‘‘

    پوچھا، ’’میرزا یہ بات رہ گئی کہ پھر تمہاری والدہ اور بہن کا کیا حال ہوا؟‘‘ میرزا نے کہا، ’’آج تک ان کا پتہ نہیں۔ خبر نہیں ان پر کیا گزری اور وہ کہاں گئیں۔ مجھ کو سپاہی اپنے ہمراہ دہلی لائے اور یہاں سے اندور لے گئے۔ مجھ سے وہ گھوڑے ملواتے تھے اور گھوڑوں کی لید صاف کراتے تھے۔ چند روز کے بعد مجھ کو چھوڑ دیا گیا اور میں نے اندور میں ایک ٹھاکر کے ہاں دربانی کی نوکری کر لی۔ کئی برس اس میں گزارے۔ پھر دہلی میں آیا اور سرکار میں درخواست دی۔ اس کی مہربانی سے میری بھی اوروں کی طرح پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے شادی کی۔ یہ بچّے پیدا ہوئے۔‘‘

    اس واقعہ کے چند روز بعد میرزا دلدار شاہ بیمار ہوئے اور دس دن بیمار رہ کر آخرت کو سدھارے۔ ان کے مرنے کا غم سب سے زیادہ ان کی بیوی اور لڑکے کو تھا۔ لڑکا دس برس کا تھا اور اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ابا جان مر گئے ہیں، مگر وہ بار بار امّاں سے کہتا تھا کہ ابا جان کو بلا دو۔ الغرض اس رونے دھونے میں یہ سب لوگ سو گئے۔

    سحری کو بیگم صاحبہ بیدار ہوئیں تو دیکھا کہ گھر میں جھاڑو مَلی ہوئی ہے۔ کپڑا التا، برتن بھانڈا سب چور لے گئے۔ بیچاری بیوہ نے سر پیٹ لیا۔ ہے، ہے، اب میں کیا کروں گی۔ میرے پاس تو ایک تنکا بھی نہ رہا۔ گھر کے مالک کے اٹھتے ہی چوری بھی ہوئی۔ آس پاس کے محلّہ والے ان کے رونے کی آواز سن کر جمع ہوگئے اور سب نے بہت افسوس کیا۔ پڑوس میں ایک گوٹے والے رہتے تھے۔ انہوں نے سحری کے لیے دودھ اور نان پاؤ بھیجا اور بیچاری نے ٹھنڈا سانس بھر اس کو لے لیا۔

    یہ پہلا دن تھا کہ بیوہ شہزادی نے خیرات کی سحری کھائی جس کا اس کو سب سے زیادہ صدمہ تھا۔ دن ہوا۔ چاروں طرف عید کے سامان نظر آتے تھے۔ چاند رات کی چہل پہل ہر گھر میں تھی، مگر نہ تھی اس گھر میں جہاں دودھ بیتی بچّی کو گود میں لیے بیوہ شہزادی یتیم شہزادہ کو سمجھا رہی تھی کیوں کہ وہ نئی جوتی اور نئے کپڑے مانگتا تھا۔

    ’’بیٹا تمہارے ابّا جان پردیس گئے ہیں۔ وہ آجائیں تو کپڑے منگا دیں گے۔ دیکھو تمہارے دولھا بھائی بھی بنارس گئے ہوئے ہیں۔ وہ ہوتے تو ان سے ہی منگا دیتے۔ اب کس کو بازار بھیجوں۔‘‘ لڑکے نے کہا، ’’میں خود لے آؤں گا۔ مجھ کو دام دو۔‘‘ دام کا نام سن کر دکھیاری بیوہ کے آنسو آگئے۔ اس نے کہا، ’’تمہیں خبر نہیں، رات کو گھر میں چوری ہوگئی۔ ہمارے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔‘‘

    ضدی شہزادہ نے مچل کر کہا، ’’نہیں میں تو ابھی لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر دو چار گالیاں ماں کو دے دیں۔ مصیبت زدہ نے ٹھنڈا سانس بھر کر آسماں کو دیکھا اور بولی، ’’اچھا ٹھہرو میں منگاتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر پڑوس کے گھر سے لگی ہوئی کھڑ کی میں جا کر کھڑی ہوئی اور گوٹہ والے کی بیوی سے کہا، ’’بوا! عدّت کے دن ہیں، میں اندر تو نہیں آ سکتی۔ ذرا میری بات سن جاؤ۔‘‘ وہ بیچاری فوراً اس کے پاس آئی تو اسے سارا ماجرا سنایا اور کہا، ’’ خدا واسطہ کا کام ہے۔ اپنے بچّے کی اترن، کوئی جوتی یا کپڑوں کا جوڑا ہو تو ایک دن کے لیے مانگے دے دو۔ کل شام کو واپس دے دوں گی۔‘‘

    شہزادی اترن کہتے وقت بے اختیار ہچکی لے کر رونے لگی۔ پڑوسن کو بڑا ترس آیا۔ اس نے کہا، ’’بوا رونے اور جی بھاری کرنے کی کچھ بات نہیں۔ ننھے کی کئی جوتیاں اور کئی جوڑے فالتو رکھے ہیں۔ ایک تم لے لو۔ اس میں اترن کا خیال نہ کرو۔ اس نے تو ایک دن یونہی ذرا پاؤں میں ڈالی تھی۔ میں نے سنگوا کر رکھ دی۔‘‘ یہ کہہ کر پڑوسن نے جوتی اور کپڑے شہزادی کو دیے۔ شہزادی یہ چیزیں لے کر بچہ کے پاس آئی اور اس کو یہ سب دکھائیں۔ بچہ خوش ہو گیا۔

    دوسرے دن عید گاہ جانے کے لیے شہزادی نے اپنے بچے کو بھی گوٹا والے پڑوسی کے ساتھ کر دیا۔ عید گاہ پہنچ کر یتیم شہزادے نے گوٹا والے کے لڑکے سے کہا، ’’ابے تیری ٹوپی سے ہماری ٹوپی اچھی ہے۔‘‘ گوٹا والے لڑکے نے جواب دیا، ’’چل بے اترن کھترن پر اتراتا ہے! لے یہ بھی میری ٹوپی ہے۔ اماں نے تجھ کو خیر خیرات دے دی ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ شہزادہ نے ایک زور کا تھپڑ گوٹے والے کے بچّے کے رسید کیا اور کہا ہم کو خیرات خورہ کہتا ہے۔ گوٹے والے نے جو اپنے بچّے کو پٹتا دیکھا تو اس کو بھی غصہ آگیا اور اس نے دو تین تماچے شہزادے کے مارے۔ یہ لڑکا روتا ہوا بھاگا۔ گوٹے والے نے خیال کیا کہ اس کی ماں کیا کہے گی کہ ساتھ لے گئے تھے۔ کہاں چھوڑ آئے۔ اس لیے وہ اس کو پکڑنے کو دوڑا مگر لڑکا نظروں سے غائب ہو گیا۔ ناچار گوٹے والا مجبور ہو کر اپنے گھر چلا آیا۔

    اب یتیم شہزادہ کی یہ کیفیت ہوئی کہ وہ عام خلقت کے ساتھ عید گاہ سے گھر کی طرف آرہا تھا کہ راستہ میں ایک گاڑی کی جھپٹ میں آکر گر پڑا اور زخمی ہوگیا۔ پولیس شفا خانہ لے گئی۔ یہاں گھر میں اس کی ماں کا عجب حال تھا۔ غش پہ غش آتے تھے۔ دو وقت سے بھوکے تھی۔ اس پر عید اور یہ مصیبت کہ لڑکا گم ہو گیا اور عالم یہ کہ کوئی پرسان حال نہیں، جو لڑکے کو تلاش کرنے جائے۔

    آخر بیچارا وہی گوٹے والا پھرگیا اور پولیس میں اطلاع لکھوائی۔ اس وقت معلوم ہوا کہ وہ شفاخانہ میں ہے۔ شفا خانہ جاکر خبر لایا اور شہزادی کو ساری کیفیت سنائی۔ اس وقت عجیب عالم تھا۔

    عید کی شام تھی۔ گھر گھر خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ مبارک بادوں کے چرچے تھے۔ تحفے تحائف اور عیدیاں تقسیم ہو رہی تھیں۔ ہر مسلمان نے اپنی حیثیت سے زیادہ گھر کو آراستہ کیا تھا اور اپنے بال بچوں کو خوش و خرّم لیے بیٹھا تھا، مگر بیچاری بیوہ شہزادی دو وقت کے فاقہ سے رنجور، بچّے کے غم میں اشک بار، اندھیرے اجاڑ گھر میں بیٹھی آسمان کو دیکھتی تھی اور کہتی تھی، ’’خدایا میری عید کہاں ہے؟‘‘ اور بے اختیار ہچکیاں لے کر روتی تھی۔ ادھر شفا خانہ میں یتیم شہزادہ ماں کی جدائی میں پھڑکتا تھا۔

    یہ ہے انقلابِ ایّام کی سچّی تصویر۔ اس میں تقدیر کا نشان۔ اس قصّہ سے معلوم ہوگا کہ اولاد کی تعلیم سے غفلت کرنا اور اس کو تربیت نہ دینا کیسا خطرناک ہے۔ یہ سچّی کیفیت عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو عید کی خوشی میں مست و بے خبر ہو جاتے ہیں اور آس پاس کے آفت رسیدہ غریبوں کی حالت نہیں دیکھتے۔

    (غدر اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی جلا وطنی کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کی ایک جھلک، جو اردو کے صاحبِ طرز ادیب خواجہ حسن نظامی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں)

  • انسانی کنبہ

    انسانی کنبہ

    جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں، لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پَر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔

    اچھا، اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سَر رکھے آنے جانے والوں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لیے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔

    یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتّھر سے ٹھوکر لگی، اور ٹھوکر لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔

    اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں۔ وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔

    لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا، مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔

    میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھرّوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!

    (حجاب امتیاز علی کا شمار اردو کی اوّلین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوں اور رومانی انداز کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ بچّوں کے لیے لکھی گئی اپنی اس مختصر کہانی کے ذریعے انھوں نے دنیا بھر کے لیے امن اور سلامتی کا درس اور ایک آفاقی پیغام دیا ہے)

  • احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    قمر رئیس نے اپنے مضمون ”افسانہ نگار ندیم“ میں لکھا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ (ندیم) گڑیا، آنندی، موذیل یا لاجونتی کے مرتبے کی کوئی کہانی نہیں لکھ سکا….“ (عالمی اردوادب 1996)

    مجھے نہیں معلوم کہ اس دعوے کا شافی جواب دیا گیا ہے یا نہیں تاہم اس نے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ قمر رئیس نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کی مختلف جہات کی طرف تاحال کسی بھی نقّاد نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی۔

    رئیس خانہ، کنجری، الحمدُللہ، پرمیشر سنگھ وغیرہ قاسمی صاحب کے وہ افسانے ہیں جو ان کے ادبی رجیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ادب کے حوالے سے ان کا یہ نقطہ نظر بالکل سامنے تھا کہ یہ اپنی داخلی جمالیات پر استوار ہوتا ہے۔ مصنّف کی فکری وابستگی کی حیثیت ثانوی ہے۔ ترقی پسند ہونے کے ناطے یہ ان کی فنی و فکری زندگی کا بڑا تضاد رہا ہے، تاہم جس طرح وہ اپنی سماجی زندگی میں دھیمے مزاج اور انسانوں کو اپنے آپ میں جذب کرنے والے رویّے کے حامل تھے، اسی طرح ادبی زندگی میں بھی وہ فکری شدت پسندی کی طرف مائل نہ ہوسکے۔

    اس حد تک تو ٹھیک تھا لیکن جب وہ ترقی پسند فکر کی نمائندگی کرنے آئے تو یہاں ان کے مزاج اور معروضی حقیقت کے درمیان موجود تضاد کے مابین صلح کرتے ہوئے وہ ادبی رجیم کے اْس سرے کو نہ تھام سکے، جو اعلا ترین فن پاروں کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قاسمی صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

    ”آپ کو میرے نظریۂ فن کی ایک ہی بنیاد نظر آئے گی اور وہ انسان دوستی، انسان کا احترام اور انسان کا وقار اور اس کی عظمت ہے۔“

    اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی سماجی زندگی میں انسان دوست شخصیت رہے ہیں اور ان کے ہاں انسان دوستی کا فلسفہ مغرب سے درآمد شدہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے اندر اپنی ثقافت سے گہری جڑت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ انسان دوستی کے اس جذبے کو انھوں نے فنی سطح پر برتنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ترقی پسند دوستوں سے ایک سطح پر خود کو ممتاز دیکھتے رہے۔ یہ ان کی زندگی کا بھی رومان تھا جو دیگر ترقی پسندوں سے مختلف تھا اور یہی رومان ان کے افسانوں میں بھی فنی سطح پر منتقل ہوتا رہا۔

    ان کے افسانے رومانیت پسندی اور سماجی حقیقت نگاری کے امتزاج سے ایسے فن پاروں میں منقلب ہوتے رہے جو پنجاب کی منفرد، بھرپور اور دل کش معاشرت کے اظہار کے ساتھ نمایاں تو تھے لیکن اپنے بنیادی موضوع میں منفرد اور متحرک آئیڈیا سے محرومی کا شکار ہوئے۔

    محمد حمید شاہد اپنے مضمون ”احمد ندیم قاسمی کا افسانہ: تخلیقی بنیادیں“ میں لکھتے ہیں: ”اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہوگا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔“

    قاسمی صاحب کے افسانوں کی ڈی کنسٹرکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان متون میں طبقاتی تضاد کا قضیہ ایک ایسے حاشیے کی صورت ملتا ہے جس کی ابھی پہچان ہی نہیں کرائی گئی ہے۔ وہ جب پنجاب کی دیہی معاشرت کو فسانوی رنگ دیتے ہیں تو ان کے سامنے صرف ادبی جمالیات کا بنیادی قضیہ ہوتا ہے جسے رو بہ عمل لانا وہ اسی طرح ضروری سمجھتے تھے جس طرح مارکسیوں کی سنگت میں وہ خدا اور رسول سے جڑت ضروری سمجھتے تھے۔ اس تضاد کی وجہ سے ادب میں وہ اس انتہا پر چلے گئے جہاں کہانی میں فکر کا سرا انھیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔

    ادب میں فکر سے عدم جڑت کی وجہ سے ان کے افسانے اسٹرائکنگ آئیڈیاز سے خالی رہ گئے۔ ”لارنس آف تھلیبیا“ میں دیہی زندگی کا بھرپور رومانس ملتا ہے جہاں زمیں داروں کا ظلم سہنا بھی رومانس سے خالی نہیں ہوتا۔ مزارع کی جوان لڑکی کی عزت لٹنا اور اس پر اس کا عجیب رد عمل سب کا سب ایک دیہی رومانس میں لپٹا ملتا ہے۔ قاسمی صاحب کے افسانوی کردار جب بطور فرد اپنی شناخت بناتے ہیں تو پس منظر میں تاریخی سماجی عمل نہیں بلکہ خالصتاً رومانیت پسندی کا اکھوا ملتا ہے۔

    ”رئیس خانہ“ کے، طبقاتی تضاد کے شکار کرداروں کے ساتھ ہونے والے عظیم فریب کو قاسمی صاحب کے افسانے میں دیکھتے ہوئے لطف آتا ہے۔ اسے طبقاتی تضاد کا اظہار کہنے کے لیے بھی اعلا قسم کی بے حسی چاہیے جسے فنی طور پر برتتے ہوئے ایسی لطافت سے ہم کنار کیا گیا ہے کہ اختتام پر من چلوں کا لطیفہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔

    افسانہ ”الحمدللہ“ کے مولوی اور چوہدری کے تعلق پر نگاہ دوڑائیں۔ مولوی ایک غیر پیداواری انسان ہے اور چوہدری انسانی جذبے اور عقیدت کے احساس سے لبریز۔ طرفہ تماشا یہ کہ غیر پیداواری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سماج پر دھڑا دھڑ بچوں کا بوجھ بھی لادتا جارہا ہے۔ اس افسانے کا جنم بھی کسی طبقاتی تضاد کے تصور سے نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک روایتی سماج کے روایتی کرداروں کا رومانوی سطح پر فنی اظہار ہے جس میں بلاشبہ کشش ہے۔

    کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور غلام عباس…احمد ندیم قاسمی کے ہم عصر تھے، لیکن بطور افسانہ نگار انھیں ان جیسی حیثیت نہیں ملی۔ کچھ لوگ اس کا اظہار بطور شکوہ کرتے ہیں اور کچھ بطور حیرت۔

    ہم سیاسی، ثقافتی اور ادبی طور پر مابعد جدید دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں ہماری حیثیت کیا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ جغرافیائی سطح پر مابعد نو گیارہ کا دور ہمارے لیے دراصل اسی مابعد جدیدیت کی متعین کردہ صورت حال ہے جو بذاتِ خود فلسفیانہ سطح پر ہر قسم کے تعینات کو مسترد کرتی ہے۔ مابعد نو گیارہ کی مشرقی دنیا میں ہمارے لیے بھی یہ واضح راہ نمائی سامنے آئی ہے کہ ہیرو ازم اور شخصیات کے پیچھے اصل سیاسی متون کو درست سمت میں سمجھنے کے بعد ہی اپنے لیے کوئی مفید اور درست لائحہ عمل ترتیب دیا جانا ممکن ہے۔ بہ صورت دیگر سماجی و ثقافتی متون کی، اندر سے شکستگی کے عمل کو روکا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ادبی متون کو بھی درست سمت میں سمجھنے کے لیے متن کو توجہ کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے۔

    قاسمی صاحب کے حوالے سے مندرجہ بالا شکوے یا حیرت نما سوال کا جواب ڈھونڈنا اس تناظر میں زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔

    ایک ایسے دور میں جب اردو افسانہ پوری طاقت کے ساتھ سماجی سطح پر مکالمہ کررہا تھا، ادب کی جمالیات اس مکالمے کی زیریں سطحوں میں روبہ عمل تھی، انسانی ثقافتوں کے گہرے متون کو پیرایہ اظہار بنایا جارہا تھا، احمد ندیم قاسمی نے اپنے لیے دیہی معاشرت کے حسن کو پیرایۂ اظہار کے طور پر منتخب کیا۔ بطور انسان انھیں اپنی اس دیہی معاشرت سے بہت پیار تھا اس لیے بطور مصنف بھی انھوں نے اس معاشرت کی بدصورتی کو قبول نہیں کیا اور اسے حسن کے ایک درجے پر استوار کرلیا۔

    اپنی بنیاد ہی میں انھوں نے زندگی کی جدلیاتی سطح ہموار کرکے رکھ دی اور طبقاتی تضاد کے کسی تصور کے ابھرنے کا راستہ ہی بند کردیا۔ ادب اگر فکر کی بنیاد پر نہ بھی لکھا جائے تب بھی اگر وہ کسی اوریجنل فکر کے عنصر سے پاک رہ جائے تو معاشرے میں اس کے سرایت کرنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

    قاسمی صاحب کے افسانے کا المیہ یہی ہے کہ یہ رومانیت پسند رجحان کے تعاقب میں اپنی اصل سے بچھڑ گیا۔ بقول انتظار حسین ”کرشن چندر نے اپنی حقیقت نگاری میں رومانیت کا چھینٹا دیا ہوا تھا“ لیکن وہ اپنی اصل سے جدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ سب ادب کے جمالیاتی پہلو کی اچھی سمجھ اور پرکھ رکھنے والے لوگ تھے۔

    حقیقت نگاری جب افسانے کی صورت میں ہوتی ہے تو یہ دل کشی سے خالی نہیں ہوتی۔ نہ ہی رومانیت کا چھینٹا لگنے سے حقیقت نگاری کی دل کشی ماند پڑتی ہے۔ قاسمی صاحب کے ہاں رومانیت پسندی کا رجحان اتنا غالب ہوگیا ہے کہ ان کا افسانہ نہ صرف فکر سے کٹ کر رہ گیا ہے بلکہ بنیادی خیال بھی اپنی طاقت سے محروم ہوا ہے۔

    مرکزی خیال کا کرشمہ دیکھیں۔ منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی لڑکی ہجرت کے وقت باپ سے بچھڑکر بلوائیوں اور مسلمان رضاکاروں کے ہاتھوں پامال ہوتے ہوتے اسپتال پہنچتی ہے تو وہاں اس کا کلائمکس ہوتا ہے۔ اس پر جو قیامتیں گزرتی ہیں، ان کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن ان قیامتوں نے اس کے معصوم دماغ پر ”کھول دو“ کے جو الفاظ مرتسم کردیے ہیں، اس کا نتیجہ دوسروں کے لیے قیامت خیز نکلتا ہے۔ منٹو اگر رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت اس افسانے کو لکھتے تو جلتے روم کے مناظر میں ہزار دل کشی پیدا کردیتے۔ لیکن مرکزی خیال کی یہ قیامت خیزی ان کے ہاتھوں سے لازماً چھوٹ جاتی۔

    اب قاسمی صاحب کا افسانہ ”الحمدُ للہ“ دیکھیں۔ مولوی ابل اپنی جوان ہوتی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے اس حد تک پریشان ہے کہ زبانی توکل تو اللہ پر کرتا ہے لیکن دل و دماغ میں چوہدری پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ بڑی بیٹی کی شادی کا اتنا بھاری بوجھ سر پر ہے کہ اٹھائے نہیں اٹھ رہا، اللہ پر حقیقی توکل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ لیکن قیامت جتنے اس بڑے امتحان سے وہ نہایت آسانی سے نکل آتا ہے اور پھر نواسے کی پیدایش پر کپڑے کھلونے وغیرہ لے جانے کی معمولی رسم اس کے لیے اتنی بڑی قیامت بن جاتی ہے کہ جوانی کی دہلیز پر پاؤں دھرتی دوسری بیٹیاں بھی ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور چوہدری جیسے واحد آسرے کی موت پر چند روپے ملنے کا یقین اسے ناقابلِ یقین حد تک کچھ دیر کے لیے خوشی سے دیوانہ کردیتا ہے۔

    قاسمی صاحب نے اس افسانے میں دیہی زندگی کی جزیات کو نہایت دل چسپ انداز میں بیان کیے ہیں لیکن مرکزی خیال کو زیب داستاں بناتے بناتے پلاٹ کمزور تعمیر کرلیا۔ افسانہ پڑھتے ہوئے بار بار محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بہت بڑا المیہ رونما ہونے والا ہے‘ لیکن قاسمی صاحب نے حقیقی زندگی کے حقیقی المیے رقم کرنا کبھی پسند نہیں کیا۔ وہ اگر کسی افسانے میں کسی حد تک المیہ رقم کرسکے ہیں تو وہ ہے ”کنجری۔“

    قاسمی صاحب کے بعض افسانوں کے مرکزی خیال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے یا تو اپنے دور کے آس پاس لکھے گئے موضوعات کو اپنے مخصوص ماحول اور انداز میں لکھا ہے جیسا کہ ”الحمد للہ“، اس خیال پر مبنی ایک ایرانی افسانہ لیل و نہار میں چھپا تھا۔ ”فقیر سائیں کی کرامات“ ایک دیہی حکایت پر مبنی ہے۔

    ”لارنس آف تھلیبیا“ کا موضوع بھی اسی دور کا مرغوب موضوع ہے، یعنی مزارع کے گھر کی عزت بھی جاگیردار کی ملکیت میں شامل ہوتی ہے۔ رئیس خانہ اپنے مرکزی خیال میں من چلوں کا لطیفہ بن گیا ہے کہ ایک افسر ایک غریب عورت کی عزت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کئی عورتوں کے ساتھ رات گزار کر اپنی پارسائی کا ڈھونگ رچاتا ہے اور آخر کار اس عورت کو اپنی خلوت گاہ تک لے آتا ہے۔ ”ہٰذا من فضل ربّی“ کا مرکزی خیال متمول مرد و خواتین کا بہ یک وقت کئی کئی پارٹنرز کے ساتھ گلچھرے الڑانے پر مبنی ہے لیکن اس میں بھی قاسمی صاحب کا مخصوص دل چسپ انداز ملتا ہے اور اختتام پر افسانہ ایک لطیفے جیسا لطف دیتا ہے۔

    ”کنجری“ میں پیشہ کرنے والی عورت کی بیٹی کا المیہ رقم ہے جو اس دور میں بھی کوئی نیا چونکادینے والا خیال نہیں تھا۔ اس موضوع پر بہت اور اچھا لکھا جارہا تھا۔ قاسمی صاحب نے اس کے المیاتی اختتام کو تحلیل تو نہیں کیا ہے۔ تاہم باقی سارا فسانہ انھوں نے رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت بُنا ہے حتیٰ کہ اختتام پر باپ کے مکروہ کردار کی کراہت بھی زائل کردی ہے۔

    ”گنڈاسا“ میں مرکزی کردار اپنے دشمن کو اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس کو پسند آنے والی لڑکی کا منگیتر ہے۔ بین میں مزار پر شاہ جی کے ہاتھوں عزت سے جانے والی کنواری لڑکی کا فسانہ ہے جو خود کلامی کے انداز میں لکھا گیا ہے اور ممکن ہے یہ اس وقت کا ایک اچھا تجربہ رہا ہو۔

    ”پرمیشر سنگھ“ تقسیم کے موضوع پر ان کا بہت مشہور افسانہ ہے۔ اس میں بھی انھوں نے المیے کو المیہ نہیں رہنے دیا ہے بلکہ رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت انسان دوستی کے احساس کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سکھ جس سے اس کا بیٹا کھو گیا ہے، کے ہاتھ ایک مسلمان لڑکا لگتا ہے۔ وہ اسے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا ہے۔ لیکن پھر اسے پاکستانی سرحد پر چھوڑنے آتا ہے اور فوجی کی گولی سے زخمی ہوجاتا ہے۔

    معلوم یہی ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب نے آئیڈیاز کی شدت کو رومانیت پسندی کی تہہ چڑھا کر ہمیشہ کم کیا ہے جس کے سبب ان کے افسانے اس زمانے میں لکھے جانے والے افسانوں کی سطح کو کبھی چھو نہیں پائے، نہ ہی انھیں ویسی مقبولیت ملی۔ منٹو جب تقسیم کے المیے پر انسانی جذبے کو موضوع بناتا ہے تو ”موذیل“ جیسا شاہ کار جنم لیتا ہے۔ غلام عباس جب پیشہ ور عورتوں کو موضوع بناتا ہے تو ”آنندی“ جیسا لازوال افسانہ جنم لیتا ہے۔ تقسیم ہی کے المیے پر بیدی ”لاجونتی“ جیسے آئیڈیا کو افسانوی کینوس پر لاتا ہے تو یادگار بن جاتا ہے۔ یہ آئیڈیاز اور آئیڈیاز کے بطن میں موجود یہ شدت قاسمی صاحب کے ہاں مفقود ہے۔

  • معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر سیّد وقار عظیم کا یومِ وفات

    معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر سیّد وقار عظیم کا یومِ وفات

    اردو زبان کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر سید وقار عظیم 17 نومبر 1976ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ افسانوی ادب کے اوّلین نقاد کا درجہ رکھنے والے سّید وقار عظیم اردو کے پہلے "غالب پروفیسر” بھی مقرر کیے گئے تھے۔

    سیّد وقار عظیم ایک محقق اور مترجم بھی تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنے وسیع مطالعے اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔

    سید وقار عظیم 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ وہ الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں‌ تدریس سے منسلک رہے۔ اسی زمانے میں سرکاری سطح پر نکلنے والے ادبی جریدے "آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1949ء میں لاہور چلے آئے جہاں‌ نقوش کے مدیر ہوئے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں‌ اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب کو سید وقار عظیم نے کئی مضامین سمیت اہم موضوعات پر تصانیف سے مالا مال کیا۔ ان میں‌ افسانہ نگار، داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ سرفہرست ہیں۔ سید وقار عظیم لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • وہ نام وَر ادیب جنھوں نے ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھیں

    وہ نام وَر ادیب جنھوں نے ریڈیو کے لیے کہانیاں لکھیں

    ریڈیو پر کہانی یا افسانہ پیش کرنے اور سننے سنانے کا رواج کئی دہائیوں پر محیط ہے۔

    متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو مختلف اسٹیشنوں سے مختلف زبانوں میں کہانیاں نشر کرتا رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے دنیا کی مختلف زبانوں کی تخلیقات ترجمہ ہو کر اور کئی قسط وار ناول بھی پیش کیے گئے جن کا خوب شہرہ ہوا اور انھیں بے حد سراہا گیا۔

    اردو کے عظیم ناول نویس مرزا ہادی رسوا جن کا ناول امراﺅ جان ادا، پریم چند کا ناول گئو دان اور رتن ناتھ سرشارکا ناول فسانۂ آزاد وغیرہ قسط وار نشر ہوئے اور انھیں بے حد پسند گیا۔

    اسی طرح اردو کے کئی نام ور اور اہم ادیبوں نے باضابطہ ریڈیو سے وابستہ ہوکر کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔

    ریڈیو کے سامعین کو اپنی تخلیقات سے محظوظ کرنے والوں میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک شامل ہیں۔ یہ اردو کے وہ ادیب ہیں جنھوں نے باقاعدہ ریڈیو میں ملازمت اختیار کی، اس میڈیم کے لیے لکھا اور ان کے ریڈیائی ڈرامے ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد یہ سلسلہ آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کی صورت میں جاری رہا اور سرحد کے دونوں پار بسنے والے ادیبوں اور تخلیق کاروں نے ریڈیو کے سامعین کے لیے معیاری کہانیاں اور افسانے پیش کیے۔

  • انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دن ایک عورت بکریوں کی تلاش میں نکلی جو اپنے ریوڑ سے بچھڑ گئی تھیں۔ وہ ان کی کھوج میں کھیتوں میں اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن بے سود۔

    آخر کار وہ سڑک کے قریب پہنچی۔ یہاں ایک بہرا آدمی اپنے لیے کافی بنارہا تھا۔ عورت کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بہرا ہے۔ اس نے اس سے پوچھ لیا، ”تم نے ادھر میری بکریاں دیکھی ہیں؟“

    بہرا آدمی سمجھا، وہ پانی کا پوچھ رہی ہے۔ اس نے دریا کی طرف اشارہ کردیا۔ عورت نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دریا کی جانب چل پڑی۔

    یہ محض اتفاق تھا کہ اسے وہاں بکریاں مل گئیں۔ بس ایک میمنا چٹان سے گر کر اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھا تھا۔ اس نے اسے اٹھا لیا۔ جب وہ بہرے آدمی کے قریب سے گزری تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے رک گئی اور اس کی مدد کے عوض اسے میمنا پیش کردیا۔

    بہرا آدمی اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ جب اس نے میمنا اس کی طرف کیا تو وہ سمجھا عورت اسے میمنے کی بدقسمتی کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ وہ ناراض ہوگیا۔

    ”میں اس کا ذمے دار نہیں۔“ اس نے واویلا کیا۔

    ”لیکن آپ نے مجھے راستہ دکھایا تھا۔“عورت بولی۔

    ”بکریوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔“ آدمی بولا۔

    ”لیکن یہ مجھے ادھر ہی ملیں، جہاں آپ نے بتایا تھا۔“

    آدمی غصے سے بولا ”چلی جاؤ اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ یہ میمنا میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“

    لوگ اکھٹے ہوگئے اور ان کے دلائل سننے لگے۔ عورت نے انھیں بتایا، ”میں بکریوں کی تلاش میں تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ دریا کے قریب ہیں۔ اب میں اسے یہ میمنا دینا چاہتی ہوں۔“

    آدمی غصے سے چیخا۔ ”تم میری توہین نہ کرو۔ میں نے اس کی ٹانگ نہیں توڑی۔“ اور ساتھ عورت کو تھپڑ رسید کردیا۔

    ”آپ دیکھ رہے ہیں، اس نے مجھے مارا ہے۔ عورت مجمع سے مخاطب ہوئی۔ میں اسے منصف کے پاس لے کر جاؤں گی۔“

    اس طرح اپنے بازوؤں میں میمنا اٹھائے عورت، بہرا آدمی اور تماش بین منصف کی طرف چل پڑے۔

    منصف ان کی شکایت سننے گھر سے باہر آگیا۔ پہلے عورت نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ پھر آدمی نے اپنی داستان سنائی۔ آخر میں مجمع نے منصف کو صورت حال بتائی۔ منصف اپنا سَر ہلاتا رہا۔

    بہرے آدمی کی طرح وہ بھی کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس کی نظر بھی کم زور تھی۔ آخر اس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ لوگ چپ ہوگئے۔

    اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔”اس طرح کے گھریلو جھگڑے بادشاہ اور کلیسا کے لیے بے عزتی کا باعث ہیں۔ پھر اس نے اپنا رخ آدمی کی طرف کیا، ”اپنی بیوی سے برا سلوک چھوڑ دو۔“

    اب وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ ”تم سست ہوگئی ہو۔ اپنے میاں کو وقت پر کھانا دیا کرو۔“

    اس نے پیار سے میمنے کی طرف دیکھا۔”خدا اسے لمبی عمر دے اور یہ آپ دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہو۔“

    مجمع تربتر ہوگیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے،

    ”واہ کیا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کتنا فاصلہ طے کرنا پڑا۔“

    ( اس کہانی کے مصنف کا نام حماتوما ہے اور اس کے مترجم حمید رازی ہیں)