Tag: اردو افسانہ

  • روز ایک افسانہ…

    روز ایک افسانہ…

    کرشن چندر کا یہ قاعدہ تھا کہ جب بھی انھیں کہانی کے لیے کوئی پلاٹ سوجھتا، وہ فوراً اس کے بنیادی خیال کو قلم بند کر کے محفوظ کر لیتے تھے تاکہ وہ ان کے ذہن سے نہ اُتر جائے۔

    اس طرح انھیں پلاٹ سوجھتے رہتے اور وہ انھیں نوٹ کرتے رہتے۔ جس خیال کو وہ کہانی کی شکل میں ڈھال دیتے، اُسے اپنی اس فہرست میں قلم زد کر دیتے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک رجسٹر بنا رکھا تھا۔

    محمد طفیل، جو مدیر ”نقوش“ لاہور تھے، انھو‌ں نے جب اُن کا یہ رجسٹر دیکھا تو ابھی ایک سو کے قریب کہانیوں کے بنیادی خیالات کو افسانوں کی شکل دینا باقی تھا۔ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں اس قدر زرخیز ادیب شاید ہی کوئی دوسرا ہوا ہو۔ اس بارے میں محمد طفیل لکھتے ہیں:

    ”میں نے ان سے پوچھا: آپ روز ایک سے ایک موضوع کس طرح لکھ لیتے ہیں؟ ”میرے پاس رجسٹر ہے….رجسٹر۔ جب کوئی پلاٹ ذہن میں آتا ہے تو اُسے یہاں نقل کر لیتا ہوں۔“

    ذرا دیکھوں!۔۔۔ میں نے رجسٹر دیکھا۔ اس میں تین تین چار چار سطروں میں افسانوں کے بنیادی خیال لکھے ہوئے تھے۔

    کچھ یاداشتوں کے آگے اس قسم کے (x) نشان پڑے ہوئے تھے اور کچھ یاداشتوں پر کوئی نشان نہ تھا۔ میں نے پوچھا ”یہ نشانات کیسے ہیں؟“

    کہنے لگے: ”جن پر اس قسم کے (x) نشانات ہیں، وہ افسانے تو لکھے جا چکے ہیں۔ باقی لکھے جانے والے ہیں۔“

    میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح تو وہاں بھی ایک سو کے قریب لکھے جانے والے افسانوں کی یاداشتیں موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز ایک افسانہ لکھ لیتے تھے۔“

    (ادب اور ادیبوں کے تذکروں سے انتخاب)

  • ماں جی

    ماں جی

    قدرت اللہ شہاب

    ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا۔

    جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا، پنجاب کے ہر قصبے سے غریب الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لیے اس نئی کالونی میں جوق در جوق کھنچے چلے آ رہے تھے۔ عرف عام میں لائل پور، جھنگ، سرگودھا وغیرہ کو "بار” کا علاقہ کہا جاتا تھا۔

    اس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی۔ اس حساب سے ان کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہو ئی ہو گی۔

    ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا۔ والدین کے پاس چند ایکڑ اراضی تھی۔ ان دنوں روپڑ میں دریائے ستلج سے نہر سرہند کی کھدائی ہو رہی تھی۔ نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی۔ روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمینوں کے معاوضے دئے جاتے تھے۔ نانا جی دو تین بار معاوضے کی تلاش میں شہر گئے لیکن سیدھے آدمی تھے۔ کبھی اتنا بھی معلوم نہ کر سکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لیے کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ انجام کار صبر و شکر کر کے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی کی مزدوری کرنے لگے۔

    انہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آباد کاروں کو مفت زمین مل رہی ہے۔ نانا جی اپنی بیوی، دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور روانہ ہو گئے۔ سواری کی توفیق نہ تھی۔ اس لیے پا پیادہ چل کھڑے ہوئے۔

    راستے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے۔ نانا جی جگہ بہ جگہ قلی کا کام کر لیتے یا کسی ٹال پر لکڑیاں چیر دیتے۔ نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کے فرش اور دیواریں لیپ دیتیں۔ لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا، جگہ جگہ بھٹکتے تھے اور پوچھ پوچھ کر دنوں کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے۔

    ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے۔ پا پیادہ چلنے اور محنت مزدوری کی مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے۔ یہاں پر چند ماہ قیام کیا۔ نانا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کرتے۔ نانی پرچہ کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سنبھالتیں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتمل تھا۔

    انہی دنوں بقر عید کا تہوار آیا۔ نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہو گئے تھے۔ انہوں نے ماں جی کو تین آنے بطور عیدی دیے۔ زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے آئے تھے۔ انہوں نے بہت سوچا لیکن اس رقم کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آسکا۔ وفات کے وقت ان کی عمر کوئی اسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن ان کے نزدیک سو روپے، دس روپے، پانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا۔

    عیدی کے تین آنے کئی روز ماں جی کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے۔ جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا۔ باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے تو وہ فوراً مسجد میں تیل بھجوا دیتیں۔

    ساری عمر جمعرات کی شام کو اس عمل پر بڑی وضع داری سے پابند رہیں۔ رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آگئی لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی انہیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا تھا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے۔ وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے۔ غالباً یہ پیسے بھی مسجد کے تیل کے لیے جمع کر رکھے تھے، چوں کہ وہ جمعرات کی شب تھی۔

    ان چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کچھ اور رقم تھی اور نہ کوئی زیور۔ اسبابِ دنیا میں ان کے پاس گنتی کی چند چیزیں تھیں۔ تین جوڑے سوتی کپڑے، ایک جوڑا دیسی جوتا، ایک جوڑا ربڑ کے چپل، ایک عینک، ایک انگوٹھی جس میں تین چھوٹے چھوٹے فیروزے جڑے ہوئے تھے۔ ایک جائے نماز، ایک تسبیح اور باقی اللہ اللہ۔ پہننے کے لیے تین جوڑوں کو وہ خاص اہتمام سے رکھتی تھیں۔ ایک زیب تن، دوسرا اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھا رہتا تھا تاکہ استری ہو جائے۔ تیسرا دھونے کے لیے تیار۔ ان کے علاوہ اگر چوتھا کپڑا ان کے پاس آتا تھا تو وہ چپکے سے ایک جوڑا کسی کو دے دیتی تھیں۔ اسی وجہ سے ساری عمر انہیں سوٹ کیس رکھنے کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔

    لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لیے انہیں تیاری میں چند منٹ سے زیادہ نہ لگتے تھے۔ کپڑوں کی پوٹلی بنا کر انہیں جائے نماز میں لپیٹا۔ جاڑوں میں اونی فرد اور گرمیوں میں ململ کی دوپٹے کی بکل ماری اور جہاں کہیے چلنے کو تیار۔

    سفرِ آخرت بھی انہوں نے اسی سادگی سے اختیار کیا۔ میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھے۔ نہا دھو کر بال سکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے سب سے لمبے سفر پر روانہ ہو گئیں۔ جس خاموشی سے دنیا میں رہی تھیں، اسی خموشی سے عقبیٰ کو سدھار گئیں۔ غالباً اس موقع کے لیے وہ اکثر یہ دعا مانگا کرتی تھیں، کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ چلتے چلاتے اٹھا لے۔ اللہ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے۔

    کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ اور غریب مزاج تھیں۔ ان کی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی، دھنیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ تھی۔ باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتی تھیں لیکن شوق سے نہیں۔ تقریباً ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں۔ پھلوں میں کبھی بہت ہی مجبور کیا جائے تو کبھی کبھار کیلے کی فرمائش کرتی تھیں۔ البتہ ناشتے میں چائے دو پیالے اور تیسرے پہر سادہ چائے کا ایک پیالہ ضرور پیتی تھیں۔ کھانا صرف ایک وقت کھاتی تھیں۔ اکثر و بیشتر دوپہر کا۔ شاذ و نادر رات کا۔ گرمیوں میں عموماً مکھن نکالی ہوئی ہوئی پتلی نمکین لسی کے ساتھ ایک آدھ سادہ چپاتی ان کی محبوب خوراک تھی۔

    دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور ہمیشہ دعا کرتی تھیں۔ سب کا بھلا۔ خاص اپنے یا اپنے بچوں کے لیے انہوں نے براہ راست کبھی کچھ نہ مانگا۔ پہلے دوسروں کے لیے مانگتی تھیں اور اس کے بعد مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی تھیں۔ اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو انہوں نے اپنی زبان سے کبھی "میرے بیٹے” یا "میری بیٹی” کہنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہمیشہ ان کو اللہ کا مال کہا کرتی تھیں۔

    کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا۔ اپنے سب کام وہ اپنے ہاتھوں خود انجام دیتی تھیں۔ اگر کوئی ملازم زبردستی ان کا کوئی کام کر دیتا تو نہیں ایک عجیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگتا تھا اور وہ احسان مندی سے سارا دن اسے دعائیں دیتی رہتی تھیں۔

    سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو قدرت نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا، کچھ یقیناً زندگی کے زیر و بم نے سکھایا تھا۔

    جڑانوالہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور خورد سال بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کی کالونی کی طرف روانہ ہوئیں تو انہیں معلوم نہ تھا کہ انہیں کس مقام پر جانا ہے اور زمین حاصل کرنے کے لیے کیا قدم اٹھانا ہے۔

    ماں جی بتایا کرتی تھیں کہ اس زمانے میں ان کے ذہن میں کالونی کا تصور ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہ کہیں سرِ راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہو گا۔ کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پا پیادہ بھٹکتا رہا لیکن کسی راہ گزار پر انہیں کالونی کا خضر صورت راہ نما نہ مل سکا۔ آخر تنگ آ کر انہوں نے چک نمبر 392 جو ان دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دیے۔

    لوگ جوق در جوق وہاں آ کر آباد ہو رہے تھے۔ نانا جی نے اپنی سادگی میں یہ سمجھے کہ کالونی میں آباد ہونے کا شاید یہی ایک طریقہ ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی کا ایک قطعہ تلاش کر کے کاشت کی تیاری کرنے لگے۔

    انہی دنوں محکمۂ مال کا عملہ پڑتال کے لیے آیا۔ نانا جی کے پاس الاٹ منٹ کے کاغذات نہ تھے۔ چناں چہ انہیں چک سے نکال دیا گیا اور سرکاری زمین پر نا جائز جھونپڑا بنانے کی پاداش میں ان کے برتن اور بستر قرق کر لیے گئے۔ عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اتروا لیں۔ ایک بالی اتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی۔ جس سے ماں جی کے کان کا زیریں حصہ بری طرح سے پھٹ گیا۔

    چک 392 سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ دن بھر لو چلتی تھی۔ پانی رکھنے کے لیے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا۔ جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آیا ماں جی اپنا دوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے سے اپنے چھوٹے بھائیوں کو چساتی جائیں۔ اس طرح وہ چلتے چلتے چک نمبر507 میں پہنچے جہاں پر ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔ نانا جی ہل چلاتے تھے۔ نانی مویشی چرانے لے جاتی تھیں۔ ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمین دار کی بھینسوں اور گایوں کے لیے لایا کرتی تھیں۔ ان دنوں انہیں مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری طرح کھا سکیں۔ کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا، کبھی خربوزے کے چھلکے ابال کر کھا لیتے تھے۔ کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو ان کی چٹنی بنا لیتے تھے۔ ایک روز کہیں سے توریے اور کلتھے کا ملا جلا ساگ ساگ ہاتھ آگیا۔ نانی محنت مزدوری میں مصروف تھیں۔ ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا۔ جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کو الّن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آ پڑا۔ ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی۔ رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا۔

    چک نمبر507 نانا جی کو خوب راس آیا۔ چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آباد کاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر ان کو ایک مربع زمین مل گئی۔ رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں ان کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا۔ جوں جوں فارغ البالی بڑھتی گئی توں توں آبائی وطن کی یاد ستانے لگی۔ چناں چہ خوش حالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا۔ ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا۔ وہ سارا وقت کھڑکی سے باہر منہ نکال کر تماشا دیکھتی رہیں۔ اس عمل میں کوئلے کے بہت سے ذرے ان کی آنکھوں میں پر گئے۔ جس کی وجہ سے کئی روز تک وہ آشوبِ چشم میں مبتلا رہیں۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے ساری عمر اپنے کسی بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔

    ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔ ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ایئرکنڈیشنڈ ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

    منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحاف دیے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھرماں جی کے لیے بَر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزت لوگوں میں ہوتا تھا۔ چناں چہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پے در پے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لیے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

    کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دو بھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جارہی ہے۔ دیکھیے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

    "ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا!” ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

    "توبہ توبہ پت” ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں "میر ی نظر میں بھلا کوئی کیسے ہو سکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔”

    ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبد اللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبد اللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چناں چہ عبد اللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چناں چہ عبد اللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔

    وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

    اڑتے اڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبد اللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچرر ہو گئے۔

    سر سید کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبد اللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

    پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

    اس حرکت پر سر سید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا، بجھایا، ڈرایا، دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

    "کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟” سر سید نے کڑک کر پوچھا۔

    "جی ہاں” عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔

    یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا "اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔”

    عبد اللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چناں چہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔

    جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی انہی دنوں عبد اللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔ قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا۔ ان کی منگنی ہو گئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبد اللہ صاحب دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جائیں۔

    منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں۔ اتفاقاً یا شاید دانستہ عبد اللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔

    ماں جی کی سہیلیوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر ان سے پانچ پانچ روپے وصول کر لیے۔ عبد اللہ صاحب نے ماں جی کو بھی بہت سے روپے پیش کیے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔

    "اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی” عبد اللہ صاحب نے پوچھا۔

    اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈال دوں گی۔ ما ں جی نے جواب دیا۔

    زندگی کے میلے میں بھی عبد اللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔ اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔

    گلگت میں عبد اللہ صاحب کی بڑی شان و شوکت تھی۔ خوب صورت بنگلہ، وسیع باغ، نوکر چا کر، دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ۔ جب عبد اللہ صاحب دورے پر باہر جاتے تھے یا واپس آتے تھے تو سات توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ یوں بھی گلگت کا گورنر خاص سیاسی انتظامی اور سماجی اقتدار کا حامل تھا لیکن ماں جی پر اس سارے جاہ و جلال کا ذرہ بھی اثر نہ ہوا۔ کسی قسم کا چھوٹا بڑا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہوتا تھا۔ بلکہ ماں جی کی اپنی سادگی اور خود اعتمادی ہر ماحول پر خاموشی سے چھا جاتی تھی۔

    ان دنوں سر مالکم ہیلی حکومتِ برطانیہ کی طرف سے گلگت کی روسی اور چینی سرحدوں پر پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر مامور تھے۔ ایک روز لیڈی ہیلی اور ان کی بیٹی ماں جی سے ملنے آئیں۔ انہوں نے فراک پہنے ہوئے تھے اور پنڈلیاں کھلی تھیں۔ یہ بے حجابی ماں جی کو پسند نہ آئی۔ انہوں نے لیڈی ہیلی سے کہا "تمہاری عمر تو جیسے گزرنی تھی گزر ہی گئی ہے۔ اب آپ اپنی بیٹی کی عاقبت تو خراب نہ کرو۔” یہ کہہ کر انہوں نے مس ہیلی کو اپنے پاس رکھ لیا اور چند مہینوں میں اسے کھانا پکانا، سینا پرونا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا سکھا کر ماں باپ کے پاس واپس بھیج دیا۔

    جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچنر سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔ ان کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا اہتمام ہوا۔ ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے۔ کھانے لذیذ تھے۔ لارڈ کچز نے اپنی تقریر میں کہا "مسٹر گورنر، جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں، براہِ مہربانی میری طرف سے آپ ان کے ہاتھ چوم لیں۔”

    دعوت کے بعد عبد اللہ صاحب فرحاں و شاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی خانے کے ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔

    ایک اچھے گورنر کی طرح عبد اللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا "اگر لارڈ کچز یہ فرمائش کرتا کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں؟”

    "میں” ماں جی تنک کر بولیں۔ "میں اس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیتی۔ پھر آپ کیا کرتے ؟”

    "میں” عبد اللہ صاحب نے ڈرامہ کیا۔ "میں ان مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمہیں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا، جیسے سر سید کے ہاں سے بھاگا تھا۔”

    ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بارماں جی رشک و حسد کی اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔

    گلگت میں ہر قسم کے احکامات "گورنری” کے نام پر جاری ہوتے تھے۔ جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبد اللہ صاحب سے گلہ کیا۔

    "بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خوامخواہ!”

    عبد اللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ رگِ ظرافت پھڑک اٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا۔ بھاگوان یہ تمہارا نام تھوڑا ہے۔ گورنری تو دراصل تمہاری سوکن ہے جو دن رات میرا پیچھا کرتی رہتی ہے۔”

    مذاق کی چوٹ تھی۔ عبد اللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی لیکن ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا۔ اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں۔

    کچھ عرصہ کے بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا۔ ماں جی نے مہارانی سے اپنے دل کا حال سنایا۔ مہارانی بھی سادہ عورت تھی۔ جلال میں آ گئی "ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم۔ میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبد اللہ صاحب کی خبر لیں۔”

    جب یہ مقدمہ مہاراجہ پرتاب سنگھ تک پہنچا تو انہوں نے عبد اللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی۔ عبد اللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آپڑی لیکن جب معاملے کی تہ تک پہنچے تو دونوں خوب ہنسے۔ آدمی دونوں ہی وضع دار تھے۔ چنانچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت کے نام سے پکاراجائے۔ 1947 کی جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔

    یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوش خبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے۔

    "اب تم دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو۔” مہارانی نے کہا۔ "کبھی ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔”

    مہاراجہ اور مہارانی کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے۔ اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔

    ماں جی خود ہی تو کہا کرتی تھیں کہ ان جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہے لیکن اگر صبر و شکر، تسلیم و رضا کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ، کتنے غم، کتنے صدمے نظر آتے ہیں۔

    اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔ دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصہ بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں۔ سب سے بڑا بیٹا عین عالم شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔

    کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لے لیا لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کر خون کے آنسو رویا نہ کرتی ہوں گی!

    جب عبد اللہ صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ عبد اللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسب معمول گاؤ‮‫‫ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے۔ ماں جی پائنتی بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی تھیں۔ وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے۔ پھر یکایک سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے۔ "بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دیے تھے کیا ان کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا؟”

    ماں جی نے نئی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔ ان کے سینے میں بیک وقت بہت خیال امڈ آئے۔ "ابھی وقت کہاں آیا ہے۔ سرتاج شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔ اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں۔ ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔”

    لیکن قضا و قدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا۔ جب ماں جی نے سر اٹھایا تو عبد اللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لیے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے۔ ماں جی نے بہتیرا بلایا، ہلایا، چمکارا لیکن عبد اللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے جس سے بیداری قیامت سے پہلے ممکن ہی نہیں۔

    ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا لگا کر تلقین کی” بچہ رونا مت۔ تمہارے ابا جی جس آرام سے سو رہے تھے، اسی آرام سے چلے گئے۔ اب رونا مت۔ ان کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔”

    کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیاکہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا، ورنہ ان کو تکلیف پہنچے گی لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہو ں گی جس نے باسٹھ سال کی عمر تک انہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے گورنری کے علاوہ اور کوئی سوکن اس کے سرپر لا کر نہیں بٹھائی۔

    جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں، جو قیامت تک انہیں عقیدت کے بیابان میں سرگرداں رکھے گا۔

    اگر ماں جی کے نام پرخیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی، لیکن مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔

    ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔

    ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ان کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔

  • "چیتے دراصل گدھے ہیں”

    "چیتے دراصل گدھے ہیں”

    کسی جنگل میں خرگوش کی ایک اسامی نکلی، لیکن کئی ماہ تک کسی خرگوش نے اس نوکری کے لیے درخواست نہیں دی۔

    ایک بے روزگار اور حالات کے ستائے ہوئے ریچھ نے اس اسامی پر اپنی درخواست جمع کرا دی۔

    اس ریچھ کو خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دے دی گئی۔

    نوکری کے دوران کہیں سے ریچھ کو معلوم ہوا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر اسی کی طرح ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور وہ مشاہرہ اور مراعات لے رہا ہے جو کہ ریچھ جیسے بڑے اور طاقت ور جانور کا حق ہیں۔ اسے کسی نے بتایا کہ خرگوش خود کو دھڑلے سے ریچھ کہتا ہے۔

    ریچھ نے اسے ناانصافی تصور کیا۔ اسے بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جب کہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ بن کر مزے کر رہا ہے۔

    ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے رابطہ کیا اور مشورہ مانگا۔ انھوں نے ریچھ کو کہا کہ یہ تو بڑا ظلم اور اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہی خواہوں کا مشورہ تھا کہ ریچھ اس کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

    خرگوش کی اسامی پر کام کرنے والے ریچھ نے جنگل کے منتظمِ اعلیٰ کو تحریری شکایت کی اور مؤقف اپنایا کہ یہ غیرقانونی اور اس جیسے جانور کی حق تلفی کے مترادف ہے۔

    جنگل کا منتظمِ اعلیٰ ریچھ کو کوئی جواب نہ دے سکا اور اس کی شکایت انتظامیہ اراکین کو بھیج دی۔ انھوں نے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جو اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھے۔

    کمیٹی اراکین نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ ذاتی حیثیت میں حاضر ہو کر اس حوالے سے اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔

    مقررہ تاریخ پر خرگوش کمیٹی کے سامنے پیش ہوا اور اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں رکھ دیں اور کسی طرح یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک ریچھ ہے۔

    اب کمیٹی نے ریچھ کو ہدایت کی کہ پہلے تو وہ اپنی موجودہ ملازمت کے حوالے سے یہ ثابت کرے کہ وہ ایک خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ نے ضروری کاغذات اور دستاویز پیش کر کے خود کو خرگوش ثابت کیا۔

    کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال رہ کر اپنے اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کوئی اعتراض کیے بغیر کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور اپنی راہ لی۔

    مایوس اور پریشان ریچھ کے دوستوں نے اسے بہت برا بھلا کہا اور بزدلی کا طعنہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریچھ کو چیتوں کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا چاہیے تھا۔

    تب ریچھ نے انھیں غور سے دیکھا اور سر جھکا کر بولا: میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کرسکتا تھا، اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا؟

    دوستو، جیسے میں ایک خرگوش اور ایک خرگوش ریچھ کی حیثیت سے جنگل سرکار سے تنخواہ لے رہا ہے بالکل اسی طرح کمیٹی میں شامل چیتے درحقیقت گدھے ہیں اور ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ چیتے ہیں تمام ضروری کاغذات اور دستاویز بھی موجود ہیں۔

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • گانٹھ

    گانٹھ

    عَصبی ریشوں کے وسط میں کچھ اضافی گانٹھیں پڑ گئیں۔

    یا پھر پہلے سے پڑی گِرہیں ڈھیلی ہو گئی تھیں کہ اضمحلال اُس پر چڑھ دوڑا تھا۔ بدن ٹوٹنے اور دِل ڈوبنے کا مستقل احساس ایسا تھا کہ ٹلتا ہی نہ تھا۔

    کوئی بھی معالج جب خود ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے‘تو یہی مناسب خیال کرتا ہے کہ وہ سیکنڈ اوپینین لے لے۔ ڈاکٹر توصیف کو بھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، مگر وہ اسے ٹالتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ خود سے مسلسل الجھنے اور لڑنے بِھڑنے لگا اور اُن لمحوں کو کوسنے لگا تھا جب وہ اس ملک سے اپنے شعبے میں اسپیشیلائزیشن کے لیے گیا تھا۔

    اِنہی لمحات میں وہ لمحات بھی خلط ملط ہو گئے تھے، جب اُسے ایک انوسٹی گیشن سینٹر سے نکال کر ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا، اُس پر شبہ کیا گیا تھا، مگرکیوں؟؟ آخر کیوں؟؟؟….وہ جتنا سوچتا ‘اُتنا ہی اُلجھے جاتا۔
    ممکن ہے ایک ایشیائی ہونا اس کا سبب ہو۔ نہیں ‘شاید ایک پاکستانی ہونا۔ یا پھر ہو سکتا ہے مسلمان ہونا ہی شک کی بنیاد بن گیا ہو۔

    مگر؟….مگر؟ اور یہ ’مگر‘ ایسا تھا کہ اس کا سینہ جھنجھنانے لگا تھا۔ وہ اُٹھا اور آئینے میں اپنا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔ اُس کی صورت میں ایسے شک کے لیے کیا کوئی پرانی لکیر باقی رہ گئی تھی۔ پلک جھپکنے کے مختصر ترین وقفے میں طنز کا کوندا آئینے کی شفاف سطح سے پھسل کر معدوم ہو گیا۔

    اُس نے نگاہ سامنے جمائے رکھی۔ چہرے کی لکیروں ‘ابھاروں اور ڈھلوانوں پر تن جانے والے تناﺅ کا جالا پورے آئینے سے جھلک دینے لگا تھا۔ وہ گھبرا کر اُس تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا ‘جو اُس نے اِنٹر کا امتحان دے چُکنے کے بعد فراغت کے ایسے لمحات میں بنائی تھی جب مصوری کا جنوں اُس کے سَر میں سمایا ہوا تھا۔ یہ اُس کی اپنی تصویر تھی ‘جو ادھوری رِہ گئی تھی۔

    کچے پن کی چغلی کھانے والی اِس ادھوری تصویر میں کیا کشش ہو سکتی تھی کہ اسے ابھی تک سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ اُس نے غور سے دیکھا۔ شاید ‘بل کہ یقیناً کوئی خوبی بھی ایسی نہ تھی کہ اُس تصویر کو یوں سنبھال کر رکھا جاتا۔ اُسے یاد آیا ‘جب وہ یہ تصویر بنا رہا تھا تو اُس نے اَپنے باپ سے کہا تھا؛ کاش کبھی وہ دُنیا کی حسین ترین تصویر بنا پائے۔ اُس کے باپ نے اُس کی سمت محبت سے دیکھ کر کہا تھا:
    ”تم بنا رہے ہو نا‘ اِس لیے میرے نزدیک تو یہی دُنیا کی خوب صورت ترین تصویر ہے“

    وہ ہنس دیا تھا ‘تصویر دیکھ کر اور وہ جملہ سن کر۔

    یہ جو اپنے اپنائیت میں فیصلے کرتے ہیں ‘اُن کی منطق محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
    تصویر نامکمل رہ گئی کہ اُس کا دِل اُوب گیا تھا۔ تاہم اُس کے باپ کو اپنا کہا یاد رہا تھا۔ اس نے اِس ادھوری تصویر کو اس دیوار پر سجا دیا تھا۔ بہن نے اسے یوں رہنے دیا ہوگا کہ اُس کے مرحوم باپ نے یہاں اپنے ہاتھوں سے سجائی تھی۔

    یہ سوچ کر ذرا سا وہ مسکرایا اور وہاں سے ہٹنا چاہا کہ نظر آنکھوں پر ٹھہر گئی۔ واٹر کلر سے بنائی گئی اس تصویر میں اگرچہ دائیں آنکھ کے نیچے ہاتھ لرز جانے کے باعث براﺅن رنگ میں ڈوبا برش کچھ زیادہ ہی دَب کر بنانے والے کے اَناڑی ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ مگر مدہم آبی رنگوں میں تیرتی معصومیت نے آنکھوں میں عجب طلسم بھر دیا تھا۔ ایسا کہ نظر ہٹانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ تصویر ادھوری تھی۔ چہرے میں رنگ بھرتے بھرتے چھوڑ دیے گئے تھے۔ یہ اَدھورا پن اُس کے اندر اتر گیا۔ اُس کے اعصاب تن گئے اور وہ اُوندھے منھ بستر پر جا پڑا۔
    ”کیوں؟….آخر کیوں؟؟“

    ایک ہی تکرار سے اُس کا سینہ کناروں تک بھر گیا۔ اُس نے اَپنے جسم کو دو تین بار دائیں بائیں لڑھکا کر جھٹکے دیے۔ قدرے سانسوں کی آمدورفت میں سہولت محسوس ہوئی تو ایک بڑا سا ’ہونہہ‘ اُس کے ہونٹوں سے پھسل پڑا۔ یوں ‘جیسے اُس کے تیرتے ڈوبتے بدن کو کسی نے لمحہ بھر کے لیے تھام سا لیا ہو۔

    تھامنے والے ہاتھ گوگول کے تھے۔ گوگول کے نہیں ‘ اُس تصویر کے ‘جو گوگول کے ہاں پہلے مرحلے میں نامکمل رہ گئی تھی۔

    شیطانی آنکھوں والی اَدھوری تصویر۔ مگر یہ بھی وہ تصویر نہ تھی جس نے اُسے تھاما تھا کہ اس کا چہرہ تو معصومیت لیے ہوئے تھا۔ فرشتوں جیسا ملائم اور اُجلا۔

    یہ اِسی تصویر کا دوسرا مرحلہ تھا جب کہ وہ مکمل ہو گئی تھی۔
    تصور ایک جگہ ٹھہر گیا تو اُسے گوگول کے افسانے کا وہ پادری یاد آیا جس نے سب کا دھیان شیطانی تاثرات والی آنکھوں کی جانب موڑ دیا تھا۔ اُسے اُبکائی آنے لگی تو اُس نے اپنے دھیان سے اُس تصویر کو بھی کھرچ دیا ‘اور کالج کا وہ دور یاد کرنے لگا جب ترقی پسندی اُس کے خلیے خلیے سے خوش بُو بن کر ٹپکنے لگی تھی۔

    تب ایک نئی تصویر تھی جو بن رہی تھی۔
    ابھی یہ تصویر نامکمل تھی کہ اُس پر انسان دوستی اور روشن خیالی کے زاویوں سے کرنیں پڑنے لگیں۔ روشن خیالی کی للک میں سب کچھ روند کر آگے بڑھنے والوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جلد ہی مذہبی فرائض کی بجا آوری کو قیمتی وقت کے ناحق تلف کرنے کے مترادف سمجھنے لگا تھا۔ اُس کا خیال تھا؛ ان فرائض میں صرف ہونے والا وقت کسی بھی انسان کو تسکین پہنچا کر اَمر بنایا جایا سکتا تھا۔

    اس کے لیے مذہبی طرزِ احساس فقط رَجعت پسندی‘جہالت اور ذِہنی پس ماندگی کا شاخسانہ تھا۔ لہذا وہ مذہب اور اس کے متعلقات کو ایک لایعنی گورکھ دھندا یا پھر افیون قرار دیتا اور خود کو ہمیشہ اس سے دُور رکھا۔ اپنے شعبے سے کامل وابستگی نے اُسے عجب طرح کا دلی سکون عطا کیا تھا۔ اور وہ اس سے نہال تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ جس شہر میں نام ‘مَقام اور سکونِ قلب کا سرمایہ کما چکا تھا اور مسلسل کما رہا تھا اُسی کا مستقل باسی ہو گیا تھا۔ ایک پس ماندہ ملک کے بے وسیلہ ‘ غیر مہذب اور جاہل لوگوں کے بے ہنگم اور بے اصول معاشرے میں رہنے سے بدرجہا مناسب اُسے یہ لگا کہ وہ یہیں انسانیت کی خدمت میں جُتا رہے۔

    وہ اپنے آپ کو بھول بھال کر اِس خدمت میں مگن بھی رہا، مگر ایک روز یوں ہوا کہ وہ شہر دھماکوں سے گونج اُٹھا اور سب کچھ اُتھل پتھل ہو گیا۔

    جب وہ حادثے میں اعصابی جنگ ہارنے والوں کو زندگی کی طرف لا رہا تھا ‘اُسے سماجی خدمت جان کر‘کسی معاوضے اور صلے سے بے نیاز ہوکر‘ تو اُسے اس خلیج کی موجودگی کا احساس ہوگیا تھا جسے بہت سال پہلے پاٹنے کے لیے اس نے اپنے وجود سے وابستہ آخری نشانی ‘اپنے نام’ توصیف ‘کو بدل کر ’طاﺅژ‘ ہو جانا بہ خُوشی قبول کر لیا تھا۔

    اُنہی دِنوں ڈاکٹر طاﺅژ کی ملاقات کیتھرائن سے ہوئی تھی جو اپنے پہلے شوہر کے چھوڑ کر چلے جانے کے باعث شدید نفسیاتی دباﺅ سے گزر رہی تھی۔ اس نہایت روشن خیال اور سلجھی ہوئی خاتون نے ایک روز اُسے پروپوز کر دیا۔ وہ اپنے طور پر اس قدر مگن تھا کہ اس رشتے کو بھی اضافی سمجھتا رہا تھا۔ کچھ اچھی لڑکیاں اس کی زندگی میں آئی ضرور تھیں مگر اتنی دیر کے لیے ‘جتنی کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ضرورت ہو سکتی تھی۔ لہذا جب ضرورت پوری ہورہی تھی تو شادی کے پاکھنڈ کا کیا جواز ہو سکتا تھا۔

    مگر عجب یہ ہوا کہ کیتھرائن کی پروپوزل کو اس نے بلاجواز قبول کر لیا تھا۔
    کسی کو چاہنے لگنا اور کسی سے دور ہو جانا عجب طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ عین آغاز میں دلیلیں نہیں مانگتے‘ فیصلے مانگتے ہیں۔ فیصلہ ہو جائے تو سو طرح کی دلیلیں نہ جانے کہاں سے آ کر دَست بستہ سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔

    فیصلہ ہوا تو شادی بھی ہو گئی۔ پھر اُن کے ہاں اوپر تلے دو بیٹے ہوئے۔ دونوں ہو بہو اپنی مام جیسے تھے۔ راجر اور ڈیوڈ۔ دونوں کے نام کیتھی نے رَکھے۔ کیتھرائن کو وہ پہلے روز ہی سے کیتھی کہنے لگا تھا کہ اُس کی صورت ہالی ووڈ کی دِلوں میں بس جانے والی اداکارہ کیتھرائن ہیپبرن سے بہت ملتی تھی اور سب اُس خوب صورت فن کارہ کو کیتھی کہتے تھے۔

    وہ مکمل طور پر اُس سوسائٹی کا حصہ ہو کر مطمئن ہو گیا تھا۔ اس قدر مطمئن کہ حادثے کے بعد بھی ناموافق ردِعمل کے باوصف وہ اس فریضے کو اِنسانیت کی خدمت کا تقاضا سمجھ کر ادا کرتا رہا۔ حتّٰی کہ خفیہ والوں نے اُسے دھر لیا۔

    کئی روز تک اُس سے پوچھا پاچھی ہوتی رہی۔ پھر وقفے پڑنے لگے۔ طویل وقفے۔ اِتنے طویل کہ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اُسے فالتو کاٹھ کباڑ جان کر اس سیل میں پھینک دینے کے بعد وہ سب بھول گئے تھے۔ نہ صرف اُسے اس سیل میں پھینکنے والے بھول چکے تھے‘ کیتھی‘راجراور ڈیوڈ کو بھی وہ یاد نہ رہا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سب اچانک یوں آ گئے‘ جیسے بھولی ہوئی کوئی یاد آیا کرتی ہے۔

    پہلے اُسے یہ بتانے والے آئے کہ اگلے چار روز میں کسی بھی وقت اُسے اُس کے اپنے وطن کے لیے ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے لہجے کو قطعاً مہذب نہیں کیا تھا جیسا کہ امریکن اکثر کر لیا کرتے ہیں۔ اُس نے انگریزی کے اس مختصر مگر کھردرے جملے سے ’اَون کنٹری ‘کے الفاظ چن کر اُنہیں غرارہ کیے جانے سے ملتی جلتی آواز کے ساتھ دہرایا۔

    ایک تلخ سی لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی جس کے باعث اُس کے عصبی رِیشوں کی گانٹھوں کی تانت بڑھ گئی اور اسے پژمردگی رگیدنے لگی۔

    جب وہ پوری طرح نڈھال ہو چکا تو کیتھی‘راجراور ڈیوڈ آگئے۔ وہ آتے ہی اُسے ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اُسے یوں لگا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی تھی اور کَہہ نہیں پا رہی تھی۔ جب وہ کچھ کہے بغیر ایک فیصلہ کرکے چپ چاپ بیٹھ گئی تو سناٹا سارے میں گونجنے لگا۔ وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوا۔ بچے کبھی اُس کے قریب نہیں رہے تھے۔ اُس کا خیال تھا ‘ایسا اس کی مصروفیات کے سبب تھا۔ تاہم اب جووہ منھ موڑے کھڑے تھے تو یوں کہ صدیوں کا فاصلہ پوری شدّت سے محسوس ہونے لگا تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ خود نہ آئے تھے ‘اُنہیں لایا گیا تھا۔ اُنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اندر سے باہر چھلکتی اُکتاہٹ نہیں چھپائی تھی۔ اُنہیں دیکھتے ہی اُس نے افسوس کے ساتھ سوچا تھا؛ کاش کیتھی انہیں نہ لاتی۔

    اور جب ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تو وہ اسی دُکھ کی شدّت کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا؛ کاش کیتھی کبھی نہ آتی۔ نہ دیکھنے کی خواہش کے ساتھ وہ جب آخری بار اُسے دیکھ رہی تھی تو وہ کیتھی کے یوں چلے آنے کا مدعا سمجھ چکا تھا۔

    اُن کا فیملی لائر کچھ پیپرز اگلے روز شام تک بنا لایا۔ وہ چاہتا تھا کہ ڈِی پورٹ ہونے سے پہلے پہلے وہ اُن پر دَست خط کر دے۔ اُس نے ساری بات توجہ سے سنی۔ شاید وہ دست خط کر ہی دیتا کہ اس پر ذہنی دَباﺅ کا شدید دورہ پڑا۔ اس قدر شدید کہ وہ لائر پر برس پڑا۔ جب وہ چلا گیا تو اُسے خیال آیا کہ سارے پیپرز چاک کر کے اُس کے منھ پر دے مارتا تو اُس کے اَندر کا اُبلتا غصہ کچھ مدھم پڑ سکتا تھا۔ اس نے اگلی ملاقات پر ایسا ہی کرنے کے لیے سارے پیپرز سنبھال کر رَکھ لیے۔ لیکن اس کے بعد اسے ملنے کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ اسے ایئرپورٹ لے جایا گیا۔ جہاز میں سوار ہوتے ہوئے اس پر کھلا کہ ایک سو پچیس دوسرے پاکستانی بھی ڈی پورٹ کیے جارہے تھے۔

    دُنیا بھر کے میڈیا والے سب کی تصویریں اور ٹیلی رپورٹس بنارہے تھے۔ وہ سب مجرم ثابت نہیں ہوئے تھے، مگر اُنہیں امریکہ سے نکالا جا رہا تھا۔ یوں‘ کہ جیسے وہی مجرم تھے۔ ساری رپورٹس براہ راست چلائی گئیں۔ اخبارات کی زینت بنیں۔ ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز انہیں کئی روز تک وقفے وقفے سے چلاتے رہے کہ یہ ساری کارروائی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر مہم جوئی کا حصہ تھی۔

    وہ یہ سارا تماشا نہ دیکھ سکا کہ اُسے ائیر پورٹ ہی سے سر کار نے حفاظت میں لے لیا تھا۔ ایک بار پھر بے ہودہ سوالات کا ناقابل برداشت سلسلہ شروع ہوا تو ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔ یہاں والے اُن سوالات میں زیادہ دِل چسپی رکھتے تھے جو دورانِ تفتیش وہاں پوچھے جاتے رہے تھے۔ اُس نے اُنہیں صاف صاف بتا دیا کہ انہیں علی شامی نامی ایک ایسے عربی النسل شخص میں دِل چسپی تھی جو اُس کے وہاں قیام کے آغاز کے عرصے میں جیمس بلڈنگ کے اُس فلیٹ میں رہتا تھا جس کا دروازہ عین اس کے فلیٹ کے سامنے تھا۔

    علی شامی بعد ازاں سکونت بدل گیا تھا۔ اُس کا طرزِ عمل اُسے کبھی گوارا نہ لگا تھا کہ اُس کے اندر عجب طرح کی تنگ نظری ہلکورے لیتی رہتی تھی۔ پھر یہ کہ وہ اکثر اس کے نام کے توصیف سے طاﺅژ ہو جانے پر شدید طنز کیا کرتا تھا۔ بقول اُس کے وہ ہوپ لیس کیس تھا۔ جب کہ اسے علی شامی کا یوں طنز کیے چلے جانا بہت کَھلتا تھا۔ لہذا ابھی وہ کہیں اور شفٹ نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں ممکنہ حد تک دُور ہو چکے تھے۔

    بعد میں رابطے کی ضرورت تھی نہ کوئی صورت نکلی۔ جب وہ اُسے تیز روشنیوں کے سامنے بٹھا کر مسلسل جگائے رکھنے پر بھی اِس سے زیادہ کچھ نہ اُگلوا پائے تو انہوں نے سوالات روک دیے تھے، مگر تذلیل کا سلسلہ ایسا تھا کہ رُکتا ہی نہیں تھا۔ تاہم اُدھر جو ختم ہوگیا تھا تو یہ اِدھر بھی آخر کار انجام کو پہنچا۔

    جب یہ تکلیف دِہ سلسلہ تمام ہوا اور اسے جانے کی اجازت مل گئی تو وہ خلوص نیت سے چاہنے لگا تھا کہ کاش یہ سلسلہ یونہی دراز ہوئے چلا جاتا۔ ذلیل ہوتے رہنے کی عجب خواہش اب معمول کی زندگی میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ یہاں معمول کی زندگی تھی بھی کہاں؟ اس کے یتیم بھانجوں کا کہنا تھا کہ جب ہر طرف بھوک بے روز گاری اور جہالت ننگا ناچ رہی ہو تو وہاں جیو اور جینے دو کی تمنا سے دہشت اُگ ہی آیا کرتی ہے۔

    اَپنی بیوہ اکلوتی بہن کے ہاں پڑے پڑے اُسے ایک ماہ ہو گیا تو اس نے اَپنی بنائی ہوئی نامکمل تصویر کی آبی آنکھوں میں تیرتی معصومیت دیکھی جن پر گوگول کے افسانے کی تصویر کی شیطانی آنکھیں حاوی ہو گئیں تھیں۔ اس قدر حاوی کہ فرشتوں جیسا معصوم چہرہ کہیں تحلیل ہو چکا تھا۔ اُس نے ان دونوں تصویروں کا خیال جھٹک دیا تو ایک تیسری تصویر خود بخود اُس کے تصور میں اُبھرنے لگی۔ آسکر وائلڈ کے ڈورئن گرے کی وہ تصویر جو اس نے ایسے کمرے میں رَکھ دی تھی جو مقفل تھا۔ عجب تصویر تھی کہ ڈورئن کی ساری خباثتوں کو کشید کر کے خود مکروہ ہو رہی تھی، مگر ڈورئن کو ویسے ہی جواں اور خوب صورت رکھے ہوئے تھی جیسا کہ مصور ہال ورڈ نے تصویر بناتے ہوئے اُسے دیکھا تھا۔ اس تصویر کو سوچتے ہی ساری گرہیں کُھل گئیں۔

    اُس روز پہلی بار اُس نے اپنے بھانجوں کو غور سے دیکھا تھا جو ابھی ابھی نماز پڑھ کر پلٹے تھے۔ پھر وہ دِیر تک اُنہیں آنکھیں چوپٹ کیے خالی دِیدوں سے دیکھتا رہا۔ حتّٰی کہ اُس کی نظریں دُور خلا میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولنے لگیں۔ اُس کی بہن نے اُس کے چہرے پر کم ہوتے تناﺅ کو غنیمت جانا اور اُس کے سر کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے وہ بات کہہ دینا چاہی جو پہلے روز ہی وہ کہہ دینا چاہتی تھی، مگر مناسب وقت تک اُسے ٹالنے پر مجبور ہوتی رہی تھی۔ اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے اور رُک رُک کر اُس نے پوچھا:
    ”توصیف بھائی ‘ایک بات کہوں؟“
    بہن کے ملائم لہجے نے اُس کے دِل میں گداز بھر دیا تھا۔ اُس نے بہن کو دیکھا ‘محبت کی عجب پھوار تھی کہ اُس کا چہرہ کِھلے گلاب کی طرح مہکنے لگا تھا۔ کہا:
    ”کہو’’……….اور اُس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔

    ”بھائی، اَب بھابی اور بچوں کو بھی یہاں بلا ہی لیں۔

    یہ سنتے ہی جیسے اُس کے اندر سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ وہ ایک بار پھر شدید دورے کی زَد پر تھا۔ اور اُسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اُس کی ساری نسیں پھٹ جائیں گی۔ وہ اپنے آپ میں نہ رہا اور ایک گنوار کی طرح چیخ کر کہا:
    ”اُن ذلیلوں کو یہاں بلوا لوں؟ جارح قوم کی ذلیل کتیا کے ذلیل پِلوں کو؟“ پھر نہ جانے وہ کیا کیا ہذیان بکتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ وہ نڈھال ہو کر اوندھا گر گیا۔

    آنے والے روز وہ کچھ بتائے بغیرکہیں نکل گیا۔ اُس کے ہاتھ میں وہی پیپرز تھے جو اُسے لائر کے منھ پر دے مارنا تھے۔ یہ پہلا روز تھا کہ وہ اپنی خواہش سے باہر نکلا تھا۔ جب وہ واپس پلٹا توبہت ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔ اُس کے پاس سوچنے اور کرنے کو کچھ نہ رہا تو آرٹسٹ ہال ورڈ کی بنائی ہوئی وہ تصویر دھیان میں آ گئی جو بہ ظاہر خوبصورت نظر آنے والے کی ساری خباثتیں چُوس کر خود مکروہ ہو گئی تھی۔ اس تصویر کا خیال آتے ہی اُسے اِردگرد کا سارا منظر حسین دِکھنے لگا ‘ مہکتا ہوا اور رنگ برساتا ہوا۔ اگلے روز وہ عین اُس وقت اُٹھا جس وقت اُس کے بھانجے اُٹھا کرتے تھے۔

    بہن اَپنے بھائی کے اندر اِس تبدیلی کو دیکھ کر خُوش ہو رہی تھی، مگر جب اُنہیں واپسی میں دیر ہونے لگی تو اُسے ہول آنے لگے۔ اِس ہولا جولی میں وہ مسجد کے بھی کئی پھیرے لگا آئی۔ وہ تینوں وہاں نہیں تھے۔ جب وہ پلٹے تو اُس کا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔ مگر وہ اس سے بے نیاز اپنے بدنوں سے بے طرح پھوٹ بہنے والے مرغوب مشقت کے پسینے کو پونچھے جاتے تھے اور آپس میں مسلسل چہلیں کر رہے تھے۔

    یوں ہی اٹکھیلیاں کرتے کرتے وہ تینوں جب اس نامکمل تصویر تک پہنچے جس کی آنکھوں میں آبی معصومیت تیرتی تھی تو ڈاکٹر توصیف یہ دیکھ کر دَنگ رہ گیا تھا کہ وہ تو ایک مکمل تصویر تھی۔ بالکل ویسی ہی جس کے ساتھ آسکر کے کردار ڈورئن نے اپنی روح کا سودا کر لیا تھا۔ معاشرے کی ساری خباثتیں چوس لینے کا وصف رکھنے والی مکمل تصویر۔

    یہی وہ لمحہ تھا کہ اُس کے عصبی ریشوں کی ساری فالتو گانٹھیں کُھل گئیں اور جہا ں جہاں ان گرہوں کو ہونا چاہیے تھا سلیقے سے سج گئیں۔ ساری کسل مندی فاصلے پر ڈھیر پڑی تھی۔ اور وہ بھانجوں کے بازﺅوں پر مچلتی مچھلیوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا جو تیرتی گانٹھوں جیسی لگ رہی تھیں۔


    محمد حمید شاہد کی یہ کہانی "نائن الیون” کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور رویوں کی عکاس ہے

  • مادری زبان

    مادری زبان

    دروازے کے اِدھر اُدھر نظر ڈالی گھنٹی کا کوئی سوئچ نہیں تھا۔ لہٰذا ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کوئی آواز نہیں۔ پھر دوبارہ اور زور سے….. اور زور سے…..؟

    ’’کون ہے‘‘…..؟ چیختی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز اوپر سے آئی تھی۔

    میں نے گردن اٹھائی لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔

    ذرا نیچے تشریف لائیے، سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے بھی تقریباً چلّاتے ہوئے جواب دیا، لیکن میرا چلّانا بیکار ہی گیا۔

    ’’ارے کون ہے؟‘‘ پھر آواز آئی۔

    ’’جی میں….. دروازہ کھولیے ذرا… سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے ذرا اور اونچی آواز میں کہا۔ نیچے تو آئیے ‘‘

    ’’کاہے کے لیے‘‘؟

    مردم شماری کے لیے۔ زور سے بولنے کے سبب میرے گلے میں دھنسکا لگ گیا تھا، پھر بھی میں نے اپنی آنکھیں کھڑکی پر جمائے رکھیں۔

    اوپر کھڑکی سے باہر ایک خاتون نے گردن نکال کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ تو میں پھر بولی ’’برائے مہربانی نیچے تشریف لائیں گی یا میں ہی اوپر آجاؤں؟‘‘

    بغیر کوئی جواب دیے اس خاتون کا چہرہ کھڑکی سے ہٹ چکا تھا۔ کئی منٹ گزر جانے کے بعد بھی نہ کوئی جواب ملا اور نہ ہی دروازہ کھلا۔

    اپنا چہرہ اوپر کیے کیے اب میری گردن تھک چکی تھی۔ میں نے ہمت کر کے پھر دروازے پر دستک دی۔ اچانک کھٹ پٹ کی تیز آواز سنائی دی تو مجھے یقین ہوا کوئی آرہا ہے۔

    دروازے کے پٹ ایک ساتھ جھٹکے سے کھل گئے۔ ایک بچی نمودار ہوئی تقریباً سات آٹھ برس کی۔ اپنے پیروں سے کئی گنا بڑے چپل اس کے پیروں سے پیچھے نکل رہے تھے۔

    کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟

    ’’بیٹا کسی بڑے کو بھیجیے نا۔ بہت ساری معلومات لکھنا ہے۔‘‘

    ’’کوئی ہے نہیں‘‘ اس نے دو ٹوک جواب دیا۔

    ’’لیکن وہ جو ابھی کھڑکی سے بول رہی تھیں ان کو بھیجیے نا۔

    ’’کون ہیں وہ؟‘‘

    ’’امی۔‘‘

    ’’تو پھر انہیں بھیجیے بیٹا۔‘‘

    ’’وہ کام کررہی ہیں۔‘‘

    ’’تو کسی اور کو۔ کسی بڑی بہن کو، بھائی کو، ابا کو، یا پھر امی سے پوچھیے میں اوپر آجاؤں؟‘‘ ضروری کام ہے یہ بیٹا۔‘‘

    ’’جائیے پوچھ کر آئیے بیٹا پلیز، دیر ہورہی ہے۔‘‘

    وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ایک اور لڑکی زینہ طے کرتی ہوئی نیچے آئی۔ تقریباً پندرہ سولہ برس کی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’بیٹا مردم شماری کرنا ہے۔‘‘

    ’’جی کیا کرنا ہے؟‘‘

    ’’مردم شماری… سینسس… گھر کے لوگوں کے نام لکھنا ہیں۔ جَن گڑنا ہے جَن گڑنا۔‘‘

    ’’اچھا تو کرئیے۔‘‘

    ’’یہیں۔‘‘ میں نے اپنا سامان کا پلندہ سنبھالتے ہوئے اپنی بے چارگی اور پریشانی کا احساس دلانا چاہا۔

    چھوٹی لڑکی نے شاید اوپر جاکر میرے کام کی اطلاع کردی تھی۔

    ’’باجی امی بلا رہی ہیں۔‘‘ یہ وہی لڑکی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا، زینے کی اوپری سیڑھی سے جھانک کر بہن کو بلا رہی تھی۔

    موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے بیگ کندھے پر لٹکایا گُھٹنے پر رجسٹر ٹکا کر فارم پھیلا دیا اور فوراً ضروری معلومات بھرنا شروع کردیں۔

    ’’اپنے والد کا نام بتائیے بیٹا۔‘‘

    ’’امام الدین۔‘‘

    ’’عمر کتنی ہوگی؟‘‘

    وہ سوچ میں پڑگئی۔’’امی نیچے آؤ۔۔۔۔‘‘ اس نے چلاّتے ہوئے آواز لگائی۔ کئی منٹ گزر گئے نیچے کوئی نہیں آیا۔

    ’’کتنے بہن بھائی ہو؟ ‘‘میں نے اس کے باپ کی عمر کا حساب لگانے کی غرض سے دریافت کیا۔

    ’’گیارہ…..‘‘

    ’’بڑا کون ہے؟ بھائی یا بہن؟‘‘

    ’’بھائی‘‘

    ’’شادی؟‘‘

    ’’ہوگئی۔‘‘

    ’’یہیں رہتے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کتنے سال ہوئے شادی کو؟‘‘

    ’’چار پانچ سال۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’بچے کتنے ہیں بھائی کے؟‘‘

    ’’دو۔۔۔۔‘‘

    میں نے حساب لگایا کہ اگر بیس برس کی عمر میں بیٹے کی شادی ہوئی تو اس وقت بیٹا پچیس برس کا ہوا تب باپ کی عمر تقریباً پینتالیس کی تو ضرور ہوگی۔

    ’’بیٹا پینتالیس برس لکھ دوں؟‘‘

    ’’جی لکھ دیجیے۔ اچھا ابھی رک جائیے۔ امی کو بلاتی ہوں۔

    ’’تعلیم والد کی؟‘‘

    ’’جی۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے آپ کے والد کتنا پڑھے لکھے ہیں۔ آٹھویں، دسویں، بارہویں یا پھر کچھ نہیں؟‘‘

    ’’پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ ’’تھوڑا بہت بس گھریلو‘‘

    ’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    ’’ویلڈنگ۔‘‘

    ’’ملازم ہیں یا مالک؟‘‘

    ’’کیا ان کا اپنا کام ہے؟‘‘

    ’’ہاں اپنا کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’کاہے سے جاتے ہیں؟ سائیکل، موٹر سائیکل، کار یا بس؟‘‘

    ’’اسکوٹر ہے‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔

    ’’کارخانہ کہاں ہے ان کا؟‘‘

    ’’گاندھی نگر۔‘‘

    یعنی تقریباً پچیس کلومیٹر میں نے اندازہ لگایا۔ ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی اور پھر گیارہ بچوں، بہو اور ان کے بچوں سمیت تیرہ افراد کا نام اور تفصیلات جس میں دادی بھی شامل ہے، درج کرتے کرتے تقریباً آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا اور میں دروازے پر کھڑے کھڑے کبھی ایک گھٹنے پر فارم رکھتی کبھی دوسرے پر۔ کمر درد سے دہری ہوئی جارہی تھی۔ تبھی ایک خاتون غصہ سے بپھرتی ہوئی زینہ کی اوپری سیڑھی سے چلّائی۔

    ’’اری او کمبخت اوپر آ۔ کیا کررہی ہے۔‘‘

    ’’امی آبھی آئی۔ نام لکھوا رہی ہوں۔

    ’’کاہے کا نام؟ کس کا نام؟ میں نے منع کیا تھا نا؟ تیرے باپ گھر میں نہیں ہیں، واپس بھیج دے۔ ہمیں کیا پتہ کیا لکھوانا ہے۔‘‘

    ’’جی میں کوئی بھی ایسی بات نہیں لکھ رہی ہوں جس سے آپ پریشان ہوں۔ بچی سمجھدار ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ اس نے سب کچھ لکھوا دیا ہے۔ بس دو چار کالم رہ گئے ہیں۔ وہ صرف آپ ہی لکھوا سکتی ہیں۔ ذرا نیچے آجائیے۔ میں نے اپنا کام روک کر ان صاحبہ کی طرف گردن اٹھا کر بڑی نرمی سے درخواست کی۔

    ’’زبان میں کیا لکھوایا ہے تُو نے؟‘‘ خاتون نے میری بات کا جواب دیے بغیر سیڑھیاں اترتے ہوئے بیٹی سے پوچھا۔

    ’’جی اردو لکھ دیا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ذرا مسکرا کر جواب دیا۔

    ’’کیوں اردو کیوں لکھا؟ عربی لکھو‘‘ وہ بگڑ گئی۔

    ’’عربی؟ لیکن کیوں؟‘‘

    ’’زبان کا مطلب مادری زبان۔ آپ کی مادری زبان اردو ہے اردو لکھوائیے۔‘‘

    ’’اردو کیوں ہوتی؟ عربی لکھو۔‘‘ خاتون کے تیور چڑھ گئے۔

    ’’لیکن آپ بول تو اردو رہی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں بول رہے ہیں۔ مرضی ہماری۔ لیکن تم عربی لکھو۔‘‘

    ’’آپ عرب سے آئی ہیں کیا؟‘‘

    ’’عرب سے کیوں آتے؟‘‘ وہ زینے کی سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’دیکھیے اس میں درست لکھنا ہے۔‘‘ میں نے پھر مادری زبان کا مطلب بہت محبت سے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’تو پھر عربی لکھو کہہ تو دیا۔ تم کیسی پڑھی لکھی ہو۔‘‘

    آپ عربی بول کر دکھائیے مجھے، میں واقعی عربی لکھ دوں گی۔

    ’’کیوں بولیں…یں…یں۔؟‘‘ اس نے بولیں پر زیادہ زور دیا۔ ’’تمہیں نہیں لکھنا تو پھر جاؤ۔‘‘ ہمارا وقت خراب مت کرو۔

    میں نے دیکھا چھوٹے بڑے چھے سات بچے اب تک میرے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ جن میں سے کئی گلی کے تھے یا پھر شاید اسی گھرانے کے۔ ان میں سے کسی ایک لڑکی نے الحمد کی سورت پڑھنا شروع کی تو وہ فوراً چہکی۔

    ’’بولی کہ نہیں بولی۔ اب تو بولی نہ عربی؟‘‘

    ’’اچھا جناب ٹھیک ہے آپ ناراض نہ ہوں میں عربی ہی لکھ دوں گی۔‘‘ میں نے اسی میں عافیت جانی۔

    لیکن اب بساط پلٹ چکی تھی۔ وہ بری طرح بگڑ گئی۔

    ’’ہمارے پاس فالتو وقت ہے کیا؟ تمہارے نوکر ہیں کیا؟ ہمیں کیا فائدہ؟‘‘

    اس میں آپ کا بہت فائدہ ہے۔ آپ میری بات کا یقین کیجیے۔ آپ ہندوستان میں رہتی ہیں تو اس کا اندراج بھی ضروری ہے۔ آپ سمجھدار خاتون ہیں۔‘‘ میں نے انہیں سمجھایا۔

    ’’چالیس برس سے رہتے ہیں۔ کون نکالے گا ہمیں۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ خدا نہ کرے۔ میں ایسا تھوڑے کہہ رہی ہوں۔ یہ تو ملک ہے آپ کا۔ میں نے پھر سمجھانا چاہا۔

    ’’بس دو چار خانے ہی رہ گئے ہیں ابھی ہوئے۔ یہ بتائیے آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟‘‘

    ’’پہلے اردو کی جگہ عربی لکھو۔‘‘

    ’’جی لکھ رہی ہوں۔ یہ دیکھیے۔‘‘

    ’’امی اردو ٹھیک ہے۔‘‘ بیٹی بولی۔

    ’’چپ کمینی— تجھے کیا پتہ۔‘‘

    بیٹی شرمندہ سی ہوکر خاموش ہوگئی۔

    آپ نے بتایا نہیں آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟ ذرا راشن کارڈ دکھا دیجیے اپنا اور آئی کارڈ بھی۔ پہچان پتر تصویر والا۔‘‘

    ’’کیوں؟ اس کا کیا کروگی؟

    چیک کرنا ہے۔ اگر ہے تو دکھا دیجیے نہیں ہے تو بھی بتا دیجیے۔‘‘

    ’’نہیں ہے تو کیا کرو گی؟‘‘

    ’’تو میں اس فارم میں لکھ دوں گی۔ پھر آپ کا دوسرا بن جائے گا۔‘‘

    تو لکھ دو نہیں ہے۔ پتہ نہیں کہاں رکھا ہے، ہم کہیں رکھ کر بھول گئے۔

    ’’راشن کارڈ تو دکھا دیجیے۔‘‘

    ’’ان کے باپ کے پاس ہے۔‘‘

    برائے مہربانی تلاش کرلیں۔ سرکاری کام ہے یہ۔ میں انتظار کرتی ہوں۔

    ’’ارے تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو۔ نہ جانے کیا کیا لکھ لیا اور کیا کیا لکھو گی؟ اب بس بھی کرو۔ بہت ہو گیا۔‘‘

    ’’آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔ یہ آپ کا ہی کام ہے۔ آپ میری مدد کیجیے۔ آپ ہی کا فائدہ ہے۔‘‘

    ’’کیا فائدہ ہے ہمارا؟ نوکری دلوا دو گی ہمارے بچوں کو؟ بولو… گھر دلوا دو گی؟ زمین دلوا دو گی؟ فائدہ فائدہ…..‘‘ اس نے تقریباً منہ چڑاتے ہوئے کہا۔

    دیکھیے میں نے اتنا وقت لگایا ہے۔ سترہ لوگوں کے فارم بھرے ہیں۔ ان کے تمام کالم پورے کیے ہیں۔ بس ذرا سی دیر اور لگے گی۔ برائے مہربانی یہ بتائیے آپ کے کل گیارہ ہی بچے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی…..‘‘ میں نے اس کی تیوری چڑھی دیکھ کر سوال ادھورا چھوڑ دیا۔’’

    اچھا یہ بتائیے سب بچے ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک صحت مند ہیں نا؟ دیکھیے اس میں ایک خانہ ایسا ہے جس میں پوچھا ہے خدا نہ کرے کوئی بچہ پاگل یا اپاہج وغیرہ تو نہیں ہے؟‘‘ یہ سرکار بھی نہ معلوم کیا کیا پوچھتی ہے۔ میں نے اس کے غصہ سے بچنے کی غرض سے سرکار کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔

    ’’پاگل ہوگی تم! اپاہج ہوگی تم! ہمارے آدمی گنتی ہو۔ تمہارا کھاتے ہیں کیا۔ ہائے ڈالو گی۔ اتنی دیر سے کیا سترہ سترہ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ رستہ لو اپنا… اے لو… ہمارے بچوں کو اپاہج پاگل کیا کیا بنا ڈالا— پڑھی لکھ ہو تم؟ بہت ہو گیا، بس جاؤ۔ ہمیں اب نہ کچھ بتانا نہ لکھوانا جو مرضی آئے کرلو‘‘

    ’’آپ غلط سمجھ رہی ہیں محترمہ۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘

    ’’سمجھ گئے ہم تمہارا مطلب۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’چل ری چل اوپر….. یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ منع کیا تھا میں نے۔۔۔۔‘‘ اس نے بیٹی کو پھٹکارا۔

    ’’سنیے تو— میری بات تو سنیے….. اس نے دھڑام سے میرے منہ پر دروازے کے دونوں پٹ بند کردیے۔ گھٹنے سے رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا۔ اور کاغذات اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ کچھ اُڑ کر نالی میں چلے گئے۔ مارے غصے کے میرا سر بھنّانے لگا۔ دل چاہا کہ سارے کاغذات پھاڑ کر….. لیکن میں ایسا کچھ نہیں کرسکی کیوں کہ معاملہ مادری زبان کا تھا!

    اس افسانے کی خالق نگار عظیم ہیں، مادری زبانوں کے عالمی دن پر یہ انتخاب آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

  • طاقت کا امتحان

    طاقت کا امتحان

    کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔ مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کون سی چیز ایسی قابلِ دید تھی جس کی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟

    ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہوگیا۔
    مثلاً….!
    مثلاً کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔
    یہ تو آج کل بچے بھی کر سکتے ہیں۔
    چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔
    میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔
    مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمہیں بھی ماننا پڑے گا۔
    بھلے آدمی یہ کون سا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔
    کوئی چار من کے قریب ہوگا، کیوں؟
    اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔
    بالکل غلط ۔
    وہ کیوں؟
    غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہوسکتی۔ طاقت کے لیے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور… کیسی باتیں کر رہے ہو۔
    غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں، مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بل کہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیں، کہو تو اسے ثابت کر دوں؟

    یہ گفت گو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پُر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

    میں اسے ہرگز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کم بخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقت ور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔

    چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے ان کی طاقت۔ سنائو آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟

    تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

    سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفت گو سے تنگ آکر برابر اپنی ٹک ٹک کیے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں ان کے منہ سے آزاد ہوکر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔

    دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سال ہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے ناامید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتش دان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفت گو سن کر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔ کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

    تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔
    باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمہارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہوگا۔

    پھر وہی بحث۔
    تم بتائو تو سہی۔
    پانچ چھے من کے قریب ہوگا۔
    یہ وزن تو تمہاری نظر میں کافی ہے نا؟
    یعنی تمہارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمہارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔ گدھے والی گاڑی ضرور ہوگی اس کے ساتھ ۔

    یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔ مگر تمہیں کیا پتا ہوسکتا ہے۔ کہو تو، تمہارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھائوں۔
    اگر تمہارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔
    تمہاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔

    دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاک دان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیے۔ کمرے کی تمام اشیا کسی گہری فکر میں غرق ہوگئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

    لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشت ناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔

    بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہ گزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر ان کا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پائوں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

    کچھ دکان دار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکان داروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کردیں۔

    ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔ بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو ان کی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

    دور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

    نان بائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اس کے پیٹ میں نوک دار خنجروں کا کام کیا۔

    مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اس کے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز ”مزدور“ کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

    دو تین دن سے روٹی بہ مشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔ کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے بھیک؟ نہیں خدا کارساز ہے۔

    اس نے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

    دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چناں چہ انہوں نے فوراً آواز دی۔

    مزدور…. یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

    جی حضور؟
    دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟
    مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کی وہ چمک جو مزدور کا لفظ سن کر پیدا ہوئی تھی، غائب ہوگئی۔

    وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لیے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

    مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔

    جو حضور فرمائیں؟
    یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لوگے؟ ان دو لڑکوں میں سے اس نے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔
    بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟ دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔
    کہاں تک جانا ہوگا حضور؟
    بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔
    وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دے دیجیے۔
    تین آنے؟
    جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔
    دو آنے مناسب ہے بھئی۔
    دو آنے آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لیے سامانِ خورد و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہوگیا۔ اس نے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اس کی کمر پر تھی۔

    گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سن کر طاقت عود کر آئی۔

    گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لیے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

    آئیے۔ مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

    دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیے، وہ بہت مسرور تھے۔

    چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھائو، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔
    مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اس کے کاندھوں پر سوار ہے۔

    کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمہارا کل والا سینڈو؟
    کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔
    تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔
    مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقت ور نہیں ہیں۔
    ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انہیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔
    واقعی درست ہے۔
    لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اس کی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

    وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اس کا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔
    مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بھوک کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔

    دھماکے کی آواز سن کر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔

    چلو آئو چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔
    میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا لالچ!

    یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔
    سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلی فون کا چونگا ہاتھ میں لیے غالباً گندم کا بھائو طے کرنے والا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلی فون کا سلسلہ گفت گو منقطع کردیا۔

    کم بخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔ بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے!
    تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عمل جراحی کے لیے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔

    دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔ ان آنسوئوں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

    آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہیں معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔

    مصنف: سعادت حسن منٹو

  • میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    عبداللطیف ابو شامل
    باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ باپوُ پہلے ایک وکیل کے پاس مُنشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔

    کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔
    ایک دن میں نے پوچھا، باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ۔ ……!
    مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا۔ میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔
    کیا جو کھائے پیے اور جیے وہ انسان ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔

    دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔ دوسرے کا دکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سکھی رہیں۔ دکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے۔ سب نہال رہیں۔

    انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے، وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
    کیوں….؟ میں نے پوچھا۔
    اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔

    وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔
    کون سی بات باپُو؟
    وہی دانے اور چونچ والی۔
    ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے۔
    ”جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔“

    دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔

    اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو….؟
    یہ تجھے کیا ہوگیا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔

    انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، وہ سب کو دیتا ہے۔
    لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا۔……
    پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا؟
    رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
    ”ہاں ہاں وہی۔“
    باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ”سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔“
    دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اپنے لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
    اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا…؟
    نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے۔
    کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے۔
    تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ ”اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔“
    مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو مجھے بھی سمجھائیے۔

  • چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    عارف حسین

    کہانی ہمیں متوجہ کر لیتی ہے؛ داستانیں، قصے پُر لطف ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب انسان نے لکھنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ وہ مظاہرِ قدرت اور خود سے طاقت ور یا نفع و نقصان پہنچانے والے جان دار و بے جان اجسام اور قدرتی عوامل سے متاثر ہوتا اور چوں کہ وہ اس کا علم اور شعور نہیں رکھتا تھا تو اس کے بارے میں عجیب و غریب کہاںیاں اور قصے گھڑ لیتا۔ اسے دوسروں کے آگے طرح طرح سے بیان کرتا اور نہایت ڈرامائی انداز اختیار کرتا۔ پھر انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور ارتقائی منازل طے کیں تو اس کا وہی تجسس، تحیّر، وہی بیانیہ ادب اور اس کی مختلف اصناف میں ڈھل گیا۔ وہ زیادہ جاننے اور بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ یوں کہانی، ناول، ڈراما لکھے گئے اور یہ ایک فن ٹھہرا۔

    قارئین آج ہم اخبار اور سوشل میڈیا پر مختلف مصنفین کی مختصر کہانیاں (شارٹ اسٹوریز) پڑھتے ہیں۔ تحریر کے علاوہ ہمارے ہاں بصری اور صوتی ذرایع سے بھی مختصر ماجرا بیان کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خصوصاً دو دہائیوں کے دوران شعور اور آگاہی کا سفر طے کرنے والی نسل کے لیے سو لفظوں کی تحریر سے لے کر دو، تین منٹ تک کی ویڈیو کہانی کوئی نئی بات نہیں، مگر ستّر اور اسّی کے زمانے میں کتب و جرائد کے مطالعے کے رسیا ‘‘افسانچہ’’ پڑھتے تھے جو عموماً طنز و مزاح، شوخی و ظرافت پر مبنی ہوتا تھا۔ تاہم اس کا خالق کسی واقعے، ذاتی تجربے اور مشاہدے کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں بھی بیان کرتا تھا۔ ان ہی افسانچوں نے کئی باقاعدہ لکھاری بھی تیار کیے۔ آج کی مختصر کہانیاں تحریری شکل میں ہوں یا ویڈیو کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہوں، ان میں واقعاتی، حالاتِ حاضرہ اور سماج کے بدرنگ اور تکلیف دہ پہلوئوں کا خاص طور پر احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہ سیاست کے ایوانوں سے لے کر سماج کے ہر شعبے تک سنجیدہ پیغام دینے اور شعور اجاگر کرنے کی کوشش تو ہیں اور مقبول بھی۔ مگر چار دہائیوں قبل افسانچہ اخبارات اور دوسرے جرائد میں خاص طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ یہ دل چسپ اور پُرلطف تحریر کسی بڑے اور نام ور ادیب کی نہیں بلکہ ایک عام قاری کی ہوتی تھی۔ مدیر ذرا سی قطع برید اور کمی بیشی سے اسے قابلِ اشاعت بنا لیتے تھے۔ اسّی کی دہائی کے وہ گدگداتے افسانچے الگ ہی لطف رکھتے ہیں۔

    یہ بھی مطالعہ کریں:  محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    شارٹ اسٹوری یا مختصر کہانی اردو ادب میں نئی نہیں۔ افسانچہ شاید اسی کی ایک شکل ہے جسے عام لوگوں نے برتا اور یہ ان میں مقبول ہوئی۔ دوسری طرف ہم سعادت حسن منٹو کے کمالِ فنِ مختصر نویسی اور اس دور کے دیگر کہانی کاروں کی بات کریں تو نہایت پُرمغز اور فنی مہارت سے آراستہ کہانیاں بھی سنجیدہ اور باوقار قارئین کی توجہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ آج بھی اردو ادب میں ان کی اہمیت اور افادیت برقرار ہے۔ منٹو کے دوسرے افسانوں کے علاوہ سنجیدہ قارئین میں ان کی مختصر کہانیاں بھی مقبول ہوئیں اور یہ سب جان دار اور نہایت پُر اثر تھیں۔ اردو میں منٹو کے بعد مختصر کہانیوں کا مزید تجربہ کیا گیا۔ سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں دراصل منٹو کے سنجیدہ اور بامقصد افسانچے منظرعام پر آئے۔ ان میں سے دو یہاں آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہیں۔

    ‘‘خبردار’’

    بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے، کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔ مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’ ‘‘

    ‘‘دعوتِ عمل’’

    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔ صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔

    ‘‘یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔’’

    اس کے علاوہ جوگندرپال، ابراہیم جلیس اور دیگر متعدد لکھاریوں نے بھی خوب مختصر نویسی کی، مگر جب عام قارئین نے اپنے جذبات، خیالات کا چند سطری اظہار چاہا تو کچھ الگ ہی ڈھب اپنایا۔ عوامی سطح پر یہ اظہار ‘‘افسانچہ’’ کی شکل میں اتنا مقبول ہوا کہ اکثر اخبارات اور جرائد اس سے کنارہ نہ کر سکے۔ یہ بات کہنا کچھ مشکل نہیں کہ افسانچہ قطعی عوامی ثابت ہوا۔ وقت بدلا تو سماج کے مسائل اور عوام کا مزاج بھی بدل گیا۔ آج مختصر نویسی یا شارٹ اسٹوری ایک اور ہی انداز سے ہمارے سامنے ہے۔ یہ زیادہ تر سنجیدہ اور نہایت اہم موضوعات کا احاطہ کرتی کہانیاں ہیں جو واقعاتی، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ تاثراتی ہو سکتی ہیں۔ آج تحریری اور تصویری شکل میں کہانی اپنے قارئین تک تو پہنچ رہی ہے، مگر افسانچہ، یعنی وہ تحریری اظہار جس کا آغاز سنجیدہ اور پُر تجسس جب کہ انجام نہایت لطیف اور گدگداتا ہوتا تھا، اب بہت کم نظر آتا ہے۔